مکہ مکرمہ عظمتوں کا شہر، شعائر اللہ کا شہر، بیت اللہ کا شہر جہاں آپ ﷺ کا بچپن گزرا، جہاں اسمٰعیل علیہ السلام کو شیر خواری میں ان کی ماں کے ساتھ فقط اللہ تعالیٰ کے بھروسے پر چھوڑا گیا، جہاں ہاجرہ بی بی بیٹے کو پیاسا دیکھ کر کسی قافلےکی تلاش میں صفا اور مروہ کے درمیان دوڑیں اور یہ دوڑ اللہ تعالیٰ کو اتنی پیاری ہوئی کہ اس کو رہتی دنیا تک اپنےمحبوبوں کے لیے حج اور عمرہ میں واجب کردیا۔ اس شہر میں داخلہ کے وقت دل اللہ تعالیٰ کی محبت سے لبریز ہونا چاہيے۔
محبوب کے دربار میں ہے حاضری نصیب
شہر ِ عظیم میں ہے حاضری مری عجیب
یا رب مجھے توفیق ادب کی بھی عطا کر
میں دور نہ ہوجاؤں، کرلے اور بھی قریب
جی ہاں! یہ عجیب شہر ہے۔ یہاں ہر نیکی ایک لاکھ کی اور گناہ بھی ایک لاکھ کا ہے۔نادان اسکی ایک لاکھ کی نیکی پر تو نازاں ہوتے ہیں اور سمجھ دار اس میں گناہ کا ایک لاکھ گنا ہونے سے لرزاں ترساں رہتے ہیں۔حضرت عبداللہ بن عمر یہی تو کرتے تھے کہ نماز حدود حرم میں پڑھتے تھےلیکن رہائش حدود حرم سے باہر رکھتے تھے۔ اسی کو سمجھداری کہتے ہیں۔