جدہ جو کہ سعودی عرب کا بین الاقوامی ائر پورٹ ہے۔ اس میں چونکہ کافی کچھ ہوتا ہے اس لئے کافی لمبا انتظار کرنا پڑتا ہے۔وہاں ایمیگریشن،سامان کی چیکنگ، مکتب کے بسوں کا حصول وغیرہ کے تمام کاموں پر وقت صرف ہوتا ہے۔ اجنبی ملک، اجنبی زبان اور اس پر رش۔ ان سب صبر آزما حالات سے حجاج کو جن میں سے اکثر کا یہ پہلا تجربہ ہوتا ہے ، کو گزرنا پڑتا ہے۔کسی صوفی کیلئے یہ برداشت کرنا تو اتنا مشکل نہیں ہوتا کیونکہ:
ذکر ذاکر کا انتظار آسان کرتا ہے
اسے پتا ہے کہ عقبیٰ میرا سنورتا ہے
مجاہدے کا تصور بھی نفس کی اصلا ح خوب
تو انتظار سے جو صوفی ہے نہیں ڈرتا ہے
لیکن باقی حجاج بھی عشق کے سفر پر ہیں وہ ان سے پیچھے کیوں رہیں وہ تو بزبان حال یوں گویا ہیں:
یار کو مطلوب جب انتظار ہوؤے
یہ انتظار گلے کاہار ہوؤے
ہم تو نکلے ہیں یار کو پانے
چاہے کوئی کوچہء یار ہوؤے
بے خانماں خانہ بدوش ہوں بس
مگر نصیب اس کا پیار ہووے
دو چادروں میں کفن پوش ہونے
دل ہمارا بھی پھر تیار ہووے
اس سے منسوب گھر کے گرداگرد
پھریں، دل یوں پروانہ وار ہووے
نفس کو مغلوب کرنا اب ہے شبیؔر
ورنہ یہ شتر بے مہار ہوؤے