گھر کے ساری ذمہ داریوں سے شرعی طریقے سے فارغ ہوکر دل سے پھر سب کو اپنے سمیت اللہ تعالیٰ کے سپرد کردیں۔ اس پر بھروسہ رکھیں اوردو رکعت صلوٰۃ حاجت اور مسنون دعا پڑھ کر اس مبارک سفر پر روانہ ہوں۔
اب تیرے بھروسے پہ میں ہوتا ہوں روانہ
یا رب تو بنا دینا مجھے اپنا دیوانہ
پیوست کرے میرے تو رگ رگ میں محبت
کردے نصیب اپنی معرفت کا خزانہ
میں کیا ہوں گناہ گار سیار کار و غلط کار
رستہ مجھے نصیب ہوا ایسا جانانہ
اب دل سے میں دنیا سے کروں ہجر کی تدبیر
اب اس کی محبت کو میرے دل میں نہ لانا
اب شوق سے میں اللہ کو اپنے دل میں سماؤں
ہو جاؤں خوش نصیب اگر یوں ہو سمانا
شبیؔر تو عاجز ہے، مگر تو تو ہے قادر
قدرت سے اب رسول کی سنت پہ چلانا
ہو سکے تو ان اشعار کو پڑھ کر اپنے گھر سے چلیں۔ اپ کی حج کی جو بھی ترتیب ہے وہ تو آپ کو بتادی گئی ہوگی اور ظاہر ہے کہ آپ کو ایسا ہی کرنا چاہيے لیکن دل تو ہر جگہ آپ کے ساتھ ہوگا اس کو ہر وقت اللہ تعالیٰ ہی کی طرف متوجہ رکھیں۔ ایک پر کیف دعا کے ساتھ کہ اے اللہ تعالیٰ میں چل تو پڑا ہوں تجھے پانے کے لیے لیکن منزل پر تو تو ہی پہنچائے گا۔ پس ہمیں اپنی ظاہری اور حقیقی منزل دونوں پر اپنے
حبیب پاکﷺ کے طفیل پہنچا دے۔پس آپ اگر حاجی کیمپ جارہے ہیں تو وہاں بھی حج کے مسائل سیکھنے کے ساتھ دل کی فہمائش بھی جاری رکھیں۔
اے دل اسی رستے پہ یوں جایا نہیں کرتے
محبوب کے رستے میں گھبرایا نہیں کرتے
کتنی ہوں تکالیف ہیں دشنام محبت
ماتھے پہ اس میں بل کبھی آیا نہیں کرتے
جی ہاں یہ رستہ یوں ہی ہے۔قدم قدم پر چیکنگ ہورہی ہے اور قدم قدم پر نوازا جارہا ہے۔ہوش بھی قائم رکھنا ہے اور جوش بھی۔
در کفے جام شریعت در کفے سندان عشق
ہر ہوسناکے نداند جام و سنداں باختن
ہر حاجی کو یہ سمجھنا ہے کہ یہ میرے محبوب کا مہمان ہے۔ اگر اس کی کوئی خدمت نہیں کرسکتا تو کم از کم ا س کے لیے کسی پریشانی کا باعث تو نہ بنوں۔پس جس طرح مریدین اپنے شیخ کی اولاد اور شاگرد اپنے استاد کی اولاد کی غلطیوں پہ دل برا نہیں کرتے تو ہم اللہ کے ان مہمانوں پہ دل کیوں برا کریں۔سارے کام حوصلے اور ہمت سے کرتے رہیں۔ انتظامیہ کو محبوب کا دربان سمجھتے ہوئے۔ ان کی درشتی اور سختی کو محبوب کا امتحان سمجھا جائے۔
مرے محبوب کو حق ہےکہ آزمالے مجھے
میں اس پہ مر مٹا جو ہوں اٹھا بٹھا لے مجھے
اس کا دربان بھی محبوب کا دربان ہے جب
ٹھیک آداب محبت ذرا سکھا لے مجھے
ہاں میں کمزور ہوں درخواست کروں گا اس سے
مجھ کو کمزور سمجھ کریوں ہی اپنا لے مجھے
میں ہوں جب شوق سے مجبور مری کیا اوقات
خود کرم کرکے رستہ آپ ہی دکھالے مجھے
مرے دشمن ہمہ وقت ساتھ مرے پھرتے ہیں
ان کی دھوکوں کے منجدھار سے بچالے مجھے
دل مرا اس پہ نظر اس پہ سوچ اس کی ہے
پکڑ کے میری انگلی پیار سے چلالے مجھے
رستہ منزل ہی ہے منزل کا کیا پتہ ہے شبیؔر
رحمت کی بانہوں میںاپنی مگر چھپا لے مجھے
ائر پورٹ پر ممکن ہو تو بہتر ہے کہ نہا کر، نہیں تو وضو کرکے دو رکعت سنت احرام پڑھ کر ایک چادر کو تہہ بند کے طور پر باندھ لیں اور دوسری کو ساتھ رکھ لیں۔جہاز میں قمیص اتار کر دوسری چادر کو اوڑھا جاسکتا ہے۔خدا نخواستہ جہاز اگر لیٹ ہوا تو احرام کی پابندیاں لازم ہو چکی ہوں گی جس کی وجہ سے دم کا خطرہ رہے گا اور دم لازم آجانے کی صورت میں شیطان کے پریشان کرنے کا خطرہ ہوگا۔
شیطاں سے اپنے آپ کو بچانا ہے ضروری
اور نفس کو طریقے سے چلانا ہے ضروری
دینے پہ وہ مائل ہوں جب آسانی تو شبیؔر
نعمت سمجھ کے اس کو اپنانا ہے ضروری
اس کا یہ فائدہ بھی ہوگا کہ جہاز پر چڑھتے وقت بعض نادان ائر ہوسٹسز اور سٹیوارڈز ہاتھوں میں خوشبودار تولئے تھما دیتے ہیں اور حاجی ناواقفیت میں ان کو اپنے چہرے پہ مل لیتے ہیں جس سے ان پر دم آ سکتا ہے پس پہلے احرام باندھنا تو مستحب ہو گا لیکن دم سے اپنے آپ کو بچانا واجب ہے اور واجب کو مستحب پر فوقیت حاصل ہوتی ہے۔
دور میں بیٹھ کے دیدار سے محظوظ رہوں
قرب میں بے ادبی ہو نے سے محفوظ رہوں
مستحب نیکی سے گناہ سے ہے بچنا افضل
اپنے محبوب کا میں واقف رموز رہوں
جہاز میں احرام کی نیت اس وقت کی جائے جب اس کو روانہ ہوئے تقریباً دو گھنٹے گزرچکے ہوں۔ اس وقت احرام کی دونوں چادریں اوڑھ کر اگر دو رکعت سنت احرام پہلے نہ پڑھی ہو تووضو ہونے کی صورت میں سیٹ پر بیٹھے بیٹھےہی سنت احرام پڑھ لی جائے کیونکہ یہ نفل نماز ہے اور نفل نماز سیٹ پر بیٹھ کر بھی پڑھی جاسکتی ہے۔
جس طرح کام پسند ہو اس کو ویسا کر لوں
اس کی بنیاد پہ سوچوں کہ اب میں کیا کرلوں
جب سواری پہ نفل بیٹھ کے پڑھ چکےہیں محبوب
میں نفل سیٹ پہ کیوں نہ اس طرح ادا کرلوں
سنت احرام پڑھنے کے بعد عمرہ کی، صرف حج کی یا حج اور عمرہ دونوں کی یعنی جیسے بھی آپکا ارادہ ہے نیت کر ليجئے۔ ا سکے بعد کم از کم ایک دفعہ تلبیہ پڑھیں۔
کس کام کا ارادہ میں کر نے چلا ہوں اب
یہ فضل ہے اس کا ہی میں قابل ہوںاس کا کب
لبیک ہے زباں پر دل میں ہے اس کی یاد
بندہ ہوں گنہگارمیں حاضر ہوں میرے رب
نیت مری قبول ہو اورآسان بھی فرما
آپ میری معافی کا بناليجئے سبب
یہ نام بھی عظیم ہے اور کام بھی عظیم
میں اس میں بنا لوں نہ کہیں خود کو بے ادب
دل شوق سے پر اور زبان پر ہو ترا نام
مانگے شبیؔر اور بڑھا دے مری طلب
اس کے بعد لبیک کے ذریعے محبوب کے دربار میں زیادہ سے زیادہ حاضری لگاتے رہیں۔کیا کوچہء یار میں آواز لگانے سے کوئی تھک سکتا ہے۔ہاں ہم تو چاہتے ہیں کہ ہم اب قبول ہوجائیں اور اس کا ایک ہی دروازہ محبوب نے بتایا ہے۔ اور وہ اس کے محبوب کا طریقہ ہے اس لیے ہر کام اس کے محبوب کے طریقے پر ہی کرنا پڑے گا۔سنی سنائی نہیں بلکہ محبوب کی بتائی چلے گی اور وہ کیا ہے۔
چار وقفوں کے ساتھ تلبیہ کہنا
لبیک اللّٰھم لبیک ایک وقفہ
لبیک لا شریک لک لبیک دوسرا وقفہ
ان الحمد و النعمت لک و الملک تیسرا وقفہ
لا شریک لک چوتھا وقفہ
اس ترتیب کو تین مرتبہ دہرا ئیں۔
اس کے بعد ایک دفعہ درود شریف پڑھیں اور اس کے بعد کوئی بھی دعا مانگیں لیکن اگر درج ذیل دعا یاد ہو تو یہ مسنون دعا ہے
اللّٰھم انی اسئلک رضاک و الجنۃ و نعوذ بک من غضبک و النار
حاجی صاحبان جو کورس کی صورت میں تلبیہ پڑھتے ہیں وہ مسنون نہیں ہے۔ تلبیہ مسنون طریقہ پر انفرادی طور پر پڑھنا ہے۔ہاں تعلیم کے لیے کچھ دیر اکھٹے پڑھا جا سکتا ہے۔