دو ترتیبیں یہ ہیں۔ ایک رحمانی اور دوسری شیطانی۔ رحمانی ترتیب میں عقل جذبات کو قابو کرتی ہے اور عقل پر شریعت حاکم ہوتی ہے جبکہ شیطانی ترتیب میں جذبات عقل کو متاثر کرتے ہیں اور آفاقی تعلیمات یعنی شریعت میں تاویلیں کر کے نفس کی غلط خواہشوں کا دفاع کیا جاتا ہے جیسا کہ غیر مسلم مادر پدر آذاد معاشرہ کرتا ہے۔ اس میں نفسانی خواہشات عقل پر اتنی غالب ہوجاتی ہیں کہ عقل کا کام ہی صرف ان ہی خواہشات کو پورا کرنا رہ جاتا ہے۔حدیث شریف میں ایسے لوگوں کو بے وقوف کہا گیا ہے۔جیسا کہ حدیث شریف میں ارشاد ہے۔
الْكَيِّسُ مَنْ دَانَ نَفْسَهُ وَعَمِلَ لِمَا بَعْدَ الْمَوْتِ وَالْعَاجِزُ مَنْ أَتْبَعَ نَفْسَهُ هَوَاهَا وَتَمَنَّی عَلَی اللهِ عز وجل
جس کا مفہوم یہ ہے کہ عقلمند وہ ہے جس نے اپنے نفس کو قابو کیا اور آخرت کے لیے کام کیا اور بیوقوف وہ ہے جس نے اپنے نفس کو اپنی خواہشات پورا کرنے میں لگا دیا اور پھر بھی اللہ تعالیٰ سے بغیر توبہ کئے مغفرت کی امید کرتا رہا۔پس وہ عقل جو جذبات سے مغلوب ہوکر شریعت کی خلاف ورزی کا سبب بنے فی الاصل بے وقوفی ہے۔لہٰذا عقل کی صورت میں اس بے وقوفی کی اصلاح بہت ضروری ہے۔شرعی فرائض کی جو حکمتیں ہوتی ہیں ان میں نماز کی روح عبدیت ہے، روزہ کی قوت بہیمیہ کی مخالفت ہے تاکہ تقویٰ حاصل ہوسکے۔زکوٰۃ کی حکمت مال کی محبت کو کم کرنا ہے۔ اس طرح حج کی روح اس منفی عقل کا توڑ ہے اور عشق الٰہی کا حصول ہے۔ شاعر نے نفسانی عقل اور ایمانی عقل کا کیا خوب تجزیہ کیا ہے.
جو عقل نفس سے اثر لےعقل نفسانی ہے
جو ہو ایمان سے منورعقل ایمانی ہے
عقل نفسانی کی محدود نظر کیا سمجھے
عقل ایمانی پہ ہوتی اس کو حیرانی ہے
عقل ایمانی کا دل سے ہے تعلق اس لئے
چاہیے اس کو ہمیشہ قلب نورانی ہے
نفس کے جو بھی تقاضے ہوں بے مہار ان کو
دبائیں ، ٹھیک ہوں تو اس میں ہی آسانی ہے
اس طرح نفس کا پھر عقل پہ غلبہ نہ رہے
نہ رہے اس پہ، نفس کی جو حکمرانی ہے
نفس مطمئن، قلب سلیم ہو، اور فہم رسا
نصیب میں ان کی پھر زمین کی سلطانی ہے
عقبیٰ محفوظ ہو راضی ہو رب اور جنت میں
شبیؔر ملے گی انہیں رب کی جو مہمانی ہے
مندرجہ بالا تمہید میں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنے لیے اور باقی تمام چیزوں کو انسان کیلئے پیدا کیا ہے۔ اور انسان میں چونکہ دل جسم کا بادشاہ ہے۔ اس لیے جب اس بادشاہ کو حقیقی بادشاہ کا خادم بنایا جائے گا تو سارا جسم حقیقی بادشاہ کا تابع ہوجائے گا یعنی شریعت پر حقیقی طور پرعمل پیرا ہوجائے گا - بصورت دیگر سارا جسم فاسد ہوجائے گا اور اس سے جسم کے سارے اعضاء شریعت کے خلاف چل پڑیں گے جیسا کہ حدیث شریف میں ارشاد ہے۔
أَلَا وَإِنَّ فِي الْجَسَدِ مُضْغَةً إِذَا صَلَحَتْ صَلَحَ الْجَسَدُ كُلُّهُ وَإِذَا فَسَدَتْ فَسَدَ الْجَسَدُ كُلُّهُ أَلَا وَهِيَ الْقَلْبُ رواہ البخاری
اس کا مفہوم یہ ہے کہ آگاہ ہوجاؤ بیشک اس جسم میں گوشت کا ایک لوتھڑا ہے اگرو ہ ٹھیک ہوگاتو سارا جسم ٹھیک ہوگا اور اگر یہ خراب ہوگیا تو سارا جسم خراب ہوگا۔ آگاہ ہوجاؤ یہ دل ہے۔
قرآن پاک میں ایسے خوش قسمت حضرات کے تذکرے موجود ہیں جن کے قلوب میں اللہ تعالیٰ کی محبت موجزن تھی اس لیے جب مختلف مواقع پر ان کو آزمایا گیا تو انہوں نے اپنے نفس کی خواہش کے خلاف اللہ تعالیٰ کے حکم پر لبیک کہا اور وہ سرخرو ہوگئے اور ابدی کامیابی حاصل کرلی۔ ایسے ہی ان میں سے بعض اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ بندوں کی اللہ تعالیٰ کی محبت میں دی ہوئی قربانیوں کو اللہ تعالیٰ نے نہ صرف یہ کہ قبول فرمایا بلکہ رہتی دنیا تک ان کو اپنے بندوں کے لیے ایک نمونہ بنادیا اس طرح کہ ان کے کیے ہوئے اعمال کو حج کے موقع پر کروایا جاتا ہے تاکہ سب کو اس کا پتہ چل جائے کہ اللہ تعالیٰ کے محبوبوں نے اللہ تعالیٰ کی محبت میں کس طرح اپنے تن من کو قربان کیا اور اللہ تعالیٰ نے ان کی ان قربانیوں کو کیسے قبول فرمایا۔ ادم علیہ السلام کی عرفات میں حوا بی بی کے ساتھ ملاقات،ہاجرہ بی بی کا اپنے بیٹے کی محبت میں پانی کے لیے دوڑنا، منیٰ میں اسمٰعیل علیہ السلام کو ذبح کرنے کے لیے لے جانا،شیطان کے وسوسے کے جواب میں اس کو کنکریاں مارنا، یہ سب چیزیں اللہ تعالیٰ کو اتنی پسند آئیں کہ اب ہر حاجی کے لیے اسی طرح کرنا واجب ٹھہرگیا۔ ایک بات یاد رکھنی چاہيے کہ جب کوئی اللہ کا ہوجاتا ہے تو پھر اس کی محبت اللہ کی محبت ہوتی ہے مثلاً ہاجرہ بی بی چونکہ اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کی وجہ سے قبول ہوچکی تھیں تو اب وہ دوڑ تو رہی تھیں اپنے بیٹے کی محبت میں لیکن اس کو اللہ تعالیٰ نے اپنی محبت کے طور پر لیا۔
حج میں ایسے ہی محبوبوں کے اللہ تعالیٰ کی محبت میں کیے ہوئے کارنامے زندہ کئےجاتے ہیں۔تاکہ ان مثالوں کو دیکھ کر حج کرنے والے اپنےد لوں کا رخ درست کرسکیں۔پس حب الٰہی میں یہ والہانہ پن، دیوانہ پن اور فدا ئیت حج کی روح ہے۔جس کسی کے حج میں یہ روح نہ ہو اس کا حج زندہ حج نہیں ہوتا۔دوسری طرف اگر حج میں یہ روح کارفرما نہ ہو تو پھر حج کا ہر عمل انتہائی مشکل ہوجاتا ہے لیکن اگر اس میں یہ روح کارفرما ہو تو حج کا ہر عمل بے انتہا لذیذ، پر کیف اور آسان ہوجاتاہے۔محبوب کے در کی طرف چلنا مشکل ہے یا آسان کسی عاشق سے پوچھ کر دیکھیں۔حج کے اعمال سیکھتے وقت اگر اس روح کا بھی خیال رکھا جائے تو صحیح حج ان شاء اللہ نصیب ہو سکتا ہے۔
حج نہیں ہے مگر عشق کی منزلیں
بس خدا کو جو محبوب ہیں حرکتیں
اس طرح کرنا حب الٰہی کے ساتھ
اس طرح کرتے کرتے ہم عاشق بنیں
وہ عقل کیا جو اس کی مخالف بنے
وہ عقل ہم بھی خود سے علیحدہ رکھیں
بات اصل ہے یہی کرنا ہم کو ہے وہ
جس سے خوش ہم سے محبوب ہمارےرہیں
کرنا کیا ہے ؟ یہ معلوم کیسے ہو پھر
وہ طریقہ بتایا ہے کس نے ہمیں
اس کے محبوب نے جو سکھایا ہے تو
اس طریقے پہ بالکل ہی ہم بھی چلیں
یہ طریقہ ہے سیدھا جنت کا شبیؔر
نہ رکیں اور اس پہ ہمیشہ چلیں