دیباچہ

اَلْحَمْدُ ﷲِِ ِرَبِّ الْعٰلَمِينِِِِ۔ الصَّلوٰةُ وَ السَّلاَم ُ عَليٰ خَاتَم َالنَّبِيينَ ۝

اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوذُ بِاﷲِ ِمِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ ۝

بِسْمِ اﷲ ِالرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ ۝

وَالَّذِين َ آمَنُواْ أَشَدُّ حُبًّا لِلهِ ۝

ایمان والوں کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ سب سے زیادہ محبت ہوتی ہے اور اگر نہیں ہے تو ہونی چاہیے۔پس ہر وہ ذریعہ جو اللہ تعالیٰ کی محبت کا باعث بنے اسے استعمال کرناضروری ہوگا۔حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ نے دین پر عمل پیرا نہ ہو سکنے کی دو قسم کی وجوہات بتائی ہیں۔ ایک وہ جو طبیعت کی وجہ سے ہوتی ہیں مثلاً شہوات کی محبت، نماز میں کسل، زکوٰۃ کا نہ دینا وغیرہ۔دوسری وجہ عقل پر ضرورت سے زیادہ انحصار ہونا ہے۔ پہلی کی تدارک کے لئے نماز، روزہ اور زکوۃ فرض کئے گئے اور دوسری کے لئے حج۔حج کے اعمال پر اگر نظر دوڑا ئی جائے تو ان سے پتہ چلتا ہے کہ اس میں وہ اعمال کرائے جاتے ہیں جن میں یا توبے مہارعقل پر انحصار کا توڑ ہے یا اللہ تعالیٰ کے ان محبوبوں کے منتخب اعمال ہوتے ہیں جنہوں نے اللہ تعالیٰ کی محبت میں عقل کو حائل نہیں ہونے دیا یعنی دوسرے لفظوں میں عقل کے فیصلہ کن کردار کی نفی کی گئی ہے۔ اس سے یہ مطلب ہر گز نہیں لیا جاسکتا کہ شریعت عقل کے استعمال کی حوصلہ شکنی کرتی ہے بلکہ شریعت تو شریعت کے لئے عقل کے استعمال کو بہت مستحسن سمجھتی ہے البتہ اللہ تعالیٰ کی محبت سے عاری لوگ جب شریعت کے کھلے احکامات کی مزاحمت کرتے ہیں تو ان کی اس حرکت کی اصلاح ضروری ہوجاتی ہے اسے ہی عقل پر غیر ضروری انحصار کہتے ہیں اور اسی کے تدارک کے لئے حج مشروع کیا گیاہے۔

اللہ تعالیٰ کی محبت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے محبوبوں سے بھی محبت کرنے کا حکم ہے۔ جیسا کہ آپ ﷺ نے خود ارشاد فرمایا کہ “ تم میں سے کسی کا ایمان اس وقت تک کامل نہیں ہوسکتا جب تک مجھے اپنی اولاد سے، اپنے والدین سے بلکہ تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ سمجھے” اور حضرت عمرؓ کو تو فرمایا “ جب تک تم اپنی جان سے بھی زیادہ مجھے محبوب نہیں سمجھو گے اس وقت تک تمہارا ایمان کامل نہیں ہوسکتا ”۔ پس ہمیں ایسے طریقوں کی بھی ضرورت پڑتی ہے جن کے ذریعے ہمیں اللہ تعالیٰ کے محبو بوں کی محبت نصیب ہوجائے۔ ان طریقوں میں نعت اور منقبت کو ایک نمایاں مقام حاصل ہے۔ اس کتاب میں اگر ایک طرف حج کے سفر نامے اور حمد باری تعالیٰ کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی محبت کو دل میں پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے تو دوسری طرف اس میں مدینہ منورہ کے قیام کے حالات اور نعت شریف کے ذریعے آپ ﷺ کی محبت کی دلوں میں آبیاری کی کوشش کی گئی ہے۔جہاں کہیں نفس کی اصلاح کا کوئی پہلو سامنے آتا ہے اس کو بھی نمایاں کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ یعنی نفس کی اصلاح جو کہ حب الٰہی کاہی ایک سفر ہے۔ اس کو خاص طور پر اس میں شامل کیا گیا ہے۔پس یہ کتاب انشاء اللہ بجا طور پر ایک شاہراہ ہے جس پر چل کرمطلوب محبت کا راستہ طے کیا جاسکتا ہے۔ اسی لئے اس کا نام توکلاً علی اللہ شاہراہ محبت رکھا گیاہے۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کو اسم با مسمٰی بنادے۔ امین۔

اس میں چونکہ مثنوی کے طرز پر سفر نامہ لکھا گیا ہے لہٰذا درمیان میں غزل یا نظم کی صورت میں حمدیہ اور نعتیہ کلام بھی موجود ہے۔ اس کو ایک دوسرے سے ممتاز کرنے کے لئے دو مختلف طریقے استعمال کئے گئے ہیں۔مثنوی کو صفحات کے دائیں بائیں لکھا گیا ہے اور غزلوں اور نظموں کو صفحات کے درمیان میں۔پس ہر دو کا فرق واضح ہوگیا۔پہلے ارادہ تھا کہ ہرایک کے لئے ایک مختلف رنگ استعمال کیا جائے لیکن اس پر خرچ کچھ زیادہ ہی تھا جس سے اس کے شائقین کی جیب پر بوجھ پڑنے کے پیش نظر فی الوقت یہ فیصلہ بدل دیا گیا۔ اللہ تعالیٰ ہماری اس کاوش کو قبول فرمائے اور جس مقصد کے لئے یہ سب کچھ کیا گیا ہے اس مقصد کو بدرجہ اتم پورا فرمائے آمین ثم آمین۔

اس کی ابتدا میں حج کا "عاشقانہ طریقہ" کےعنوان سے عشاق کے حج کرنے کا طریقہ دیا جارہا ہے۔

امسال حج پر جانے سے جذبات کو مزید انگیخت ہوئی۔یوں کلام میں مزید اضافہ ہوا جس کو اس کتاب کے آخر میں یاجہاں مناسب ہوا، شامل کیا جارہا ہے تاکہ یہ کلام جن کی امانت ہے وہاں تک پہنچ جائے۔ اللہ تعالیٰ قبول فرمائے۔ امین۔ثم مین۔

سید شبیر احمد کاکاخیل