نہ مکے سے جانے کو جی چاہتا ہے
مدینے کو جانے کو بھی چاہتا ہے
یہاں کعبہء محترم ہی کے گرد
میں چلتا رہوں دل یہی چاہتا ہے
یہ زمزم کا پانی نظارہء کعبہ
انہیں چھوڑ دوں دل نہیں چاہتا ہے
یہ میزاب رحمت کرے ہے اشارہ
چل آگے اگر روشنی چاہتا ہے
میں کیا! میری خواہش! ہےکیا اے شبیؔر
جو چاہے خدا دل وہی چاہتا ہے
بھرے ہم نے زمزم کے کین اپنے سارے
کہ تھے منتظر اس کے پیارے ہمارے
طواف وداع کے لئے بھی تھا جانا
کہ پھر کب ملے ایسا منظر سہانا
تھا دل،کہ حرم میں ہی گزرے یہ رات
سفر صبح کرنا بھی تھا یہ تھی بات
تو سوئے حرم نصف رات ہم چلے
وقت یہ تھا بہتر طواف کے لئے
تو ہم نے طواف وداع کرلیا
یہ واجب بھی حج کا ادا کرلیا
تو ہم نے تہجد وہیں پھر پڑھی
وداعی غزل ہم نے اس دم لکھی
تھیں آنکھیں بھی نم انگلیوں میں قلم
کلام وہ یہاں پیش کرتے ہیں ہم