یہ سائے زمیں پر تو دیکھو چلے
حرم کے کبوتر فضاء میں اڑے
یہ کن کا تھا مولد یہاں کون آئے
مگر اس زمیں سے وہ کیسے گئے
بچھونا تھا کس کا یہ تپتی سی ریت
ظلم کس نے کس کے یہاں پر سہے
کبوتری نے انڈا کہاں پر دیا
وہ کمزور مکڑی بھی جالا بنے
وہ کندھے پہ کس نے اٹھایا ہوا
وہ دشمن بھی پیچھے ہیں آئے ہوئے
وہ کس شان سے آئے مکے میں پھر
عدو تھے کھڑے منہ چھپائے ہوئے
وہی منتظر اپنے قسمت کے ہیں
کہ غم ان کے دل پر ہیں چھائے ہوئے
معافی کے اعلان سن کر وہ حیراں
شرم سےتھے گردن جھکائے ہوئے
یہ قربانیاں ایسی آساں نہیں
کہ ہم نے فقط ان کے قصّے سنے
ذرا دیکھو شبیؔر وہ میزابِ رحمت
کہ ہے کس طرف یہ اشارہ کیے
رسول خدا نے تو بت توڑے تھے
شعائر حرم کے وہ سب چھوڑے تھے
یہاں تک کہ کعبہ رکھا جوں کا توں
کہ شیطان کا کچھ بھی چلے نہ فسوں
یہاں جو بھی کعبے کو پیر کرتے ہیں
تو وہ دل کے تقویٰ کو ڈھیر کرتے ہیں
یہاں جو بھی قرآن زمین پر رکھے
ہدایت وہ قرآن سے کیا پاسکے!
یہاں جو موبائل میں میوزک رکھے
وہ کعبے سے کیسے اور کیا فیض لے؟
موبائل کا نقصان سمجھنا ہو گر
تو اگلی غزل پر ذرا غور کر
جو حب موبائل ہو اس زور سے
نمازوں میں میوزک بجے شور سے
پڑے بل نہ ماتھے پہ اس سے بھی تو
مسلمان پھر ہم ہوں کس طور سے
طواف بھی نہ محفوظ اس سے رہے
پڑا ہم کو واسطہ ہے کس دور سے
خشوع کا یہ دشمن پڑا جیب میں
تو سوچو ذرا اس پہ کچھ غور سے
کیا اس کو دل پہ جو شبیؔر سوار
نتائج ملیں گے ہمیں اور سے
نجس جوتے لاتے ہیں جو لوگ یاں
ہے دل کی خرابی کا عبرت نشان
یہ کعبے کی عظمت نہیں جانتے
جو جانتے ہیں ان کی نہیں مانتے
جو چند لوگ تعظیم کو شرک کہتے ہیں
طریق صحابہ سے دور رہتے ہیں
طریق صحابہ طریق معتدل
سمجھ سکتا ہے سب کا یہ ذہن و دل
تشدد طریق خوارج رہا
طریق معتدل سے یہ خارج رہا
جو ہیں اہل سنت کے چاروں امام
مقلد کرے ساروں کا احترام
جو آپس میں ان کے ہیں کچھ اختلاف
اصولی ہیں، دل اپنا رکھتے ہیں صاف
طریق اپنا کرتے مسلط نہیں
کسی کو بھی کہتے یہ غلط نہیں
جو ہیں تنگ نظر ان کا دل بھی ہے تنگ
وہ کرتے ہی رہتے ہیں دوسروں سے جنگ
یہاں پر جوبعض عورتیں آتی ہیں
وہ شوق دل میں لے کے حرم جاتی ہیں
مگر اپنا چہرہ چھپاتی نہیں
وہ مردوں سے خود کو بچاتی نہیں
جہاں مردوں کا رہتا ہو اژدہام
بھلا عورتوں کا وہاں ہو کیا کام
اور اس پر طرہ ہو وہ کام مستحب
خراب اپنا پردہ کرے ہے عجب
ہاں مجبور ہوں تو ہو پھر کوئی بات
بچائے گناہ سے ہر اک اپنی ذات
کہا حضرت عائشہ سے یہ جو
نہ کیوں حجر اسود پہ تم آتی ہو
کہا اس گناہ سے جدا ہی رہوں
ثواب اس کا دور ہی سے پاتی رہوں
جب ان کی نہ کرتے ہیں نیت امام
حرم کی جماعت سے پھر کیا ہے کام
بعض کام ہوتے ہیں یوں دیکھا دیکھی
حقیقت نہیں ان کی معلوم ہوتی
ثواب ان کی گھر کی نماز کا زیادہ
حرم کی نماز کا ہے پھر کیوں ارادہ
ہاں حج گر ہو فرض ہے یہ ان کا جہاد
طواف کرلیں گر رش ہو کم زندہ باد
یا مطلوب ہو ان کو کعبہ کی دید
رہے اک جگہ، نہ پھریں وہ مزید
خبر ہم کو اک دن ملی دوستو
کہ جانا مدینے کو ہے بھائیو
خبر یہ خوشی کی ملی ہم کو جب
تو حالت ہماری ہوئی یوں عجب
نہ مکے سے جانے کو جی چاہتا تھا
مدینے کو جانے کو بھی چاہتا تھا
نظم یوں ہوئی اک غزل اس پہ بھی
بیاں اس میں حالت ہماری ہوئی