جو ہمیں یہاں پہ بلایا ہے یہ تو رحمتوں کی نوید ہے
مگر اپنے نفس سے میں ڈرتا ہوں اس کا ظلم، ظلم ِشدیدہے
یاں کی عظمتوں کا میں کیا کہوں میں تو بندہ اک ہوں حقیر سا
کرے سارے گناہ وہ معاف یاں اس پہ فضل اس کا مزید ہے
رخ دل بجانب ایں مکاں ایں طواف کعبہ طواف او
اسے پیش اپنا بھی دل کرو کہ قبولیت کی امید ہے
یاں قدم قدم پہ ہیں منزلیں تو بھی مانگ لے جو ہے مانگنا
کہ وہ ذات، ذات کریم ہے فعال لما یرید ہے
مجھے مانگنا اس کی معیت ہے مجھے کھینچ لے اپنی طرف وہ یوں
کہ نہ بن سکوں کسی غیر کا مری منتہا اس کی دید ہے
بن تو اس کے حبیب کا اگر تجھے بننا اس کا عزیز ہے
کہ شبیؔر اس سے بنے گا تو، یہی قول،قول ِسدید ہے
ہم اک دن وہاں جب حرم جا رہے تھے
کبوتر اڑے جہاں ہم جا رہے تھے
زمین پر پڑے ان کے سائے عجیب
ہوئے چند اشعار اس سے نصیب
یہاں پر وہ اشعار رقم کرتے ہیں
بیان اس میں چند چیزیں ہم کرتے ہیں