مدینہ منورہ سے تقریباً 35 کلومیٹر دور ایک وادی، وادی بیضا ء کے نام سے ہے اس کو آجکل لوگوں نے وادی جن مشہور کردیا ہے۔ہوا یوں کہ اس جگہ مشہور ہوگیا کہ چڑھائی پر گاڑی بغیر انجن کے سٹارٹ ہوئے 100کلو میٹر کی رفتار سے چلتی ہے۔گاڑی والوں نے اس کو خوب استعمال کرنا شروع کیا اور دیکھا جاتا ہے کہ مدینہ منورہ سے گاڑیاں ایک ویران روڈ پر جارہی ہوتی ہیں۔بات عجیب تو یقیناً ہے اور اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے لیکن حدیث شریف یہ بتاتی ہے کہ تحقیق کے بغیر محض سنی سنائی بات کو دوسروں کو بتانا جھوٹ ہے اس لئے دل میں خواہش تھی کہ اس کی تحقیق کی جائے اس لئے جنید صاحب جو ہمارے ساتھی ہیں اور مدینہ منورہ میں ملازمت کرتے ہیں سے کہا کہ وہ گاڑی لے آئيں تاکہ وہاں خود جاکر اس کی تحقیق کریں۔میں اپنے دو ساتھیوں ڈاکٹر مدثر جو کہ PIMS سے ENTمیں سپیشلائزیشن کر رہے ہیں اور جناب زین العابدین جو کہ PTCLمیں GMہیں کے ہمراہ جنید صاحب کی گاڑی میں وادی بیضاء روانہ ہوئے۔ اپنے ساتھ ہم نے ایک پانی کا گلاس،ایک فٹ پیمانہ اور قطب نما لیا تھا اور مطلوبہ جگہ پہنچ گئے۔وہاں چھوٹی سی پہاڑی ہے مدینہ منورہ جو سڑک وہاں سے جاتی ہے وہاں پہلے تیز اترائی ہے پھر اس کے بعد چڑھائی سی نظر آتی ہے۔ اس کے بعد اترائی ہے۔جو چڑھائی سی نظر آتی ہے یہ تقریباً 30میٹر لمبی سڑک ہے۔ اس پر گاڑی کو انجن سٹارٹ کئے بغیر نیوٹرل میں چھوڑ دیا تو گاڑی آہستہ سرکنے لگی۔بات عجیب لگی لیکن ابھی تجربہ کرنا تھا۔تجربہ میں گلاس کو آدھا پانی سے بھر لیا۔سڑک کے دونوں طرف گلاس میں پانی کی گہرائی نوٹ کی۔مدینہ منورہ کی طرف گہرائی 0.2سنٹی میٹر زیادہ نکلی۔پس پتا چلا کہ مدینہ منورہ کی طرف چڑھائی نہیں بلکہ اترائی ہے لیکن چڑھائی نظر آرہی ہے۔گلاس کا قطر 5.4سنٹی میٹر تھا۔حساب کیا تو پتا چلا کہ مدینہ منورہ کی طرف تقریباً سوا دو ڈگری کا اترائی کا سلوپ ہے۔تقریباً دو سو میٹر مدینہ منورہ کی طرف چلنے کے بعد پھر سلوپ اسی طریقے سے معلوم کیا تو یہ تقریبا سوا چھ درجے اترائی بجانب مدینہ منورہ معلوم ہوا۔ اب تمام نظام کا جائزہ لیا کہ تقریبا 30میٹر لمبی سڑک پر سوا دو ڈگری کے اترائی پر گاڑی آہستہ آہستہ سرکتی ہے اور جب اس حد کو عبور کرلیتی ہے تو اس کے بعد اترائی کا سلوپ سوا چھ درجے ہوجاتا ہے جو کافی تیز ہے تو گاڑی کی رفتار بڑھ جاتی ہے۔چونکہ یہ تیز سلوپ کئی کلومیٹر تک پایا جاتا ہے اس لئے گاڑی کی رفتار نیوٹرل میں 100کلومیٹر سے تجاوز کرجاتی ہے۔ اس میں جو گاڑی زیادہ بھاری ہو اس کا اس حد کو عبور کرنا زیادہ آسان ہوتا ہے کیونکہ اس کا وزن زیادہ ہونے کی وجہ سے زیادہ کشش ثقل ہوتی ہے جس کی وجہ سے وہ ایک دفعہ چل پڑےتو پھر اس کا رکنا مشکل ہوتا ہے۔
مغالطے کا نقصان؟
تکنیکی بنیادوں پر تو بات واضح ہوگئی لیکن اس کا جواب دینا ابھی باقی کہ لوگوں کو یہ مغالطہ کیوں لگا کہ اچھے بھلے سمجھدار لوگ جن میں بعض مفتی ہیں اترائی کو چڑھائی سمجھنے لگے۔ اس کو سمجھنے سے پہلے ذرا سامنے کی شکل کو بغور دیکھیں۔
{"startIndex":2497,"endIndex":2498,"inlineObjectElement":{"inlineObjectId":"kix.zhlz29ilim3s","textStyle":{"fontSize":{"magnitude":18,"unit":"PT"},"weightedFontFamily":{"fontFamily":"Calibri","weight":400}}}}
اس میں جو خطوط ہیں ان کو بغور دیکھیں۔ یہ آپکو گو کہ ٹیڑھے نظر آتے ہیں لیکن آپ غور کریں گے تو ان کا سیدھا ہونا آپ ثابت کرسکتے ہیں۔ اس کو Optical illusion یعنی نظر کا دھوکہ کہتے ہیں۔ جن وجوہات سے نظر کو دھوکہ لگ سکتا ہے ان میں حقیقی افق کا نظر نہ آنا۔ماحول کی بے قاعدگی اور نظر کا فوری تبدیلی کو نظر انداز کرنے کی عادت۔یہ تینوں وجوہات اس مقام پر پائی گئیں۔پہاڑی کی وجہ سے اصل افق منقطع ہوگیا۔دو تیز اترائیوں کے درمیان کم اترائی ماحول کی بے قاعدگی ہے اور نظر کی عادت تو ہر جگہ ہوتی ہے پس وہاں بھی دھوکہ لگ گیا۔
مغالطے کا نقصان۔ اس کا نقصان یہ ہے کہ لوگ مدینہ منورہ چھوڑ کر ایک غیر متعلق چیز میں مشغول ہو گئے۔شیطان نے موقع سے فائدہ اٹھایا اورگاڑی والوں نے تجربے کر کرکے ان جگہوں کا انتخاب کیا جہاں خوب دھوکہ لگ سکتا ہے۔ اس سے ایک طرف گاڑی والوں کا روحانی نقصان، دوسری طرف باقی لوگ جو اس قسم کی باتیں کرتے ہیں ان کا سنجیدہ لوگوں پر اس کا اثر برا پڑتا ہے۔