سفرنامہ حج 1432ھ


شروع کرتا ہوں میں بنام الٰہی

خدایا بنادے محبت کا راہی


مجھے ہو نصیب شاہراہ محبت

ملے مجھ کو اب درسگاہ محبت


یہ رستہ محبت کا ہے مختصر

تو ہوجائے میرا بھی اس پر گزر


مجھے اس کے پھل پھول چن لینا ہے

جو آواز دل ہے وہ سن لینا ہے


مجھے ہے سمجھنا محبت کی راہیں

تڑپتے ہوئے صبح گاہی کی آہیں


مری عقل خادم ہے جس بادشاہ کی

بنے وہ جو دشمن کبھی اس کی راہ کی

محبت ہو جب تو وہ کب اس کو چھوڑے

نہ مانے وہ جب تو سر اس کا مروڑے


جو اعمال مشروع ہوئے اس کے واسطے

تو ان میں بتائے ہوئے عشق کے راستے


ہے عاقل حقیقت میں جو اس کو پائے

ہے ذات اس کی ایسی سمجھ میں نہ آئے


ہو مشکل کبھی جو سمجھ میں سوال

تو اس کے لئے چاہيے پھر مثال


تو حج اس کا پھر اک مثالی سفر ہے

محبت سے بھرپور ہے پر اثر ہے


ہو چشم محبت تو نام اس کا حج ہے

نظر آتا اس میں عقل کو حرج ہے


تو داستان ایسی سفر کی سنو

سمجھنے اسے پھر کبھی دیکھ لو


چلے پنڈی سے ہم جو سوئے حرم

نہ تھا کچھ مگر يہ تھا اس کا کرم


ہے کلیہ کہ ہوتا ہے جب فضلِ رب

تو کاموں کے بنتے ہیں، خود سے سبب


پشاور سے ہونا تھا ہم کو روانہ

پھر اس قافلے کو تھا، آگے چلانا


تو اپنے پروگرام سے، ہم بھی چلے

سہولت سے ہم ٹکڑيوں ميں گئے


چلے ہم پشاور سر شام پر

پتہ یہ چلا لیٹ جہاز ہے مگر


یہ پی آئی اے کا ہے کیا انتظام!

پريشان رہتے ہيں حجاج کرام


صحیح وقت يہ جو بتاتے نہيں

جہاز اپنے و قت پر چلاتے نہيں


نہیں اس ادارے میں برکت کوئی

سبب ڈھونڈ لے اس کی حرکت کوئی


جو رمضان و حج کے دن آتے ہيں جب

کرايہ سفر کا بڑھاتے ہيں تب


دعائیں یہ حجاج سے ليتے ہيں

خسارے ميں تب سے، يہی رہتے ہيں


کہ دنيا ميں حج ميں ڈسکاؤنٹ ملے

یہاں تو انہيں بس مسکاؤنٹ ملے


ائر پورٹ چلنا تو تھا صبح دم

مگر بات اصلی نہ جانتے تھے ہم


پتہ یہ چلا، جانا 11 بجے ہے

کوئی اور ہی ہے بساط جو سجے ہے


تو اس انتظار میں رہے منتظر

حاجی کیمپ سے آئے ائیر پورٹ پر


ائیر پورٹ پر دو نمازیں ہوئیں

اورساتھ ایمپلی فائر پہ وعظيں ہوئیں


تھیں دو چادریں پاس احرام کی

تو تہبند انہی میں سے اک باندھ لی


جہاز کے لیے رکھ لی ساتھ دوسری

کہ احرام کی نیت وہیں کرنی تھی


کہ جب چلنے کا ہو یقیں پھر ہے ٹھیک

جنایت سے بچنے کا یہ گر ہے،سیکھ


سہولت جو ممکن ہو لو دوستو

شریعت پہ چلتے رہو دوستو


نہ مشکل میں ڈال خود کو یوں بے محل

کہ کچھ بھی ہے ممکن یہاں آج کل


جہاز لیٹ بھی ہوتا ہے وقت سے

مسائل پہ مشکل عمل نہ بنے


جہاز پھر اڑا رخ تھا سوئے حرم

تھا اللہ کا ہم پہ ایسا کرم


نماز ہم نے مغرب کی پڑھنی بھی تھی

نیت ہم نے احرام کی کرنی بھی تھی


جو تھے مفت کے مفتی، بہکتے رہے

نماز سیٹ پہ پڑھنے کو کہتے رہے


نمازوں کی قربانی جائز نہیں

امامت پہ سٹیوارڈ (steward) فائز نہیں


تو چُھپ کے نماز ہم نے مغرب پڑھی

کہ کھل کے جو اس کی اجازت نہ تھی


نیت اِس کو اوڑھ کے احرام کی کی

تھا کیسا سرور، وہ جو لبیک پڑھی


یوں سوئے حرم ہم تو اڑتے رہے

براستہء قلب اس سے جڑتے رہے


ترانہء لبیک تھا بر زباں

سنو دوستو ہوگا کیسا سماں


کہ حاجی دو چادر میں تھے ننگے سر

جو ہے کروفر اس سے تھے بے خبر


سفر یوں محبت کا کٹتا رہا

اثر جو تھا دنیا کا ہٹتا رہا


بالآخر جدے ہم پہنچ ہی گئے

تلاشی میگریشن سے فارغ ہوئے


بسیں اپنی مکتب کی ملنی جو تھیں

گزاری یوں ہی رات وہ نہ ملیں


یہ سُستی ء مکتب، سوئے انتظام

پریشان رہے سارے حجاج کرام


صبح وقت سے پہلے اذاں اک ہوئی

نماز وقت سے پہلے ہی بعض نے پڑھی


تو آذان مسجد سے پھر جب ہوئی

پڑھائی گئی پھر نماز وقت پہ بھی


یہ جلدی ہے اک جذبہء خود نمائی

ہے شیطان کی منفرد کاروائی


ہاں دنیا میں لوگ ایسا کرتے ہیں گر

مگر دین کی بات میں تو ہوتا ہے ڈر


جو بات دین کی ہو اور ڈرنا نہ ہو

یوں لگتا ہے پھر جیسے مرنا نہ ہو


یہ شوق اس اذان کا، مبارک رہے

مگر وقت پر ہو، یہ جو بھی کہے


مساجد میں آذان دیتے ہیں لوگ

ذمہ سارے لوگوں کا،لیتے ہیں لوگ


مسائل جو ہیں، وہ نہیں جانتے

جو جانتے ہیں، ان کی نہیں مانتے


تو پوچھ جب مسائل کی ہو نہ خبر

نہ پوچھنے کا ہوتا برا ہے اثر


تو خیر سے ہوا جب وقت چاشت کا

اثر کچھ ہوا اپنی درخواست کا


کہ مکے کو جانا ہےجلدی ہمیں

ظہر تب مکے میں ملے گی ہمیں


روانہ ہوئیں دو بسیں بھی ہماری

ہَوا لگ رہی تھی، جدے میں پیاری


تھا کعبے میں دل بر زبان تلبیہ

سفر تھا یہ جاری بفضلِ خدا


پہنچے ہوٹل ہم بوقتِ ظہر

حرم کی نماز ہی کا تھا ہم کو ڈر


کیا پھر وضو ہم نے بھی، جلدی سے

حرم ہم بوقت نماز پہنچے تھے


آرام کچھ کیا ہم نے بعد از نماز

کہ عمرے میں ہو کچھ نشاط یہ تھا راز


نماز عصر جوں ہی پڑھ لی حرم میں

طواف عمرے کا کرلیا شروع ہم نے


تھا اک شانہ ننگا ڈھکا دوسرا

اول تین چکر میں رمل بھی کیا


مگر اضطباع اس میں جاری رہا

یہ رنگ عاشقانہ ہی طاری رہا


قرب خانہ کعبہ کا ہم مضمحل

مگر خانہ کعبہ کو کھنچتا تھا دل


مکمل کیا یہ بوقت غروب

اذاں جب ہوئی وقت مغرب کی خوب


طواف کی نماز بھی دوگانہ پڑھی

جوتھی ننگے سر عاشقانہ پڑھی


مشورہ ہوا کب کریں ہم سعی

کہا اب آرام اور یہ ہوصبح ہی


تو تب ہی سعی میں ملے گی نشاط

نہ سر سے گزارنے کی ہو یوں ہی بات


تو نیت سعی کی، کی جب صبح دم

صفا سے چلے رخ بہ مروہ تھے ہم


کہ اک ساتھی نے یہ اچانک کہا

نواں استلام ہم سے تو رہ گیا


یہ پوچھا سعی کیا دوبارہ کریں

کہا مستحب ہے یہ،آگے چلیں


پسندیدہ جو ہے نہ چھوڑو کبھی

نہ واجب مگر اس سے توڑو کبھی


جو کہتے ہیں یہ مستحب ہی تو ہے

یہ قول البتہ کچھ عجب ہی تو ہے


محبت رہے سارے اعمال میں

شریعت نہ چھوٹے کسی حال میں


شریعت کی ترتیب مقدم رہے

محبت کا جوش دل میں محکم رہے


سنو مجھ سے بھائی یہ حسن مقال

طریقہ بزرگوں کا ہے اعتدال


مکمل کی ہم نے سعی دوستو

ِقران تھا،تھے حلق سے بَری دوستو


حرم کی نمازیں ہی پڑھتے رہے

کہ دن چند جو تھے گزرتے رہے


تیاری جو حج کی تھی کرتے رہے

تھکاوٹ کے کاموں سے بچتے رہے


سفر حج کا جلدی ہمیں کرنا تھا

منیٰ اسی احرام میں چلنا تھا


کیا حج سے پہلے طواف قدوم

تھے دن آخری، تھا بہت ہی ہجوم


سعی اس کے بعد ہم نے حج کی بھی کی

فضیلت قران حج میں اس طرح تھی


منیٰ کی طرف ترویہ میں چلے

ترانہءِ لبیک پڑھتے رہے


تھا خیمہ ہمارا بھی باہر منیٰ سے

تو تب ہر نماز میں منیٰ کو ہم آتے


کہ سنت وہاں ترویہ میں یہ ہے

وہاں پر منیٰ میں نمازیں پڑھے


تو ہم نے منیٰ میں نمازیں پڑھیں

وہاں بیٹھ کر حج کی باتیں ہوئیں


صبح عرفہ کا دن گیا جب نکل

تو عرفات ہی کو گیا میرا دل


فجر سے وہ تکبیریں تشریق کی

شروع کیں،ساتھ پڑھتے لبیک بھی


تو عرفات کی جانب چلے قافلے

بسیں چھوڑ کر ہم تو پیدل چلے


ہے پیدل کے حج کا زیادہ ثواب

نہ اس سے مگر ہووے صحت خراب


کہ پیدل ہے حج دوستو مستحب

بنے فرض چھوٹنے کا نہ یہ سبب


قدم بہ قدم یوں ہی چلتے رہے

ترانہء لبیک پڑھتے رہے


کہ شوق جنوں بھی تو جوبن پہ تھا

لبوں پہ تھا“ لبیک” اثر “من” پہ تھا


جو بڑھتے رہے قافلے دم بہ دم

تو اڑتے رہے یوں ہمارے قدم


یوں لگتا تھا، ہو جیسے دعوت ملی

وہاں پر خدا سے ملاقات کی


وہاں پر دعا کا اثر ہے جدا

ملے بار بار یہ سعادت، خدا


تو ہم بر طریق مشاۃ یوں چلے

کہ عرفات وقت پر پہنچ ہی گئے


وہاں عورتوں بچوں کے خیمے ملے

طریق مشاۃ پر ہی تھے رستے میں


رکاوٹ بنی تو بنا اژدھام

ذرا سوچ یہ تھا غلط کتنا کام


یہ ان کی شقاوت کا تھا اک کمال

کہ حجاج کا کرتے رہے استحصال


ہوئے ساتھی اپنے بھی تتر بتر

کوئی تھا کدھر اور کوئی تھا کدھر


یوں عرفات میں مشکل بنا داخلہ

ملا بے اصولی کا ہم کو صلہ


نماز نمرہ میں پڑھنا کارِ ثواب

ہے لوگوں کو تکلیف دینا خراب


اے کاش ! ہم سمجھ جائیں دیں کے اصول

کہ کوشش ہماری اسے ہو قبول


تلاش ہم کو تھی اپنے مکتب کی بھی

گزرتا رہا اپنا وقت قیمتی


اچانک خدا کی مدد آئی جب

تو مکتب کا راستہ ملا ہم کو تب


ظہر کی نماز جاکے مکتب پڑھی

عصر کا ہوا وقت عصر تب پڑھی


وقوف پھر کیا ہم نے عرفات کا

وہ رحمت کا دریا،کیا اس کا مزہ!


وہ رحمت کی برسات، برستی رہی

عجب کیف دل میں تھی، مستی رہی


وہ اشکوں کے دریا تھے، بہتے رہے

دعائیں جو دل میں تھیں، کرتے رہے


کہ شیطان اس دن تھا خوار و ذلیل

معافی کی مل جو رہی تھی سبیل


معاف جو خدا ہم کو کرتا رہا

اسے دیکھ کے ابلیس مرتا رہا


گناہوں سے بندے رہا تھا نکال

برا بننا ہی تو تھا شیطاں کا حال


الٰہی ہمارا بھی دل اب بدل

کہ تیرے نبی کی کریں ہم نقل


الٰہی قبول کرلے یہ نقل تو

کہ ہو جائیں آخر میں ہم سرخرو


الٰہی ترے ہم ہیں بندے حقیر

فضل تیرا یا رب جو ہے بے نظیر


نہ ہو ہم سے ناراض ڈرتے ہیں ہم

گناہوں سے اب توبہ کرتے ہیں ہم


الٰہی بخش دے ہمارے گناہ

کہ رحمت تری کتنی ہے بے پناہ


الٰہی بخش دے نبی کے طفیل

کہ اس امتحاں میں نہ ہو جائیں فیل


الٰہی ہمیں دے دے سنت کا ذوق

تجھے راضی کرنے کا ہم کو ہو شوق


الٰہی مسلمان جیسے بھی ہیں

مگر سب کے سب تیرے بندے ہی ہیں


جولوگ ان کو تکلیف دیتے ہیں جب

تیرا نام لینا ہے اس کا سبب


تو رکھ پاس اب اپنے اس نام کا

بنا دے انہیں تُو کسی کام کا


تو عرفات میں سورج ہوا جب غروب

روانہ ہوئے قافلے واں سے خوب


تو مغرب کا وقت یوں تو داخل ہوا

ہمیں تو پہنچنا تھا مزدلفہ


ہمیں تو عشاء سے ملانا یہ تھا

کہ حاجی کے حج کا زمانہ یہ تھا


وہاں سے بھی ہم یوں ہی پیدل چلے

نظر میں تھے حدِ نظر قافلے


بہر کیف اپنا سفر جاری تھا

دلوں پہ بھی حج کا اثر جاری تھا


ہمیں جلدی جلدی پہنچنا بھی تھا

وہاں کے دخول سے نکلنا بھی تھا


وہاں رستے میں لوگ بیٹھ جاتے ہیں

جو سستی ہو غالب تو لیٹ جاتے ہیں


گزرگاہ یوں ہوتی رہتی ہے تنگ

کہیں حاجیوں سے، نہ ہو جائے، جنگ


تو بن جاتا ہے اس میں، یوں اژدھام

پریشان ہوتے ہیں حجاج کرام


پہنچے بفضل الٰہی جو ہم

گزرگاہ میں دیکھا رش کچھ تھا کم


خدا کا شکر خیمہ میں دس بجے

خدا کی مدد سے پہنچ ہی گئے


وہ ساتھی ہمارے جو پیچھے رہے

تو رات ساری رش میں وہ پھنسے رہے


ہمارا تو خیمہ مزدلفہ میں تھا

لہٰذا وقوف ہم نے اس میں کیا


برائے حجاج یہ مزدلفہ کی رات

شب قدر ہے،ہے کیا اسکی بات!


کچھ آرام کر کے بطور سنت

پھر اٹھ کر عمل کیا بقدر ہمت


شب قدر ہم سے چھپائی گئی ہے

مگر یہ ہے ظاہر، بتائی گئی ہے


تو پھر سُستی کیسے ہو اعمال میں

کمی کیسے برداشت ہو حال میں


ہے لازم خیال رکھنا اس کا سنو

کہیں وقت سے پہلے ہی اذان نہ ہو


یہی بات سب کو بتائی بھی تھی

صحیح وقت پر تب آذاں ہم نےدی


جو ہوتا بعض کو ہے شوقِ آذاں

تو کرتے ہیں اس میں وہ یوں پُھرتیاں


کہ داخل نہیں ہوتا وقت ہی ابھی

کہ شوقِ اذاں ہی میں آذان دی


یہ اذان دوسرے جونہی سنتے ہیں

تو وہ بھی اذاں پر اذاں دیتے ہیں


نماز اس اہم صبح کی ہو خراب

تو شوقِ اذاں کا کیا ہو حساب!


نکل ہم گئے پھر منیٰ دس بجے

تو پون گھنٹے میں ہم پہنچ ہی گئے


وہاں جمرہء عقبہ کی، کی پھر رمی

خبر اس کی قربان گاہ میں بھی کی


تو ساتھی نے قربانی کی پھروہاں

ہمیں دی خبر اسکی خود بعد ازاں


ہم اس وقت اپنی ہی بلڈنگ میں تھے

حلال تب سہولت سے سارے ہوئے


کیا ہم نے حلق اپنا خود ہی وہاں

سنو دوستو تھا وہ کیسا سماں


طوافِ زیارت عصر کو گئے

مگر رش بہت تھا تو ہم بھی ڈرے


فراغت عشاء سے جب پا گئے ہم

تو دیکھا مطاف میں کہ رش کچھ تھا کم


وہاں حیراں ہم دیکھتے رہ گئے

جودیکھا پولیس اس کے کنٹرول پہ


مطاف میں وہ لوگ، جانے دیتے نہیں

جو رش اب مزید بڑھنے دیتے نہیں


تو دل سے دعا محو پرواز ہوئی

اترنے کا رستہ ملے ہم کو بھی


فضل کچھ خدا کا یوں ہم پر ہوا

کہ چلتے ہوئے گرد، رستہ ملا


اترنے کی ہم کو اجازت ملی

تو نیت پھر ہم نے طواف ہی کی، کی


وقت اس میں گھنٹے سے کم ہی لگا

خدا پر نظر ہے کلید فلاح


خدا ہم پہ خود مہربان ہوگئے

جو مشکل تھے کام وہ آسان ہوگئے


سعی ہم نے پہلے ہی کی تھی ہوئی

تو ہم کو فقط اب رمی کرنی تھی


دو دن اب مزید تھا منیٰ میں ٹھہرنا

وہیں پر مبیت اور وہیں رمی کرنا


رمی تینوں جمروں کی واجب بھی تھی

روانہ ہوئے ہم وہاں سے سبھی


ارادہ تھا شب کو منٰی ہم چلیں

برائے مبیت ہم وہاں پر رہیں


کہ اک ساتھی کی جیب حرم میں کٹی

ہمیں اس کی جانب سے اطلاع ملی


یہ سخت دل وہاں پر بھی رکتے نہیں

بڑی ہی شقاوت ہے جھکتے نہیں


تو بھیجا اسے پھر برائے تلاش

حرم میں نہ ہوتا ظلم ایسا کاش


حرم میں ہے نیکی کا رتبہ بڑا

گناہ بھی مگر ہے وہاں لاکھ کا


حرم میں کیا اس نے ایسا گناہ

ہے نفس کتنا ظالم خدا کی پناہ


تھی نفس کی شرارت خطا اس نے کی

ہے ممکن خراب اس سے ہو کوئی بھی


کوئی بھی نہیں اس کے شر سے بری

ہے اس پر گواہ رب کا قرآن بھی


کہ نفس کے رذائل ہیں اس کی وجہ

ضروری ہے پس، نفس کا تزکیہ


نبی کا یہ فرمان ہے اس کو پڑھ

کہ ہے حب دنیا خطاوں کی جڑ


جو نفس کا کرے کوئی بھی تزکیہ

تو وہ کامیابی پہ فائز ہوا


بغیر تزکیے کے جو چھوڑے اسے

خسارے میں وہ پھر ہمیشہ رہے


تو بلڈنگ میں ہم منتظر پھر رہے

منیٰ ہم نہ اس رات پھر جاسکے


یوں سنت مبیت ہم سے بھی رہ گئی

چھری غم کی ساتھی کے دل پہ چلی


صبح پھر برائے رمی ہم گئے

منیٰ کو رمی کرکے خیمے چلے


منیٰ سے تھا باہر جو خیمہ ہمارا

منیٰ پھر مبیت کو تھا جانا دوبارہ


تو مغرب منیٰ میں پڑھی اور رہے

عشاء تک برائے مبیت جو بھی تھے


وہاں اپنا معمول درس کا ہوا

جو ساتھی اُدھر تھے انہوں نے سنا


صبح کو رمی پھر تھی بعد زوال

تھی جانے کی جلدی یوں لگتا تھا حال


ہر اک جلدی جانے کو بیتاب تھا

تو رستوں میں لوگوں کا سیلاب تھا


کہ مغرب سے پہلے نکلنا جو تھا

وگرنہ یہاں پر ہی رہنا جو تھا


رمی تیرہ کی گو کہ ہے مستحب

تھے بارہ کو چلنے کو بیتاب سب


ہمارا ارادہ تو رہنے کو تھا

رمی تیرہ کی بھی جو کرنے کو تھا


منیٰ ہی کے خیمے سے دعوت ملی

تو جمرات کے قرب میں رہائش بنی


وہاں پر ٹھہرنا بھی آسان تھا

خدا ہم پہ اس میں مہر بان تھا


عصر کی نماز جب مکے میں پڑھی

تو ہم کو ملی ہوگی کتنی خوشی


بفضل خدا ہم کو حج مل گیا

خوشی سے ہمارا بھی دل ِکھل گیا


ابھی بس طواف وداع کرنا تھا

مکے سے ہمیں جس وقت چلنا تھا


تو حج کرکے اب جب مکے آگئے

یہاں رہنے کو چند دن پا گئے


مکے کی کیا عظمت اور شان ہے

کہ اس طرف قلبِ مسلمان ہے


پڑھے گا مسلمان نماز جب کبھی

تو رخ اس کا ہوگا بس اس طرف ہی


یہ رخ ہم کو اللہ نے دے دیا

مجسم اس رخ کو یہاں پر رکھا


ہے رخ اس طرف کرنا حکم خدا

طریقِ عبادت یہ ہم کو ملا


ملا حکم سجدے کا آدم کو جب

فرشتے پڑے سارے سجدے میں تب


مگر ایک ابلیس وہ رہ گیا

تھا ظالم کسے کیسا کیا کہہ گیا


خدا کے حکم سے وہ اپنا خیال

بڑا سمجھا تب ہی کیا اس کا حال


ہمیں تو حکم اس کا ہے ماننا

تو اس کے لئے اس کا ہے جاننا


جو عالم ہیں ا س کا حکم جانتے ہیں

طریقت سے ہم وہ حکم مانتے ہیں


جو پاس اپنا علم شریعت رہے

خدا کی محبت سے دل بھی بنے


کریں ہم جہد سے یہ نفس بھی مطیع

ہو اللہ کی جانب طریق سریع


مجازاً تو کعبے پہ ہم ہیں فدا

حقیقت میں مطلوب ہے اک خدا


مجازاً چکر اس کے گرد لگتے ہیں

خدا کی طرف ہم قدم رکھتے ہیں


توجہ خدا کی ہو کعبے پہ جب

تو سیراب پھر کیوں نہ زائر ہوں سب


ہے کن عظمتوں کا خدا کا یہ گھر

یہاں کے شعائرتو ہیں معتبر


یہا ں پر تو نیکی ہے اک لاکھ پر

گناہ کا بھی اتنا ہی زیادہ اثر


یہاں نعمتیں بھی فراوان ہیں

یہاں پر جو آئے ہیں مہمان ہیں


یہاں تربیت کے بھی موقعے بہت

مگر ساتھ شیطان کے دھوکے بہت


یہاں بننے پر کیا ملے گا مقام

یہاں گرنے سے کام ہوگا تمام


ہے توحید لازم،ادب بھی رہے

شعائر کی تعظیم،سب بھی رہے


شعائر کی تعظیم تقویٰ دل

شعائر سے اعراض دل کا ہے غل


کچھ اشعار آتے ہیں اب وہ پڑھیں

ملے کعبے سے کیسے اس سے سنیں