آپ ﷺ کے ایک ارشاد مبارک کا مفہوم ہے کہ جو حج کو آئے اور میرے پاس نہ آئے اس نے میرے ساتھ بے وفائی کی۔ اس بات کو ایک مثال سے سمجھیں۔ ایک شخص انگلینڈ سے لاہور کسی کام کے سلسلے میں آتا ہے اور فیصل آباد میں اس کے والد رہتے ہیں۔وہ شخص لاہور میں اپنا کام کرکے فیصل آباد میں اپنے والد سے ملے بغیر واپس انگلینڈ چلا جائے تو اس کے والد کیا کہیں گے؟ وہی نا جو آپﷺ کے ارشاد کا مفہوم ہے۔ اس لئے مدینہ منورہ جانے کے لئے دوسری تیاریوں کے ساتھ ساتھ اپنے دل کو بھی تیار کریں۔ یعنی آپ ﷺ کے ساتھ ملاقات کی تیاری۔بعض لوگ خوا مخواہ فضیلتوں کا قصہ چھیڑ دیتے ہیں۔وہ لوگ اپنے دل میں باور کئے ہوتے ہیں کہ مکہ مکرمہ اللہ تعالیٰ کا ہے اور مدینہ منورہ رسول اللہﷺ کا۔ ان نادانوں کو کوئی سمجھائے کہ خدا کے بندو اللہ تعالیٰ تو ہرجگہ موجود ہیں جبکہ آپ ﷺ مدینہ منورہ میں جلوہ افروز ہیں۔مکہ مکرمہ بھی اللہ تعالیٰ کا اور مدینہ منورہ بھی اللہ تعالیٰ کا ہے۔مدینہ منورہ جانے کے لئے تو آپ ﷺ کا ارشاد ہی کافی ہے اس لئے جہاں تک عقیدہ کی بات ہے تو وہ تو مدینہ منورہ جانے میں زیادہ محفوظ ہے۔ اب رہی فضیلت کی بات تو اس کے لئے قرآن پاک کی وہ آیت پڑھ لیں" قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللٰهَ۔ الخ" اس میں آپ ﷺکی اتباع میں بندہ اللہ تعالیٰ کا محبوب ہوجاتا ہے۔ذرا سوچئے تو سہی کہ آپ ﷺ حج کے بعد مکہ مکرمہ میں رہے یا مدینہ منورہ تشریف لے گئے ؟ اتباع کس میں زیادہ ہے؟ تو اللہ تعالیٰ کی محبوبیت کس میں زیادہ ہوگی؟ العیاذ باللہ میں خانہ کعبہ کی فضیلت کم کرنے کی کوشش نہیں کرنا چاہتا صرف اس بات کو واضع کرنا چاہتا ہوں کہ جو مدینہ منورہ کے بارے میں کمزور ذہن رکھتے ہیں ان کی اصلاح ہوجائے ورنہ ہمارے لئے تو دونوں جگہیں بڑی ہیں۔ہمارا تو مسلک ہے۔
نہ مکے سے جانے کو جی چاہتا ہے
مدینے کو جانے کو بھی چاہتا ہے
ہاں جنت ابقیع میں دفن ہونے کی فضیلت کی بات اور ہے۔
اس لیے بقول شاعر۔
شبیر جب بھی نکلے تو جان مدینے میں
ایک نور برستا ہے ہر آن مدینے میں
رہتا ہوں میں ہر وقت فرحان مدینے میں
اﷲ کا کرم ہے بس اس کی عنایت ہے
میں خوش نصیب آیا مہمان مدینے میں
میں گنبد خضرا کے سائے میں یہاں بیٹھا
بھیجوں سلام ان پر ہر آن مدینے میں
دنیا تو بہت کھینچے فطرت کے مطابق تو
اصلی تو ہمارا ہے جانان مدینے میں
دنیا میں جہاں بھی ہوں ہوں ان کے طریقے پر
شبیؔر جب بھی نکلے تو نکلے جان مدینے میں