یہ طواف حج کا رکن اور فرض ہے۔یہ طواف عام طور پر قربانی اور سر منڈانے کے بعد سِلےہوئےکپڑوں میں کیا جاتا ہے۔ بعض لوگ سوچ میں پڑ جاتےہیں کہ سلےہوئےکپڑوں میں طواف اور سعی کیسےکی جائے؟ تو خیال رہےکہ اسمیں شک کی کوئی گنجائش نہیں، آپ طواف زیارت اور سعی سلےہوئےکپڑوں میں بھی کر سکتے ہیں، طواف کے پہلےتین چکروں میں رمل بھی ہوگا، ہاں اب اضطباع نہیں ہوگا کہ اس کا اب موقع ختم ہو گیا۔
الحمد للہ دسویں ذی الحجہ کے سارے کام انجام پا گئے۔ اب آپ مکمل طور پر احرام کی پابندیوں سےفارغ ہو گئے۔ بیوی بھی اب آپ پر حلال ہوگئی۔ فارغ ہو کر آپ پھر واپس منیٰ چلےجائیں۔ طواف ِ زیار ت کے بعد دو رات اور دو دن مزید منیٰ میں قیام کرنا ہے۔
سیاہ غلاف میں کعبہ ہے مرکز تنویر
یہ گھر خدا کا ہے دنیا میں نہیں اس کی نظیر
یہ حج کے بعد اس کے گرد کیا نظارہ ہے
ہر ایک حاجی نظر آئے اس کی زلف کا اسیر
حج میں حجاج نے عشاق کے احوال دیکھے
تب ان کے سامنے آیا یہ عشق کا بدر منیر
لباس عشق میں حاجی گرد اس کے گھوم پھرے
لباس عام میں لیتے ہیں اب اس کی تاثیر
کہاں یہ عشق کی دنیا کہاں غرقِ دنیا
خدایا اپنے لیے کیجیے قبول شبیؔر
11 اور 12 ذی الحجہ کو تینوں جمروں کی رمی کرنی ہے اور آج رمی کا وقت زوالِ آفتاب کے بعد ہے۔ اپنےخیمے یا مسجدخیف میں ظہر کی نماز ادا کریں اور پھر رمی کےلئے چل پڑیں۔راستہ میں سب سےپہلےجمرہ اولیٰ “ چھوٹا شیطان” آئےگا۔ بالکل اسی طرح جس طرح کل جمرہ عقبہ کی رمی کی تھی، اس پر سات کنکریاں ماریں اور ہر کنکر ی پر
بِسمِ اللّٰہِ اَللّٰہُ اَکبَرْ، رَغمَاً لِلشَّیطَانِ وَ رِضًی لِلرَّحمَانِ- پڑھیں
رمی کے بعد ذرا ہٹ کر قبلہ رخ کھڑےہو کر دعا کریں۔ توبہ، استغفار اور تسبیح و ذکر کے بعد درود شریف پڑھیں، اپنےلئے دعا مانگیں، اپنےدوست و احباب کےلئے بھی دعا مانگیں۔ اس کے بعد آگےچلیں“ جمرہ وسطیٰ” “درمیانی شیطان” پر آئیں اور اسی طرح سات کنکریاں ماریں، جس طرح “ جمرہ اولیٰ” پر ماری تھیں اور ذرا ہٹ کر قبلہ رخ ہو کر دعا مانگیں اور اتنی دیر ہی ٹھہریں جتنی دیر “ جمرہ اولیٰ” پر ٹھہرےتھے۔ اس کے بعد“ جمرہ عقبیٰ” بڑےشیطان پر آئیں۔ اسی طرح سات کنکریاں اس کو بھی ماریں، جس طرح پہلےماری تھیں، مگر اس جمرہ پر نہ ٹھہریں نہ ہی دعا مانگیں۔
11 اور 21 کو منیٰ میں رہنا احناف کے نزدیک سنت اور بعض آئمہ کے نزدیک واجب،آخر کیوں مکہ مکرمہ کو چھڑوا کر اس واد ی میں ٹھہرنے کا حکم ہے۔ اس کا سوال کوئی فلسفی کرے تو کرےعاشق کے لئے تو صرف اتنا ہی کافی ہے کہ آپﷺ نے کیا ہے اور بس۔ وہ تو بزبان حال کہتے ہوں گے:
آپ بیٹھے ہوئے ہونگے اور صحابہ بھی یہاں
ہم جو بیٹھے دو چادروں میں ہیں منیٰ میں یہاں
ایک تقدس کے ساتھ اتنی آزادی کے ساتھ
ہم کہ بیٹھے ہیں یہ حالت ملے گی اور کہاں
یہ مناسک اپنی تاریخ ہے اور اپنا مقام
کیا برکات اور کیا حکمتیں ہیں ان میں نہاں
یہ بندگی کے نظارے اور عشق کے انداز
ملے گا کیسے بغیر اس کے ہمیں ایسا سماں
روح آزاد کو باندھا ہے نفس نے بند در بند
نفس نے کچھ چھوڑ دیا شبیؔر ہمیں یاں بے مکاں
12ذی الحج کو اختیار ہے کہ غروبِ آفتاب سے پہلے حدود منیٰ سے نکل جائیں۔ ایسا کرنے والوں کے سوائے طوافِ وداع کے باقی سارے مناسک مکمل ہوگئے۔ البتہ وہ عشاق جو اللہ تعالیٰٰ کی خاص مہمانی سے ایک دن اور لطف اندوز ہونا چاہیں تو ان کو ابھی کہیں جانے کی ضرورت نہیں۔ ان کو عشاق کی سر زمین میں ایک اور دن ٹھہرنے کی اجازت ہے۔بعض اوقات حیرت ہوتی ہے کہ کسی کو فلایئٹ وغیرہ کی پریشانی بھی نہیں ہوتی مگر پھر بھی وہ جلد از جلد حدود منیٰ سے نکلنے کے لئے بیتاب ہیں اور سامان اٹھائے خطرات مول لے کر حرم جارہے ہوتےہیں۔کاش سمجھ ہوتی تو آسانی بھی ہے مہمانی بھی۔
دیکھئے اس سلسلے میں عشق کی زبان پر کیا آرہا ہے:
محبت سے ٹھہرنا تیرھویں ذی الحج کو حاجی کا
اشارے سے بتائے ذوق والوں کو نہ جانے کیا
خدا کی راہ میں ایک دن مزید منیٰ میں رہنا ہو
یہ لازم تو نہیں ہاں ہے مگر یہ دل کا اک سودا
مکہ شہر مبارک ہے وہاں جانا مبارک ہے
اجازت اس میں ہے تاخیر کی توسوچنا کیسا
یہ جانے کے لئے جلدی مچانا کوئی کیا سمجھے
یہاں تو ہو رمی ایک اور دن پھر ہو ثواب زیادہ
نفل حج کے لئے آئے ہیں جو ان کے لئے توبس
بہت زیادہ اجرلینے کا ہے شبیؔر اک موقع
تیرھویں ذی الحج کی رمی کی زوال سے پہلے بھی اجازت ہے لیکن زوال کے بعد رمی کرنا مستحب ہے۔جیسا کہ شاعر کہتا ہے:
تھوڑی محنت سے گر سنت پر عمل ہووے نصیب
خوش قسمتی ہے اس سے اور ہوں جنت کے قریب
تیرھویں کی رمی زوال کے بعد ہم کرلیں
برکات اس کے ملیں ہم کو پھر عجیب و غریب
کچھ مشکلات انتظامی تو نظر آتے ہیں
اگر ہمت ہو یہ سب اجر عظیم کے ہیں نقیب
عقل جو رب نے عطا کی ہے استعمال کرلیں
جو محبت بھی ہو اس کی بنے کیا خوب ترکیب
ہر ایک مشکل میں وہ آسان کرے ہے رستہ
ہم اگر سامنے رکھیں شبیؔر اس کی ترتیب
مستحب کیا ہے۔پسندیدہ۔کس کا پسندیدہ۔ اللہ کا پسندیدہ۔کس طرح ؟ مکہ مکرمہ اس وقت جانے سے بھی پسندیدہ۔عاشق صرف محبوب کی رضا چاہتا ہے۔ اس کو کوئی اور زبان آتی ہی نہیں وہ یوں کہے:
کمال عشق ہے اس میں کہ دیکھتے ہی رہو
جو وہ ٹھہرائے خوشی سے تو ٹھہرتے ہی رہو
جو وہ چپ رہنے کو کہہ دیں تو پھر تو ہونٹ سی لو
اور اگر کہنے کو کہہ دیں وہ تو کہتے ہی رہو
اگر وقار پہ خوش ہوں تو پر وقار بن جاؤ
جب مچلنے کا اشارہ ہو مچلتے ہی رہو
جب تجھ سے پیار وہ چاہے تو پھر پیارے بن جاؤ
اور اگر ڈرنے پہ خوش تو پھر ڈرتے ہی رہو
جان اس کی ہے تو اس کے لیے جینا ہو شبیؔر
اور اس کے ساتھ ہی بس اس پہ ہی مرتے ہی رہو
ایسے حجاج 13 ذی الحج کو زوال کے بعد رمی سے فارغ ہوکر حرم تشریف لے جائیں اور حرم کے قرب سے اس وقت تک مستفید ہوتے رہیں جب تک
اللہ تعالیٰ نے مقدر میں لکھا ہے۔ ایک بات یاد رکھیں۔ مسجدِحرام میں تین حصے ہیں۔ ایک حصّہ طواف کرنے والوں کے لیے، ایک حصّہ نماز پڑھنے والوں کے لیے
اور ایک حصّہ صرف خانہ کعبہ کو دیکھنے والوں کے لئے۔خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو وقت کی قدر کریں اور فضول پھرنے میں اپنا وقت ضائع نہ کریں۔فضول پھرنے سے آرام بہتر اور آرام ہو چکا ہو تو کام بہتر۔
ذرا باہر قافلوں کو حرم جاتے دیکھیں کیا آپ کے دل کی کیفیت تبدیل نہیں ہورہی ہے:
ہیں حرم کے واسطے قافلے رواں دواں
رحمت الہی ہے سامنے جو بيکراں
بوڑھے بھی جوان بھی عورتيں اور مرد بھی
بخششوں کے واسطے آرہے ہيں جو يہاں
راستے حرم کے ہيں کيسے اب بھرے بھرے
بوڑھے بوڑھے لوگوں کی ہمتيں جواں جواں
قوم و ملک ہيں مختلف مختلف زبانيں ہيں
سب کا رخ ہے اک طرف اور کعبہ درمياں
نور کی شعاءوں ميں سب نہا رہے ہيں جو
نور لے رہے ہيں سب جائیں گے کہاں کہاں
فلسفہ نہيں ہے يہ عشق کی يہ باتيں ہيں
اب سجاؤ دم بدم دل ميں عشق کا سماں
دل جسم کا بادشاہ دل بناؤ دل يہاں
دل بنانے کے ليے خوب ديکھو يہ مکاں
دل خدا کا گھر بنا گھر خدا کا ديکھ کر
شايد لوٹ آئے نہ پھر کبھی يہی زماں
کيا سے کيا ہوا يہاں کيا سے کيا بنا يہاں
کيا قدر خدا نے کی يہ ہيں سب نشانياں
ياالٰہی اب شبير کا يہ دل قبول کر
شاں تيری اور ترے حبيب کی کرے بیاں
خانہ کعبہ کو دیکھئے اور نظروں سے محبت کے جام پر جام پیتے رہیے۔یہی موقع ہے،ضائع نہ ہو۔
ذرا دیکھئے شاعر خانہ کعبہ کو کیسے دیکھ رہا ہے۔
میں نوری کعبہ کو دل میں سماؤں
جب اس کے سامنے میں بیٹھ جاؤں
یہ رحمت کا سمندر موجزن ہے
میں کچھ حصہ الٰہی اس سے پاؤں
مرے ہے سامنے تیری کریمی
تہی دست میں یہاں سے کیسے جاؤں
جو اب ہے سامنے میزاب رحمت
الٰہی تر بتر اس سے نہاؤں
دیوانے اس کے گرد اس کے ہیں گھومتے
میں ان کے ساتھ کچھ چکر لگاؤں
مقام عشق مجھے کردے نصیب اب
کہ میں ہر وقت ترے گن گاتا جاؤں
ترے در پر پڑا ناچیز شبیؔر
کرو ایسا قبول بار بار آؤں
اگر آپ حج سے پہلے مدینہ منورہ نہیں گئے تو وہاں جانے کا وقت جب آجائے تو انتہائی سوز اور کیفیتِ ہجر کے ساتھ طوافِ وداع کرلیں۔
خدا کے گھر سے جدائی کا وقت طواف وداع
بس اک کیفیت ہجری کا وقت طواف وداع
دوبارہ ملنے کی درخواست کا یہی ہے وقت
غلطیوں کی بھی تلافی کا وقت طواف وداع
ملن کا جوش جو امڈا تھا بن گئی حسرت
اس پہ اندر سے تسلی کا وقت طواف وداع
دل کو خوب اس کی طرف کٹ کٹا کے کر مرکوز
دل سے بھرپور عاجزی کا وقت طواف وداع
وہ جو ٹوٹے ہوئے دلوں کے ساتھ ہے اے شبیؔر
دعا رضائے دائمی کا وقت طواف وداع