دل مطمئن نہیں


دل مطمئن نہیں ہےجو کہتا ہوں وہ کم ہے

میں جو یہاں بیٹھا ہوں یہ بھی ان کا کرم ہے


میں کیسے بنوں اس کا مجھے وہ کہے اپنا

میں کیسے پاسکوں انہیں یہی میرا غم ہے


تن من میں اب قربان کروں اس پر الہٰی

جب تک کہ تن میں جان ہے جاری میرا دم ہے


دل عشق سے لبریز ہے قدموں میں ہے لرزہ

سر خم سا کھا گیا ہے اورآنکھوں میں بھی نم ہے


میں اس کی ہی تعریف میں مشغول بس رکھوں

شبیؔر انگلیوں میں جو میرا یہ قلم ہے