ڈھیلا قلم اور وارداتِ قلب

( مدینہ منورہ جاتے ہوئے بس میں)


قلم ہے ہاتھ میں میرا مگر لکھوائے وہی

بات زبان سے میں نکالوں مگر بتائے وہی


چونکہ ہر چیز پہ غالب ہے مشیت اس کی

آلے گو بے شمار ہیں سب سے کرائے وہی

اس کو محبوب کی محبت کی ہی باتیں ہیں پسند

خود سے کھول کھول کے یہی باتیں منہ پہ لائے وہی


ہم کیا !رموز و حقیقت کی باتیں کیا جانیں

ہم تو کچھ بھی نہیں ہیں گر نہیں سمجھائے وہی


لوگ قلم پر تو نظر رکھتے ہیں پر ہاتھ پہ نہیں

اور کہاں اس پہ ہو کہ ہاتھ کو ہلائے وہی


چھوڑ دو ڈھیلا قلم لکھنے دو جو لکھتا ہے

تجھ کو کیا غم ہے شبیؔر پھر اگر سکھائے و ہی