تعلیمات مجددیہ درس 22


اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ والصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ بِسمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم

تعلیمات مجددیہ کے درس میں حضرت مجدد الف ثانی رحمة اللہ علیہ کے مکتوبات شریف سے ماخوذ مضامین بیان کئے جاتے ہیں۔ ان شاء اللہ آج کا درس ہم دفتر سوم کے مکتوب نمبر 12 سے شروع کر رہے ہیں، جس میں حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ دعا و تضرع و آہ و زاری و تلاوتِ قرآن اور طویل قیام کے فوائد کے بارے میں ذکر فرما رہے ہیں۔

دو چیزیں ہیں: (1) الله جل شانهٗ کے ساتھ براہ راست تعلق کے اسباب۔ (2) اللہ جل شانهٗ کے ساتھ بالواسطہ تعلق کے اسباب۔ مثلاً اگر میں دین کا کوئی کام کر رہا ہوں، کسی مدرسہ میں بیٹھا درس و تدریس کر رہا ہوں، تبلیغی جماعت میں چل رہا ہوں، جہاد میں ہوں یا کوئی اور دین کی خدمت کر رہا ہوں، خدمتِ خلق کر رہا ہوں تو یہ سب بالواسطہ تعلق کے اسباب ہیں، لیکن یہ تمام دینی کام اصل میں دینی کام تب بنیں گے، جب اللہ کے ساتھ میرا بلا واسطہ تعلق مضبوط ہو گا۔ کیونکہ وہ بلا واسطہ تعلق ہی میرے ان دینی کاموں کے اندر جان اور روح کا کام دے گا۔ میرا اللہ جل شانهٗ کے ساتھ جتنا بلا واسطہ تعلق مضبوط ہو گا، میرے دینی کام اتنے زیادہ اللہ کے لئے خالص رہیں گے، ورنہ پھر دنیا درمیان میں آ جائے گی۔ اگر اللہ پاک کے ساتھ میرا ذاتی تعلق کمزور ہے تو دین کے جو کام بھی میں کر رہا ہوں گا، ان میں دنیا کا اثر رہے گا، ان میں کچھ نہ کچھ میری دنیا کی بات رہے گی، جس کی وجہ سے ان میں کمزوری آ جائے گی، حالانکہ وہ دین کا کام ہی ہو گا، یہ نہیں کہ دین کا کام نہیں ہو گا۔ لیکن ایک ہی جماعت ہو یا ایک ہی مدرسہ ہو یا ایک ہی دیہات کا پورا نظام ہو، اس کے اندر کسی کا تعلق بہت اچھا ہو گا، کسی کا تعلق بہت کم ہو گا، ہر ایک کو اس کا فائدہ تعلق کی بنیاد پر ملے گا۔ یہاں حضرت یہی بیان کرنا چاہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ بلا واسطہ تعلق مضبوط کرنا کتنا ضروری ہے۔ حضرت دفتر سوم مکتوب نمبر 12 میں فرماتے ہیں:

دعا و تضرع و آہ و زاری و تلاوت ِ قرآن اور طویل قیام کے فوائد

متن:

(1) آپ نے لکھا تھا کہ حضرت حق سبحانہٗ کی بارگاہ میں دعا و تضرع وزاری اور ہمیشہ التجا میں رہنا بہتر ہے یا ذکر میں مشغول رہنا، یا ان سب چیزوں کو ذکر میں شامل کر دینا بہتر ہے؟

جواب:

میرے عزیز ذکر کے بغیر چارہ نہیں اور اس کے ساتھ جو کچھ بھلائیاں جمع ہو جائیں تو دولت و نعمت ہے۔ (مشائخ نے) وصولِ (الی اللہ) کا مدار ذکر پر رکھا ہے۔ دوسری چیزیں ذکر کے ثمرات و نتائج ہیں۔

تشریح:

سبحان اللہ! حضرت نے یہ ایک اور پیرایہ بیان فرمایا ہے۔

متن:

(2) نیز آپ نے دریافت کیا ہے کہ ذکرِ نفی و اثبات (لاالہ الا اللہ) تلاوتِ قرآن اور نماز میں طولِ قیام، ان تینوں میں کون سی چیز بہتر ہے؟

جواب:

ذکرِ نفی و اثبات وضو کی طرح ہے جو نماز کے لئے شرط ہے۔ جب تک طہارت درست نہ ہو نماز کا شروع کرنا منع ہے اسی طرح جب تک نفی کا معاملہ انجام تک نہ پہنچ جائے اس وقت تک فرائض و واجبات اور سنن کے علاوہ جو کچھ بھی نفلی عبادات کریں سب وبال میں داخل ہیں۔

تشریح:

حضرت نے ساری چیزوں کو بہت مضبوط ضرب لگائی ہے۔ دینی کام تو بعد کی بات ہے، جو براہ راست اعمال ہیں ان کے بارے میں بھی بات ہو گئی کہ ان کے اندر بھی تب فائدہ ہو گا جب اپنا نفس درمیان سے نکل جائے گا۔ جب تک نفس درمیان سے نہیں نکلا اس وقت تک میرے نوافل کچے ہوں گے۔ اس لئے بعض مشائخ ان چیزوں کو روک بھی دیتے ہیں، کیونکہ شیطان یہ ناٹک چلا سکتا ہے کہ اس کا رخ نوافل کی طرف کر لے کہ تو اتنی نفلیں پڑھ رہا ہے، تو اتنا کما رہا ہے وغیرہ وغیرہ، تو عین ممکن ہے کہ اس کے ذہن میں یہ بات بٹھا دے جو اس کے لئے عُجب کا ذریعہ بن جائے۔

یوں سمجھ لیں کہ اس میں حضرت نے جو بات فرمائی ہے وہ ذکرِ ثوابی اور ذکرِ علاجی والی بات ہے۔ ذکر ثوابی میں طویل قیام بھی ہے، تلاوت قرآن بھی ہے، درود شریف بھی ہے، یہ ساری چیزیں آ جاتی ہیں۔ لیکن حضرت فرماتے ہیں کہ علاجی ذکر وضو کی طرح ہے۔ جب تک وضو نہ ہو، اس وقت تک آپ کو اس کی اجازت نہیں ہو گی۔ اس وجہ سے فرمایا کہ جب تک نفی انجام تک نہ پہنچ جائے، یعنی انسان کا نفس درمیان میں حائل نہ رہے اس وقت تک فرائض و واجبات اور سنن کے علاوہ دیگر عبادات ثانوی حیثیت رکھتی ہیں۔ (کیونکہ فرائض و اجبات تو لازم ہیں، یہ آپ نے کرنے ہی کرنے ہیں، اس کے لئے آپ انتظار تو نہیں کر سکتے کہ میری تربیت ہو گی تو پھر کروں گا، فرائض پڑھوں گا، وغیرہ) لہذا نوافل یا نفلی اعمال کے لئے نفس کو درمیان سے مکمل طور پر نکالنے کی ذمہ داری پوری کرنی پڑے گی۔ اگر نفس درمیان سے نہیں نکلا تو فرائض و واجبات و سنن کے علاوہ جو کچھ بھی نفلی عبادات ہیں، چونکہ وہ نفس کے لئے ہو جائیں گی اس لئے وہ سب وبال میں داخل ہیں۔

متن:

پہلے اپنے مرض کو دُور کرنا چاہیے جو کہ ذکر نفی و اثبات پر وابستہ ہے۔ اس کے بعد دوسری عبادات و حسنات میں مشغول ہونا چاہیے جو کہ بدن کے لئے صالح غذا کی طرح ہیں۔ مرض کے دور ہونے سے پہلے جو غذا بھی کھائیں وہ فاسد و مفسد ہوں گی۔

مصرع

ہرچہ گیرد علّتی عّلت شود

ترجمہ: ”جو کچھ مریض کھائے وہ بھی مرض بڑھائے۔“

اس مکتوب کے آخر میں والدہ محمد امین کے لئے تحریر فرماتے ہیں کہ

متن:

ہر وقت آخرت کے احوال کو مدِ نظر رکھ کر دائمی ذکر میں مشغول رہنا چاہیے۔ یہ کچھ ضروری نہیں ہے کہ ذکر میں لذت تمام پیدا ہو اور کچھ چیزیں نظر آئیں یہ تو سب کچھ لہو و لعب میں داخل ہیں۔

تشریح:

یعنی وہی کشفیات وغیرہ میں پڑنا۔ جیسے حضرت تھانوی رحمة اللہ علیہ نے فرمایا تھا کہ اگر آپ نے یہ ذہن میں رکھا ہوا ہے کہ آپ کو اس میں کچھ ذوق و شوق حاصل ہو گا تو آپ نے غلطی کی کہ آپ نے مجھ سے بیعت کر لی۔ آپ مجھ سے پہلے ہی پوچھ لیتے کہ میں ان چیزوں کے لئے ذمہ دار ہوں یا نہیں؟ میں آپ کے لئے انتظام کروں گا یا نہیں؟ ہمارے ہاں ان چیزوں کا انتظام نہیں ہے۔ آپ ابھی بھی اپنی رائے بدل سکتے ہیں۔ آ گے یہی فرماتے ہیں۔

متن:

ذکر میں جس قدر بھی مشقت ہو بہتر ہے۔ پنج وقتی نماز ادا کر کے باقی اوقات کا ذکرِ الٰہی جل شانہ کے ساتھ معمور رکھیں اور ذکر سے لذت حاصل کرنے کے پیچھے نہ پڑیں، اور آپ کی خدمت کو غنیمت جان کر آپ کی رضا جوئی میں مشغول رہیں، اور آپ کو بھی لازم ہے کہ ان کے پاس اکثر جایا کریں اور بہت نرمی و محبت سے ان کو اپنی طرف مائل کریں اور نیکیوں کی طرف رہنمائی کریں۔ والسّلام

تشریح:

حضرت نے کتنے زبردست انداز میں اس بات کو بیان فرمایا ہے کہ نفلی اعمال براہِ راست اللہ کے تعلق کو حاصل کرنے والے اعمال ہیں۔ ان کا دار و مدار بھی ذکرِ علاجی پر ہے۔ آج کل اسی چیز کو یہ سمجھ کر نکال دیا گیا ہے کہ اس کی ضرورت نہیں ہے، لوگ اس بارے میں غفلت کی طرف مائل ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ان چیزوں کی کوئی ضرورت نہیں۔ کبھی کبھی خواتین مجھے فون کرتی ہیں یا مسیج بھیجتی ہیں کہ تیسرا کلمہ، درود شریف، استغفار والا ذکر تو با قاعدگی سے ہو رہا ہے لیکن مراقبہ نہیں ہو رہا۔ میں ان سے کہتا ہوں کہ آخر شیطان آپ کو مراقبہ لئے اتنی آسانی سے کیسے چھوڑے گا؟ اس کو پتا ہے کہ آپ شیطان کے چنگل سے اسی کے ذریعے بچیں گی۔ اس لئے اس نے سارا زور اس پہ لگانا ہے کہ آپ مراقبہ نہ کریں، باقی کام آپ چاہے جتنے زیادہ کر لیں، اسے کوئی مسئلہ نہیں۔ قرآن پاک کی تلاوت بے شک اتنی کر لیں کہ دن میں دو قران پاک ختم کر لیں، ایک لاکھ مرتبہ لَا اِلٰهَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہ پڑھ لیں، درود شریف پڑھ لیں، شیطان کو اسے ضائع کرنے کا طریقہ آتا ہے۔ آپ کے دل میں عُجب ڈال دے گا کہ میں نے اتنا ذکر کر لیا، لیکن ذکر علاجی سے آپ کو روکے گا کیونکہ اس سے آپ کا تعلق اللہ کے ساتھ بنتا ہے اور دل کی صفائی ہوتی ہے۔

حضرت نے اس میں ایک اور بات ”ذکر نفی و اثبات“ کے متعلق بھی فرمائی ہے، ذکر نفی و اثبات کیا ہے؟ نفی و اثبات کے ذکر پہ حضرت کے کئی مکتوبات شریف ہیں، نفی و اثبات سے مراد یہ ہے کہ نفس کے شر کو اپنے آپ سے دور کرنا، دنیا کی محبت کو دل سے نکالنا۔ لَآ اِلٰهَ“ نفی کہلاتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کے تعلق کو حاصل کرنا اور تقوی پیدا کرنا، یہ ”اِلَّا اللہ“ ہے۔ بنیادی چیزیں یہی دو ہیں۔ یہ دو دو کی جوڑیاں ہیں، جیسے نور و ظلمت کی جوڑی ہے اسی طرح فجور و تقوی کی جوڑی ہے۔ آپ فجور کو ختم کر دیں اور تقوی کو پیدا کر لیں۔ ظلمت کو دور کر لیں اور نور کو پیدا کر لیں۔ ظلمت کو ”لَآ اِلٰه“ سے دور کیا جاتا ہے اور ”اِلَّا اللہ“ سے نور کو لایا جاتا ہے۔

سبق کا تکرار

دفتر اول کے مکتوب نمبر 146 میں حضرت ارشاد فرماتے ہیں:

متن:

وہ سبق جو آپ نے حاصل کیا تھا اس کے تکرار سے اپنے وقت کو معمور رکھیں اور فرصت کو ضائع نہ کریں ایسا نہ ہو کہ دنیائے فانی کا کر و فر آپ کو بھٹکا دے اور چند روزہ کی شان و شوکت آپ کو بے مزہ کر دے۔ بیت

ہمہ اندر زمن بتو اینست

کہ توطفلے و خانہ رنگین است

بس یہی ایک نصیحت تجھے تو ہے ناداں، زمانہ ہے رنگیں۔

تشریح:

یعنی کہ انسان بھول جاتا ہے، ان چیزوں کے پیچھے پڑ جاتا ہے اور یہ چیزیں بہت زیادہ ہیں۔ وہ آپ کو اپنے آپ کی طرف مائل کرنے کے لئے کافی چیزیں لئے ہوئے ہیں۔ کسی نے کہا ہے:

اس دل کے ٹکڑے ہزار ہوئے

کوئی یہاں گرا کوئی وہاں گرا

یعنی دنیا کی چاہت کی چیزیں بہت زیادہ ہیں، کوئی کسی طرف گیا اور کوئی کسی طرف گیا، ان تمام سے اپنے آپ کو بچانا ہے۔

متن:

یہ کس قدر بڑی نعمت ہے کہ حضرت حق سبحانہ و تعالیٰ اپنے کسی بندے کو عنفوانِ شباب (جوانی) میں توبہ کی توفیق عطا کر دے اور اس پر استقامت بخشے۔ کہہ سکتے ہیں کہ تمام دنیا کی نعمتیں اس نعمت کے مقابلے میں ایسی ہیں جیسا کہ دریائے عمیق کے مقابلے میں شبنم کا قطرہ۔ کیونکہ وہ نعمت حق تعالیٰ سبحانہ کی رضا مندی کا موجب ہے جو کہ تمام دنیوی و اخروی نعمتوں سے بڑھ کر ہے ﴿وَ رِضْوَانُ مِّنَ اللّٰہِ اَکْبَرُ(اتوبة: 72)

ترجمہ: ”اور اللہ کی طرف سے خوشنودی تو سب سے بڑی چیز ہے۔“

اور سلام ہو اس پر جو ہدایت کی پیروی کرے اور حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی متابعت کو اپنے اوپر لازم کر لے۔

تشریح:

کہتے ہیں:

در جوانی توبہ کردن شیوۂ پیغمبریست

وقت پیری گرگ ظالم میشود پرہیز گار

یعنی جوانی کے اندر توبہ کرنا پیغمبری کا طریقہ ہے۔ چنے ہوئے لوگ ایسا کرتے ہیں، بڑھاپے میں تو بھیڑیا بھی پرہیز گار بن جاتا ہے۔ جوانی میں اگر انسان کو اپنے نفس کے شر سے بچنا نصیب ہو جائے تو یہ بہت بڑی بات ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو نصیب فرما دے۔

اگلا موضوع ”حضرات خواجگان نقشبندیہ کے نزدیک یاد داشت کے معنی“ کے بارے میں ہے۔ اصل میں ہر گروہ کی کچھ اپنی اصطلاحات ہوتی ہیں۔ جیسے دوازدہ تسبیح (بارہ تسبیح) چشتی حضرات کے نزدیک ایک اصطلاح ہے۔ چشتی حضرات کے سامنے اگر آپ دوازدہ تسبیح کہہ دیں گے تو وہ فورًا سمجھ جائیں گے کہ اس کا مطلب بارہ تسبیح ہے۔ اسی طرح نقشبندی حضرات سے اگر آپ نسبت یاد داشت کا تذکرہ کریں تو ان کو پتہ ہوتا ہے کہ نسبت یاد داشت کیا چیز ہے؟ اگر کسی نقشبندی کو نہیں پتا تو یہ اس کی کمزوری ہے کہ وہ اپنے طریقہ کو نہیں جانتا۔

متن:

دفتر اول مکتوب نمبر 151 میں حضرات خواجگان نقشبندیہ کے نزدیک یاد داشت کے معنی کے متعلق ارشاد فرماتے ہیں:

خواجگانِ نقشبندیہ قدس اللہ تعالیٰ اسرارہم کے طریقے کی فضیلت و بزرگی اور یاد داشت کے معنی کے بیان میں جو ان بزرگوں کے ساتھ مخصوص ہے۔

از ہر چہ میرد و سخن دوست خوشتراست

دوست کی بات کہیں سے ہو بہت اچھی ہے۔

حضرات خواجگان قدس اللہ تعالی اسرارہم کے طریقے میں یاد داشت سے مراد حضورِ بے غیبت ہے۔

تشریح:

یعنی اللہ کی یاد میں انقطاع (discontinuity) نہیں ہوتا۔ ایسا نہیں ہوتا کہ کبھی یاد ہے، کبھی نہیں ہے۔ یاد داشت کا معنیٰ ”مسلسل یاد رکھنا“ ہے۔ یاد داشتن: یاد رکھنا، یاد داشت: یاد رکھا ہوا، یہ نقشبندی حضرات کی ایک اصطلاح ہے اور واقعتاً یہ بہت بڑی نسبت ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو نصیب فرمائے۔

متن:

یعنی شیونی و اعتباراتی حجابات درمیان میں حائل ہوئے بغیر حضرت ذات تعالیٰ و تقدس کا دائمی حضور حاصل ہو ۔

تشریح:

کبھی اس میں غیبت نہ آئے، یہ یاد داشت ہے۔

متن:

(اس کو یاد داشت کہتے ہیں) اور اگر کبھی حضور ہو کبھی غیبت، یعنی کبھی تو سب کے سب پردے اٹھ جائیں اور کبھی درمیان میں حائل ہو جائیں جیسا کہ تجلی ذاتی برقی میں ہوتا ہے کہ برق کی طرح تمام پردے حضرت حق تعالی کے سامنے سے مرتفع (اٹھ) ہو جاتے ہیں اور پھر جلد ہی شیون و اعتبارات کے پردے چھا جاتے ہیں۔ پس ایسا حضور ان بزرگوں کے نزدیک مقامِ اعتبار سے ساقط ہے، لہذا حضور بے غیبت کا حاصل یہ ہوا کہ تجلی ذاتی برقی جو شیون و اعتبارات کے وسیلے کے بغیر حضرتِ ذات جل شانہ کے ظہور سے مراد ہے اور جو اس راہ کی انتہا میں میسر ہوتی ہے اور فنائے اکمل کو اسی مقام میں ثابت کرتے ہیں وہ بھی دائمی ہو جائے اور حجابات ہرگز رجوع نہ ہوں، اور اگر (حجابات) رجوع کریں تو حضور غیبت سے بدل جائے گا اور اس کو یاد داشت نہ کہیں گے لہذا ثابت ہوا کہ ان اکابر کا شہود اتم و اکمل طریقے پر ہے اور فنا کا اکمل و بقا کا اتم ہونا شہود کے اتم و اکمل ہونے کے اندازے کے مطابق ہے۔


قیاس کن زگلستانِ من بہارِ مرا

چمن کو دیکھ کے اس کی بہار کو سمجھو۔

تشریح:

میں پہلے بھی اس پر کافی عرض کر چکا ہوں۔ الحمد للہ ہمارا طریقہ جمعِ سلاسل کا طریقہ ہے۔ اس پر تمام سلاسل کو اکٹھا کیا گیا ہے۔ ہم الحمد للہ تمام سلاسل کی بات کرتے ہیں۔ جیسے امام ابوحنیفہ رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ آدمی یقین کے ساتھ کہے کہ میں مومن ہوں، ان شاء اللہ ساتھ نہ کہے۔ اگر کوئی کہے کہ ان شاء اللہ میں مومن ہوں تو یہ ٹھیک نہیں ہے کیونکہ ایمان کسی وقت بھی منقطع نہیں ہو سکتا۔ ایمان میں شک نہیں ہو سکتا اور ان شاء اللہ کا لفظ شک کے لئے آتا ہے، اس وجہ سے یہ ٹھیک نہیں ہے۔ امام شافعی رحمة اللہ علیہ اور کچھ حضرات فرماتے ہیں کہ ”ان شاء اللہ میں مومن ہوں“ یہ کہنا اس لئے ضروری ہے کہ آخری حالت کا کیا پتا؟ خود حضرت مجدد صاحب رحمة اللہ علیہ بھی چونکہ حنفی ہیں تو عقائد کے باب میں حضرت بیان کر چکے ہیں کہ ان شاء اللہ نہیں کہہ سکتے کیونکہ شک کا پہلو رکھتا ہے۔ یہ کچھ Technical details ہوتی ہیں۔ یہ مسئلہ بھی اسی طرح ہے کہ آیا مستقل طور پر تجلی ذاتی کا ظہور دائمی ہو سکتا ہے یا نہیں؟ نقشبندی حضرات کہتے ہیں کہ ہو سکتا ہے اور کچھ حضرات کہتے ہیں کہ ایسا ہو ہی نہیں سکتا کیونکہ اس کو کوئی برداشت نہیں کر سکتا۔

حضرت تھانوی رحمة الله عليه فرماتے ہیں:

گر نیست غیبتے نہ دہد لذت حضور

اگر غیبت نہ ہو تو حضور کی لذت کہاں ملے گی؟ رات نہیں ہو گی تو دن کی قدر کیسے ہو گی؟ ﴿وَجَعَلنَا الَّيلَ لِباسًا 0 وَّجَعَلْنَا النَّهارَ مَعَاشًا﴾ (النّباء: 10-11)

ترجمہ: ”اور رات کو پردے کا سبب ہم نے بنایا، اور دن کو روزی حاصل کرنے کا وقت ہم نے قرار دیا۔“

اس وجہ سے عملی طور ایسا ہو جاتا ہے کہ کبھی استتار ہوتا ہے، کبھی ظہور ہوتا ہے اور کبھی حضور ہوتا ہے۔

یہ مسئلہ اختلافی ہے، لہذا ہم اس میں نہیں پڑتے، کیونکہ ہمارے لئے دونوں ٹھیک ہیں، صرف تشریح کا فرق ہے۔ اگر کسی کو دائمی ہو جائے تو سبحان اللہ کس نے روکا ہے؟ لیکن بہرحال یہ احوال ہیں اور احوال تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ واقعتاً آدمی مکمل حضور برداشت نہیں کر سکتا، الله جل شانهٗ کی طرف سے انتظام ہوتا ہے کہ کسی کو کتنا رکھتے ہیں، کسی کو کتنا رکھتے ہیں۔ چونکہ نقشبندی حضرات کے اپنے تجربات ہیں اس لئے وہ اس قسم کی بات ارشاد فرماتے ہیں۔

متن:

دفتر اول کے مکتوب نمبر 187 میں مرید کے لئے رابطہ ذکر سے زیادہ مفید ہے کے بارے میں ارشاد فرماتے ہیں:

جاننا چاہیے کہ مرید کو تکلف اور بناوٹ کے بغیر اپنے شیخ (پیر) کے ساتھ رابطہ حاصل ہونا پیر اور مرید کے درمیان اس کامل مناسبت کی علامت ہے جو افادہ و استفادہ (فائدہ پہنچانے اور فائدہ حاصل کرنے) کا سبب ہے اور وصول الی اللہ کے لئے رابطہ سے زیادہ اقرب ترین طریق کوئی نہیں ہے، دیکھیں کس دولت مند کو اس سعادت سے بہرہ مند کرتے ہیں۔ حضرت خواجہ احرار قدس اللہ تعالیٰ سرہ العزیز "فقرات" میں تحریر فرماتے ہیں کہ

عـ

سایہ رہبر بہ است از ذکر حق

صحبت شیخ ذکر سے بہتر۔

اس کو بہتر کہنا نفع کے اعتبار سے ہے۔ یعنی رہبر کا سایہ مرید کے لئے ذکر کرنے سے زیادہ فائدہ مند ہے کیونکہ (ابتدا میں) مرید کو ابھی مذکور (حق جل و علا) کے ساتھ کامل مناسبت حاصل نہیں ہے کہ (جس سے) وہ ذکر کے طریق سے پورا پورا نفع حاصل کرسکے، وَ السَّلَامُ اَوَّلًا وَّ آخِرًا۔

تشریح:

دودھ پینے والے بچے کو آپ روٹی نہیں کھلا سکتے۔ ابتداءً وہ دودھ ہی پئے گا، دودھ پر ہی چلے گا، اسی دودھ کے ذریعے سے اس کو اتنی قوت حاصل ہو جائے گی کہ ایک وقت پہ وہ روٹی بھی کھا سکے گا۔ اسی طرح سالک بھی ابتدا میں اپنے شیخ پر زیادہ dependant ہوتا ہے، ان کی صحبت سے زیادہ فائدہ اٹھاتا ہے۔ جن کو دور ہونے کی وجہ سے صحبت کا اثر نہیں ہوتا ان کو معمولات کا اثر ہوتا ہے، ان کو معمولات سے فائدہ ہوتا ہے۔ لیکن وہ اس صورت میں زیادہ فائدہ حاصل کرے گا جب پہلے اس نے صحبت اٹھائی ہو گی۔ حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے ہاں بھی نقشبندی حضرات کا یہی موقف راجح ہے کہ وہ صحبت کو زیادہ ضروری سمجھتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ ہماری نسبت، نسبتِ انعکاسی سے شروع ہوتی ہے۔ نسبتِ انعکاسی شیخ کی ہوتی ہے جس کے ذریعے طفلانِ طریقت کی تربیت ہوتی ہے۔

متن:

دفتر دوم کے مکتوب نمبر 30 میں حضرت نسبتِ رابطہ کی فضیلت بیان فرماتے ہیں۔

خواجہ محمد اشرف نے نسبت رابطہ (تصور شیخ) کی مشق کے بارے میں لکھا تھا کہ اس حد تک غالب ہو گئی ہے کہ نماز میں اس کو اپنا مسجود جانتا اور دیکھتا ہے اور اگر بالفرض اس کی نفی کرنا چاہے تو وہ رابطہ نفی نہیں ہوتا۔ اے محبت کے نشان والے! طالبان حق جل و علا اسی دولت کی تمنا کرتے ہیں مگر ہزاروں میں سے کسی ایک کو نصیب ہوتی ہے۔ اس کیفیت والا شخص صاحب استعداد اور کامل مناسبت والا ہوتا ہے۔ اور ہو سکتا ہے کہ وہ شیخ مقتدا کی تھوڑی سی صحبت سے اس کے تمام کمالات کو جذب کر لے اور رابطہ (شیخ) کی نفی کی کیا ضرورت ہے کیونکہ وہ تو مسجود الیہ ہے نہ کہ مسجود لہ، محرابوں اور مسجدوں کی نفی کیوں نہیں کرتے۔ اس قسم کی دولت کا ظہور سعادت مندوں کو حاصل ہوتا ہے تاکہ وہ تمام احوال میں صاحب رابطہ (مرشد) کو اپنا وسیلہ جانیں اور تمام اوقات میں اسی کی طرف متوجہ رہیں نہ کہ ان بد بخت لوگوں کی طرح جو اپنے آپ کو مستغنی (رابطہ شیخ سے بے نیاز) جانتے ہیں اور اپنی توجہ کے قبلہ کو اپنے شیخ کی طرف سے ہٹا لیتے ہیں اور اپنے معاملے کو خراب کر لیتے ہیں۔ دوسرے یہ کہ آپ نے اپنے فرزندوں کی والدہ کی وفات کی خبر لکھی تھی اِنَّا لِلّٰهِ وَاِنَّـآ اِلَيۡهِ رٰجِعُوۡنَ فاتحہ پڑھی گئی اور دوران فاتحہ قبولیت کا اثر محسوس ہوا۔

مولانا حاجی محمد نے اظہار کیا تھا کہ تقریباً دو ماہ گزر گئے کہ (ذکر کی) مشغولی میں کچھ سستی و خرابی واقع ہو گئی ہے اور وہ ذوق و حلاوت جو پہلے حاصل تھا اب نہیں رہا۔ اے محبت کے نشان والے! اگر دو چیزوں میں فتور نہیں آیا تو پھر کچھ غم نہیں، (1) ان میں سے ایک یہ کہ صاحب شریعت علیہ وعلٰی آلہ الصلوات والتسلیمات والتحیات کی متابعت ہے۔ (2) دوسری اپنے شیخ کے ساتھ محبت و اخلاص۔ ان دونوں چیزوں کے ہوتے ہوئے اگر ہزاروں ظلمتیں اور کدورتیں (قلب پر) طاری ہو جائیں تو کچھ مضائقہ نہیں۔ (انجام کے اعتبار سے) اس کو ضائع نہیں ہونے دیں گے۔ اور اگر نعوذ باللہ ان دونوں میں سے کسی ایک میں بھی نقصان پیدا ہو جائے تو پھر خرابی ہی خرابی ہے۔ اگرچہ حضور و جمعیت حاصل ہو، کیونکہ یہ استدراج ہے جس کا انجام خرابی ہے۔ حق سبحانہ و تعالیٰ سے بڑی عاجزی و زاری کے ساتھ ان دونوں پر ثابت قدمی و استقامت طلب کرتے رہیں کیونکہ یہی دونوں امر اصل مقصود اور نجات کا مدار ہیں۔

تشریح:

یہ بہت اہم مکتوب شریف ہے اور میرے خیال میں اگر آج سارا بیان صرف اسی پر ہو تو بھی غلط نہیں ہو گا۔ کیونکہ یہ بہت اہم چیز ہے اور اگر اچھی طرح سمجھ نہ آئے تو اس میں غلطی کا امکان بہت زیادہ ہے۔

سب سے پہلے رابطہ کے بارے میں سمجھیں۔ ”رابطہ“ بھی نقشبندی حضرات کی ایک اصطلاح ہے، اس سے مراد شیخ کا تصور ہے۔ یعنی ”تصورِ شیخ“ اتنا چھا جائے کہ سالک کو ہر وقت یہ حاصل ہو۔

حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ لوگ اس نعمت کی تمنا کرتے ہیں، لیکن نہیں ملا کرتی اور جس کو مل جائے تو اس کی بہت جلدی ترقی ہوتی ہے۔

حضرت جلالی انداز میں یہ بات فرما رہے ہیں کہ شیخ اللہ تعالیٰ کی طرف رخ کروانے والا ہوتا ہے، یہ نہیں کہ اللہ کے لئے حجاب ہوتا ہے۔ اگر آپ کہتے ہیں کہ میں شیخ کی طرف سجدہ کر رہا ہوں تو خدا کے بندے کبھی آپ نے سوچا ہے کہ میں منبر کی طرف سجدہ کر رہا ہوں یا دیوار کی طرف سجدہ کر رہا ہوں؟ جیسے کبھی آپ نے وہاں یہ نہیں سوچا تو یہاں کیوں سوچتے ہو؟ آپ دیوار کو سجدہ نہیں کر رہے، آپ کا تصور اللہ تعالیٰ کی طرف ہے، آپ اللہ تعالیٰ کو سجدہ کر رہے ہیں۔ اگر آپ نے قبلہ کے لئے کوئی نشان رکھا ہوا ہے اور آپ اس نشان کی طرف سجدہ کر رہے ہیں، تو بنیادی طور آپ اللہ کے لئے ہی سجدہ کر رہے ہیں، اگر وہی نشان آپ کا شیخ ہو تو اس میں کیا خرابی ہے؟

حضرت نے اس بات کی یوں وضاحت کی ہے کہ ہم لوگوں کو چونکہ سب کچھ شیخ کے ذریعہ سے ملتا ہے، لہٰذا شیخ کی طرف ہمارا قلبی تعلق جتنا زیادہ سے زیادہ تصور میں ہو گا، اتنا زیادہ فائدہ حاصل ہو گا۔

یہ تصور خود بخود ہو تو ٹھیک ہے بہ تکلف نہیں کروانا چاہیے۔ اسی لئے حضرت نے فرمایا کہ کسی کسی کو ملتا ہے۔ اگر بہ تکلف کروانے سے مل جاتا ہو تو ہر ایک آدمی اس کی کوشش کرتا۔ لیکن جو خود بخود ہوتا ہے وہ محبت کی وجہ سے ہوتا ہے، اگر کسی کو شیخ کے ساتھ اتنی محبت ہو جائے تو ظاہر ہے اس کو اس کا فائدہ زیادہ ہو گا۔ اگر ہر وقت شیخ کا خیال رہے، تو اس محبت کی وجہ سے فائدہ ہوتا ہے، کیونکہ شیخ کے ساتھ محبت انسان کو باقی چیزوں سے روک دے گی۔

مثلاً ایک آدمی سینما کے شوق کی وجہ سے سینما کی طرف جانا چاہتا ہے، لیکن اس ڈر سے سینما نہیں جا رہا کہ سینما جاؤں گا تو شیخ ناراض ہو جائے گا۔ کیا خیال ہے یہ اچھی بات ہے یا بری بات ہے؟ ظاہر ہے اچھی بات ہے، کیونکہ شیخ کی محبت کی وجہ سے گناہ سے بچ گیا۔ اب اگر شیخ کی اس محبت میں کمزوری ہے اور آدمی شیخ کے لئے سینما کو نہ چھوڑ سکے تو اس کا مطلب ہے کہ اس کو وہ فائدہ نہیں ہو رہا۔

بنیادی مقصد تو یہ ہے کہ انسان اللہ کے لئے سب کچھ چھوڑے، لیکن اللہ تعالی کی ذات وراء الوراء ہے وہ تو بعد میں آپ کو حاصل ہو گی۔ اس کے لئے اپنے شیخ کو چن لیا تو اس نیت کی وجہ سے اب آپ کے سارے کام اللہ کے لئے ہو گئے اور آپ شیخ کے لئے ساری چیزیں چھوڑ رہے ہیں۔ در اصل اللہ کے لئے ہی آپ نے ساری چیزیں چھوڑیں، اس کو Transition property کہتے ہیں۔

If a = b and b = c then a = c

یہی Transition property ہے۔ آپ نے شیخ کو کس کے لئے چنا؟ اللہ کے لئے۔ اب شیخ کے ساتھ جو متعلقات ہیں، وہ سارے اللہ کے لئے ہو جائیں گے۔ شیخ کے لئے جو چیز چھوڑیں گے وہ آپ اللہ کے لئے چھوڑ رہے ہیں۔ اسی کو فنا فی الشیخ کہتے ہیں۔ کسی طریقے سے اپنے نفس سے نکلو، جب تک آپ نفس سے نہیں نکلیں گے تو نفس آپ کے ساتھ کھیلے گا اور آپ کو پچھاڑ دے گا۔ آپ کو نفس سے بچنے کے لئے ایک مضبوط سہارے کی ضرورت ہے، وہ مضبوط سہارا سب سے پہلے شیخ ہے۔ اگر آپ کا شیخ سے تعلق مضبوط نہیں ہے تو نفس آپ پر حاوی ہو جائے گا۔

نفس کی کشش ہر وقت ہوتی ہے، آپ کے پاس اس کشش سے بچنے کے لئے اسی کے برابر لیکن مخالف سمت میں طاقت (Equal and opposite force) کہتے ہیں ہر وقت ہونا ضروری ہے۔ وہ طاقت اگر آپ کو شیخ کی محبت کی صورت میں مل جائے تو پھر آپ نفس کے شر سے ہر وقت بچ سکیں گے۔ اس طریقہ سے فنا فی الشیخ مقصود تک پہنچاتا ہے۔ فنا فی الشیخ وہ ہوتا ہے جو اپنے نفس کی ہر چیز کو اپنے شیخ کی محبت کی وجہ سے چھوڑ دے۔ جب یہ چیز حاصل کر لے تو اس کو صفائی حاصل ہو گئی اور جب نفس کی صفائی حاصل ہو گئی پھر اس کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر ڈالیں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر چل پڑے گا تو اللہ تعالیٰ کی طرف چلا جائے گا۔ چنانچہ فنا فی الشیخ، فنا فی الرسول، فنا فی اللہ ہو جائے گا۔ یہ Step by step theory ہے کہ پہلے آپ شیخ کے ذریعہ سے اپنے آپ کو نفس کے شکنجہ سے چھڑا لیں، پھر ما شاء اللہ آپ آگے چلتے جائیں گے۔

سلوک طے کرنے کا راستہ کیا ہے؟ سلوک طے کرنے کا راستہ یہی نفس کی مخالفت ہے۔ آپ کا نفس آپ کو اپنی مخالفت بالکل نہیں کرنے دے گا۔ پھر سلوک کیسے طے ہو گا؟ اس کے لئے نفس سے اوپر کی کوئی چیز ہونی چاہیے۔ مثلاً شیخ آپ کو کہہ دے کہ روزے رکھو۔ نفس کہتا ہے: نہیں رکھو۔ اگر آپ کا شیخ کے ساتھ تعلق ہو گا تو رکھ لیں گے تو اس کا فائدہ حاصل ہو جائے گا۔ نفس کہتا ہے: موبائل کے اندر گندی چیزیں دیکھو۔ شیخ آپ کو کہتا ہے موبائل مجھے دے دو۔ اب اگر آپ شیخ کے ساتھ محبت کرتے ہیں اور آپ کا معاملہ اخلاص کا ہے تو آپ بہت آسانی کے ساتھ موبائل دے دیں گے تو بچ گئے اور اگر شیخ کے ساتھ محبت نہیں ہے تو نہیں بچ سکتے۔ یوں سمجھ لیجئے کہ This is the key point۔ یہ اہم نقطہ (Key point) ہے، اس کے بغیر چھٹکارا نہیں ہو سکتا۔

تصوف کے اندر مقصود اللہ تعالیٰ کا تعلق اور رضا ہے، جس کے لئے صحیح عقیدہ کے ساتھ شریعت کا اتباع ہے جس کو حاصل کرنے کے لئے سب سے بڑا ذریعہ شیخ ہے، اس لئے فرمایا کہ شیخ کی صحبت ذکر سے بھی زیادہ بہتر ہے کیونکہ سب سے اہم ذریعہ وہی ہے۔ ذکر بھی تو شیخ ہی بتائے گا، اگر ذکر اس سے بہتر ہوتا تو شیخ کی ضرورت ہی کیا تھی؟ پھر صرف ذکر ہی پہ اکتفا کر لیتے۔ یہ ساری باتیں technical ہیں اور technically ان کو سمجھنا ہوتا ہے۔

آ گے جا کر حضرت ایک اور بات ارشاد فرما رہے ہیں کہ اصل چیز شریعت کی اتباع اور شیخ کے ساتھ محبت و اخلاص ہے۔ اگر آپ کا شریعت پر اتباع قائم ہے اور شیخ کے ساتھ آپ کو محبت و اخلاص ہے پھر جتنی بھی ظلمتیں اور کدورتیں ہیں وہ عارضی ہیں، ختم ہو جائیں گی۔ چونکہ رستہ موجود ہے لہٰذا یہ ختم ہو جائیں گی۔ اور اگر یہ دو چیزیں (اتباع شریعت اور شیخ کے ساتھ اخلاص و محبت) نہیں ہیں تو بے شک آپ کو انوارات و تجلیات اور اس قسم کی بظاہر بہت ساری چیزیں حاصل ہوں، یہ سب استدراج کی صورتیں ہیں۔ یہ آپ کو شیخ سے ہٹانے کے لئے ہیں، پھر اس (شیطان) کے لئے کوئی مشکل نہیں ہے۔

ایک صاحبِ کشف ہمارے ساتھ حج پہ تھے، انہوں نے خود اپنا واقعہ بیان کیا۔ مجھ سے کہا کہ فلاں صاحب عمرے پہ جا رہے ہیں۔ ہمارا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ عمرہ اخیر میں کرتے ہیں، اس میں فائدہ ہوتا ہے، کیونکہ رش بھی کم ہوتا ہے اور جو پہلے جانے والے ہیں، ان کو وقت بھی مل جاتا ہے۔ مثال کے طور پر جن کو جلدی واپس جانا ہے، اگر آپ بھی ان کے ساتھ شامل ہو جائیں تو ان کے لئے رکاوٹ بن جائے گی۔ آپ کے پاس تو ابھی دن ہیں، آپ اخیر وقت میں کر لیں۔ ان کو اپنے وقت میں موقع مل جائے گا اور آپ کو اپنے وقت میں موقع مل جائے گا۔ اس میں ایک نظم و ضبط ہے۔ ہم اس بنیاد پر حج کے بعد اخیر میں عمرہ کرتے ہیں۔ اسی طرح روضہ اقدس پہ ریاض الجنۃ میں ہماری حاضری ہوتی ہے، وہ بھی اخیر میں کرتے ہیں، باقی اوقات ہم مسجد نبوی میں نمازیں پڑھتے رہتے ہیں۔ کچھ لوگوں کو جلدی ہوتی ہے یا جلد بازی ہوتی ہے۔ ایک صاحب عمرہ پہ جا رہے تھے، انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ میں عمرے کے لئے ان کے ساتھ چلا جاؤں؟ مشورہ لینے والے دو طرح کے ہوتے ہیں، ایک وہ کہ جو فیصلہ خود کر لیں اور صرف کسی کی زبان سے بس ہاں سننا چاہتے ہیں اور ایک وہ کہ جو مشورہ دینے والے کے اوپر چھوڑ دیں کہ آپ فیصلہ کر لیں آپ جو چاہیں گے میں وہی کروں گا۔ اگر ہمیں پتا چل جائے کہ مشورہ مانگنے والا پہلی قسم کے لوگوں میں سے ہے تو پھر ہم اس کو کہتے ہیں: اچھا ٹھیک ہے کر لو۔ کیونکہ اس نے پہلے سے فیصلہ کیا ہوتا ہے، خواہ مخواہ ایک پریشانی کا باعث بن رہا ہوتا ہے۔ وہ صاحب بھی ایسے ہی تھے۔ جب مجھ سے پوچھا تو میں نے کہا: جاؤ۔ وہ چلے گئے۔ جب عمرہ کر لیا تو شام کو میں نے اس سے پوچھا: بھئی عمرہ ہو گیا؟ کہتا ہے: ہاں ہو گیا لیکن صرف ورزش ہی کی باقی کچھ نہیں کیا۔ پھر اس نے اپنی کیفیات بتائیں، وہ کیفیات بتانے کی بھی نہیں ہیں کہ وہ کیسی تھیں کیونکہ کشفی چیزیں ہیں۔ لیکن بہرحال اللہ پاک نے اس پر کھول دیا کہ یہ جو تونے کیا ہے اچھا نہیں کیا۔ مان کے چلتے تو فائدہ ہوتا۔ اس نے مجھے کہا کہ آئندہ میں ذرہ بھر بھی اپنے طور پہ کچھ نہیں کروں گا۔ میں توبہ کرتا ہوں۔ میں نے کہا: ٹھیک ہے ما شاء اللہ بہت اچھی بات ہے۔ کئی بار شیطان کی کوشش ہوتی ہے کہ کسی طریقے سے شیخ سے ہٹا دے۔ جس طرح خواب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صورت میں شیطان نہیں آ سکتا تو شیخ کی صورت میں بھی نہیں آ سکتا۔ شیطان کے لئے رکاوٹ ہے وہ اس رکاوٹ کو ہٹانا چاہتا ہے کیوں کہ جب شیخ سے تعلق نہیں ہو گا تو کٹ جائے گا۔ پھر میری مرضی ہے کہ میں اس کے ساتھ جو چاہے کروں۔ آدمی پھر اس کے ہاتھ میں چلا جاتا ہے۔ اس وجہ سے فرمایا کہ شریعت پر اتباع اور شیخ کے ساتھ محبت و اخلاص نہ ہونے کی صورت میں جو انوارات و تجلیات ہیں، یہ سب استدراج کی صورت ہے۔ اسے ڈھیل مل رہی ہے، یہ اصل چیز نہیں ہے۔

وَ مَا عَلَينَآ إلَّا البَلَاغ