توضیح المعارف قسط 14

توضیح المعارف قسط 14

فلسفہ سائنس اور معرفت الٰہی – نواں حصہ

بعض غلط تعبیروں کی اصلاح:

وحدت الوجود کے حال سے گذرنے والے عارفین نے اس کے بارے کچھ مبہم الفاظ اور اشارات و کنایات بھی استعمال کئے ہیں۔ ان کے بعد کچھ نام نہاد صوفی ایسے آئے جنہوں نے بغیر حقیقی حال کے حامل بنے، محض کتابی علم اور فلسفے کے مدد سے وحدت الوجود کو سمجھنے کی کوشش کی۔ نتیجتًا یہ لوگ بزرگوں سے منسوب ان مبہم الفاظ اور عبارات سے غلط مطلب لے کر خود بھی گمراہ ہوئے اور دوسرے سادہ لوح عوام کو بھی گمراہ کیا۔ انھوں نے ان مبہم عبارات کو لے کر وحدت الوجود کی ایسی تشریح کی جو اس حال سے گذرنے والے عارفین کی رائے سے بالکل متضاد تھی۔ مثلا ایسے لوگ اس دنیا کو تو ایک حقیقت مانتے ہیں۔ لیکن اللّٰہ تعالیٰ کے وجود کو محض ذہنی سمجھتے ہیں۔ جو کہ صریح کفر ہے۔ جبکہ وحدت الوجود والے حقیقی عارفین ان کے بالکل برعکس اللّٰہ تعالیٰ کے وجود کو حقیقی سمجھ کر اس دنیا کو عکس یا کالعدم سمجھتے ہیں۔

مثال کے طور پر وحدت الوجود کے بارےاس قسم کی کچھ عبارات سے یہ غلط تاثر لیا گیا کہ حق تعالیٰ صرف معقول ہے۔ اگر اکابر صوفیاء سے اس قسم کی بات ثابت ہو جائے تو اس کی صحیح تاویل یہ ہوسکتی ہے کہ "حق صرف معقول ہے" سے مراد ان کا یہ ہو کہ وجودِ منبسط سے حق تعالیٰ کی ذات اقدس پاک بالا و برتر ہے۔ یا مثال کے طور پر یہ عبارت کہ" وجود کے فاعل کے لئے وجود سے پہلے وجود واجب نہیں ہوتا" وجود سے قبل وجود کی نفی سے مراد بھی وجودِ منبسط سے ہوسکتا ہے نہ کہ حق تعالیٰ جو کہ وراء الوراء ذات (لَيْسَ كَمِثْلِهٖ شَيْءٌ) (الشوری: 11) ہے۔ خلاصه یہ کہ وحدت الوجود کے نام لیوا اور اس کا پرچار کرنے والے سارے حضرات کو ایک ہی لاٹھی سے نہیں ہانکنا چاہے، کیونکہ ان میں محققین صوفیاء بھی ہیں اور نام نہاد دانشور بھی، ہر ایک کی بات کو اس کے محل پر رکھنا چاہیے۔

خوش اعتقادوں کی توحید:

عوام میں بھی ایسے لوگ ہوتے ہیں جو ان وجودیہ بزرگوں سے محبت اور عقیدت رکھتے ہیں۔ اور ان کی باتیں وحدت الوجود کے بارے میں من و عن مانتے ہیں لیکن ان کو جانتے نہیں، بس صرف یہ ایک اجمالی سوچ قائم کر لیتے ہیں کہ یہ جو کائنات میں ہمیں کثرت نظر آرہی ہے، یہ سب نظر کا دھوکہ ہے۔ یہ عقیدہ بھی خطرناک ہے کیونکہ یہ شریعت کے احکام کے انکار تک پہنچا سکتا ہے۔ جو کہ سب کثرت پر مبنی ہیں۔ حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے مکتوبات میں جو وحدت الوجود کی شدت سے مخالفت کی ہے، وہاں ان کے پیش نظر موخر الذکر دو گروہ یعنی فلسفی اور وجودیہ صوفیاء اور جاہل عوام ہوتے ہیں۔

اسی طرح صوفیاء کرام کی شاعری میں عام طور پر حبّ الہی کو ابھارنے والی کچھ ایسی تعبیرات پائی جاتی ہیں مثلاً اللہ تعالیٰ کی نزدیکی، اس کو دیکھنا، اس کا ہمارے ہر طرف موجود ہونا وغیرہ۔ اس طرح کی باتوں کو صحیح تناظر یا context میں سمجھنے کی ضرورت ہے، جس کے لیے یہ کتاب مفید ہے۔ کیونکہ اس کتاب سے تشبیہ اور تنزیہ دونوں کو سمجھا جا سکتا ہے۔ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے (وَمَا خَلَقْتَ ھٰذَا باطِلاً) (آل عمران:191) اور (سُبْحَانَکَ) کو ساتھ ساتھ جمع فرمایا ہے اس لئے ان کثرتوں کا ثبات اور حق تعالیٰ کی تنزیہہ جس پر پوری شریعت مبنی ہے، دونوں کا حامل ہونا ضروری ہے۔


خالق قیوم کے تعلق کی نوعیت اپنے مخلوقات کے ساتھ:

اللہ تعالیٰ کی اپنی مخلوقات میں سے ہر ہر مخلوق سے بے انتہا نزدیکی اور قرب بلا واسطہ (direct) ہے یعنی خالق اور مخلوق کے درمیان کوئی دوسری چیز حائل نہیں اور یہ نزدیکی اور قرب مخلوقات کا اللہ تعالیٰ پر اپنی بے انتہا انحصار (dependency) کی وجہ سے ہے۔ جس کو قیومیت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ ہم ہر حال میں، پر وقت بلکہ ہر لمحے میں اپنے خالق کی مرضی پر منحصر (dependent) ہیں۔

لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ہم نزدیکی کے مفہوم کو ایک ہی موطن (domain) میں دیکھنے اور سمجھنے کے عادی ہیں۔ ہمارے نزدیک مثلاً دو چیزیں میز اور کرسی اگر نزدیک ہیں تو دونوں کی نزدیکی کو ماپا جاسکتا ہے کہ یہ کتنے سینٹی میٹر یا ملی میٹر قریب ہیں۔ اسی طرح یہی دو چیزیں قریب ہوتے ہوتے ایک دوسرے سے مل بھی سکتی ہیں۔

لیکن اللہ تعالیٰ کی اپنے مخلوقات سے نزدیکی ایسی نزدیکی نہیں ہے۔ کیونکہ خالق اور مخلوق مختلف مواطن (domains) میں ہیں جس کی وجہ سے حق ہمارے لئے وراء الورا ہے۔ اس تک رسائی ہمارے لیے ممکن نہیں جیسا کہ موسیٰ علیہ السلام سے فرمایا گیا کہ (لَنْ تَرانی) (الاعراف: 143) ترجمہ: "تم مجھے ہرگز نہیں دیکھ سکو گے"

چیزوں کا دوسری چیزوں پر مکمل انحصار کے باوجود مختلف domains میں ہونے کو درج ذیل مثالوں سے واضح کیا جاسکتا ہے۔ مثلاً آئینہ کا ایک وجود ہے۔ اس کو مَس (touch) کیا جاسکتا ہے۔ اور اس میں نظر آنے والی چیزیں کا ایک وجود ہے جن کو دیکھا تو جاسکتا ہے۔ لیکن ان کا آئینہ کی طرح مادی وجود نہیں ہے۔ ان کو مَس (touch) نہیں کیا جا سکتا۔ آئینہ اور اس کے اردگرد کی مادی چیزوں کا موطن (domain) اور ہے اور اس میں نظر آنے والے عکسوں کا موطن اور ہے۔ یہ عکس آئینہ پر منحصر تو اتنے ہیں کہ ایک سیکنڈ اس سے الگ ہوکر نہیں پائے جاسکتے۔ لیکن پھر بھی وجود کا موطن (domain) الگ ہونے کی وجہ سے یہ عکس کبھی بھی آئینہ کے سطح تک نہیں پہنچ سکتے۔ اسی طرح آئینہ سے اس کے اندر پائے جانے والے عکسوں کی نزدیکی کو بھی نہیں ماپا جاسکتا۔

یہی simulator والی مثال کو اگر دیکھا جائے اس میں جو ڈرائیونگ سیکھنے والا ہے وہ سکرین پر سب کچھ کررہا ہوتا ہے سکرین پر ہر چیز اس کی مرضی سے آتی ہے لیکن وہ چیزیں اس کو نہ دیکھ سکتی ہیں نہ چھو سکتی ہیں اس سے وہ اوٹ میں ہے۔

مخلوقات کے ساتھ خالق کی گوناگوں تعلقات و روابط کی تشریح:

اللہ تعالیٰ کی اپنی مخلوقات کے ساتھ بےشمار نسبتوں کو چار وسیع البنیاد (broad categories) میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔

1. ابداع:

اللہ تعالیٰ اپنی تمام مخلوقات کو تھامے ہوئے ہیں یعنی وہ ان سب کا قیوم ہے لیکن اس طرح سے کہ مخلوق اور خالق کے موطن (domain) الگ الگ ہیں۔اس کو ابداع کہتے ہیں۔ یہ نسبت اللہ تعالیٰ کو وجودِ منبسط یا نفس کلیہ کے ساتھ بھی ہے اور ظلال کے ساتھ بھی ہے۔ وجودِ منبسط کی مثال مادے کی سی ہے جس سے ظِلال بنتے ہیں۔ وجودِ منبسط کی تفصیل پہلے ہی سمجھائی گئی ہے۔

2. خلق:

یہ نسبت اللہ تعالیٰ کی صرف ظلال کے ساتھ ہے، وجودِ منبسط کے ساتھ نہیں ہے۔ ظلال اور وجودِ منبسط کو ایک مثال سے سمجھایا گیا تھا۔ ذیل میں اس کو دہرایا جاتا ہے:

مثلاً ایک carpenter ذہن میں ایک کرسی کا تصور بناتا ہے۔ پھر اس تصور کو سامنے رکھ کر وہ لکڑی پر مختلف کام (processes) کر کے آخر کار ایک کرسی بناتا ہے۔ اب جو کرسی لکڑی سے بنی ہے یہ اس ذہنی کرسی کی ظِل (shadow) ہے۔ اس ذہنی کرسی کو خارجی کرسی کی حقیقت کہتے ہیں۔ اور لکڑی کو ہم اس مثال میں اس کا وجودِ منبسط یعنی قیوم کہہ سکتے ہیں۔

مندرجہ بالا مثال سے سمجھا جاسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ وجودِ منبسط سے ظلال بناتے ہیں۔ جن ظلال کے حقائق علم الہٰی میں موجود ہوتے ہیں، لیکن یہ پیدا کرنا ایک لمحاتی عمل (one time measure) نہیں ہے بلکہ ایک مسلسل عمل ہے۔ ان ظلال کا دو طرفہ تعلق ایک وجودِ منبسط (مادہ) سے اور دوسرا اپنے حقائق سے جو علم الہٰی میں ہیں، اللہ تعالیٰ ہی مسلسل برقرار رکھتے ہیں۔ خالق اور مخلوق کے درمیان اس تعلق کو خلق کہتے ہیں۔

3. تدبیر:

کائنات میں جو ظلال کا وسیع نظام موجود ہے، اس کے حسن اور رونق کو بھی اللہ تعالیٰ مختلف تصرفات کے ذریعے سے قائم رکھتے ہیں۔ مثلاً کسی چیز کو بڑھا کر کسی دوسری چیز کو پیچھے کر کے وغیرہ۔ یہ کام بظاہر خودکار طریقے سے ہوتے نظر آتے ہیں مثلاً decaying (کسی چیز کے زوال پزیر ہونے) کا process وغیرہ، لیکن اصل میں اللہ تعالیٰ اپنے ارادے سے کائنات کے مجموعی حسن کو قائم رکھنے کے لیے ظلال میں رد و بدل کرتے ہیں۔ ظلال کے نظام میں اللہ تعالی کے اس تصرف کو تدبیر کہتے ہیں۔

4. تدلی:

اس ظلال کے نظام میں بعض ظلال کو اللہ تعالیٰ اپنی ذات کا عنوان بنا لیتے ہیں۔ ان کے ذریعے اللہ تعالیٰ کا قرب اور ہدایت حاصل ہوتی ہے۔ اس تصرف کو تدلی کہتے ہیں۔ اور ان ہی کو تجلیات کہتے ہیں۔ جس کی تفصیل آئندہ بیان ہوگی۔

علم فعلی ایک خوبصورت اصطلاح:

ایک انجینئر ایک ایسی چیز بنانا چاہتا ہے جو اس سے پہلے کبھی بھی نہ بنی ہو۔ اس کا کوئی نمونہ موجود نہ ہو۔ اس صورت میں سب سے پہلے وہ اپنے ذہن میں اس کو design کرے گا۔ مثلاً اس کی شکل کیسی ہو، اس کی لمبائی چوڑائی (dimensions) کیا ہوں، اس کی طاقت (strength) کتنی ہو، وغیرہ ۔پھر کوئی مواد (material) لے گا اور اس پر مختلف processes کرنے کے بعد بالآخر اس کے پاس تیار شدہ چیز (finished product) آجائے گی۔ یہ کسی چیز کا جو پہلے سے کبھی موجود نہ ہو، ذہن یا علم میں ڈیزائن کرنا علم فعلی یعنی کسی فعل کے لئے مطلوب علم کہلاتا ہے۔

اس ڈیزائن کا پہلا تعلق تو اس چیز کی صورت سے ہوتا ہے، جو سائنسدان کے ذہن میں آتا ہے۔ پھر یہ ڈیزائن اس چیز کے مادے کی خصوصیات (properties) کو استعمال کرتا ہے۔ ایسا original design صرف خالق حقیقی ہی کر سکتا ہے۔ کیونکہ سائنسدان جو بھی design کرتے ہیں، ان کے اردگرد اس کی نظیر یا مثال پہلے سے موجود ہوتی ہے۔ مثلاً پرندے اور مچھلیاں، جہاز اور sub marine جیسی جدید ایجادات کی بنیاد بنی۔

یہی وجہ ہے کہ عیسائی وغیرہ جب غیر مادی چیزوں مثلاً فرشتوں یا معراج کے سفر کی سواری براق وغیرہ کی تصویر جب اپنے فہم کے مطابق بنانا چاہیں تو مادی چیزوں مثلاً اڑنے والے پر اور انسان یا گھوڑے کی شکل ملا کر بنالیتے ہیں؛ کیونکہ ان کا تخیل ان موجودہ (existing) چیزوں سے بے نیاز نہیں رہ سکتا۔

ڈیزائن کی اہمیت:

تیار مصنوعات (Finished product) کی اہمیت تو سب کو معلوم ہے لیکن اس کے بننے کے بعد بھی ڈیزائن کی اہمیت جو باقی رہتی ہے، اس کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ وہ اس طرح کہ Finished product کتنا اچھا ہے؟ اس کا پتہ چلے گا اس بات سے کہ یہ ڈیزائن کے ساتھ کتنی مطابقت (matching) رکھتا ہے، آج کل بڑی کمپنیوں میں quality control وغیرہ میں یہی چیز چیک کی جاتی ہے کہ اصل (actual) اور مطلوبہ چیز (intended product) میں فرق کم سے کم ہو۔ اور تیار شدہ چیز (finished product) کی قیمت اسی لیے بڑھ جاتی ہے۔

احقر چونکہ stress analysis کی theory بھی پڑھاتا تھا اور اس کی laboratory میں practical implementation بھی کرواتا تھا۔ ایک ترک سائنسدان جو اس کی theory جانتا تھا لیکن اس کی lab کی اہمیت سے واقف نہ تھا۔ اس نے کہا کہ آپ لیبارٹری سے اس کا تجزیہ کیوں کرتے ہیں ہمارے پاس تو اس کے لئے بہترین سافٹ وئیر موجود ہے ہم اس کو اس کے ذریعے ڈیزائن کرتے ہیں۔ احقر چونکہ ان سافٹ وئیر سے واقف تھا اور جرمنی میں ان پر ہی تحقیق کی تھی تو اس کو یہ بات اس طرح سمجھائی کہ ڈیزائن کے لئے تو وہی سافٹ وئیر مفید ہے لیکن عملاً اس کا قابلِ اعتماد ہونا اس پر منحصر ہے کہ آیا یہ مطوبہ لوڈ برداشت کرسکے گا یا نہیں۔ اس کو جاننے کے لئے لیبارٹری میں اس کا stress analysis کے ذریعے دیکھنا ضروری ہے کیونکہ theory یا ڈیزائن کے وقت چونکہ اصل مواد (material) سامنے نہیں ہوتا اس لئے اس وقت کی assumed values پر calculation اور lab میں اصل میٹیریل سامنے آنے کے بعد حقیقی results مختلف ہوتے ہیں۔ تو اصل رزلٹ حاصل کرنے کے لیے پریکٹیکل لیب ضروری ہے تب اس کو یہ بات سمجھ آئی۔ مطلب یہ ہوا کہ design میں اور finished product یا theory اور پریکٹیکل میں فرق ناگزیر ہے۔

اس بحث کا لب لباب یہ ہوا کہ چیز بننے سے پہلے اس کے ذہنی نمونے کا محتاج ہے۔

ڈیزائن جو علم یا ذہن سے تعلق رکھتا ہے، اور finished product جو خارج میں موجود ہے، دونوں کی بات ہوئی۔ جبکہ اب صرف ذہن یا علم سے متعلق concepts بتائے جائیں گے۔ خارجی چیزوں کا اس میں ذکر نہیں ہوگا البتہ دو نئی اصطلاحات "واحد عقلی" اور "عالم عقلی" سمجھائی جائیں گی۔

میں نے ایک دفعہ یوں تصور کیا کہ میں بے انتہا دولت کا مالک ہوں۔ پھر تصور ہی میں اس دولت سے بہت سے خیراتی ادارے، ہسپتال، سکول، کالج اور سڑکیں بنائی۔ تصور میں یہ ادارے کام کرنے لگے اور لوگ فائدہ اٹھانے لگے۔ مزید تفصیلات کی یہاں ضرورت نہیں۔ لیکن اگر میں اس مثال میں اپنے تصور کے خیالی ماحول پر ہی focus کروں۔ اور میرے سامنے میرے تصور میں بنے سکول،کالج اور ہسپتال وغیرہ ہوں، تو یہ عالم عقلی یا لحاظی عالم کہلائے گا۔

دوسری طرف اگر ہم اس تصور کو اس زاویے (angle) سے دیکھیں کی یہ سارا تصور میرے ذہن میں ہے اور میرے ذہن میں ہی یہ سوچ یعنی thinking process ہو رہا ہے تو اس حیثیت سے یہ واحد عقلی کہلاے گا۔ اس صورت میں اس کی عارضی نہیں بلکہ ایک مستقل حیثیت ہوگی اور یہ عالم عقلی کا باعث ہوگا لئے اس کو فاطر اور عالمی عقلی کو مفطور کہہ سکتے ہیں (فاطر و مفطور کی اصطلاح پہلے سمجھائی گئی ہے)۔

آسان اور جدید مثال:

مثلاً ایک سافٹ وئر جو driving simulator کا ہے۔ وہ CPU میں 0،1 کی شکل میں موجود ہے۔ جب یہ سافٹ وئر چلتا ہے تو سکرین پر بہت سی گاڑیاں عمارتیں اور رکاوٹیں وغیرہ نظر آتی ہیں۔

اس مثال میں سافٹ وئر واحدِ عقلی ہوگا اور کمپیوٹر سکرین پر چلنے والے مناظر، گاڑیاں عمارتیں وغیرہ عالمِ عقلی کہلاے گا۔

جب ہم سکرین پر چلتی پھرتی گاڑیاں اور دوسری چیزیں دیکھتے ہیں تو ہمارے ذہن کے گوشے یا at the back of mind موجود ہوتا ہے کہ یہ سارا کچھ سافٹ وئر ہی ہے۔ جو کمپیوٹر کے CPU میں موجود ہے۔ لیکن یہ چیز اس وقت ہمارے لئے ثانوی حیثیت رکھتی ہے ۔ کیونکہ اس وقت ہم عالم عقلی پر focus کررہے ہوتے ہیں۔