مقاماتِ قطبیہ و مقالاتِ قدسیہ درس 22


اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

آج کل ہمارے ہاں حضرت کاکا صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ کے صاحبزادہ کی کتاب ’’مقاماتِ قطبیہ و مقالاتِ قدسیہ‘‘ سے تعلیم جاری ہے، جو فی الاصل حضرت کاکا صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ کی تعلیمات پر مبنی ہے۔ چونکہ سفر میں بھی اللّٰہ کا شکر ہے کہ یہ سلسلہ جاری تھا، اس وجہ سے ہمیں اس سے آگے پڑھنا ہے، لیکن سفر میں ہم لوگوں کو اتنا وقت نہیں ملا کرتا تھا کہ کما حقہٗ اس کی تفصیل ہو سکے۔ اس لئے اس کا ایک خلاصہ سا دوبارہ پیش کیا جاتا ہے، تاکہ اجمالی طور پر معلوم ہو جائے کہ اس میں کیا تھا۔ جیسا کہ میں نے ایک بیان میں عرض کیا تھا کہ اصل میں تو چار چیزیں ہیں: رسول اللّٰہ، کتاب اللّٰہ، کعبۃ اللّٰہ اور نماز۔ یہ چار چیزیں ایسی ہیں جن کے ذریعے سے انسان کا تعلق اللّٰہ جل شانہ کے ساتھ ہوتا ہے۔ چونکہ یہ اللّٰہ تک پہنچانے کے سب سے بڑے ذرائع ہیں، لہذا جو ان کے اندر جتنی گہرائی حاصل کرے گا، اتنا ہی وہ اللّٰہ جل شانہ کے قریب ہو گا۔ مثلاً: نماز کے بارے میں حدیث شریف میں آتا ہے کہ کسی کو دسواں حصہ ملتا ہے، کسی کو اس سے زیادہ، کسی کو آدھا ملتا ہے، یوں بتاتے بتاتے فرمایا کہ کسی کو پورا ملتا ہے۔ اجر تو اپنے لحاظ سے بہت اہم ہے، لیکن جس کو نماز کی حقیقت زیادہ حاصل ہو گی، وہ اس نماز سے روحانیت زیادہ حاصل کرے گا، اللّٰہ کا قرب زیادہ حاصل کرے گا۔ ﴿اَقِمِ الصَّلٰوةَ لِذِكْرِیْ﴾

(طٰہ: 14)

ترجمہ: ’’اور مجھے یاد رکھنے کے لئے نماز قائم کرو‘‘۔

لہٰذا اجر تو ملے گا، اجر میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ کیونکہ ذکر جتنا زیادہ ہو گا، اجر بھی زیادہ ہو گا۔ لیکن صرف اجر نہیں ہے، بلکہ اس کے ساتھ کچھ اور چیزیں بھی آتی ہیں، اور وہ ہے تعلق مع اللّٰہ۔ تعلق مع اللّٰہ جتنا زیادہ ہو گا، اس کا باقی اعمال پر بھی اثر ہو گا۔ اِس سے اُس آیتِ کریمہ کا مقام معلوم ہوتا ہے: ﴿اِنَّ الصَّلٰوةَ تَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَآءِ وَالْمُنْكَرِ وَلَذِكْرُ اللّٰهِ اَكْبَرُ﴾ (العنکبوت: 45)

ترجمہ: ’’بیشک نماز بے حیائی اور برے کاموں سے روکتی ہے۔ اور اللّٰہ کا ذکر سب سے بڑی چیز ہے‘‘۔

اس میں نماز کی خصوصیت بتا دی گئی کہ یہ اس کا کام ہے کہ یہ بے حیائی اور منکرات سے روکنے والی ہے، لیکن اس کے اندر جو ذکر ہے، وہ تو بہت بڑی چیز ہے۔ یہ اضافی طور پر بتایا گیا کہ: ﴿وَلَذِكْرُ اللّٰهِ اَكْبَرُ﴾ گویا اس کے multi-dimensional فوائد ہیں، اجر کے لحاظ سے بھی فائدہ ہے، ذکر یعنی اللّٰہ کی یاد ہونے کے لحاظ سے بھی فائدہ ہے، منکرات سے بچنے کے لحاظ سے بھی فائدہ ہے اور اللّٰہ تعالیٰ کی معرفت کے لحاظ سے بھی فائدہ ہے۔ مجموعی طور پر یہ فائدہ ہے کہ اس سے اللّٰہ پاک کا تعلق حاصل ہوتا ہے۔ جس کی نماز آپ ﷺ کی نماز کے باطناً اور ظاہراً جتنی زیادہ قریب ہو گی، اتنی ہی وہ زیادہ قُرب دلوانے والی ہو گی۔ حضرت کاکا صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ کی نماز کیسی تھی اور اس کی کیا کیفیت تھی، حضرت حلیم گل بابا رحمۃ اللہ علیہ نے اس پر بھی بات کی ہے۔ اسی طرح قرآن کے بارے میں بھی بات کی ہے کہ حقیقتِ قرآن کیا ہے۔ قرآن اللّٰہ کا کلام ہے۔ ہمارے سامنے کاغذ پر لکھا ہوا ہے: ’’الٓمٓ‘‘ اگر کوئی اس پہ انگلی رکھے کہ یہ کیا ہے؟ ہم کہیں گے کہ یہ قرآن ہے۔ لیکن یہ قرآن کے الفاظ ہیں۔ جس وقت قاری اس کو پڑھتا ہے: ’’الٓمٓ‘‘ اس کے دل کی کیفیت اس کے ساتھ ہو گی۔ لہٰذا اس کا دل جس حالت پر ہے، اس حالت کے ساتھ جب وہ ’’الٓمٓ‘‘ کہتا ہے، تو اسی حساب سے وہ قرآن سے فیض پائے گا۔ ایک آدمی بھی ’’الٓمٓ‘‘ پڑھ رہا ہو گا، دوسرا بھی ’’الٓمٓ‘‘ پڑھ رہا ہو گا، تیسرا بھی ’’الٓمٓ‘‘ پڑھ رہا ہو گا، تینوں کو ایک جیسا فیض نہیں ملے گا۔ اور عین ممکن ہے کہ ایک کا ’’الٓمٓ‘‘ بے انتہا زبردست قرات اور تجوید کے ساتھ ہو اور دوسرا بمشکل ادا کر رہا ہو، لیکن دوسرے کا مقام اللّٰہ کے نزدیک بہت اونچا ہو۔ یہ اللّٰہ کا فیصلہ ہوتا ہے۔ کیونکہ کوشش تو وہ بھی کر رہا ہے۔ اب ایک آدمی کوشش کر رہا ہے اللّٰہ کے لئے، لیکن اس سے ہو نہیں رہا۔ اور دوسرے سے ہو رہا ہے، لیکن لوگوں کے لئے ہے۔ بتائیے! کون سا اچھا ہے؟ دوسرے سے ہو رہا ہے، بہترین آواز ہے، بہترین تجوید اور قرات؛ سب کچھ اس کے اندر موجود ہے، لیکن لوگوں کے لئے ہے اور واہ واہ کے لئے ہے۔ یہاں بھی درمیان میں دل والی بات آ گئی۔ یہ انسان اور قرآن کا آپس میں تعامل (interaction) ہے، اس کو اس معنی میں دیکھا جائے گا۔ لیکن قرآن حقیقتاً اللّٰہ کا کلام ہے اور اللّٰہ کا کلام اللّٰہ کی صفت ہے اور اللّٰہ تعالیٰ نے اپنی اس صفت کو ظاہری طور پر جتنا ظاہر کرنا مناسب سمجھا، اتنا تو کیا، لیکن پورا کس پر ظاہر ہوا! یہ ہر ایک کا اپنا اپنا مقام ہے۔ کیونکہ یہ اللّٰہ کی صفت ہے، اللّٰہ کی صفت محدود نہیں ہو سکتی کہ کہا جائے کہ بس یہاں تک ہے۔ جس پر اس کلام کی صفت کی حقیقت جتنی کھلتی ہے، وہ قرآن کی حقیقت ہے، الفاظ تو اس کی ظاہری صورت ہے۔ اس کی ادائیگی دوسری صورت ہے۔ اس کی سمجھ اس کی تیسری صورت ہے، اس سے جو اخذ کیا گیا ہے، وہ چوتھی صورت ہے۔ یہ ساری باتیں اپنی اپنی جگہ درست ہیں۔ ان کو الگ الگ خانوں میں دیکھا جاتا ہے اور ان سب کا مجموعی تاثر یہ ہے کہ قرآن اللّٰہ کے قریب کرنے والا ہے، معرفت دلانے والا ہے اور پڑھنے والے کے لئے اللّٰہ تعالیٰ سے شفاعت کرنے والا ہے۔ چنانچہ جتنا جتنا کسی کا قرآن کے ساتھ مطلوبہ انداز میں تعلق ہو گا، اتنا اتنا وہ قرآن کے ذریعے سے اللّٰہ تعالیٰ کے قریب ہو گا۔ حضرت نے اس پر بھی بات فرمائی ہے۔ یہ میں اس کا خلاصہ بیان کر رہا ہوں، جو ابھی تک اس میں بیان ہوا ہے۔ کیونکہ سفر میں یہ ذرا جلدی جلدی ہوا تھا۔

متن:

اور حضرت علی کرم اللّٰہ وجہہ نے فرمایا ہے کہ "کُلُّ حَرْفٍ فِي اللَّوْحِ الْمَحْفُوْظِ أَعْظَمُ مِنْ جَبَلِ قَافٍ"

تشریح:

اگر ایک عام ظاہر بین آدمی کہے کہ حضرت علی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے اس طرح کیوں کہا؟ جب کہ کوئی حرف کوہِ قاف کے برابر نہیں ہے۔ اول تو انہوں نے لوحِ محفوظ کے متعلق فرمایا ہے اور لوحِ محفوظ چھوٹی نہیں ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ نظر نظر کی بات ہے، کس نے دیکھا؟ کتنا دیکھا؟ کہاں دیکھا؟ کیسے دیکھا؟ یہ سب کے لئے مختلف ہے۔ حضرت علی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کی معرفت اِتنی ہے کہ وہ یہاں تک فرماتے ہیں کہ اگر جنت اور دوزخ ہمارے سامنے کی جائیں، تو ہمارے ایمانوں میں ذرہ بھر فرق نہیں پڑے گا۔ مطلب یہ ہے کہ ان کو جنت اور جہنم پر دیکھے بغیر ایسا ہی یقین ہے جیسے کسی چیز کو دیکھ کر ہوتا ہے۔ لہٰذا ان کا معاملہ تو اور ہے۔

متن:

یعنی قرآن کریم کا ہر حرف لوحِ محفوظ میں کوہِ قاف سے بہت بڑا ہے۔ اور یہ لوح مسلمانوں کے سینوں میں ہے۔

تشریح:

کسی کا سینہ کتنا کھلا ہے، یہ بھی ہر ایک کا اپنا اپنا معاملہ ہے۔ جس کا سینہ جتنا کھلا ہے، اس پر اتنے مفاہیم کھلیں گے۔ بعض دفعہ بتاتے ہوئے ڈرتا ہوں۔ ہم سب ’’اَللّٰہُ اَکْبَرْ‘‘ کہتے ہیں، لیکن ’’اَللّٰہُ اَکْبَرْ‘‘ کسی پہ کتنا کھلا ہے، یہ ہر ایک کا اپنا اپنا معاملہ ہے۔ رشوت دینے والے پہ ’’اَللّٰہُ اَکْبَرْ‘‘ کتنا کھلا ہے۔ دو لحاظ سے بات کر رہا ہوں، ایک اس کا کام اللّٰہ کی طرف متوجہ ہونے سے اللّٰہ کر سکتا تھا۔ اس کا کام ظاہری معنوں میں پیسہ بھی کر سکتا ہے۔ اب ظاہری معنوں میں پیسہ کتنا بڑا ہے اور حقیقی معنوں میں اللّٰہ کتنا بڑا ہے۔ اگر کسی پر اللّٰہ کی بڑائی کھلی ہوتی، تو وہ رشوت نہ دیتا۔ اس کو رشوت دینے کی ضرورت نہیں تھی۔ وہ سود لیتا ہے کہ میرے پاس پیسہ آ رہا ہے۔ اگر پیسہ پہنچ بھی گیا، لیکن اگر اللّٰہ نے میرے مقدر میں نہیں کیا، تو مجھ تک نہیں پہنچ سکتا، حتیٰ کہ میری جیب میں پڑا ہو گا، میرا نہیں ہو گا۔ لہٰذا جس کی اس چیز پر نظر ہو گی، وہ تو ناجائز استعمال اور ناجائز کمائی کی طرف نہیں جائے گا۔ ساری کُڑھن ہے۔ میرے پاس ایک شخص ادھر بیٹھا ہوا تھا۔ اس نے بتایا کہ تین لاکھ پچھتر ہزار میری تنخواہ ہے۔ میں بینک میں ملازم ہوں۔ گاڑی اور مکان کو ملا کے تقریباً پانچ لاکھ بن جاتے ہیں، لیکن میری تنخواہ دس تاریخ کے بعد نہیں بچتی۔ دس تاریخ کے بعد میں کریڈٹ کارڈ پہ چلتا ہوں۔ یہ کیا بات ہے! میرے پاس ایک انجینئر صاحب آئے، بڑے زبردست فرم کے architect انجینئر تھے، بڑے پریشان حال تھے۔ کوئی دوست ان کو لے کے آیا تھا۔ کہتے ہیں: شاہ صاحب! معاملہ بہت خراب ہو گیا ہے۔ ساری چیزیں پھنس گئی ہیں۔ کوئی کام ٹھیک نہیں ہو رہا۔ (آج کل لوگ اس کو بندش کہتے ہیں، ہر چیز اپنی نئی اصطلاح (Terminology) کے ساتھ وجود میں آتی ہیں) کہنے لگا ایسا ہے، ایسا ہے، کیا کریں؟ میں نے بے ساختہ کہا کہ جو بات میں کر رہا ہوں، آپ مانیں گے تو نہیں، لیکن کیا کروں، آپ نے پوچھا ہے، تو میں بتا دیتا ہوں۔ میں نے ان سے کہا: آپ کریڈٹ کارڈ تو استعمال نہیں کرتے؟ کہتے ہیں: ہمارا تو سارا کام کریڈٹ کارڈ پہ ہوتا ہے۔ میں نے کہا: پھر آپ کے مسائل کا حل یہ ہے کہ آپ کریڈٹ کارڈ سے اپنے آپ کو چُھڑا لیں۔ کہتے ہیں: شاہ صاحب! ایسا نہیں ہو سکتا، ہمارے سارے کاروبار کریڈٹ کارڈ پہ ہوتے ہیں۔ میں نے کہا: اس پہ تو میں تبصرہ ہی نہیں کروں گا، یہ میری شعبہ ہی نہیں ہے۔ کریڈٹ کارڈ کے اوپر چل سکتا ہے یا کریڈٹ کارڈ کے بغیر بھی چل سکتا ہے، یہ آپ کا کام ہے۔ میں نے آپ کو صرف آپ کے مسئلہ کا حل بتایا ہے۔ اگر آپ کرنا چاہیں، تو کوشش کر لیں، نہیں کرنا چاہتے، تو میں اس سلسلہ میں کچھ نہیں کہتا، آپ کی اپنی مرضی ہے۔ بڑے ٹوٹے ہوئے دل کے ساتھ کہتے ہیں: چلو، میں کوشش کرتا ہوں۔ در اصل خود بدلنا پڑتا ہے اور خود بدلنا منظور نہیں ہوتا۔ لوگ چاہتے ہیں کہ ہمارے حالات بدل جائیں، ہم نہیں بدلیں گے، جب کہ اللّٰہ کو یہ منظور نہیں ہے۔ پہلے اپنے آپ کو بدلو گے، پھر حالات بدلیں گے۔ قرآن پاک کی آیتِ کریمہ ہے: ﴿ظَهَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ اَیْدِی النَّاسِ (الروم: 41)

ترجمہ: ’’لوگوں نے اپنے ہاتھوں جو کمائی کی، اس کی وجہ سے خشکی اور تری میں فساد پھیلا‘‘۔

لہٰذا اعمال حالات میں مؤثر ہیں۔ وہ شخص غالباً تین مہینہ کے بعد میرے پاس واپس آیا۔ کہنے لگا: شاہ صاحب! بڑی مشکل سے اپنے آپ کو کریڈٹ کارڈ سے چھڑایا ہے، پیچھا نہیں چھوڑ رہا تھا، ہر طرف سے مجھے باندھا ہوا تھا، لیکن کوشش کر کے چھڑا لیا اپنے آپ کو۔ اب میں کریڈٹ کارڈ سے آزاد ہوں۔ میں نے کہا: مبارک ہو، امید ہے ان شاء اللّٰہ آپ کے مسائل حل ہو جائیں گے۔ غالباً مہینہ بھی نہیں گزارا تھا کہ بڑی خوشی خوشی میرے پاس آئے اور کہا: شاہ صاحب! کام ہو گیا۔ میں نے کہا: کیا ہو گیا؟ کہتے ہیں: سارے چیک کھل گئے، سارے راستے کھل گئے، میں نے سارے قرضے ادا کر دیئے اور حج کے لئے بھی اپلائی کر رہا ہوں۔ سبحان اللّٰہ! دیکھو! مسئلے بھی حل کرا دیئے اور پھر مزید کے لئے بھی راستہ دے دیا۔ یہ ہے اللّٰہ کا فضل۔ اس پہ لوگوں کو بولنے کی جرأت نہیں ہے، یقین نہیں ہے۔ وہ اتنے خوش ہو گئے کہ ہماری ساری خانقاہ اس نے ڈیزائن کی ہے اور ہر اہم موقع پہ وہ کھڑے رہتے تھے۔ خود نگرانی کرتے ہوئے کہ میرے سامنے یہ ساری چیزیں ہوں۔ اللّٰہ پاک نے ہمارے لئے یہ بندوبست کر دیا اور اللّٰہ تعالیٰ نے اس کے راستے کھول دیئے۔ خدا کی طرف سے نظام ہے۔ بہرحال! جب انسان اپنے آپ کو تبدیل کرتا ہے، تو پھر راستے بنتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ تو دو دو چار ہوتا ہے، حالانکہ اللّٰہ کے ہاں ایسا نہیں ہے۔ دو دو چار ہونا اللّٰہ کی مخلوق ہے۔ اکنامکس فیل ہو جاتی ہے، کس طرح فیل ہوتی ہے؟ ابھی آپ خود کہیں گے کہ اکنامکس فیل ہو جاتی ہے۔ مجھے بتائیے! اکنامکس میں برکت کہاں پڑھائی جاتی ہے؟ کہیں نہیں پڑھائی جاتی۔ کیا خیال ہے کہ برکت کا انکار کیا جا سکتا ہے؟ برکت ایک حقیقت ہے، جس کا حساب نہیں کیا جا سکتا۔ لہذا یہ اکنامکس کا شعبہ نہیں ہے، کیونکہ اکنامکس سارا حساب (calculation) پر ہے۔ کمال کی بات یہ ہے کہ برکت آتی ہی اس وقت ہے، جب بندے کی طرف سے calculation ختم ہوتی ہے۔ جب بندے کی طرف سے calculation ختم ہو جاتی ہے تو پھر اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھی calculation ختم ہو جاتی ہے۔ یہ چیزیں اللّٰہ کے ساتھ ہاٹ لائن (Hot line) پر ہوتی ہیں۔ جیسے ابھی آپ نے سنا کہ اللّٰہ پاک نے سینہ کھول دیا۔ کس کا سینہ کتنا کھول دیا؟ یہ ہر ایک کا کے لحاظ سے الگ معاملہ ہوتا ہے۔ ﴿أَفَمَنْ شَرَحَ اللّٰہُ صَدْرَہٗ لِلْإِسْلَامِ فَھُوَ عَلٰی نُوْرٍ مِّنْ رَّبِّہٖ(الزمر: 22)

ترجمہ: ’’بھلا کیا وہ شخص جس کا سینہ اللّٰہ نے اسلام کے لئے کھول دیا ہے، جس کے نتیجے میں وہ اپنے پروردگار کی عطا کی ہوئی رشنی میں آ چکا ہے (سنگ دلوں کے برابر ہو سکتا ہے؟)‘‘۔

وہ نور کیا ہے؟ وہ اس کا رب ہی جانتا ہے۔ اس سے وہ کتنا دیتا ہے؟ یہ اس کا فیصلہ ہے۔ لیکن جس کو جتنا دیا ہے، اس کو اتنا نظر آئے گا۔ نور اور ظلمت دو متضاد چیزیں ہیں۔ ظلمت میں انسان کو اپنا فائدہ نظر نہیں آتا، نور میں نظر آتا ہے۔ جب انسان گناہ کرتا ہے، تو ظلمت میں جاتا ہے۔ جب انسان نیکی کرتا ہے، تو نور میں آتا ہے۔ اللّٰہ تعالیٰ نور کی طرف لے آتا ہے اور شیاطین ظلمات کی طرف لے جاتے ہیں۔ یہ سب اللّٰہ پاک نے فرمایا ہے۔ آیت الکرسی بہت بڑی حقیقت ہے۔ آیت الکرسی کے فوراً بعد یہ آیت ہے: ﴿اَللّٰهُ وَلِیُّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْاۙ یُخْرِجُهُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوْرِ وَالَّذِیْنَ كَفَرُوْۤا اَوْلِیٰٓـئُـھُمُ الطَّاغُوْتُۙ یُخْرِجُوْنَهُمْ مِّنَ النُّوْرِ اِلَى الظُّلُمٰتِ (البقرہ: 257)

ترجمہ:’’اللّٰہ ایمان والوں کا رکھوالا ہے، وہ انہیں اندھیریوں سے نکال کر روشنی میں لاتا ہے، اور جن لوگوں نے کفر اپنا لیا ہے، ان کے رکھوالے وہ شیطان ہیں جو انہیں روشنی سے نکال کر اندھیریوں میں لے جاتے ہیں‘‘۔

یہ حقائق ہیں۔ لیکن قرآن کے یہ حقائق ہر قاری پہ نہیں کھلتے۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ بعض لوگ قرآن کو سیدھا کر کے پڑھیں گے، لیکن ان کا قرآن ان کے گلے سے نیچے نہیں اترے گا۔ محنتیں مختلف ہیں، کسی محنت کی مخالفت نہیں ہے، لیکن صرف ایک محنت پر قناعت کرنا در اصل دوسرے کی حقیقت سے ناواقفیت کی بنیاد پر ہے۔ اور اس کا بیان کرنا ضروری ہے۔ جب تک وہ بیان نہیں ہو گی، لوگوں کو سمجھ نہیں آئے گی۔ محنتیں تو ہو رہی ہیں، قرات پہ بہت سی محنتیں ہو رہی ہیں، وہ غلط محنت نہیں ہے، صحیح محنت ہے، لیکن کیا صرف وہی محنت ہے؟ صرف وہی محنت نہیں ہے۔ اگر ہم نے ان کو دوسرا رخ دیا ہی نہیں، تو وہ اپنی قرأت کہاں استعمال کریں گے؟ ایک عالم تھے، جو مجذوب بھی تھے، حافظِ قرآن بھی تھے اور حفظ انہوں نے بڑی عمر میں کیا تھا۔ لیکن جذب جذب ہوتا ہے، مجذوب مجذوب ہوتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ بعض آیاتِ قرآنیہ میں سال میں صرف ایک دفعہ پڑھ سکتا ہوں، اس سے زیادہ نہیں پڑھ سکتا، ورنہ بیمار ہو جاتا ہوں۔ وہ قاری عبد الباسط صاحب کو اپنے جذب میں کہتے کہ یہ منافق ہے۔ کیونکہ وہ: ﴿اِذَا زُلْزِلَتِ الْاَرْضُ زِلْزَالَهَا (الزلزال: 1) جس طرح پڑھتے ہیں، کیا یہ اس طرح پڑھتے ہیں؟ اس پہ تو کلیجہ پھٹ جاتا ہے۔ انہوں نے عالمِ جذب میں کتنی صحیح بات کی ہے۔ قرآن کی آیاتِ تبشیر و تنذیر کا اپنا اپنا حق ہے۔ آیتِ تبشیر پہ دل کا کِھل جانا، خوش ہونا، اس سے اثر لینا، یہ اس کی حقیقت کا ادراک ہے۔ جیسے: اگر کوئی آپ کو خوشی کی خبر سناتا ہے، تو آپ پر اس کا کیا اثر ہوتا ہے؟ اور اگر آپ کو کوئی غم کی یا ڈر کی خبر سناتا ہے، تو آپ پر اس کا کیا اثر ہوتا ہے؟ دونوں کا اثر ایک جیسا نہیں ہوتا۔ بہرحال! جس پہ اللّٰہ پاک کھول دے، تو اس کو بات سمجھ آتی ہے۔ قرآن کی کوئی آیت کسی کی پوری زندگی بدل دیتی ہے اور کوئی پورا قرآن پڑھ لیتا ہے اور اس کو کچھ بھی اثر نہیں ہوتا۔ اسی قرآن کے ذریعے لوگوں سے دھوکہ کرتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں آپ یہ چیز دیکھ سکتے ہیں۔ حضرت فضیل بن عیاض رحمۃ اللّٰہ علیہ پہلے ایک ڈاکو تھے۔ ڈاکہ ڈالنے کے لئے آئے تھے۔ ایک قاری یہ آیت تلاوت کر رہے تھے:

﴿اَلَمْ یَاْنِ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَنْ تَخْشَعَ قُلُوْبُهُمْ لِذِكْرِ اللّٰهِ وَمَا نَزَلَ مِنَ الْحَقِّ﴾ (الحدید: 16)

ترجمہ: ’’جو لوگ ایمان لے آئے ہیں، کیا ان کے لئے اب بھی وقت نہیں آیا کہ ان کے دل اللّٰہ کے ذکر کے لئے اور جو حق اترا ہے، اس کے لئے پسیج جائیں؟‘‘۔

بس وہ ہل گئے، سارا کچھ ادھر چھوڑ دیا، توبہ کر لی اور واپس چلے گئے۔ حساب کیا کہ کس سے کتنا لیا ہے، ان کو طریقہ سے پہنچا دیا۔ اللّٰہ تعالیٰ نے ان کو ہمارے سلسلے کے اولیاء اللّٰہ کا سردار بنا دیا۔ وہ چشتیہ سلسلے کے سرخیل ہیں۔ دیکھیں! قرآن کی ایک آیت نے ان کو کہاں سے کہاں پہنچا دیا۔ ایک صحابی رسول ہر نماز میں سورۂ اخلاص پڑھتے تھے۔ انہیں آپ ﷺ کے پاس لایا گیا کہ یہ ہر نماز میں سورۂ اخلاص پڑھتا ہے۔ آپ ﷺ نے پوچھا کیوں؟ عرض کیا: مجھے اس سورۃ کے ساتھ محبت ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: یہی محبت تجھے جنت میں لے جائے گی۔ چنانچہ قرآن کے اندر بہت کچھ ہے۔ ایک ہے قرآن کی تلاوت محبت کے ساتھ سننا، اس نیت سے کہ یہ محبوب کا کلام ہے۔ دوسرا ہے قرآن کے معانی سمجھنا، تاکہ محبوب کا پیغام سمجھ میں آ جائے۔ تیسرا ہے کہ اس کے پیغام کی حقیقت کا ادراک ہو جائے اور اس سے ہم اللّٰہ کو پہچان لیں۔ پہلا شعبہ قراء کے ساتھ ہے، دوسرا شعبہ علماء کے ساتھ ہے اور تیسرا شعبہ مشائخ یعنی اللّٰہ والوں کے ساتھ ہے، جن کو قرآن کی حقیقت کا ادراک ہے۔

متن:

پس اے میرے بھائی! ہر عالَم میں علماءِ ربانی قرآن کریم کے جدا جدا معزز نام لیتے ہیں، اور دوسرے عالَم میں پہلا نام نہیں لیتے، بلکہ دوسرے نام سے موسوم کرتے ہیں۔ ایک عالَم اور ایک پردے میں اس کلام اللّٰہ کو قرآن مجید کہتے ہیں: ﴿بَلْ ھُوَ قُرْاٰنٌ مَّجِیْدٌ﴾ (البروج: 21) دوسرے پردے میں اس کو ”مبین“ کہتے ہیں، تیسرے میں ”عظیم“ کہتے ہیں، پھر چوتھے پردے میں اِس کو ”عزیز“ بولتے ہیں: ﴿إِنَّہٗ لَکِتَابٌ عَزِیْزٌ﴾ (فصلت: 41) کسی میں ”کریم“ کہلاتا ہے: ﴿إِنَّہٗ لَقْرْاٰنٌ کَرِیْمٌ﴾ (الواقعہ: 77) دوسرے جہاں میں ایک جگہ ”حکیم“ نام سے یاد کیا جاتا ہے: ﴿وَالْقُرْاٰنِ الْحَکِیْمِ﴾ (یٰس: 2) پس اے عزیز! قرآن کریم کے ہزار نام اس عالَم میں ہیں۔ اور عرش سے ثریٰ تک ایک عالَم ہے۔ اور اللّٰہ تعالیٰ کے اتنے بے شمار عالَم ہیں کہ ان کی حقیقت مصطفے ﷺ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔

تشریح:

پس قرآن کے مفاہیم کو جاننے کا اپنا ایک میدان ہے۔ جیسے میں عرض کر رہا تھا کہ چار چیزیں ہیں: رسول اللّٰہ ﷺ، کتاب اللّٰہ، نماز اور کعبۃ اللّٰہ۔ یہ سب اللّٰہ کے ساتھ ملانے والی ہیں۔ ان میں سے جس کے ساتھ جتنا جتنا تعلق بڑھتا جائے گا، اسی قدر اللّٰہ کے ساتھ قرب نصیب ہوتا جائے گا۔ اور پھر ان میں ایک مجموعی ربط ہے، اس کو بھی لینا پڑتا ہے۔

متن:

مطلب یہ کہ قرآن کے یہ جو کئی ہزار اسمائے مبارکہ ہیں، تم ظاہری کانوں اور سماعت سے نہیں سن سکتے۔ اگر سماعتِ باطنی رکھتے ہو یا اس کو فراہم کر سکتے ہو، تو "حۤمۤ عۤسۤقۤ" کے عالَم میں کئی نام پوشیدہ ہیں۔

تشریح:

بعض چیزیں جب دی جاتی ہیں، تو ان کی گہرائی ظاہر نہیں ہوتی اور بعض کو ان کی شان کے مطابق خصوصی گہرائی بھی دی جاتی ہے۔ اور وہ چھپ ہوتے ہیں کہ ان کی اطلاع بھی دوسروں کو نہیں دی جاتی، لیکن اس کو اطلاع مل جاتی ہے۔ ایسے لوگ ہوتے ہیں، وہ دنیا میں بھی ایسے ہیں اور اللّٰہ کے ساتھ بھی ایسے ہوتے ہیں۔ اگر قرآن کے اندر یہ سب کچھ آ جاتا، مثلا الٓمٓ اور حمٓ جیسے مقطعات کے معانی بھی قرآن میں آ جاتے تو ان کے معانی سب کے سامنے آ جاتے۔ حالانکہ ان سے مطلوب یہ ہے کہ اللّٰہ پاک ان کو سب تک نہیں پہنچانا چاہتے۔ اس کا ایک الگ میدان ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ پرواز ہر ایک کی اپنی اپنی ہے۔

پرواز ہے دونوں کی اسی ایک جہاں میں

شاہین کا جہاں اور ہے، کرگس کا جہاں اور ہے۔

کچھ لوگوں کی پرواز یہاں تک ہے کہ ان الفاظِ مبارکہ (حروف مقطعات) کو لوحِ قرآنی کا نام دے کر اپنے گھر میں حفاظت کے لئے لٹکاتے ہیں، وہ عملیات کے رخ سے بات ہو گئی۔ ان کا قرآن سے بس اتنا ہی لینا دینا ہے۔ یہ لوگ بڑے سستے بکے ہیں۔ اور کچھ لوگ ان کی حقیقت کے ادراک میں عمریں صرف کر دیتے ہیں اور پھر اللّٰہ پاک ان کو نوازتے ہیں اور ایسا نوازتے ہیں کہ نہ کسی آنکھ نے دیکھا ہو گا، نہ کسی کان نے سنا ہو گا، نہ کسی دل میں اس کا خیال گزرا ہو گا۔ لیکن یہ میدان اِخفا کا ہے، کیونکہ اللّٰہ نے چھپایا ہوا ہے۔ جیسے: حضرت ابن عباس رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کا قول ہے: ’’أَبْهِمُوْا مَآ أَبْهَمَ اللّٰہُ‘‘ (معرفۃ السنن والآثار للبیقہی، حدیث نمبر: 13808) ’’اس کو مبہم رکھو، جس کو اللّٰہ نے مبہم رکھا ہے‘‘۔ حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللّٰہ علیہ فرماتے ہیں: جو دوست دوست کا راز نہ رکھ سکے، وہ دوستی کے قابل نہیں ہے۔ بعض دفعہ ٹیسٹ کیا جاتا ہے، تھوڑا دیا جاتا ہے کہ دیکھتے ہیں کہ وہ اس کے ساتھ کیا کرتا ہے۔ اگر اس کو ظاہر کرے اور چھچھورا پن آ جائے کہ یہ مل گیا، وہ مل گیا، تو پھر ادھر سے یہ فیصلہ ہوتا ہے کہ اس کو واپس لے لیا جائے یا اس کو رہنے دیا جائے اور باقی سے محروم کر دیا جائے۔ اور یہ اس کے بعد کے اعمال پہ منحصر ہوتا ہے۔ لیکن جو بڑے ظرف والا ہوتا ہے، وہ اشارے کا منتظر ہوتا ہے۔ اگر کسی کو بتانے کی اجازت ہو، تو بتا دیتے ہیں اور اگر بتانے کی اجازت نہ ہو، تو نہیں بتاتے۔ حضرت شیخ عبد الحق رودلوی رحمۃ اللّٰہ علیہ کا مشہور قول ہے، فرمایا: ’’منصور بچہ بود‘‘ کہ منصور تو بچہ تھا کہ ایک گھونٹ میں مست ہو گیا۔ یہاں تو لوگ ساغر کے ساغر پی جاتے ہیں اور ڈکار تک نہیں لیتے۔ مطلب یہ ہے کہ بعض لوگ تھوڑے میں مست ہو جاتے ہیں، بلکہ لوگ ان کے اس مست ہونے کو استعمال کرتے ہیں۔ اس طرح استعمال کرتے ہیں کہ کچھ لوگ حقیقی معنوں میں مست ہوتے ہیں اور کچھ لوگ کسی سفلی معنوں میں مست ہوتے ہیں، اچھل کود کرتے ہیں۔ جو لوگ اچھل کود چاہتے ہیں، وہ پھر ان کے پاس جاتے ہیں اور بہت آسانی کے ساتھ ان کے شکار ہو جاتے ہیں اور وہ لوگ سمجھتے ہیں کہ ہم پتا نہیں، کہاں سے کہاں پہنچ گئے۔ اور انہوں نے اس طرح کی باتیں بھی پھیلائی ہوئی ہیں کہ جو ولی پچاس ہزار سال محنت کرے، تو اس کو یہ چیز ملتی ہے۔ کیا چیز ملتی ہے؟ بس یہ اچھل کود ملتی ہے۔ یہاں ایک صاحب آئے تھے، وہ کچھ ہُو ہُو کر رہے تھے۔ میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ خبر دار! ان کی طرف دیکھنا بھی نہیں، جو کرتا ہے، کرنے دو، بس نظر انداز کرو، خود ہی ختم ہو جائے گا۔ کیونکہ آپ جتنا ان کو دیکھیں گے، یہ کہیں گے کہ ہم بہت کچھ ہیں۔ ہم نے کوئی پروا ہی نہیں کی، خود ہی ختم ہو گیا۔ آج کل چونکہ چھچھورا پن ہے، تھوڑے میں مست ہونے والے لوگ ہیں اور لوگ اس کو چاہتے ہیں، نتیجتاً پھر اسی پہ رہ جاتے ہیں، آگے نہیں بڑھتے۔ اگر صحیح معنوں میں بھی ہو، تو اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ یہ تو صحیح معنوں میں بھی نہیں ہوتا۔

متن:

اس رمز کے بارے میں سرورِ عالمین ﷺ نے فرمایا ہے: "إِقْرَءِ الْقُرْاٰنَ وَتَفَتَّشْ غَرَائِبَہٗ" (لم أجد ھذا الحدیث) ”قرآن مجید پڑھا کرو اور اُس کے غرائب کی تلاش کرو“ مگر قرآن کریم کے غرائب تلاش کرنا ہر کس و نا کس کا کام نہیں، یہاں تک کہ تو "أَوَّلُ مَا خَلَقَ اللّٰہُ نُوْرِيْ" (روح البیان، رقم الصفحۃ: 403/1 دار الفکر، بیروت) کے کتب خانے تک رسائی حاصل کرے گا (یعنی رسول اللّٰہ) اور اُس وقت استاد "أَرِنِيْ رَبِّيْ" کے مکتب خانے میں یعنی اچھی صورت میں تجھے ادب سکھائے گا اور قرآن کو بلا کسی واسطے کے تمہارے دل پر نقش کرے گا۔

تشریح:

در اصل الفاظ کو حاصل کرنے کا اپنا پروٹوکول ہے، لیکن ان کی جو حقیقت ہے، وہ بالکل ایک جدا چیز ہے۔ حقیقت کو پورے کا پورا ایک وقت میں نقش کیا جا سکتا ہے۔ یہ بڑا مشکل مضمون ہے۔ اللّٰہ غلطی سے بچائے۔ یوں کہہ سکتے ہیں کہ قرآن کے اندر جو حقیقت ہے، وہ جس کے دل میں جتنا چاہے القاء فرما دے۔ قرآن کا جو پیغام ہے، وہ اس حقیقت سے نکلتا ہے۔ مثلاً: کسی کو قرآن کے الفاظ تو معلوم نہیں ہیں، لیکن قرآن کی حقیقت اس کو حاصل ہو، تو وہ فیصلہ قرآن کے مطابق کرے گا اور لوگ حیران ہوں گے، لیکن اسے حوالہ (reference) معلوم نہیں ہو گا۔ ایسے لوگوں کے صحیح فیصلے ہوتے ہیں، لیکن مستند نہیں ہوتے۔ کیونکہ مستند ہونے کے لئے اس کا پروٹوکول بھی لینا پڑتا ہے۔ ہمارے زیارت کاکا صاحب دستار استاذ نام کے ایک صاحب تھے، جب وہ جذب میں آ جاتے، تو شروع ہو جاتے۔ بڑے بڑے علماءِ دیوبند حیرت سے ان کو سن رہے ہوتے تھے کہ یہ کہاں سے کہہ رہے ہیں۔ میں نے ان کو دیکھا تھا، اللّٰہ دیکھاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ صرف دستار استاذ ہی نہیں ہوں گے اور بھی بہت سارے ہوں گے، لیکن ہمیں تو وہی نظر آئے، وہ تو ایک مثال ہیں۔ ایک بار پولیس والا آیا، اس کو پتا نہیں تھا، کوئی بیوقوف ہو گا۔ ویسے کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ پولیس والے تو پروا نہیں کرتے۔ کسی کو مار دیا، کسی کو کچھ اور کر دیا۔ وہ تو گاؤں کے بادشاہ ہوتے ہیں۔ اس نے کہا: یہ چیز دے دو۔ جیسے ہی اس نے مارا، تو اس کا ہاتھ ادھر ہی رہ گیا اور نیچے نہ جائے۔ وہ بڑا حیران و پریشان ہو گیا کہ یہ ہاتھ کیوں نیچے نہیں جا رہا۔ وہ اسی طرح ہاتھ پکڑ کے جا رہا تھا تو راستہ میں ہمارے ماموں کے ساتھ اس کی ملاقات ہو گئی۔ انہوں نے پوچھا: یہ کیا ہے؟ کہتا ہے: پتا نہیں، یہاں کوئی آدمی تھا، اس پر میں نے ہاتھ اٹھایا، تو ہاتھ اس طرح ہو گیا۔ انہوں نے کہا: وہ دستار استاذ تو نہیں تھا؟ جب پتا کیا، تو وہی تھا۔ انہوں نے کہا: جاؤ، اس سے معافی مانگو، ورنہ یہ اسی طرح ہی رہے گا۔ وہ جا کر ان کے پاؤں پڑا، معافی مانگی، پھر اس کا ہاتھ نیچے آ گیا۔

نہ چھیڑ ان خرقہ پوشوں کو ارادت ہو، تو دیکھ ان کو

یدِ بیضا لئے بیٹھے ہیں اپنی آستینوں میں

بہرحال! یہ اللّٰہ تعالیٰ کا نظام ہے۔ میں حقیقتِ قرآن کے بارے میں عرض کر رہا تھا کہ اگر کسی پہ حقیقت کھل جائے، اس کا سینہ کھل جائے، تو جو علوم و معارف قرآن کے اندر ہیں، وہ اس کے اندر آ جائیں گے۔ پھر جب وہ بولے گا، تو لوگ حیران ہوں گے کہ یا اللّٰہ! یہ کہاں سے بول رہا ہے؟

متن:

﴿وَرَبُّکَ الْأَکْرَمُ الَّذِيْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ عَلَّمَ الْإِنْسَانَ مَا لَمْ یَعْلَمْ﴾ (العلق: 3-5) تم اس کتب خانے میں یہ سیکھو گے کہ ﴿نٓ وَالْقَلَمِ﴾ (القلم: 1) کیا ہے؟

تشریح:

یہ آپ نے کتاب میں بھی پڑھا ہو گا، لیکن پھر جب ادھر پہنچ جاؤ گے، تو پھر کچھ اور بھی معلوم ہو جائے گا۔

متن:

اور یہ سب کچھ تم پر جلوہ نما ہو کر تم سیکھ جاؤ گے۔

پس اے میرے محبوب! حروِف مقطعات اسی سبب سے گویا ہیں کہ وہ محبانِ الٰہی کے ساتھ راز و نیاز کی پوشیدہ باتیں کریں۔

تشریح:

ایک صاحب تھے، جو بڑے ذہین تھے۔ انہوں نے کہا کہ مجھے کسی نے لا جواب نہیں کیا سوائے ایک باندی کے۔ کسی نے کہا: وہ کیسے؟ کہتے ہیں کہ وہ ایک ٹرے لے کے جا رہی تھی، اس کے اوپر رومال پڑا ہوا تھا۔ میں نے اس سے پوچھا کہ اس کے نیچے کیا ہے؟ اس نے کہا کہ اگر دکھانا ہوتا، تو اس کو ڈھکنے کی کیا ضرورت تھی؟ کہتے ہیں کہ میں چپ ہو گیا کہ یہ تو پوچھنے کی بات ہی نہیں تھی۔ چنانچہ حروفِ مقطعات بھی یہی اعلان ہے کہ اگر بتانا ہوتا، تو اس انداز میں کیوں لاتے۔ جس کے لئے حکم ہو جائے اور جتنا حکم ہو جائے، اتنا معلوم ہو جاتا ہے۔ آئے ہائے! سارے پیغمبر اس طرف دیکھ رہے ہیں، سارے اولیاء اس طرف دیکھ رہے ہیں، جو کوئی جتنا ادھر متوجہ ہوتا ہے، وہاں سے رحمت متوجہ ہوتی ہے۔ پھر جس کی طرف جس رخ پہ رحمت متوجہ ہو جائے، تو وہ سلسلہ شروع ہو جاتا ہے اور یہ نظام چل پڑتا ہے۔

متن:

اُن کے مطالب و معانی اور اسرار و رموز سے فرشتے اور عالمِ ملکوت سر گرداں و پریشان ہیں۔ اور نا محرم لوگ حروف کے لباس کے اندر اطلاع نہیں پاتے۔

تشریح:

یعنی نا محرم نہیں پہنچ سکتا۔ اور جو محرم ہے، تو محرموں کو جہاں تک ہوتا ہے، اندر بلا لیا جاتا ہے۔ لیکن نا محرموں کو باہر ہی سے رخصت کر دیا جاتا ہے۔ خواجہ مجذوب رحمۃ اللّٰہ علیہ کا ایک شعر ہے، فرمایا:

مجذوب کو تو لائے ہمراہ بزم میں

اور سالکوں کو دور سے راستے دِکھا دیئے

یعنی سالکوں کو کہا کہ یہ کر لو، یہ کر لو، اس طرح ان کو کام پر لگا دیا اور جو مجذوب تھا، اس کو اپنے ساتھ بزم میں لے آئے۔

متن:

اللّٰہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ "الٓمٓ الٓمٓر کھٰیٰعٓصٓ یٰسٓ صٓ نٓ حٰمٓ عسٓقٓ طٰہٰ الٓمٓصٓ" یہ سب احدیت کے نشان ہیں کہ کوئی بھی نا محرم اور اجنبئ ظاہر بین اللّٰہ تعالیٰ کے اُن اسرار سے جو کہ محمد مختار ﷺ کے ساتھ ہیں، مطلع نہ ہو سکے۔ اگر کسی کو آگاہی حاصل ہو، تو وہ صرف وہ لوگ ہوں کہ جو محمد رسول اللّٰہ ﷺ کے ساغرِ محبت کے جرعہ نوش ہوں۔

تشریح:

یعنی جن کو آپ ﷺ نے اپنے قریب فرمایا ہو۔ اصل میں انسان باتیں نہیں کر سکتا، کیونکہ اُدھر سے بھی پابندی ہوتی ہے اور اِدھر سے بھی سمجھ نہیں آ رہا ہوتا۔ اگر کوئی بتا بھی دے، تو بھی سمجھ نہیں آتا۔ کیونکہ سمجھانا تو اللّٰہ کا کام ہے۔ آپ ﷺ کی جو حیثیت ہے، وہ ہم نہیں سمجھ سکتے۔ اولیاء اللّٰہ نے کچھ خاص الفاظ کے ذریعے سے کسی حد تک کوشش کی ہے کہ لوگ سمجھ جائیں، لیکن چونکہ اللّٰہ نے پردے ڈالے ہوتے ہیں، اس لئے وہ چیز جس کو جتنی سمجھ آنی ہوتی ہے، اتنی آ جاتی ہے۔ اس سے زیادہ وہ نہیں چل پاتے۔ حقیقتِ محمدی کی اصطلاح آپ نے سنی ہو گی، اس کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح آپ ﷺ شریعت کی باتیں پہنچانے والے ہیں اور وہ باتیں آپ ﷺ کے واسطے کے بغیر نہیں ہوتیں، اسی طرح تکوینی احکامات بھی آپ ﷺ کے واسطے سے چلتے ہیں۔ چونکہ تکوینیات کا شعبہ ہمیشہ محرموں والا ہوتا ہے، اس میں محرم اور غیر محرم چلتے ہیں، لہٰذا اس کو کوئی کھول نہیں سکتا۔ لیکن جو محرم ہوتے ہیں، ان کے اوپر چیزیں کھلتی جاتی ہیں۔ اور آپ ﷺ کی وہ شان کہ کائنات میں جو کچھ ہو رہا ہے، آپ ﷺ کی روحانیت اس میں ظاہر ہے، اس سے آدمی حیران ہو جاتا ہے۔ لیکن اولیاء اللّٰہ کو اندازہ ہوتا ہے، ان کو پتا ہوتا ہے، ان سب کے دل اس طرف جھکے ہوتے ہیں، جیسے با ادب کھڑے ہوں۔

متن:

بیت:

گر سرو سہی در ہمہ قامت خوانم

در آہوئے افتاده به دامت خوانم

زیں ہر سه بگو تا به دامت خوانم

کز رشک نخواهم که می خوانم

اگر تجھ کو تیری قامت زیبا کی وجہ سے سر و سہی کہوں، یا تجھ کو آپ کے دام میں اسیر آہو کہوں، اِن تینوں میں تم ہی کہو کہ میں تجھے کس نام سے پکاروں، کیونکہ میں رشک کی وجہ سے نہیں چاہتا کہ تجھے تیرے نام سے پکاروں۔

پس حروفِ مقطعات کو عالمِ سِر میں مُجمل کہتے ہیں اور مفصل آیت: ﴿یُحِبُّھُمْ وَیُحِبُّوْنَہٗ﴾ (المائدۃ: 54) میں آیا ہے۔ مُجمل کے بارے میں کہا گیا ہے کہ ﴿وَلَقَدْ وَصَّلْنَا لَھُمُ الْقَوْلُ﴾ (القصص: 51) اور مفصل کے متعلق یہ بیان ہوا ہے کہ ﴿فَصَّلْنَا الْآیَاتِ﴾ (الانعام: 97) معانی کے حقائق کے ساتھ سہل و آسان کرے۔ ﴿وَلَقَدْ یَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذِّکْرِ فَھَلْ مِنْ مُّدَّکِرٌ﴾ (القمر: 17) بے چارے اہلِ ظواہر یعنی ظاہر بیں علماء قرآن کے پڑھنے اور قرآن کریم کی چند ظاہر چیزوں کو جاننے کے بعد اپنے آپ کو اہل اللّٰہ، خاصۃ العلماء اور ورثۃ الانبیاء سمجھنے لگے ہیں، اور اصل میں اہل اللّٰہ اور انبیاء کرام کے وارث وہ لوگ ہیں جو کہ کلام اللّٰہ کی حقیقت تک رسائی حاصل کر چکے ہوں کہ ﴿أَفَلَا یَتَدَبُّرُوْنَ الْقُرْآنَ﴾ (النساء: 82) اِن سے حاصل ہوتا ہے، اور قرآن کریم بھی اِن کو قبول کرتا ہے، کیونکہ یہ لوگ ان اوصاف کے حق دار اور اہل ہیں، اور وہ محبوب یقینی طور پر یہ بات جانتا ہے کہ جب تک تجھے قرآن کریم قبول نہیں، تو معانی کی یہ حقیقت کبھی بھی بیان نہیں کی جا سکتی، کیونکہ دلہن کی ملاقات قبول کے بعد ہی ہوتی ہے۔ اسی طرح معانی قرآن کی عروس (دُلہن) جس نے اس محبوب کو قبول کیا ہے، تم اس کی جلوہ گری اُس طرح دیکھو گے جیسا کہ محمد حسین نے اس زیبائش اور حسن کی مشاط گری کی ہے۔ یاد رکھو! کہ قرآن کریم کسی نا محرم اور اجنبی کو شرفِ قبولیت عطا نہیں کرتا اور وہ کسی اجنبی کے ساتھ بات تک بھی نہیں کرتا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ قرآن کریم اپنے حسن و جمال کے جلوے اور حسین جلوے شرابِ محبت کے اُن مستانِ ازل کو دکھانے سے دریغ نہیں کرتا، جو کہ اُن جلوہ ہائے حسین و ہوش ربا کے اہل ہوں۔ ﴿إِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَذِكْرٰى لِمَنْ كَانَ لَهٗ قَلْبٌ أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِیْدٌ﴾ (ق: 37)

تشریح:

مولانا روم رحمۃ اللّٰہ علیہ کو اللّٰہ تعالیٰ اجر دے، حضرت نے بڑے آسان آسان طریقوں سے، بعض مشکل مشکل چیزیں سمجھائی ہیں۔ مثلاً حضرت نے یہ بات کیسے سمجھائی ہے۔ حضرت فرماتے ہیں کہ رومیوں اور چینیوں میں مقابلہ ہو گیا۔ رومی کہتے ہیں ہم بڑے سورما ہیں۔ چینی کہتے ہیں ہم بڑے کاریگر ہیں۔ بادشاہِ وقت نے کہا: چلو تم اپنے اپنے فن کا اظہار کرو، مقابلہ کے دن پھر مقابلہ ہو گا، آپ بتائیں آپ لوگ کون سا کام کرنا چاہتے ہیں؟ اس وقت پھر ہم دیکھیں گے کہ جو اچھے ہوں گے ان کو انعام دیں گے۔ دو دیواریں مقرر ہو گئیں، درمیان میں پردہ لٹکایا گیا۔ بادشاہ نے کہا کسی اور کو کچھ نہیں بتانا، صرف مجھے بتانا ہے کہ آپ نے کون سی چیز منگوانی ہے، تاکہ ایک دوسرے کو پتا نہ چلے کہ کون کیا کر رہا ہے۔ اتنا زبردست نظام بنایا۔ چینیوں نے نقش و نگار کی چیزیں، جیسے رنگ، برش اور اس طرح کی چیزیں منگوائیں۔ اور رومیوں نے صرف صفائی کے آلات منگوائے، ریگ مالیں، کپڑے اور اس طرح کی چیزیں منگوا لیں۔ بادشاہ ان کو ان کے مطالبے کے مطابق دیتا رہا۔ وقتِ مقررہ پر پردہ ہٹایا گیا تو دیکھا کہ چینیوں نے زبردست قسم کی گُل کاری کی ہوئی تھی، آنکھوں کو خیرہ کرنے والے بیل بوٹے اور پتا نہیں کیا کیا بنایا تھا۔ رومیوں نے کچھ نہیں کیا تھا، انہوں نے دیوار کو صاف کیا تھا، اتنا صاف کیا تھا کہ وہ آئینہ بن گئی تھی، اس میں چیزیں نظر آتی تھیں، اس دیوار کے تمام نقش و نگار اس کے اندر نظر آئے۔ اور یہ فطرت ہے، سب لوگ جانتے ہیں کہ کیمرہ میں منظر زیادہ خوبصورت نظر آتا ہے۔ ویسے وہی عام سی جگہ ہوتی ہے، کوئی اس کو اتنی اہمیت نہیں دیتا۔ لیکن جب کیمرہ سے تصویر بنائی جاتی ہے تو آدمی کہتا ہے: کیا زبردست جگہ ہو گی۔ لہذا کیمرے کا جو عکس اور اس کی لائٹ ہے وہ اس کو کچھ کرتی ہے۔ چنانچہ اس میں جو عکس آ رہا تھا، اس کا اپنا ایک منظر تھا۔ آخر ہیرے میں کون سا کمال ہوتا ہے؟ کیا ہیرے کے اندر کوئی لائٹ جل رہی ہوتی ہے؟ یہی باہر کی روشنی ہیرے پہ پڑتی ہے، لہٰذا اس کی جو reflection ہوتی ہے وہی اس کا کمال ہے۔ بہرحال اس میں وہ عکس اصل سے بہت زیادہ خوبصورت لگ رہا تھا۔ لہٰذا رومی جیت گئے۔ اس واقعے سے حضرت سمجھانا کیا چاہتے ہیں؟ فرمایا تم دل پر محنت کرو، دل تمہارا آئینے کی طرح صاف ہو جائے، دنیا کی کوئی محبت اس میں نہ رہے، نکالو اس کو جتنا نکال سکتے ہو، صاف کرو، صاف کرو، اور صاف کرو۔ اس کے بعد محنتیں دوسرے لوگ کریں گے اور استعمال آپ کریں گے۔ عالم پوری محنت کر کے قرآن کے سارے معانی بتائے گا، ادھر صوفی جو صاف دل والا ہو گا، اس کو ساری بات سمجھ آ جائے گی۔ اور خود عالم کو کچھ بھی سمجھ نہیں آئے گی۔ ’’اَللّٰہُ اَکْبَرْ‘‘ کے متعلق بتاتا ہوں۔ ’’اَللّٰہُ اَکْبَرْ‘‘ کے بارے میں مفسر کتنا بتائے گا؟ محدود ہو گا۔ لیکن کیا ’’اَللّٰہُ اَکْبَرْ‘‘ محدود ہے؟ جو اللّٰہ کا ادراک کر رہا ہے وہ بھی ’’اَللّٰہُ اَکْبَرْ‘‘ سن رہا ہے اور جو ’’اَللّٰہُ اَکْبَرْ‘‘ کے معانی جان رہا ہے اور تفسیریں جان رہا ہے وہ بھی ’’اَللّٰہُ اَکْبَرْ‘‘ سن رہا ہے۔ لیکن دونوں ایک جیسے نہیں ہیں۔ یہی فرمایا ہے:

﴿إِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَذِكْرٰى لِمَنْ كَانَ لَهٗ قَلْبٌ أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِیْدٌ﴾ (ق: 37)

ترجمہ: ’’یقیناً اس میں اس شخص کے لئے بڑی نصیحت کا سامان ہے جس کے پاس دل ہو، یا جو حاضر دماغ بن کر کان دھرے‘‘۔

یعنی بے شک اس قرآن کے اندر نصیحت ہے، مگر اس شخص کے لئے ہے جس کا دل بنا ہے۔ اور دل کے بننے پہ محنت ہے۔ اس میں سوچنے کی مقام ہے، اس شخص کے لئے جس کے اندر دل ہے یا لگائے کان دل لگا کر۔ اس میں کیا بتایا گیا ہے؟ اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ یعنی اگر دل بنا ہے، تو قرآن سے خود لے گا، اور اگر دل بنا ہوا نہیں ہے، پھر کسی دل والے کی سنیں دل لگا کے، یعنی پھر دوسرے کے دل سے لے گا۔ یہ بالکل ایسے ہے کہ یا تو خود بینا ہو کہ راستہ پہ چلے، اگر خود بینا نہ ہو تو بینا پہ ہاتھ رکھے۔ یہی ہو سکتا ہے۔

متن:

اور شیخ محمد حسین نے فرمایا ہے کہ جب کوئی شخص حقائق قرآنی سے آگاہی حاصل کرے تو اس کا کم ترین مقام یہ ہوتا ہے کہ قرآن اس شخص کو جنت میں پہنچا کر دم لیتا ہے۔ پس ذرا غور کرو! کہ اس سے اعلیٰ مقام اور کیا ہو گا؟ لیکن یہ بات یاد رکھ! اس مقام کی ابتدا اس سے ہو گی کہ قرآن کریم تجھ سے کلام کرے اور اپنا حسن و جمال تجھ کو دکھائے۔ اس کے بعد جو کچھ تم سمجھ پاؤ گے وہ اتصالات ہونگے، یعنی وہ مضامین قرآن کے اندرونی فضائل و محاسن کے بارے میں ہوں گے، اور انفصالات تجھ سے رخصت ہو جائیں گے، یعنی کوئی بات جو قرآن مجید کے مضامینِ حسن سے جدا اور علیحدہ ہو وہ تم سے کوسوں دور ہو جائے گی۔ اور اس ابتدا کی انتہا کوئی نہیں، اور ابد الآباد تک اس کی انتہا نہیں، لیکن تم یہ معلوم نہیں کر سکو گے کہ قرآن بس یہاں ہے، جب تک کہ تو ﴿فِیْھَا کُتُبٌ قَیِّمَۃٌ﴾ (البینة: 3) کے اشارے اور غمزے مشاہدہ نہ کرے۔ اور علمائے ظاہر نے تو ظاہر پر قناعت کی ہے وہ قرآن کے چھلکے اور پوست کو تو دیکھتے ہیں مگر اُس کے مغز کی لذت اور ذائقہ سے آشنا نہیں کہ "إِنَّ هَذَا الْقُرْآنَ مَأْدُبَةُ اللهِ" (المستدرك على الصحيحين للحاكم، کتاب فضائل القرآن، باب: أخبار فی فضائل القرآن جملۃ، رقم الحدیث: 2040) یعنی قرآن کریم اللّٰہ تعالیٰ کی زمین پر اللّٰہ تعالیٰ کا سجایا ہوا دستر خوان ہے۔

تشریح:

اللّٰہ کے کلام کے اندر جو معارف ہیں، وہ اللّٰہ پاک نے پھیلا دیئے ہیں، جو ان سے جتنا لینا چاہے لے لے۔

متن:

اور حسن بصری نے اِس مقام پر فرمایا ہے کہ "أُنْزِلَ الْقُرْاٰنُ لِیُعْمَلَ بِہٖ وَاتَّخَذَ النَّاسُ قِرَاءَتَہٗ وَدَرْسَہٗ عَمَلًا" یعنی قرآن کریم کے نزول کی غرض و غایت یہ ہے کہ اُس پر عمل کیا جائے، مگر لوگوں نے اس کی قرأت، تلاوت اور درس کو عمل بنا کر رکھا۔

تشریح:

یعنی یہ ذریعہ تو ہے، لیکن مقصود نہیں ہے۔

متن:

صُمٌّ (کان نہیں رکھتے) بُکْمٌ (گونگے ہیں) قرآن کیسے پڑھیں گے؟ عُمْیٌ (اندھے ہیں) اِن کی آنکھیں نہیں ہیں، آیت مُبارکہ کے حُسن و جمال کو دیکھ کر کیا لطائف حاصل کریں گے؟ اور ان لوگوں کا تعارف اور تعریف بس یہی ہے کہ ﴿لَا تَعْمَى الْأَبْصَارُ وَلٰكِنْ تَعْمَى الْقُلُوْبُ الَّتِيْ فِي الصُّدُوْرِ(الحج: 46) ”سو کچھ آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں، لیکن اندھے ہو جاتے ہیں دِل جو سینوں میں ہیں“ یعنی اِن کے دِل کی آنکھیں اندھی، دِل کی زبان گونگی اور دِل کے کان بہرے ہیں۔

تشریح:

پس پتا چلا کہ قرآن جو اللّٰہ پاک کا کلام ہے، اللّٰہ سے ملانے والا ہے، اس کے ساتھ ہمارا جتنا گہرا تعلق ہو گا، اتنا اتنا اللّٰہ کے ساتھ ہمارا تعلق ہو گا۔ اسی طرح نماز، جو اللّٰہ سے لینے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ جیسے فرمایا: ﴿وَاسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوةِ (البقرہ: 45) اس کے ساتھ جتنا ہمارا تعلق ہو گا، جتنی گہرائی اس کے اندر ہو گی، جتنا خشوع و خضوع ہو گا، جتنا جذب ہو گا، اتنا ہی وہ اس کے ذریعے سے اللّٰہ تعالیٰ سے لے سکے گا۔ جیسے خانہ کعبہ پہ جا کر ملتا ہے، روضۂ اقدس پہ جا کر بھی ملتا ہے، اس کی حفاظت کرنی پڑتی ہے۔ ’’اَلصَّلوٰۃُ مِعْرَاجُ الْمُؤْمِنِ‘‘ ’’نماز مؤمن کی معراج ہے‘‘۔ معراج کا مطلب یہ ہے کہ اللّٰہ کے پاس پہنچ جانا، لا مکان پہنچ جانا۔ یعنی جتنا نقطۂ معراج ہے اس تک پہنچنا، اور وہ لامکان ہے۔ لہٰذا جس وقت انسان اللّٰہ کے دربار میں ہے اور اللّٰہ کی رحمت کی نظر میں ہے، تو اللّٰہ جل شانہ اس کو جو دینا چاہتے ہیں، اس کو اس وقت دے دیتے ہیں۔ اسی طرح اس کی نماز جس حالت کی ہو گی اس کو اس کے مطابق دیا جائے گا، اس کی معرفت کے مطابق اس کو دیا جائے گا۔ تو ہم اگر ان راستوں کو بند کر لیں اور محض اس عادی نظام (یعنی جو عادۃً ہے) اسی پہ ہی اکتفا کریں تو ظاہر ہے ہم ان چیزوں تک نہیں پہنچ سکتے۔ لہذا ہمیں ترقی کرنی پڑے گی، اپنی نماز کو مسائل کے لحاظ سے بھی درست کرنا پڑے گا، اور کیفیت کے لحاظ سے بھی بہتر کرنا پڑے گا۔ نماز میں ہماری جتنی اچھی کیفیت ہو گی، اتنی ہی بلندی کی طرف ہم جا سکیں گے۔ اور پھر اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے ہمیں جو چیز ملنی ہو گی وہ ان شاء اللّٰہ ہمیں عطا ہو گی۔ اور یہ پانچ وقت کے لئے بلایا جاتا ہے، قرآن تو دسترخوان ہے، کوئی لینا چاہے لے لے، نہ لینا چاہے تو اس کی مرضی ہے۔ ’’حَیَّ عَلَی الصَّلوٰۃِ، حَیَّ عَلَی الْفَلَاحِ‘‘ پانچ دفعہ باقاعدہ اللّٰہ تعالیٰ ضروری طور پر (compulsorily) سب کو بلاتے ہیں کہ ان کو نوازیں۔ لیکن جو اللّٰہ کے دینے کئے نظام کو بوجھ سمجھے گا، وہ نماز نہیں پڑھ سکے گا اور نماز سے وہ چیز نہیں حاصل کر سکے گا۔ لیکن جو بوجھ نہیں سمجھتا، بلکہ اس ملنے والے نظام کا ادراک کر کے نماز کی تیاری کرے گا، اس کی بات اور ہو گی۔ پھر ’’اَرِحْنِیْ یَا بِلَالُ‘‘ کی طرح بات ہو گی۔ اور اگر اس طرح نہیں ہے تو پھر یہ چیز حاصل نہیں ہو سکتی۔ لہٰذا ہمیں باقاعدہ تیاری کرنی چاہئے۔ اللّٰہ پاک نے فرمایا ہے: ﴿وَاِنَّهَا لَكَبِیْرَةٌ اِلَّا عَلَى الْخٰشِعِیْنَ الَّذِیْنَ یَظُنُّوْنَ اَنَّهُمْ مُّلٰقُوْا رَبِّهِمْ وَاَنَّهُمْ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَ (البقرۃ: 45-46) اس میں جو آخری چیز ہے وہ خشوع کو حاصل کرنے کا ذریعہ ہے اور خشوع ذریعہ ہے نماز کو آسان کرنے کا۔ آج کل نماز میں سب کچھ ہوتا ہے خشوع نہیں ہوتا، نماز کیسے آسان ہو؟ لہٰذا نماز پہ محنت در اصل خشوع کو حاصل کرنے کی محنت ہے۔ ورنہ نماز کے مسائل انسان دو دن میں سیکھ سکتا ہے۔ لیکن خشوع کو پوری عمر سیکھنا پڑتا ہے اور اگر حاصل ہو جائے تو یہ بڑی بات ہے۔

یہ جو ابھی پڑھا گیا ہے۔ اس کو اشعار کی زبان میں کیسے سمجھایا گیا ہے۔ وہ اشعار درج ذیل ہیں۔

کلامِ ربی

قاریِٔ قرآن ذرا تو دیکھو کہ سامنے کیا ہے کلامِ ربی

کلامِ حاکم، کلامِ محبوب کیا خوش ادا ہے کلامِ ربی


یہ تیرا آئین، یہ تیرا منشور، ہے تیری زیست کا یہ ایک دستور

مقابلے کا نہ سوچو اس کے کہ بس جدا ہے کلامِ ربی

تشریح:

یعنی اس کا کسی اور کلام کے ساتھ آپ مقابلہ کر ہی نہیں سکتے۔


لفظ لفظ میں ہے پیار کتنا، تو ہم ہوں اس پر نثار کتنے

زبان کتنی ہے خوش نصیب وہ، چلا ہے جس پہ کلامِ ربی


سکونِ دل بھی نصیب اس سے، اَجر تلاوت کا اس کا زیادہ

تو طاق میں بند بغیر دیکھے، کیوں رکھا ہے کلامِ ربی

شفائے دل ہے، دلوں کا نور ہے، دلوں میں اس سے کیا سرور ہے

کثافتیں ہوں جو دل میں زیادہ، تو پھر شِفا ہے کلامِ ربی

زبان مشغول ہو اس میں اور آنکھ دیکھنے میں ہو اس کے محو

تلاوت اس کی ہوں سنتے کان سے مری دعا ہے کلامِ ربی


کلامِ ربی پہ غور کرنا کلام پر ہو اور رب پہ بھی ہو

شبیرؔ دل سے ذرا تو پوچھو، کبھی سنا ہے کلامِ ربی

تشریح:

یعنی اگر ان دو باتوں پہ تھوڑا سا غور کر لو، تو پتا چلے گا کہ ہم نے کبھی سنا ہی نہیں۔ اگر سن لیں، تو پھر کیسا ہو گا۔


کلامِ ربی پہ غور کرنا کلام پر ہو اور رب پہ بھی ہو

شبیرؔ دل سے ذرا تو پوچھو، کبھی سنا ہے کلامِ ربی

تشریح:

یعنی قرآن کا جمال ہر ایک پہ نہیں کھلتا۔

قارئِ قرآن ذرا تو دیکھو کہ سامنے کیا ہے کلامِ ربی

کلامِ حاکم کلامِ محبوب کیا خوش ادا ہے کلامِ ربی

اس کا ترجمہ پشتو میں بھی ہے، پشتو میں زیادہ پُر زور انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ ریکارڈ ہو جائے گا، تو پشتو والے اس سے فائدہ اٹھائیں گے۔