توضیح المعارف قسط 13

توضیح المعارف قسط: 13
فلسفہ، سائنس اور معرفت الٰہی –(آٹھواں حصہ)
مسئلہ توحید کے متعلق مختلف نظریات:
یہ بات سب محققین کے نزدیک مسلم ہے کہ کائنات کی تمام اشیاء چاہے اتنی بڑی ہوں کہ ہم اس کا سوچ نہ سکیں یا اتنی چھوٹی کہ ہم اس کا ادراک نہ کرسکیں ،ان سب کا قیوم ایک ہی واحد شخصی وجود ہے، جس کو اوپر وجود منبسط کہا گیا، لیکن آگے کچھ ضمنی اختلافات پیدا ہوگئے۔
وجودیہ عینیہ:
کچھ صوفیاء حضرات وجودِ منبسط کے مشاہدے میں ہی اتنے گم ہوگئے کہ اپنے آپ کو بھی فراموش کردیا۔ وجودِ منبسط سے بالاتر مرتبہ لاہوت تک ان کی رسائی نہ ہوئی۔ ان کو وجودیہ عینیہ کہا جاتا ہے۔
وجودیہ عینیہ سے آگے بڑھنے والے محققین عارفین نے وجودِ منبسط سے آگے بڑھ کر لاہوت کو بھی نگاہ بصیرت سے دیکھا۔ پھر ایسے حضرات کے دو گروہ مشہور ہو گئے۔
وجودیہ ورائیہ:
یہ حضرات لاہوت کی عظمت و جلال کے انکشاف کی وجہ سے لاہوت ہی میں گم ہوگئے۔ حضرت شیخ محی الدین ابن عربی رحمۃ اللہ علیہ اس گروہ کے امام ہیں۔ لاہوت میں وجودِ منبسط اور مخلوقات کے اضمحلال اور فنا کے ساتھ ساتھ مخلوقات اور ان کے خالق کے مواطن میں مغائرت کے لامتناہی خلیج کو بھی انہوں نے بھی محسوس کیا۔ یعنی اگرچہ ان کو حق تعالیٰ کی تنزیہہ کا بھی کمال حاصل تھا۔ لیکن لاہوت میں انہماک کی وجہ سے اس کی شرح و تفصیل ان سے کم ظاہر ہوئی ۔
بعد والے کچھ حضرات غلط فہمی کی وجہ سے وجودیہ ورائیہ اور وجودیہ عینیہ کے مقام میں فرق نہ کرسکے اور دونوں گروہوں کو ایک ہی نام وحدت الوجود سے موسوم کردیا۔
شھودیہ ظلیہ:
وجودیہ ورائیہ کی طرح ان کے نزدیک بھی اصل حقیقت تو اللہ تعالیٰ کا وجود یا لاہوت ہے باقی موجودات ظلی طور پر تجلی وجود کے طفیل موجود ہیں۔ پھر اصل اور ظل میں جو فرق ہے، اس فرق کے اظہار پر انہوں نے اپنی ساری توجہ صَرف کردی۔ اس لیے ان کو ظلیہ کہتے ہیں حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ اس جماعت کے امام ہیں۔
مندرجہ بالا عارفین کے دونوں گروہ ( وجودیہ ورائیہ اور شہودیہ ظلیہ) کے حال کو سورج کی موجودگی میں ستاروں کے نظر نہ آنے کی تشبیہ سے سمجھا جاسکتا ہے۔ یعنی دیکھنے والے کو علم تو ہوتا ہے کہ ستارے ہیں لیکن سورج کی روشنی اتنی زیادہ ہے کہ نظر نہیں آتے۔
ان کو اس حال کے دو فائدے حاصل ہوتے ہیں ایک تو یہ اللہ کے صفات اور اس کی قدرت کے مظاہر اور اس کی مخلوقات کی موجودگی کے انکار سے بحالت ہوش بچ جاتے ہیں اور دوسرا یہ کہ اللہ کے مخلوق کے حقوق کی ادائگی خود اللہ تعالیٰ کے امر یعنی شریعت کے مطابق کرتے ہیں ۔
شیخ اکبر کا مسلک:
بظاہر ان کا مسلک وجودیہ عینیہ نظر آتا ہے لیکن ان کے پورے کلام کو اگر بغور مطالعہ کیا جائے تو غلط فہمی دور ہوجاتی ہے۔ یہ وحدت پر نظر جمائے رکھنے سےکائنات کی کثرتوں کو اکثر اپنی نظر میں غائب پاتے ہیں۔ لیکن ان کثرتوں کو ذاتِ حق نہیں مانتے اور نہ ہی ان کو ذات حق کا عین سمجھتے ہیں۔ انہوں نے بعض مصالح کی بنیاد پر جن کی اس وقت زیادہ ضرورت تھی واقعہ کے ایک خاص پہلو کا اظہار و بیان زیادہ کیا۔ یعنی ان ساری کثرتوں کی قیومیت کا جو تعلق ذاتِ حق سے ہے اور یہ عالم جو ہمیں خارج میں نظر آتا ہے اس کا اور جو کچھ اس میں ہے، لاہوت نے ایک ہی وقت میں ان سب کا جو احاطہ کیا ہوا ہے اس کے بیان پر زیادہ زور دیا ہے تاکہ کائنات کی ساری کثرتیں اس ذات حق کی وحدت کے سامنے مضمحل نظر آئیں۔ لیکن ساتھ ساتھ اگرچہ قدرے کم سہی لیکن اشارتاً یہ تنبیہ بھی کرتے چلے جاتے تھے کہ وہ ذاتِ حق ان تمام نقشوں سے پاک اور مقدس ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ بھی (وَمَا خَلَقْتَ ھٰذَا باطِلاً) (آل عمران:191) کے ساتھ ہی (سُبْحَانَکَ) فرماتے ہیں ۔ان کے اس اتحاد پر زور ہی ان کو وجودیہ عینہ دکھلا رہا تھا۔ آگے جاکے اس گروہ کے غالی لوگوں نے اس سے وہی مطلب لیا جس کا ڈر تھا۔ اس لئے بعد میں آنے والے محققین نے ان کا ابطال فرمایا لیکن اس میں حضرت شیخ اکبر کا کوئی قصور نہیں تھا جیسا کہ اہل تشیع کے خرافات میں حضرت علی کا کوئی قصور نہیں ۔
حضرت مجدد الف ثانیؒ کا مسلک:
جیسا کہ پہلے کہا گیا کہ شیخ اکبرؒ کے بعض غالی معتقدین نے کثرت میں وحدت کو ایسا دکھایا کہ بجائے اس کے کہ کثرت میں وحدت نظر آئے اسی کثرت کو وحدت مانا گیا یعنی ہر چیز کو ذات حق کا عین مانا گیا۔ اس قسم کے اتحاد کی نفی ضروری تھی تو حضرت مجدد صاحب نے واقعے کا دوسرا پہلو جو ان سے مستور تھا خوب اجاگر کیا اور وہ ہے ذاتَ حق کی تنزیہہ جس سے خالق و مخلوق کا مؤطن میں اختلاف کی وجہ سے ان میں آپس میں جو مغائرت ہے اس کو خوب اجاگر کیا۔ جیسا کہ حضرت کا ملفوظ گزر گیا کہ حق تعالیٰ موجود ہے اور بغیر کسی وجود کے موجود ہے۔ حضرتؒ نے اس حقیقت کو تفصیل سے بیان کیا کہ اصل وجود اللہ کا ہے اور باقی موجودات ظلال ہیں اور عدم سے وجودی تجلی کے ذریعے عروج کر کے موجود ہوئے ہیں۔ ان کے وجود کو باطل نہیں کہا جاسکتا لیکن اللہ تعالیٰ کی ذات ان سب سے منزہ اور پاک ہے۔
شاہ ولی اللہؒ کا مسلک:
حضرت شاہ ولی اللہؒ نے دونوں مسلکوں کو جمع کیا اور دیکھا کہ مختلف مصالح سے دونوں طرف کے بزرگوں نے ایک پر زیادہ اور دوسرے پر کم زور دیا ہے۔ حضرت نے دونوں کا بنظر غائر مطالعہ کیا اور اس نتیجے پر پہنچے کہ چونکہ دونوں باتیں صحیح ہیں اس لئے ان کو یکساں طور پر بیان کیا جائے، اگر ایک طرف یہ حق ہے کہ (لَيْسَ كَمِثْلِهٖ شَيْءٌ) (الشوری: 11) اور تمام مخلوقات اور موجودات سے حق تعالیٰ کی ذات کا منزہ اور مقدس ہونا حق ہے تو دوسری طرف تمام کثرتیں حق کے شیونات و صفات کے مظاہر ہیں۔ ایک میں اسمِ باطن کا ظہور ہے تو دوسرے میں اسمِ ظاہر کا اس لئے ہر دو کا حق ادا کرنا چاہئیے۔
وحدت الوجود اور وحدت الشہود کی واقعی نوعیت:
وحدت الوجود اور وحدت الشہود کی اصل نوعیت کیا ہے؟ کیا یہ نزاع لفظی ہے یا ان کی اپنی علیحدہ علیحدہ حقیقت ہے! اس پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ دو وجوہات سے ان کو سمجھنے میں مشکل پیدا ہوگئی تھی ایک یہ کہ بعض متاخرین میں ان کی حقیقت کو سمجھنے کی صلاحیت مفقود تھی، دوسری بات یہ تھی کہ غلبہ حال میں بعض بزرگوں کی زبان یا قلم سے کچھ ایسی باتیں نکلیں جس سے کج فہموں کو موقع مل گیا اور انہوں نے کچھ سے کچھ بنا دیا۔جیسا کہ پہلے بتایا گیا ہے کہ اس مسئلے کے دو پہلو تھے۔ حالات کے پیشِ نظر ایک فریق نے اس کے ایک پہلو کو اجاگر کیا اور دوسرے فریق نے اس کے دوسرے پہلو پر زور ڈالا جس سے ان دونوں کی آراء میں بعد بہت نمایاں ہوا لیکن اگر بنظر غائر دونوں فریقوں کے دلائل کو دیکھا جائے تو بات ایک نظر آتی ہے۔
حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک ان دونوں کی اپنی اپنی حقیقت ہے۔ وحدت الوجود میں اللہ تعالیٰ کی ذات کا استحضار اتنا ہو جاتا ہے کہ مخلوق پر نظر بالکل نہیں جاتی اور مخلوق کے بارے میں سالک کو کچھ علم نہیں ہوتا۔ یہ بس ایک سُکر کا عالم ہوتا ہے جس میں سالک معذور ہوتا ہے، لیکن اس کو جب اس حالت سے آفاقہ ہو جاتا ہے تو پھر مخلوق کا بھی اس کو علم دوبارہ حاصل ہو جاتا ہے۔ لیکن خالق کا وجود اصل مانتا ہے اور مخلوقات کو ظلال کے طور پر جیسا کہ (وَمَا خَلَقْتَ ھٰذَا باطِلاً سُبْحَانَکَ) (آل عمران:191) میں اشارہ موجود ہے نیز اور اس کے بارے میں جو خالق کے احکامات ہوتے ہیں ان کا بھی اس کو ادراک ہوتا ہے جس سے وہ سب کے حقوق ادا کرتا ہے اور کامل ہوجاتا ہے۔ یہ صرف حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کی تحقیق نہیں تھی بلکہ ان کے متقدمین کی بھی یہ تحقیق تھی۔ پہلی حالت کو وہ وحدت الوجود بالسکر کہتے تھے اور دوسری حالت کو وحدت الوجود بدون سکر کہتے تھے، البتہ بعد کے لوگوں نے اس میں فلسفیانہ طور پر زیغ کو شامل کیا تو حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے مؤخر الذکر حالت کے لئے نئی اصطلاح وضع فرمائی جس کو وحدت الشھود کہتے ہیں جس سے کسی کا ذہن غلط طرف جاہی نہیں سکتا۔
حضرت اقدس نامی کتاب میں شیخ بدر الدین رقمطراز ہے کہ حضرت امام ربانی فرماتے ہیں کہ کہ میرا آخری انکشاف یہ ہے کہ جس طرح صورتیں آئینے میں نظر آتی ہیں اسی طرح حق کے آئینے میں وجودِ منبسط کو میں پارہا ہوں اور یہ حضرات فرماتے ہیں کہ حضرت کی وفات کے وقت حضرت کے سرہانے کے نیچے سے جو کاغذ برآمد ہوا اس پہ اسی موخر الذکر تحریر کا خلاصہ تھا۔ اس کو اگر عارف جامیؒ کے اس شعر کے ساتھ ملا کر پڑھا جائے تو کیا لطف ہے
کُلُّ مَا ِفی الْکَوْنِ وَھْمُٗ أَوْ خَیَالُٗ
أَوْ عُکُوْسُٗ فِی الْمَرَایَا أَوْ ِظلَالُٗ
شیخ صدر الدین قونوی فرماتے ہیں کہ ارباب تحقیق کے نزدیک یہاں اللہ اور عالم کے سوا اور کچھ نہیں ہے اور عالم کے لفظ سے جن چیزوں کی تعبیر کی جاتی ہے وہ اللہ کی ان معلومات کی حقیقتوں کے سوا اور کچھ نہیں ہیں جن کی پہلی صفت تو یہ ہے کہ وہ اللہ کی معلومات ہیں اور دوسرے درجے میں وہ وجود کی صفت سے موصوف ہوتے ہیں۔
دوسری جگہ لکھتے ہیں ۔
حق سے جو چیز سب سے پہلے صادر ہوئی ہے ہمارے نزدیک یہ وہی وجودِ منبسط ہے جو موجودات کے ہیاکل پر پھیلا ہوا ہے اور قلم اعلیٰ جسے ارباب عقل "عقل اول" کہتے ہیں اس میں اور ساری کائنات میں یہی وجودِ منبسط مشترک ہے۔
حضرت مجدد الف ثانیؒ بھی نے بھی اپنے الفاظ میں تقریباً یہی بات فرمائی ہے کہ صورتیں جس طرح آئینے میں نظر آتی ہیں اس طرح حق کے آئینے میں میں وجودِ منبسط کو دیکھ رہا ہوں۔ حضرت کی تحقیق یہ ہے ہمارے لئے تو ہر ایک چیز کی پیدائش کے ساتھ ہی اس کا علم پیدا ہوتا ہے۔ لیکن چونکہ اللہ تعالیٰ علیم ہے اس لئے اس کو ساری چیزوں کا پہلے سے علم ہے تو اللہ تعالیٰ کی جو معلومات ہیں ان کو جب اللہ تعالیٰ پیدا کرنا چاہتے ہیں تو ان پر تجلی وجودی ڈالتے ہیں جس سے وہ چیزیں جو ہمارے لحاظ سے عدم تھیں عروج کر کے ان معلومات کے ظلال کے طور پر موجود ہو جاتی ہیں۔
شھودیہ غیریہ:
جس طرح وجودیہ عینیہ خالق و مخلوق کے اتحاد کے نظریے کی طرف اتنے جھکے کہ مغائرت کی بات نہیں رہی بالکل اسی قسم کا سکر صوفیاء کی ایک مختصر جماعت کو ہوا کہ انہوں نے اتحاد کو بالکل خارج از بحث سمجھا اور محض مغائرت پر یقین کیا اور مخلوق کے لئے ایک ایسا جداگانہ ذات کے اثبات کے درپے ہوگئے جو خالق کی ذات سے بالکل جدا اور غیر ہے۔ ایسی صورت میں قیوم کے ساتھ امکانی حقیقت کی کوئی صورت نہیں رہی جیسے کوئی کہہ دے کہ تعین و تشخص کے بغیر ایک چیز موجود ہوگئی تو جیسے یہ ممکن نہیں اس لئے اس نظریے کو بھی حق سمجھنا ممکن نہیں۔ شاید اسی چیز سے بچانے کے لئے شیخ اکبرؒ کا نظریہ وجود میں آیا تھا۔
خلاصہ یہ کہ:
وجودیہ، وحدت الوجود کی اصل حقیقت کو سمجھنے والے عارفین کو بھی کہا جاتا ہے اور ان لوگوں کو بھی جو وجودیہ ہونے کا دعوی کرتے ہیں اور ان بزرگوں کے اصطلاحات کو تو استعمال کرتے ہیں لیکن ان کے احوال سے نہیں گزرے ہوتے اس لئے اہل حال نہیں ہوتے صرف فلسفہ بھگارتے رہتے ہیں اس لئے یہ گمراہ لوگ ہوتے ہیں۔ یا پھر گمراہی کے دھانے پر ہوتے ہیں۔ وجودی کہلانے والے عارفین کہتے ہیں کہ اصل میں اللہ تعالیٰ ہی موجود ہیں، ان کے مقابلے میں مخلوقات کی حیثیت ایک خیال کی سی ہے۔ جبکہ وجودی کہلانے والے گمراہ مفکرین سمجھتے ہیں کہ واقع میں کائنات موجود ہے اور اللہ تعالیٰ کا وجود محض ذہنی یا abstract چیز ہے۔ یہ ایک جیسے کیسے ہوسکتے ہیں بلکہ یہ ایک دوسرے کے متضاد (opposites) ہیں۔