رمضان المبارک کے قیمتی لمحات کی قدر کریں



اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

﴿یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَیْكُمُ الصِّیَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ (البقرۃ: 183)

’’عَنْ سَلْمَانَ الْفَارِسِيِّ قَالَ: خَطَبَنَا رَسُوْلُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيْ آخِرِ يَوْمٍ مِّنْ شَعْبَانَ فَقَالَ: ’’يَا أَيُّهَا النَّاسُ قَدْ أَظَلَّكُمْ شَهْرٌ عَظِيْمٌ، شَهْرٌ مُبَارَكٌ، شَهْرٌ فِيْهِ لَيْلَةٌ خَيْرٌ مِنْ أَلْفِ شَهْرٍ، جَعَلَ اللهُ صِيَامَهٗ فَرِيْضَةً، وَقِيَامَ لَيْلِهٖ تَطَوُّعًا، مَنْ تَقَرَّبَ فِيْهِ بِخَصْلَةٍ مِنَ الْخَيْرِ كَانَ كَمَنْ أَدّٰى فَرِيْضَةً فِيْمَا سِوَاهُ، وَمَنْ أَدّٰى فَرِيْضَةً فِيْهِ كَانَ كَمَنْ أَدّٰى سَبْعِيْنَ فَرِيْضَةً فِيْمَا سِوَاهُ، وَهُوَ شَهْرُ الصَّبْرِ، وَالصَّبْرُ ثَوَابُهُ الْجَنَّةُ، وَشَهْرُ الْمُوَاسَاةِ، وَشَهْرٌ يُزَادُ فِيْ رِزْقِ الْمُؤْمِنِ، مَنْ فَطَّرَ فِيْهِ صَائِمًا كَانَ لَهٗ مَغْفِرَةً لِّذُنُوْبِهٖ، وَعِتْقَ رَقَبَتِهٖ مِنَ النَّارِ، وَكَانَ لَهٗ مِثْلُ أَجْرِهٖ مِنْ غَيْرِ أَنْ يُنْقَصَ مِنْ أَجْرِهٖ شَيْءٌ ’’قُلْنَا: يَا رَسُوْلَ اللهِ، لَيْسَ كُلُّنَا يَجِدُ مَا يُفْطِرُ الصَّائِمَ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ’’يُعْطِي اللهُ هٰذَا الثَّوَابَ مَنْ فَطَّرَ صَائِمًا عَلٰى مَذْقَةِ لَبَنٍ أَوْ تَمْرَةٍ أَوْ شَرْبَةٍ مِنْ مَاءٍ، وَمَنْ أَشْبَعَ صَائِمًا سَقَاهُ اللهُ مِنْ حَوْضِيْ شَرْبَةً لَا يَظْمَأُ حَتّٰى يَدْخُلَ الْجَنَّةَ، وَهُوَ شَهْرٌ أَوَّلُهٗ رَحْمَةٌ، وَأَوْسَطُهٗ مَغْفِرَةٌ، وَآخِرُهٗ عِتْقٌ مِّنَ النَّارِ مَنْ خَفَّفَ عَنْ مَمْلُوْكِهٖ فِيْهِ غَفَرَ اللهُ لَهٗ وَأَعْتَقَهٗ مِنَ النَّارِ‘‘۔ (شعب الایمان للبيهقي، حدیث نمبر: 3336) صَدَقَ اللہُ الْعَظِیْمُ وَصَدَقَ رَسُوْلُہُ النَّبِیُّ الْکَرِیْمُ۔

جو بھی عمل کا موقع آتا ہے، اس سے پہلے دو چیزوں کا جاننا ضروری ہوتا ہے۔ ایک یہ کہ اس چیز کی فضیلت کیا ہے، تاکہ عمل کا شوق بڑھے اور اس پر عمل کی توفیق ہو۔ دوسرا یہ کہ اس کے مسائل کا پتا چلے، تاکہ جب وہ عمل کرنے لگ جائے، تو عمل قبول بھی ہو جائے، عمل صحیح بھی ہو۔ آپ ﷺ نے بھی شعبان کے آخر میں یہ خطبہ ارشاد فرمایا تھا، کیونکہ رمضان شریف آنے والا تھا، لہٰذا صحابہ کرام کو اس خطبہ میں انتہائی مختصر اور جامع انداز میں رمضان شریف کے فضائل بتائے۔ یہ جامعیت اور اختصار کسی اور کے حصہ میں نہیں ہے جو آپ ﷺ کو عطا ہوا ہے کہ علوم کے سمندر کو چند فقروں میں سمو دیتے ہیں۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: تم پر ایک عظیم مہینہ سایہ فگن ہونے والا ہے اور یہ مبارک مہینہ ہے۔ برکتوں والا مہینہ ہے۔ اس میں ایک رات ہے۔

شھرِ مبارک فرما کر اب اس کی تفصیل بتائی جا رہی ہے کہ وہ برکتیں کس قسم کی ہیں۔ برکت کس چیز کو کہتے ہیں؟ برکت یہ ہے کہ انسان کام تھوڑا کرے اور اس پہ اجر زیادہ ملے۔ پیسے کم ہوں، ان سے کام زیادہ ہو جائے۔ افراد کم ہوں، لیکن وہ غالب آ جائیں۔ یہ برکت ہے۔ اس طرح بعض لوگوں کے مال میں برکت دی جاتی ہے، بعض کے اعمال میں برکت دی جاتی ہے، بعض کے افراد میں برکت دی جاتی ہے۔ یعنی اللہ پاک نے برکت ہر چیز میں رکھی ہے، جب وہ چاہے۔ اس رمضان شریف میں اللہ پاک نے برکت رکھی ہے، کیونکہ آپ ﷺ نے اس کے بارے میں ارشاد فرمایا ’’شَھْرٌ مُبَارَکٌ‘‘۔ اب یہ برکت کس قسم کی ہے؟ سب سے پہلے جو قِسم بتائی ہے، وہ لیلۃ القدر کی ہے: ’’شَهْرٌ فِيْهِ لَيْلَةٌ خَيْرٌ مِنْ أَلْفِ شَهْرٍ‘‘ کہ اس میں ایک رات ہے، جو ہزار مہینوں سے افضل رات ہے۔ یہ کوئی شاعرانہ بات نہیں ہے، یہ بڑی پکی بات ہے۔ یہ جو آپ ﷺ نے فرمایا ہے، قرآن میں بھی اسی قسم کی بات آئی ہے: ﴿اِنَّاۤ اَنْزَلْنٰهُ فِیْ لَیْلَةِ الْقَدْرِ وَمَاۤ اَدْرٰىكَ مَا لَیْلَةُ الْقَدْرِ لَیْلَةُ الْقَدْرِ خَیْرٌ مِّنْ اَلْفِ شَهْرٍ (القدر: 1-3)

ترجمہ: ’’بیشک ہم نے اس (قرآن) کو شب قدر میں نازل کیا ہے۔ اور تمہیں کیا معلوم کہ شب قدر کیا چیز ہے؟ شب قدر ایک ہزار مہینوں سے بھی بہتر ہے‘‘۔ (آسان ترجمۂ قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب)

پس اگر کسی کو پتا نہ ہو، تو اس کو پتا چلنا بہت ضروری ہے۔ کیونکہ پھر تو ویسے ہی گزر جائے گا۔ اس کو پتا ہوگا کہ اس میں تو یہ بھی مل سکتا ہے، تو ممکن ہے کہ وہ کام کر لے گا، عمل کر لے گا۔ لیکن اگر پتا نہیں ہے اور ایسے گزر جائے، تو بعد میں صرف حسرت ہی ہو گی۔ اس حسرت سے بچنے کے لئے چیزوں کو جاننا ضروری ہے۔ جیسے بعض جگہوں پر ہم دیکھتے ہیں کہ لگتا ہی نہیں کہ رمضان شریف کا مہینہ آیا ہے۔ اور اس میں غریب اور مال دار کی تخصیص نہیں ہے اور ظاہری طور پر ہوشیار اور سادہ کی بھی اس میں کوئی تخصیص نہیں ہے۔ آپ کو ما شاء اللہ ایسے غریب ملیں گے، جو جون اور جولائی کے مہینہ میں پتھر کوٹیں گے، لیکن روزے کے ساتھ ہوں گے۔ ہم نے دیکھے ہیں ایسے لوگ۔ اور ایسے سست مال دار بھی ملیں گے، جو ایئر کنڈیشن میں بیٹھے ہوں گے، لیکن روزہ نہیں رکھا ہو گا۔ بلکہ بعض جو چھٹیوں کا نظام بناتے ہیں، ایسا بنائیں گے کہ جس سے کھوجا خوروں کے لئے فائدہ ہو۔ کیونکہ جو رات کو جاگا ہو، اس کے لئے سہولت اس میں ہے کہ وہ دفتر لیٹ جائے اور لیٹ آ جائے۔ ایک تو اس کی نیند پوری ہو جائے گی، بعد میں تو نیند بڑی مشکل ہوتی ہے۔ لیکن طریقہ یہ اختیار کیا ہوا ہے کہ جلدی آ جاؤ۔ کیونکہ جن کا روزہ نہیں ہوتا، ان کو تو پروا نہیں ہوتی۔ اس لئے جلدی آ جاتے ہیں اور جلدی چلے جاتے ہیں، تاکہ دوپہر کا کھانا بھی کھا سکیں۔ اور روزہ داروں کا خیال نہیں ہوتا۔ بہر حال! ہر ایک کی اپنی اپنی نیت ہے۔ فرمایا: ’’جَعَلَ اللهُ صِيَامَهٗ فَرِيْضَةً‘‘ اللہ تعالیٰ نے اس کا روزہ فرض قرار دیا اور ’’وَقِيَامَ لَيْلِهٖ تَطَوُّعًا‘‘ اور اس کے قیامُ اللیل کو ثواب کی چیز بنا دیا۔ ’’مَنْ تَقَرَّبَ فِيْهِ بِخَصْلَةٍ مِنَ الْخَيْرِ كَانَ كَمَنْ أَدّٰى فَرِيْضَةً فِيْمَا سِوَاهُ‘‘ جس نے اس میں کوئی نفل عمل کیا، تو وہ ایسا ہے، جیسے اس نے فرض عمل کر لیا، یعنی نفل والوں کو فرضوں کا اجر مل گیا۔ دو رکعت نفل نماز پڑھی، تو دو رکعت فرض کا اجر مل گیا۔ یہ بہت بڑی بات ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں نصیب فرمائے۔ فرض تو ایک مستقل چیز ہے، نہ اس میں زیادتی کر سکتے ہیں، نہ کمی کر سکتے ہیں، عام قانون یہی ہے۔ زیادتی اس لئے نہیں کر سکتے کہ تم اپنی مرضی سے فرض بنا نہیں سکتے ہو۔ اور کم اس لئے نہیں کر سکتے کہ گناہ ہو گا، کیونکہ فرض کو چھوڑنا حرام ہے۔ نفل ایسی چیز ہے کہ آپ اس میں جتنا بڑھاؤ، بڑھا سکتے ہو۔ اس میں پابندی نہیں ہے۔ اور نہ پڑھے، تو گناہ نہیں ہے۔ لہٰذا نفل جتنے بھی پڑھ لیں، آپ کے اوپر پابندی نہیں ہے، دو نفل پڑھ لو، چار پڑھ لو، چھ پڑھ لو، آٹھ پڑھ لو، دس پڑھ لو، سو پڑھ لو، آزادی ہے۔ اور اجر فرضوں کا ملے گا۔ حضرت امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ غیرِ رمضان میں بھی رات کو سو رکعات نفل پڑھا کرتے تھے۔ اور امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں فرماتے ہیں کہ جب وہ فوت ہوئے، تو ان کے ایک پڑوسی کی بچی نے اپنے والد سے پوچھا کہ ابو! ہمارے پاس والے گھر کی چھت کے اوپر ایک ستون تھا، وہ ستون اب نہیں ہے، کیوں نہیں ہے؟ وہ شخص رو پڑے۔ کہتے ہیں کہ بیٹی! وہ امام ابو حنیفہ تھے، وہ ساری رات عبادت میں کھڑے ہوتے تھے۔ گویا اتنی کثرت کے ساتھ کھڑے ہوتے تھے کہ بچوں نے ان کو ستون سمجھا ہوا تھا۔ در اصل ان حضرات کو اپنے اوقات کی قدر تھی۔ عام دنوں میں ان کا یہ حال تھا، تو رمضان شریف میں کیا حال ہو گا۔ اس لئے اگر کوئی شخص رمضان کی قدر کر لے، تو یقیناً بہت اجر ملے گا۔ نفلوں میں کوئی پابندی نہیں ہے کہ کتنا پڑھو اور سارا فرض بن جائے گا۔ اور آگے فرمایا: ’’وَمَنْ أَدّٰى فَرِيْضَةً فِيْهِ كَانَ كَمَنْ أَدّٰى سَبْعِيْنَ فَرِيْضَةً فِيْمَا سِوَاهُ‘‘ اور جس نے کوئی فرض عمل کر لیا، وہ ایسا ہے، جیسے اس نے ستر فرض ادا کر لئے۔ یعنی ستر گنا اجر ملے گا۔ یقین کے ساتھ میں کہہ سکتا ہوں کہ عام دنوں میں جو ہم پانچ نمازیں پڑھتے ہیں، رمضان شریف میں وہی پانچ نمازیں 350 نمازیں ہوتی ہیں۔ یعنی ان کا اجر اتنا زیادہ ہوتا ہے۔ ’’وَهُوَ شَهْرُ الصَّبْرِ‘‘ اور یہ صبر کا مہینہ ہے۔ ’’وَالصَّبْرُ ثَوَابُهُ الْجَنَّةُ‘‘ اور صبر کا بدلہ تو جنت ہے۔ ’’وَشَهْرُ الْمُوَاسَاةِ‘‘ اور یہ خیر خواہی کا مہینہ ہے، غم خواری کا مہینہ ہے۔ ’’وَشَهْرٌ يُزَادُ فِيْ رِزْقِ الْمُؤْمِنِ‘‘ اور یہ وہ مہینہ ہے، جس میں مومن کا رزق بڑھا دیا جاتا ہے۔ ’’مَنْ فَطَّرَ فِيْهِ صَائِمًا كَانَ لَهٗ مَغْفِرَةً لِذُنُوْبِهٖ وَعِتْقَ رَقَبَتِهٖ مِنَ النَّارِ‘‘ جس نے اس میں کسی روزہ دار کا روزہ افطار کرا دیا، تو یہ اس کے لئے اس کے گناہوں سے مغفرت ہے اور آگ سے آزادی ہے۔ ’’وَكَانَ لَهٗ مِثْلُ أَجْرِهٖ مِنْ غَيْرِ أَنْ يُنْقَصَ مِنْ أَجْرِهٖ شَيْءٌ‘‘ اور اس کے لئے اس روزہ دار کے روزہ کے اجر کے برابر اجر ہو گا اور اس روزہ دار کے اجر سے کوئی کمی نہیں کی جائے گی۔ آگے دیکھیں! صحابہ کرام کیا کہتے ہیں: ’’قُلْنَا: يَا رَسُوْلَ اللهِ، لَيْسَ كُلُّنَا يَجِدُ مَا يُفْطِرُ الصَّائِمَ‘‘ ہم نے کہا: ہم میں سے ہر ایک میں تو اتنی استطاعت نہیں ہے کہ وہ روزہ دار کو روزہ افطار کرائے۔ یعنی صحابہ کرام زیادہ تر غریب تھے۔ ایک دفعہ تابعین میں کچھ حضرات کپڑوں کے بارے میں بحث کرنے لگے کہ کتنے ہونے چاہئیں، بحث ذرا لمبی ہو گئی۔ ایک تو معلومات کی بات ہوتی ہے اور ایک ہوتا ہے کہ خواہ مخواہ بات بڑھائے جاؤ۔ اس قسم کی صورت حال تھی اور بات بڑھنے لگی۔ ایک صحابی حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے کپڑے تپائی پہ رکھے تھے اور گھٹنوں سے لے کے ناف تک مختصر لباس میں نماز پڑھ رہے تھے۔ وہ تابعی جب آئے، تو انہوں نے پوچھا کہ حضرت! یہ کپڑے ناپاک ہیں، جو آپ نے اس طرح رکھے ہیں؟ فرمایا: نہیں، ناپاک تو نہیں ہیں۔ پوچھا: پھر آپ نے کیوں نہیں پہنے؟ فرمایا: تم جیسے بیوقوفوں کو سمجھانے کے لئے کہ اتنے کپڑوں میں بھی نماز ہو جاتی ہے، ہمارے پاس اس وقت کپڑے تھے ہی کتنے، ہم ایک دوسرے کی اوٹ میں اپنے آپ کو چھپاتے تھے۔ ہماری یہ حالت تھی۔ بہر حال! صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین اکثر غریب تھے۔ خود آپ ﷺ کے گھر میں کتنے وقت کھانا نہیں ہوتا تھا، چولہا نہیں جلتا تھا۔ بہر حال! اس کے جواب میں آپ ﷺ فرماتے ہیں: ’’يُعْطِي اللهُ هٰذَا الثَّوَابَ مَنْ فَطَّرَ صَائِمًا عَلٰى مَذْقَةِ لَبَنٍ أَوْ تَمْرَةٍ أَوْ شَرْبَةٍ مِّنْ مَاءٍ‘‘ یہ ثواب تو اس شخص کو بھی مل جاتا ہے، جو تھوڑے سے دودھ کے ذریعے سے افطار کرا دے، یا کھجور کے ذریعے سے یا تھوڑے سے پانی کے ذریعے سے افطار کرا دے۔ ’’وَمَنْ أَشْبَعَ صَائِمًا سَقَاهُ اللهُ مِنْ حَوْضِيْ شَرْبَةً لَا يَظْمَأُ حَتّٰى يَدْخُلَ الْجَنَّةَ‘‘ اور جس نے روزہ دار کو پیٹ بھر کر کھانا کھلایا، تو اللہ تعالیٰ اس کو میرے حوض سے سیراب کرائے گا۔ (یعنی حوضِ کوثر سے۔) پھر اس کے بعد جنت میں داخلہ تک اس کو پیاس نہیں لگے گی۔ اور جنت میں پیاس نہیں ہے، لہٰذا پیاس ہی نہیں لگے گی۔ ’’وَهُوَ شَهْرٌ أَوَّلُهٗ رَحْمَةٌ‘‘ اور یہ وہ مہینہ ہے، جس کا پہلا حصہ رحمت ہے۔ ’’وَأَوْسَطُهٗ مَغْفِرَةٌ‘‘ درمیانی حصہ مغفرت ہے اور ’’وَآخِرُهٗ عِتْقٌ مِنَ النَّارِ‘‘ اور آخری حصہ جنہم سے خلاصی کا ہے۔ ’’مَنْ خَفَّفَ عَنْ مَمْلُوْكِهٖ فِيْهِ غَفَرَ اللهُ لَهٗ وَأَعْتَقَهٗ مِنَ النَّارِ‘‘ اور جس نے اپنے مملوک یعنی کسی باندی یا غلام کا بوجھ ہلکا کر دیا، تو اللہ جلّ شانہ اس کے گناہ معاف کر دیں گے اور اس کو جہنم سے آزادی نصیب فرمائیں گے۔ دیکھیں! مختصر الفاظ میں آپ ﷺ نے کتنے فضائل بیان فرما دیئے اور اتنے اہم کہ ہم ان کو سمجھ جائیں، تو ہم کہیں کہ ہر وقت ہی رمضان شریف ہو۔ اس لئے رمضان کو بوجھ نہیں سمجھنا چاہئے۔ جیسے کوئی convocation ہوتی ہے، تو جن لوگوں نے پی ایچ ڈی کی ہوتی ہے یا ماسٹر ڈگری کی ہوتی ہے یا کوئی اور بیچلر ڈگری کی ہوتی ہے، تو وہ بیچارے انتظار میں ہوتے ہیں۔ بعض دفعہ دھوپ میں کھڑے ہوتے ہیں، کافی دیر کھڑے رہتے ہیں۔ کبھی کھانا بھی لیٹ ہو جاتا ہے۔ کیا اس وقت وہ خوش ہوتے ہیں یا نا خوش ہوتے ہیں؟ بہت خوش ہوتے ہیں۔ کیونکہ ان کو صلہ ملنے والا ہوتا ہے۔ اسی طرح رمضان شریف کے مہینہ میں دیا جاتا ہے۔ جب دیا جا رہا ہو، تو پھر بوجھ کی کیا بات ہے۔ ٹھیک ہے، تکلیف تو ہو گی۔ جیسے ان کو بھی تکلیف ہوتی ہے۔ لیکن وہ تکلیف خوشی میں ہوتی ہے۔ اسی طرح ہم اس کو بوجھ کیوں سمجھیں۔ یہ تو اللہ تعالیٰ کے دینے کا ایک نظام ہے۔ رمضان شریف کے اعمال تو برتن ہیں، جن میں اللہ پاک اپنی طرف سے ہمیں وہ دیتا ہے، جو دینا چاہتا ہے۔ لہٰذا یہ ذرائع ہیں، ان ذرائع کو اختیار کر کے ہم بہت زیادہ اللہ پاک سے پا سکتے ہیں۔ اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ برائی کے دو sources ہیں، شیطان اور نفس۔ رمضان شریف کے مہینہ میں ان میں سے ایک source قید ہو جاتا ہے، یعنی شیطان کو قید کر دیا جاتا ہے، وہ تو ہمیں نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ اب صرف نفس رہ گیا۔ لہٰذا نفس کو بچھاڑنے کے لئے، نفس کو قابو کرنے کے لئے محنت کافی تھوڑی ہو جاتی ہے۔ اور پھر اللہ جلّ شانہ کی طرف سے رمضان شریف کا جو مہینہ ہے اور اس میں روزہ رکھنے کا جو نظام ہے، وہ نفس کے اوپر پیر رکھنے کا بہت اعلیٰ نظام ہے، کیونکہ ہمارا نفس یہ ماننے کے لئے تیار ہو جاتا ہے۔ اس بارے میں اللہ پاک فرماتے ہیں: ﴿یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَیْكُمُ الصِّیَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ (البقرۃ: 183)

ترجمہ: ’’اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کر دیئے گئے ہیں، جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے، تاکہ تمہارے اندر تقوی پیدا ہو‘‘۔ (آسان ترجمۂ قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب)

اور تقویٰ کیا ہے؟ تقویٰ کے متعلق ارشاد ہے: ﴿اَلَاۤ اِنَّ اَوْلِیَآءَ اللّٰهِ لَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَلَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَكَانُوْا یَتَّقُوْنَ (یونس: 62-63)

ترجمہ: ’’یاد رکھو کہ جو اللہ کے دوست ہیں، ان کو نہ کوئی خوف ہوگا، نہ وہ غمگین ہوں گے۔ یہ وہ لوگ ہیں، جو ایمان لائے، اور تقوی اختیار کئے رہے‘‘۔ (آسان ترجمۂ قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب)

اس کا مطلب ہے کہ تقویٰ اختیار کرنے سے ولایت ملتی ہے۔ کیونکہ ایمان تو سب کو پہلے سے حاصل ہے، جتنے بھی مسلمان ہیں، سب ایمان دار ہیں۔ اب اس نے اس میں صرف تقویٰ کا اضافہ کیا اور ما شاء اللہ ولی اللہ بن گئے۔ اور ہر ایک کا تقویٰ مختلف ہے۔ تو کیا سارے برابر کے اولیاء اللہ ہوں گے؟ نہیں، ایسا نہیں ہے۔ کیونکہ اللہ پاک نے ارشاد فرمایا: ﴿اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقٰىكُمْ (الحجرات: 13)

ترجمہ: ’’در حقیقت اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے، جو تم میں سب سے زیادہ متقی ہو‘‘۔ (آسان ترجمۂ قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب)

چنانچہ درجہ بدرجہ ہے۔ جو جتنا متقی ہے، اتنے درجہ کا وہ اللہ کے نزدیک ہے، معزز ہے، اس کا مقام ہے۔ اس لئے اپنے مقام کو اگر کوئی بڑھانا چاہے، تو رمضان شریف کا مہینہ اس کے لئے سپیشل ہے۔ اس میں انسان بہت کچھ حاصل کر سکتا ہے۔ اور اس میں ٹھیک کرنے کے دو sources ہیں۔ ایک دل ہے اور ایک نفس ہے۔ عقل کو استعمال کر کے یہ کام کرنے ہیں۔ ہمارا نفس مجاہدے سے ٹھیک ہوتا ہے اور ہمارا دل ذکر سے ٹھیک ہوتا ہے، ذکر سے دل صاف ہوتا ہے۔ اور اللہ جلّ شانہٗ نے رمضان شریف کے مہینہ میں قرآن کے پڑھنے کا نظام بنا دیا، تراویح میں ہم قرآن سنتے ہیں، تراویح بھی سنتِ مؤکدہ ہے اور اس کے اندر کم از کم ایک دفعہ پورا قرآن سننا یہ بھی سنت ہے۔ اگر کوئی تراویح میں قرآن سنتا ہے، تو اس سے اس کے دل پر اثر ہوتا ہے۔ اگر اس کو اپنے اوپر بوجھ سمجھے، تو وہ ایک علیحدہ بات ہے۔ اگر بوجھ نہ سمجھے، اس کو اپنا علاج سمجھے، تو پھر قرآن اثر دکھاتا ہے۔ میں اس پر ایک عجیب واقعہ سناتا ہوں۔ میرے خیال میں جس کی نظیر دنیا میں کسی اور چیز میں نہیں ملا کرتی۔ مثلاً: آپ کہیں accidently چلے جائیں اور وہاں آپ کو بڑا Tough time ملے، پھر آپ ادھر جائیں گے؟ پھر آپ کبھی نہیں جائیں گے۔ لیکن قرآن اور رمضان اس سے مستثنیٰ ہیں۔ ہمارے شیخ کے ہاں رمضان شریف میں پانچ ختمِ قرآن ہوا کرتے تھے۔ ایک پہلے عشرہ میں، دوسرا دوسرے عشرہ میں، تیسرا چھ راتوں میں، چوتھا ستائیسویں کو اور پانچواں 28 29 کو۔ یہ حضرت کا معمول تھا، مجھ سے ایک صاحب فرماتے ہیں: شبیر! آپ ہمارے ہاں تراویح نہیں پڑھتے، کیا وجہ ہے؟ میں نے کہا: حضرت! آپ بہت زیادہ سنتے ہیں، میں اتنا زیادہ نہیں سن سکتا، اس وجہ سے میں ادھر نہیں آتا۔ کہنے لگیں: چلو، ایک دن تو ہمارے ساتھ پڑھ لو، اگر مزہ آ گیا، تو باقی پڑھتے رہو، نہیں تو پھر نہ آنا۔ میں نے کہا: ٹھیک ہے۔ نہ ان کو پتا تھا، جنہوں نے مجھے یہ بات کی ہے اور نہ مجھے پتا ہے کہ آج ستائیسویں ہے اور آج کیا معمول ہے۔ بہر حال! میں چلا گیا۔ در اصل اللہ تعالیٰ کی طرف سے تشکیل ہوتی ہے، تو ان کے دماغ سے بھی بات اٹھا لی گئی۔ وہاں ایک ڈاکٹر صاحب تھے، ڈاکٹر لیاقت علی شام، ما شاء اللہ بہت اچھا قرآن پڑھتے تھے۔ صحت بھی اللہ تعالیٰ نے زبردست دی تھی۔ دو صفیں حضرت کے پیچھے لگی ہیں، حضرت بھی اس میں ہیں۔ میں آخری صف میں ہوں۔ تراویح میں قرآن کی تلاوت شروع ہو گئی، ایک پارہ پڑھ لیا، میں نے کہا کہ اب رکوع کر لیں گے۔ نہیں ہوا۔ میں نے کہا کہ اچھا، دوسرے پارہ پہ کر لیں گے۔ اس پر بھی نہیں ہوا۔ میں نے کہا کہ شاید سورۃ بقرہ کا ارادہ ہو۔ سورۃ بقرہ ختم ہو گئی، اس پر بھی نہیں کیا۔ میں نے کہا کہ چلو، سورۃ آل عمران پر کر لیں گے۔ سورۃ آل عمران پر بھی نہیں ہوا۔ سورۃ النساء پر بھی نہیں ہوا۔ آگے بڑھتے جا رہے ہیں، بڑھتے جا رہے ہیں۔ میں نے کہا کہ یہ کیا ہے، یہ تو معاملہ الٹا جا رہا ہے۔ خیر! دس پارے ہو گئے۔ جب دس پارے ہو گئے، پھر بھی رکوع نہیں کیا۔ میرے دل میں خیال آیا کہ اس کا ارادہ ہے کہ بیسویں پارہ پر ہی رکوع کرے گا اور پھر دس پارے دوسری رکعت میں پڑھے گا۔ یہ بالکل میرے ذہن میں آ گیا۔ میں نے کہا کہ بس ٹھیک ہے، جم جاؤ، جو کچھ ہونا تھا، ہو گیا۔ اب کیا درمیان میں چھوڑنا۔ جو اتنی تلاوت ہو گئی، وہ بھی ضائع ہو جائے گی۔ خیر! جم گیا۔ اور ما شاء اللہ بیس پارے پڑھ کر ہی اس نے رکوع کر لیا۔ اس کے بعد دوسری رکعت میں شروع ہو گیا اور سورۃ الضحیٰ پہ رکوع کیا۔ جب سلام پھیرا، تو سحری کا وقت قریب تھا۔ مجھ سے ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں کہ اگر آپ کہیں جانا چاہتے ہیں، تو بے شک چلے جائیں۔ میں نے کہا کہ اب کدھر جاؤں۔ اب تو پوری رات گزر گئی۔ اس کے بعد چھوٹی تراویح تھیں، کیونکہ سورۃ الضحیٰ اور آخری حصہ اتنا زیادہ نہیں تھا۔ وہ بھی ہم نے پڑھ لیں۔ بتائیں! اگر کوئی اور چیز ہوتی، تو کیا اس کے بعد مجھے کبھی ادھر رخ کرنا چاہئے تھا؟ لیکن اس کے بعد میں مکمل بھرتی ہو گیا، پھر اگلے دن سے ہی وہ دو دن والا ختم تھا۔ وہ بھی الحمد للہ ان کے ساتھ کیا۔ اور پھر ہر رمضان ادھر جاتا تھا۔ ان کے آخری عشرہ میں شامل ہو جاتا تھا۔ چلو، یہ تو میرے ساتھ ہو گیا، آپ کہیں گے کہ تو تو دیوانہ تھا۔ یہیں کے حضرات کی بات بتاتا ہوں۔ قاری نور اللہ صاحب رمضان شریف میں یہاں ہمارے ہاں پڑھایا کرتے تھے، ان دنوں اسی ترتیب پہ الحمد للہ ہم چلتے تھے۔ وہ ایک ایک پارہ پڑھتے تھے۔ کچھ حضرات تھے، جو فیصل مسجد میں اعتکاف کرتے تھے۔ ان کو وہاں موقع نہیں ملا۔ کیونکہ وہاں قرعہ اندازی ہوتی ہے، ان کو چانس نہیں ملا۔ وہ مجبوراً ہمارے پاس آ گئے۔ ہماری سکیم میں فٹ ہو گئے۔ ایک ایک پارہ قاری نور اللہ صاحب پڑھتے تھے، ایک دن پتا نہیں، غلطی سے یا قاری نور اللہ صاحب کو کیا مزہ آیا کہ انہوں نے پانچ پارے پڑھ دیئے۔ ہم لوگ تو عادی تھے، ہم لوگوں کا تو مسئلہ نہیں تھا، لیکن جو نئے لوگ آئے ہوتے ہیں، ان کا اچھا خاصا مسئلہ ہوتا ہے۔ پانچ پارے تو انہوں نے سن لئے۔ ہمارا خیال تھا کہ یہ بہت پریشان ہوں گے۔ لیکن اس کے بعد انہوں نے کہا کہ اب تو ایک پارہ سننا بہت آسان ہو گیا۔ گویا ساری رکاوٹ دور ہو گئی۔ لہٰذا وہ ابھی تک ہمارے ساتھ اعتکاف کرتے ہیں۔ اس کے بعد وہ کسی اور جگہ گئے ہی نہیں ہیں۔ قرآن کے اندر جو کشش ہے، وہ نظر آتی ہے۔ کون سی کتاب ہے، جو الف ب اور زبر زیر اور سب چیزوں کے ساتھ پوری کی پوری ایک بچہ کو حفظ ہو جائے؟ کسی اور کتاب کی ایسی کوئی مثال نہیں ہے۔ اللہ جلّ شانہٗ نے اس کلام کو معجزاتی کلام بنایا ہے، اس کے اندر جو اللہ نے رکھا ہوا ہے، اس کا ہم اندازہ نہیں کر سکتے۔ اس لئے مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اس پہ کلام کیا ہے کہ اس مہینے میں قرآن کی برکات اتنی زیادہ ہیں کہ اگر کوئی اس مہینہ کو صحیح معنوں میں گزار لے یعنی اس کا حق ادا کرتے ہوئے گزارے، تو اس کا پورا سال بہت زبردست طریقے سے گزرے گا۔ اور اگر اس میں غفلت کی، تو پورے سال میں غفلت چھائی رہے گی۔ اور یہ بات بالکل ایسی ہی ہے۔ یہ تو رمضان شریف کے فضائل ہیں۔ یہ میٹھی میٹھی باتیں ہیں۔ بعض دفعہ بہت میٹھا کھانے سے بد ہضمی بھی ہو جاتی ہے۔ اس لئے کبھی کبھی ترش باتیں بھی کرنی پڑتی ہیں۔ اب ایک ترش بات سنو۔ وہ یہ ہے کہ آپ ﷺ نے ایک موقع پہ ممبر پہ چڑھتے ہوئے تین دفعہ آمین کہا۔ صحابہ کرام نے پوچھا کہ یا رسول اللہ! نئی بات آپ سے دیکھ رہے ہیں۔ کیا بات تھی؟ فرمایا: جبرائیل علیہ السلام تشریف لائے تھے اور تین بد دعائیں کیں، ان پر میں نے آمین کہا۔ اور ایک روایت میں ہے کہ مجھ سے فرمایا گیا کہ ان پر آمین کہو۔ تو میں نے آمین کہا۔ جبرائیل علیہ السلام فرشتے ہیں، فرشتہ اپنی مرضی سے کچھ نہیں کر سکتا۔ قرآن پاک میں ہے: ﴿یَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرُوْنَ (النحل: 50)

ترجمہ: ’’اور وہی کام کرتے ہیں، جس کا انہیں حکم دیا جاتا ہے‘‘۔ (آسان ترجمۂ قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب)

لہٰذا یہ آمین اللہ نے کہلوایا۔ کیا اس میں عدمِ قبولیت کا کوئی چانس ہو گا؟ نہیں ہو گا۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا کہ پہلی سیڑھی پر یہ بد دعا دی گئی کہ اے اللہ! رمضان شریف کا مہینہ جس پر پورے کا پورا گزرے اور اس کی وجہ سے اس کی مغفرت نہ ہو، اے اللہ! اس کو تباہ و برباد کر دے۔ اور میں نے آمین کہا۔ اور دوسری بار فرمایا کہ جس کے سامنے آپ کا نام لیا جائے اور وہ درود پاک نہ پڑھے، تو وہ تباہ و برباد ہو جائے۔ میں نے کہا آمین۔ تیسری بار فرمایا کہ جس کے سامنے والدین بڑھاپے تک پہنچ جائیں اور وہ ان کی خدمت کر کے جنت حاصل نہ کر سکے، تو وہ تباہ و برباد ہو جائے۔ میں نے کہا آمین۔ ذرا غور فرمائیں، تو یہ تین باتیں بہت اہم ہیں اور تینوں باتیں اصل میں ایک ہی category کی ہیں اور وہ ناشکری کی ہیں۔ یعنی جس پہ رمضان شریف اس طرح گزرا کہ اس میں اللہ کو اس نے راضی نہیں کیا اور رمضان کی قدر نہیں کی، تو یہ ناشکری ہے۔ کیونکہ اتنی بڑی نعمت اللہ تعالیٰ دے رہے ہیں اور تم اس سے بھاگ رہے ہو۔ ہمارے حضرت مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے پاس ایک بچہ لایا گیا کہ مولانا صاحب یہ حفظ کر رہا ہے، لیکن اب اس میں دلچسپی نہیں لے رہا، آپ دعا کریں کہ اللہ جلّ شانہٗ اس کو توفیق دے دے۔ حضرت نے اس کو سامنے بٹھایا۔ وہاں حضرت کے چاروں طرف الماریاں بنی ہوئی ہیں اور ان میں سب کتابیں رکھی ہوئی ہیں۔ حضرت کا بہت مطالعہ تھا۔ حضرت نے فرمایا کہ بیٹا! یہ ساری کتابیں ہیں۔ یہ ساری کتابیں قرآن کے ایک لفظ تک نہیں پہنچ سکتیں، تو تمہیں اللہ پاک اتنی بڑی نعمت دے رہا ہے اور تم اس سے بھاگ رہے ہو۔ اسی طرح رمضان شریف کا مہینہ بہت ہی برکتوں کا مہینہ ہے۔ لیکن اگر اس کو کوئی نہ لے اور اس کی قدر نہ کرے، تو یہ ناقدری ہے، ناشکری ہے۔ بعینہٖ اسی طرح آپ ﷺ کے جتنے ہمارے اوپر احسانات ہیں، خود بخود ہمارے دل سے یہ آواز آنی چاہئے تھی کہ بغیر کسی تحریک کے درود پاک پڑھیں اور اگر آپ ﷺ کا نام بھی سامنے لیا جائے، پھر بھی نہ پڑھیں، تو یہ ناشکری نہیں ہے، تو کیا ہے؟ اس طرح والدین ہماری دنیا کی خاطر کتنی محنتیں کرتے ہیں۔ اگر والدین کی بھی کوئی خدمت نہ کرے، تو یہ ناشکری ہے۔ اور ناشکری بہت خطر ناک چیز ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿لَىِٕنْ شَكَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّكُمْ وَلَىِٕنْ كَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِیْ لَشَدِیْدٌ (ابراھیم: 7)

ترجمہ: ’’اگر تم نے واقعی شکر ادا کیا، تو میں تمہیں اور زیادہ دوں گا‘‘۔ (آسان ترجمۂ قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب)

اس لئے ہم لوگوں کو رمضان شریف کی قدر کرنی چاہئے۔ بہر حال! الحمد للہ اللہ کا احسان ہے کہ رمضان بہت ہی قریب ہے، ان شاء اللہ۔ آپ ﷺ نے اس کے لئے دعا رجب میں کی تھی کہ ’’اَللّٰهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِيْ رَجَبَ وَشَعْبَانَ، وَبَلِّغْنَا رَمَضَانَ‘‘۔ رجب میں یہ دعا فرمائی تھی۔ الحمد للہ اب تو چند دنوں کی بات ہے۔ عافیت کی دعا کرنی چاہئے، قبولیت کی دعا کرنی چاہئے، توفیقات کی دعا کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں رمضان شریف کے جملہ معمولات کو صحیح طریقہ سے کرنے کی توفیق نصیب فرمائے۔ یہ بہت اہم بات ہے۔ بہر حال! میں عرض کر رہا ہوں کہ اس میں اللہ پاک بہت کچھ دیتے ہیں، اس کو سمجھنا چاہئے کہ کس کس رخ سے دے رہے ہیں۔ اس میں سے ایک نعمت اعتکاف ہے۔ اعتکاف میں آپ اللہ جلّ شانہ کے گھر میں ڈیرہ ڈال لیتے ہیں کہ یا اللہ! جب تک میری مغفرت نہ ہو، میں نہیں جاؤں گا۔ کیونکہ مسجد خدا کا گھر ہے۔ اس کیفیت میں انسان مسجد میں رہتا ہے۔ اور ماحول چونکہ مسجد کا ہوتا ہے، مسجد میں انسان وہ کام تو نہیں کر سکتا، جو کہ مسجد کے خلاف ہو، ورنہ بہت زیادہ نقصان ہے۔ ماحول بھی عبادت کا ہوتا ہے، لہٰذا مسجد میں رہ کر انسان کچھ نہ کچھ عبادت کر لیتا ہے۔ اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اعتکاف جس وقت چل رہا ہو، بے شک اس میں آدمی جائز وقت میں سو بھی جائے۔ یعنی جب نماز وغیرہ کا وقت نہ ہو، تو اس وقت میں سو بھی جائے، تو پھر بھی اس کو اعتکاف کا ثواب تو مل ہی رہا ہے، اعتکاف تو موجود ہے۔ ہر وقت اس کا عمل ہو رہا ہے۔ لہٰذا اس کا وقت ضائع نہیں جا رہا۔ سب سے بڑی بات اعتکاف کے اندر یہ ہے۔ اور خواتین بھی اعتکاف کر سکتی ہیں۔ خواتین کا اعتکاف ہمارے اعتکاف سے زیادہ آسان ہے۔ کیونکہ ہمیں تو مسجد جانا پڑتا ہے۔ جبکہ خواتین اپنے گھر کے اندر ہی مسجد بنا لیں، جگہ منتخب کر لیں اور اس میں جائے نماز ڈال لیں۔ وہیں سوئیں، وہیں جاگیں، وہیں عبادت کریں، وہیں کھانا کھائیں اور اگر وضو وغیرہ کی ضرورت ہو، تو اس کے لئے بیت الخلاء جا سکتی ہیں۔ لیکن للہ فی اللہ اپنا وقت گزاریں۔ ما شاء اللہ اس کا بہت زیادہ فائدہ ہمیں ملے گا۔ الحمد للہ، اللہ کا احسان ہے کہ اس میں تراویح کی توفیق ہو جاتی ہے۔ تروایح کے بارے میں کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں۔ کیونکہ خواتین اس میں سستی کر لیتی ہیں۔ مردوں کو تو جماعت کے ساتھ پڑھنی ہوتیں ہیں۔ لہٰذا ان کو تو مل جاتیں ہیں۔ خواتین کے کام کی نوعیت بھی ایسی ہے کہ اگر وہ خود اپنے آپ کو نہ جگائیں، تو اس میں غفلت بہت زیادہ ہو سکتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے کام ہر وقت چل رہے ہوتے ہیں، کبھی برتن دھو رہی ہیں، کبھی کپڑے دھو رہی ہیں، کبھی سامان کو ترتیب دے رہی ہیں، کبھی کھانا پکا رہی ہیں۔ کبھی بچوں کو نہلا دھلا رہی ہوتی ہیں، الغرض! کچھ نہ کچھ کام ان کا چل رہا ہوتا ہے۔ یہ تو اچھا ہے، اس پر ان کو اجر ملتا ہے۔ لیکن جو فرض نماز کے اوقات ہیں، ان کو تو تبدیل نہیں کر سکتیں۔ وہ تو اپنے وقت پر ہی پڑھنی چاہئیں۔ مغرب اور عشاء کی نماز میں ان سے اکثر تاخیر ہو جاتی ہے۔ اگر مغرب کی نماز میں اتنی تاخیر ہو جائے کہ تارے کثرت سے نظر آنے لگیں، تو یہ مکروہِ تحریمی ہے۔ اور عشاء کی نماز اگر آدھی رات کے بعد پڑھی جائے، تو وہ مکروہِ تحریمی ہے۔ اس وقت ان کی نماز تو ہو جائے گی، لیکن کراہت کے ساتھ۔ اس لئے ان دو نمازوں کا خیال رکھنا چاہئے۔ کم از کم عشاء کے فرض پہلے وقت میں ہونے چاہئیں، یعنی پہلے آدھے حصے میں ہونے چاہئیں، یہ ضروری ہے۔ اور وتروں میں بہتر یہی ہے کہ اخیر میں پڑھے جائیں، لیکن فرض کو کم از کم اپنے وقت پہ پڑھنا چاہئے۔ اکثر میں خواتین سے کہا کرتا ہوں کہ بعد میں بھی آپ کام کو چھوڑ کے ہی کریں گی اور اب بھی یہی کریں گی۔ کیونکہ کام تو آپ کے مسلسل جاری ہیں۔ تو پھر وقت پر کیوں نماز نہیں پڑھتیں؟ آج کل تو نقشے بھی موجود ہیں، یہ نہ دیکھو کہ مسجد میں اذان ہوئی ہے یا نہیں ہوئی۔ اذان مردوں کے لئے ہو رہی ہے، جماعت کے لئے ہو رہی ہے۔ کیونکہ ہمارے ہاں وقت داخل ہوتے ہی اذان نہیں ہوتی۔ یہ بھی ہماری ایک کمزوری ہے۔ اگر اذان وقت داخل ہوتے ہی ہو جایا کرے، تو لوگوں کو وقت داخل ہونے کا بھی معلوم ہو جائے۔ شاید مغرب کی اذان وقت داخل ہوتے دی جاتی ہے، کسی اور نماز کا وقت داخل ہوتے اذان نہیں دی جاتی۔ جیسے فجر کی اذان ہے۔ اگر فجر کی اذان بالکل وقت داخل ہوتے ہی دی جائے، تو لوگوں کو پتا چل جائے کہ کھانے پینے کا وقت ختم ہو گیا، چاہے کوئی نفلی روزہ رکھ رہا ہو۔ اسی طرح یہ بھی پتا چل جائے کہ تہجد کا وقت ختم ہو گیا۔ بہر حال! یہ چیزیں کم از کم ان کو معلوم ہو جائیں گی۔ لیکن اس کی طرف دھیان نہیں ہے۔ چونکہ عورتیں جماعت کی نماز کی پابند نہیں ہیں، لہٰذا وہ نماز اپنے وقت پہ پڑھ لیں اور فارغ ہو جائیں اور پھر اپنا کام کریں۔

بہر حال! یہ میں عرض کر رہا تھا کہ نماز اپنے وقت پہ پڑھیں۔ جہاں تک مردوں کا معاملہ ہے، تو مرد ان ایام میں کم از کم جماعت کی نماز پڑھیں۔ بہتر یہ ہے کہ تکبیرِ اولیٰ کے ساتھ پڑھیں۔ اگرچہ تکبیر اولیٰ کے ساتھ پڑھنا نفل ہے، لیکن بہت اعلیٰ درجہ کا نفل ہے، کیونکہ بعض دفعہ اس پر قسمتوں کے فیصلہ ہو جاتے ہیں۔ جو انسان تکبیرِ اولیٰ کا عادی ہے، اس کے لئے حدیث مبارکہ میں آتا ہے کہ جس نے چالیس دن تک تکبیرِ اولیٰ کے ساتھ نماز پڑھی، اس کو دو پروانے مل جاتے ہیں، ایک جہنم سے خلاصی کا اور ایک نفاق سے بری ہونے کا۔ تو یہ تکبیرِ اولیٰ کے ذریعے سے کتنی بڑی فضیلتیں حاصل ہوئیں۔ ویسے بھی اللہ کی رحمت بہت زیادہ ہوتی ہے، اگر رمضان شریف میں اس کو پورا کیا جائے، تو کتنی اچھی بات ہے۔ اس لئے ایک تو تکبیرِ اولیٰ کے ساتھ نماز پڑھیں، اگر ایسا کریں گے، تو میں بشارت دیتا ہوں کہ ان شاء اللہ ان کو لیلۃ القدر بہت اچھی حالت میں مل جائے گی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ لیلۃ القدر صرف ایک لمحہ نہیں ہے، بلکہ پوری رات ہے۔ کیونکہ لیلۃ القدر فرمایا گیا ہے۔ لہٰذا اگر پوری رات کے اندر کوئی بھی ثواب والا عمل ہو، اس کا ثواب ہزار مہینوں والا ہو جائے گا۔ فرضوں کے برابر کسی نفل کا اجر نہیں ہو سکتا۔ مگر مغرب اور عشاء یہ دو نمازیں تو فرض ہیں، یہ دو نمازیں اگر وہ با قائدگی کے ساتھ پورے رمضان شریف میں تکبیرِ اولیٰ کے ساتھ پڑھ رہا ہے، تو بہترین حالت میں پڑھ رہا ہے۔ یہی نمازیں اس کی لیلۃ القدر میں شامل ہو جائیں گی، چاہے اس کو معلوم نہ ہو۔ کیونکہ لیلۃ القدر کا معلوم ہونا ضروری نہیں ہے، لیلۃ القدر میں عبادت کرنے کی اہمیت ہے، چاہے کسی کو پتا ہو، چاہے پتا نہ ہو۔ لہٰذا لیلۃ القدر میں اگر کسی نے تکبیرِ اولیٰ کے ساتھ دو نمازیں پڑھی ہیں، تو سبحان اللہ اس کو بہت وافر حصہ مل گیا۔ مزید اگر وہ حاصل کرنا چاہتا ہے، تو اس کے لئے وہ نفلی اعمال کرے، نفلی اعمال کئی قسم کے ہیں۔ مثلاً: نفل نماز بھی ہے، نفلی صدقات خیرات بھی ہیں، ذکر بھی ہے، تلاوت بھی ہے، درود شریف، استغفار اور دعائیں، یہ سب انسان کر سکتا ہے، لیکن باری باری کرے، تو اس میں یہ فائدہ ہے کہ تھکے گا نہیں۔ یعنی چار رکعت نفل پڑھ لیں، پھر آدھا پارہ تلاوت کر لے، پھر کچھ ذکر اذکار کر لے، پھر دعائیں کرے۔ اس طرح باری باری کرتے رہیں، اگر تھک جائیں، طبیعت میں ذرا انقباض آ جائے، تو چائے وغیرہ پی لیں، گپ شپ نہ لگائیں، کچھ چائے وغیرہ پی لیں، اپنے ساتھ چائے کا تھرماس رکھ لیں۔ اگر پورے سال میں آپ کو چند دن اس مقصد کے لئے چائے پینی پڑے، تو کیا مشکل ہے، یہی چائے آپ کے لئے ما شاء اللہ نجات کا ذریعہ بن جائے گی۔ کیونکہ اس کے ذریعے سے آپ اعمال کر سکیں گے۔ اس لئے ذرائع بہت بے شمار ہوتے ہیں، ذرائع میں مسئلہ نہیں ہوتا۔ بہر حال! یہ آپ کے لئے بہت اچھا ذریعہ بن جائے گا۔ مردوں کے لئے آسان ترین طریقہ اعتکاف کا ہے، اعتکاف کے ذریعے سے یہ چیزیں بہت زیادہ آسانی کے ساتھ حاصل ہو سکتی ہیں۔ میں تراویح کی بات عرض کر رہا تھا۔ تروایح ترویحہ سے ہے، ہر چار رکعت کے بعد جو وقفہ ہے، اس کو ترویحہ کہتے ہیں۔ اس ترویحہ میں آپ کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ آپ خاموش بیٹھ جائیں، آپ تلاوت کر لیں، آپ کوئی اور نفلی نماز پڑھ لیں۔ خانہ کعبہ میں جو صحابہ کرام اور تابعین تراویح پڑھتے تھے، وہ درمیان میں طواف بھی کر لیتے تھے۔ دوسری بات یہ ہے کہ تراویح ترویحہ کی جمع ہے، اور عربی میں جمع کا اطلاق کم از کم تین پر ہوتا ہے، دو پر نہیں ہوتا۔ دو کے لئے الگ تثنیہ کا صیغہ ہے۔ گویا کم از کم تین ترویحہ تو ہوں گے۔ لہٰذا آٹھ تروایح والی بات تو ختم ہو گئی۔ یہ میں اس لئے کہہ رہا ہوں کہ کم از کم آٹھ تراویح تو نہیں ہے، دو ترویحہ ہیں، اس کو تراویح نہیں کہہ سکتے، وہ دو ترویحے ہیں۔ اس لئے اب ہم دیکھیں گے کہ فیصلہ کس طرح کریں۔ آپ ﷺ کی ایک حدیث شریف آج ہی ہم نے پڑھی ہے: ’’عَلَيْكُمْ بِسُنَّتِيْ وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ الْمَهْدِيِّيْنَ مِنْ بَعْدِيْ‘‘ (شرح مشکل الآثار، حدیث نمبر1186)

ترجمہ: ’’تمہارے اوپر میری سنت کا اتباع لازم ہے اور خلفاء راشدین جو ہدایت یافتہ ہیں، ان کی سنت کا اتباع لازم ہے‘‘۔

حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی خلیفہ راشد تھے، حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی تھے، حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی تھے، حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی تھے، پھر حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ، پھر عمر بن عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ بھی رہے۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو تو موقع ہی نہیں ملا، اس وقت بہت زیادہ مسائل تھے، ان مسائل کو حل کرنے میں ہی سارا وقت حضرت کا چلا گیا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو موقع بھی زیادہ مل گیا اور اللہ تعالیٰ نے ان کو بہت زیادہ دور اندیشی دی تھی، در اصل جس کام کے لئے اللہ جس کو پیدا کرتا ہے، اس کو وہ چیز دے دیتے ہیں۔ تو ان میں بہت زیادہ دور اندیشی تھی۔ حضرت نے سوچا کہ آپ ﷺ نے تروایح اس لئے جماعت سے چھوڑ دی تھی کہ اس وقت خطرہ تھا کہ کہیں یہ فرض نہ ہو جائے، لوگوں کے شوق و ذوق کو دیکھ کر کہیں یہ فرض نہ ہو جائے۔ اس لئے آپ ﷺ نے جماعت سے ترک کر دی۔ جب حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا دور آیا، تو انہوں نے سوچا کہ اب وہ مسئلہ نہیں ہے اور آپ ﷺ کا ذوق یہ تھا کہ پڑھی جائے۔ لہٰذا ہم کیوں اس پر عمل نہ کریں۔ چنانچہ اس وقت جتنے بھی صحابہ تھے، حضرت نے سب کو بیس تراویح پہ جمع کیا۔ اس وقت حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی تھے، حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی تھے، حضرت جعفر رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت عبد الرحمٰن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ، یہ سارے اکابر موجود تھے، ان سب کو بیس تروایح پر جمع کر دیا، کسی نے انکار نہیں کیا۔ کوئی کہتا ہے کہ نہیں نہیں، حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کوڑے والے اور بڑے ہی سخت گیر خلیفہ تھے، اس وجہ سے لوگوں نے خاموشی اختیار کی، تو پھر حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ تو بہت نرم خلیفہ تھے، جان بھی دے دی، لیکن مقابلہ نہیں کیا، انہوں نے بھی بیس رکعات کو تبدیل نہیں کیں۔ پھر حضرت علی کرم اللہ وجہہ تو کہتے ہیں کہ قرآن اور سنت کافی ہے، انہوں نے بھی اس کو تبدیل نہیں کیا۔ حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی تبدیل نہیں کیا۔ حضرت عمر بن عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ نے بھی تبدیل نہیں کیا۔ ہوتے ہوتے حریمین شریفین میں ابھی بھی تواتر کے ساتھ بیس تراویح پڑھی جا رہی ہیں۔ یہ جو بعض حضرات تہجد والی روایت پیش کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے کبھی بھی گیارہ رکعت سے زیادہ نہیں پڑھی، نہ رمضان میں، نہ غیرِ رمضان میں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اس میں رمضان اور غیر رمضان کی بات ہے۔ لہٰذا یہ تروایح نہیں ہو سکتی۔ تروایح تو رمضان شریف میں ہوتی ہے، غیرِ رمضان میں تو نہیں ہوتی۔ لہٰذا اس حدیث کا اطلاق تروایح پر ہوتا ہی نہیں۔ کچھ حضرات کہتے ہیں کہ یہ تروایح تہجد ہی ہے، اس کا نام رمضان میں تراویح ہو جاتا ہے۔ خدا کے بندو! کیا کہہ رہے ہو؟ کم از کم میں اس بات کا گواہ ہوں کہ جب ہم حرم شریف میں اعتکاف کر رہے تھے، غالباً 1989 کی بات ہے۔ جب آخری عشرہ شروع ہو رہا تھا، تو شیخ عبد الرحمن السدیس نے اعلان کیا کہ ان شاء اللہ ایک بجے قیامُ الیل ہو گا، جس میں قرآن شریف پڑھا جائے گا، جو حصہ باقی رہ گیا ہے۔ چنانچہ آٹھ رکعت میں باقی قرآن پڑھ لیتے تھے۔ شاید اب بھی ہوتا ہو، کیونکہ اس کے بعد میں نے وہاں اعتکاف نہیں کیا، مجھے نہیں معلوم۔ کوئی کرتا ہو، تو اس کو پتا ہو گا۔ لیکن بہر حال! یہ تو میرے سامنے ہوا ہے۔ گویا انہوں نے تہجد اور تروایح میں فرق کر دیا کہ تہجد تہجد ہے اور تراویح تراویح ہے۔ اور تراویح بیس ہی ہیں۔ کتاب ’’الفقه على المذاهب الاربعة‘‘ میں نے یہ کتاب پڑھی ہے، اس کتاب میں صاف لکھا ہے کہ احناف کے نزدیک بیس رکعات ہیں، حنابلہ کے نزدیک بیس رکعات ہیں، شوافع کے نزدیک بیس رکعات ہیں اور مالکیہ کے نزدیک چھتیس رکعات ہیں۔ میں جب جرمنی میں تھا، تو ہمارے عرب ساتھیوں نے پہلی رمضان کو عشاء کی نماز کے لئے مجھے آگے کیا۔ میں نے نماز پڑھا کر ان کی طرف رخ کیا اور میں نے کہا: ’’یَا اِخْوَانَ الْعَرَبِ کَمْ تُصَلُّوْنَ مَعِیَ؟ عِنْدَ الْاَحْنَافِ عِشْرُوْنَ رَکْعَۃً، عِنْدَ الْحَنَابِلَۃِ عِشْرُوْنَ رَکْعَۃً، عِنْدَ الشَّوَافِعِ عِشْرُوْنَ رَکْعَۃً وَعِنْدَ الْمَالِکِیَّۃِ سِتُّ وَّثَلَاثُوْنَ رَکْعَۃً‘‘ یعنی احناف کے نزدیک بیس رکعات ہیں، شوافع کے نزدیک بیس رکعات ہیں، حانبلہ کے نزدیک بیس رکعات ہیں اور مالکیہ کے نزدیک 36 رکعات ہیں۔ آپ ہمارے ساتھ کتنی پڑھنا چاہتے ہیں؟ مصر کے ایک مالکی ساتھی بھی بیٹھے ہوئے تھے تھے، ہمارے دوست سمیر العمودی ذرا جولی طبیعت کے تھے، وہ کہتے ہیں کہ ’’اَنْتَ مَالِکِیٌّ؟‘‘۔ آپ مالکی ہیں ناں؟ یعنی آپ 36 پڑھیں گے۔ انہوں نے کہا: ’’اَنَا اُصَلِّیْ مَعَکُمْ عِشْرِیْنَ‘‘ میں آپ کے ساتھ بیس پڑھ لوں گا۔ پھر ماشاء اللہ وہ سب ہمارے ساتھ بیس پڑھتے رہے، پورا رمضان شریف انہوں نے ہمارے ساتھ پڑھیں۔ بہر حال! سب ثبوت موجود ہیں۔ لیکن آدمی کیوں محروم ہو جائے؟ کم از کم اس کو بدعت تو کوئی نہیں کہہ سکتا، کوئی یہ جرأت نہیں کر سکتا کہ اس کو بدعت کہے۔ کیونکہ صحابہ سے بدعت کا ہم تصور بھی نہیں کر سکتے۔ عام صحابی سے نہیں کر سکتے، تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کیسے کریں گے کہ نَعُوْذُ بِاللہِ مِنْ ذٰلِکْ انہوں نے بدعت کی۔ اس لئے بدعت تو نہیں ہے۔ جب بدعت نہیں ہے اور جائز ہو گیا، تو اب اگر بیس رکعت نہیں ہیں، تو آٹھ رکعت والے بچ گئے، لیکن باقیوں کے لئے بارہ رکعات نفل ہو گئیں۔ لہٰذا ان کو سزا تو نہیں دی جائے گی۔ ان کی کوئی چیز کم تو نہیں ہو گی، کیونکہ انہوں نے پڑھ لی۔ لیکن اگر بیس ہیں اور کسی نے آٹھ پڑھی ہیں، تو وہ خسارے میں چلے گئے۔ اس لئے اس مسئلہ میں احتیاط کا عمل یہی ہے کہ اس میں اختلاف میں نہ پڑا جائے، بلکہ شوق و ذوق کی بات کی جائے۔ اور شوق و ذوق یہ ہے کہ حرم شریف جس میں ساری دنیا جمع ہو رہی ہے، اگر وہاں سارے بیس پڑھ سکتے ہیں، ان کو کوئی مسئلہ نہیں ہے، تو ادھر کسی کو کیا مسئلہ ہے۔ کوئی مسئلہ نہیں ہونا چاہئے۔ جب وہ پڑھتے ہیں، تو تم بھی پڑھ لو۔ دوسری بات یہ ہے کہ بیس رکعت میں جو قرآن کریم پڑھتے ہیں، اگر کوئی آٹھ پڑھنے والا ہو اور آٹھ کے بعد چلا جائے، تو اس کا قرآن مکمل نہیں ہو گا۔ تو یہی اس میں مسائل ہیں۔ ان مسائل کو دیکھ کر ہمیں سمجھنا چاہئے کہ رمضان شریف کے مہینہ کو ضائع نہیں کرنا چاہئے۔ اب میں تیسری بات پہ آتا ہوں۔ الحمد للہ اس مہینے میں دینے کے کئی راستہ ہیں، سحری کا وقت ہے، اس میں برکت ہے، کہتے ہیں کہ سحری برکت کا کھانا ہے، چاہے تھوڑا سا پانی پیو، لیکن کچھ نہ کچھ لو، کیونکہ یہ برکت کا وقت ہے۔ بعض لوگ جو عشاء کے بعد سو جاتے ہیں اور فجر کی نماز کے لئے اٹھتے ہیں، سحری کے لئے اٹھنا ان کے لئے مشکل ہوتا ہے، وہ ویسے ہی روزہ رکھ لیتے ہیں۔ روزہ تو ٹھیک ہے، لیکن سحری کی برکت گئی۔ سحری کرنی چاہئے اور سحری کا وقت ایسا وقت ہے کہ جس میں اللہ پاک کی طرف سے منادی ہوتی ہے کہ ہے کوئی مجھ سے مانگنے والا کہ اس کو دوں، ہے کوئی پریشان حال کہ اس کی پریشانی دور کروں، ہے کوئی مصیبت زدہ کہ اس کی مصیبت دور کروں؟ لہٰذا جب آپ سحری کے لئے اٹھیں، تو بے شک کھائیں بھی، پئیں بھی اور ساتھ دعائیں بھی کریں۔ ان شاء اللہ یہ دعائیں قبول ہوں گی۔ ساتھ تہجد بھی پڑھ لیں، ان شاء اللہ دعائیں قبول ہوں گی۔ اسی طرح افطاری کے وقت بھی بہت زیادہ دعائیں قبول ہوتی ہیں۔ کہتے ہیں کہ افطار کے وقت لاکھوں لوگوں کی مغفرت ہوتی ہے۔ اس لئے اس وقت اللہ کی طرف متوجہ رہنا چاہئے کہ ہم بھی ان لوگوں میں آ جائیں، جن کی مغفرت ہو رہی ہو۔ افطاری کے وقت اللہ کی طرف مکمل متوجہ ہو کر اللہ سے مانگیں۔ اکثر میں خواتین سے عرض کرتا ہوں، کیونکہ مردوں کا مسئلہ نہیں ہے، خواتین کا زیادہ ہے کہ وہ بیچاریاں اپنے کام میں لگی ہوتی ہیں۔ اس کام پر بھی ان کو اجر ملتا ہے، یہ نہیں ہے کہ اجر نہیں ملتا۔ لیکن وہ اتنی مصروف ہوتی ہیں کہ دعا مانگنے کا وقت بھی چلا جاتا ہے، بس کھڑے کھڑے ہی کھجور کھا کر افطار کر لیں گی۔ یہ کوئی طریقہ نہیں ہے۔ اس کا حل یہ ہے کہ مثلاً: آپ نے ایک کام عصر سے بیس منٹ بعد شروع کرنا ہے، تو آپ دس منٹ بعد شروع کر لیں، تو بعد میں یہ دس منٹ آپ کو مل جائیں گے۔ اس میں آپ کا سارا کام مکمل ہو جائے گا اور آپ اطمینان کے ساتھ افطاری کر سکتی ہیں۔ بہتر یہ ہے کہ سارا کام کر کے بیٹھ کر اطمینان کے ساتھ دعا مانگیں۔ الحمد للہ ہمارا طریقہ یہ ہے کہ ہم مناجاتِ مقبول کی پوری منزل پڑھ لیتے ہیں۔ کیونکہ روز ہی ہم پڑھتے ہیں، تو اسی وقت پڑھ لیتے ہیں۔ اگر وقت ہو، تو ہم دعائیں کرتے ہیں۔ یہ دعائیں ہماری آن لائن چلتی ہیں۔ہم چونکہ راولپنڈی میں ہیں اسلئے افطاری کے وقت راولپنڈی اسلام آباد کے رہنے والے اگر ہماری ویب سائٹ tazkia.org پر جائیں تو اس وقت اس پہ دعا آن لائن چلتی ہے، اس کے ساتھ آمین آمین کہہ کے دعا میں شامل ہو سکتے ہیں، اس کی برکت سے الحمد للہ دعا میں شامل ہونا شروع ہو جائیں گے۔ بہر حال! سحری اور افطاری کے اوقات میں دعاؤں کا اہتمام کریں۔

ایک اور اہم بات یہ ہے کہ روزوں میں ایسے کاموں میں انسان اپنے آپ کو شامل نہ کرے، جس سے روزے پہ فرق پڑتا ہو۔ حضرت عمر بن عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے کسی سرکاری کام کے بارے میں بات کرنے کے لئے اپنے گورنر کو بلایا تھا، وہ ذرہ لیٹ ہو گیا، اور رمضان شریف کے مہینہ میں آ گیا۔ حالانکہ سرکاری کام تھا، حضرت ان سے بڑے ناخوش ہوئے کہ تجھے سفر کرنے کے لئے صرف رمضان کا مہینہ ملا تھا؟ یعنی اس میں تو نے کیوں سفر کیا؟ عمر بن عبد العزیز پہلے مجدد ہیں، انہوں نے اپنے گورنر کو کیا بتایا کہ رمضان شریف میں غیر ضروری سفر نہ کیا کریں۔ جس کو postpone کیا جا سکتا ہے، postpone کرو، جس کو postpone نہیں کیا جا سکتا، مجبوری ہے یا اِس سے اعلیٰ مقصد کے لئے سفر ہو، جیسے عمرہ کے لئے کوئی جا رہا ہو یا کسی اور دینی کام کے لئے جا رہا ہو، تو وہ ایک الگ بات ہے۔ لیکن بہتر یہ ہے کہ کاموں کی ترتیب بھی ایسی ہو کہ جس میں رمضان میں سفر نہ آئے۔ اس سے ان شاء اللہ العزیز رمضان شریف یکسوئی کے ساتھ اپنے گھر پر گزارنا نصیب ہو جائے گا۔ بالخصوص اعتکاف کے لئے بھی اپنے اوقات کو فارغ کرنا چاہئے۔ بہر حال! اس کے اوقات کا خیال ضرور رکھنا چاہئے۔ دوسری بات یہ ہے کہ کوئی ایسا کام نہیں کرنا چاہئے، جس سے رمضان شریف میں خلل آ جائے۔ اور زیادہ خلل ان چیزوں سے آتا ہے، جو گناہ کے کام ہیں۔ بعض چیزیں ایسی ہوتی ہیں، جن کو آج کل گناہ نہیں سمجھا جاتا۔ لیکن کیا کسی کے سمجھنے سے فرق پڑتا ہے؟ شریعت کا حکم ہے، اس کو کوئی تبدیل نہیں کر سکتا۔ مثلاً: ٹیلی ویژن دیکھنا۔ جب میں جرمنی میں تھا، تو الحمد للہ دعا وغیرہ کا یہ سسٹم ہم نے شروع کیا تھا۔ تو سمیر العمودی جو فلسطینی تھے، وہ مجھے کہنے لگے کہ یہ چیز مجھے بہت پسند آئی، ہمارے ہاں تو ٹیلی ویژن پر لطیفے سنائے جاتے ہیں، تاکہ لوگوں کا روزہ مشغول ہو۔

ایک آرٹیکل ہے۔ اس میں کہتے ہیں کہ رمضان میں تقوی حاصل کرنے کے لئے ہمیں کیا کرنا ہو گا؟ پہلا کام تو یہ ہے کہ رمضان کے روزوں کو اہتمام کے ساتھ رکھنا ہو گا اور رات کو تراویح اہتمام کے ساتھ ادا کرنیں ہوں گی۔ اس کے ساتھ کچھ نفلی اعمال کی بھی ضرورت ہے۔ تاکہ ہماری کمی کوتاہیوں کی تلافی ہو سکے۔ حدیث شریف میں رمضان میں چار چیزوں کی کثرت کا حکم موجود ہے۔ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّدُٗ رَّسُوْلُ اللہ‘‘ کلمہ طیبہ کی کثرت۔ دوسرا استغفار کی کثرت، تیسرا اللہ تعالیٰ سے جنت مانگنے کی کثرت اور چوتھا جہنم سے پناہ مانگنے کی کثرت۔ اللہ تعالیٰ نصیب فرمائے۔ اس کے لئے ایک مسنون دعا بھی ہے: ’’اَللّٰھُمَّ اِنّیِْ اَسْأَلُکَ الْجَنَّۃَ وَاَعُوْذُ بِکَ مِنَ النَّارِ‘‘ گویا جنت کی طلب اور دوزخ سے پناہ، یہ دونوں چیزیں اس میں آ گئیں۔ چنانچہ اس کو یوں پڑھ لیں: ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّدُ رَّسُوْلُ اللہ، اَسْتَغْفِرُ اللہَ رَبِّیْ مِنْ کُلِّ ذَنْبٍ وَّاَتُوْبُ اِلَیْہِ، اَللّٰھُمَّ اِنّیِْ اَسْأَلُکَ الْجَنَّۃَ وَاَعُوْذُ بِکَ مِنَ النَّارِ‘‘۔ اس میں سب دعائیں اکٹھی ہو جائیں گی، یعنی چاروں پر عمل ہو جائے گا۔ اسی طرح رمضان کو قرآن کے نزول کا مہینہ فرمایا گیا ہے، تو رمضان میں قرآن کی تلاوت کثرت کے ساتھ کرنی چاہئے۔ نبی کریم ﷺ، صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین اور ہمارے اکابر ہمیشہ رمضان میں عبادات کثرت کے ساتھ کیا کرتے تھے، آج کل ہم کمزور لوگ ان تک تو نہیں پہنچ سکتے، لیکن اپنی استعداد کے مطابق ہمیں بھی کچھ کرنا چاہئے۔ کیونکہ رمضان کا مہینہ قیامت تک تقوی حاصل کرنے کے طور پر استعمال ہو گا۔ اس لئے کچھ مختصر معمولات آج کل کے حالات کے لحاظ سے دیئے جاتے ہیں۔

تمام مسلمانوں کے لئے:

فجر کے بعد سورۃ یٰس اور عشاء کے بعد سورۃ ملک کی تلاوت، افطاری سے دس منٹ پہلے تمام کاموں سے فارغ ہو کر دعاؤں میں مشغول ہوں، زبان کو ذکر اللہ سے تر رکھیں اور فضول باتوں سے اجتناب کریں۔ ٹی وی اگر گھر میں ہو، تو اس کو ایک مہینہ کے لئے کم از کم بند کر دیں۔ اور عید کے تین دنوں میں خصوصی احتیاط کریں، تاکہ جو کچھ رمضان میں کما چکے ہو، وہ پورا سال بر قرار رہے۔ مرد و زن کے مخلوط اختلاط سے خصوصی طور پر اجتناب کریں، کیونکہ شیاطین جو کہ رمضان میں بندھے ہوتے ہیں، وہ اپنا پورا زور ان دنوں میں نکال لیتے ہیں۔

نوٹ: دیئے گئے معمولات اُن خواتین و حضرات کے لئے جن کا کسی صحیح سلسلہ، شیخ کے ساتھ اصلاحی تعلق نہیں ہے یا ان کا فقیر کے ساتھ تعلق ہے۔ جس کا کوئی اور شیخ یا مقتدی ہو، تو وہ ان سے رابطہ کر کے اپنے رمضان کے معمولات طے کروائیں۔ رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف ہوتا ہے اور الحمد للہ ہمارے قرب و جوار میں بہت سے مشائخ کی سرپرستی میں اصلاحی اعتکاف بھی ہوتا ہے۔ تو مرد حضرات کسی ایسے شیخ کے ہاں اصلاحی اعتکاف کریں، جن کے ساتھ ان کو مناسبت ہو اور خواتین موقع مناسبت سے اپنے گھر میں اعتکاف کر لیا کریں۔

فارغ اور صحت مند مسلمانوں کے لئے فرائض کے علاوہ روزانہ کے معمولات:

یہ صرف اندازہ ہے، یہ فرض و واجب نہیں ہے۔ لیکن آپ تجربہ کہہ سکتے ہیں۔ تلاوتِ قرآن پانچ پارے، درود شریف ہزار مرتبہ، استغفار ہزار مرتبہ، تیسرا کلمہ تین سو مرتبہ، کلمہ طیبہ ایک ہزار مرتبہ، مناجاتِ مقبول کی ایک منزل، اپنی زبان میں دعائیں، بالخصوص سحری کے وقت اور افطاری کے وقت۔ اسی طرح تہجد، اشراق، چاشت اور اوابین۔ اگر مزید وقت مل سکے، تو تلاوت کرنا۔ قرآن کی تلاوت جتنی کر سکیں، آخری عشرے میں اس سے دوگنا کر لیں۔ ذکر اذکار تو ویسے بھی کرنے چاہئیں۔

لیکن یہ صرف اندازہ کے لئے ہے۔ کیونکہ میں نے تجربہ کیا ہے کہ اگر آپ اپنا ایک target رکھیں، تو اس سے ما شاء اللہ آپ کو کام کرنے کی توفیق ہو جاتی ہے۔ اور اگر target نہ رکھیں اور سوچیں کہ میں کر لوں گا، تو انسان کے وقت پہ کسی اور چیز کا ذہن پہ زیادہ غلبہ ہو، تو اس کی طرف ذہن چلا جاتا ہے اور اس کام سے رہ جاتا ہے۔ اس کے لئے ایک عجیب چیز ہے، اس کو آدمی اپنے ساتھ رکھے، اس کا نام ہے؛ کاؤنٹر۔ پہلے تسبیح ہوا کرتی تھی، لیکن تسبیح سے بھی زیادہ effective ہے۔ کیونکہ اس پہ آپ ایک لاکھ تک آسانی کے ساتھ گن سکتے ہیں۔ لہٰذا اگر آپ ہاتھ ہلاتے رہیں اور ساتھ ساتھ پڑھتے رہیں، تو آپ جتنا بھی پڑھنا چاہیں، ان شاء اللہ پڑھ لیں گے۔

کاروباری حضرات اور بچوں کی ماؤں اور ملازم پیشہ کمزور مسلمانوں کے لئے:

تلاوتِ قرآن دو پارے، درود شریف ہزار مرتبہ، استغفار پانچ سو مرتبہ، تیسرا کلمہ سو مرتبہ، کلمہ طیبہ پانچ سو مرتبہ، مناجاتِ مقبول کی ایک منزل، اپنی زبان میں دعائیں، بالخصوص سحری کے وقت اور افطاری کے وقت، اس کے علاوہ تہجد، اشراق اور اوابین۔ اگر مزید وقت مل سکے، تو تلاوتِ قرآن کریں۔ آخری عشرے میں اس کا دوگنا کریں۔

حفاظ کرام کے لئے طریقہ ہے:

رمضان کا مہینہ چونکہ قرآن کا مہینہ ہے، تو حفاظ کرام اس میں زیادہ سے زیادہ تلاوت کیا کریں، کیونکہ باقی لوگوں کی نسبت ان کے لئے تلاوت زیادہ آسان ہوتی ہے اور تراویح میں ایک قرآن ضرور سنایا کریں یا سن لیا کریں، اکثر حفاظ یہ شکایت کرتے ہیں کہ ہمیں سنانے کے لئے جگہ نہیں ملتی، ہم کیا کریں؟ (حافظ حضرات اس کو اچھی طرح یاد رکھیں) اس کا طریقہ یہ ہے کہ دو حافظ مل کر کسی بھی جگہ پر ہو، گھر پر ہو، بیٹھک پر ہو، حجرہ میں ہو، تراویح میں پڑھیں۔ چاہے دوسرے لوگ نہ بھی ہوں۔ دو بندے ہی تراویح پڑھ لیں، ایک امام ہو گا اور دوسرا سامع۔ اس طرح باری باری دونوں کریں۔ دو قرآن ختم کریں، تو دونوں کے سنانے کا بھی قرآن ختم ہو جائے گا اور سننے کا بھی۔ باقی نام کمانے اور پیسے کمانے کی کوشش، وہ الگ بات ہے۔ گویا رکاوٹ نام کمانے اور پیسے کمانے کی ہے۔ اگر کسی کی یہ نیت ہو، تو اس کے لئے یہ مشورہ فضول ہے، وہ اس پہ عمل ہی نہیں کرے گا۔ لیکن اگر کوئی واقعی قرآن کو محفوظ کرنا چاہتا ہے یعنی سنانا چاہتا ہے، کیونکہ جب قرآن سناتے ہیں، تو محفوظ ہو جاتا ہے۔ اگر قرآن سنانا چاہتا ہے، تو دو آدمی ایک دوسرے کو سنائیں۔ ہمارے ہاں بھی پہلے یہ طریقہ تھا کہ میرے دو بیٹے ہیں، ایک بیٹا آٹھ رکعت میں ڈیڑھ پارہ سنا لیتا تھا اور دوسرا بیٹا بارہ رکعت میں اگلا ڈیڑھ پارہ سنا لیتا۔ یوں تین پارے روزانہ ہو جاتے تھے۔ دس راتوں میں ختم ہو جاتا۔ پھر اگلے ختم میں یہ ترتیب الٹ ہو جاتی، یعنی جو پہلے آٹھ والا ہوتا تھا، وہ بارہ والا ہو جاتا اور جو بارہ والا ہوتا، تو وہ آٹھ والا ہو جاتا۔ ما شاء اللہ! دونوں کی سماعت بھی ہو جاتی اور دونوں کا سنانا بھی ہو جاتا۔ اگر کسی کی منزل بہت ہی پکی ہو، لیکن جو پہلی بار سناتا ہے، وہ بہت ہی زیادہ غلطیاں کرتا ہے، اس طرح اس کی منزل پکی ہوتی ہے کہ وہ تروایح بھی سنایا کرے۔ اس کے علاوہ منزل پکی کرنے کا اور طریقہ نہیں ہے۔ بس ہمت کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو عمل کی توفیق عطا فرمائے اور رمضان مبارک کی جملہ برکات نصیب فرمائے۔ آخر میں سب سے درخواست اور گزارش ہے کہ اس عاجز کو بھی افطاری اور سحری کی دعاؤں میں یاد رکھیں، یہ محتاجیوں کا پتلہ ہے۔

وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ