مطالعہ سیرت بصورت سوال

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
سوال:
آپ ﷺ رمضان المبارک کے لئے کس طرح کی تیاری فرماتے تھے؟
جواب:
اگر وہ حدیث شریف دیکھ لی جائے کہ آپ ﷺ نے شعبان کا مہینہ کیسے گزارا، تو اس سے پتا چل جائے گا کہ آپ ﷺ رمضان المبارک کی تیاری کیسے کرتے تھے۔ چنانچہ آپ ﷺ شعبان کے مہینہ میں کثرت سے روزے رکھتے تھے۔ یہ روزہ کی تیاری ہو گئی۔ اسی طرح آپ ﷺ نے شعبان کے اخیر میں فضائل پر بیان فرمایا۔ اس لئے ہمیں شعبان کے مہینہ میں فضائل پڑھنے چاہئیں۔ شیخ الحدیث حضرت مولانا زکریا صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے فضائلِ رمضان پر کتاب لکھی ہے، بڑی پیاری کتاب ہے۔ یہ کتاب فضائلِ اعمال میں شامل ہے، اس کو کئی بار پڑھنا چاہئے، اتنی بار پڑھنا چاہئے کہ مستحضر ہو جائے، یعنی عین وقت پر یاد رہے۔ اکثر لوگ بس مختصر سا پڑھ لیتے ہیں یا سن لیتے ہیں۔ اس طرح نہیں، بلکہ طلب کی نگاہ سے پڑھیں۔ یعنی اس کو یہ پتا ہو کہ مجھے اس کے ذریعے سے یہ معلوم ہو گا کہ میں رمضان شریف کیسے گزاروں۔ اس کی مثال ایسی ہے، جیسے ایک شخص ویزا لگوانے کے لئے جا رہا ہے، حج پہ جانا چاہتا ہے یا کہیں اور جانے کے لئے ویزا لگوانے کے لئے جا رہا ہے۔ وہاں اگر اس کو کوئی ایسا ساتھی مل جائے، جو یہ بتائے کہ ویزا لگوانے کے لئے کیا کیا کرنا پڑتا ہے اور کیا کیا طریقہ کار اختیار کرنا پڑتا ہے، وہ کتنا خوش ہو گا، اس کی بات کو کیسے سنے گا؟ ویسے casual طریقہ سے نہیں سنے گا۔ بلکہ اس کی بات کو ایسے سنے گا کہ کوئی چیز بھی رہ نہ جائے۔ بار بار پوچھے گا کہ یہ کیسے کرنا ہے؟ یہ کیسے کرنا ہے؟ یہ کیسے کرنا ہے؟ وہاں سپیشلی لوگ بیٹھے ہوتے ہیں، جو فارم بھرنے میں بھی مدد کرتے ہیں اور طریقہ بھی بتاتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ لوگ اس چیز کی اہمیت کو سمجھتے ہیں کہ اگر میں نے کوئی غلطی کی، تو سب reject ہو جائے گا۔ اسی طرح یہ بات کہ ہم رمضان شریف کیسے گزاریں، اس کے لئے احادیث فضائلِ رمضان میں موجود ہیں، ان کو ہم بار بار پڑھیں، بار بار سنیں، سنائیں، تاکہ ہم لوگوں کو ان کی سمجھ بھی آ جائے اور مستحضر رہے۔ مثلاً: بعض لوگ ویسے ہی عادتاً روزہ رکھ لیتے ہیں، لیکن روزہ کی برکات سے آگاہ نہیں ہوتے، اس لئے اس کے لئے اتنا زیادہ اہتمام نہیں کرتے، جتنا کہ ہونا چاہئے۔ مثلاً: افطاری کے وقت کا کیا طریقہ ہونا چاہئے، سحری کے وقت کا کیا طریقہ ہونا چاہئے، روزہ میں کن کن چیزوں سے بچنا چاہئے، کون کون سے کام بہترین ہیں، کون کون سے کام ہمیں کرنے چاہیئں۔ پھر اعتکاف کے کیا مسائل ہیں، اعتکاف کیا چیز ہے، اس کی کیا کیا برکات ہیں۔ یہ ساری چیزیں ہمیں پہلے سے معلوم ہونی چاہئیں، تاکہ رمضان شریف میں ہم سے کوئی چیز رہ نہ جائے۔ رمضان آتا ہے اور اتنی تیزی سے گزر جاتا ہے کہ آدمی حیران ہو جاتا ہے۔ میں نے تو کئی دفعہ محسوس کیا کہ ابھی شروع ہوا اور ابھی پتا چلا کہ رمضان شریف گزر رہا ہے۔ اس لئے ہمیں اس سے فائدہ اٹھانا چاہئے، بوجھ نہیں سمجھنا چاہئے، بلکہ اس کو اللہ تعالیٰ کی رحمت سمجھنا چاہئے اور ہے بھی ایسے ہی۔ اس کا پہلا عشرہ رحمت ہے، دوسرا عشرہ مغفرت ہے اور تیسرا عشرہ جہنم سے خلاصی کا ہے۔ لہٰذا رمضان اسی اہمیت کے پیش نظر گزارنا چاہئے، بالخصوص آخری عشرہ میں تو انسان کو جان توڑ کے محنت کرنی چاہئے۔ آپ ﷺ کے بارے میں بھی یہی آتا ہے کہ آخری عشرہ میں آپ ﷺ کمر کس لیتے تھے، خود بھی جاگتے تھے اور اپنے اہلِ خانہ کو بھی جگاتے تھے۔ لہٰذا ہمیں فکر ہونی چاہئے کہ کوئی لمحہ جو ہم حاصل کر سکتے ہیں، وہ ہم سے رہ نہ جائے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو توفیق عطا فرما دے۔
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ