اف یاں رہنے کا حق ادا نہ ہوا
بے شک یہ جو ہوا اچھا نہ ہوا
کتنی بڑی جگہ تھی جس میں تھے ہم
جو ادب چاہیٔے تھا یہاں نہ ہوا
قلق دل کو ہے کہ اس دفعہ مجھ کو
قدموں میں آپ کے بیٹھنا نہ ہوا
لیکن اس پر بھی شفقتیں جو ملیں
اف مرے اللہ کیا سے کیا نہ ہوا
دہلیز پہ حسن کے شبیر عشق کا
جو تھا ہونا وہ عہد وفا نہ ہوا
تصنیف:
نورِ معرفت