تعلیمات مجددیہ درس 21



اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

تعلیمات مجددیہ کے سلسلے میں عقائد پر پہلے بات ہو چکی ہے، اب اعمال پر بات چل رہی ہے، کیونکہ اولاً عقائد کی پختگی، ثانیاً شریعت پر استقامت، یہی تصوف کی اصل بنیاد ہے۔ اس وجہ سے حضرت نے ان چیزوں پر زور دیا ہے، لیکن وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ لوگ اصل تعلیمات سے دور ہو جاتے ہیں، اور اضافی چیزوں پہ زور دینے لگ جاتے ہیں، اصل چیز کا صرف نام لیا جاتا ہے اور کام رہ جاتا ہے۔ تعلیمات مجددیہ کو بیان کرنے سے ہمارا مقصد یہ ہے کہ ہمارے سامنے یہ بات آ جائے کہ حضرت کی اصل فکر کیا تھی اور وہ کس چیز پر زور دے رہے تھے، اور آج کل ہم کن چیزوں پر چلے ہوئے ہیں۔

لقمہ میں احتیاط بہت ضروری ہے:

حضرت فرماتے ہیں:

کیونکہ اعمال کی قبولیت کا مدار نیت کے بعد اِس (رزق کے حلال ہونے) پر ہے، نیت کی درستی پہلی چیز ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: "اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیِّاتِ" (بخاری شریف، حدیث نمبر: 1)

ترجمہ: ’’اعمال کا دار و مدار نیتوں پر ہے۔‘‘

گویا نیت سمت ہے، اگر سمت غلط ہو تو آپ کتنی ہی تیز رفتار سے جائیں، آپ اپنی منزل پہ نہیں پہنچ سکتے۔ نیت کے درست ہونے کے بعد دوسری چیز یہ ہے کہ جن چیزوں سے نقصان ہوتا ہے ان سے پرہیز ہو اور سب سے بڑا نقصان حرام رزق سے ہوتا ہے۔ اگر کسی کا رزق حرام ہے تو پھر اس کے اعمال کے اندر جان نہیں رہتی۔

حضرت مولانا اشرف علی تھانوی (رحمۃ اللّٰہ علیہ) نے ایک وعظ میں ایک بات ارشاد فرمائی تھی جو مجھے اس وقت یاد آ گئی، حضرت نے فرمایا: ایک بزرگ سے ایک صاحب بیعت ہوئے، اس نے عبادات میں بہت تیزی سے ترقی کی، عبادات میں تمام فرائض و واجبات، سنن و نوافل حتیٰ کہ تہجد تک بہت تیزی سے آگے بڑھا۔ مشائخ جہاں دیدہ ہوتے ہیں تجربہ کار ہوتے ہیں، ان کو ان چیزوں سے اشارہ ملتا ہے۔ حضرت سوچنے لگے کہ اتنی جلدی ان چیزوں کو حاصل کرنا عام نہیں ہے، عموماً ایسا نہیں ہوتا، اس کے لئے محنت کرنی پڑتی ہے۔ یہ آدمی اتنا جلدی اس معمول پر آ گیا ہے، ضرور کوئی مسئلہ ہے، کوئی ایسی بات ہے جس کی وجہ سے اس کو دھوکہ ہو رہا ہے۔ ان بزرگ نے الله جل شانهٗ کی بارگاہ میں زاری کی کہ یا اللہ! اس کی حالت مجھ پر کھول دے کہ اس کے ساتھ کیا مسئلہ ہے۔ الله جل شانهٗ کی طرف سے الہام ہوا کہ اس کا رزق حرام ہے، شیطان نے اس کو دھوکہ دیا ہوا ہے اور عبادات میں لگایا ہوا ہے، تاکہ اس کے ذہن میں یہ نہ آئے کہ میں غلطی پر ہوں، بلکہ اپنے آپ کو بزرگ بھی سمجھے اور اس کے اعمال بھی تبدیل نہ ہوں۔ بزرگ بہت پریشان ہو گئے کہ اس کو شیطان نے کتنا بڑا دھوکہ دیا ہوا ہے۔ انہوں نے اس مرید کو بلایا، تحقیق کی کہ آپ کے رزق کمانے کا ذریعہ کیا ہے؟ اس کے جواب سے پتا چلا کہ اس کی کمائی حلال نہیں ہے، حرام ہے۔

اُن بزرگ نے فرمایا: یہ طریقت شریعت پر آنے کا نظام ہے اور شریعت میں سب سے پہلی بات ہی یہی ہے کہ انسان کا رزق حلال ہو۔ چونکہ آپ کا رزق حلال نہیں ہے، لہٰذا آپ کی عبادات رائیگاں جا رہی ہیں، آپ سب سے پہلے اپنے رزق کا طریقہ درست کریں۔ اس کو کوئی ایسا کام بتا دیا جو جائز تھا۔ اگرچہ اس میں پیسے بہت تھوڑے تھے۔ اسے کہا کہ آپ یہ کام کریں اور پہلا کام چھوڑ دیں، وہ مخلص آدمی تھا لہٰذا اس نے بزرگ کی ہدایت پر عمل کیا۔ حضرت تھانوی صاحب (رحمۃ اللّٰہ علیہ) نے فرمایا کہ رزق حلال کی طرف آنے کے بعد اس کے لئے فرض نماز پڑھنا بھی مشکل ہو گیا، شیطان نے اس پر اپنا مکمل زور لگایا کہ اب فرض نماز ہی پڑھ کے دکھاؤ۔

الحمد للہ، یہ بات تجرباتی طور پر تھوڑی بہت میرے سامنے آئی ہے کہ کئی مرتبہ جن لوگوں کا رزق حرام ہوتا ہے، وہ عموماً ذکر اذکار اور خیرات و صدقات وغیرہ عبادات میں بہت زیادہ آگے ہوتے ہیں۔ ان کا یہ خیال ہوتا ہے کہ ہم ان عبادات سے گویا کہ رزق حرام والے گناہ کی تلافی کر دیں گے، حالانکہ ایسے تلافی نہیں ہوتی۔ آپ گند میں سے جتنا گند لوگوں کو دیں، اس سے وہ گند پاک نہیں ہوتا، یہ شیطان کے دھوکے ہیں۔

ہمارے رشتہ داروں میں سے ایک صاحب کھلم کھلا رشوت لیتے تھے، فخر سے لوگوں کو بتاتے بھی تھے۔ ایسے بھی ہوتا ہے اللہ ہم سب کو معاف فرمائے، یہ بہت بڑی کمزوری ہے۔ ان کا معمول یہ ہوتا تھا کہ رمضان شریف میں پوری مسجد کو افطاری کراتے تھے۔ آج کل ہم مسلمانوں میں یہ کمزوری ہے کہ تحقیق نہیں کرتے کہ کہاں سے آ رہا ہے، حلال بھی ہے یا حلال نہیں ہے، بس جو آئے سارا کچھ ٹھیک ہے۔ وہ پوری مسجد کو افطاری کراتے تھے۔ جب ان کو بیماریاں لگ گئیں، آخری وقت میں ہسپتال میں داخل تھے، وہاں سے اپنے گھر ٹیلی فون کیا کہ وہ جو میں مسجد میں افطاری بھیجا کرتا تھا، ابھی بھی ایسا ہو رہا ہے یا نہیں ہو رہا؟ ان کے گھر والوں نے تسلی دی کہ ہاں اب بھی ایسا ہو رہا ہے آپ فکر نہ کریں۔

اب دیکھیں، انہیں اس چیز کی فکر تھی کہ افطاری میں کوئی خلل نہ آئے، لیکن اپنے رزق کو حلال کرنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ یہ وہ دھوکہ ہے جو شیطان دیتا ہے۔ حضرت اسی بات کی وضاحت کرتے ہوئے دفتر دوم مکتوب 69 میں فرماتے ہیں:

متن:

ایک اور نصیحت یہ ہے کہ لقمہ میں بہت احتیاط رکھیں۔ یہ ٹھیک نہیں ہے، کہ جو بھی جہاں کہیں سے ملےکھالے اور حلال اور حرام شرعی کا کچھ لحاظ نہ رکھے، یہ شخص خود مختار نہیں ہے کہ جو چاہے کرے بلکہ اس کا ایک مولیٰ جل سلطان (آقا) ہے جس نے اس کو امر و نہی کا مکلف بنایا ہے اور انبیاء علیم الصلوات والتسلیمات کے ذریعے جو دنیا جہان والوں کے لئے سراپا رحمت ہیں، اپنی رضامندی اور عدم رضامندی کو ظاہر کر دیا ہے وہ شخص بہت ہی بدبخت ہے جو اپنے آقا کی مرضی کے خلاف کام کرے اور آقا کی اجازت کے بغیر اس کے ملک و مِلک میں تصرف کرے، بڑی شرم کی بات ہے مجازی آقا کی رضامندی کی رعایت کرتے ہیں اور اس بارے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرتے اور مولائے حقیقی نے تاکید و مبالغہ کے ساتھ جن ناپسندیدہ کاموں سے منع کر دیا اور تنبیہ فرمائی ہے اس کی طرف کچھ توجہ نہیں کرتے کہ یہ اسلام ہے یا کفر؟ خوب غور کرنا چاہئے، ابھی کچھ نہیں بگڑا اور اب بھی گزشتہ کوتاہیوں کا تدارک ہوسکتا ہے، حدیث اَلتّۤائِبُ مِنَ الذَّنْبِ کَمَن لَّاذَنْبَ لَہٗ (گناہوں سے توبہ کرنے والا ایسا ہے گویا اس نے کوئی گناہ ہی نہیں کیا) یہ قصور کرنے والوں کے لئے بشارت ہے اس کے باوجود اگر کوئی شخص گناہ پر اصرار کرے اور اس سے خوش ہو تو وہ منافق ہے، اس کا ظاہری اسلام اس کے عذاب و عقاب کو دور نہیں کرےگا، زیادہ تاکید و مبالغہ کیا کیا جائے، عقلمند کے لئے اشارہ کافی ہے۔

تشریح:

رزق حلال کمانا بہت ضروری ہے۔ یاد رکھنا چاہئے کہ رزقِ حلال میں بڑی برکت ہوتی ہے۔ تھوڑا بھی ہو تو اس سے سارے کام ہو جاتے ہیں۔ اور حرام رزق بہت زیادہ ہو، تب بھی اس سے اطمینان نہیں ہوتا، کام نہیں ہوتا پریشانی ہوتی ہے، اور بڑھتی جاتی ہے۔

برکت ایک ایسی چیز ہے جس کو ہم سب مانتے ہیں اور جانتے ہیں، لیکن یہ کام کیسے کرتی ہے، یہ کوئی نہیں جانتا، یہ اللہ تعالیٰ کا ایک نظام ہے، ان چیزوں کو مخفی رکھا گیا ہے۔ بعض لوگوں کے مال میں برکت ہوتی ہے، جان میں برکت ہوتی ہے، علم میں برکت ہوتی ہے، قوت میں برکت ہوتی ہے، اگر کوئی شخص حلال رزق کماتا ہے، تو اس کے رزق میں برکت کے ساتھ ساتھ اس کے دوسرے مسائل بھی حل ہوتے رہتے ہیں۔

قضائے الہٰی پر راضی ہونا:

یہاں سے ایک نئی بات کا بیان ہے۔ قضائے الٰہی پر راضی ہوئے بغیر چارہ نہیں۔ اس کے لئے صبر کا ہونا ضروری ہے، لیکن جس میں صبر نہ ہو اس کے لئے اس پر عمل بہت مشکل ہوتا ہے۔ صبر تب ہو سکتا ہے جب نفس شریعت پر اطمینان حاصل کر چکا ہو۔ اس بات کو واضح کرنے کے لئے دفتر دوم کے مکتوب نمبر 88 میں یوں ارشاد فرماتے ہیں:

متن:

مقبول بندہ وہ ہے جو اپنے مولائے حقیقی کے فعل پر راضی ہو اور جو شخص اپنی مرضی کا تابع ہے وہ آپ اپنا بندہ ہے، اگر مولائے حقیقی بندہ کی گردن پر چھری چلائے تو بندہ کو چاہئے کہ اس وقت بھی فرحان و خنداں رہے اور مولا کے اس فعل کو اپنا پسندیدہ فعل سمجھے بلکہ اس فعل سے لذت حاصل کرے اور اگر عیاذاً باللہ سبحانہ اس کو اس فعل سے کراہت معلوم ہو اور اس کا سینہ (دل) میں تنگی پیدا ہو تو وہ دائرہ بندگی سے دور اور قرب مولیٰ سے مہجور ہے، جب طاعون حق تعالیٰ کی مراد ہے تو چاہئے کہ اس کو اپنی مراد جان کر خوش و خرم ہوں اور طاعون کے غلبہ سے بے صبر و تنگ دل نہ ہوں.

تشریح:

آج کل اس بات کو کرونا پہ منطبق کر لیں۔

متن:

بلکہ اس خیال سے کہ وہ محبوب کا فعل ہے اس سے لذت یاب ہوں، ہر شخص کے لئے اجل مقرر ہے جس میں کمی بیشی کا کوئی احتمال نہیں ہے تو پھر اضطراب کیوں ہو البتہ نہایت کار یہ ہے کہ ہم (دعا کے ذریعے) بلاؤں سے عافیت طلب کریں اور اللہ تعالیٰ کے غضب و ناراضگی سے پناہ مانگیں کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی دعا اور سوال سے راضی ہوتا ہے نیز اللہ تعالیٰ فرماتا ہے "اُدْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ" (المومن:40 آیت: 60) (تم مجھ سے مانگو میں تمھاری دعا قبول کروں گا)۔

تشریح:

مختلف بزرگوں نے اس چیز کو اپنے اپنے انداز میں بیان کیا ہے اور یہی مقامِ رضا سب سے بڑی چیز ہے۔ مقاماتِ سلوک میں مقامِ رضا آخری مقام ہے اور جب یہ مقام حاصل ہو جائے تو پھر بندے کو نفس پہ اطمینان حاصل ہو جاتا ہے۔ کیونکہ اطمینان رضا سے ہی حاصل ہو سکتا ہے، انسان کسی چیز سے راضی ہو گا تبھی اطمینان ہو گا، جب تک راضی نہیں ہو گا تو اطمینان کہاں ہوا۔ نفس کا اطمینان تب ہو گا جس وقت انسان اللہ تعالیٰ کے ہر فعل پر راضی ہو گا۔

ہماری ایک کزن تھیں (اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے) بڑی نیک خاتون تھیں، ان کی زبان پر ہر وقت یہ جملہ ہوتا تھا، ”اے اللہ میں تجھ سے راضی ہوں تو مجھ سے راضی ہو جا۔“ ہماری رشتہ دار خواتین ان کو کہتیں کہ یہ کون سا کمال ہے؟ اللہ تعالیٰ کی رضا پہ تو راضی ہونا ہی پڑتا ہے، یہ بھلا تم کیا کہہ رہی ہو کہ میں تجھ سے راضی ہوں تو مجھ سے راضی ہو جا۔ میں نے ان سے کہا کہ یہ صحیح بات کر رہی ہے۔ ہم لوگ کہتے ہیں ”راضی ہونا چاہئے“، جب کہ ”وہ راضی ہے“۔ ”راضی ہونا چاہئے“ اور ”راضی ہے“ میں فرق ہے۔ جو راضی ہوتا ہے اس کے احوال اور ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو کھلا دل دیا ہوا تھا، بہت زیادہ غریب تھیں، لیکن ان کے گھر جو کچھ ہوتا تھا وہ سب کے لئے ہوتا تھا، چاہے کوئی بھی آتا ان کو کھلاتی تھیں اور ان کی زبان پہ یہی بات ہوتی تھی کہ اے اللہ! میں تجھ سے راضی ہوں تو مجھ سے راضی ہو جا۔

ایک دن مجھے کہنے لگیں کہ شبیر! مجھے وظیفہ دو۔ وہ بہت وظیفے پڑھتی تھیں۔ میں نے کہا: نہیں دیتا۔ انہوں نے کہا: سب کو دے رہے ہو، مجھے کیوں نہیں دیتے؟ میں نے کہا میری مرضی، زبردستی تو نہیں کہہ سکتی، میری مرضی ہے جس کو دینا مناسب سمجھتا ہوں اس کو دیتا ہوں، دوسروں کو نہیں دیتا۔ خیر کیا کہہ سکتی تھیں۔ میں نے کہا: وظیفہ دے دوں گا لیکن اس شرط پر کہ باقی سارے وظیفے چھوڑو گی۔ مجھے پتا تھا، اس کے پاس بہت سارے وظیفے ہیں، اگر میں بھی دے دوں گا تو یہ پھر سوائے اس کے کچھ نہیں کرے گی کہ مجموعۃ الوظائف ہو جائے گی۔ اس وجہ سے میں نے کہا کہ اس کو میں تب وظیفہ دوں گا جب یہ باقی وظیفے چھوڑے گی۔ وہ نہیں مان رہی تھیں، میں نے کہا: بس ٹھیک ہے پھر میں نہیں دیتا۔

ایک دن میرے ہاں بیان کے بعد کچھ خواتین بیعت ہو رہی تھیں، ان کزن نے مجھے پیغام بھجوایا کہ میں بھی بیعت ہو گئی ہوں، اب تو آپ وظیفہ دیں گے؟ میں نے کہا: اب تو آپ بیعت ہو گئیں، اب آپ میری بات مانیں گی؟ کہتی ہیں، ٹھیک ہے۔ میں نے کہا لکھ کے بھیجو کہ کون کون سے وظیفے کرتی ہو۔ انہوں نے مجھے سارے وظیفے لکھ کے بھجوائے۔ میں نے اس میں سے چھانٹی کر کے انہیں بتایا کہ یہ یہ کر لو اور یہ چھوڑ دو۔

ان کی وفات کے بعد ان کی بہن نے ان کو خواب میں دیکھا اور ان سے پوچھا کہ بہن کیا واقعی قبر میں منکر نکیر آتے ہیں؟ انہوں نے کہا ہاں آتے ہیں میرے پاس بھی آئے تھے، مجھے بٹھا لیا تھا، پھر کہا: چلو تجھ سے نہیں پوچھتے، سو جاؤ۔ پھر چلے گئے۔

حدیث شریف میں ہے کہ منکر نکیر بعض لوگوں کو بغیر کچھ پوچھے چھوڑ دیں گے۔ میں نے کہا کہ یہ سب ان کے اس جذبہ کی وجہ سے ہے کہ اے اللہ! میں تجھ سے راضی ہوں تو مجھ سے راضی ہو جا۔ یہ بہت بڑی بات ہے۔ اگر واقعی کوئی اللہ تعالیٰ سے راضی ہو تو بہت اونچی بات ہے۔ حضرت مجدد الف ثانی (رحمۃ اللّٰہ علیہ) نے بھی یہی بات فرمائی ہے کہ اللہ تعالیٰ سے راضی ہونا بہت ضروری ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ الله جل شانهٗ ہم پر ہم سے زیادہ مہربان ہے، ہم اپنے اوپر اتنے مہربان نہیں ہیں۔ کیونکہ ہم اپنے آپ کو عاجلہ کی وجہ سے نقصان دیتے جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ ہمیں آجلہ کی طرف لاتے ہیں، اللہ تعالیٰ ہماری آخرت کو صحیح بنا رہا ہے اور ہم کہتے ہیں نہیں ہماری دنیا صحیح ہو جائے۔ جبکہ دنیا بہت تھوڑی ہے۔ اللہ کو تو پتا ہے کہ دنیا بہت تھوڑی ہے، اب کسی کو دنیا دے دے اور آخرت چھین لے تو یہ اس کا بہت بڑا نقصان ہو گا، اللہ تعالیٰ ہمیں اعلی چیز دینا چاہتے ہیں۔

جب یہ حقیقت ہے کہ اللہ پاک ہم پر ہم سے زیادہ مہربان ہے، اللہ تعالیٰ قادر بھی ہے، مجبور بھی نہیں، تو جو ہمارے ساتھ ہم سے زیادہ خیر خواہی کرتا ہے اور ہم پر ہم سے زیادہ مہربان ہے، قادر بھی ہے، مجبور بھی نہیں ہے، اس کے ہر کام میں ہمارے لئے حکمت ہو گی اور ہمارے لئے وہ کام اچھا ہو گا، تبھی اللہ تعالیٰ کروا رہا ہے۔

اس وجہ سے ہمارا فائدہ اسی میں ہے کہ ہم اللہ کی مانیں، چاہے سمجھ میں آئے، یا نہ آئے۔ یہ شرط لگانا کہ میری سمجھ میں آ جائے پھر مانوں گا، یہ کچی بات ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سمجھ میں آنے کی بڑی فضیلت ہے، فقاہت اور علم و بصیرت کی بہت فضیلت ہے، لیکن اس کو آپ اللہ کی بات ماننے کی شرط نہیں بنا سکتے۔ جب ثابت ہو جائے کہ اللہ کا حکم ہے، پھر ماننا پڑے گا، چاہے سمجھ میں آئے یا نہ آئے۔ بہت ساری باتیں ایسی ہوں گی جو آپ کو سمجھ نہیں آئیں گی۔

حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمة الله عليہ سے کسی نے کہا کہ حضرت یہ مغرب کی طاق رکعتیں ہیں اور باقی نمازوں کی جفت ہیں، ایسا کیوں ہے؟

اس کی علمی دلیل اور علمی جواب بھی ہے لیکن حضرت ایسے سوالوں کے علمی جواب نہیں دیتے تھے، کیونکہ اس قسم کے سوال کرنا نفس کی خباثت کی وجہ سے ہوتا ہے۔

حضرت نے فرمایا: تیری ناک آگے لگی ہوئی ہے، پیچھے کیوں نہیں لگی ہوئی؟ اس نے کہا: اللہ نے ایسے ہی لگائی ہے۔ حضرت نے فرمایا: بس اللہ پاک نے مغرب کی تین ہی رکعتیں بنائی ہیں، اس کی مرضی ہے کہ اس نے مغرب کی تین کر دیں، باقی کی جفت کر دیں۔

الغرض چاہے ہماری سمجھ میں آئے یا نہ آئے، ہم لوگوں کو یہ ماننا چاہئے کہ اللہ پاک کے ہر کام میں حکمت ہے۔

دفتر سوم کے مکتوب نمبر 19 میں اس کی مزید وضاحت ارشاد فرماتے ہیں:

متن:

حکیم جل سلطانہ کا کوئی فعل (کام) حکمت و مصلحت سے خالی نہیں ہوتا، شاید اللہ سبحانہ نے اس (مصیبت) سے ہماری بہتری کا ارادہ فرمایا ہو (جیسا کہ ارشاد ہے) عَسٰى أَن تَكْرَهُوا شَيْئًا وَهُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ ۖ وَعَسٰى أَن تُحِبُّوا شَيْئًا وَهُوَ شَرٌّ لَّكُمْ ۗ وَاللّٰهُ يَعْلَمُ وَأَنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ (سورہ بقرہ2 : آیت: 214) ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو برا سمجھو حالانکہ وہ تمہارے لئے اچھی ہو، اور (اسی طرح) ممکن ہے کہ کسی چیز کو تم اچھا سمجھو حالانکہ وہ تمہارے حق میں بری ہو(پس حقیقتِ حال) اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے تم نہیں جانتے) لہٰذا اس سبحانہ وتعالیٰ کی (بھیجی ہوئی) بلا پر صبر کرو، اس کے فیصلے (قضا) پر راضی رہو، اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت پر ثابت قدم رہتے ہوئے اس سبحانہ کی نافرمانی سے پرہیز کرو۔ إِنَّا لِلّٰهِ وَإِنَّـا إِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ (بقرہ:154) (ہم سب اللہ تعالیٰ ہی کے ہیں اور ہم کو اسی کی طرف جانا ہے) اللہ تبارک وتعالیٰ کا ارشاد ہے: مَا أَصَابَكُم مِّن مُّصِيبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ وَيَعْفُو عَن كَثِيرٍ (الشوری:42 آیت:20) (جو مصیبت تم کو پہنچتی ہے وہ تمہارے ہاتھوں کی (غلط) کمائی کے باعث ہے اور وہ تعالیٰ تمہاری بہت سی باتیں معاف کر دیتا ہے)۔ پس اللہ سبحانہ کی جناب میں استغفار و توبہ کرو اور اپنے ہاتھوں کئے ہوئے اعمال پر اللہ سبحانہ سے عفو و عافیت طلب کرو۔ یقیناً اللہ تعالیٰ بہت معاف کرنے والا ہے اور معاف کرنے کو پسند کرتا ہے۔

تشریح:

ہماری انجینئرنگ ڈگری 1st division with honors بہت اچھی صورت میں ہوئی۔ میرا دل چاہتا تھا کہ میری پوسٹنگ پشاور میں حضرت کے ساتھ ہو جائے اور ایسا ممکن بھی تھا، کیونکہ اس وقت انجینئرنگ میں چار پوسٹیں تھیں اور میرا نمبر میرٹ کے لحاظ سے تیسرا تھا، فیصلہ کرنے والے لوگ بھی بہت دیانت دار لوگ تھے، ان کی طرف سے گڑبڑ کا امکان نہیں تھا، لہٰذا مجھے بہت اطمینان تھا کہ کام ہو جائے گا، تیسرا نمبر میرا ہے، چار تو ہونے ہی ہیں، انہی میں، میں بھی ہو جاؤں گا، اس وجہ سے میں نے کسی اور جگہ apply نہیں کیا۔ آسامیوں کا اپنا ایک مخصوص وقت ہوتا ہے، اس وقت کے اندر اندر بھر جاتی ہیں۔ میں انٹرویو کا انتظار کر رہا تھا۔ انٹرویو سے چند دن پہلے دو پوسٹیں گر گئیں۔ اب دو رہ گئیں، میرا نمبر تیسرا تھا، میں بھی رہ گیا بلکہ میرے ساتھ ایک اور بھی رہ گیا، اب میرے پاس کوئی موقعہ ہی نہیں تھا، کیونکہ ساری آسامیاں ختم ہو چکی تھیں۔ اتنی اچھی ڈگری کے ہوتے ہوئے تقریباً ساڑھے آٹھ مہینے میں بے روزگار رہا، گھر والے بھی پریشان تھے اور خود میں بھی پریشان تھا، کوشش کر رہے تھے کہیں سے ملازمت مل جائے، لیکن جہاں بھی جاتے، ایسا محسوس ہوتا کہ جیسے ہی میں پہنچتا ہوں کھڑکی بند ہو جاتی ہے۔ H.M.C میں میری appointment ہوئی اور اگلے دن joining تھی، اسی دن نئی appointments پر ban لگ گیا۔ ایسی صورت میں آدمی کیا کر سکتا ہے، اس مسئلہ میں تو کچھ بھی نہیں کر سکتا۔ اس طرح مختلف چیزیں ہوتی رہیں، مجھے کوئی اور پریشانی نہیں تھی، مسئلہ صرف یہ تھا کہ لوگ بہت تنگ کرتے تھے، لوگ کہتے تھے، بغیر رشوت کے کام نہیں ہوتا، دیکھو تمہارا کام اس لئے نہیں ہو رہا کیونکہ تم رشوت نہیں دیتے، رشوت دو تو تمہارا کام ہو جائے گا۔ اس سے بہت پریشانی تھی۔ میں نے کہا: رشوت تو میں نہیں دوں گا۔

پریشانی کے عالم میں، میں نے قرآن پاک کھولا کہ میں اپنے لئے پیغام دیکھوں کہ میرے لئے کیا حکم ہے، ایسے میں کیا کروں، قرآن کھولا تو سامنے یہ آیت آئی۔ ﴿وَ عَسٰۤی اَنْ تَكْرَهُوْا شَیْـًٔا وَّ هُوَ خَیْرٌ لَّكُمْ وَ عَسٰۤی اَنْ تُحِبُّوْا شَیْـًٔا وَّ هُوَ شَرٌّ لَّكُمْ وَ اللّٰهُ یَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ۔﴾ (البقرہ: 216)

ترجمہ: ’’اور یہ عین ممکن ہے کہ تم ایک چیز کو برا سمجھو حالانکہ وہ تمہارے حق میں بہتر ہو، اور یہ بھی ممکن ہے کہ تم ایک چیز کو پسند کرو، حالانکہ وہ تمہارے حق میں بری ہو، اور (اصل حقیقت تو) اللہ جانتا ہے، اور تم نہیں جانتے۔‘‘

یہ آیت سامنے آئی تو میں فوراً سمجھ گیا کہ ان حالات میں میرے لئے خیر ہے۔ لہٰذا اپنی حالت پر مطمئن ہو گیا۔ اس کے چند دن بعد مجھے ملازمت مل گئی اور ایک ایسے صاحب کے ذریعہ ملی جو خود اس وقت بے روز گار تھے اور اس کے بعد مزید دس سال بعد تک وہ بے روز گار رہے، لیکن میرے لئے ملازمت کا ذریعہ بن گیا۔ اللہ کی قدرت دیکھیں کہ نمبر بھی پورے، میرٹ بھی پورا، مگر ان کے ذریعہ نہیں دیا بلکہ ایسے شخص کے ذریعہ سے دیا جو خود بے روز گار تھا، خیر! میں سمجھ گیا کہ اللہ کی اس میں بڑی حکمت ہے۔

جب ملازمت مل گئی، پھر میں نے سوچا اور جاننے کی کوشش کی کہ اس میں حکمت کیا تھی، اگرچہ عمل تو اس پر بغیر جاننے کے بھی کرنا ہوتا ہے، لیکن معلوم ہو جائے تو اچھی بات ہے۔ غور کرنے کے بعد میرے دل میں یہ بات آئی کہ اگر اس وقت میری posting (تقرری) ہو جاتی تو میرا عقیدہ نمبروں پہ مضبوط ہو جاتا کہ میرا کام نمبروں کی وجہ سے ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ مجھے اس سے نکالنا چاہتے تھے۔ نمبر دے دئیے تھے لیکن اس یقین سے نکالنا چاہتے تھے کہ نمبروں کی وجہ سے ہوتا ہے، اس لئے اس کے ذریعہ سے کروا دیا جو بے روز گار تھا۔ اس سے پتا چل گیا کہ نمبروں وغیرہ کی وجہ سے نہیں ہوتا، سب کام اللہ کی قدرت اور اس کے فضل سے ہوتے ہیں۔ اور یہ بڑی قیمتی چیز ہے کہ نظر خدا پر ہو، کسی اور چیز پر نہ ہو۔ آپ اسباب کو یقیناً استعمال کریں لیکن اسباب پر یقین نہ ہو، یقین مسبب الاسباب پر ہونا چاہئے۔ میں نے اللہ کا شکر ادا کیا کہ ساڑھے آٹھ مہینے بھی اللہ نے گزروا دئیے، لیکن اس سے جو نتیجہ نکلا وہ بہت قیمتی ہے۔ الحمد للہ۔


اپنے پیر کی زندگی میں دوسرے پیر سے بیعت ہونا:

متن:

بعض حالات میں کسی سالک کو اپنے پیر کی زندگی میں ہی دوسرے پیر سے بیعت کرنا پڑ جاتا ہے اس کے بارے میں دفتر کے مکتوب نمبر 63 میں حضرت رحمة اللہ علیه اپنی رائے یوں ارشاد فرماتے ہیں۔

تشریح:

اس بارے میں مجھ سے بہت سے لوگ پوچھتے ہیں۔ بعض دفعہ لوگوں کے مسائل اس طرح کے ہوتے ہیں۔ تو میں نے جو حضرت تھانوی رحمة الله عليه کی کتابوں میں پڑھا ہے اسی سے کچھ سمجھا دیتا ہوں۔

متن:

جو گرامی نامہ آپ نے ارسال کیا تھا موصول ہوا، آپ نے دریافت کیا تھا کہ اپنے پیر کی زندگی ہی میں اگر کوئی طالب کسی دوسرے شیخ کے پاس چلا جائے اور اس سے حق جل و علا کی طلب کرے تو یہ جائز ہے یا نہیں؟

جاننا چاہئے کہ (اصل) مقصود حق سبحانہ ہے اور پیر حق تعالیٰ کی جناب قدس تک پہنچنے کا وسیلہ ہے، اگر طالب اپنی ہدایت کسی دوسرے شیخ کے پاس دیکھے اور اپنے دل کو اس کی صحبت میں حق سبحانہ و تعالیٰ کے ساتھ خاطر جمع پائے تو جائز ہے کہ طالب پیر کی زندگی ہی میں پیر کی اجازت کے بغیر اس شخص کے پاس جائے

تشریح:

یہ بہت بڑی بات ہے۔

متن:

اور اس سے رشد و ہدایت طلب کرے، لیکن چاہئے کہ پیر اول کا بھی انکار نہ کرے اور اس کو نیکی کے ساتھ یاد رکھے، اِس زمانے میں خصوصاً پیری و مریدی محض رسم و عادت کے طور پر رہ گئی ہے، جبکہ اس وقت اکثر پیروں کو اپنی ہی خبر نہیں ہے اور ایمان و کفر میں امتیاز تک نہیں کرسکتے تو پھر وہ خدائے جل شانہ سے متعلق کیا خبر دیں گے اور مرید کو کونسا راستہ دکھائیں گے۔


آگہ از خویشتن چو نیست جنین

کے خبردار از چنان و چنیں

جب وہ خود ہی خبر نہیں رکھتے، دوسروں کو وہ کیا بتائیں گے۔

ایسے مرید پر افسوس ہے کہ اس طرح کے (ناقص) پیر پر اعتقاد کر کے بیٹھ جائے اور کسی دوسرے پیر کی طرف رجوع نہ کرے اور خداوند جل شانہ کا راستہ معلوم نہ کرے، یہ شیطانی خطرات ہیں جو ناقص پیر کی زندگی کی راہ سے آکر طالب کو حق سبحانہ سے ہٹائے رکھتے ہیں، جس جگہ بھی ہدایت اور دل جمعی پائے بلا توقف ادھر رجوع کرنا چاہئے اور شیطانی وسوسوں سے پناہ مانگنی چاہئے۔

تشریح:

یہ تشریح طلب بات ہے، غور سے سمجھیں۔ ایسا نہ ہو کہ اپنی طرف سے درمیان میں کوئی باتیں شامل کر لیں۔

کوئی آدمی پہلے پیر کو چھوڑ کر دوسرے پیر کے پاس جا رہا ہے۔ اس صورت میں پہلے یہ دیکھنا ہے کہ کیوں جا رہا ہے؟ وجہ کیا ہے؟ تین وجہیں ہو سکتی ہیں: (1) کیا اس کا اپنا قصور ہے؟ (2) پیر کے ساتھ مناسبت نہیں ہے۔ (3) پیر ناقص ہے۔

اگر اس کا اپنا قصور ہے، مثلاً بات ہی نہیں مان رہا۔ پیر ہدایات دے رہا ہے، سمجھا رہا ہے۔ پیر حق ہے، سب کچھ کر رہا ہے، لیکن یہ مان ہی نہیں رہا تو یہ اس کا اپنا قصور ہے۔ دوسرے کے پاس جائے گا تو بھی یہی معاملہ ہو گا، کیونکہ اپنی طبیعت کو اپنے ساتھ ہی لے جائے گا، لہذا وہاں بھی ایسے ہی ہو گا۔ اس صورت میں اگر پیر حق ہے تو بالکل دوسرے پیر کے پاس نہیں جانا چاہئے، اپنے اوپر جبر کر کے اسی کے ساتھ اپنے آپ کو باندھے اور وہیں رہے۔ پیر کے حق ہونے سے مراد یہ ہے کہ اس میں شیخ کامل کے لحاظ سے کوئی عیب نہ ہو۔

اور اگر دوسری صورت ہے کہ پیر کے ساتھ مناسبت نہیں، کیونکہ بعض دفعہ ایسی بات ہوتی ہے کہ کسی کے ساتھ مناسبت زیادہ ہوتی ہے۔ مناسبت ایک ایسی چیز ہے، جس سے انسان کو تیزی سے فائدہ ہونے لگتا ہے۔ جس شیخ کے ساتھ مناسبت ہوتی ہے، مرید اس کی ہدایات و تربیت کو بآسانی اپنانا شروع کر لیتے ہیں، اس میں رکاوٹ نہیں ہوتی۔ اس کا مطلب یہ قطعاً نہیں کہ پہلا پیر غلط ہے دوسرا حق ہے۔ بلکہ پہلا بھی حق ہے، دوسرا بھی حق ہے۔ بس یہ فرق ہے کہ دوسرے کے ساتھ مناسبت زیادہ ہے۔

حضرت مجدد صاحب (رحمۃ اللّٰہ علیہ) نے یہ بات فرمائی ہے کہ مناسبت نہ ہونے کی صورت میں دوسرے پیر کے پاس جا سکتا ہے۔ جانا ضروری نہیں ہے، لیکن جا سکتا ہے۔ کیونکہ نہ شرعاً کوئی رکاوٹ ہے، نہ طریقت میں ایسی کوئی ممانعت ہے۔ اس کی وجہ بس یہ ہے کہ اس کی مناسبت دوسرے کے ساتھ زیادہ پائی گئی، جس کی وجہ سے اس کو وہاں فائدہ زیادہ ہو رہا ہے، لہٰذا جا سکتا ہے، اس میں کوئی حرج نہیں ہے، لیکن جانا لازم نہیں۔

جب کہ پہلی صورت، جس میں مرید کا اپنا قصور ہو، اس صورت میں دوسرے کے پاس نہ جانا اور پہلے پیر کے ساتھ رہنا لازم ہے، پہلی صورت میں جب پیر حق پر ہے اور وجہ مرید کی اپنی کمزوری ہے، تب نہ جانا لازم ہے، دوسری صورت میں جانا جائز ہے البتہ لازم نہیں ہے۔

تیسری صورت یہ ہے کہ پیر ناقص ہو۔ ناقص سے مراد یہ ہے کہ یا تو اس کی پوری تکمیل ہی نہیں ہوئی۔ مثلاً کوئی سجادہ نشین ہو جو صرف کسی شیخ کامل کا بیٹا ہونے کی بنا پر پیر بن گیا ہو۔ سجادہ نشینوں میں اکثر یہ ہوتا ہے کہ ان کی تربیت نہیں ہوئی ہوتی، صرف اپنے والد کی گدی پہ بیٹھنے کی وجہ سے پیر بن جاتے ہیں۔ جیسے ڈاکٹر کا بیٹا، ضروری نہیں ہے کہ بغیر تعلیم کے ڈاکٹر بن جائے۔ اسی طریقے سے بغیر تربیت کے پیر کا بیٹا پیر بھی نہیں بن سکتا۔ سجادہ نشینوں کے ساتھ اکثر یہ مسئلہ ہوتا ہے۔ لہٰذا اگر کوئی آدمی کسی ناقص سجادہ نشین سے بیعت ہوا، بعد میں اس کو کوئی اور شیخ کامل مل گیا تو جانا ضروری ہے اور لازم ہے، کیونکہ وہ پھنسا ہوا ہے، اِدھر اس کا کام خراب ہو رہا ہے۔ اس لئے اس کو چھوڑنا ضروری ہے۔

حضرت مجدد صاحب (رحمۃ اللّٰہ علیہ) نے پیر ناقص کی ایک تعریف مکتوب نمبر 287 میں کی ہے جس پہ ہم نے کتاب ”حقیقتِ جذب و سلوک“ لکھی ہے۔ اس میں حضرت نے ایک بڑی عظیم مثال دی ہے کہ اگر کوئی شخص خانہ کعبہ کی زیارت کو جانا چاہتا ہے، اور اس کو خانہ کعبہ کا پتا نہیں ہے کہ خانہ کعبہ کیسا ہوتا ہے، وہ راستے میں خانہ کعبہ سے ملتی جلتی کسی عمارت کو دیکھ لیتا ہے کہ لوگ ادھر جمع ہیں، اور سمجھ لیتا ہے کہ شاید یہ خانہ کعبہ ہے، اور وہ وہیں پر ہی ٹھہر جائے تو یہ شخص عملاً بھی محروم ہے علماً بھی محروم ہے، اس کو علم بھی نہیں ہے اور اس کا عمل بھی صحیح نہیں ہوا۔ دوسرا شخص وہ ہے جو اپنی جگہ سے ہلا بھی نہیں لیکن اس کو پتا ہے کہ خانہ کعبہ کیا ہے، اگر جاتا تو اس کو پتا چل جاتا، یہ شخص علماً محروم نہیں، عملاً محروم ہے۔ تیسرا شخص وہ ہے جو روانہ ہو گیا اور جانتا ہے کہ خانہ کعبہ کون سا ہے لیکن ابھی پہنچا نہیں، یہ علماً محروم نہیں ہے، عملاً محروم ہے لیکن پہنچ جائے گا، کیونکہ جا تو رہا ہے۔ اور چوتھا آدمی وہ ہے جس کو معلوم بھی ہے اور وہ پہنچ بھی چکا ہے، واصل یہی ہے۔ جو خود واصل ہے وہ دوسروں کو بھی واصل کرا سکتا ہے۔

اسی طرح جذب، سلوک پہ آنے کے لئے ایک ذریعہ ہے، لیکن جذب کے اندر جو احوال تبدیل ہوتے ہیں، ان کی وجہ سے بعض لوگ نادانی کے ساتھ سمجھ لیتے ہیں کہ شاید ہمارا سلوک بھی طے ہو گیا، اس پر اطمینان کر کے اپنے آپ کو کامل سمجھ لیتے ہیں اور کبھی کبھار شیخ بھی بن جاتے ہیں۔ یہ شیخ خود بھی نہیں پہنچا دوسروں کو بھی نہیں پہنچا سکتا، ایسے شیخ کو چھوڑنا لازم ہے کیونکہ یہ ناقص ہے۔

لہٰذا پہلا، جو سجادہ نشین ہے اس کے ساتھ بھی ایسی بات ہے، لیکن وہ اس وجہ سے ہے کہ اس کا باپ پیر تھا لہٰذا یہ بھی پیر بن گیا۔ دوسرا شخص راستہ پہ تو آ گیا تھا، لیکن اپنی غلطی کی وجہ سے راستہ میں ہی ٹھہر گیا اور صحیح جگہ نہیں پہنچا، یہ دوسرے کو کیسے سمجھا سکتا ہے۔ ان کے بارے میں حضرت نے فرمایا کہ راستے کے ڈاکو نہ بنیں، ہاں اگر سمجھانا چاہے تو منتہی مرجوع کا پتا دے سکتے ہیں کہ فلاں کے پاس جاؤ۔ ان (مجذوب متمکن) میں مسائل یہ ہوتے ہیں کہ ایسے لوگوں کی توجہ کی قوت زیادہ ہوتی ہے، ان کی طرف لوگ زیادہ راغب ہوتے ہیں۔

حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمة الله عليه نے فرمایا: متوسطین، لوگوں کے لئے زیادہ جاذب نظر ہوتے ہیں، مبتدی اور منتہی جاذب نظر نہیں ہوتے، ان کی طرف رجوع نہیں ہوتا، رجوع متوسط کی طرف ہوتا ہے، کیونکہ متوسط پہ جذب کی حالت طاری ہوتی ہے، چونکہ جذب میں کشش ہوتی ہے، اس لئے وہ لوگوں کو بھی کھینچتے ہیں، لوگ سمجھتے ہیں کہ شاید یہ کوئی بہت پہنچے ہوئے ہیں۔ مثال کے طور پر ایک شخص کا بیٹا فوت ہو گیا اس کو اطلاع ہو گئی کہ آپ کا بیٹا فوت ہو گیا ہے، اس پر وہ کہے الحمد للہ۔ اور دوسرے کسی آدمی کو اطلاع ہو گئی کہ تمہارا بیٹا فوت ہو گیا، تو اس کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو بہنا شروع ہو گئے۔ لوگ کس کو بڑا بزرگ سمجھیں گے؟ ظاہر ہے پہلے کو سمجھیں گے۔ حالانکہ وہ متوسط ہے، یہ دوسرا کامل ہے۔

یہ تمیز ہر ایک نہیں کر سکتا۔ لہٰذا لوگ ایسے لوگوں کی طرف بہت زیادہ آتے ہیں جو اس قسم کی باتیں کرتے ہیں۔ ان کے بیانات میں بھی یہ چیز زیادہ ہوتی ہے۔ بیان میں یوں کہتے ہیں کہ جس کی نظر اپنی جیب پر ہو، اللہ پر نہ ہو، اس کا کلمہ صحیح نہیں ہے، مثلاً وہ کسی جگہ جا رہا ہے، اگر اس کی نظر اپنی جیب پر ہو گی کہ میرے پاس پیسے ہیں یا نہیں ہیں، تو اس کا کلمہ کامل نہیں ہے۔

ایسی باتیں کرنے والے سے لوگ اس سے زیادہ متاثر ہوں گے، حالانکہ یہ مجذوبیت ہے کمال نہیں ہے۔

مجذوبیت سے نکل کے عبدیت پہ آنا کمال ہوتا ہے۔ عبدیت میں عاجزی پائی جاتی ہے، اپنی کمی اور نقص کا ادراک پایا جاتا ہے، اپنے آپ کا کچھ نہ ہونا پایا جاتا ہے کہ میں کچھ بھی نہیں ہوں اور حکم پر عمل کرنا پایا جاتا ہے، جیسے حکم ہو، ’’سرِ تسلیمِ خم ہے جو مزاج یار میں آئے۔‘‘ اگر اللہ تعالیٰ مجھ سے اس پر خوش ہے کہ میں بچے کی وفات ہونے پہ روؤں تو میں روؤں گا، اگر اس پر خوش ہے کہ میں ہنسوں تو میں ہنسوں گا، میری اپنی کوئی رائے نہیں۔ یہ عبدیت ہے۔

اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی طرف فرشتوں کو بطور پیغمبر نہیں بھیجا، انسانوں کو بھیجا، کیونکہ انسانوں کو انسانوں کے ساتھ اُنس ہے۔ فرشتوں کے ساتھ انس نہیں ہو سکتا، فرشتوں کے ساتھ تو نفس ہے ہی نہیں۔ اگر وہ کسی کی طرف نظر نہیں کرتے تو یہ ان کا کمال نہیں ہے۔ کمال یہ ہے کہ نفس ہو لیکن خدا کے ڈر کی وجہ سے نفس کے تقاضوں پر عمل نہ کیا جائے۔

ایسی عبدیت کاملین میں ہوتی ہے مجذوبوں میں اونچی اونچی باتیں ہوتی ہیں، جذب کا اظہار ہوتا ہے، وہ اپنی طرح سب لوگوں کو مجذوب بنانا چاہتے ہیں، حالانکہ مقصد مجذوب بنانا نہیں ہے، بلکہ مجذوب بننے سے بچانا ہے۔

مجھے اپنے شیخ (رحمۃ اللّٰہ علیہ) کا طریقہ یاد ہے کہ حضرت مجھے ذکر نہیں دیتے تھے۔ بہت تھوڑا سا ذکر دیا تھا، بڑھایا نہیں، میں نے ذکر بڑھانے کا کہا تو فرمایا: تمہارے پاس وقت ہے؟ میں چپ ہو گیا، بعد میں پتا چلا کہ حضرت کو پہلے ہی میرے احوال سے اندازہ ہو گیا تھا کہ اگر اس کو زیادہ ذکر دیا جائے گا تو یہ مجذوب ہو جائے گا، اس لئے مجھے دور دور رکھا، اور جو ان کے نزدیک مناسب طریقہ تھا وہ اختیار کیا، یہی کمال ہے۔

الغرض مجذوبیت کمال نہیں، وہ سلوک کے لئے ایک ذریعہ ہے، اصل چیز سلوک طے کرانا ہوتا ہے، اگر سلوک طے کرانے کے لئے جذب حاصل کیا جائے تو ٹھیک ہے، مثال کے طور پر کوئی لوہے کو صرف گرم کرنے کے لئے ہی گرم کرے، تو کوئی فائدہ نہیں، لوہا گرم کرنا تو کمال نہیں ہے، گرم کر کے اس کو کوئی شکل دینی ہوتی ہے، جو اس کو شکل دیے بغیر اس کو چھوڑ دے تو اس نے صرف وقت ہی ضائع کیا اور لوہے کی طاقت بھی بلا وجہ ضائع کر دی، ایسے لوگوں کے پاس نہیں جانا چاہئے۔

دفتر دوم کے مکتوب نمبر 57 میں ارشاد فرماتے ہیں کہ:

متن:

ذکرِ مقبول اور شیخ مقتدا سے حاصل کیا ہوا ذکر صلوۃ وسلام بھیجنے سے افضل ہے

اور اس میں کچھ شک نہیں کہ ذکر سے اصلی مقصود حق سبحانہ و تعالیٰ کی یاد ہے اور اجر کی طلب طفیلی اور تابع ہے اور درود میں اصلی مقصود طلب حاجت ہے، ان دونوں میں بہت فرق ہے، پس وہ فیوض جو ذکر کی راہ سے پیغمبر علیہ الصلوٰۃ والسلام کو پہنچتے ہیں ان برکات سے کئی گنا زیادہ ہوتے ہیں جو درود کی راہ سے پیغمبر علیہ الصلوۃ والسلام کو پہنچتے ہیں، جاننا چاہئے کہ ہر ذکر یہ مرتبہ نہیں رکھتا اور جو ذکر قبولیت کے لائق ہے وہی اس فضیلت کے ساتھ مخصوص ہے اور جو ذکر ایسا نہیں اس پر درود شریف کو فضیلت ہے اور درود شریف ہی سے برکات حاصل ہونے کی زیادہ امید ہے، لیکن جو ذکر طالب کسی کامل شیخ سے اخذ کرے اور طریقے کے شرائط و آداب کو مدنظر رکھ کر اس پر مداومت کرے وہ (ذکر) درود شریف پڑھنے سے افضل ہے کیونکہ یہ ذکر اس ذکر کا وسیلہ ہے جب تک یہ ذکر (یعنی قبولی ذکر) نہیں کرے گا

کیونکہ یہ ذکر اس ذکر کا وسیلہ ہے جب تک یہ ذکر نہیں کرے گا اس ذکر تک نہیں پہنچ سکے گا۔

تشریح:

اس چیز کو سمجھانے کی بڑی ضرورت ہے۔ یہاں پر ایک بہت ہی باریک نکتہ ہے۔ مثلاً میں ذکر کرتا ہوں اور ذکر کی وجہ سے اپنے آپ کو بزرگ سمجھنے لگا ہوں تو یہ ذکر مقبول نہیں ہے۔

اگر میں نماز پڑھوں تو یہ اللہ کا حکم ہے، فرض ہے، پورا کرنا پڑے گا چاہے جیسے بھی ہو، لیکن قبولیت تب ہو گی جب انسان اس کو صحیح شرائط کے ساتھ پڑھے گا، صرف اللہ کے لئے پڑھے گا، اس میں کوئی اور نیت شامل نہیں ہو گی، ریا یا کوئی اور چیز شامل نہیں ہو گی، قبولیت تب ہو گی، اسی طرح ذکر مستحب ہے لیکن کیا اس کی قبولیت کے لئے ریا سے خالی ہونا ضروری نہیں ہوں گا؟ جب فرض کی قبولیت کے لئے ان سب لوازمات (ریا وغیرہ سے خالی ہونا) کا ہونا ضروری ہے تو مستحب کی قبولیت کے لئے تو بدرجہ اولیٰ ان لوازمات کا ہونا ضروری ہو گا۔

اب اگر ذکر اس طرح کیا جائے کہ وہ مقبول ذکر بن جائے تو اس ذکر کی قیمت بہت زیادہ ہو گی۔ ذکر مقبول تب بنتا ہے جب انسان کی نظر اپنے سے ہٹ کر اللہ تعالیٰ پہ آ جائے۔ اور ایسا علاجی ذکر سے ہوتا ہے، جب کہتے ہیں ’’لَآ اِلٰهَ اِلَّا اللہُ۔ لَآ اِلٰهَ اِلَّا اللہُ‘‘۔ لَآ اِلٰهَ میں اپنی نفی ہے اور اِلَّا اللہُ میں اللہ پاک کا اثبات ہے، جب ہم اپنی نفی کرتے کرتے واقعی اپنے آپ کو منفی کر دیں کہ ہم تو کچھ بھی نہیں ہیں، تب یہ ذکر مقبول بن جائے گا، اس سے نماز حقیقی نماز بن جائے گی، روزہ اصل روزہ بن جائے گا، حج مقبول حج بن جائے گا۔ اس سے ہمارا مستحب ذکر بھی مقبول ذکر بن جائے گا، قرآن پاک کی تلاوت بھی ماجور تلاوت بن جائے گی۔ الغرض ہماری ہر چیز اللہ کے لئے ہو جائے گی۔ اب بتاؤ یہ ذکر کتنا قیمتی ہو گا جو سب چیزوں کو ایسا قیمتی اور مقبول بنا دے۔

یہی حضرت نے فرمایا ہے کہ ذکرِ مقبول کو حاصل کرنے کے لئے جو ذکر وسیلہ ہے وہ درود شریف سے بھی افضل ہے، کیونکہ درود شریف بھی اسی کے ذریعے قیمتی بنے گا۔

متن:

کیونکہ یہ ذکر اس ذکر کا وسیلہ ہے جب تک یہ ذکر نہیں کرے گا اس ذکر تک نہیں پہنچ سکے گا یہی وجہ ہے کہ مشائخ طریقت قدَّسَ اللہُ تعالیٰ اسرارَہُم نے مبتدی کے لئے ذکر کرنے کے علاوہ اور کچھ تجویز نہیں کیا ہے اور اس کے حق میں صرف فرائض و سنن کو کافی سمجھا ہے اور نفلی امور سے منع کیا ہے۔

تشریح:

سبحان اللہ! یہ بہت عجیب بات ہے۔ یہ صرف مجدد صاحب رحمة اللہ علیه کہہ سکتے ہیں ہم لوگ نہیں کہہ سکتے ہیں۔ ہم لوگ کہیں گے تو لوگ ہمیں جوتے ماریں گے۔ کیونکہ حضرت کا مقام اتنا اونچا ہے کہ وہ یہ بات کر سکتے ہیں کہ بھئی تو نے نفل نہیں پڑھنیں، ہم کہیں گے تو لوگ کہیں گے یہ کون سا بزرگ آ گیا ہے؟ یہ تو نوافل سے روک رہا ہے؟ کیوں روک رہا ہے۔

حضرت شیخ الحدیث (رحمۃ اللّٰہ علیہ) نے فضائل ذکر میں ایک واقعہ لکھا ہے۔ ایک بہت بڑے عالم کسی بزرگ سے بیعت ہوئے، انہوں نے ان کو ذکر سکھایا ’’لَآ اِلٰهَ اِلَّا اللہُ۔ اور فرمایا فرائض و اجبات کے علاوہ باقی سارے کام چھوڑ دو، صرف یہ ذکر کرو۔ کچھ دنوں کے بعد حضرت کو اطلاع ہوئی کہ وہ عالم صاحب قرآن پاک کا درس دیتے ہیں۔ حضرت نے پیغام بھیجا کہ یہ قرآن کا درس بھی فی الحال موقوف کر دو، لوگوں میں چہ میگوئیاں تو پہلے سے ہی شروع تھیں کہ یہ کیسے پیر ہیں جنہوں سارے نیک کام بند کرا دئیے ہیں، لیکن جب یہ بات ہوئی پھر تو یقین ہو گیا کہ یہ تو کوئی زندیق آدمی ہے۔ اتنا بڑا عالم قرآن کا درس دے رہا تھا اور انہوں نے چھڑوا دیا، یہ تو بڑا زندیق ہے۔ لوگوں نے کہا یہ پیر بھی زندیق ہے اور مرید بھی زندیق ہے۔ لیکن پیر بھی مخلص تھا مرید بھی مخلص تھا۔ انہوں نے لوگوں کی پروا نہیں کی وہ اپنا کام کرتے گئے حتی کہ ایک وقت آ گیا کہ اس ذکر نے اپنا اثر دکھایا۔ جب اثر دکھایا تو حضرت نے فرمایا: اب قرآن پاک کا درس دو۔ وہ عالم خود فرماتے ہیں کہ پہلے جب میں قرآن پاک کا درس دیتا تھا تو جو قرآن کے معانی اور تفسیریں کتابوں میں پڑھی تھیں یا استاذوں سے سنیں تھیں اور سیکھی تھیں، وہی بیان کرتا تھا، لیکن اب جب میں نے قرآن کھولا تو ایک ایک لفظ کے اندر علوم و معارف کے سمندر نظر آ رہے تھے۔ باطنی آنکھ کھل گئی تھی۔

لہٰذا اگر وقتی طور پر دوسرے معمولات کو بند کر دیا جاتا ہے تو اس لئے نہیں کہ ان کو بند کرنا مقصود ہوتا ہے، بلکہ اس لئے کہ اصل چیز کھولنا مقصود ہوتا ہے۔ یہ ضروری ہوتا ہے۔ یہاں پر بھی اس قسم کی بات ہے کہ بعض دفعہ مشائخ نوافل و مستحبات اور سنن زوائد وغیرہ وقتی طور پر موقوف کروا دیتے ہیں، تاکہ ان کو وہ چیزیں حاصل ہو جائیں، جس کے ذریعہ سے ان کی ساری چیزیں قیمتی بن جائیں۔

اہل ذکر کو کیا حاصل ہوتا ہے؟ اس کا پتا اہل ذکر کو دیکھ کر یا ان کی مجلس میں بیٹھ کر چلتا ہے، دفتر اول کے مکتوب نمبر 92 میں ذکر کی ترغیب یوں دیتے ہیں۔

متن:

"اَلَا بِذِکْرِ اللّٰہِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْبُ" (الرعد: 13 آیت: 28) (خبردار! اللہ تعالیٰ کے ذکر ہی سے دلوں کو اطمینان حاصل ہوتا ہے) اطمینان قلب حاصل ہونے کا ذریعہ صرف اللہ تعالیٰ کا ذکر ہے نہ کہ نظر و استدلال (قرائن و دلائل) بیت

پائے استدلالیاں چوبیں بود

پائے چونیں سخت بے تمکیں بود

(بحث بے جا ہے فقط کٹھ حجتی کاٹھ کے پاؤں میں دم خم کچھ نہیں)

چونکہ ذکر اللہ کے ذریعے حق تعالیٰ کی پاک بارگاہ کے ساتھ ایک قسم کی مناسبت حاصل ہو جاتی ہے اگرچہ (ذکر کو) اس پاک ذات کے ساتھ کچھ مناسبت نہیں ہے۔ مَا لِلتُّرَابِ وَ رَبِّ الْاَرْبَابِ (خاک کو پروردگار عالم کے ساتھ کیا نسبت ہے) لیکن ذاکر (ذکر کرنے والا) اور مذکور (جس کا ذکر کیا جائے) کے درمیان ایک قسم کا تعلق پیدا ہو جاتا ہے جو محبت کا سبب بنتا ہے اور جب محبت غالب ہوگئی تو پھر اطمینان کے سوا کچھ نہیں ہے اور جب معاملہ دل کے اطمینان کے حصول تک پہنچ گیا تو اس کو ہمیشہ کی دولت حاصل ہوگئی۔

ذکر گو ذکر تا ترا جان ست

پاکئ دل ز ذکر رحمٰن است

(جان جب تک ہے ذکر کرتا رہ دل کی پاک خدا کے ذکر سے ہے)۔

وَالسَّلَامُ اَوَّلًا وَ آخِرًا۔

تشریح:

مطلب یہ ہے کہ ذکر انسان کو اللہ کے ساتھ ملا دیتا ہے۔

ہمارے شیخ مولانا اشرف صاحب رحمة اللہ علیه نے ہمارے ایک ساتھی کو باتوں باتوں میں فرمایا: ”ذکر کرتا رہ، ذکر سے سب کچھ ہوتا ہے۔“ یہ بات ہم نے سن لی اور تقلیدی طور پہ مان لی، تحقیقی طور پر نہیں. ایک خواہش موجود تھی کہ اس کو تحقیقی طور پر بھی پا لیں، معلوم کر لیں کہ وہ کیا ہے، یہ سب کچھ کیسے ہوتا ہے؟ حضرت ابراہیم علیه السلام نے بھی فرمایا تھا کہ: ﴿لِیَطْمَئِنَّ قَلْبِیْ

ایک دن ایسا ہوا کہ میں قرآن پاک پڑھ رہا تھا کہ یہ آیت سامنے آئی: ﴿فَاذْکُرُوْنِیْ اَذْکُرْکُمْ (البقرہ: 152)

ترجمہ: ’’لہٰذا مجھے یاد کرو، میں تمہیں یاد رکھوں گا۔‘‘

بس میں سمجھ گیا کہ کیا بات ہے۔ جب دونوں نے ایک دوسرے کو یاد کیا تو جانبین سے جانبین کا تعلق ہو گیا، ذاکر ذکر کر رہا ہے، جس کے جواب میں مذکور اس کو یاد کر رہا ہے، یہی تعلق ہے جس کے بارے میں حضرت نے فرمایا کہ ایک قسم کا تعلق پیدا ہو جائے۔

حتیٰ کہ حدیث شریف میں باقاعدہ وضاحت کے ساتھ یہ آیا ہے کہ جو کوئی اللہ تعالیٰ کا ذکر کسی مجمع میں کرتا ہے، اللہ بھی ان سے بہتر مجمع فرشتوں کی مجلس میں اس کو یاد فرماتا ہے کہ یہ میرا بندہ ہے ذکر کر رہا ہے، اور اگر وہ تنہائی میں اللہ کو یاد کرتا ہے تو اللہ بھی اس کو اپنے پاس یاد کرتا ہے۔

کچھ احادیث شریفہ بہت ساری احادیث شریفہ کی تشریح کرتی ہیں، اگر ایسی حدیثیں یاد ہوں تو بہت ساری باتیں سمجھ میں آ جائیں۔ ان میں سے ایک یہ حدیث قدسی بھی ہے کہ الله جل شانهٗ فرماتے ہیں: جو میری طرف ایک بالشت برابر چلتا ہے، میری رحمت اس کی طرف دو بالشت برابر چلتی ہے، جو میری طرف ایک ہاتھ آتا ہے، میری رحمت اس کی طرف دو ہاتھ جاتی ہے، جو میری طرف چل کے آتا ہے، میری رحمت اس کی طرف دوڑ کے جاتی ہے۔

اب اگر آپ اللہ کو یاد کر رہے ہیں، تو اس کے جواب میں اللہ پاک بھی آپ کو یاد کریں گے، لیکن وہ یاد کرنا آپ کے یاد کرنے سے بہت بہت بہتر ہو گا، اس سے تمہارے دنیا اور آخرت کے مسائل حل ہو رہے ہوں گے، وہ ذات یاد کرنے کے لائق ہے، تُو نہ بھی یاد کرتا وہ پھر بھی یاد کرنے کے لائق تھا، تیرے یاد کرنے سے وہ یاد کرنے کے لائق نہیں ہوا، تو کچھ بھی نہیں ہے، لیکن جب اللہ تجھے یاد کرتا ہے تو تُو بہت کچھ بن جاتا ہے۔ یہ اصل بات ہے اور بہت بڑی بات ہے۔ اگر ہم لوگ اس بات کو یاد رکھیں، میرے خیال میں آدمی سرشار ہو جائے کہ اللہ مجھے یاد کرتا ہے، حضرت یہی بات سمجھانا چاہتے ہیں کہ اللہ پاک سے ایک تعلق قائم ہو جاتا ہے۔

دفتر اول مکتوب 93 میں مزید ارشاد فرماتے ہیں:

متن:

پانچوں وقت کی نماز جماعت کے ساتھ ادا کرنے اور سنن مؤکدہ بجا لانے کے بعد اپنے تمام اوقات کو اللہ تعالیٰ جل سلطانہ کے ذکر میں مصروف رکھنا چاہئے اور اس کے سوا کسی چیز میں مشغول نہیں ہونا چاہئے خواہ وہ کھانے اور سونے کے اوقات ہوں یا آنے جانے کے اوقات (پس کسی وقت میں بھی ذکر سے غافل نہ ہونا چاہئے)۔ ذکر کا طریقہ آپ کو سکھایا ہوا ہے اسی طریقے پر عمل کرتے رہیں اگر جمعیت اور ذکر میں خلل پائیں تو پہلے خلل کا سبب معلوم کرنا چاہئے پھر اس کے بعد کوتاہی کا تدارک کرنا چاہئے اور نہایت عاجزی و آہ و زاری سے حق سبحانہ و تعالیٰ کی بارگاہ کی طرف متوجہ ہو کر اس ظلمت کے دور ہونے کی دعا مانگنی چاہئے اور جس شیخ (پیر و مرشد) سے ذکر حاصل کیا ہے اس کو وسیلہ بنانا چاہئے۔ وَ اللّٰہُ سُبْحَانَہُ الْمُیِسِّرُ کُلَّ عَسِیْرٍ (حق سبحانہ و تعالیٰ ہر تنگی و مشکل کو آسان کرنے والا ہے)۔

تشریح:

کچھ باتیں ایسی ہیں جو ہمارے بڑے حضرات شیخ عبد القادر جیلانی (رحمۃ اللّٰہ علیہ)، حضرت مجدد الف ثانی (رحمۃ اللّٰہ علیہ) اور کاکا صاحب (رحمۃ اللّٰہ علیہ) اور ان کے علاوہ جو بڑے بڑے حضرات ہیں، انہوں نے برملا کی ہیں۔ ان کو وہ باتیں کرتے ہوئے ذرہ بھر بھی جھجک نہیں ہوئی۔ آج کل لوگ ان باتوں کے کرنے سے محتاط ہوتے ہیں، کیونکہ ان کا غلط استعمال بہت زیادہ عام ہو گیا ہے۔ اس وجہ سے حضرات برملا یہ باتیں نہیں کرتے، لیکن حق بات تو وہی ہے۔

جیسے حضرت نے فرمایا کہ جب کوئی مشکل ہو تو اپنے مرشد کے وسیلہ سے اللہ پاک سے دعا مانگے۔ کیا آج کل کوئی اس طرح کہہ سکتا ہے؟ کہے گا تو لوگ پتا نہیں کتنی باتیں بنا لیں گے۔ کیونکہ آج کل ہر چیز بگڑی ہوئی ہے، آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔ لوگ ایک طرف غلط مطلب نکال لیتے ہیں، دوسری طرف صحیح مطلب پر بھی غلط مطلب کا گمان کر لیتے ہیں۔ بات تو یہی ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ الله جل شانهٗ ہی دیتا ہے، لیکن دینے کے لئے اللہ پاک نے دروازے بنائے ہوئے ہیں، ان دروازوں کے ذریعہ سے دیتے ہیں، ان کھڑکیوں کے ذریعہ سے دیتے ہیں۔ اب اگر کوئی ہوشیار آدمی ہو تو کھڑکی کے سامنے کھڑا ہونے میں اس کو کوئی عار نہیں ہو گی، چونکہ اس کے پیچھے جو دینے والا ہے اصل میں تو وہی ہے۔

ابتدائی دور کی بات ہے، ایک خاتون مجھ سے بیعت ہوئی تھی۔ بعد میں کافی لوگ بیعت ہوئے۔ ایک دن اس کا ٹیلیفون آیا، کہنے لگی: شاہ صاحب اب تو آپ سے کافی لوگ بیعت ہو گئے ہیں، اب تو ہم بہت پیچھے چلے گئے ہوں گے۔ میں نے اس کو جواب دیا کہ آپ کی نظر اس پر کیوں گئی ہے؟ دیکھیں کسی کو پچاس افراد کے mess کا mess manager بنایا جائے تو اس کو پچاس پیکٹ ملتے ہیں، وہ پچاس پیکٹ تقسیم کرے گا۔ اگر اس پچاس والے mess manager کو ہزار ممبران کا mess manager بنایا جائے، تو اس کے پاس ہزار پیکٹ ہو جائیں گے۔ تو کیا خیال ہے کسی کو کم ملے گا؟ کہتی ہیں کہ میں بات سمجھ گئی ہوں۔

بھئی دینے والے کی بات ہے، وہ جو دے رہا ہے اصل میں تو وہی ہے، درمیان والا خود تو کچھ بھی نہیں دے سکتا، دیتا تو اللہ تعالیٰ ہی ہے، لیکن آپ نے کس سے لینا ہے، آپ نے mess manager سے لینا ہے، mess manager اصل دینے والے سے لے رہا ہے، distribution تو اسی کی ہے، جیسے آپ نے فرمایا: "اِنَّمَا اَنَا قَاسِمٌ وَاللہُ یُعْطِیْ" (بخاری شریف، حدیث نمبر: 71)

ترجمہ: ’’میں تو تقسیم کرنے والا ہوں، اور اللہ پاک عطا فرمانے والے ہیں۔‘‘

یہی چیز آگے چلتی ہے۔ آپ کی اتباع کے سلسلے میں وہ سلسلہ آگے بڑھتا ہے۔ اس طرح یہ تقسیم ہوتا ہے۔ جن کے ہاتھوں اللہ تقسیم کرواتا ہے وہ اس کے کچھ اصول و ضوابط وضع کر لیتے ہیں اور ان اصول و ضوابط کو ملحوظ رکھتے ہیں تو لوگ اس کو شرک سمجھ لیتے ہیں۔ حالانکہ شرک تو اسے کہتے ہیں کہ یہ سمجھا جائے کہ یہی دے رہا ہے۔ یہاں تو آپ کو یقین ہے کہ وہ نہیں دے رہا، وہ اس کے حکم سے لے کے آپ کو دے رہا ہے، اسے ذریعہ بنایا جا رہا ہے، اس میں کوئی شرک نہیں ہے۔ کیا ذریعہ بننا شرک ہے؟ ذریعہ بننا شرک نہیں ہے، البتہ اگر آپ اس کے ساتھ شریک بنا رہے ہیں اس طور پر کہ چاہے یہ دے دے چاہے وہ دے دے تو یہ درست نہیں۔ کوئی اور نہیں دے سکتا، لیکن اصل دینے والا وہ جس ذریعہ سے بھی دے دے یہ اس کی مرضی ہے، وہ مختارِ کُل ہے۔

میں آپ کو ایک بات بتاؤں۔ ذرا باریک بات ہے پتا نہیں میں سمجھا سکوں گا یا نہیں۔

مثلاً کوئی سیّد پیدا ہوا۔ اس میں اس کا کوئی کمال نہیں۔ اگر وہ سیّد سمجھے کہ میں بڑا باکمال ہوں تو یہ اس کی غلطی ہے۔ اللہ نے اس کو سید پیدا کر دیا تو بس شکر کرے۔ شکر کر سکتے ہو۔ اللہ تعالیٰ نے اگر ان کو بعض دوسرے لوگوں کے لئے ادب کی جگہ بنا دیا، تو یہ ان کو ان کے ذریعہ سے مل رہا ہے، اس پہ اس کو انکار بھی نہیں کرنا چاہئے اور خود اپنے آپ کو اس کا اہل بھی نہیں سمجھنا چاہئے۔

بعض لوگوں کو اس کے ساتھ حسد ہو جاتا ہے۔ حسد کی وجہ سے ان کے دماغ میں طرح طرح کی باتیں آتی ہیں۔ ان باتوں کا عنوان یہ ہوتا ہے کہ اللہ بہت بڑے ہیں۔ ایسے لوگ عنوان بہت اچھا بناتے ہیں، لیکن وجہ حسد ہوتی ہے۔ مثلاً وہ شخص خود سیّد ہوتا تو کیا یہ باتیں کرتا۔ پھر وہ یہ باتیں نہ کرتا۔ اب حسد کی وجہ سے کر رہا ہے۔ حسد کی وجہ سے جو بات ہو گی وہ کیسی ہو گی؟ حسد انتہائی درجہ کی ذلیل حرکت اس لئے ہے کہ اس میں اللہ تعالیٰ کے فیصلہ پہ اعتراض ہے، ایسے لوگ پھر کہاں جائیں گے۔

سید کی مثال کی ضرورت نہیں تھی لیکن یہ مثال اس لئے دی کیونکہ سید ہونے میں کسی کا اپنا کوئی کمال نہیں ہے۔ ورنہ اصل میں بات شیخ کی ہو رہی ہے۔ شیخ بننے میں تو محنت بھی ہے، انتخاب بھی ہے، اللہ کا فضل بھی ہے، سارا کچھ اس میں شامل ہے۔ یہی بات مشائخ کے ساتھ بھی ہو جاتی ہے، حسد ہو جاتا ہے، مشائخ کو اللہ پاک کسی خیر کے لئے ذریعہ بناتے ہیں تو کچھ لوگوں کو اس پہ تکلیف ہوتی ہے، اس تکلیف کا اظہار مختلف عنوانات سے ہوا کرتا ہے، لیکن چونکہ وہ حسد کی وجہ سے ہوتی ہے اس لئے غلط ہوتی ہے، اگر حسد کی وجہ سے نہ ہو تو پھر کوئی مسئلہ نہیں، لیکن حسد کی وجہ سے ہے تو حسد بذات خود بہت بری چیز ہے اس کی وجہ سے نقصان ہوتا ہے۔ اس پر میں نے غزل بھی کہی ہے۔ حج کے موقع پہ منیٰ کے مقام پر کوئی میرے پیر دبا رہا تھا، بعض لوگوں کو اس سے تکلیف ہو رہی تھی، اس پر میں نے اسی وقت غزل کہی، بعض لوگوں کو واقعی تکلیف ہوتی ہے، کوئی اپنے شیخ کی خدمت کرے تو کہتے ہیں یہ کیا ہے؟

یقین جانیے میرے ساتھیوں کو پتا ہے۔ ان سے پوچھ کے دیکھیں تو معلوم ہو گا کہ میں کسی کو اپنے پیروں کے قریب بھی نہیں آنے دیتا تھا۔ سوال ہی نہیں پیدا ہو سکتا تھا کہ کوئی میرے ہاتھ پاؤں کی چاپی کرے۔ بڑی سختی تھی۔ پھر اللہ پاک نے ایک بات کھولی کہ بعض لوگوں کو اس سے فائدہ ہوتا ہے۔ اب میں ان کو منع کر کے کیسے ان کے فائدہ کو روکوں؟ ظاہر ہے میں خود تو کچھ بھی نہیں ہوں لیکن اگر ان کو فائدہ ہو رہا ہے تو میں کیسے ان کو روکوں؟ پھر میں نے اعتراض کرنا چھوڑ دیا۔ لیکن (نَعْوْذُ بِاللہِ مِنْ ذٰلِكَ) یہ نہیں کہ میں ان کا محتاج ہوں، اللہ تعالیٰ کا شکر ہے، اللہ تعالیٰ بہت دینے والے ہیں، ساری چیزیں خود براہ راست دیتے ہیں۔ لیکن اللہ پاک نے نظام ایسا بنایا ہوا ہے کہ بعض لوگوں کو کسی طریقے سے دیتے ہیں، بعض لوگوں کو کسی اور طریقے سے دیتے ہیں۔ جس کو جس طریقے سے دیتے ہیں، کم از کم آپ رکاوٹ تو نہ بنیں۔

وہ غزل درج ذیل ہے:

کوئی پیروں کی کرے خدمت مرید

اس سے بعضوں کو ہو تکلیف شدید

کرتے خدمت ہیں وہ خدا کے لئے

ان کے واسطے ہو یہ اک ضربِ حدید

ایک بات ہے یہ، پیر واقعی ہو پیر

پھر نہ کر فکر اس میں کوئی مزید

نثار ہوتے صحابہ حضور پر

ہوتی اس کی ہے احادیث سے تائید

پیر اور عالِم رسول کے وارث

ہے محبت کا یہ ایک دورِ جدید

گر صحیح پیر سے تعلق نہ ہو تو

پھر تو شیطان کرے مٹی پلید

ہو اگر باعث اس کا حسد شبیر!

چھوڑ ان کو پھر یہ ہے قولِ سدید

یعنی پھر ان کی بات چھوڑو، جو جتنا بھی کہنا چاہے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ مسئلہ اس وقت ہے کہ کوئی صحیح بات ہو، جس میں پیر غلط ہو، یا اس سے خدمت غلط طریقہ سے ہو، خلافِ سنت طریقہ سے یا کسی ایسے طریقہ سے جس سے گناہ لازم ہوتا ہے، پھر ٹھیک نہیں ہے۔ کیونکہ گناہ کسی انسان کے لئے بھی رَوا نہیں۔ اللہ نے گناہ سے روکا ہوا ہے۔ لہٰذا ہم کسی انسان کے لئے گناہ تو نہیں کر سکتے، لہٰذا اگر اس میں گناہ نہ ہو، تو پھر کوئی مسئلہ نہیں ہے۔

و اٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ