مقاماتِ قطبیہ و مقالاتِ قدسیہ درس 21




اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

آج کل درس بھی بڑا عجیب ہے، یہ کتاب حضرت کے صاحبزادہ نے لکھی ہے، اس میں حضرت نے کافی چیزوں سے پردہ اٹھایا ہے۔

متن:

شیخ محمد حسین رحمۃ اللّٰہ علیہ فرماتے ہیں کہ مجھے پیر کے مشاہدات کی تجلیات سے ظاہر ہوا ہے، اگر ان میں سے کسی حرف کا اظہار کر دوں تو وہ تمام دینی علوم جو لوگ سیکھ چکے ہیں اور جو لوگوں کو پیش آ چکے ہیں اور جو کچھ رسومات وغیرہ سے سیکھ چکے ہیں، وہ سب کچھ باطل اور غلط سمجھیں گے اور اپنی ہستی کو نیستی اور پستی میں تصور کریں گے۔ اور مزید فرمایا کہ اس فقیر کو ہر وقت یہ الہام پہنچایا جاتا ہے اور مجھے کہا جاتا ہے، بیت:

؎ چو تو سرنائے منی بے دم من نالہ مکن

تا چوں چنگت نتوازم زنوا ہیچ مگوئی

پھر انہوں نے فرمایا اور میں نے اُس الہام کے جواب میں کہا کہ، بیت:

آتش زدی و گفتی که مرا هیچ مگوی

ہم چو گل خنده زد گفت در آتا بینی

ہمہ آتش سمن برگ کتان ہیچ مگو

دست خود را برگزیدم کہ فغان از غم تو

گفت من زان قوام اوست فغان هیچ مگو!

’’مجھ کو آگ لگا کے کہہ دیا کہ کچھ نہ کہوں۔ پھول کی طرح ہنس پڑا اور کہا، کہ آو دیکھ لو تم، آگ ہے اور برگ کتان (یعنی آگ اور روئی کا ملاپ ہے) تم بیچ میں کچھ نہ کہو۔ میں نے غم و غصے سے اپنا ہاتھ کاٹا، اس نے کہا کہ میں تجھ سے ہوں اور آہ و فغان کچھ نہ کرو‘‘

مطلب یہ کہ قرآن کے یہ کئی ہزار اسمائے مبارکہ جو ہیں، تم ظاہری کانوں اور سماعت سے نہیں سن سکتے۔ اگر سماعتِ باطنی رکھتے ہو یا اس کو فراہم کر سکتے ہو تو "حۤمۤ عۤسۤقۤ" کے عالَم میں کئی نام پوشیدہ ہیں تو تب ان اسمائے مبارکہ کو سُن سکو گے اور اس رمز کے بارے میں سرور عالمین ﷺ نے فرمایا ہے: "إِقْرَءِ الْقُرْاٰنَ وَتَفَتَّشْ غرَائِبَہٗ" (لم أجد ھذا الحدیث) ”قرآن مجید پڑھا کرو اور اُس کے غرائب کی تلاش کرو“ مگر قرآن کریم کے غرائب تلاش کرنا ہر کس و نا کس کا کام نہیں، یہاں تک کہ تو "أَوَّلُ مَا خَلَقَ اللّٰہُ نُوْرِيْ" (روح البیان، رقم الصفحۃ: 403/1 دار الفکر، بیروت) کے کتب خانے تک رسائی حاصل کرے گا اور اُس وقت استاد "أَرِنِيْ رَبِّيْ" کے مکتب خانے میں یعنی اچھی صورت میں تجھے ادب سکھائے گا اور قرآن کو بلا کسی واسطے کے تمہارے دل پر نقش کرے گا کہ ﴿وَرَبُّکَ الْأَکْرَمُ الَّذِيْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ عَلَّمَ الْإِنْسَانَ مَا لَمْ یَعْلَمْ﴾ (العلق: 3-5) تم اس کتب خانے میں یہ سیکھو گے کہ ﴿نٓ وَالْقَلَمْ﴾ (القلم: 1) کیا ہے؟ اور یہ سب کچھ تم پر جلوہ نما ہو کر تم سیکھ جاؤ گے۔

پس اے میرے محبوب! حروِف مقطعات اسی سبب سے گویا ہیں کہ وہ محبان الٰہی کے ساتھ راز و نیاز کی پوشیدہ باتیں کریں کہ اُن کے مطالب و معانی اور اسرار و رموز سے فرشتے اور عالمِ ملکوت سرگرداں و پریشان ہیں۔ اور نا محرم لوگ حروف کے لباس کے اندر اطلاع نہیں پاتے۔ اللّٰہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ "الٓمٓ الٓمٓر کھٰیٰعٓصٓ یٰسٓ صٓ نٓ حٰمٓ عسٓقٓ طٰہٰ الٓمٓصٓ" یہ سب احدیت کے نشان ہیں کہ کوئی بھی نا محرم اور اجنبئ ظاہر مبین اللّٰہ تعالیٰ کے اُن اسرار سے جو کہ محمد مختار ﷺ کے ساتھ ہیں، مطلع نہ ہو سکے۔ اگر کسی کو آگاہی حاصل ہو تو وہ صرف وہ لوگ ہوں کہ جو محمد رسول اللّٰہ ﷺ کے ساغر محبت کے جرعہ نوش ہوں۔ بیت:

گر سرو سہی در ہمہ قامت خوانم

در آہوئے افتاده به دامت خوانم

زیں ہر سه بگو تا به دامت خوانم

کز رشک نخواهم که می خوانم

اگر تجھ کو تیری قامت زیبا کی وجہ سے سر و سہی کہوں، یا تجھ کو آپ کے دام میں اسیر آہو کہوں اِن تینوں میں تم ہی کہو کہ میں تجھے کس نام سے پکاروں، کیونکہ میں رشک کی وجہ سے نہیں چاہتا کہ تجھے تیرے نام سے پکاروں۔

پس حروف مقطعات کو عالمِ سِر میں مجمل کہتے ہیں اور مفصل آیت: ﴿یُحِبُّھُمْ وَیُحِبّٗوْنَہ﴾ (المائدۃ: 54) میں آیا ہے۔ مجمل کے بارے میں کہا گیا ہے کہ ﴿وَلَقَدْ وَصَّلْنَا لَھُمُ الْقَوْل﴾ (القصص: 51) اور مفصل کے متعلق یہ بیان ہوا ہے کہ ﴿فَصَّلْنَا الْآیَاتِ﴾ (الانعام: 97) معانی کے حقائق کے ساتھ سہل و آسان کرے۔ ﴿وَلَقَدْ یَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذِّکْرِ فَھَلْ مِنْ مُّدَّکِرٍ(القمر: 17) بے چارے اہل ظواہر یعنی ظاہر بیں علماء قرآن کے پڑھنے اور قرآن کریم کی چند ظاہر چیزوں کو جاننے کے بعد اپنے آپ کو اہل اللّٰہ، خاصۃ العلماء اور ورثۃ الانبیاء سمجھنے لگے ہیں، اور اصل میں اہل اللّٰہ اور انبیاء کرام کے وارث وہ لوگ ہیں جو کہ کلام اللّٰہ کی حقیقت تک رسائی حاصل کر چکے ہوں کہ ﴿أَفَلَا یَتَدَبُّرُوْنَ الْقُرْآنَ﴾ (النساء: 82) اِن سے حاصل ہوتا ہے، اور قرآن کریم بھی اِن کو قبول کرتا ہے، کیونکہ یہ لوگ ان اوصاف کے حق دار اور اہل ہیں، اور وہ محبوب یقینی طور پر یہ بات جانتا ہے کہ جب تک تجھے قرآن کریم قبول نہیں، تو معانی کی یہ حقیقت کبھی بھی بیان نہیں کی جا سکتی کیونکہ دلہن کی ملاقات قبول کے بعد ہی ہوتی ہے۔ اسی طرح معانی قرآن کی عروس (دُلہن) جس نے اس محبوب کو قبول کیا ہے، تم اس کی جلوہ گری اُس طرح دیکھو گے جیسا کہ محمد حسین نے اس زیبائش اور حسن کی مشاط گری کی ہے۔ یاد رکھو! کہ قرآن کریم کسی نا محرم اور اجنبی کو شرفِ قبولیت عطا نہیں کرتا اور وہ کسی اجنبی کے ساتھ بات تک بھی نہیں کرتا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ قرآن کریم اپنے حسن و جمال کے جلوے اور حسین جلوے شراب محبت کے اُن مستانِ ازل کو دکھانے سے دریغ نہیں کرتا جو کہ اُن جلوہ ہائے حسین و ہوش ربا کے اہل ہوں۔ ﴿إِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَذِكْرٰى لِمَنْ كَانَ لَهٗ قَلْبٌ أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِیْدٌ﴾ (ق: 37) ”اس میں سوچنے کی جگہ ہے اُس کو جس کے اندر دِل ہے یا لگائے کان دِل لگا کر

اور شیخ محمد حسین نے فرمایا ہے کہ جب کوئی شخص حقائق قرآنی سے آگاہی حاصل کرے تو اس کا کم ترین مقام یہ ہوتا ہے کہ قرآن اس شخص کو جنت میں پہنچا کر دم لیتا ہے۔ پس ذرا غور کرو! کہ اس سے اعلیٰ مقام اور کیا ہو گا؟ لیکن یہ بات یاد رکھ! اس مقام کی ابتدا اس سے ہو گی کہ قرآن کریم تجھ سے کلام کرے اور اپنا حسن و جمال تجھ کو دکھائے۔ اس کے بعد جو کچھ تم سمجھ پاؤ گے وہ اتصالات ہونگے، یعنی وہ مضامین قرآن کے اندرونی فضائل و محاسن کے بارے میں ہوں گے، اور انفصالات تجھ سے رخصت ہو جائیں گے یعنی کوئی بات جو قرآن مجید کے مضامینِ حسن سے جدا اور علیحدہ ہو وہ تم سے کوسوں دور ہو جائے گی۔ اور اس ابتدا کی انتہا کوئی نہیں، اور ابد الآباد تک اس کی انتہا نہیں، لیکن تم یہ معلوم نہیں کر سکو گے کہ قرآن بس یہاں ہے، جب تک کہ تو ﴿فِیْھَا کُتُبٌ قَیِّمَۃٌ﴾ (البینة: 3) کے اشارے اور غمزے مشاہدہ نہ کرے۔ اور علمائے ظاہر نے تو ظاہر پر قناعت کی ہے وہ قرآن کے چھلکے اور پوست کو تو دیکھتے ہیں مگر اُس کے مغز کی لذت اور ذائقہ سے آشنا نہیں کہ "إِنَّ هَذَا الْقُرْآنَ مَأْدُبَةُ اللهِ" (المستدرك على الصحيحين للحاكم، کتاب فضائل القرآن، باب: أخبار فی فضائل القرآن جملۃ، رقم الحدیث: 2040) یعنی قرآن کریم اللّٰہ تعالیٰ کی زمین پر اللّٰہ تعالیٰ کا سجایا ہوا دستر خوان ہے۔ اور حسن بصری نے اِس مقام پر فرمایا ہے کہ "أُنْزِلَ الْقُرْاٰنُ لِیُعْمَلَ بِہٖ وَاتَّخَذَ النَّاسُ قِرَاءَتَہٗ وَدَرْسَہٗ عَمَلًا" یعنی قرآن کریم کے نزول کی غرض و غایت یہ ہے کہ اُس پر عمل کیا جائے، مگر لوگوں نے اس کی قرأت، تلاوت اور درس کو عمل بنا کر رکھا۔ صُمٌّ (کان نہیں رکھتے) بُکْمٌ (گونگے ہیں) قرآن کیسے پڑھیں گے؟ عُمْیٌ (اندھے ہیں) اِن کی آنکھیں نہیں ہیں، آیت مُبارکہ کے حُسن و جمال کو دیکھ کر کیا لطائف حاصل کریں گے؟ اور ان لوگوں کا تعارف اور تعریف بس یہی ہے کہ ﴿لَا تَعْمَى الْأَبْصَارُ وَلٰكِنْ تَعْمَى الْقُلُوْبُ الَّتِيْ فِي الصُّدُوْرِ(الحج: 46) ”سو کچھ آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں، لیکن اندھے ہو جاتے ہیں دِل جو سینوں میں ہیں“ یعنی اِن کے دِل کی آنکھیں اندھی، دِل کی زبان گونگی اور دِل کے کان بہرے ہیں۔

تشریح:

یہ قرآن پاک کے بارے میں ہے۔ حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللّٰہ علیہ نے بھی جو مراقبات بیان کئے ہیں ان میں سے ایک مراقبہ حقیقتِ قرآن ہے، یعنی قرآن کی حقیقت کسی پہ کھل جائے، قرآن کی حقیقت کیسے کھلے گی؟ قرآن کے ساتھ الفاظ ہیں، الفاظ کے ساتھ معانی ہیں، اور معانی کے پیچھے حقیقت ہے۔ کچھ حضرات صرف الفاظ جانتے ہیں، جیسے حفاظِ قرآن ہیں، یا ناظرہ پڑھتے والے، ان کی پہنچ یہیں تک ہوتی ہے۔ کچھ حضرات الفاظ کے معانی بھی جانتے ہیں، لہذا وہ معنی بتا سکتے ہیں۔ اور کچھ حضرات ان کے پیچھے کی حقیقت بھی جان لیتے ہیں، لیکن یہ حقیقت علمی چیز نہیں ہے، یہ معرفت الہیٰ کے قبیل سے ہے۔ لہذا اس کو عملی طور پر حاصل کرنا پڑتا ہے۔ مثلاً آپ کے سامنے ایک کتاب ہے، اگر آپ کی آنکھیں کھلی ہوں تو آپ اس کو پڑھ سکتے ہیں۔ لیکن اگر آپ کی آنکھیں کھلی ہوئی نہیں ہیں تو پھر سب سے پہلے آنکھوں سے پٹی ہٹائیں گے۔ جب پٹی ہٹ جائے گی تو آپ اس کو پڑھنے کے قابل ہو جاؤ گے۔ یہ جو دل کی آنکھوں پہ پٹی ہے، یہ نفس کی ہے، لہٰذا جب تک نفس کی یہ پٹی ہمارے دلوں کے اوپر ہے، ہمارے دلوں کے کان بہرے ہیں، ہمارے دلوں کی آنکھیں اندھی ہیں، ہمارے دلوں کی زبانیں گونگی ہیں۔ اس لئے ہم اپنے دل سے کام نہیں لے سکتے، کیونکہ اس پر نفس کی خواہشات کی پٹیاں بندھی ہوئی ہیں۔ جب ہم نفس کی خواہشات کی پٹیاں کھول دیتے ہیں تو کوئی نیا قرآن نہیں آئے گا، قرآن یہی ہو گا، لیکن اس کے ساتھ جو متصل چیزیں ہیں وہ آپ کو پتا چلنا شروع ہو جائیں گی۔ یہ بہت عجیب بات ہے۔ یہی چیزیں ہوتی ہیں جو صاحبِ نسبت علماء محقیقین کو اس ذریعے سے حاصل ہوتی ہیں۔ جیسے حضرت مولانا زکریا صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ نے کتاب میں واقعہ بیان کیا ہے کہ ایک بہت بڑا عالم کسی بزرگ سے بیعت ہوا، تو اس بزرگ نے کہا کہ آپ فی الحال ساری چیزیں چھوڑ دیں، صرف نماز پڑھیں اور ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ‘‘ کا ذکر کریں۔ چند دنوں کے بعد حضرت کو پتا چلا کہ وہ قرآن پاک کا درس بھی دیتا ہے، حضرت نے اس سے بھی روک دیا۔ اس پر لوگ بڑے غضب میں آ گئے اور کہا کہ کمال ہے! یہ کیسا پیر ہے جو قرآن سے روکتا ہے اور یہ کیسا مرید ہے جو ان کی ایسی باتیں بھی مانتا ہے! یہ مرید بھی زندیق ہے اور پیر بھی زندیق ہے۔ ان پر یہ فتویٰ لگا دیا۔ لیکن پیر بھی مخلص تھے اور مرید بھی مخلص تھے، لہذا ان کو لوگوں کی باتوں کا کچھ اثر نہ ہوا، وہ اپنے کام میں لگے رہے۔ جب اللّٰہ پاک نے اس پہ فضل کیا اور اس کی آنکھیں کھول دیں اور ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ‘‘ کی حقیقت اس پر واضح ہو گئی، تو اس کے بعد حضرت نے فرمایا کہ اب درس دیا کرو۔ وہ عالم فرماتے ہیں کہ پہلے جب میں قرآن پڑھاتا تھا تو اپنی یاداشت سے صرف وہی چیزیں پڑھا سکتا تھا جو میں نے پڑھی ہوئی تھیں۔ اور اب جو میں نے پڑھنا شروع کیا تو ہر لفظ کے پیچھے علوم کے سمندر نظر آ رہے تھے۔ یہ علوم کا سمندر کیا چیز ہے؟ یہ وہ چیز ہے جس وقت آنکھیں بینا ہو جائیں تو پھر نظر آتا ہے۔ جب تک وہ آنکھیں بینا نہ ہوں اس وقت تک یہ چیزیں نظر نہیں آتیں۔ چنانچہ حضرت نے فرمایا کہ کچھ اسماء الحسنیٰ جو قرآن میں موجود ہیں، اور حروف مقطعات، اللّٰہ اور اللّٰہ کے رسول کے درمیان راز ہیں، لیکن جن پہ اللّٰہ تعالیٰ کھولنا چاہتے ہیں ان پہ کھول دیتے ہیں، تاہم اس کی زبان پہ مہر لگا دیتے ہیں کہ آپ نے حکم کی تعمیل کرنی ہے۔ کیوں کی جس محنت سے تو نے سیکھا ہے، یہی محنت دوسروں کو کرنی پڑے گی، پھر ان کو ملے گا۔ یہ کوئی علمی چیز نہیں ہے، یہ عملی چیز ہے، اس کو عملی رکھا جاتا ہے۔ اگر کسی کو مل بھی گیا تو وہ آگے نہیں بتا سکتا۔

ایک دفعہ ایک بڑے آدمی نے کہا کہ مجھے کسی نے لا جواب نہیں کیا، صرف باندی نے مجھے لا جواب کر دیا۔ ایسے لا جواب کیا کہ وہ تھالی میں کوئی چیز لے جا رہی تھی، اور وہ تھالی ڈھکی ہوئی تھی، میں نے اس سے پوچھا کہ اس کے اندر کیا ہے؟ اس نے کہا: اگر بتانا ہوتا تو پھر ڈھکنے کی کیا ضرورت تھی! یہ جو ڈھکی ہوئی ہے اس کا مطلب ہی یہ ہے کہ بتانا نہیں چاہتی۔ بالکل یہی بات ہے کہ کوئی کتنی ہی کوشش کر لے، کسی کا راز اس کو نہیں بتانا چاہئے۔ حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللّٰہ علیہ نے یہاں تک فرمایا کہ وہ دوست دوستی کے قابل نہیں ہے جو دوست کا راز نہ رکھ سکے۔ دوست کا راز رکھنا لازم ہے، تبھی کسی کو یہ چیزیں ملتی ہیں۔

ہمارے مشائخ نے ہمیں یہاں تک فرمایا کہ بعض دفعہ لوگوں کو کچھ غیر معمولی خواب آ جاتے ہیں تو وہ شوق میں دوسرے لوگوں کو بتاتے ہیں، جس سے وہ خواب آنا بند ہو جاتے ہیں، کیونکہ اس نے اس لائن کی بے ادبی کی ہے، اس کو جو چیز عطا ہوئی تھی، وہ کیوں اس نے ایک نا اہل پہ پیش کر دی۔ بعض دفعہ ایسا ہو جاتا ہے کہ اگر کوئی نا اہل کو کچھ دیتا ہے تو وہ نعمت چِھن جاتی ہے۔ نا اہل سے مراد یہ ہے کہ ابھی تک وہ اس چیز کو حاصل کرنے کے قابل نہیں ہوا، اس کے لئے جتنی محنت کی ضرورت ہے، وہ محنت ابھی اس نے نہیں کی ہے۔ حضرت خواجہ عزیز الحسن مجذوب صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے؎

مے یہ ملی نہیں ہے یوں، قلب و جگر ہوئے ہیں خوں

کیوں میں کسی کو مفت دوں، مے میری مفت کی نہیں

اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کے لئے بڑے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں، بڑی محنت کرنی پڑتی ہے، اور وہ محنت یہ ہے کہ نفس کو قابو کرنا پڑتا ہے، نفس کی پٹیاں دل سے ہٹانی پڑتی ہیں۔ اگر کسی کی نفس کی پٹی نہیں ہٹی ہوئی اور آپ نے وہ چیز اس کو بتا بھی دی، تو اس کو فائدہ نہیں ہو سکے گا۔ صرف علمی طور پر اس کو وہ بات معلوم ہو جائے گی، لیکن اس کے اندر جو حقیقت ہے وہ اسے نہیں دیکھ سکے گا۔ بلکہ عین ممکن ہے کہ وہ اس پہ بد گمانی کرے کہ یہ تو کچھ بھی نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جو آنکھیں چاہئیں ہوتی ہیں، اس کے پاس وہ آنکھیں نہیں ہیں۔ اگر کوئی اندھا ہے اور اس کو بتایا جائے کہ دیکھو! سامنے سرخ عمارت کھڑی ہے، وہ جان تو لے گا کہ سرخ عمارت کھڑی ہے، لیکن وہ دیکھ نہیں سکے گا۔ لہذا یہ علم صرف تقلیدی طور پر ہو گا، تحقیقی طور پر نہیں ہو گا۔ وہ صرف یہ کہہ سکے گا کہ یہاں کوئی چیز کھڑی ہے۔ کیونکہ اس کو بتایا گیا ہے، لیکن اس کے آگے پیچھے کچھ ہو تو وہ نہیں بتا سکے گا، کیونکہ اس کی آنکھیں کھلی نہیں ہیں، آنکھیں اندھی ہیں۔ اسی لئے آدمی کو وقت سے پہلے ایسی چیزوں کے پیچھے نہیں بھاگنا چاہیے، جب اللّٰہ تعالیٰ دینا چاہتے ہیں تو دے دیتے ہیں، پھر آپ نہ بھی لینا چاہیں، تو بھی دے دیتے ہیں۔ کیونکہ یہ اس کا کام ہے کہ کس کو دیتے ہیں اور کس کو نہیں دیتے۔ بہرحال خود کو ان چیزوں کا اہل بنانا پڑتا ہے اور اہل بننے کے لئے نفس کے پردے ہٹانے پڑتے ہیں۔ دل کی آنکھوں پہ، دل کے کانوں پہ، دل کی زبان پہ جو پردے ہیں، جب تک وہ نہیں ہٹیں گے، اس وقت تک آپ چیزیں نہیں دیکھ سکتے۔ چاہے آپ کو کوئی علمی طور پر بتا بھی دے، لیکن وہ صرف آپ کی علمی معلومات ہوں گی، لیکن تحقیقی معلومات نہیں ہوں گی۔

ایک دفعہ ایسا ہوا کہ ایک بہت بڑے عالم تھے جو نمازوں کے اوقات کے اور سحر و افطار کے نقشے بنایا کرتے تھے، میں ان دنوں ایسے لوگوں کے پیچھے پھرا کرتا تھا کہ کوئی ہو تو میں ان سے سیکھوں، پوچھتے پوچھتے ان کے پاس بھی پہنچ گیا۔ حضرت نے ما شاء اللّٰہ بہت اکرام کیا، چائے منگوائی۔ میں نے ان سے پوچھا: حضرت! یہ آپ نے جو نقشہ تیار کیا ہے، کیسے تیار کیا ہے؟ کہا: بیٹا! سامنے پنڈی کے لئے جو نقشہ لگا ہوا ہے، اس میں مغرب کا جو وقت ہے اس کے ساتھ میں تین منٹ جمع کرتا رہا ہوں اور سحری کے وقت میں یعنی صبح صادق کے وقت میں دو منٹ منفی کرتا رہا ہوں۔ میں نے کہا: حضرت! آپ اس فن کے مقلد ہیں یا محقق ہیں؟ یہ عجیب سوال تھا، شاید کسی نے ان سے پہلے اس طرح کا سوال نہ کیا ہو گا۔ انہوں نے کہا: میں تو مقلد محض ہوں۔ کیونکہ دیوبند مسلک کے بہت بڑے آدمی تھے، مخلص تھے۔ میں نے کہا: حضرت آپ مقلد بھی نہیں ہیں، انہوں نے کہا کیسے؟ میں نے کہا حضرت مقلد کے لئے خود سوچنے کی اجازت نہیں ہوتی، اس کو جیسے بتایا جاتا ہے اس کے مطابق وہ عمل کرتا ہے۔ یہاں لکھا ہے کہ افطاری کے لئے پانچ منٹ جمع کر لو اور سحری کے لئے پانچ منٹ منفی کرو۔ جب کہ آپ نے دو منٹ منفی کیے اور تین منٹ جمع کیے ہیں، تو آپ نے اس میں جو تصرف کیا ہے، وہ کس دلیل سے کیا ہے؟ آپ کے پاس اس کی کیا دلیل ہے؟ اس نقشے والے کے پاس دلیل ہے یا نہیں لیکن چونکہ وہ محقق ہیں، لہذا ان کی بات تو ہم سمجھ سکتے ہیں۔ لیکن آپ کے پاس کون سی دلیل ہے؟ حضرت فوراً سمجھ گئے۔ فرمایا بیٹا: میں آئندہ نقشہ نہیں بناؤں گا۔ اس کے بعد انہوں نے نقشے نہیں بنائے۔ مقصد یہ ہے کہ مقلد تصرف نہیں کر سکتا، جو اس کو بتایا جاتا ہے، وہی اس کو سمجھنا ہوتا ہے۔ لیکن محقق کو نظر آ رہا ہوتا ہے، وہ اس کے اندر گہرائی تک جاتا ہے اور سوچتا ہے، اس میں جو جو حالات ہوتے ہیں، ان کے مطابق فیصلے کرتا ہے۔ یہ بہت ضروری بات ہے۔ لہٰذا اگر کسی کی پٹیاں ہٹانے والی کوشش غائب ہو تو وہ یہ چیزیں حاصل نہیں کر سکتا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: "إِقْرَءِ الْقُرْاٰنَ وَتَفَتَّشْ غرَائِبَہٗ" (لم أجد ھذا الحدیث)

ترجمہ: ”قرآن مجید پڑھا کرو اور اُس کے غرائب کی تلاش کرو“۔

لیکن اس کو تلاش کرنا ہر ایک کا کام نہیں ہے؛ کیونکہ اس کے لئے اپنے دل کو بنانا پڑتا ہے، اپنے نفس کو سنوارنا پڑتا ہے، جب تک یہ نہیں ہو گا، اس وقت تک اس کو یہ چیزیں نظر نہیں آئیں گی۔ آپ نے دیکھا ہو گا کہ ہمارے فقہاء بھی صاحبِ نسبت ہیں، نتیجتاً انہوں نے جو تفقہ فی الدین کیا ہے، اس میں وہ ایسی باریک باریک باتوں تک گئے کہ ان سے آج کل لوگ انکار کر رہے ہیں، کیونکہ ان کو یہ چیزیں سمجھ نہیں آتیں۔ جب سمجھ نہیں آتیں تو انکار کر دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ ایسے نہیں ہے۔ مثلاً کتنی عجیب بات ہے، (اللّٰہ پاک معاف فرمائے) ایک آدمی سنت نماز پڑھ رہا ہو گا، اس کے پیچھے ہاتھ باندھ کر فرض کی نیت کر لیں گے اور اس کے پیچھے فرض کی نماز شروع کر دیں گے، ابھی وہ ختم نہیں ہوئی ہو گی کہ دوسرے نے ہاتھ رکھ لیا اور اس کی نماز شروع ہو گئی۔ یہ کہاں ثابت سے ہے؟ کس طرح ہے؟ کچھ پتا نہیں۔ ساری اِدھر اُدھر کی باتیں ہیں، کچھ سمجھ نہیں آتا۔ ہر چیز کے اندر بس سطحی علم ہے۔ جب میں جرمنی میں تھا تو الحمد للہ وہاں عرب حضرات ہمارے ساتھ ہوتے تھے، ان کے ساتھ ہمارے حلقے ہوتے تھے اور جب کبھی کوئی مسئلہ ہوتا تو آپس میں الجھ پڑتے، سطحی علم تو ان کے پاس ہے، جب الجھ پڑتے تو میں ہاتھ کھڑا کر دیتا کہ ’’عِنْدِیْ تَعْلِیْقٌ‘‘۔ وہ کہتے: کیا ہے؟ مجھے حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللّٰہ علیہ کا کوئی ملفوظ یاد آ جاتا، وہ میں ان کو ترجمہ کر کے بتا دیتا، تو دونوں اس پر متفق ہو جاتے، اور کہتے: ’’عِنْدَکَ الْحَقُّ یَا شَیْخُ‘‘۔ اور یہ تقریباً ہر ہفتے ہونے لگا، ان لوگوں نے سمجھا کہ شاید میں کوئی بڑا علامہ ہوں، مجھے ہر چیز کا جواب معلوم ہے، مجھے شیخ کہنے لگے اور کافی قدر کرنے لگے۔ اس لئے مجھے ضرورت محسوس ہوئی کہ میں ان کو اصلی بات سمجھاؤں۔ میں نے جب ان کو اصلی بات سمجھائی، تو ابو حمام ایک صاحب تھے جو دارین یونیورسٹی کے پروفیسر تھے، وہ آئے ہوئے تھے، انہوں نے کہا: بالکل صحیح کہتے ہیں، ہمیں خود معلوم ہے کہ اصل علم اہلِ ہند کے پاس ہے، ہمارے پاس صرف سطحی علم ہے۔ یہ دارین یونیورسٹی کے پروفیسر ابو حمام کی رائے ہے۔ اور کہنے لگے کہ آپ ہمیں حضرت تھانوی رحمۃ اللّٰہ علیہ کی عربی کی کتابوں کی لسٹ دے دیں تاکہ ہم ان کو اپنی لائبریری کے لئے لے سکیں۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللّٰہ علیہ بھی تو صاحبِ نسبت تھے۔ انہوں نے تفسیر کی ہے، دوسرے حضرات بھی تفسیر کرتے ہیں، تفسیر مظہری کو لے لیں، اس میں کیسی عجیب اور گہری گہری باتیں ہیں۔ شاہ ولی اللّٰہ رحمۃ اللّٰہ علیہ یا ان جیسے اور حضرات ہیں۔ لہٰذا جن جن حضرات نے اپنے نفس کے اوپر محنت کی ہے اور اپنے نفس کو سنوارا ہے، ان کا علم اور ہے۔ بلکہ میں یہاں تک کہتا ہوں کہ قرآن پڑھنا بھی ایک پیغام ہے، اگر صاحبِ نسبت قاری نماز میں قرآن کی تلاوت کر رہا ہو تو اس کے پیچھے سب نماز پڑھنے والوں کو فائدہ ہو گا، اور ان میں اس کی نسبت کا اجرا ہو گا اور لوگ محسوس کریں گے۔ کیونکہ وہ ہر ہر آیت کا حق ادا کرے گا، اس کو پتا ہو گا کہ میں اللّٰہ کے سامنے کھڑا ہوں اور اللّٰہ کا کلام پڑھ رہا ہوں اور اللّٰہ کا کلام کیا ہے! اور اس کے لئے کیسے ہونا چاہیے، اپنے آپ کو کیسے بنانا چاہیے؟ وہ جب قرآن پڑھتا ہے تو اس کی بات اور ہوتی ہے۔ اور جو لوگ لوگوں کے لئے پڑھتے ہیں، اگرچہ لوگ واہ واہ تو کریں گے، لیکن اثر نہیں لیں گے۔ واہ واہ اور بات ہے، اثر لینا اور بات ہے۔ اثر ان سے لیا جاتا ہے جو صاحبِ عمل ہیں، جو صاحب تقویٰ ہیں، تقویٰ والے کی زبان سے جو بات نکلتی ہے وہ دل کے اندر جاتی ہے، کیونکہ تقویٰ دل میں ہوتا ہے۔ چونکہ تقویٰ دل میں ہوتا ہے، لہذا جو بات دل سے نکلتی ہے وہ اثر رکھتی ہے۔ لہٰذا تقویٰ والے کی بات دل پر اثر کرتی ہے۔ اور جو تقویٰ والا نہیں ہوتا، آپ یقین جانیے اس کی بات کے متعلق آپ خود کہیں گے کہ بات کا اثر نہیں ہو رہا۔ ایک دفعہ ہمیں اس کا احساس ہوا۔ اب وہ دونوں حضرات دنیا سے تشریف لے گئے ہیں، لیکن بہرحال بتانا ضروری ہے، حضرت مولانا سنجان صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ عالم تو تھے، لیکن ان دنوں ابھی تصوف کی طرف نہیں آئے تھے، ایک دفعہ حضرت مولانا فقیر محمد صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ کے پاس آئے، ان کے پاس جب حضرات آتے تھے تو ان میں جو علماء ہوتے، حضرت ان سے بیان کرواتے تھے، مولانا سنجان صاحب سے بیان کروایا، لیکن وہ سیٹ نہیں ہو رہا تھا، انہوں نے خود بھی درمیان میں صاف کہہ دیا کہ میں اس کوچے کا آدمی نہیں ہوں۔ بہرحال سیٹ نہیں ہو رہا تھا اور حضرت کا دل مطمئن نہیں ہو رہا تھا۔ پھر جب مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ تشریف لائے تو حضرت نے ان سے بھی فرمایا کہ آپ بیان فرمائیں۔ حضرت نے تھوڑی ہی دیر بیان کیا تو سبحان اللّٰہ تھوڑی ہی دیر میں سب کے دل متاثر ہو گئے۔ وجہ یہ تھی کہ پیچھے سے زور تھا۔ چنانچہ جب انسان دل سے بات کرتا ہے تو وہ بات اثر رکھتی ہے۔ شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللّٰہ علیہ یا کسی اور بزرگ کا واقعہ ہے کہ انہوں نے اپنے بیٹے سے کہا کہ میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے، آپ بیان کریں۔ جب انہوں نے بیان کیا تو کچھ لوگ تیلیاں توڑ رہے ہیں، کوئی پتوں کو پرو رہے ہیں، کوئی کیا کر رہے ہیں، کوئی کیا کر رہے ہیں۔ حضرت نے فرمایا کہ نیچے آ جاؤ۔ حضرت خود بیٹھ گئے۔ اور فرمایا: "میں نے تہجد کے وقت اپنے پاس دودھ رکھا ہوا تھا کہ اس سے سحری کروں گا، بلی آئی اور اس کو لات ماری اور دودھ گر گیا"۔ سب لوگ زار و قطار رونے لگے۔ ان کا بیٹا حیران ہو گیا۔ بعد میں پوچھا کہ ابا جان! کیا بات ہے؟ آپ نے کوئی علمی بات تو نہیں کی، کیونکہ یہ کوئی علمی بات ہے نہیں۔ میں نے تو علم میں آسمان اور زمین کی قلابے ملا دیئے، لوگوں پہ اثر نہیں ہو رہا تھا اور ادھر ادھر دیکھ رہے تھے، انہیں کوئی پروا ہی نہیں ہو رہی تھی۔ آپ نے ایک عام سی بات کی، جس میں کوئی علم تو نہیں ہے، کہ بلی آ گئی اور اس نے دودھ گرا دیا، اس میں کون سی کوئی خاص بات ہے۔ حضرت نے فرمایا: بیٹا! تو زبان سے بات کرتا ہے، فقیر دل سے بات کرتا ہے۔ چنانچہ بے شک آپ مانیں یا نہ مانیں، لیکن اپنے پاس نوٹ کر لیں دنیا داروں کی زبان سے جو بات نکلتی ہے، وہ بے شک دین کی بات کیوں نہ کر رہے ہوں، اس میں دنیا ہوتی ہے، اور دین دار، اللّٰہ والے، متقی حضرات کی زبان سے اگر آپ دنیا کی باتیں بھی سنیں گے تو اس میں بھی دین ہو گا، اس سے بھی دل بنے گا، دل کے پردے کھلیں گے۔ آج کل اس چیز کی قدر نہیں ہے۔

ہمارے ایک چچا زاد کو دوسرے چچا زاد بھائی، حاجی عبدالمنان صاحب کے پاس لائے کہ شاید کچھ سیکھ لیں۔ مغرب سے عشاء تک بیٹھا رہا، جاتے وقت کہا کہ ہم نے کیا حاصل کیا؟ میرے کزن کہنے لگے کہ اس بیچارے کو کیا پتا کہ ہم نے کیا حاصل کیا۔ اس کو حاصل کرنے کا پتا ہی نہیں ہے کہ کیا حاصل کیا جاتا ہے۔ یہ بالکل صحیح بات ہے۔ اس کی مثال ایسے ہے جیسے بچہ ہوتا ہے کہ ایک طرف موتی جو گوہر کی شکل میں ہو، اور دوسری طرف ٹافی ہو، بچہ موتی نہیں لے گا بلکہ ٹافی لے گا۔ کیونکہ اس کی پہنچ یہیں تک ہے۔ اس لئے دنیا دار ہر چیز سے دنیا لیتے ہیں، جہاں کہیں اہل اللّٰہ ان کو نظر آئیں تو ان سے بھی کوئی دنیا لینا چاہتے ہوں گے کہ مجھ پر دم کر دیں، کوئی کہتا ہے میرے لئے دعا کر دیں، کوئی کہتا ہے میرا بیٹا بیمار ہے، اس کے لئے دعا کر دیں، کبھی کچھ اور کہتے ہیں۔ ہمارے پاس ایسے لوگ آتے ہیں، سب یہی باتیں کرتے ہیں۔ لہٰذا دنیا دار انسان بہترین چیز سے بھی بد ترین کام لیتے ہیں۔ جیسے کہتے ہیں کہ ایک صاحب ایک قیمتی چادر کے ساتھ اپنا بوٹ صاف کر رہے تھے، کسی نے کہا کہ یہ چادر تو بہت قیمتی ہے، آپ بوٹ ٹشو پیپر سے بھی صاف کر سکتے ہیں، برش سے بھی صاف کر سکتے ہیں۔ یہ آپ کیا کر رہے ہیں؟ وہ کہنے لگا: وہ میرے اپنے ہیں اور یہ کسی اور نے دی ہے۔ جو چیز مفت ملتی ہے اس کی قدر نہیں ہوتی۔ یہی وجہ کہ بعض مشائخ جو مجاہدات کروانے کے بعد دیتے ہیں، اس میں بھی یہ حکمت ہوتی ہے کہ ان کو اندازہ ہو جائے کہ کتنی قیمتی چیز ہے۔ اور اگر ابتدا میں دے دیں تو ان کو قدر ہی نہیں ہو گی، وہ کہیں گے یہ کچھ بھی نہیں ہے۔

بہرحال فرمایا حروف مقطعات کے اندر علوم کے سمندر موجود ہیں۔ لیکن آپ ان کو سمجھنے کے قابل تو بنیں۔ فرمایا:

حروف مقطعات کو عالم سر میں مُجمل کہتے ہیں اور مفصل آیت: ﴿یُحِبُّھُمْ وَیُحِبّٗوْنَہٗ﴾ (المائدۃ: 54) میں آیا ہے۔

یعنی آپس میں محبت ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ ان سے محبت کرتے ہیں اور وہ اللّٰہ سے محبت کرتے ہیں۔ یہ حضرت نے قرآن پاک سے اشارے دیئے ہیں۔ اصل میں اشاروں کو وہی لوگ سمجھتے ہیں جن کا دل اتنا صاف ہو چکا ہو کہ ان کو میسیج مل سکتا ہو اور وہ میسج کو سمجھ سکتے ہوں۔ پھر ان کو اشارے بھی سمجھ میں آ جاتے ہیں۔ بہرحال حضرت نے فرمایا کہ اس میں غور کرنے سے ہی پتا چلے گا، ویسے عام لوگ جن کو ہم لوگ ’’وَرَثَۃُ الْاَنْبِیَآءِ‘‘ کہتے ہیں، وہ صرف الفاظ کی حد تک ہوتے ہیں، وہ الفاظ کی حد تک الفاظ کی نگرانی کرتے ہیں، وہ بھی بڑا کام ہے، کم کام نہیں ہے، لیکن بہرحال پیچھے جو حقیقت ہے، اس کی بات تو اور ہے۔ جیسے فرمایا: ﴿إِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَذِكْرٰى لِمَنْ كَانَ لَهٗ قَلْبٌ أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِیْدٌ﴾ (ق: 37)

ترجمہ: ’’یقیناً اس میں اس شخص کے لئے بڑی نصیحت کا سامان ہے جس کے پاس دل ہو، یا جو حاضر دماغ بن کر کان دھرے‘‘۔

اللّٰہ جل شانہ ہم سب کو یہ ساری چیزیں عطا فرما دے۔ یہ مضامینِ قرآن اگر سمجھ میں آ جائیں تو انفعالات ختم ہو جائیں گے۔ انفعال اسے کہتے ہیں کہ پہلے انسان کے اندر ایک انفعال آتا ہے، ایک تحریک ہوتی ہے، پھر تحریک سے ما شاء اللّٰہ وہ چیز establish (قائم) ہوتی ہے اور آگے عمل میں آتی ہے۔ لیکن جب علم پکا ہو جاتا ہے تو انفعالات درمیان سے ختم ہو جاتے ہیں اور براہ راست اس اصل چیز پہ چلنا شروع ہو جاتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے بارے میں لوگ کہتے ہیں کہ یہ بالکل خالی خول ہیں۔ کیونکہ لوگ انفعالات کی بہت قدر کرتے ہیں، وہ اچھل کود کی بہت قدر کرتے ہیں۔ جو اچھلتے کودتے ہیں ان کے متعلق لوگ کہتے ہیں کہ یہ بڑا پیر ہے، یہ بڑا بزرگ ہے۔ اور جو سادہ لوگ ہیں اور سادہ طریقے سے رہتے ہیں، ان کے بارے میں لوگ کہتے ہیں کہ ان کو کیا آتا ہے؟ بات صحیح ہے۔ حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللّٰہ علیہ نے اس کی ایک بڑی عمدہ مثال دی ہے، فرمایا: ایک شخص کے پاس بھوکا کتا بیٹھا تھا اور وہ خود کھانا کھا رہا تھا اور رو رہا تھا۔ کسی نے پوچھا کہ کیوں رو رہے ہو؟ اس نے کہا یہ کتا بھوکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اپنے کھانے سے اسے کچھ کھلا دو۔ اس نے کہا: اتنی محبت نہیں ہے۔ ایک دوسرا آدمی ہے جس کو کچھ بھی اثر نہیں ہوتا، نہ اس کی آنکھوں سے آنسو آتے ہیں، نہ کوئی اور اثر ہوتا ہے، مگر وہ فوراً اس کے لئے کھانا لے آتا ہے۔ یہ جو دوسرا آدمی ہے اس میں انفعال نہیں ہے بلکہ عمل ہے۔ ہم لوگ انفعالات پہ قربان ہو رہے ہوتے ہیں، جو کاغذی چھلکے ہیں۔ ایک دفعہ حضرت مسرت شاہ صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ بیان فرما رہے تھے، میں رو رہا تھا، مجھے فرمایا: اپنے آنسو میں سارا زور نکال لو، وقت تو لگاتے نہیں ہو، صرف رو لو، رونا بہت آسان ہے، چلو رو لو عمل تو کرنا نہیں ہے۔

واقعتاً بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ انسان انفعالات میں ہی سارا زور نکال لیتا ہے اور اصل چیز پیچھے رہ جاتی ہے، اس کی طرف انسان نہیں جاتا۔ اور بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جو ان انفعالات کے پیچھے نہیں جاتے، وہ اصل چیز کے پیچھے جاتے ہیں، ان کے ہاں درمیان میں کوئی مسئلہ نہیں ہوتا۔ ان کو براہِ راست چیز مل رہی ہوتی ہے۔

متن:

"إِنَّ هَذَا الْقُرْآنَ مَأْدُبَةُ اللهِ" (المستدرك على الصحيحين للحاكم، کتاب فضائل القرآن، باب: أخبار فی فضائل القرآن جملۃ، رقم الحدیث: 2040) یعنی قرآن کریم اللّٰہ تعالیٰ کی زمین پر اللّٰہ تعالیٰ کا سجایا ہوا دستر خوان ہے۔

تشریح:

یہ قرآن زمین میں اللّٰہ تعالیٰ کا دستر خوان ہے۔ پس جس کو لینا ہے، اس دسترخوان سے لے لے۔ اس کے اندر انواع و اقسام کے کھانے ہیں، انواع اقسام کی کیفیتیں ہیں، انواع اقسام کی چیزیں ہیں، لیکن اگر کوئی اس سے لینا چاہے گا تو لے لے گا۔ ورنہ یہ سب کچھ موجود ہو گا، لیکن کوئی لے نہیں سکے گا۔ اصل میں اس وقت بڑا مسئلہ یہی ہے کہ لوگ الفاظ پہ رک جاتے ہیں، اور کچھ لوگ آپ ﷺ کی محبت کے دعوے پہ رک جاتے ہیں، کچھ بزرگوں کے واقعات بیان کرنے پہ رک جاتے ہیں۔ بزرگوں کے ایسے ایسے واقعات بیان کریں گے جیسے کہتے ہیں آسمان نیچے لے آئیں گے۔ لیکن عمل دیکھو تو صِفر ہے۔ یہ ساری چیزیں انفعالات ہیں۔ انفعالات کے پیچھے نہ جاؤ، اصل حقیقت کے پیچھے جاؤ، اصل حقیقت کے لئے عمل کرنا پڑتا ہے اور اس کے لئے طریقہ سیکھنا پڑتا ہے۔

متن:

﴿لَا تَعْمَى الْأَبْصَارُ وَلٰكِنْ تَعْمَى الْقُلُوْبُ الَّتِيْ فِي الصُّدُوْرِ(الحج: 46) ”سو کچھ آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں، لیکن اندھے ہو جاتے ہیں دِل جو سینوں میں ہیں“ یعنی اِن کے دِل کی آنکھیں اندھی، دِل کی زبان گونگی اور دِل کے کان بہرے ہیں۔

اللّٰہ سب کو قرآن سے بہت زیادہ برکات عطا فرمائے، اور اس کے اندر جو حقیقی نعمتیں ہیں، اللّٰہ جل شانہ ہم سب کو وہاں تک رسائی عطا فرما دے۔

وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ