توضیح المعارف قسط 12
فلسفہ سائنس اور معرفت الٰہی – ساتواں حصہ
فاطر و مفطور کے درمیان اتحاد اور مغائرت:
قرآن مجید کی دو آیات سے استدلال
قرآن مجید کی ایک آیت (وَمَا خَلَقْتَ ھٰذَا باطِلاً) (آل عمران:191) سے یہ سبق ملتا ہے کی یہ تمام مخلوقات بالکل بے حیثیت نہیں بلکہ فاطر و خالق کی معرفت کا ذریعہ ہے۔ لیکن اس کے ساتھ (سُبْحَانَکَ) ہے وہ اور دوسری آیت (لَيْسَ كَمِثْلِهٖ شَيْءٌ) (الشوری: 11) مغائرت کے پہلو کو نمایاں کرتی ہے۔
فاطر و مفطور کے درمیان نسبت ایک ایسی نسبت ہے، جس میں مغائرت(الگ الگ ہونا) بھی ہے اور ایک طرح کا اتحاد بھی ۔ اس کی مثال سمجھ لیں۔ مثلاً اس driving simulator میں سامنے ڈرائیونگ سیکھنے والا شخص بیٹھا ہے۔ اس کے پاس کچھ controls مثلاً سٹیرنگ، ٹائر، بریک، ایکسلریٹر وغیرہ ہیں۔ جن کی وجہ سے سکرین پر نظر آنے والی گاڑی مڑتی، رکتی یا تیز ہوتی ہے۔ اب اس ڈرائیور اور سکرین پر نظر آنے والی چیزوں میں ایک طرح کا اتحاد بھی ہے اور مغائرت بھی۔ اگر حقیقت دیکھی جائے تو دونوں بالکل مختلف ہیں۔ سکرین پر نظر آنے والی چیزیں محض artificial ہیں جبکہ ڈرائیور اپنا ایک مکمل حقیقی وجود رکھتا ہے۔ لیکن دوسری طرف اس کی حرکات سے کنٹرول ہونے والی سکرین پر موجود گاڑی، اس کے اور سکرین کے artificial environmet میں ایک طرح کا اتحاد بھی ظاہر کر رہی ہے کہ ادھر بریک پر پاؤں رکھا اور وہ چیز رک گئی۔ ادھر ایکسیلیریٹر دبایا اور گاڑی چل پڑی وغیرہ وغیرہ اس سے ان کا اس ڈرائیور کے ساتھ اتحاد محسوس ہوتا ہے لیکن دوسری طرف پوری سکرین آف ہوجائے تو ڈرائیور پر ذرا فرق نہیں پڑتا اس سے مغائرت ثابت ہوتی ہے۔
کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ کسی چیز کی حقیقت کے بارے میں سائنس کی دریافت، اس چیز کے بارے میں عوام کے اندر پائے جانے والے ادراک (perception) سے مختلف ہوتی ہے۔ لیکن مثالوں میں اس سائنسی حقیقت سے قطع نظر کر کے عمومی ادراک (perception) کو مدنظر رکھا جاتا ہے۔ مثلاً آئینہ کی گذشتہ مثال میں آئینہ کو قیوم اور اس میں نظر آنے والے عکوس کو ظلال کہا گیا۔ اگرچہ سائنس کے مطابق تصویر آئینے میں نہیں بلکہ آنکھ کی مدد سے دماغ کے vision center میں بنتی ہے۔
یہ اصول صرف صوفیائے کرام ہی نہیں بلکہ فقہائے کرام بھی استعمال کرتے ہیں۔ مثلاً فجر اور مغرب کی نمازوں کے اوقات کے تعین کے لئے سورج کے طلوع اور غروب کے اوقات کا مشاہدہ درکار ہوتا ہے۔ یہاں بھی فقہاء actual کی جگہ apparent sunset پر فیصلہ کرتے ہیں۔ حالانکہ سائنس کے مطابق روشنی کہ لہروں (Light rays) کی refraction کے رجحان (phenomenon) کی وجہ سے دونوں میں فرق ہوتا ہے۔
تصوف کی چند اہم اصطلاحات:
فاطر یعنی خالق کی ذات کو لاہوت بھی کہتے ہیں ۔
تجلیات اسمائے الہٰی جس میں نفسِ کلیہ بھی آتا ہے کو جبروت کہتے ہیں اور ارواح و امثال کو ملکوت کہتے ہیں اور اجسام اور اجسام کے تابع جو عوارض و قوٰی ہیں ان کو ناسوت کہتے ہیں ۔
وجود منبسط یا شخص اکبر:
حکیم کے خیال کے domain میں کسی بھی تصور سے پہلے جو وسعت یا expansion پائی جاتی ہے اور جس وسعت میں اس کی خیالی سلطنت سماتی ہے، اس کو وجودِ منبسط یا شخصِ اکبر کہتے ہیں۔ حضرت شاہ ولی اللہ رحمت اللہ علیہ کے مطابق اس شخصِ اکبر میں انسانوں کے اندر پائے جانے والے تین لطائف عقل، قلب اور نفس کے مانند universal لطائف پائے جاتے ہیں۔ ان میں ہر لطیفہ پوری کائنات کی پر چھوٹی بڑی چیز میں جاری ساری ہوتا ہے۔ مثلاً ہم جسمِ انسانی میں بیرونی جراثیم بیکٹیریا کے مقابلے میں حیرت انگیز مربوط مدافعتی (defensive) نظام پر غور کریں یا ٹوٹی ہڈی کے جڑنے کے بظاہر خودکار نظام پر غور کریں تو ہمیں ہر جگہ یہ universal عقلی لطیفہ کار فرما نظر آتا ہے.
اوپر کی مثالوں ( ڈرائیونگ simulator، حکیم کی خیالی سلطنت) سے جب یہ معلوم ہوا کہ حق تعالیٰ کی ذات تک مشاہدے یا عقل کی رسائی ممکن نہیں تو پھر صوفیائے کرام کی کوششوں مراقبات وغیرہ کا مقصد کیا ہے؟
اس کا جواب یہ ہے کہ صوفیائے کرام کے مراقبات کا مقصد اصل کو simulate کر کے ایک ایسی کیفیت کو حاصل کرنا ہوتا ہے، جو اصل کو حاصل کرنے سے حاصل ہوتی۔ مثلاً کیفیتِ احسان سے ایسی عبادت کی کوشش کی جاتی ہے جو اللہ تعالیٰ کا مشاہدہ کرنے پر ادا ہوتی۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کوشش کو ہی اصل consider کر لیا جاتا ہے۔ یہ تب ہوسکتا ہے جب اس کے موانع دور ہوجائیں چونکہ اس کا سب سے بڑا مانع ہمارا نفس ہے اس لئے اس کیفیت تک پہنچنا نفس کی اصلاح کے بغیر ممکن نہیں ۔اس سے معلوم ہوا کہ کیفیت احسان مراقبہ تو نہیں لیکن مراقبہ اس کا اولین ذریعہ ضرور ہوسکتا ہے۔
مجد الف ثانی ؒ کے ایک قول کا مطلب:
حضرت رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اللہ موجود ہے مگر قطعاً بغیر کسی وجود کے موجود ہے۔
اس سے مراد حضرت ؒ کی یہ ہے کہ اللہ کی ذات موجود ہے اور ایسا موجود ہے کہ واجب الوجود وہی ہیں اور باقی موجودات اس کے ارادے سے موجود ہیں اور ظلال ہیں تو اپنے ان مخلوقی وجود کے ذریعے اللہ موجود نہیں جس کو ہم وجود سمجھتے ہیں کیونکہ وہ تو خود اس کا پیدا کردہ ہے اس کے ذریعے کیسے موجود ہوسکتے ہیں کیونکہ وہ تو اس سے پہلے موجود ہے ۔ ہم جس کو موجود سمجھتے ہیں تو وہ یہ ہوتا ہے کہ خارج میں یعنی اس کائنات میں کوئی موجود ہو تو کائنات جب خود اللہ تعالیٰ کا پیدا کردہ ہے تو اس کے ساتھ وہ کیسے موجود ہوسکتے ہیں؟ اس کے لئے ایک علمی بات کو سمجھنا بہت مفید ہے وہ یہ کہ کسی چیز کی تعریف اگر کرنی ہو تو اس میں جس کی تعریف کی جارہی اس کا استعمال ممنوع ہوتا ہے کیونکہ اس کی تعریف ہورہی ہے۔ اسی طرح جو وجود اللہ تعالیٰ کا پیدا کردہ ہے اس کے ذریعے وہ کیسے موجود ہوسکتا ہے؟
حضرت شاہ ولی اللہؒ کی ایک عمیق اور کارآمد تحقیق:
بات تو حضرت مجدد الف ثانی ؒ ہی کی صحیح ہے لیکن عوام کو یہ بات سمجھ نہیں آسکتی۔ عوام کئ نزدیک چیزیں یا ذہن میں پائی جاتی ہیں یا خارج میں پائی جاتی ہیں یا نہیں پائی جاتیں جیسے عدمات، پس اللہ تعالیٰ کیا ذہن میں محض خیال میں پائے جاتے ہیں یا خارج میں پائے جاتے ہیں یا نہیں پائے جاتے کیونکہ عوام کائنات سے باہر کا سوچ نہیں سکتے تو ایسی صورت میں عوام کے لئے اتنی رخصت ہے کہ وہ یہ جانیں کہ اللہ تعالیٰ خارج میں پائے جاتے ہیں لیکن اس طرح نہیں جیسے اور موجودات جو مخلوقات ہیں پائی جاتی ہیں بلکہ اس کے لئے ان میں کوئی مثال موجود نہیں۔ (لَيْسَ كَمِثْلِهٖ شَيْءٌ) اس کے لئے فرمایا گیا ہے۔ عوام کے لئے یہ ادراک تقریباً ناممکن ہے کہ ایک ایسی برتر ہستی ہے جس کا مؤطن یہ نہیں جس میں اس کے ظِلال ہیں یعنی اس کے مخلوقات۔ اتنی رخصت شریعت اس میں دیتی ہے (لَا یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَہَا) (البقرہ: 286) کے قانون کے تحت جیسا کہ سمیع و بصیر اللہ کو کہنے کی اجازت دی لیکن ساتھ یہ ہے کہ اس کا دیکھنا اور سننا اس طرح نہیں جس طرح اس کے مخلوق کا سننا یا دیکھنا ہے۔
سافٹ وئر کی وجہ سے سکرین پر نظر آنے والی قسم قسم کی چیزوں اور خود سافٹ وئر کے کوڈ کے درمیان جو نسبت ہے، اس کی مثال دے کر فاطر و مفطور کے تعلق کو جو سمجھایا گیا تھا، اس میں ایک چیز رہ گئی تھی۔ وہ یہ کہ مفطور، مخلوق یا ممکن میں جو ارادہ اور اختیار کی صفت ہے، وہ اس مثال میں نہیں پائی جاتی کیونکہ سکرین پر نظر آنے والی چیزیں سافٹ وئر کی ہدایات کے بغیر کچھ نہیں کرسکتی ہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ چونکہ ہر چیز پر قادر ہیں اس لئے وہ اپنے تخلیق کردہ مخلوق جن کی حیثیت ظلال کی سی ہے، ان میں اختیار کی صفت ڈال سکتے ہیں۔ (وَمَا خَلَقْتَ ھٰذَا باطِلاً) (آل عمران:191) میں اس کی تائید ہے لیکن ان کا اللہ تعالیٰ کی ذات پر کوئی اثر نہیں۔ اس کے لئے (سُبْحَانَکَ) فرمایا۔
جملہ معترضہ:
آج کل artificial intelligent system کی اصطلاح جو استعمال ہوتی ہے، وہ درست نہیں ہے۔ اس کی اصل حقیقت intelligently programmed system ہے۔