اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
آج کا درس جس عنوان سے ہم شروع کر رہے ہیں وہ ہے تواضع کی فضیلت۔
تواضع کی فضیلت کے بارے میں دفتر اول کے مکتوب نمبر 68 میں حضرت ارشاد فرماتے ہیں کہ:
متن:
تواضع دولتمندوں (کی طرف) سے اچھی ہے اور استغناء و بے نیازی فقراء (کی طرف) سے، اس لئے کہ معالجہ اضداد (بالمقابل چیزوں) کے ساتھ ہوتا ہے۔
تشریح:
یعنی جو لوگ دولت مند ہیں یا اونچے عہدوں پر فائز ہیں، ان کی نفس کُشی تواضع میں ہے۔ انسان اپنے آپ کو کچھ نہ سمجھے اور اللہ تعالیٰ کے لئے اپنے آپ کو مخلوق کے سامنے عاجز کر دے۔ یہ عمل تواضع کہلاتا ہے بشرطیکہ اللہ کے لئے ہو۔ اگر دنیا کے لئے ہے تو پھر یہ مکر ہے یا احساسِ کمتری ہے۔ اللہ کے لئے اپنے آپ کو نیچے گرانا تواضع ہے، جو اللہ کے لئے تواضع کرتا ہے اس کے بارے میں حدیث شریف میں بھی آتا ہے: ”مَنْ تَوَاضَعَ لِلّٰہِ رَفَعَهُ اللّٰہُ“۔ (شعب الایمان للبیہقی، حدیث نمبر: 8140)
ترجمہ: ’’جس نے اللہ کے لئے تواضع اختیار کی اللہ پاک نے اس کو بلند کر دیا۔‘‘
انسان جتنا اپنے آپ کو اللہ کے لئے گراتا جاتا ہے، اتنا اللہ تعالیٰ اس کو بلند کرتا جاتا ہے۔ استغناء و بے نیازی فقراء کی طرف سے اچھی ہے۔ مخلوق کی جیب پر نظر نہ ڈالنا، مخلوق کے عہدے پہ نظر نہ ڈالنا، مخلوق کے پاس جو نعمتیں ہیں، ان پہ نظر نہ ڈالنا، صرف الله جل شانهٗ کی طرف اپنی نظر رکھنا، یہ استغنا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ جب اللہ والے دولت مند ہوتے ہیں تو انتہائی متواضع ہوتے ہیں اور جس وقت فقراء ہوتے ہیں تو بڑے ہی مستغنی ہوتے ہیں۔
حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء رحمة اللہ علیہ سے بادشاہِ وقت نے کہا کہ میں آپ سے ملنا چاہتا ہوں۔ حضرت نے فرمایا: میرے گھر کے دو دروازے ہیں، ایک دروازے سے آپ اندر داخل ہوں گے تو دوسرے دروازے سے میں نکل جاؤں گا۔
بزرگوں کا ایک مشہور قول ہے: ’’نِعْمَ الْاَمِیْرُ عَلیٰ بَابِ الْفَقِیْر‘‘ ’’اچھا امیر وہ ہے جو فقیر کے در پہ آئے‘‘۔ ’’وَ بِئْسَ الْفَقِیْرُ عَلیٰ بَابِ الْاَمِیْرِ‘‘ ’’اور برا فقیر وہ ہے جو امیر کے در پر (اس سے کوئی دنیا کا فائدہ حاصل کرنے کے لئے) آ جائے۔ اس میں دونوں چیزیں آ گئیں۔
دفتر اول کے مکتوب نمبر 69 میں حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں:
متن:
آپ کا محبت نامہ گرامی جو کہ آپ نے برادرم مولانا محمد صدیق کے ہمراہ ارسال فرمایا تھا موصول ہوا، آپ نے بڑی مہربانی فرمائی: جَزَاکُمُ اللّٰہُ سُبْحَانَہٗ عَنَّا خَیْرَ الْجَزَاءِ (اللہ تعالیٰ آپ کو ہماری طرف سے جزائے خیر عطا فرمائے) چونکہ آپ نے فقراء کے آداب کو مدِ نظر رکھا ہے اور تواضع سے گفتگو کی ہے۔
تشریح:
اس سے پتا چلا کہ مکتوب الیہ کوئی افسر یا بڑا آدمی ہے۔
متن:
(لہذا) امید ہے کہ مَنْ تَوَاضَعَ لِلّٰہِ رَفَعَہُ اللّٰہُ (جس نے اللہ تعالیٰ (کی رضا) کے لئے تواضع اختیار کی اللہ تعالیٰ نے اس کو بلند کر دیا) کے مصداق یہ فروتنی و عاجزی، دینی و دنیوی سربلندی اور عزت کا سبب ہو جائے گی بلکہ ہوگئی ہے آپ کو بشارت و مبارک ہو، جب آپ نے انابت اور رجوع کے الفاظ استعمال کئے ہیں تو ایسا تصور فرمائیں کہ یہ انابت درویشوں میں سے کسی درویش کے ہاتھ پر واقع ہوئی ہے اس کے نتائج و ثمرات کے امیدوار رہیں لیکن جہان تک ہوسکے اس کے حقوق کو (پوری طرح) بجا لانا چاہئے۔
تشریح:
مطلب یہ ہے کہ یہ نعمت اللہ والوں کے در سے ملا کرتی ہے۔ جس کو مل جائے ان کے لئے بشارت ہے۔ حدیث شریف میں ہے: ”مَنْ تَوَاضَعَ لِلّٰہِ رَفَعَهُ اللّٰہُ“۔ (شعب الایمان للبیہقی، حدیث نمبر: 8140)
ترجمہ: ’’جس نے اللہ کے لئے تواضع اختیار کی اللہ پاک نے اس کو بلند کر دیا۔‘‘
فضیلتِ تقوٰی و ورع:
فضیلتِ تقوٰی و ورع کے بارے میں دفتر اول کے مکتوب نمبر 76 میں حضرت ارشاد فرماتے ہیں:
متن:
اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿مَا آتٰکُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُ وَمَا نَھٰکُمْ عَنْہُ فَانْتَھُوْا﴾ (الحشر: 59 آیت: 07) (یہ رسول جو کچھ تم کو دے اس کو لے لو اور جس چیز سے منع کرے اس سے رک جاؤ)۔
(لہذا) نجات کا مدار دو چیزوں پر ہوا، (یعنی) اوامر کا بجا لانا اور نواہی سے رک جانا۔
تشریح:
یعنی جن چیزوں کا حکم ہوا ہے، ان کو پورا کرنے اور جن چیزوں سے روکا ہے، ان سے رک جانے پر نجات کا دار و مدار ہے۔
متن:
اور ان دونوں جزوں میں سے جزو آخر زیادہ عظمت والا ہے۔
تشریح:
جزوِ آخر سے مراد برائیوں سے رک جانا ہے۔
متن:
جس کو ورع و تقوٰی (پرہیزگاری) سے تعبیر کیا گیا ہے۔ ذُکِرَ رَجُلٌ عِنْدَ رَسُوْلِ اللہِ صَلَّی اللہُ تَعَالیٰ عَلَیْہِ وَعَلَی آلِہٖ وَ سَلَّمَ بِعِبَادَۃٍ وَاجْتِھَادٍ وَذُکِرَ آخَرُ بِرِعَۃٍ فَقَالَ صَلَّی اللہُ تَعَالیٰ عَلَیْہِ وَعَلَی آلِہٖ وَسَلَّمَ لَا تَعْدِلُ بِالرِّعَۃِ شَیْئًا یَعْنِی الْوَرَعَ۔ وَقَالَ اَیْضًا عَلَیْہِ مِنَ الصَّلوت اَتَمُّھَا وَمِنَ التَّسْلِیْمَاتِ اَکْمَلُھَا مِلَاکُ دِیْنِکُمُ الْوَرَعُ.
(یعنی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں ایک شخص کا ذکر عبادت و اجتہاد کے ساتھ کیا گیا (یعنی وہ بڑا عبادت و ریاضت میں مشغول رہتا ہے)
تشریح:
اجتہاد سے مراد یہ ہے کہ وہ جد و جہد اور نفس کشی کے ساتھ رہتا ہے۔
متن:
اور دوسرے شخص کا ذکر ورع (تقوٰی) کے ساتھ
تشریح:
وَرع تقوٰی کو کہتے ہیں۔
متن:
تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ ورع یعنی پرہیزگاری کے برابر کوئی چیز نہیں ہے۔ اور نیز نبی کریم ﷺ نے فرمایا تمھارے دین کا مقصود ورع یعنی پرہیزگاری ہے)۔ اور انسان کی فرشتوں پر فضیلت اسی جزو (آخر) سے ثابت ہے۔
تشریح:
سبحان اللہ! کیا جامع فقرہ ہے۔ ی ہبہت اہم بات ہے۔ ”اسی جزو سے ثابت ہے“ کا مطلب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نفس کی طرف اشارہ کیا۔ نفس کے اندر دو چیزیں ہیں: ایک اس کا فجور اور دوسرا اس کا تقوٰی۔ پس جس کا نفس ہوتا ہے، تقوٰی اسی کو حاصل ہوتا ہے۔ جس کا نفس ہی نہیں ہے اس میں تقوٰی کا ہونا نہ ہونا برابر ہے۔ تقوٰی کا وجود نفس کے ساتھ ہی ہے۔ کیونکہ نفسانی فجور کے مقابلہ کو تقوٰی کہتے ہیں۔ جب نفس ہی نہیں تو نفسانی فجور بھی نہیں ہیں اور جب نفسانی فجور نہیں تو تقوٰی کہاں سے ہو گا۔
مثلاً کوئی اندھا کہے کہ میں بد نظری نہیں کرتا تو اس کو کوئی ثواب نہیں ملے گا کیونکہ وہ بد نظری کر ہی نہیں سکتا، جب کر نہیں سکتا تو اس نہ کرنے پر ثواب بھی نہیں ہے۔ جو بد نظری کر سکتا ہے اس کے باوجود بچتا ہے، اسے ثواب ملتا ہے۔ یہ اتنا اہم نکتہ ہے کہ یہ ہر سالک کو سب سے پہلے سمجھ میں آنا چاہئے، ورنہ وہ ہمیشہ پریشان رہے گا۔
بعض لوگ اکثر اپنے مشائخ کے پاس اپنا یہ مسئلہ لے کر آتے ہیں کہ ہمارے دل میں برائیوں کے خیالات آتے ہیں۔ مشائخ ان کو تسلی دیتے ہیں کہ بھئی یہ خیالات تمہارے کنٹرول میں نہیں ہیں۔ جو تمہارے کنٹرول میں ہے اس پر عمل کرو۔ خیال کا بھگانا تمہارے کنٹرول میں نہیں ہے۔ البتہ غلط باتوں کے وسوسوں پہ عمل نہ کرنا تمہارے بس میں ہے۔
مثلاً کسی شخص کے پاس چھری ہے اور اسے وسوسہ آ جائے کہ یہ چھری کسی شخص کے پیٹ میں گھونپ دو۔ اُسے اِس وسوسہ پر کوئی گناہ نہیں ہے، کیونکہ یہ وسوسہ ہے۔ لیکن اگر عملی طور پر چھری گھونپ دی، تو پھر قتل ہے اور نہ گھونپی تو تقوٰی ہے۔
مثلاً میرے سامنے شراب کا پیالہ پڑا ہوا ہے۔ یہاں تو خیر اس کا تصور نہیں کیا جا سکتا، لیکن جو لوگ یورپ جا چکے ہیں انہیں علم ہے کہ جیسے ہمارے ہاں پروگراموں میں چائے پیش کی جاتی ہے، وہاں شراب پیش کی جاتی ہے۔ بلکہ چائے اور جوس وغیرہ کے لئے آپ کو کوشش کرنی پڑے گی۔ لیکن شراب کے لئے کوشش نہیں کرنی پڑے گی۔ وہ ان کی تقریبات کا ایک لازمی جزو ہے۔ لیکن حلال کے لئے آپ کو باقاعدہ بندوبست کرنا پڑتا ہے۔ ایسی صورت میں تقوٰی وجود میں آتا ہے۔ آپ کے سامنے شراب کا پیالہ پڑا ہوا ہے لیکن آپ اس کو پی نہیں رہے۔ اگر آپ پئیں گے، تو آپ کو کوئی کچھ بھی نہیں کہے گا، کیونکہ ماحول ہی ایسا ہے۔ وہاں لوگ نہ پینے والوں کو شاید کچھ کہیں، لیکن پینے والے کو کوئی کچھ نہیں کہے گا۔ بعض گھرانے انتہائی جدید قسم کے ہوتے ہیں، ان کے ہاں پردے کا تصور ہی نہیں ہوتا، بلکہ بعض دفعہ دوسری طرف سے دعوت ہوتی ہے۔ ایسی صورت میں اس سے بچ جانا تقوٰی ہے۔
حضرت مولانا اشرف صاحب رحمة اللہ علیہ نے ایک دفعہ ارشاد فرمایا کہ ہمارے شیخ سید سلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ صاحب نے فرمایا: ”ہماری رہبانیت یہ ہے کہ شباب ہو، تنہائی ہو، دعوت ہو اور ہم کہیں کہ ہم تو اللہ سے ڈرتے ہیں۔“ یہ ہماری رہبانیت ہے، لفظ "رہبانیت" پہ ذرا غور کریں، اپنے اوپر لذائذ کو بند کرنے کا عرفی نام رہبانیت ہے۔ راہب لوگ یہی کرتے ہیں۔ اسلام کے مطابق جائز چیزوں کو اپنے اوپر بند کرنے کا حکم نہیں ہے۔ مثلاً اگر آپ کا روزہ نہیں ہے، آپ بیمار نہیں ہیں، تندرست ہیں، ٹھنڈا پانی موجود ہے اور آپ پینا چاہتے ہیں تو خوب پئیں، آپ کو کس نے روکا ہے، آپ کے پاس میٹھا حلوہ ہے اور آپ بیمار نہیں ہیں، شوگر وغیرہ نہیں ہے، آپ اسے کھانا چاہتے ہیں تو یہ حلال ہے، خوب کھائیں، شریعت آپ کو نہیں روک رہی ہے، اسی طرح شریعت آپ کو خوبصورت بیوی سے نہیں روکتی، کسی بھی قسم کی جائز چیزوں سے منع نہیں کرتی، لیکن جو ناجائز ہے، چاہے وہ کم درجہ کا ناجائز ہو یا زیادہ درجہ کا، مثلاً حرام ہو یا مکروہ ہو، اس کی اجازت نہیں ہے۔ بلکہ یہاں تک فرمایا کہ جس نے اپنے آپ کو لا یعنی امور سے بچا لیا اس نے اپنے دین کو بچا لیا۔ اس لئے کہ لا یعنی میں کچھ بھی فائدہ نہیں ہے۔
لا یعنی کیا ہوتا ہے؟
Time is very precious, it's all the time flowing, it cannot be stopped.
یعنی وقت رک نہیں سکتا، وقت تو جا رہا ہے۔
؎ غافل تجھے گھڑیال یہ دیتا ہے منادی
گَردُوں نے گھڑی عمر کی اک اور گھٹا دی
بعض دفعہ میں سوچتا ہوں کہ اتنی تیزی سے ہفتہ گذرتا ہے کہ آدمی حیران ہو جاتا ہے کہ کیسے گذر گیا۔ ابھی ہم نے جمعہ کی نماز پڑھی ہوتی ہے اور دوسرا جمعہ پھر آیا ہوتا ہے۔ اسی طرح اتوار کے بعد اگلا اتوار فوراً آ چکا ہوتا ہے۔ یوں وقت بڑی تیزی سے گذر رہا ہے۔ آپ اسے روک نہیں سکتے۔ اس میں تین قسم کے کام ہو سکتے ہیں: مثبت، منفی، صفر۔
مثبت: اوامر و نواہی کو پورا کرنا۔ شریعت کے مطابق چلنا مثبت ہے۔
منفی: شریعت کے خلاف چلنا منفی ہے۔
صفر: صفر کا مطلب ہے کہ ایسے کاموں میں وقت گذارنا جن میں شریعت کی مخالفت ہو نہ حمایت، یہ وقت کا ضائع کرنا ہے۔ مثلاً آپ نے ایک گھنٹہ ایسی چیز میں گذار دیا جس میں آپ کا نہ دنیا کا فائدہ ہے نہ آخرت کا فائدہ ہے۔ دنیا کے فائدہ سے مراد یہ ہے کہ مثلاً میں اس نیت سے کماتا ہوں کہ اس سے طاقت حاصل کروں گا، اس طاقت کو عبادت میں صرف کروں گا۔ اگر میں نے دنیا بھی نہیں کمائی کہ اسے آخرت کے لئے استعمال کروں اور دین کے لئے بھی ذکر وغیرہ نہیں کیا، کسی اچھی صحبت میں نہیں بیٹھا، قرآن پاک کی تلاوت نہیں کی، دعائیں نہیں کیں تو میں نے یہ وقت ضائع کر دیا۔ یہ ایسے ہی گذر گیا۔ ایسے کاموں کو لایعنی کہتے ہیں۔
جب معلوم ہو گیا کہ تقوٰی ان چیزوں سے بچنا ہے تو آپ کو باقاعدہ فکر ہونی چاہئے۔ ارشاد باری ہے: ﴿یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اتَّقُوْا اللّٰهَ وَ لْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍۚ وَّ اتَّقُوْا اللّٰهَ ؕ اِنَّ اللّٰهَ خَبِیْرٌۢ بِمَا تَعْمَلُوْنَ﴾۔ (الحشر: 18)
ترجمہ: ’’اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو، اور ہر شخص یہ دیکھے کہ اس نے کل کے لیے کیا آگے بھیجا ہے۔ اور اللہ سے ڈرو۔ یقین رکھو کہ جو کچھ تم کرتے ہو، اللہ اس سے پوری طرح باخبر ہے۔‘‘
یہاں دو دفعہ اِتَّقُوْا اللّٰهَ ہے۔
1۔ ”يَا أَيُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوْا اتَّقُوْا اللّٰهَ“ اے ایمان والو اللہ سے ڈرو۔
2۔ ”وَلْتَنظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ ۖ وَّ اتَّقُوْا اللّٰهَ“۔ چاہئے کہ ہر شخص خود ہی دیکھ بھال لے کہ وہ کل کے لئے کیا بھیج رہا ہے، اور اللہ سے ڈرو۔
ایک ”اِتَّقُوْا اللّٰهَ“ کا مطلب یہ ہے کہ تم یہ سوچو کہ تم آگے بھیج کیا رہے ہو۔ اور دوسرا ”اِتَّقُوْا اللّٰهَ“ یہ بتانے کے لئے ہے کہ ایسا مت سمجھو کہ کوئی چیز نظر سے مخفی رہ جائے گی۔ دنیا میں تو آنکھوں میں دھول جھونک سکتے ہو مگر آخرت میں ایسا نہیں کیا جا سکتا۔
دفتروں میں بعض لوگ یوں کرتے ہیں کہ thumb (انگوٹھا) لگا کر چلے جاتے ہیں، اس کے بعد چھٹی کے وقت پھر آ کر انگوٹھا لگاتے ہیں اور درمیان میں غیر حاضر رہتے ہیں۔ ایسا کر کے اگرچہ آپ نے لوگوں کی آنکھوں میں تو دھول جھونک دی، لیکن اللہ پاک کے سامنے ایسا معاملہ ممکن نہیں ہے۔ وہاں آپ کچھ نہیں کر سکتے۔ وہاں ساری چیزیں ریکارڈ ہو رہی ہیں۔
و اللہ اَعْلَمُ یہ ایک کہاوت ہے یا مثال ہے کہ کسی نے سوال کیا تھا کراماً کاتبین کیسے کام کرتے ہیں؟ ابھی اس نے یہ جملہ کہا ہی تھا کہ دفعتاً اسے ایک رجسٹر نظر آیا، اس میں لکھا تھا کہ ”کراماً کاتبین کیسے کام کرتے ہیں۔“ اس نے کہا: ارے یہ تو بالکل وہی لکھ دیا گیا جو میں نے کہا تھا۔
مقصد یہ ہے کہ جو ہو رہا ہے وہ بالکل اسی طرح ساتھ ساتھ ریکارڈ بھی ہو رہا ہے۔ اس سے یہ ثابت ہوا کہ وہاں تو سارا معاملہ بالکل کھرا ہے، لہٰذا وہاں کسی کو دھوکا نہیں دیا جا سکتا۔
فرشتوں کے پاس تقوٰی نہیں ہے۔ کیونکہ فرشتوں کے پاس نفس ہی نہیں ہے۔ ان کا معاملہ الگ ہے۔ وہ تو ہیں ہی پاک مخلوق۔ اس لئے وہ ان چیزوں سے محفوظ ہیں۔ حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے یہاں پر یہ فرمایا کہ انسان کو فرشتوں کے اوپر فضیلت اسی بنیاد پر ہے کہ فرشتوں کے پاس نفس نہیں ہے اور انسان کے پاس نفس ہے۔
متن:
اور انسانوں کی فرشتوں پر فضیلت اسی جزو سے ثابت ہے اور قرب الہی کے درجوں پر ترقی بھی اسی جزو سے ثابت ہے کیونکہ فرشتے پہلے جزو میں شریک ہیں اور ترقی ان میں مفقود ہے۔
تشریح:
پہلا جزو اوامر و نواہی ہے۔ فرشتے بھی اوامر و نواہی پر عمل کر رہے ہیں لیکن ان کے ساتھ نفس نہیں ہے اس لئے ان میں تقوٰی والی بات بھی نہیں ہے۔
متن:
پس جزو ورع و تقوٰی کا مد نظر رکھنا اسلام کے اعلیٰ ترین مقاصد اور دین کی نہایت اہم ضروریات میں سے ہے اور یہ جزو جس کا مدار حرام چیزوں سے بچنے پر ہے کامل طور پر اس وقت حاصل ہوتا ہے جب کہ فضول (غیر ضروری) مباحات سے پرہیز کیا جائے اور بقدر ضرورت مباحات پر کفایت کی جائے کیونکہ مباحات کے اختیار کرنے میں باگ ڈور کا ڈھیلا چھوڑ دینا مشتبہ چیزوں (کے اختیار کرنے) تک پہنچا دیتا ہے اور مشتبہ حرام کے نزدیک ہے، مَنْ حَامَ حَوْلَ الْحِمٰی یُوْشِکُ اَنْ یَّقَعَ فِیْہ(جو شخص چراگاہ کے گرد پھرا قریب ہے کہ اس میں جا پڑے)۔
تشریح:
حضرت نے تقوٰی کے بارے میں یہ بات ارشاد فرمائی ہے کہ تقوٰی کی وجہ سے انسان کو فرشتوں پر فضیلت حاصل ہے۔ کیونکہ باقی کام تو فرشتے انسان سے بہتر ہی کرتے ہیں۔ لیکن فرشتوں کے پاس نفس نہیں ہے۔ تقوٰی نفس سے بنتا ہے، (اس بات سے ثابت ہو گیا کہ تقوٰی نفس میں بنتا ہے، اور دل میں جمع ہوتا ہے) چونکہ فرشتوں کے پاس نفس نہیں ہے، لہذا وہاں پر تقوٰی والی بات بھی نہیں ہے۔
فرمایا کہ تقوٰی نہ صرف حرام چیزوں سے بچنے کے لئے ذریعہ ہے بلکہ مکروہات اور فضول مباحات سے بھی اپنے آپ کو بچانا تقوٰی میں شامل ہے۔ فضول مباحات کی سرحد حرام چیزوں کے ساتھ ملی ہوئی ہے۔ اگر انسان اپنی باگ کو ذرا سا بھی ڈھیلا چھوڑ دے تو عین ممکن ہے کہ بے احتیاطی کی وجہ سے کہیں حرام میں نہ جا پڑے۔ مثلاً آپ بیسویں منزل پر ہیں، آپ کے ساتھ چھوٹا سا بچہ ہے اور چھت کی منڈیر نہیں ہے۔ کیا آپ اس بچے کو اپنے ہاتھ سے چھوڑ سکتے ہیں؟ کیا یہ جرأت کر سکتے ہیں کہ بچے کو آزاد چھوڑ دیں کہ چلو کھیل لو۔ ظاہر ہے آپ ہرگز ایسا نہیں کریں گے۔ ایسے وقت میں بچے کو چھوڑنا نا ممکن ہے۔ اسی طرح جب عورتیں بچوں کے ساتھ سڑک پار کر رہی ہوتی ہیں، تو ذرا آپ ان کو دیکھیں، وہ بیچاری کتنی ٹینشن میں ہوتی ہیں کہ بچوں کے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں پکڑے ہوئے ادھر ادھر دیکھتی ہیں، پھر جلدی سے سڑک کو پار کرنا چاہتی ہیں۔ کیونکہ انہیں ڈر ہوتا ہے کہ کہیں چھوٹے بچے ہاتھ سے چھوٹ نہ جائیں اور معاملات خراب نہ ہو جائیں۔ اسی طرح اگر آپ کو بچہ کے نقصان ہونے کا خطرہ ہو تو آپ کو بڑی پریشانی ہوتی ہے، اور آپ اپنے آپ کو اس کی نگرانی سے غافل نہیں ہونے دیتے۔
اسی طرح ہمارا نفس بھی بچہ ہے۔ بچے میں تو تھوڑا بہت شعور ہوتا ہے لیکن نفس میں بالکل شعور نہیں ہے۔ نفس کو اپنے نقصان کا ذرہ بھر بھی خیال نہیں ہوتا۔ جیسے چھوٹا بچہ آپ کے سامنے ہنستے ہنستے پاور پلگ میں انگلی دے دے گا، اسے معلوم نہیں ہوتا کہ اس سے کیا نقصان ہوتا ہے۔ لیکن جب اسے نقصان ہوتا ہے تو روتا ہے۔ اسی طرح نفس کو بھی بعد میں تکلیف ہو گی۔ نفس بالکل بچے کی طرح ہے بلکہ بچے سے بھی زیادہ نادان ہے۔ اگر آپ نے اس کو کھلا چھوڑ دیا تو عین ممکن ہے کہ اپنے آپ کو نقصان پہنچائے۔ اسے کھلا نہ چھوڑنا تقوٰی ہے۔ تقوٰی کے ذریعے آپ اس پہ پابندی لگائیں گے کہ یہ کر سکتے ہو، یہ نہیں کر سکتے۔
سفر کے دوران ہمارے ساتھ گاڑیوں میں بچے ہوتے ہیں۔ ان کی بڑی کوشش ہوتی ہے کہ وہ کھڑے رہیں اور ساری چیزیں ونڈ اسکرین پر دیکھتے رہیں۔ جتنی دیر وہ کھڑے ہوتے ہیں ہمیں پریشانی ہی رہتی ہے کہ اگر جھٹکا لگ گیا تو یہ بچے گر سکتے ہیں۔ اپنے آپ کو بچا نہیں سکتے، اگر گر گئے تو نقصان ہو جائے گا۔ ہمیں اس بات کی بے حد پریشانی ہوتی ہے مگر خود بچون کو کوئی پریشانی نہیں ہوتی۔ وہ چاہتے ہیں کہ اسی طرح کھڑے رہیں لیکن آپ نے ان کو سنبھالنا ہوتا ہے۔ اسی طریقے سے اپنے نفس کو قابو کرنا اور اس کی نگرانی کرنا آپ کی ذمہ داری ہے۔ نفس اپنے آپ کو خود نہیں بچائے گا۔
حضرت اویس قرنی رحمۃ اللہ علیہ بہت مجاہدہ کرتے تھے، ایک دفعہ والدہ نے کہا کہ بیٹا ذرا نفس پہ تھوڑا سا ترس کھاؤ، کچھ آرام بھی کر لیا کرو۔ انہوں نے کہا: اماں جی میں یہ مجاہدہ اسی نفس ہی کے لئے تو کر رہا ہوں۔ اگر میں آج یہ نہیں کروں گا تو یہی نفس جہنم میں جلے گا۔
الغرض تقوٰی وہ چیز ہے جس سے آپ اپنے نفس کو برائی میں پڑنے سے بچائے رکھتے ہیں ہیں۔
متن:
پس ورع و تقوٰی کامل طور پر حاصل کرنے کے لئے بقدر ضرورت مباحات پر کفایت کرنا لازمی ہے اور یہ بھی اس شرط پر کہ اس میں عبادت و اعمال کرنے کی نیت ہو ورنہ اس قدر (مباحات اختیار کرنا) بھی وبال ہے۔
تشریح:
اگر دنیا کا کوئی کام کرتے ہوئے آپ کی نیت آخرت کی نہیں ہے تو وہ وبال ہے۔ مثلاً میں صرف پیسے کمانے کے لئے کاروبار یا ملازمت کرتا ہوں تو یہ وبال ہے لیکن اگر میں اس لئے کاروبار کر رہا ہوں یا اس لئے ملازمت کر رہا ہوں تاکہ میں اتنا کماؤں کہ لوگوں کے حقوق جو مجھ پر ہیں، انہیں پورا کر سکوں تو یہ عبادت ہے۔ اس نیت سے میرے دنیا کے سارے کام عبادت بن جاتے ہیں لیکن اگر میں یہ نیت نہ کروں تو دنیا کے سارے کام میرے لئے وبال بن سکتے ہیں۔ کیونکہ میرا اصل سرمایہ یعنی وقت تو اس پر لگ رہا ہے اور مجھے کچھ بھی نہیں مل رہا۔ یہ وبال ہی ہے۔ اس وبال سے بچنے کے لئے ضروری ہے کہ میں ہر وقت اپنے نفس کو قابو رکھوں اور اپنی نیت کو درست رکھوں، کیونکہ ”اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیِّاتِ“ (بخاری شریف، حدیث نمبر: 1) ترجمہ: ’’تمام اعمال کا دار و مدار نیتوں پر ہے۔‘‘ لہٰذا اپنی نیتوں کو درست کر لو۔
تین چیزیں ہر وقت فعال رہتی ہیں۔ دل، عقل اور نفس۔
1۔ ایمان کے ساتھ کروں گا، تب اعمال کی قیمت ہو گی، یہ دل کی بات ہے۔
2۔ نیت صحیح کروں گا، تب اعمال کی قیمت ہو گی، یہ عقل کی بات ہے۔
3۔ نفس کو قابو کروں گا، تب اعمال کی قیمت ہو گی، یہ نفس کی بات ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ یہ تین چیزیں ہر وقت کنٹرول کر رہے ہوتے ہیں، اگر یہ قابو میں نہ رہیں، تو پھر کام صحیح نہیں ہوتا۔
مباحات کو آپ یوں سمجھیں کہ آپ کو ایک grey area دیا گیا ہے، اس grey area میں آپ کچھ کام کر سکتے ہیں، لیکن اس grey area میں بھی نیت اچھائی کی ہو، دین پہ چلنے کی ہو تب تو ٹھیک ہے ورنہ یہ آپ کے لئے وبال بن سکتا ہے۔
متن:
اور اس کا قلیل بھی کثیر کا حکم رکھتا ہے۔ اور چونکہ فضول مباحات سے کلی طور پر بچنا ہر زمانہ میں اور خاص طور پر اس زمانے میں بہت دشوار ہے (اس لئے) حرام چیزوں سے بچتے ہوئے حتی الامکان فضول مباحات اختیار کرنے کا دائرہ بہت تنگ کرنا چاہئے اور اس اختیار کرنے میں ہمیشہ شرمندہ و پشیمان ہونا اور توبہ و استغفار کرنا چاہئے اور اس (فضول مباحات) کو محرمات میں داخل ہونے کی کھڑکی جانتے ہوئے حق سبحانہ و تعالیٰ کی بارگاہ میں التجا و گریہ و زاری کرتے رہنا چاہئے شاید کہ یہ ندامت (پشیمانی) و استغفار اور التجا و تضرع اس فضول مباحات سے بچنے کا کام کر جائے اور اس کی آفت سے محفوظ و مامون کر دے۔
تشریح:
میں آپ کو اس کی آج کل کے لحاظ سے ایک بہت اہم مثال دیتا ہوں۔ یہ جو موبائل ہے، اس پر شر اور خیر ہر وقت بالکل ساتھ ملے ہوئے ہیں۔ اگر آپ نے ذرہ بھر بھی اپنی آپ کو ڈھیل دے دی تو آپ بغیر کسی محنت کے شر میں پڑ سکتے ہیں۔ صرف کنٹرول کمزور کر لیں تو بس شر میں پہنچ جائیں گے۔ اب آپ کہتے ہیں کہ میں تو اس میں کال سنتا ہوں۔ آج کل کی زندگی میں اس کے بغیر کام نہیں ہوتا اور مجھے میسیجز کو دیکھنا ہوتا ہے۔ انٹرنیٹ پر بڑی اچھی معلومات دستیاب ہیں۔ میں اس پہ سرچ کر سکتا ہوں۔ براؤزنگ کر سکتا ہوں۔ میں نے یہ ساری چیزیں مان لیں لیکن یہ بھی دیکھئے کہ دوسری طرف شیطانی نظام بھی سرگرم ہے۔ شیطانی نظام نے اس میں اچھی اچھی چیزیں اس طرح مہیا کی ہیں کہ اس کے ساتھ گندی چیزیں (بغیر کسی وجہ کے) بالکل قریب موجود ہوتی ہیں۔
کچھ لوگوں نے ہمارے آڈیو بیانات کی ویڈیوز بنا کر یوٹیوب پر اَپ لوڈ کی ہوئی تھیں، مجھے اس کا علم براؤزنگ سے ہوا۔ اس میں ناجائز تصویریں نہیں تھیں۔ صرف ڈسپلے تھا، میں نے اس کو کلک کیا تو اس کے ساتھ میرے چار پانچ اور کلپس بھی آ گئے۔ اور اس کے ساتھ ہی ساری گندی چیزیں آ گئیں۔ جس نے وہ ویڈیوز بنائی تھیں، اس کا نام لکھا ہوا تھا، میں نے اس کے ساتھ رابطہ کیا اور کہا: خدا کے بندے! آپ نے یہ آڈیوز کیسی جگہ پر رکھی ہیں؟ کسی اچھی جگہ پر رکھتے۔ انہوں نے کہا: میں نے اچھی جگہ پر رکھی ہیں، لیکن جب یہ لوگ دیکھتے ہیں کہ کسی اچھی چیز کہ اس کا کچھ اثر ہونے لگا ہے، کچھ لوگ اس کو کلک کرنے لگے ہیں، تو اس کے ساتھ ہی دوسری چیزیں لگا دیتے ہیں، یہ کام باقاعدہ منصوبہ بندی کے ساتھ ہو رہا ہے۔ یہ بات بالکل صحیح ہے کہ وہ ایسا کرتے ہیں اور آپ اس سلسلہ میں کچھ نہیں کر سکتے۔ ہاں اگر آپ کی اپنی ذاتی ویب سائٹ ہو جس پر پورا اختیار آپ کا ہی ہو، کسی اور کو اختیار نہ ہو، تو اس کو آپ بچا سکتے ہیں، باقی کوئی چیز نہیں بچا سکتے، باقی سب ان کے کنٹرول میں ہے۔ یوٹیوب چینلز پر آپ بے شک اچھی چیز رکھ دیں پھر بھی اس کے ساتھ دوسری چیزیں نظر آنا شروع ہو جائیں گی۔ ایک مرتبہ مجھے حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی رحمۃ اللہ علیہ کی تفسیرِ عثمانی کی ضرورت تھی۔ میں نیٹ سے ڈاؤن لوڈ کرنا چاہتا تھا۔ میں نے انٹر نیٹ پر ڈھونڈی تو وہ مجھے مل گئی۔ مجھے بڑی خوشی ہوئی۔ میں اس کو استعمال کرنے کی کوشش کر رہا تھا کہ اچانک میری نظر دائیں طرف پڑی تو وہاں گندی چیزیں بالکل پاس نظر آ رہی تھیں، مجھے پتا بھی نہیں چلا کہ یہ کس وقت نمودار ہوئیں۔ ایسا عجیب نظام ہے کہ انسان حیران ہو جاتا ہے اور اب تو بہت دیدہ دلیری ہے۔ پہلے آپ کو تھوڑا سا اختیار دیا جاتا تھا کہ اگر آپ نے اسے اپلائی کیا ہے تو آپ کے پاس آئے گا ورنہ نہیں آئے گا۔ پہلے اس مسئلے میں کچھ نہ کچھ ادب آداب ہوتے تھے مگر اب تو یہ صورتِ حال ہے کہ آپ اخبار دیکھ رہے ہیں، اخبار میں چار پانچ مضامین گذرے، پھر گندی چیزیں، اس کے بعد پھر صحیح چیزیں، پھر گندی چیزیں، پھر اس کے بعد صحیح چیزیں۔ اس طرح یہی ترتیب چلتی رہتی ہے۔ گویا آدمی کسی طرح بچ ہی نہیں سکتا۔ بچے گا وہی جو پوری طرح چوکس ہو گا۔ جس کو ہر طرح سے استحضار (alertness) حاصل ہو گا وہی بچ سکے گا۔
جرمنی میں ہماری رہائش گاہ ہماری یونیورسٹی سے تقریباً پانچ چھ منٹ کے فاصلے پہ تھی۔ میں مین سڑک پہ جا کر دوسری مین سڑک سے مڑ کے دائیں سمت پہ اپنی جگہ پہنچ جاتا تھا۔ اس طرح مجھے 90 ڈگری پہ مڑنا ہوتا تھا، تقریباً پانچ چھ منٹ کا فاصلہ تھا۔ ایک بار ایسا ہوا کہ مغرب کا وقت تھا، مجھے تھوڑی دیر ہو گئی تھی، میں ذرا جلدی پہنچنا چاہتا تھا۔ وہاں ایک diagonal والا راستہ تھا، جس پہ میں کبھی نہیں گیا تھا، لیکن نظر آتا تھا کہ یہ راستہ بھی ادھر ہی جاتا ہے۔ میں پہلی دفعہ اس راستہ پر مجبوراً گیا، اتنی ضرورت تو نہیں تھی، لیکن میرا خیال تھا کہ شاید میں جلدی پہنچ جاؤں گا۔ میں اس راستہ پہ روانہ ہو گیا۔ جیسے ہی اندر داخل ہوا۔ تو غلطی کا احساس ہو گیا کہ میں غلط جگہ پر آ گیا ہوں۔ کیونکہ وہ ان کا بازارِ حسن تھا۔
الحمد للہ، میرے پاس یہ رومال ادھر بھی ہوا کرتا تھا۔ یہ بڑی اچھی چیز ہے۔ اس کے بڑے فوائد ہیں۔ پہلے پٹھانوں کی چادر ہوا کرتی تھی۔ چادر کے بڑے فوائد بتائے جاتے تھے کہ اس کے بڑے فوائد ہیں یہ بوقت ضرورت جائے نماز بن جاتی ہے، وقت پہ تلائی بن جاتی ہے، لحاف بن جاتا ہے، سرہانا بن جاتا ہے، کوڑا بن جاتا ہے، مختلف قسم کی چیزیں بن جاتی ہیں، رسّی بھی بن جاتی ہے۔ یہ ایک نظم کی صورت میں ہمیں بتایا جاتا تھا، اب ہم چادر تو نہیں پہنتے، ذرا جدت پسند ہو گئے ہیں، لیکن کم از کم رومال پہنتے ہیں، اس کے بھی بڑے فوائد ہیں۔
تو میرے پاس یہ رومال تھا، فوراً میں نے رومال سر کے اوپر اس طرح ڈال لیا، جیسے پرانے نقشبندی حضرات سر پہ رومال لیا کرتے تھے، اس طرح سر پہ رومال کا چھتہ سا بنا دیا اور نیچے دیکھ کے چلتا رہا۔ پشتو میں کہتے ہیں: دوه مې خپلے کړے اؤ دوه پردئ۔ ”میں نے دو پیر اپنے کئے اور دو پرائے کئے“ اور تقریبا بھاگ کے نکلا، اس پہ وہاں کچھ تبصرے بھی کئے گئے، جن کا مجھے پتا نہیں چلا کہ کیا کہا، لیکن یوں محسوس ہوا جیسے کوئی تلملا کے تبصرہ کرتا ہے کہ پتا نہیں یہ کون ہے، کیا کر رہا ہے۔ لیکن میرے پاس ان تبصروں کو سننے کا وقت تو نہیں تھا۔ بہر حال مجھے اللہ نے بچا لیا اور میں خیریت و عافیت سے اپنی منزل پر پہنچ گیا۔
ایسے حالات ہوں تو انسان تبھی بچ سکتا ہے جب مکمل استحضار ہو ورنہ نہیں بچ سکتا۔ خطرہ ہوتا ہے کہ خود بخود کسی گڑھے میں گر جائے گا۔ ایسے حالات میں محفوظ رہنے کے لئے بہت کنٹرول چاہئے۔ اس کنٹرول کے لئے controlled environment چاہئے، جسے ہم صحبت صالحین کہتے ہیں۔
مجھے خوب یاد ہے کہ پشاور یونیورسٹی میں کوئی جگہ ایسی تھی جو ذرا بدنام تھی لیکن آپ یقین کیجئے کہ ہمیں اپنی تعلیم کے دوران اِس کا پتا ہی نہیں چلا کہ وہاں کوئی ایسی جگہ بھی ہے۔ ہمارا کام بس یہ ہوتا تھا کہ یونیورسٹی جانا ہے پھر اپنے ہاسٹل آنا ہے یا گھر چھٹی پر جانا ہے یا مولانا صاحب کے پاس جانا ہے یا کبھی کبھی بازار کوئی چیز لینے کے لئے جاتے تھے۔ بس ہماری یہی مصروفیت تھی۔ اس سے زیادہ ہماری مصروفیت تھی ہی نہیں۔ ہمیں medical college اور engineering college کے رسالوں سے ایسی چیزوں کا پتا چلا۔
صحبت صالحین ایسی چیز ہے کہ اگر انسان صحبت صالحین اختیار کرتا ہو تو ان چیزوں سے بچ جاتا ہے۔ یہ ایک زبردست قسم کا نظام ہے۔ صحبت صالحین کے ذریعے انسان گویا کہ قلعہ میں محفوظ رہتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کا انسان کے دل پر جو اثر ہوتا ہے، اس کا ایک contrast بنتا ہے۔ مثلاً آپ ایک روحانی ماحول میں چلے گئے ہیں، تو دل بڑا خوش ہو گیا، آپ ایک ظلماتی ماحول میں چلے گئے ہیں، تو دل پریشان ہو گیا، اندھیرے میں آگیا، اس کو ہم ظلمت کہتے ہیں۔ کیونکہ اگر آپ اچھی جگہوں پہ جاتے رہیں گے، تبھی ظلمت کا احساس ہو گا۔ اگر آپ نے اچھی جگہیں دیکھی ہی نہیں ہیں، تو آپ کو ظلمت کا احساس کیسے ہو گا۔ آپ کے لئے تو ہر جگہ ایک جیسی ہی ہو گی، لیکن جب آپ اچھے ماحول کے عادی ہو چکے ہوں گے، تو آپ کو برے ماحول کا احساس بہت جلدی ہو جائے گا، اور آپ محسوس کر لیں گے کہ میں کسی کسی جگہ پہ پھنس گیا ہوں۔ یوں انسان پھر اس سے نکلنا بھی چاہتا ہے، اور اللہ پاک نکال بھی دیتا ہے۔
متن:
ایک بزرگ فرماتے ہیں: اِنْکِسَارُ الْعَاصِیْنَ اَحَبُّ اِلَیَّ مِنْ صَوْلَۃِ الْمُطِیْعِیْنَ (گنہگاروں کی انکساری و عاجزی اللہ تعالیٰ کے نزدیک فرمانبرداوں کے دبدبہ (جدوجہد) سے زیادہ محبوب ہے)۔ اور حرام چیزوں سے بچنا بھی دو قسم پر ہے ایک قسم وہ ہے جو اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے حقوق سے تعلق رکھتی ہے اور دوسری قسم وہ ہے جو بندوں کے حقوق سے تعلق ہے اور دوسری قسم کا خیال رکھنا نہایت ضروری ہے (کیونکہ اللہ تعالیٰ غنی مطلق اور ارحم الراحمین (سب سے زیادہ رحم کرنے والا ہے) اور بندے فقراء و محتاج اور بالذات بخیل و کنجوس ہیں (اس لئے اُن کے حقوق کی ادائیگی زیادہ ضروری ہے)
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے: مَنْ کَانَتْ لَہُ مَظْلِمَۃٌ لِاَخِیْہِ مِنْ عِرْضِہٖ اَوْ شَيءٌ فَلْیَتَخَلَّلْہُ مِنْہُ الْیَوْمَ قَبْلَ اَنْ لَّا یَکُوْنَ دِیْنَارٌ وَلَا دِرْھَمٌ اِنْ کَانَ لَہُ عَمَلٌ صَالِحٌ اُخِذَ بِقَدْرِ مَظْلِمَتِہٖ وَاِنْ لَّمْ یَکُنْ لَہُ حَسَنَاتٌ اُخِذَ مِنْ سَیِّئَاتِ صَاحِبِہٖ فَحُمِلَ عَلَیْہِ (اگر کسی شخص پر اس کے بھائی کی عزت و آبرو یا اور کسی قسم کا کوئی حق ہے تو اس کو چاہئے کہ آج ہی اس سے معاف کرا لے قبل اس کے کہ اس کے پاس نہ کوئی دینار رہے اور نہ درہم (کیونکہ قیامت کے دن) اگر اس کے پاس کوئی نیک عمل ہو گا تو بقدر ظلم اس سے بدلہ میں لے لیا جائے گا (اور صاحب حق کو دیدیا جائے گا) اور اگر اس کی نیکیاں نہ ہوں گی تو صاحب حق کی برائیاں لے کر اس پر ڈالی جائیں گی)۔
وَ قَالَ اَیْضًا صَلَّی اللہُ تَعَالیٰ عَلَیْہِ وَآلِہٖ وَ سَلَّمَ: اَتَدْرُوْنَ مَا الْمُفْلِسُ قَالُوا اَلْمُفْلِسُ فِیْنَا مَنْ لَّا دِرْھَمَ لَہُ وَلَا مَتَاعٌ فَقَالَ صَلَّی اللہُ تَعَالیٰ عَلَیْہِ وَآلِہٖ وَ سَلَّمَ اِنَّ الْمُفْلِسَ مِنْ اُمَّتِی مَنْ یَّاْتِی یَوْمَ الْقِیَامَۃِ بِصَلَوٰۃٍ وَصِیَامٍ وَزَکوٰۃٍ وَ یَاْتِی قَدْ شَتَمَ ھذَا وَقَذَفَ ھذَا وَاَکَلَ مَالَ ھذَا وَسَفَکَ دَمَ ھذَا وَضَرَبَ ھذَا فَیُعْطٰی ھذَا مِنْ حَسَنَاتِہٖ وَھذَا مِنْ حَسَنَاتِہٖ فَاِنْ فَنِیَتْ حَسَنَاتُہٗ قَبلَ اَنْ یُّقْضٰی مَا عَلَیْہِ اُخِذَ مِنْ خَطَایَاھُمْ فَطُرِحَتْ عَلَیْہِ ثُمَّ طُرِحَ فِی النَّارِ۔ صَدَقَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ تَعَالیٰ عَلَیْہِ وَعَلیٰ آلِہٖ وَسَلَّمَ (اور نیز نبی کریم ﷺ نے فرمایا کیا تم جانتے ہو کہ مفلس کون شخص ہے؟ حاضرین صحابہ نے عرض کیا ہم میں مفلس وہ شخص ہے جس کے پاس درہم و اسباب کچھ نہ ہوں تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ میری امت میں سے مفلس وہ شخص ہے جو قیامت کے دن نماز، روزہ اور زکوٰۃ سب کچھ لے کر آئے (لیکن ساتھ ہی) اس نے کسی کو گالی بھی دی ہو اور کسی کو تہمت بھی لگائی ہو اور کسی کا مال بھی کھایا ہو اور کسی کا خون بہایا ہو اور کسی کو مارا ہو پس ہر ایک حقدار کو اس کی نیکیوں میں سے اس کے حق کے برابر نیکیاں دیدی جائیں گی اور اگر حقداروں کے حقوق پورے ہونے سے پہلے اس کی نیکیاں ختم ہوگئیں تو ان حقداروں کے گناہ لے کر اس پر ڈال دیئے جائیں گے پھر اس کو دوزخ میں دھکیل دیا جائے گا)۔
تشریح:
اللہ تعالیٰ ہماری حفاظت فرمائے۔ ہم لوگوں کو اپنے اعمال کی حفاظت کرنی چاہئے۔ کیونکہ خاتمہ کا پتا نہیں ہے۔ ایک کام ایسا ہوتا ہے جس کی مدت معلوم ہو۔ جیسے آپ کا کوئی دو سال کا کام ہے، کوئی ملازمت ہے تو آپ دو سال کے عرصے میں انتظام کر سکتے ہیں کہ میں اتنی دیر میں یہ کر لوں گا اور اتنی دیر میں یہ کر لوں گا۔ لیکن اگر آپ کو کچھ بھی پتا نہ ہو کہ کس وقت ختم ہونا ہے، ایسی صورت میں آپ کو اس کے لئے انتظام کرنا ہوتا ہے۔ ہماری زندگی بھی ایسی ہے کہ اس کے خاتمے کا کوئی پتا نہیں۔
جب بالاکوٹ میں زلزلہ آیا تھا تب ہم وہاں پر گئے تھے۔ یقین جانیے بڑے بڑے پلازے گرے پڑے تھے۔ زلزلہ آنے سے چند منٹ پہلے لوگ ہنس کھیل رہے تھے اور اپنے اپنے کاموں میں لگے ہوئے تھے۔ انہیں کیا پتا تھا کہ ہمارے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔ اچانک آناً فاناً جو کچھ ہونا تھا، ہو گیا۔
اسی دوران ہم آزاد کشمیر میں مظفر آباد اور دریائے نیلم بھی گئے تھے۔ یقین کیجئے کہ وہاں دریا کے پانی سے لاشوں کی اتنی بدبو آ رہی تھی کہ کھانا نہیں کھایا جا رہا تھا۔ میں نے ان سے کہا کہ بھئی تم لوگ کیسے گذارا کر رہے ہو؟ کہتے ہیں کہ ہم عادی ہو گئے ہیں۔ وہاں کے لوگ اس بدبو کے عادی ہو چکے تھے۔ چند دن گذرنے کے بعد انسان عادی ہو ہی جاتا ہے۔ جبکہ ہماری حالت یہ تھی کہ ہمیں ابکائیاں آ رہی تھیں، ہم حیران تھے کہ ہم کیا کریں۔
اللہ پاک اپنی قدرتوں کا اظہار فرماتے ہیں۔ زلزلہ آنے سے ایک ماہ قبل بھی ہم اپنے کسی کام سے بالا کوٹ گئے تھے، زلزلے سے پہلے والا بالاکوٹ بھی ہم نے دیکھا تھا اور زلزلہ کے بعد والی حالت بھی ہم نے دیکھی۔ وہاں دریا کے اندر ایک مسجد ہے وہ بھی گر گئی تھی۔ باہر ایک مسجد تھی اس کے در و دیوار بھی گر چکے تھے. بڑے بڑے گھر زمین بوس ہو چکے تھے لیکن درمیان میں ایک پلازہ بالکل صحیح سلامت کھڑا تھا، اس کی پتلی پتلی سیڑھیوں کے ذریعہ ہم اس کے اوپر چڑھ گئے، اس پلازہ کو کچھ نہیں ہوا۔ ہم حیران ہوئے کہ ارد گرد ہر طرف تباہی ہی تباہی ہے اور درمیان میں یہ پلازہ بچا ہوا ہے۔ میرے پوچھنے پر لوگوں نے بتایا کہ یہ ایک بڑے نیک آدمی کا پلازہ ہے۔ اس کا یہ قانون تھا کہ اس پلازہ میں ایسی کوئی دکان نہیں کھولی جا سکتی جس میں کوئی حرام کام ہو، مثلاً کوئی شیوِنگ وغیرہ کا کام، یا میوزک سے متعلق کام، یا تصویروں وغیرہ کا کام، اس قسم کی چیز کے لئے ان کے دروازے بند تھے۔ یہ شرط تھی کہ اس پلازہ میں ایسی دکان کوئی نہیں بنا سکتا۔ اس پلازہ کا مالک اپنے پیسوں سے کچھ رقم علیحدہ کر کے اللہ کے راستے میں لگایا کرتا تھا۔ اللہ پاک نے اس کو ایک مثال بنا دیا کہ دیکھو میں کس طرح بچاتا ہوں۔
میں نے وہاں کے کچھ ساتھیوں سے کہا کہ انجینئرنگ میری فیلڈ ہے جس میں stress analysis کیا جاتا ہے۔ میں بتا سکتا ہوں کہ یہ پلازہ کیوں کھڑا ہے اور اس کو کیوں کچھ نہیں ہوا۔ میں یہ بات اپنے فن کے لحاظ سے بتا اور سمجھا سکتا ہوں کہ کیسے crest اور trough مل کے زیرو ہو جاتا ہے۔ یہ تو مجھے پتا ہے، لیکن وہ لہر کہاں سے چلی تھی، یہ جاننا میرے بس کی بات نہیں ہے۔ وہ تو اللہ تعالی کے حکم سے آئی تھی کہ ادھر سے ہی چلے اور دوسری جگہ سے نہ چلے، کیونکہ crest کہیں سے بھی آ سکتا ہے، کہیں سے بھی shift ہو سکتا ہے۔ جب دو waves ایسے جمع ہوں کہ zero پہ آ جائیں، یہ اللہ تعالی کا نظام ہے، اس کو کوئی تبدیل نہیں کر سکتا۔ اللہ جل شانہ نے ان کے لئے معاملہ ایسا کر دیا کہ وہ پلازہ بچ گیا۔ یہ آنکھوں دیکھی بات ہے۔
بعض دفعہ اللہ تعالی اپنی قدرتیں دکھاتا ہے۔ اللہ پاک اپنی قدرتیں تو دکھا دے گا لیکن ہمیں وہی کافی ہے جو قرآن وحدیث میں موجود ہے۔ اس پر یقین کے لئے ہمیں تجربے کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اللہ پاک نے جو قرآن پاک میں اور آپ صلی اللہ وسلم نے حدیث میں ارشاد فرمایا وہ ہمارے لئے موجود ہے اور ہم اس پر عمل کریں گے۔
توبہ و انابت ورع و تقوی کی ترغیب:
توبہ و انابت، ورع و تقوی کی ترغیب کے بارے میں دفتر دوم مکتوب 66 میں ارشاد فرمایا:
متن:
الْحَمْدُ لِلّٰهِ وَسَلامٌ عَلَى عِبَادِهِ الَّذِينَ اصْطَفَى (اللہ تعالیٰ کی حمد ہے اور اس کے برگزیدہ بندوں پر سلام ہو)۔ چونکہ عمر عزیز معاصی و تقصیرات اور بیہودہ کاموں میں گزری ہے اس لئے مناسب ہے کہ توبہ و انابت کی نسبت کلام کیا جائے اور ورع و تقوٰی کو بیان کیا جائے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ہے: وَتُوبُوا إِلَى اللّٰهِ جَمِيعًا أَيُّهَ الْمُؤْمِنُونَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ (النور: 31) ( اے ایمان والو! تم سب مل کر اللہ تعالیٰ کے حضور میں توبہ کرو تا کہ تم کو فلاح حاصل ہو)۔ اور اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے: يَآاَيُّـهَا الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا تُوْبُـوٓا اِلَى اللّـٰهِ تَوْبَةً نَّصُوْحًاۖ عَسٰى رَبُّكُمْ اَنْ يُّكَـفِّرَ عَنْكُمْ سَيِّئَاتِكُمْ وَيُدْخِلَكُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِىْ مِنْ تَحْتِـهَا الْاَنْـهَارُۙ (التحریم، آیت: 08) (اے ایمان والو! تم اللہ تعالیٰ کے سامنے سچے دل سے توبہ کرو، امید ہے کہ تہمارا رب برائیوں کو تم سے دور کر دے اور تم کو ایسی جنت میں داخل کرے جس کے نیچے نہریں جاری ہیں)۔
نیز اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَذَرُوا ظَاهِرَ الْإِثْمِ وَبَاطِنَهُ (الانعام، آیت: 120) (اور ظاہری و باطنی گناہوں کو چھوڑ دو)۔
پس گناہوں سے توبہ کرنا ہر شخص کے لئے واجب اور فرض عین ہے، کوئی بشر اس سے مستغنی نہیں ہوسکتا۔ جب انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام تک توبہ سے مستغنی نہیں ہیں تو پھر اوروں کا کیا ذکر۔ چنانچہ حضرت خاتم الرسل سید المرسلین علیہ وعلیہم الصلوات و التحیات فرماتے ہیں: إِنَّهُ لَيُغَانُ عَلَى قَلْبِی وَإِنِّی لَأَسْتَغْفِرُ اللَّهَ فِی كُلِّ يَوْمٍ سَبْعِينَ مَرَّةً (میرے دل پر بھی غبار سا آجاتا ہے اس لئے میں دن رات میں اللہ تعالیٰ سے ستر مرتبہ استغفار کرتا ہوں)۔
پس اگر گناہ اس قسم کے ہیں کہ جن کا تعلق اللہ تعالیٰ کے حقوق کے ساتھ ہے اور بندوں کے مظالم اور حقوق کے ساتھ تعلق نہیں رکھتے جیسا کہ زنا، شراب کا پینا، سرود و ملاہی (لہو و لہب) کا سننا، غیر محرم کی طرف بنظر شہوت دیکھنا، بغیر وضو قرآن مجید کو ہاتھ لگانا، اور بدعت پر اعتقاد رکھنا وغیرہ وغیرہ۔ تو ان امور کی توبہ ندامت اور استغفار اور حسرت و افسوس اور بارگاہ الہیٰ عزوجل میں عذر خواہی کرنے سے ہے۔ اور اگر فرائض میں سے کوئی فرض ترک ہو گیا ہو تو توبہ کے ساتھ ساتھ اس کا ادا کرنا بھی ضروری ہے۔ اور اگر گناہ اس قسم کے ہیں جو بندوں کے مظالم اور حقوق سے تعلق رکھتے ہیں تو ان سے توبہ کا طریقہ یہ ہے کہ بندوں کے حقوق ادا کرے اور (مظالم پر) معافی مانگے اور ان کے ساتھ اچھا سلوک کرے اور ان کے حق میں دعا کرے۔
اور اگر صاحب مال و آبرو فوت ہو گیا ہو تو اس کے لئے استغفار کرے اور اس کی طرف سے صدقہ کرے۔ اور اس کا مال اس کے وارثوں اور اولاد کے سپرد کرے۔ اگر اس کے وارث معلوم نہ ہوسکیں تو مال کے اندازہ کے مطابق صاحب مال اور اس شخص کی نیت کر کے جس کو ناحق ایذا دی ہو فقراء اور مساکین پر صدقہ و خیرات کرے۔
حضرت علی کرم اللہ تعالیٰ وجہہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے جو صادق ہیں، سنا ہے کہ رسول ﷺ نے فرمایا ہے: مَا مِنْ عَبْدٍ يُذْنِبُ ذَنْبًا، فيُحْسِنُ الطُّهُوْرَ، ثمَّ يَقُوْمُ فيُصَلِّيْ رَكْعتينِ، ثمَّ يَسْتَغْفِرُ اللّٰهَ، إلَّا غَفَرَ اللّٰهُ لَهٗ (جب کسی بندہ سے گناہ سرزد ہو جائے تو وہ کھڑا ہو اور وضو کرے، نماز پڑھے اور اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہ کی بخشش چاہے تو اللہ تعالیٰ ضرور اس کے گناہ بخش دیتا ہے)۔ اس لئے کہ اللہ جل و علا خود فرماتا ہے: وَمَن يَّعْمَلْ سُوءًا أَوْ يَظْلِمْ نَفْسَهُ ثُمَّ يَسْتَغْفِرِ اللّٰهَ يَجِدِ اللّٰهَ غَفُورًا رَّحِيمًا (النساء: 4، آیت: 110) (جو شخص برائی کرے یا اپنی جان پر ظلم کرے پھر اللہ تعالیٰ سے بخشش مانگے تو اللہ تعالیٰ کو بخشنے والا رحم کرنے والا پائے گا)۔
اور آنحضرت علیہ و علیٰ آلہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک دوسری حدیث میں فرمایا ہے: مَنْ اَذْنَبَ ذَنْباً ثُمَّ نَدِمَ عَلَیْہِ فَھُوَ کَفَّارَتُہٗ (جس شخص نے کوئی گناہ کیا پھر اس گناہ پر نادم ہوا تو یہ ندامت اس کے گناہ کا کفارہ ہے) حدیث میں یہ بھی آیا ہے اِنَّ الرَّجُلَ اِذَا قَالَ اَسْتَغْفِرُکَ وَ اَتُوْبُ عَلَیْکَ ثُمَّ عَادَ ثُمَّ قَالَھَا ثُمَّ عَادَ ثَلٰثَ مَرَّاتٍ کَتَبَ فِیْ الرَابِعَۃِ مِنَ الْکَبَائِرِ (جب آدمی کہتا ہے کہ میں تجھ سے بخشش مانگتا ہوں اور تیری جناب میں توبہ کرتا ہوں، پھر اس نے گناہ کیا اور پھر اسی طرح کہا، پھر تیسری مرتبہ گناہ کیا اور معذرت کی، پھر چوتھی بار کیا تو کبیرہ گناہ لکھا جاتا ہے)۔ ایک اور حدیث میں آنحضرت علیہ وعلیٰ آلہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا ہے: ھَلَکَ الْمُسَوِفُوْنَ یَقُوْلُوْنَ سَوْفَ نَتُوْبُ (ہلاک ہوگئے وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ ہم عنقریب توبہ کر لیں گے)۔ لقمان حکیم نے اپنے بیٹے کو بطور نصیحت فرمایا "اے بیٹا! توبہ کرنے میں کل تک کی بھی تاخیر نہ کرنا کیونکہ موت اچانک آجاتی ہے۔ حضرت مجاہدؒ فرماتے ہیں کہ جو شخص صبح شام توبہ نہ کرے وہ ظالموں میں سے ہے۔ اور عبداللہ بن مبارکؒ رحمہ اللہ سبحانہ فرماتے ہیں کہ حرام کے ذریعے ایک پیسہ لیا ہوا واپس کر دینا سو پیسوں کے صدقہ کردینے سے افضل ہے۔ بعض بزرگوں نے یہ بھی کہا ہے کہ ایک رتی چاندی (جو غلط طریقے سے حاصل کی گئی ہو اس) کا واپس کر دینا چھ مقبول حجوں سے افضل ہے۔ رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنفُسَنَا وَإِن لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ (الاعراف: 7، آیت: 23) (اے ہمارے رب! ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا اگر تو نے ہم پر بخشش اور رحمت نہ فرمائی تو ہم خسارہ والوں میں سے ہو جائیں گے)۔
نبی کریم ﷺ سے روایت ہے کہ اللہ فرماتا ہے عَبْدِیْ اَدِّ مَا افْتَرَضْتُ عَلَیْکَ تَکُنْ مِنْ اَعْبَدِ النَّاسِ وَانْتَہِ عَمَّا نَھَیْتُکَ عَنْہُ تَکُنْ مِنْ اَوْرَعِ النَّاسِ وَاقْنَعْ بِمَا رَزَقْتُکَ کُنْ مِنْ اَغْنَی بِالنَّاسِ (میرے بندے! جو کچھ میں نے تجھ پر فرض کیا ہے اس کو ادا کر، پس تو سب لوگوں سے زیادہ عابد ہو جائے گا۔ اور جن باتوں سے میں نے تجھ کو منع کیا ہے ان سے باز رہ، پس تو سب لوگوں سے زیادہ پرہیز گار ہو جائے گا اور جو کچھ میں نے تجھ کو رزق دیا ہے اس پر قناعت کر پس تو سب سے زیادہ غنی ہو جائے گا)۔ اور آنحضرت ﷺ نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا: کُنْ وَرْعًا تَکُنْ اَعْبَدَ النَّاسِ (تو پرہیز گار بن، پس تو تمام لوگوں سے زیادہ عابد ہو جائے گا)۔ حضرت حسن بصری رحمہ اللہ سبحانہ فرماتے ہیں کہ ایک ذرہ کی برابر تقوٰی ہزار مثقال والے نماز روزوں سے بہتر ہے۔ اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ کل قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے ہمنشین پرہیز گار اور زاہد لوگ ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ حضرت موسیٰ نبینا و علیہ الصلوٰۃ والسلام کی طرف وحی بھیجی کہ میرا تقرب حاصل کرنے کے لئے جس قدر ورع (پرہیز گاری) ضروری ہے اتنی کوئی اور چیز نہیں ـــ
بعض علمائے ربانی فرماتے ہیں کہ جبتک انسان ان دس چیزوں کو اپنے اوپر لازم نہ کر لے اسوقت تک ورع حاصل نہیں ہوتا (1) غیبت سے زبان کو بچائے۔ (2) بدگمانی سے بچے۔ (3) مسخرہ پن سے پرہیز کرے۔
تشریح:
کچھ چیزیں ایسی ہیں جن میں پڑ کر انسان خواہ مخواہ (just for nothing) اپنے آپ کو خراب کرتا ہے۔ مثلاً میں لطیفے سنانا شروع کر دوں۔ ان لطیفوں سے لوگوں کو ہنساؤں اور کچھ ایسی باتیں کر لوں جن سے میں گناہ گار ہو جاؤں۔ اس میں مجھے کیا ملا؟ اگر مجھے کوئی ٹائٹل مل سکتا ہے تو یہی کہ یہ مسخرا ہے، جوکر ہے۔ کیا کوئی انسان جوکر کہلانا پسند کرتا ہے؟ مثلاً آپ کسی کو کہہ دیں کہ وہ جوکر ہے، تو کیا وہ یہ سن کر خوش ہو گا؟ نہیں ہو گا. لیکن ہم جس لفظ سے بھی بھاگتے ہیں، پسند نہیں کرتے، اسی کے تقاضے پہ عمل کرتے ہیں۔ بھلا اس کا کیا فائدہ ہے؟
متن:
(4) حرام چیزوں سے آنکھ بند رکھے (5) سچ بولے (6) ہر حال میں اللہ تعالیٰ کا احسان جانے تاکہ نفس مغرور نہ ہو (7) اپنا مال راہ حق میں خرچ کرے اور باطل جگہ میں خرچ کرنے سے بچے (8) اپنے نفس کے لئے بلندی اور بڑائی کا طالب نہ ہو (9) نمازوں کی حفاظت کرے (10) اہل سنت و الجماعت (کے عقائد) پر استقامت اختیار کرے، رَبَّنَا أَتْمِمْ لَنَا نُورَنَا وَاغْفِرْ لَنَا ۖ إِنَّكَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ (التحریم: آیت: 8) (اے ہمارے پروردگار! تو ہمارے لئے نور کو کامل کر دے اور ہم کو بخش دے بیشک تو ہر چیز پر قادر ہے)۔
میرے مخدوم و مکرم! اور اے شفقت و مکرمت کی نشانیوں والے! اگر تمام گناہوں سے توبہ میسر ہو جائے اور تمام محرمات و مشتبہات چیزوں سے ورع و تقوٰی حاصل ہو جائے تو یہ ایک بڑی نعمت اور اعلیٰ درجہ کی دولت ہے، ورنہ بعض گناہوں سے توبہ کرنا اور بعض محرمات سے بچنا بھی غنیمت ہے۔ شاید ان بعض کے برکات و انوار بعض دوسروں میں بھی اثر کر جائیں اور تمام گناہوں سے توبہ اور ورع کی توفیق نصیب ہو جائے۔ مَا لَا یُدْرَکُ کُلُہٗ لَا یُتْرَکُ کَلُہٗ (جو چیز پوری کی پوری نہ حاصل ہوسکے اس کو بالکل ہی ترک نہ کرنا چاہئے)۔
اَللّٰھُمَّ وَفَّقْنَا لِمَرْضَاتک وثَبِّتْنا عَلیٰ دِیْنِکَ وعَلی طَاعَتِکَ بصدقۃ سید المرسلین وقائد الغز المحجلین علیہ و علیھم وعلی الہ کل من الصلوات افضلھا ومن التسلیمات اکلملھا (اے اللہ! ہم کو سید المرسلین وقائد الغز المجھلین علیہ وعلیہم وعلیٰ آل کل من الصلوات افضلہا ومن التسلیمات اکملہا کے صدقہ میں اپنی رضا مندی کی توفیق دے اور اپنے دین اور اپنی طاعت پر ثابت قدم رکھ (آمین)
تشریح:
حضرت مجدد الفِ ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے تقوٰی کے بارے میں بہت مؤثر کلام فرمایا ہے۔ اس کلام کو سمجھنے کے لئے ہمیں کوشش کرنی چاہئے۔ اس کو اپنی زندگی کا منشور بنانا چاہئے اور اپنی زندگی کو اس کے مطابق گذارنا چاہئے۔
گذرا ہوا وقت واپس نہیں آتا لیکن توبہ کرنے سے گذشتہ گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔ انسان منفی چیز کو ختم کر سکتا ہے۔ جس کا طریقہ حضرت نے بتا دیا کہ جن کا حق ہے ان کو لوٹا دو۔ اگر کوئی ایسا عمل فوت ہو گیا ہے جس کی قضا لازم ہے تو پہلے اس کی قضا کرو، پھر توبہ بھی کرو۔ توبہ کی تین شرطیں لازمی ہیں اور چوتھی اضافی ہے، تین لازمی شرطیں یہ ہیں:
1_ اس عمل پر نادم ہو جانا
2_ اس عمل سے رک جانا۔
3_ آئندہ کے لئے نہ کرنے کی نیت کریں۔
یوں سمجھ لیجئے کہ ارادہ بن جاتا ہے۔ ایک تمنا ہوتی ہے، ایک ارادہ ہوتا ہے۔ تمنا کا کچھ فائدہ نہیں، اس کا کچھ بھی اثر نہیں ہوتا البتہ ارادے کا فائدہ ہوتا ہے۔ ارادہ اور تمنا میں فرق یہ ہے کہ تمنا میں انسان عمل نہیں کرتا اور ارادہ کے ساتھ عمل وابستہ ہے، لہٰذا جب انسان توبہ کا ارادہ کرے تو پہلے نادم ہو، اس کے بعد اس عمل سے رک جائے۔
یہ تین باتیں تو لازمی ہیں۔
چوتھی اضافی بات یہ ہے کہ اگر کسی انسان کا حق متعلق ہے تو اس کو حق پہنچانا یا اس سے معاف کرانا لازمی ہے۔ اگر اس عمل کے ساتھ قضا متعلق ہے، جیسے نماز فوت ہو جائے تو قضا کرنی ہوتی ہے۔ ایسے اعمال کی قضا بھی کرنی ہو گی، توبہ بھی کرنی ہو گی، توبہ سے گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔
حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ اصل تو یہ ہے کہ انسان سارے گناہوں سے توبہ کرے، لیکن اگر سارے گناہوں سے توبہ نہ کر سکے، تو کم از کم جتنوں سے کر سکتا ہے اتنے میں دیر نہ کرے، کیونکہ اگر کوئی کام پورا نہیں کر سکتا تو جتنا کر سکتا ہے اس کو نہ چھوڑے۔ اس کی برکت سے ان شاء اللہ باقی گناہوں سے توبہ کرنا بھی آسان ہو جائے گا۔
ہمیں چاہئے کہ حضرت کے ان نصائح پر عمل کریں اور اپنے آپ کو خراب نہ کریں۔
وَ اٰخِرُ دَعوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ للہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ