مقاماتِ قطبیہ و مقالاتِ قدسیہ درس 20

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
آج کل ہمارے ہاں حضرت کاکا صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی زندگی پر لکھی گئی کتاب ’’مقاماتِ قطبیہ و مقالاتِ قدسیہ‘‘ سے تعلیم جاری ہے۔ اس کے مصنف حضرت حلیم گل بابا رحمۃ اللہ علیہ نے اس میں بڑی عارفانہ باتیں لکھی ہیں۔ اگرچہ یہ کتاب کاکا صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں ہے، لیکن یہ صرف ایک سیرت کی کتاب نہیں رہی، بلکہ یہ بہت سارے عوارف کے بیان کرنے کا ایک ذریعہ بن گئی ہے۔ لہذا اس کے پڑھنے اور سننے سے بہت فائدہ ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں الحمد للہ اس کی تعلیم جاری ہے، تاکہ یہ بزرگوں کے فیوض و برکات سے مستفید ہونے کا ذریعہ بنے۔
پچھلے ہفتے روزے اور زکوٰۃ کے بارے میں بات کی گئی تھی اور پھر حج کے بارے میں بات چل رہی تھی کہ درمیان کا ایک صفحہ نہ ہونے کی وجہ سے وہ منقطع ہو گئی تھی۔ ہم نے اس کی سافٹ کاپی سے وہ صفحہ لے لیا ہے، لہٰذا اب بقیہ بات کو مکمل کرتے ہیں۔ اس وقت حج کے بارے میں بات چل رہی تھی اور خانہ کعبہ کی برکات اور کرامات بیان کی جا رہی تھیں اور اس کے بعد خانہ کعبہ کی تعمیر کے بارے میں بات چل رہی تھی کہ خانہ کعبہ کی تعمیر سات مرتبہ ہوئی ہے۔ لیکن footnote میں ایک بزرگ نے اس کا ترجمہ لکھا ہے۔ انہوں نے لکھا ہے:
متن:
(حاشیہ: 1؎ مصنف کی علمی شان کے آفتاب کے سامنے یہ فقیر ذرہ بھی نہیں، مگر چونکہ یہ ایک دینی مسئلہ ہے اس لئے عرض ہے کہ علامہ ازرقی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی تاریخ اخبار مکہ سن 355 مطبوعۃ مکہ مکرمہ میں تحریر فرمایا ہے کہ "وَاتَّفَقَ عَلَیْہِ الْمُؤَرِّخُوْنَ أَنَّ الْکَعْبۃَ بُنِیَتْ عَشَرَ مَرَّاتٍ…." یعنی مؤرخین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ خانہ کعبہ کی دس دفعہ تعمیر کی گئی ہے۔
تشریح:
در اصل تاریخی چیزوں میں اختلافات ہوا کرتے ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ بعض چیزیں بعض لوگوں نے نوٹ کی ہوتی ہیں اور بعض نے نوٹ نہیں کی ہوتیں، بعض نے کسی ایک طرح سمجھا ہوتا ہے اور بعض نے دوسری طرح سمجھا ہوتا ہے۔ حتیٰ کہ تاریخِ ولادت اور تاریخِ پیدائش میں اختلاف بہت زیادہ ہوا کرتا ہے۔ لیکن مؤرخین سب کو بیان کر دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ فلاں یہ کہتے ہیں، اور فلاں یہ کہتے ہیں۔ حضرت نے بھی کسی تاریخی کتاب سے بات لی ہو گی۔ ہم یہ تو نہیں کہیں گے کہ اس پہ اتفاق ہو گیا، البتہ یہ کہیں گے کہ یہ بھی ایک روایت ہے اور وہ بھی ایک روایت ہے۔ کیونکہ یہ چیز بھی تاریخ سے لی گئی ہے، اس لئے تاریخ میں ایک اور روایت آ گئی۔ بہر حال! اُن کی روایت سات مرتبہ کی ہے اور اِن کی روایت دس مرتبہ کی ہے، یہ بھی ٹھیک ہے، بعض مؤرخین دس کی طرف بھی گئے ہوں گے، وہ بھی صحیح ہے۔ تاریخ میں اس طرح ہونا نا ممکن نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ انہیں جزا دے کہ انہوں نے اس کی تصحیح کر دی اور کثرتِ رائے کی طرف متوجہ کیا۔ لیکن اس سے مصنف کی بات پہ کوئی حرف نہیں آتا، کیونکہ ایسی چیزوں میں اختلاف ہوا کرتا ہے۔
متن:
بارِ اول فرشتوں نے تعمیر کی، دوسری دفعہ حضرت آدم علیہ السلام نے، تیسری دفعہ حضرت شیث علیہ السلام نے، چہارم حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام نے، پنجم عمالقہ، ششم قبیلہ جُرہم، ساتویں قصی، آٹھویں قریش، نویں ابن زبیر رضی اللہ عنہ، دسویں حجاج۔ علامہ ارزقی نے آگے تحریر فرمایا ہے کہ "وَقُلْنَا قَدْ بُنِیَتْ لِمَرَّۃِ الْحَادِیَۃِ عَشَرَ عَامَ 1039 ھِجْرِیَّۃً فِیْ عَہْدِ السُّلْطَانِ مُرَادِ بْنِ السُّلْطَانِ أَحْمَدَ مِنْ سَلَاطِیْنِ آلِ عُثْمَانَ" ”ہم یہ کہتے ہیں کہ گیارہویں دفعہ اس کی تعمیر 1039 ہجری میں سلطان مراد بن سلطان احمد جو کہ آلِ عثمان کے سلاطین میں سے تھے، کے دور میں ہوئی تھی)
تشریح:
یہ ٹھیک ہے، یعنی موجودہ تعمیر یہی ہے جس کا اوپر ذکر ہوا جو ہمارے سامنے ہے۔ کل مجھ سے کسی نے یہ پوچھا تھا، تو میں تردد میں تھا، آج اس کی تصدیق ہو گئی۔ کل مجھ سے کسی نے پوچھا تھا کہ یہ موجودہ تعمیر کس نے کی تھی؟ میرے حافظہ میں کسی طرح یہ بات موجود تھی کہ یہ موجودہ تعمیر حجاج بن یوسف کی ہے، کیونکہ عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تعمیر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے طرز پر تھی۔ آپ ﷺ کے وقت بھی ایسا ہی تھا جیسا کہ اب ہے۔ لیکن قریشِ مکہ جب تعمیر کر رہے تھے، تو انہوں نے اس بات کی اہمیت کو جان کر صرف اس پیسہ سے تعمیر کی جو ان کے نزدیک حلال تھا۔ اس میں سود وغیرہ یا کوئی ڈاکہ یا کوئی چوری چکاری کا مال شامل نہیں تھا۔ انہوں نے اپنے حلال پیسوں سے اس کو تعمیر کیا۔ چونکہ حلال پیسے تھوڑے ہی ہوتے ہیں، لہٰذا جب پیسے ختم ہو گئے، تو حطیم والا حصہ شامل نہیں ہو سکا۔ پہلے ابراہیم علیہ السلام کے وقت میں دو دروازے ہوا کرتے تھے اور حطیم کا حصہ اس میں شامل تھا۔ ایک دروازے سے لوگ اندر جاتے اور دوسرے دروازے سے نکل جاتے۔ آپ ﷺ کی خواہش تھی کہ میں اس کو اسی طرح تعمیر کروں، لیکن پھر یہ سوچ کر ایسا نہیں کیا کہ کہیں لوگ یہ نہ کہیں کہ کیسے نبی ہیں جو خانہ کعبہ کو توڑ رہے ہیں۔ لیکن بعد میں عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپ ﷺ کی خواہش کا احترام کر کے اس کو اس طرح تعمیر کر دیا، جس طرح آپ ﷺ چاہتے تھے۔ اللہ تعالیٰ سیاست کے شر سے لوگوں کو بچائے۔ حجاج بن یوسف آیا، تو چونکہ ان کی آپس میں لڑائی تھی اور عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ حجاج کے ساتھ لڑائی میں شہید ہو گئے تھے، یہ کب اپنے دشمن کی تعمیر کو باقی رکھ سکتا تھا۔ اس لئے اس نے دوبارہ خانہ کعبہ کو اسی طرز پہ تعمیر کیا جس طرز پر قریشِ مکہ نے کیا تھا۔ بعد میں فقہاء ائمہ نے فتویٰ دے دیا کہ اب اس کو چھیڑا نہ جائے، کیونکہ لوگ اس کو اپنی منشاء پوری کرنے کا محل بنا دیں گے۔ ہر ایک اپنی اپنی منشاء کے مطابق اسے تعمیر کرتا رہے گا۔ اس کے بعد جو تعمیر حجاج بن یوسف نے کی تھی، وہی تعمیر قائم رہی ہے۔ اگرچہ سلطان مراد نے اس کی تعمیر کی ہے، لیکن طرز وہی ہے۔ طرز کو تبدیل نہیں کیا گیا۔ عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ والا جو طرز تھا، اس کو دوبارہ واپس نہیں کیا۔ کیونکہ فقہاء نے فتویٰ دیا تھا کہ اب اس کو چھیڑا نہ جائے، ورنہ یہ لوگوں کے لئے بازیچۂ اطفال بن جائے گا، بچوں کا کھیل بن جائے گا۔ جو آئے گا، وہ اپنی طرف سے اس میں تبدیلی کرے گا۔ اس لئے فقہاء نے یہ فتویٰ دے دیا۔
بہر حال! خانہ کعبہ کی تعمیر میں ہمیں فقہی طور پر بھی اور روحانی طور پر بھی بہت کچھ مل جاتا ہے۔ فقہی طور پر یہ ہے کہ آپ ﷺ ایک چیز کو چاہتے تھے کہ یہ ہو جائے، لیکن امت میں بدگمانی پڑنے کی وجہ سے ایک مستحب کو چھوڑ دیا۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ اگر ایک مستحب کی وجہ سے لوگ فتنے میں پڑ رہے ہوں، مشکل میں پڑ رہے ہوں اور اختلاف کی صورت بن رہی ہو، جس سے زیادہ نقصان ہوتا ہو، تو اس مستحب کو چھوڑنا مستحسن ہے۔ کیونکہ اگر آپ ﷺ نے ایک مستحب کو چھوڑا ہے، تو یہ بھی گویا آپ ﷺ کی سنت ہے۔ اس سے ایک فارمولا اور قانون ہمیں مل گیا کہ مستحب کے ساتھ کیسا معاملہ کیا جائے۔ دوسری بات یہ ہے کہ وہ جو غلطی تھی، جس کو آپ ﷺ ٹھیک کرنا چاہتے تھے، اس کو ٹھیک بھی کیا گیا، لیکن بعد میں جب دوبارہ اس انداز پہ لایا گیا تو فقہاء نے متفقہ طور پر فیصلہ کیا کہ اب اس کو نہ چھیڑا جائے۔ کیونکہ پھر لوگ اس کو عادت بنا لیں گے۔
ایک دوسرا فتوٰی بھی ہے کہ کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ بڑے مقاصد کے لئے ان سے کم درجے کے مقاصد کو چھوڑ دیا جاتا ہے۔ یہ ساری باتیں ہمارے لئے سمجھنا ضروری ہیں۔
متن:
بعد تیسری بار یلدز نام کے کافر نے بت خانہ بنا دیا اور اس کی چند اینٹیں اس میں لگائی تھیں۔ اللہ تعالیٰ نے زلزلے سے اس خانہ کعبہ کو مسمار کر دیا۔ اس کے بعد چوتھی دفعہ اس یلدز کے بیٹے شمعون نے اس کی چوتھی دفعہ تعمیر کرائی، پانچویں بار حضرت داؤد علیہ السلام نے تعمیر فرمائی، چھٹی دفعہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بھی تھوڑی سی عمارت بنائی تھی، ساتویں بار حضرت ابراہیم علیہ السلام، حضرت اسحاق علیہ السلام، حضرت اسماعیل علیہ السلام، بی بی سارہ و بی بی ہاجرہ رضی اللہ عنہما نے تعمیر فرمائی۔ قَالَ اللہُ تَعَالٰی: ﴿وَمَنْ دَخَلَہٗ کَانَ آمِنًا﴾ (آل عمران: 97) ”جو کوئی اس میں داخل ہو، وہ امن میں ہو گا"۔ بعض مفسرین کے نزدیک وہ قتل سے مامون ہو گیا۔ یعنی اگر کوئی چور یا قاتل آ جائے، تو اس کے ہاتھ اندرونِ حرم نہیں کاٹے جائیں گے اور نہ اس کو قصاص میں قتل کیا جائے گا، بلکہ اس کو کھانا پینا نہیں دیا جائے گا، یہاں تک کہ وہ حدودِ حرم سے باہر آ جائے اور اس پر شرعی احکام نافذ ہو جائیں۔ اور بعض کے نزدیک "کَانَ اٰمِنًا مِّنَ الْجُذَامِ وَالْبَرَصِ" یعنی جذام اور برص سے امن میں رہے گا۔ بعض یہ مراد لیتے ہیں کہ جو کوئی اس میں داخل ہو گا، وہ ذلت اور پستی سے امن میں رہے گا۔ اور بعض کے نزدیک "کَانَ اٰمِنًا مِّنَ النَّارِ" یعنی وہ دوزخ کی آگ سے امن میں رہے گا۔ چنانچہ حدیث شریف میں آیا ہے کہ "مَنْ دَخَلَ الْکَعْبَۃَ أَمِنَ مِنَ الْہَاوِیَۃِ" (لم أجد ھذا الحدیث) ”جو شخص کعبہ میں داخل ہوا، وہ ہاویہ (دوزخ) کے عذاب سے امن میں ہوا“۔ اگر کوئی تجارت کی نیت کر کے ساتھ حج بھی کرے، تو اس کو اس قدر ثواب ہاتھ نہیں آئے گا، جتنا کوئی خالصتًا للہ حج کرے اور ریاکاری اور شہرت و ناموس سے دور ہو۔ اور یہ ریاکاری سے اجتناب اس لئے کہ اس کی تکلیف رائیگاں نہ جائے۔ اس کو چاہئے کہ فسق و فجور سے جان بچا کے رکھے اور توبہ اچھی طرح سے کر کے نبھائے اور احرام کے بعد اپنی بیگم سے بوسہ بازی، چھیڑ خانی اور جماع سے احتراز کرے۔ حدیث شریف کے الفاظ اس طرح ہیں: "لَمْ یَرْفُثْ وَلَمْ یَفْسُقْ" (الصحیح للبخاری، کتاب الحج، باب: فضل الحج المبرور، رقم الحدیث: 1521) ”نہ رفث کرے اور نہ فسق“۔ پھر دونوں کا ترجمہ کر کے کہتے ہیں: "اَلرَّفَثُ ھُوَ الْجِمَاعُ وَالْمَسُّ وَالْقُبْلَۃُ، وَالْفِسْقُ وَالْفُجُوْرُ ھُوَ الْمَعَاصِيْ" یعنی رفث جماع، چھیڑ خانی اور بوسہ بازی ہے۔ اور فسق و فجور گناہ اور نا فرمانی ہے۔
(حاشیہ: 2؎ اللہ تعالیٰ نے اس میں شرفِ تعمیر کعبہ کا ذکر کیا ہے، اس میں حضرت اسحاق علیہ السلام وغیرہ کا نام نہیں، بلکہ حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہما السلام کا ذکر مبارک آیا ہے۔ مثال کے طور پر: ﴿وَإِذْ یَرْفَعُ إِبْرَاھِیْمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَیْتِ وَإِسْمَاعِیْلُ﴾ (البقرۃ: 127) ﴿وَعَھِدْنَا إِلٰی إِبْرَاھِیْمَ وَإِسْمَاعِیْلَ أَنْ طَھِّرَا بَیْتِيَ لِلطَّائِفِیْنَ﴾ (البقرۃ: 125) تفصیل کے لئے اخبارِ مکہ اور متداول تفاسیر ملاحظہ فرماویں۔ مترجم عبدالرزاق کوثر)
تشریح:
قرآن پاک میں ہے کہ جو خانہ کعبہ میں داخل ہوا، وہ امن میں رہے گا۔ اور جب طے نہ کیا جائے، تو وہ تمام صورتیں، جن پہ امن کا اطلاق ہو گا، اس میں آ سکتی ہیں۔ اور اگر خاص طور پر طے کیا جائے کہ اس قسم کا امن مراد ہے جیسے بیان کیا گیا ہے، تو پھر امن کی صرف وہی صورت آئے گی۔ چونکہ قرآن کریم میں اس کو عام رکھا گیا ہے، لہذا ہمیں بھی اس کو عام رکھنا چاہئے کہ ان تمام چیزوں سے امن ہو سکتا ہے۔ لیکن یہ الگ بات ہے کہ ایک خانہ کعبہ کی برکت ہے اور ایک خانہ کعبہ کا احترام ہے۔ خانہ کعبہ کی برکت کو بھی بیان کیا گیا ہے کہ جائے امن ہے۔ لیکن خانہ کعبہ کا احترام بھی ہے اور خانہ کعبہ کے مقام سے استفادہ کے لئے جو تین شرطیں عائد کی گئی ہیں۔ جیسے حدیث مبارکہ میں ہے: ’’مَنْ حَجَّ فلَمْ يَرْفُثْ وَلَمْ يَفْسُقْ، رَجَعَ كَيَوْمٍ وَّلَدَتْهُ أُمُّهٗ‘‘۔ (مسند ابی یعلی الموصلی، حدیث نمبر: 6198)
ترجمہ: ’’جس نے حج كيا اور نہ تو حج ميں بيوى سے جماع كيا اور نہ ہى فسق و فجور، تو وہ ايسے واپس پلٹتا ہے جيسے آج ہى اسے ماں نے جنم ديا ہے‘‘۔
اور قرآن کریم میں ہے: ﴿فَلَا رَفَثَ وَلَا فُسُوْقَ وَلَا جِدَالَ فِی الْحَجِّ (البقرہ: 197)
ترجمہ: ’’تو حج کے دوران نہ وہ کوئی فحش بات کرے، نہ کوئی گناہ، نہ کوئی جھگڑا‘‘۔
ان تینوں چیزوں سے احتراز ضروری ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب تک آپ احترام نہ کریں، آپ فیض حاصل نہیں کر سکتے۔ مثلاً: ایک بہت بڑے بزرگ ہیں، اللہ تعالیٰ نے ان کو بہت بڑا مقام عطا فرمایا ہے، آپ اگر ان سے ملتے ہیں، تو آپ کو ان کا فیض ملے گا۔ لیکن اگر آپ ان کے پاس جا کر ان کی بے ادبی کریں، ان کی مخالفت کریں، تو ممکن ہے کہ بجائے فیض کے بے ادبی کی سزا مل جائے۔ اسی طرح خانہ کعبہ بھی بزرگ ترین جگہوں میں سے ہے، اس لئے وہاں پر بے ادبی اور زیادہ سخت ہو گی۔ اس لئے علمائے کرام نے فرمایا ہے کہ اگر یہاں ایک لاکھ گنا کے برابر ثواب ہے، تو ایک لاکھ گنا کے برابر گناہ بھی ہے۔ لہذا لوگوں کی یہ جو Mechanical thinking, develop ہو گئی ہے، اس سے اپنے آپ کو بچانا بہت ضروری ہے۔ Mechanical thinking نہیں ہونی چاہئے۔ جب خانہ کعبہ پہنچ گئے، تو خانہ کعبہ کی جتنی بھی چیزیں ہیں، وہ ہم پر نافذ ہو گئیں، چاہے ہم اس میں نعوذ باللہ من ذلک بے ادبی کریں، گناہ کریں اور فسق کریں۔ اس طرف لوگوں کا ذہن نہیں جاتا، یہ سارے نفس کے چکر ہیں، کیوں کہ نفس ماننا نہیں چاہتا۔ لہذا نفس صرف کعبہ کی برکت والی چیز لیتا ہے کہ چونکہ ہم یہاں پہنچ گئے، لہذا ہمیں اس کی برکت حاصل ہو گئی۔ لوگ وہ چیز نہیں لینا چاہتے اور نہ اسے نہیں سمجھنا چاہتے جو ان پر چیک لگاتی ہے یا جو ان پر کنٹرول کرتی ہے، حالانکہ دونوں قرآن کی آیتیں ہیں۔ جب قرآن پاک کی دونوں طرح کی آیتیں ہیں، تو کیوں نہ دونوں کو لیا جائے! دونوں کو لینا چاہئے۔ یہ بنیادی بات ہے کہ اس طرح لوگ اپنے ساتھ دشمنی کرتے ہیں، اپنے ساتھ ظلم کرتے ہیں۔
دیکھیں! ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ‘‘ پڑھ کر آپ ما شاء اللہ ایمان میں داخل ہو گئے، لہذا آپ کو اس کا فائدہ ملے گا، یہاں تک کہ آپ ہمیشہ کے لئے جہنم میں نہیں جلیں گے۔ لیکن اس کے بعد: ﴿وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ (العصر: 3) بھی ہے۔ لہذا اس کے لحاظ سے پھر درجہ بندی ہو گی۔ ﴿اِلَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ (العصر: 3) یعنی اعمالِ صالحہ کے مطابق درجہ بندی ہو گی۔ مثبت اعمال بھی ہوتے ہیں یعنی اعمالِ صالحہ اور منفی اعمال بھی ہوتے ہیں یعنی اعمالِ قبیحہ، یعنی گناہ کے اعمال۔
لہٰذا ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ کلمہ پڑھنے سے ایمان کا زور ِصفر سے ایک پہ آ گیا، اس کے بعد اعمالِ صالحہ اس کو بڑھا رہے ہیں۔ چار گنا، پانچ گنا، دس گنا، اٹھارہ گنا، بیس گنا، یوں اعمالِ صالحہ اس کو بڑھا رہے ہیں۔ اور ساتھ ساتھ گناہ اس کو کم بھی کر رہے ہیں۔ یہ دونوں چیزیں ساتھ ساتھ چلتی ہیں۔ اور یہ اللہ کی رحمت ہے کہ ثواب آپ کو جتنا بھی اوپر لے جائے، آپ جا سکتے ہیں، اس کی کوئی حد نہیں ہے۔ لیکن گناہ کے اوپر اللہ نے حد لگائی ہے۔ یہ ہمارے لئے اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے۔ (یہ اللہ تعالیٰ نے آج ہمیں بڑا مضمون دیا ہے، اس کو اچھی طرح سمجھ لیں) گناہ زیادہ سے زیادہ آپ کو ایک تک لا سکتا ہے، اس سے کم نہیں لے جا سکتا، کیونکہ ایمان بَحال ہے، ایمان موجود ہے۔ ہاں یہ بات ہو سکتی ہے (اللہ تعالیٰ بچائے) کہ اتنا بڑا گناہ ہو، اتنی بڑی بے ادبی اور گستاخی ہو کہ جس کی وجہ سے ایمان ہی سلب ہو جائے۔ اس کا خطرہ ہوتا ہے، لہذا اس سے بچنا ہوتا ہے کہ کبھی بھی ایسا کام نہ کیا جائے، جس سے ایمان سلب ہو جائے۔ کچھ چیزیں ایسی ہوتی ہیں، جن کے بارے میں علمائے کرام فرماتے ہیں کہ ان سے بہت ڈرنا چاہئے۔ گناہِ کبیرہ پر اصرار سے ایمان کا مسئلہ ہو سکتا ہے۔ گناہِ کبیرہ پر اصرار کی کئی صورتیں ہو سکتی ہیں۔ مثلاً: (اللہ بچائے) کسی نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دیں اور پھر ان کو ایک سمجھ کر اس کے ساتھ رہ رہا ہے۔ یہ خطرناک بات ہے، کیونکہ یہ زنا ہے اور زنا پر اصرار گناہِ کبیرہ پر اصرار ہے۔ چنانچہ اس قسم کی خطرناک صورتیں ہو سکتی ہیں۔ اس وجہ سے اپنے آپ کو ان چیزوں سے بچانا چاہئے۔ یہ خطرناک باتیں ہیں۔ گناہِ کبیرہ پر اصرار سے بچنا چاہئے۔ جب کبھی کوئی ایسی بات ہو جائے تو فوراً توبہ کرلینی چاہئے، تاکہ اس پر اصرار نہ ہو۔
بہر حال! ویسے گناہ کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو، وہ آپ کو ایک سے نیچے نہیں لے جا سکتا۔ لیکن اس کا یہ اثر ضرور ہو سکتا ہے کہ گناہ ایمان ہی ساتھ لے جائے۔ اور اگر ایمان ساتھ لے گیا، تو پھر ایک سے بھی گیا اور زیرو پہ آ گیا۔ لہٰذا انسان کو یاد رکھنا چاہئے کہ اگر ہمیں اللہ جل شانہ خانہ کعبہ میں پہنچا دے، تو اس کی مثال یوں لے لیں جیسے ہم نے ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ‘‘ پڑھ لیا ہے۔ اس کے بعد جتنے اچھے کام کریں گے، تو ان کے لئے ایک لاکھ کا Multiplication factor موجود ہے۔ اسی طرح جتنے بھی اعمال غلط کریں گے، ان کے لئے بھی ایک لاکھ کا Multiplication factor موجود ہے۔ اس میں بھی ہم یہ امید کرتے ہیں (اللہ بچائے) کہ اگر کوئی اتنا بڑا گناہ کر لے، جس سے وہ ایسے مقام پہ آ جائے گا کہ جیسے وہ خانہ کعبہ میں آیا ہی نہیں۔ لیکن اگر ایسے مقام پر آ جائے جیسے ایمان کے جانے والی بات ہے، تو عین ممکن ہے کہ اسے خانہ کعبہ سے نکال دیا جائے۔ اس لئے ہمیں خانہ کعبہ کے ادب اور اس کے احترام کو اچھی طرح یاد رکھنا چاہئے کہ ہم یہاں کوئی ایسے کام نہ کریں، جن کی وجہ سے ہم خانہ کعبہ سے گویا کہ نکال دیئے جائیں۔ اللہ تعالیٰ ہماری حفاظت فرمائے۔
متن:
چھٹا باب
قرآن مجید کے اسرار معانی کے بیان میں، اور حضرت صاحب کا معانئ قرآن کے متعلق علم
ہمارے محترم شیخ صاحب قرآن مجید کے علوم اور علمِ معانی کے اسرار اور رموز میں پوری دسترس رکھتے تھے۔ قرآن کریم ایک ناپیدا کنار اتھاہ سمندر ہے۔ رسولِ کریم ﷺ فرماتے ہیں: "جَدِّدِ السَّفِیْنَۃَ فَإِنَّ الْبَحْرَ عَمِیْقٌ" (مسند الفردوس، للدیلمی، باب الیاء، رقم الحدیث: 8368) ”کشتی کی مضبوطی کا بندوبست کرو، کیونکہ سمندر بہت گہرا ہے“۔ ہمارے شیخ صاحب رحمۃ اللہ علیہ قرآن کے معانی اور رموز کے سمندر کے غوطہ خور تھے۔ بعض اصحاب اور وہ حضرت صاحب فرماتے ہیں کہ میرا دل تو معارفِ قرآنی سے واقف و آشنا ہے، مگر میری زبان جاری نہیں ہوتی اور اس کی عبارت کی ادائیگی سے قاصر ہے۔ بیت :
؎ بدریائے در افتادم کہ پایانش نمے بینم
بدردے مبتلا گشتم کہ درمانش نمے بینم
دریں دریا یکے دُر است و من مشتاق آں بودم
و لیکن کو کہ مے جوید کہ فرمائش نمے بینم
”میں ایک ایسے دریا میں گِر پڑا کہ اُس کی تہہ نہیں دیکھ سکتا اور ایسی بیماری میں مبتلا ہو گیا، جس کا کوئی علاج معلوم نہیں۔ اس دریا میں ایک موتی ہے اور میں اُس کے پانے کا مشتاق ہوں، لیکن اُس کو ڈھونڈنے کا حکم نہیں، اس لئے ڈھونڈ نہیں سکتا“۔
اسی لئے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ "جَدِّدِ السَّفِیْنَۃَ فَإِنَّ الْبَحْرَ عَمِیْقٌ" (مسند الفردوس، للدیلمی، باب الیاء، رقم الحدیث: 8368) یعنی اے محبوب! رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ اپنے دل کی کشتی کو مضبوط بناؤ کہ قرآن کریم کا دریا بہت گہرا ہے۔ "اَلْقُرْآنُ بَحْرٌ عَمِیْقٌ وَّالْأَکْثَرُ غَرِیْقٌ" کہ قرآن کریم ایک گہرا سمندر ہے اور اکثر لوگ اس میں ڈوب جاتے ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ﴿یُضِلُّ بِہٖ کَثِیْرًا وَّیَھْدِیْ بِہٖ کَثِیْرًا﴾ (البقرۃ: 26) ”گمراہ کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس مثال سے بہتیروں کو اور هدایت کرتا ہے اس سے بہتیروں کو“۔ یہ آیت کلام اللہ کے طرف اشارہ ہے اور رسول اللہ ﷺ کی ذاتِ عالی کی جانب بھی مشیر ہے، چنانچہ فرماتے ہیں کہ قرآن تجھ پر نازل ہوا ہے، اگر یہ پتھروں پر بھی نازل ہوتا، تو قسم ہے کہ وہ پتھر پگھل کر اللہ تعالیٰ کے خوف سے پانی ہو جاتے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ﴿لَوْ أَنْزَلْنَا ھٰذَا الْقُرْاٰنَ عَلٰی جَبَلٍ لَّرَأَیْتَہٗ خَاشِعًا مُّتَصَدِّعًا مِّنْ خَشْیَۃِ اللہِ﴾ (الحشر:21) ”اگر ہم اتارتے یہ قرآن ایک پہاڑ پر، تو تُو دیکھتا کہ وہ دب جاتا، پھٹ جاتا اللہ تعالیٰ کے ڈر سے“۔
اے میرے پیارے! جب قرآن کریم اپنے حُسن و جمال سے غیرت کا نقاب ہٹاتا ہے اور عظمت کا حجاب اپنے معانی سے اُٹھاتا ہے، تو اللہ تعالیٰ کی ملاقات سے جدائی کے بیمار فنا ہو جاتے ہیں اور تمام مصائب سے نجات پاتے ہیں۔ جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے: "اَلْقُرْاٰنُ ھُوَ دَاءٌ" (لم أجد ھذا الحدیث) یعنی اپنے طالب کو قتل کرتا ہے، (یعنی فنا کرتا ہے) تاکہ وہ اپنے مطلوب تک پہنچ جائے۔ پس اے بھائی! اللہ نے قرآن کریم کو اِس دنیا میں حروف کے لباس میں ارسال فرمایا ہے، اور پھر ہر حروف کے اندر لاکھوں حسین و جمیل جاں ربا اشارے پوشیدہ کر رکھے ہیں اور اعلان فرمایا کہ ﴿وَ ذَکِّرْ فَإِنَّ الذِّکْرٰی تَنَْفَعُ الْمُؤْمِنِیْنَ﴾ (الذاریات: 55) ”اور سمجھاتا رہ کہ سمجھانا نفع پہنچاتا ہے ایمان والوں کو“۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب ﷺ کو فرمایا کہ تُو اپنی رسالتِ حقہ کا جال پھیلا اور اپنے خُلقِ عظیم کا دانہ اس جال میں پھیلا کر ڈال رکھ، جو ہمارے شکار ہیں، وہ آپ کے اس جال میں آ جائیں گے۔ بیگانوں اور اغیار کے لئے میرے دل میں کوئی جگہ نہیں۔ ﴿إِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا سَوَآءٌ عَلَیْھِمْ ءَأَنْذَرْتَھُمْ أَمْ لَمْ تُنْذِرْھُمْ لَا یُؤْمِنُوْنَ﴾ (البقرۃ: 6) ”بے شک جو لوگ کافر ہو چکے، برابر ہے اُن کو تُو ڈرائے یا نہ ڈرائے، وہ ایمان نہ لائیں گے“۔ جو کچھ کہ تھا اور جو کچھ کہ آئندہ ہوگا، سب کچھ قرآن کریم کے اندر موجود ہے۔ ﴿وَلَا رَطْبٍ وَّلَا یَابِسٍ إِلَّا فِيْ کِتَابٍ مُّبِیْنٍ﴾ (الأنعام: 59) ”اور نہ کوئی ہری چیز اور نہ کوئی سوکھی چیز، مگر یہ کہ وہ سب کتابِ مبین میں ہے“۔ یہ ظاہر بین علماء کہاں یہ بات جانتے ہیں اور کیا جانتے ہیں؟ افسوس! صد افسوس! کہ قرآن مجید اس پردے میں ہے، جس سے ظاہر بین علما محروم ہیں۔ پس قرآن کریم اللہ تعالیٰ کا اپنے دوستوں کے ساتھ مکالمہ اور خطاب ہے۔ ﴿إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَإِنَّا لَہٗ لَحَافِظُوْنَ﴾ (الحجر: 9)
تشریح:
اللہ جل شانہ نے یہ کلام ہمیشہ کے لئے نازل فرمایا ہے اور یہ ہمیشہ کے لئے ہے۔ اس میں ہماری ہدایت کی تمام چیزیں رکھ دی ہیں۔ آپ ﷺ کی ذات بھی ایسی ہے اور قرآن پاک بھی ایسا ہے، یعنی آپ ﷺ کی ذات بھی مَظہرِ ہدایت ہے، قیامت تک آپ ﷺ کی سنتوں سے ہدایت ملا کرے گی، لہٰذا جو شخص بھی چاہتا ہے کہ وہ ہدایت حاصل کرے، تو وہ آپ ﷺ کے طریقہ پہ آنکھیں بند کر کے چلے، اس کو ہدایت ملے گی۔ اسی طرح جو بھی شخص ہدایت چاہتا ہے، وہ قرآن پر عمل کرنا شروع کرے، اس کو ہدایت ملے گی۔ اور چونکہ لوگوں میں بھی درجے ہوتے ہیں، چنانچہ ایک بہت بڑا عارف بھی قرآن پڑھتا ہے، اور بالکل ابھی ابتدا کرنے والا مومن بھی قرآن پڑھتا ہے، دونوں کو ایک ہی ذریعے سے مل رہا ہے۔ لیکن دونوں کو برابر نہیں ملتا۔ بہر حال ملتا ایک ہی ذریعے سے ہے۔ لہٰذا یوں کہہ سکتے ہیں کہ اس میں حجابات ہوتے ہیں، وہ حجابات انسان کے مرتبہ کے مطابق کھلتے ہیں، جس کا جتنا مرتبہ ہوتا ہے، اس سے آپ ﷺ کی ذات مبارک اور قرآن پاک کے متعلق اتنے حجابات ہٹا دیئے جاتے ہیں۔ اور جتنے جتنے حجابات اٹھیں گے اتنے ہی علوم و معارف ان کے اوپر کھلیں گے۔ جو بہت بڑا عارف ہے، اس کے حجابات بہت زیادہ ہٹ جاتے ہیں، لہذا وہ قرآن کو اُس حد تک لیتا ہے، اس کو قرآن کے اندر علوم و معارف کے سمندر نظر آتے ہیں۔ حضرت شیخ الحدیث رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب ’’فضائلِ اعمال‘‘ میں ایک واقعہ لکھا ہے کہ ایک بہت بڑے بزرگ سے ایک بہت بڑے عالم بیعت ہوئے، اس عالم کو اس بزرگ نے فرمایا کہ سوائے موقوت فرض نماز کے سب کو مؤخر کر دیں۔ یعنی جن نمازوں کے لئے وقت مقرر ہے، وہ تو آپ نے پڑھنی ہیں، باقی وہ تمام اعمال جو موقوت نہیں ہیں، یعنی جن کو مؤخر کیا جا سکتا ہے، ان کو فی الحال مؤخر کر دیں۔ جیسے وعظ و نصیحت ہے یا ذکر اذکار ہیں، سب موقوف کر دیں۔ صرف ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ‘‘ کا ذکر کرو، جس کا طریقہ انہیں بتا دیا۔ اب اتنے بڑے عالم کو اگر کوئی اس طرح کہہ دے، تو یہ واقعی بڑا مشکل کام ہوتا ہے، کیونکہ بڑی دنیا وابستہ ہوتی ہے۔ در اصل ان کو یکسوئی کی طرف لایا گیا تھا کہ یکسوئی کے ساتھ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ‘‘ کا مشاہدہ نصیب ہو۔ میں اس کی ایک مثال دیتا ہوں، جیسے پانی دو سو فٹ پر ہے، آپ چار کنویں پچاس پچاس فٹ کے کھود لیں، کیا پانی مل جائے گا؟ کنویں تو چار ہیں، لیکن پانی نہیں آیا۔ ایک کنواں دو سو فٹ کا کھود لیں، پانی مل جائے گا۔ یہی یکسوئی کی ایک مثال ہے۔ لہٰذا حاصل کرنے کے جو بھی ذرائع ہیں اور جس ذریعے سے بھی حاصل کیا جا سکتا ہے، ان میں سے کوئی ایک ذریعہ اتنی یکسوئی کے ساتھ اختیار کر لو کہ آپ کو مطلوب مل جائے تو آپ کا کام ہو جائے گا۔ اسی وجہ سے حضرت نے یکسوئی کے ساتھ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ‘‘ کا ذکر کرنے کا اور باقی تمام کام چھوڑنے کا فرمایا۔ وہ سمجھ گئے، لہذا انہوں نے وہ عمل شروع کر لیا۔ کچھ دنوں کے بعد حضرت کو اطلاع ہو گئی کہ وہ قرآن کا درس دیتے ہیں، ان کا خیال تھا کہ شاید اس سے نہیں روکا ہو گا۔ حضرت نے اطلاع بھیجی کہ فی الحال اس کو بھی مؤخر کر دیں، اس پر ایک ہنگامہ کھڑا ہو گیا کہ یہ کیسا پیر ہے جو قرآن کے درس سے منع کرتا ہے، اور کیسا مرید ہے کہ پیر کی ایسی بات بھی مان لیتا ہے۔ پیر کو بھی لوگوں نے زندیق قرار دیا، کیونکہ مخالفین تو ہوتے ہیں، اور پھر دوسرے سادہ لوگ بھی ساتھ شامل ہو جاتے ہیں۔ یہ مشہور کر دیا کہ پیر بھی زندیق اور مرید بھی زندیق، اس کا ڈھنڈورا پیٹا۔ لیکن دونوں حضرات اپنے کام میں مگن تھے، ان کو کوئی اثر نہیں ہوا۔ نہ پیر نے حکم واپس لیا، نہ مرید نے عمل کرنا چھوڑا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ کچھ عرصہ کے بعد جس مقصود تک پہنچانا تھا، وہاں پہنچ گئے اور پھر حضرت نے فرمایا کہ اب قرآن کا درس دو۔ اس کے بعد وہ مرید فرماتے ہیں کہ پہلے بھی میں قرآن کا درس دیتا تھا، لیکن اس میں میں صرف وہ چیزیں پڑھاتا تھا جو میں نے پڑھی ہوتی تھیں، گویا کسبی علم بتاتا تھا۔ اس کے بعد جب مجھے حضرت نے یہ حکم دیا تو یہ حالت تھی کہ قرآن کے اسرار مجھ پر کھلنا شروع ہو گئے کہ میں ہر ہر لفظ کے پیچھے علوم کے سمندر پاتا تھا، بس یہی تبدیلی تھی۔ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ‘‘ نے حجابات دور کرا دیئے۔ جب حجابات دور ہو گئے تو قرآن وہی تھا، قرآن میں تبدیلی نہیں آئی، تاہم حجابات دور ہو گئے۔ لہذا پہلے ان کو صرف وہی معنے نظر آتے تھے جو انہوں نے پڑھے ہوتے تھے، اب ان کو وہ معنے بھی نظر آنے لگے جو انہوں نے پڑھے نہیں تھے، لیکن موجود تھے، وہ بھی ان کو نظر آنے لگے۔ یہ اصل میں بنیادی بات ہے۔ چنانچہ قرآن کی جو ہمہ گیری ہے، وسعت ہے، عمق ہے، جتنے جتنے حجابات دور ہوتے جائیں گے، اتنے اتنے یہ ظاہر ہوتے جائیں گے۔ اسی طرح آپ ﷺ کی ذات مقدس کے بارے میں بھی یہی بات ہے۔
متن:
پس قرآن کریم اللہ تعالیٰ کا اپنے دوستوں کے ساتھ مکالمہ اور خطاب ہے۔ ﴿إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَإِنَّا لَہٗ لَحَافِظُوْنَ﴾ (الحجر: 9) اور ظاہری طور پر دیکھنے والوں کے لیے ظاہری حروف و کلمات کے علاوہ اور کوئی چیز نہیں۔ یعنی ظاہری طور پر تو سنتے ہیں لیکن باطن کے سننے میں یہ لوگ بے بہرہ ہیں۔ ﴿إِنَّھُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُوْلُوْنَ﴾ (الشعراء: 212) ”اُن کو سننے کی جگہ سے دور کر دیا ہے“ اور دوسری جگہ فرمایا ہے کہ ﴿لَوْ عَلِمَ اللہُ فِیْھِمْ خَیْرًا لَّأَسْمَعَھُمْ﴾ (الأنفال: 23) ”اور اگر اللہ جانتا اُن میں کچھ بھلائی تو اُن کو سنا دیتا“
اب اے میرے عزیز بھائی! جان لے کہ محمد حسین صاحب فرما گئے ہیں کہ اہلِ حقیقت کے بارے میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ "أَھْلُ الْقُرْآنِ أَھْلُ اللہِ وَخَاصَّتُہٗ" (سنن ابن ماجۃ، باب: فضل من تعلم القرآن و علّمہ، رقم الحدیث: 215) یعنی قرآن والے اللہ تعالیٰ کے خاص اور اہل ہیں۔ اب قاری حضرات محض قرأت کی وجہ سے اور مفسرین حضرات تفسیر اور بیان کی وجہ سے اس حدیث شریف کے ظاہر کو اپنی شان میں تعبیر کرتے ہیں۔ یہ اُن کی بڑی غلطی ہے اور وہ یہ بات نہیں سمجھتے۔ اہل قرآن اور اہل اللہ وہ لوگ ہیں جو قرآن کریم کے حقیقت شناس ہوں اور حقائق قرآنی کے مشاہدہ کرنے والے ہوں۔ پس اہلِ قرآن اُس مقام میں ہیں کہ تمام قرآن کو بائے ''بِسْمِ اللہِ'' میں دیکھتے ہیں۔ پس اے میرے عزیز بھائی! اگر تو صرف زبان سے کہے کہ ﴿لِلّٰہ مَا فِي السَّمٰوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ﴾ (البقرۃ: 284) یعنی "جو کچھ زمینوں اور آسمانوں میں ہیں وہ سب اللہ کے ہیں"۔ یعنی جو کچھ کہ زمینوں اور آسمانوں میں ہیں سب ہی کہہ دو۔ اور جب اس آیت کا مشاہدہ کیا جائے اور اس آیت کے حسن و جمال سے عزت و جلال کا نقاب ہٹا کر اِس کو بغور دیکھا جائے اور تم اس کے جمال سے آگاہ اور واقف ہو جاؤ تو فورًا پکار اٹھو گے کہ ﴿لِلّٰہ مَا فِي السَّمٰوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ﴾ (البقرۃ: 284) اور جو کچھ کہ آسمانوں اور زمینوں کی وسعتوں میں ہے وہ بیک نگاہ سب دیکھ پاؤ گے۔ تم اُن کا مشاہدہ کرو گے اور ہر ایک کو پہچانو گے اور ان کے ناموں کو بھی جانو گے۔ پس اے میرے عزیز! اگر ہر ایک کا جدا جدا نام لوگے تو بہت زیادہ عرصہ گزرے گا لیکن جب تم یہ کہو گے کہ ﴿لِلّٰہ مَا فِي السَّمٰوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ﴾ (البقرۃ: 284) تو یہ سب کہو گے اور اِن سب کا مشاہدہ کرو گے اور اِس وقت اپنے آپ کو ﴿وَكَانَ اللہُ بِکُلِّ شَیْئٍ مُّحِیْطًا﴾ (النساء: 126) کے دائرے اور احاطے کے اندر دیکھو گے۔
تشریح:
یہ فرمایا ہے کہ جب حجابات دور ہوں گے تو کیا ہو گا؟ قرآن میں ہے: ﴿لِلّٰہ مَا فِي السَّمٰوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ﴾ (البقرۃ: 284) ایک یہ آیت ہے، ایک اس کا ترجمہ ہے، ایک اس کی حقیقت ہے۔ جب حقیقت کھلے گی تو وہ ساری چیزیں آپ پر کھل جائیں گی جو اس میں پنہاں ہیں۔ لہٰذا جو صاحبِ حقیقت ہوتا ہے اس کو ایک ایک لفظ کے اندر سمندر نظر آتے ہیں، اور وہ اس سے مستفید ہوتا ہے۔ حضرت شیخ عبدالکریم جیلی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی سورۂ فاتحہ کے بارے میں یہ لکھا ہے کہ جو کچھ قرآن میں تھا وہ سب سورۂ فاتحہ میں آ گیا اور جو سورۂ فاتحہ میں تھا وہ ’’بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم‘‘ میں آ گیا اور جو ’’بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم‘‘ میں ہے، وہ ’’ب‘‘ میں آ گیا اور جو ابتداء والی ’’ب‘‘ میں ہے، وہ سارا اس نقطۂ وحدت میں آ گیا۔ چنانچہ جو عارف ہو، اس کے لئے یہ چیزیں نا ممکن نہیں ہوتیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس کو جس درجے کی بھی معرفت دی ہے، وہ اتنی ہی معرفت کے ساتھ قرآن پڑھتا ہے، سیکھتا ہے، سنتا ہے، سمجھاتا ہے، اور اس پر اس کے مطابق اثر ہوتا ہے۔
متن:
یا اپنے آپ کو بائے ''بِسْمِ اللہِ'' کے نیچے کے نقطے میں دیکھو گے تو اس وقت تمہیں بائے ''بِسْمِ اللہِ'' کی عظمت و جلال کا احساس ہوگا کہ یہ ''بِسْمِ اللہِ'' اور اس کا نقطہ محرمان درگاہ اور مقرب بندوں کے دلوں کے ساتھ عظیم جلوہ دکھاتا ہے۔ پس جو باء کے نقطے میں دیکھو گے جس سے اب تک تم واقف نہ ہو اور اس طرح جب تم سین یا میم کا جمال دیکھو گے تو سمجھ لو گے کہ قرآن کریم کیا ہے اور قرآن جاننے والا کون ہے، تو اِس وقت اہل اللہ ہو جاؤ گے اور محرم راز بن جاؤ گے۔ تم پہلے اس وقت میں کالے حروف اور سفید کاغذ کے علاوہ کچھ نہ دیکھتے تھے۔ اور یہ مسلّمہ بات ہے کہ جب تم اپنے ہوش و وجود میں رہو گے تو اس سیاہی اور سفیدی کے علاوہ کچھ نہ دیکھو گے،
تشریح:
یعنی کاغذ سفید ہے، اس پہ سیاہی حروف ہیں۔
اور جب وجود کے خول سے باہر نکل آؤ گے تو اللہ کا کلام تمہارے وجود کو خود بخود محو کر دے گا۔ اُس وقت یہ تمہیں محو سے اثبات تک پہنچایا جائے گا کہ ﴿یَمْحُوْ اللہُ مَا یَشَآءُ وَ یُثْبِتُ﴾ (الرعد: 39) اس کے بعد تمہیں کچھ بھی کالا نظر نہ آئے گا۔ یعنی سب ہی سفید ہی سفید دیکھو گے یعنی تمام برائیاں تجھے نیکیاں نظر آئیں گی۔
ابیات:۔ ہر آں نقشے کہ در صحرا نہادیم
تو زیبا بین کہ ما زیبا نهادیم
’’جو نقش کہ ہم نے صحراء میں بنا چھوڑا ہے، تو اس کو خوبصورت نظر سے دیکھ کہ ہم نے اُس کو حسین بنایا ہے‘‘
اور جب تم اِس صحیفۂ کائنات کو دیکھو گے تو پکار اٹھو گے: ﴿وَ عِنْدَہٗ أُمُّ الْکِتَابِ﴾ (الرعد: 39)
تشریح:
واقعتاً نظر نظر کی بات ہے۔ میں جب دِیر گیا تھا، دِیر میں پہاڑی علاقہ ہے، جہاں ہمارے دوست مولانا صالح صاحب کی خانقاہ میں بھی گیا تھا، صرف پہاڑ تھے، کوئی خاص سر سبز بھی نہیں تھے، لیکن وہاں کی زمینوں کی قیمت پتا چلی تو وہ بہت زیادہ تھی۔ میں نے پوچھا: مولانا صاحب! یہ زمین اتنی مہنگی کیوں ہے؟ یہاں ایسا کیا ہے؟ کہتے ہیں: بس لوگ نہیں دیتے۔ بالکل یہی بات بنوں میں ہے، وہاں بھی زمین کی قیمتیں اسلام آباد کی طرح بہت زیادہ ہیں۔ آدمی حیران ہوتا ہے کہ یہاں کیا ہے! آخر کیوں لوگ ادھر سے آگے پیچھے نہیں ہوتے! بس ان کی نظر میں وہ چیز آ گئی ہے، وہ اسی کے حساب سے قیمت لگاتے ہیں۔ بعض لوگوں کو ان کی آنکھ کے مطابق اور ان کی سمجھ کے مطابق صحرا گلستان سے خوبصورت نظر آتے ہیں۔ چنانچہ یہ ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی بھی چیز کو کسی کے لئے حسین بنا دے۔ کہتے ہیں مجنون سے کسی نے کہا کہ لیلیٰ تو کالی ہے۔ اس نے کہا تم مجنون کی آنکھوں سے دیکھو گے تو پھر حسن نظر آئے گا۔ در اصل دل کا تعلق جس چیز کے ساتھ ہو جائے تو اس کا رنگ بدل جاتا ہے۔ بہر حال خواہ مخواہ اپنے آپ کو خراب نہیں کرنا چاہیے۔
ایک بات اس میں اور بھی آ گئی ہے کہ: ’’اللہ کا دوست بن جائے گا‘‘۔ ایک بات یاد رکھئے کہ اس دنیا میں وَلِیُّ اللہ ہونا یعنی اللہ کی دوستی بہت بڑی دولت ہے۔ لیکن دوست کو جو راز اور معارف بتائے جاتے ہیں، وہ ضروری نہیں کہ ہر ایک کو بتانے کے ہوں۔ جو وہ راز ہر ایک کو بتائے گا، اسے دوستی سے نکالا جا سکتا ہے۔ حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ وہ دوست دوستی کے قابل نہیں، جو دوست کے راز کو راز نہ رکھ سکے۔ جو راز نہیں رکھ سکتا، خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کے قول کے مطابق وہ معتوب ہو جاتا ہے۔ لیکن اب وہ تو راز رکھنا چاہتا ہے، مگر ایک آدمی اس کی ٹوہ میں لگ جاتا ہے اور اس سے وہ راز نکلوانا چاہتا ہے۔ سوچئے وہ کیسا بن جاتا ہے؟ عین ممکن ہے وہ چور کے زمرے میں آئے۔ کیونکہ چور دوسرے کے خلاف چوری کرتا ہے۔ چونکہ لوگ اپنی چیزوں کو چوری نہیں ہونے دینا چاہتے، لیکن چور کسی ایسے وقت میں آتا ہے اور اس طریقے سے آتا ہے کہ مالک کو پتا ہی نہیں چلتا اور اس کی چیز وہ لے جاتا ہے۔
اسی طرح وہ قرائن اور علامات سے، ادھر ادھر سے حساب کتاب کر کے، کوشش کر کے، اپنے اندازے لگا کر اس راز کو لے اڑتا ہے۔ اور جو اس کو راز رکھنا چاہتا تھا، آگے پہنچانا نہیں چاہتا تھا، وہ تو گناہ گار نہیں ہوا، لیکن جس نے اس سے چوری کرنے کی کوشش کی، وہ تو ہو گیا۔
یہی چیزیں میں آج کل سمجھانا چاہتا ہوں کیونکہ ہمارے سلسلہ میں اس قسم کی گڑبڑ شروع ہو گئی ہے، لوگ خواہ مخواہ ان چیزوں کے پیچھے پڑ جاتے ہیں اور معلوم کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ کیا چیز ہے. حالانکہ جتنا بتا دیا جائے، اتنے پر اکتفاء کرو۔ اگر بتانا ہوتا تو بتا دیا جاتا۔ اور پھر بتانے سے ذمہ دار ہو جاؤ گے۔ ہم جب اٹامک کمیشن میں تھے، تو وہاں چیزوں کو خفیہ رکھنا لازمی تھا، اور یہ ہماری ذمہ داری تھی۔ میں اس پر خوش ہوتا تھا کہ مجھے کوئی راز نہ بتائے۔ میرے شاگرد مختلف High classified project پہ کام کرتے تھے، بعض دفعہ وہ مجھ سے academically discuss بھی کرتے تھے، لیکن میری پوری کوشش ہوتی تھی کہ میں اس کے راز تک نہ پہنچوں، کیونکہ میں اگر اس کے راز تک پہنچتا ہوں تو میں ذمہ دار ہو جاؤں گا اور پھر میں اس کو محفوظ رکھنے کا ذمہ دار ہوں گا۔ اگر میں راز نہیں رکھتا تو ذمہ دار ہو جاؤں گا اور یہ جرم ہو جائے گا۔
مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے قریب جو ساتھی تھے، بعض دفعہ وہ بھی مجھ سے کچھ کرید کرتے تھے کہ کیا ہو گیا ہے؟ میں تنگ ہوتا تھا کہ میں ان کو کیا بتاؤں۔ کیونکہ ہم نے کچھ نہ بتانے کا ایک حلف نامہ سائن کیا ہوا ہے۔ چنانچہ میں نے پھر اس کو گپ بنا لیا، گپ بننے سے سنجیدگی ختم ہو جاتی ہے، گپ اس طرح بنا دیا کہ میں کہتا کہ ہاں! بن چکا ہے، بس اس پہ لڑائی ہو رہی ہے کہ اس کا رنگ سفید ہو یا سبز ہو یا سرخ ہو، بس اس پہ لڑائی چل رہی ہے، اب دیکھتے ہیں، پتا نہیں کون سا رنگ اس کو دیا جاتا ہے۔ یوں میں نے اس کو گپ سا بنا دیا تاکہ گپ میں ہی بات ختم ہو جائے۔ بہر حال اگر کسی کو کوئی راز معلوم ہو گیا تو اس راز کو راز رکھنا اور کسی اور کو نہ بتانا ضروری ہوتا ہے۔ یہ مجبوری ہوتی ہے، ورنہ وہ اس کو پھیلانے والوں میں سے ہو گا، اور پھیلانے میں مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ وہ پھر اپنی اصلی حالت پر نہیں رہتا، بلکہ کچھ اپنے نفس کی چیزیں بھی اس میں شامل ہو جاتی ہیں۔ لہذا وہ جتنا تھا، اتنا نہیں رہتا، بلکہ اس سے بڑھتے بڑھتے پتا نہیں کیا ہو جاتا ہے۔ کسی نے کہا کہ میں آج کل بیت الخلاء جاتا ہوں تو میرا پاخانے سیاہ کوے کی طرح ہوتا ہے جیسے خون آ رہا ہو۔ یہ بات آگے پھیلتے پھیلتے یہاں تک پہنچ گئی کہ آخری آدمی نے کہا کہ اس کے پاخانے سے کوے اڑتے ہیں۔ لہٰذا یہ تو حقیقت ہے کہ بات اپنی اصلی حالت پر نہیں رہتی، بلکہ ہوتے ہوتے پتا نہیں کہاں سے کہاں پہنچ جاتی ہے۔ اس لئے یہ بات بہت اہم ہے کہ کبھی بھی کسی کے پیچھے نہیں پڑنا چاہیے، بالخصوص جب شیخ کے ساتھ یہ معاملہ ہوتا ہے کہ اگر شیخ کوئی چیز نہ بتائے تو اشارے کنایے میں بھی معلوم نہ کی جائے۔ میں آپ کو فقہ کا ایک اصول بتا دیتا ہوں، شاید اس سے آسانی کے ساتھ یہ بات سمجھ میں آ جائے گی۔ فقہ کا ایک اصول ہے کہ اگر آپ سے کوئی بات کرنا چاہے اور بات کرنے کے دوران پیچھے کی طرف دیکھے کہ کوئی ہے تو نہیں۔ تو گویا اس نے آپ کو اشارتاً بتا دیا کہ یہ بات کسی کو بتانی نہیں ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اَلْمَجَالِسُ بِالْأَمَانَةِ‘‘ (ابوداؤد، حدیث نمبر: 4869)
ترجمہ: ’’مجلسیں امانت ہیں‘‘۔
لہٰذا اشارے سے سمجھنا چاہیے۔ جب معلوم ہو گیا کہ یہ کسی اور کو نہیں بتانا تو بس اس پہ عمل کرنا چاہیے۔ اور اگر شیخ اشارہ نہ کرے بلکہ صراحتاً بتا دے تو پھر تو بالکل بھی نہیں بتانا چاہئے۔ وجہ یہ ہے کہ ہر چیز ہر ایک کے لئے نہیں ہوتی۔ اگر ہر ایک کے لئے ہوتی تو پھر بتا دیا جاتا۔ بعض دفعہ ایک صحیح چیز ہوتی ہے، لیکن سمجھ میں آنے والی نہیں ہوتی، اس لئے وہ بے چارہ فتنے میں پڑ جاتا ہے اور الجھن کا شکار ہو جاتا ہے، حتیٰ کہ دین سے بھی جا سکتا ہے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا تھا کہ کچھ ایسی چیزیں ہیں، جو میں نے بتا دی ہیں، اور کچھ ایسی چیزیں ہیں کہ اگر میں وہ بتاؤں تو مجھے لوگ قتل کر دیں گے، میرا سر اڑا دیں گے۔ کچھ لوگ نا سمجھ ہوتے ہیں، جیسے خوارج، جنہوں نے صحابہ کرام کو شہید کیا تھا، وہ نا سمجھی کی وجہ سے تھا۔ بعض دفعہ بات صحیح ہوتی ہے، جیسے امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے پاس خوارج کے کچھ لوگ آئے اور امام صاحب کو مارنا چاہا، امام صاحب نے کہا: مجھے مارنا مقصود ہے یا کوئی وجہ بھی ہے؟ انہوں نے کہا وجہ ہے کیونکہ تم غلط باتیں کرتے ہو، تم فاتحہ خلف الامام کو نہیں مانتے۔ امام صاحب نے کہا: اس پر بات کر لیتے ہیں۔ انہوں نے کہا اچھا، پھر پہلے ہم بات کر لیتے ہیں۔ امام صاحب نے کہا: یہ بتاؤ کہ سارے مل کر مجھ سے بات کرنا چاہو گے یا کسی ایک کو اپنی طرف سے مقرر کر کے بات کرو گے۔ انہوں نے کہا ہم ایک آدمی مقرر کر لیتے ہیں جو آپ کے ساتھ بات کرے گا۔ امام صاحب نے کہا: کرو مقرر۔ سب نے مل کر مشورہ کر کے ایک آدمی کو مقرر کیا کہ یہ آپ سے ہماری طرف سے بات کرے گا۔ امام صاحب نے کہا: اس کی بات آپ سب کی طرف سے ہے یا نہیں ہے؟ انہوں نے کہا: جی! ہم سب کی طرف سے ہے، کیونکہ ہم نے مقرر کر لیا ہے۔ جب وہ آدمی آ گیا تو امام صاحب نے کہا: کس چیز پہ بات کرنی ہے؟ وہ کہنے لگے: فاتحہ خلف الامام پر۔ امام صاحب نے کہا: وہ مسئلہ تو طے ہو گیا، کوئی اور بات کرو۔ وہ کہنے لگے: کیسے طے ہو گیا؟ ابھی تو بات چلی ہی نہیں۔ امام صاحب نے کہا: تم سب نے اپنی طرف سے جو ایک آدمی مقرر کیا ہے، اس کی بات تم سب کی طرف سے ہے، بالکل اسی طرح امام جو قرات کر رہا ہے وہ بھی سب کی طرف سے ہے۔ میں بھی تو یہی کہہ رہا ہوں۔ وہ سب شرمندہ ہو کے سر نیچے کر کے چل دیئے۔ لیکن امام صاحب کی طرح ہر آدمی تو اتنا ذہین نہیں ہوتا کہ فوری طور پر اس کے لئے پلان بنا لے اور اس طرح بات کرے۔ لیکن بات تو ان کی بھی صحیح ہو سکتی ہے۔ اور نا سمجھی سے لوگ مارنے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں۔
بہر حال ہر بات ہر ایک کو اس لئے نہیں بتائی جاتی کہ ہر ایک اس کا اہل نہیں ہوتا۔ لہٰذا یہ بہت ضروری ہے کہ جتنا بتایا جائے، اتنا سنا جائے اور اس کو پھر راز رکھا جائے، جب تک اجازت نہ ہو، وہ دوسرے کو نہ بتایا جائے، ورنہ بے اعتماد ہو جاؤ گے، پھر تمہیں کچھ نہیں بتایا جائے گا۔ پھر تمہیں اپنے ساتھ شامل بھی نہیں کیا جائے گا۔ جیسا کہ خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ نے فتویٰ دے دیا ہے کہ جو دوست کا راز نہیں رکھ سکتا، وہ دوستی کے قابل نہیں۔ یہ سب باتیں میں اس لئے نہیں کہہ رہا کہ ہمارے پاس کوئی راز ہیں، راز ہمارے پاس کچھ بھی نہیں ہیں۔ میں صرف یہ بات عرض کرنا چاہتا ہوں کہ اگر میں کسی کو کوئی چیز بتا دوں اور میں نے کسی کواس کے بتانے کی اجازت نہ دی ہو، تو وہ اس کے پاس امانت ہے۔ کیونکہ کسی بھی چیز کو درجہ بندی کے لحاظ سے سمجھانا ہوتا ہے، ہر ہر چیز کا اپنا اپنا درجہ ہوتا ہے، ہر ایک کو ان چیزوں کی سمجھ نہیں ہوتی۔ لہذا پھر وہ غلط طریقے سے ایسے لوگوں کو بتا سکتا ہے جو اس کے اہل نہیں ہوں گے، نتیجتاً وہ فساد برپا کر دیں گے، لوگ خواہ مخواہ بدگمانیاں کریں گے اور اس سے نقصان ہو گا۔
متن:
اس کے پاس اُم الکتاب ہے“ پس اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کو کئی ہزار حجابوں اور پردوں میں ملفوف کر کے اپنی مخلوق کے پاس بھیجا ہے کہ بِسْمِ اللّٰہ شریف کی جلالت عرش مجید یا آسمانوں پر رکھ دی جاتی تو تابِ جمال سے فورًا ٹوٹ پڑتے اور پگھل جاتے کہ ﴿لَوْ أَنْزَلْنَا هٰذَا الْقُرْاٰنَ عَلٰى جَبَلٍ لَّرَأَیْتَهٗ خَاشِعًا مُّتَصَدِّعًا مِّنْ خَشْیَةِ اللهِ﴾ (الحشر: آیت 21)
اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا ہے کہ "کُلُّ حَرْفٍ فِي اللَّوْحِ الْمَحْفُوْظِ أَعْظَمُ مِنْ جَبَلِ قَافٍ" (لم أجد ہذا الحدیث) یعنی قرآن کریم کا ہر حرف لوح محفوظ میں کوہِ قاف سے بہت بڑا ہے۔ اور یہ لوح مسلمانوں کے سینوں میں ہے۔ ﴿أَفَمَنْ شَرَحَ اللہُ صَدْرَہٗ لِلْإِسْلَامِ فَھُوَ عَلٰی نُوْرٍ مِّنْ رَّبِّہٖ﴾ (الزمر: 22) اور تم یہ قاف جانتے ہو کہ کیا ہے: ﴿قٓ وَ الْقُرْاٰنِ الْمَجِیْدِ﴾ (ق: 1) ”قاف اور قرآن مجید کی قسم“ پس اے میرے بھائی! ہر عالَم میں علماءِ ربانی قرآن کریم کے جدا جدا معزز نام لیتے ہیں، اور دوسرے عالَم میں پہلا نام نہیں لیتے بلکہ دوسرے نام سے موسوم کرتے ہیں۔ ایک عالَم اور ایک پردے میں اس کلام اللہ کو قرآن مجید کہتے ہیں: ﴿بَلْ ھُوَ قُرْاٰنٌ مَّجِیْدٌ﴾ (البروج: 21) دوسرے پردے میں اس کو ”مبین“ کہتے ہیں، تیسرے میں ”عظیم“ کہتے ہیں، پھر چوتھے پردے میں اِس کو ”عزیز“ بولتے ہیں: ﴿إِنَّہٗ لَکِتَابٌ عَزِیْزٌ﴾ (فصلت: 41) کسی میں ”کریم“ کہلاتا ہے: ﴿إِنَّہٗ لَقْرْاٰنٌ کَرِیْمٌ﴾ (الواقعہ: 77) دوسرے جہاں میں ایک جگہ ”حکیم“ نام سے یاد کیا جاتا ہے: ﴿وَ الْقُرْاٰنِ الْحَکِیْمِ﴾ (یٰس: 2) پس اے عزیز! قرآن کریم کے ہزار نام اس عالَم میں ہیں، اور عرش سے ثریٰ تک ایک عالَم ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کے اتنے بے شمار عالَم ہیں کہ ان کی حقیقت مصطفے ﷺ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ سب اولیاء و انبیاء میں سے کسی کو بھی ان کی خبر نہیں۔
پس اے میرے بھائی! ہم اس کے علم کے بارے میں حیران و سرگرداں ہیں، اور کچھ نہیں جانتے۔ یہ بات غور سے سنو! کہ معراج کی رات جب رسول اللہ ﷺ پہلے آسمان پر پہنچے تو آپ ﷺ نے دیکھا کہ بہت سے اونٹ ایک دوسرے کے ساتھ قطار میں باندھے ہوئے جا رہے ہیں، اور ان کا اگلا پچھلا سرا کسی کو معلوم نہیں۔ جبرائیل امین نے کہا کہ اے رسول اللہ! ﷺ جس دن سے میں پیدا ہوا ہوں، میں دیکھتا ہوں کہ اونٹوں کی قطار چلی جا رہی ہے، اور مجھ سے پہلے اُن کے چلتے رہنے کا یہ سلسلہ جاری تھا اور میں یہ بھی نہیں جانتا کہ کب تک یہ چلتے رہیں گے، اور میں نے تمام پیغمبروں سے حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت عیسیٰ علیہ السلام تک اس کے بارے میں پوچھا ہے، کسی کو بھی معلوم نہیں۔ میں نے پریشان ہو کر اللہ جل جلالہ سے پوچھا تو وہاں سے حکم صادر ہوا کہ ٹھہرو! میرا حبیب جب تشریف لائے (ان اونٹوں پر جو لدا ہوا ہے وہ سب اُس کے مبارک وجود کی وجہ سے ہے) اُن سے پوچھنا، تمہاری مُراد حاصل ہو جائے گی۔ پس جبرائیل علیہ السلام نے آقائے دو عالم ﷺ سے پوچھا کہ فرمائیے یہ اونٹ کہاں جا رہے ہیں اور ان کے اوپر کیا چیز لدی ہے؟ رسول اللہ ﷺ نے تبسم فرما کر ارشاد فرمایا کہ جاؤ ایک اونٹ کھول کر لے آؤ، حضرت جبرائیل علیہ السلام ایک اونٹ کھول کر لے آئے، اس اونٹ کے اوپر ایک صندوق پڑا تھا جس کو مقفل کیا گیا تھا، رسول اللہ ﷺ نے جبرائیل کو ارشاد فرمایا کہ قفل کھول دے۔ جب تالا کھولا گیا اور صندوق کو کھول کر دیکھا تو صندوق کے اندر سات آسمان، زمین پہاڑ، درخت، شہر اور گاؤں، آبادیاں، اسلام، کفر، ملتیں اور اور مختلف دین، مساجد، دیر و کعبہ، کلیسا، آسمان، فرشتے، عرش، کرسی، لوح اور قلم اور تمام مقرب فرشتے سب کہہ رہے ہیں کہ لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِ۔ اور یہ وہی معراج کی مبارک رات ہے کہ جبرائیل علیہ السلام رسول اللہ ﷺ کو لے جا رہے تھے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اے جبرائیل سُن لے کہ یہ تمام اونٹ جو تم دیکھ رہے ہو ان پر جو صندوق لدے ہوئے ہیں اور ہر صندوق میں اس طرح کا عالَم بنایا گیا ہے اور ہر عالَم میں محمد مَیں ہوں۔ اِس کے بعد جبرائیل علیہ السلام نے اونٹ کی مہار دوبارہ باندھ دی۔ اونٹ دوبارہ روانہ ہوئے اور جبرائیل علیہ السلام خدا کی ثنا اور نعت میں مشغول ہوئے۔
شیخ محمد حسین رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ مجھے پیر کے مشاہدات کی تجلیات سے ظاہر ہوا ہے، اگر ان میں سے کسی حرف کا اظہار کر دوں تو وہ تمام دینی علوم جو لوگ سیکھ چکے ہیں اور جو لوگوں کو پیش آ چکے ہیں اور جو کچھ رسومات وغیرہ سے سیکھ چکے ہیں، وہ سب کچھ باطل اور غلط سمجھیں گے اور اپنی ہستی کو نیستی اور پستی میں تصور کریں گے۔ اور مزید فرمایا کہ اس فقیر کو ہر وقت یہ الہام پہنچایا جاتا ہے اور مجھے کہا جاتا ہے، بیت:
؎ چو تو سرنائے منی بے دم من نالہ مکن
تا چوں چنگت نتوازم زنوا ہیچ مگوئی
پھر انہوں نے فرمایا اور میں نے اُس الہام کے جواب میں کہا کہ، بیت:
آتش زدی و گفتی که مرا هیچ مگوی
ہم چو گل خنده زد گفت در آتا بینی
ہمہ آتش سمن برگ کتان ہیچ مگو
دست خود را برگزیدم کہ فغان از غم تو
گفت من زان قوام اوست فغان هیچ مگو!
’’مجھ کو آگ لگا کے کہہ دیا کہ کچھ نہ کہوں۔ پھول کی طرح ہنس پڑا اور کہا، کہ آو دیکھ لو تم، آگ ہے اور برگ کتان (یعنی آگ اور روئی کا ملاپ ہے) تم بیچ میں کچھ نہ کہو۔
تشریح:
اللہ جل شانہ بڑے ہیں، اللہ اکبر، اللہ سب سے بڑے ہیں، اللہ جل شانہ کی قدرت بڑی ہے، اللہ جل شانہ نے جتنے لوگوں کو پیدا کیا ہے، جتنی مخلوقات کو پیدا کیا ہے، وہ ہماری سمجھ سے باہر ہیں۔ دوسری چیزوں کو چھوڑیں، scientific زبان میں اگر دیکھا جائے، تو ہم کتنی چیزوں کو دیکھتے ہیں؟ ہماری دیکھنے والی spectrum کتنی ہے؟ خود ہی معلوم ہو جاتا ہے۔ سائنس دان بھی کہتے ہیں کہ بہت کچھ ہے، جو ہم نہیں دیکھتے۔ جیسے Black holes کیا ہیں؟ Hidden matter کتنا ہے؟ ظاہر ہے ہم بہت کچھ نہیں جانتے۔ باقی چیزوں کو چھوڑیں، ہمارا جسم ایک ہے، اس ایک جسم کے اندر جو کچھ ہے، کیا ڈاکٹر لوگ ابھی تک اس کو سمجھ پائے ہیں؟ ریسرچ پر ریسرچ ہو رہی ہے، پیپرز پر پیپرز لکھے جا رہے ہیں، لیکن ابھی تک اس میں کتنا hidden ہے؟ دماغ کو لے لو، دماغ کے کتنے حصے کا مطالعہ کر چکے ہو؟ نیند کی pathology clear نہیں ہے، اور پتا نہیں کتنی چیزیں ہیں۔ ہماری آنکھ کو دیکھو، ہمارے Eye specialist کہتے ہیں: جب میں آنکھ کا آپریشن کرتا ہوں تو حیران ہو جاتا ہوں کہ یا اللہ! یہ کیا ہے؟ واقعتاً عام لوگوں کے لئے یہ صرف ایک آنکھ ہے، اس کے اندر کتنے لاکھوں crons ہیں اور کتنے rods ہیں۔ پھر ان کو کیسے ملایا گیا ہے، پھر سب کو خون کیسے پہنچتا ہے؟ اور سب میسیج کو کیسے collect کر رہے ہیں؟ پھر میسیج کو جمع کیسے کیا جا رہا ہے؟ پھر Brain center میں کیسے لے جایا جاتا ہے؟ وہاں سے تصویر کیسے بنتی ہے؟ یہ پوری ایک عجیب و غریب داستان ہے۔ گردے کو دیکھو، جگر کو دیکھو، ہر ایک کا اپنا اپنا ایک پورا عجیب نظام ہے۔ یہ تو ایک انسان کا حال ہے اور پھر ہر انسان دوسرے سے مختلف ہے۔ یعنی ایک بھی ہے اور مختلف بھی ہے، کسی کے بھی Finger prints دوسرے کسی سے نہیں ملتے۔ حتیٰ کہ آواز بھی نہیں ملتی۔ ویسے عام طور پر تو ممکن ہے ایک جیسی لگیں۔ لیکن اگر آپ بہت حساس آلات سے دیکھیں تو آوازیں آپس میں نہیں ملا کرتیں، ان میں فرق ہوتا ہے، چہرے میں فرق ہوتا ہے۔ بظاہر تو آپ کہیں گے کہ فلاں چہرہ فلاں چہرے سے ملتا ہے، لیکن آپ ذرا گہری نظر سے دیکھیں گے تو اس میں فرق نظر آئے گا۔ یہ ساری چیزیں اللہ تعالیٰ کی قدرت ہے۔ اور یہ اللہ تعالیٰ کی قدرت ظاہری اشیاء میں ہے، اور جو باطنی چیزوں کے اندر فرق ہوتا ہے، اس کا ادراک تو نا ممکن ہے۔ چنانچہ بزرگوں نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی قدرتیں اتنی زیادہ ہیں کہ ہم اس کا احاطہ نہیں کر سکتے، لہذا اس میں انسان سرگرداں ہی رہتا ہے۔ اور اگر کوئی جاننا چاہے تو نہیں جان سکے گا۔ آپ کمپیوٹر کے اوپر کوئی ایسا problem ڈال دیں جسے وہ حل نہ کر سکتا ہو تو کمپیوٹر hang ہو جائے گا۔ کیلکولیٹر کے اوپر اتنا بڑا عدد ڈال دیں تو وہ error دے دے گا۔ اسی طرح اگر دماغ کے اوپر کوئی اتنی بڑی چیز ڈال دو جس کو آپ سنبھال نہ سکو تو پاگل ہو جاؤ گے۔ لہٰذا انسان کو اپنی طاقت سے زیادہ اپنے اوپر بوجھ نہیں ڈالنا چاہیے، جتنی طاقت ہے، اتنا ہی بوجھ ڈالنا چاہئے۔ ہاں اگر اللہ تعالیٰ آپ کی نگاہ کو وسعت عطا فرمائے، سماعت کو وسعت عطا فرمائے، دماغ کو وسعت عطا فرمائے، اور یہ اللہ کا کام ہے، بہر حال پھر اتنی سکت آپ میں آتی جائے گی۔ جیسا کہ حضرت شیخ عبد الحق رودلوی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ: ’’منصور بچہ بود‘‘ کہ منصور تو بچہ تھا کہ ایک گھونٹ میں مست ہو گیا، یہاں تو لوگ ساغر کے ساغر پی جاتے ہیں اور ڈکار تک نہیں لیتے۔ چنانچہ بعض لوگوں کا ظرف بڑا ہوتا ہے اور بعض لوگوں کا ظرف چھوٹا ہوتا ہے۔ اور جن کا ظرف چھوٹا ہے، ان کو بڑی چیز نہ دیا کرو، وہ چھلک پڑے گا اور نہیں سنبھال سکے گا۔ اس وجہ سے بعض دفعہ نہیں دیا جاتا، اس وجہ سے روکا جاتا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ (نعوذ باللہ من ذلک) اللہ تعالیٰ کسی کو علم نہیں دینا چاہتا۔ بلکہ اللہ تعالیٰ نے جس کو جس درجے کا بنایا، وہ اللہ تعالیٰ کو پتا ہے۔ لہٰذا جو راز کی باتیں ہیں یعنی جو معرفت کی باتیں ہیں، وہ اس درجے تک بتائی جاتی ہیں جس درجے تک انسان ان کو برداشت کر سکتا ہے۔ ورنہ صحیح بات یہی ہے، یہ میں نے ظاہری چیزوں کے بارے میں باتیں بتائی ہیں، جب ظاہری چیزوں میں یہ صورتحال ہے تو باطنی علوم کا کیا حال ہو گا۔ اس کا تو ہم تصور ہی نہیں کر سکتے۔ یہی مقامِ حیرت ہے کہ جب انسان اس درجے تک پہنچ جاتا ہے کہ وہ کڑیاں نہیں سلجھا سکتا، درمیان وہ فاصلے نہیں ملا سکتا، تو پھر وہ حیرت میں چلا جاتا ہے۔ ایک حیرت اس کی ہوتی ہے کہ انسان برداشت کر لے اور ایک حیرت اس کی ہوتی ہے کہ انسان برداشت سے باہر ہو جائے۔ جس کی برداشت سے باہر ہو جائے، وہ مجذوب ہو جاتا ہے۔ اور جو برداشت کر لے، وہ عارف ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ مجھے ذکر زیادہ نہیں دیتے تھے، سب کو دیتے تھے مگر مجھے نہیں دیتے تھے۔ یہ میں نے بارہا آپ کو بتایا ہے۔ کیا ذکر نہیں دینا چاہتے تھے؟ نہیں! دینا چاہتے تھے، جو لوگ ذکر نہیں کرتے تھے ان سے حضرت ناراض ہوتے تھے۔ حضرت شکایت کرتے کہ لوگ ذکر نہیں کرتے۔ جب کہ میں لینا چاہتا تھا مگر مجھے نہیں دیتے تھے۔ نعوذ باللہ من ذلک کیا مجھے نہیں دینا چاہتے تھے؟ ایسا نہیں تھا۔ بلکہ حضرت میری الگ طریقہ سے تربیت کر رہے تھے، جو حضرت ہی کو پتا تھا۔ لہذا کافی عرصہ کے بعد ایک موقع پہ فرمایا: اب جتنا مرضی ہے ذکر کرو اور جو مرضی ذکر کرو۔ اب ایک طرف تو مجھے ابتدا والا ذکر بھی کم دے رہے تھے اور اب فرمایا رہے ہیں کہ جتنا مرضی ذکر کرو، جو مرضی ذکر کرو۔ اب یہ کیا چیز ہے؟ ظاہر درمیان میں کوئی بات تو تھی۔ سالہا سال اس میں لگے ہیں۔ جیسے بعض چیزیں بڑی ہلکی آنچ سے پکائی جاتی ہیں۔ جسیے کیمیا والے کہتے ہیں: تھوڑا سا آگ کا مسئلہ ہو گیا۔ وہ بیچارے اس میں لگے ہوتے ہیں، حالانکہ آج کل سب کو پتا ہے ایسی کوئی چیز نہیں ہوتی۔ بہر حال جو چیز ہلکی آنچ سے پکائی جاتی ہے اگر آنچ کو تھوڑا سا تیز کر دیا جائے تو وہ خراب ہو جاتی ہے۔ حضرت نے میرے ساتھ یہی معاملہ کیا۔ اس لئے عرض کرتا ہوں کہ شیخ پہ بات چھوڑ دو، اب اگر میں شیخ سے کہتا کہ حضرت آپ سب کو ذکر دیتے ہیں، مجھے کیوں نہیں دیتے۔ تو یہ میری طرف سے گستاخی ہوتی، محرومی ہو جاتی۔ حضرت کا اپنا ایک طریقۂ کار تھا، اس طریقۂ کار کے مطابق مجھے دے رہے تھے۔ بس یہی میں چاہتا ہوں کہ ہم لوگ بھی جتنا دیا جائے اس کو سنبھالنے کی فکر کریں، آگے مزید لینے کی اہلیت پیدا کریں۔ اہلیت پیدا کریں گے تو خود دیا جائے گا، اہلیت نہیں ہو گی تو مانگو گے تو خواہ مخواہ خار کھاؤ گے۔
ابھی بھی میرے پاس بعض لوگوں کے میسجز پڑے ہوئے ہیں، جن میں وہ پوچھتے ہیں کہ حضرت میں مراقبہ کروں؟ میں نے ان کو جواب دیا ہے کہ ہر چیز اپنے وقت پہ ہوتی ہے، جب وقت آ جائے گا تو آپ کو دے دیا جائے گا، فی الحال جو میں نے آپ کو دیا ہے وہی کرو۔ اس وقت فی الحال تم مراقبہ کی پوزیشن میں نہیں ہو، اور اگر کرو گے تو تمہاری ہمت ٹوٹ جائے گی، تم سے ہو نہیں سکے گا۔ نتیجتاً تمہیں پریشانی ہو گی، اس لئے میں آپ کو نہیں دے رہا، آپ کو اپنے وقت پہ ملے گا۔ ہم یہی بات کرتے ہیں کہ ہر چیز کا اپنا اپنا وقت ہوتا ہے جب وقت آ جاتا ہے، خود بخود دے دی جائے گی۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے مثال دی ہے، کہتے ہیں، ایک خاتون کا بچہ ہونے والا تھا، اس کو ہسپتال میں داخل کرایا گیا، نانی بھی اس کے ساتھ تھی۔ بچی نے کہا کہ میں سو رہی ہوں، جب یہ مرحلہ آ جائے تو مجھے جگا دینا۔ نانی نے کہا: جب وہ مرحلہ آ جائے گا تو تم سب کو جگاؤ گی، تجھے کوئی نہیں جگائے گا۔
بالکل یہی بات ہے کہ جس وقت دینے کا مرحلہ آ جائے گا، خود بخود دے دیا جائے گا۔ درمیان میں کوئی رکاوٹ نہیں ہو گی۔ لیکن جب تک وہ مرحلہ نہیں آیا، اس کے لئے کوشش کرنا، چیخ و پکار کرنا، یہ سب منفی چیزوں میں آئیں گی۔ لہذا اپنے آپ کو اس سے بچائیں۔
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ