رمضان المبارک کے فضائل اور مسائل




اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

قال رَسُوْلُ اللہِ ﷺ: ’’اَحْصُوْا هِلَالَ شَعْبَانَ لِرَمَضَانَ‘‘۔ (سنن ترمذی، حدیث نمبر: 687)

عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا قَالَتْ: كَانَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: يَتَحَفَّظُ مِنْ شَعْبَانَ مَا لَا يَتَحَفَّظُ مِنْ غَيْرِهٖ‘‘۔ (ابوداؤد، حدیث نمبر: 2327)

وَقَالَ عَلَیْہِ الصَّلوٰۃُ وَالسَّلَامُ: لَا يَتَقَدَّمَنَّ أَحَدُكُمْ رَمَضَانَ بِصَوْمِ يَوْمٍ أَوْ يَوْمَيْنِ إِلَّا أَنْ يَّكُوْنَ رَجُلٌ كَانَ يَصُوْمُ صَوْمَهٗ فَلْيَصُمْ ذٰلِكَ الْيَوْمَ‘‘۔ (صحیح بخاری، حدیث نمبر: 1815)

وَقَالَ عَلَیْہِ الصَّلوٰۃُ وَالسَّلَامُ: ’’أَنْ يُّكْتَبَ كُلُّ مَوْلُوۡدٍ مِنْ مَّوْلُوْدِ بَنِيْ آدَمَ فِيْ هٰذِهِ السَّنَةِ، وَفِيۡهَا أَنْ يُّكْتَبَ كُلُّ هَالِكٍ فِيۡ هٰذِهِ السَّنَةِ، وَفِيْهَا تُرْفَعُ أَعْمَالُهُمْ، وَفِيۡهَا تَنْزِلُ أَرْزَاقُهُمْ‘‘۔ (الدعوات الکبیر للبیہقی، حدیث نمبر: 530)

وَقَالَ عَلَیْہِ الصَّلوٰۃُ وَالسَّلَامُ: ’’إِذَا كَانَ لَيْلَةُ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ فَقُوْمُوْا لَيْلَتَهَا وَصُوْمُوْا يَوْمَهَا فِإِنَّ اللهَ يَنْزِلُ فِيْهَا لِغُرُوْبِ الشَّمْسِ إِلٰى سَمَآءِ الدُّنْيَا فَيَقُوْلُ: أَلَا مِنۡ مُّسْتَغْفِرٍ فَأَغْفِرَ لَهٗ؟ أَلَا مُسْتَرْزِقٌ فَأَرْزُقَهٗ؟ أَلَا مُبْتَلًى فَأُعَافِيَهٗ؟ أَلَا سَائِلٌ فَأُعْطِيَهٗ؟ أَلَا كَذَا أَلَا كَذَا؟ حَتّٰى يَطْلُعَ الْفَجْرُ‘‘۔ (شعب الایمان للبیہقی، حدیث نمبر: 3822)

قَالَ صَاحِبُہٗ مَا ثَبَتَ بِالسُّنَّۃِ وَمِنَ الْبِدَعِ الشَّنِیْعَۃِ مَا تَعَارَفَ النَّاسُ فِیْ اَکْثَرِ بِلَادِ الْہِنْدِ مِنْ اِیْقَادِ السُّرْجِ وَوَضْعِہٖ عَلَی الْبُیُوْتِ وَالْجُدْرَانِ وَتَفَاخُرِھِمْ بِذٰلِکَ وَاجْتِمَاعِھِمْ لِلَّھْوِ وَاللَّعْبِ بِالنَّارِ وَاِحْرَاقِ الْکِبْرِیْتِ، عَسٰی اَنْ یَّکُوْنَ عَلٰی ذٰلِکَ ھُوَ الظَّنُّ الْغَالِبُ، اِتِّخَاذٌ مِنْ رُسُوْمِ الْہُنُوْدِ فیْ اِیْقَادِ السُّرْجِ عَلَی الدَّوَالِیْ۔

اَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ: ﴿اِنَّاۤ اَنْزَلْنٰهُ فِیْ لَیْلَةٍ مُّبٰرَكَةٍ اِنَّا كُنَّا مُنْذِرِیْنَ فِیْهَا یُفْرَقُ كُلُّ اَمْرٍ حَكِیْمٍ اَمْرًا مِّنْ عِنْدِنَا ؕ اِنَّا كُنَّا مُرْسِلِیْنَ﴾ (الدخان: 3-5) صَدَقَ اللہُ الْعَلِیُّ الْعَظِیْمُ۔

شعبان کا مہینہ شروع ہوا چاہتا ہے۔ شعبان کا مہینہ مبارک مہینوں میں ہے، لہٰذا اس کی برکت کو حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ ایک چیز میں برکت ہوتی ہے، لیکن اس کو حاصل نہیں کیا جاتا اور بعض چیزوں میں برکت سمجھی جاتی ہے اور اس کی کوشش کی جاتی ہے، لیکن ان میں وہ برکت نہیں ہوتی یا یقینی برکت نہیں ہوتی۔ شعبان کے مہینہ میں کچھ خاص باتیں ہیں، کچھ خاص مواقع ہیں، جن کا فائدہ حاصل کرنا بہت ضروری ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہماری زندگی لا محدود نہیں ہے۔ محدود زندگی ہے، پتا نہیں کہ کب تک ہے۔ وَاللہُ اَعۡلَمُ۔ جتنی سانسیں اللہ نے عطا فرمائی ہیں، اتنی سانسیں پوری کریں گے اور جب وہ پوری ہو جائیں گی، تو جانا پڑے گا۔ درمیان میں کوئی relaxation نہیں ہے۔ لہٰذا ہمیں ایک ایک لمحہ سے، ایک ایک سیکنڈ سے، ایک ایک منٹ سے فائدہ اٹھانا چاہئے۔ لیکن یہ ایک سوال ہو گا کہ کس طرح فائدہ اٹھائیں؟ مثلاً: آپ حج پہ چلے جائیں، تو آپ کا وہاں کا معمول یہاں والا معمول نہیں ہو گا۔ کیونکہ وہاں پر کچھ الگ مقامات ہیں، جو یہاں نہیں ہیں اور اس میں جو کرنا ہے، وہ بتایا گیا ہے۔ ان کو چھوڑ کے اگر آپ یہاں کی چیزیں استعمال کریں گے، تو ان چیزوں کو ہم غلط نہیں کہیں گے، لیکن ہم کہیں گے کہ اب تم ادھر ہو، تو وہاں کے حالات کے مطابق وقت گزارو۔ آپ مدینہ منورہ چلے گئے، تو وہاں کے حالات کے مطابق وقت گزارو۔ یہ ہے مکانی فضیلت، یعنی جس مکان میں آپ جا رہے ہیں، جس جگہ پر جا رہے ہیں، اس کی برکت ہے۔ مثلاً: مکہ مکرمہ میں آپ تجارت کی نیت سے بھی چلے جائیں، تو آپ کی نماز کا ثواب ایک لاکھ گنا ہو گا۔ حالانکہ آپ تجارت کے لحاظ سے گئے ہیں۔ لیکن جو بھی نیت ہو، آپ کو ثواب وہاں کے حساب سے ملے گا۔ لہٰذا ایک آدمی وہاں مکہ مکرمہ جاتا ہے، اس کو ہر نماز کا ایک لاکھ ثواب مل سکتا ہے۔ لیکن اگر وہ نماز پڑھے ہی نہ، تو کتنا ثواب ملے گا؟ اس کو تو گناہ ملے گا اور وہاں کا گناہ بھی ایک لاکھ گنا ہے۔ لہٰذا وہاں نماز نہ پڑھنا یہاں نماز نہ پڑھنے کے برابر نہیں ہے اور وہاں کا نماز پڑھنا یہاں نماز پڑھنے کے برابر نہیں ہے۔ نماز پڑھنے میں ثواب زیادہ ہے اور نماز نہ پڑھنے میں گناہ زیادہ ہے۔ مدینہ منورہ میں بھی یہی بات ہے کہ وہاں پر اچھے اوقات میں ہم نے دیکھا ہے کہ مسجد نبوی میں جب لوگ بات کرتے تھے، تو وہ اتنی ہلکی آواز سے کرتے تھے کہ بعض دفعہ کان کو قریب کرنا پڑتا تھا کہ کیا کہہ رہے ہیں۔ حالانکہ اچھے خاصے بولنے والے لوگ ہوتے تھے، لیکن فطرتی طور پر ایک ادب کا معاملہ ہوتا تھا، اس لئے وہاں پر اس قسم کا طرز ہوتا تھا۔ گویا وہاں کا اپنا ماحول ہے، وہاں کے حساب سے کام کرنا پڑتا ہے۔ بہر حال! یہ مکانی فضیلت ہے، مکانی فضیلت کو دیکھا جائے گا۔ یہاں پر بھی جب زمانی فضیلت کا وقت آ جائے، یعنی کوئی وقت ایسا آ جائے، جس میں فضیلت ہو، مثلاً: رمضان شریف آ جائے، تو رمضان شریف جہاں پر بھی ہے، اس کی اپنی برکات ہیں۔ مثلاً: غیرِ رمضان میں جو نفل پڑھتے ہیں، اگر آپ وہ رمضان شریف میں پڑھیں گے، تو فرضوں کا ثواب ملے گا اور فرض پڑھیں گے، تو آپ کو ستر فرضوں کا ثواب ملے گا۔ اس لحاظ سے رمضان شریف کی اپنی فضیلت ہے۔ ما شاء اللہ! شعبان کا مہینہ شروع ہوا چاہتا ہے، اس کی اپنی فضیلت ہے۔ اس وجہ سے آپ ﷺ اس میں اتنی کثرت سے روزے رکھتے تھے کہ لوگ سمجھتے کہ اب تو آپ ﷺ افطار کریں گے ہی نہیں۔ میرے خیال میں ہم بڑے خوش نصیب ہیں کہ آج کل شعبان کا مہینہ سردیوں میں آ رہا ہے، سردیوں میں روزے رکھنا کوئی مشکل نہیں ہوتا۔ اگر لوگ سنت کی نیت سے کہ آپ ﷺ روزے رکھتے تھے، تو ہم بھی رکھتے ہیں، تو وہ ہوں گے نفل، لیکن چونکہ طریقہ آپ ﷺ کا ہے، لہٰذا سنت کی حیثیت سے ہم کثرت کے ساتھ روزے رکھ سکتے ہیں۔ اور نہیں تو کم از کم دو سنتوں کو اکٹھا کر لیں کہ شعبان کی اور ساتھ پیر کا روزہ رکھ لیں، جمعرات کا روزہ رکھ لیں۔ اور آج کل یہ کوئی اتنا مشکل بھی نہیں ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اس میں ایک رات آنے والی ہے، سبحانَ اللہ! وہ رات ہے پندرھویں شعبان کی، جس کو شبِ برات کہتے ہیں۔ برات کا مطلب ہے؛ خلاصی۔ یعنی خلاصی کی رات۔ یعنی انسان گناہوں سے آلودہ ہو کر اللہ کی رحمت سے دور ہوتا جا رہا ہے۔ اب یہ قریب آنا چاہتا ہے، تو شبِ برات کی عبادت کرے۔ شروع میں میں نے عربی میں جو احادیث شریفہ سنائی ہیں، ان کا ترجمہ بھی بتا دیتا ہوں، اس سے آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ ان میں کیا کہا گیا ہے۔

پہلی حدیث شریف:

رسول کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ شمار رکھو شعبان کے چاند کا رمضان کے چاند کے لئے۔ یعنی جب شعبان کی تاریخ صحیح ہو گی، تو رمضان میں اختلاف کم ہو گا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ شعبان کے دنوں کی تحقیق اچھی طرح ہونی چاہئے۔ کیونکہ جب تحقیق اچھی طرح ہو گی، تو چاند نظر آئے گا یا نظر نہیں آئے گا۔ اگر نظر نہیں آیا، تو تیس پورے کر لو۔ کیونکہ آپ کو صحیح تاریخ کا پتا ہو گا، لہٰذا رمضان صحیح وقت پہ شروع ہو جائے گا۔

دوسری حدیث شریف:

رسول اللہ ﷺ شعبان کا اتنا خیال رکھتے کہ اور کسی ماہ کے چاند کا اتنا خیال نہیں فرماتے تھے۔

اور رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ تم میں سے کوئی شخص رمضان کے ایک دن یا دو دن پہلے سے روزہ نہ رکھے۔ (یعنی رمضان شریف کے آنے سے ایک دن پہلے یا دو دن پہلے روزہ نہ رکھے۔) مگر یہ ہے کہ وہ شخص کسی خاص دن کا روزہ رکھا کرتا ہو۔ مثلاً: پیر کا روزہ رکھتا ہو یا جمعرات کا روزہ رکھتا ہو۔ اور پیر اور جمعرات کو آخری دن آ گیا، تو آپ روزہ رکھ سکتے ہیں، کیونکہ آپ اس کے عادی ہیں، اس لئے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ اور رمضان سے ایک دن پہلے وہ دن ہو، مثلاً: ہر پیر کو روزہ رکھنے کا معمول ہے اور انتیسویں شعبان کو پیر کا دن ہے، تو اس دن بھی روزہ رکھ لے۔ اور آپ ﷺ نے شعبان کی پندرھویں رات کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ اس رات میں وہ سب بنی آدم لکھے جاتے ہیں جو اس سال میں پیدا ہوں گے اور جو اس سال میں مریں گے اور اسی رات میں ان کے اعمال اٹھائے جاتے ہیں اور اسی میں ان کے رزق نازل ہوتے ہیں۔ اس سے پتا چلا کہ اس رات کا تکوینی امور کے ساتھ بہت زیادہ تعلق ہے۔ تکوینی امور بیماری، کھانا، سیلابوں کا آنا، بارشوں کا ہونا، نہ ہونا اور زلزلے یا اس قسم کی دوسری چیزیں تکوینی ہوتی ہیں۔ بہر حال! اس رات کا تعلق تکوینی چیزوں کے ساتھ ہے، کیونکہ فرماتے ہیں کہ جس روح نے اس دنیا میں آنا ہے، اسی رات فرشتوں کو اس کا نام دے دیا جاتا ہے اور جس جس کا یہاں سے جانا لکھا ہوا ہے، اس کا نام بھی دے دیا جاتا ہے۔ بڑے بڑے اولیاء اللہ اس کے قائل ہیں۔ حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے سامنے ذکر ہوا کہ جس کو جانا ہوتا ہے، اس رات سدرۃُ المنتھیٰ کے درخت سے اس کا پتہ گر جاتا ہے، تو حضرت نے فرمایا: اس آدمی کا کیا حال ہو گا، جس نے خود دیکھا ہو کہ اس کا پتہ گر گیا ہے اور اس سال حضرت کی وفات ہو گئی۔ گویا حضرت کو پتا چل گیا تھا کہ میں جا رہا ہوں۔ اس رات میں ان بنی آدم کا نام لکھا جاتا ہے، جنہوں نے رخصت ہونا ہے۔ اس لئے اس رات دعاؤں کی ضرورت ہے اور نیک اعمال کی ضرورت ہے۔ کیونکہ فرمایا کہ اس رات میں ان کے اعمال اٹھائے جاتے ہیں۔ کمال کی بات ہے کہ تشریعی امور اور تکوینی امور آپس میں ایک جگہ پہ ملتے ہیں۔ جیسے قرآن پاک میں فرماتے ہیں: ﴿ظَهَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ اَیْدِی النَّاسِ﴾ (الروم: 41)

ترجمہ: ’’لوگوں نے اپنے ہاتھوں جو کمائی کی، اس کی وجہ سے خشکی اور تری میں فساد پھیلا‘‘۔

لہٰذا جو فساد برپا ہو رہا ہے، یہ تکوینی ہے اور اعمال تشریعی ہیں۔ گویا ہمارے تشریعی اعمال پر عمل کرنے سے تکوینی فیصلے ہمارے حق میں آتے ہیں اور تشریعی اعمال صحیح طور پہ نہ کرنے کی وجہ سے تکوینی فساد کا ظہور ہوتا ہے۔ تو چونکہ اس رات تکوینی فیصلے ہونے والے ہیں، کیونکہ تشریعی تو انسان کے اختیار میں ہوتے ہیں، لیکن تکوینی امور انسان کے بس میں نہیں ہیں۔ مثلاً: کوئی انسان چاہے کہ زلزلہ نہ آئے۔ یہ اس کے بس میں نہیں ہے۔ ہاں! دعا کر سکتا ہے، کیونکہ دعا تشریعی چیز ہے۔ لیکن کوئی اس کو روک نہیں سکتا، جو آ رہا ہے، وہ تو آئے گا۔ جو بیماری آنی ہے، وہ آئے گی۔ ہاں! دعا کر سکتے ہیں۔ دعا کرو۔ اس طرح اگر سیلاب آ رہا ہو، تو آ جائے گا۔ یہ بھی ایک تکوینی چیز ہے۔ لیکن اگر آپ اچھے اعمال کر کے اس کو رکوا سکتے ہو، تو رکواؤ۔ کیونکہ روکے گا تو اللہ تعالیٰ ہی۔ تو نے اللہ تعالیٰ سے درخواست کرنی ہے، دعا کرنی ہے۔ اچھے عمل کر کے اس کے ذریعے سے اللہ پاک سے رکوا سکتے ہیں۔ میں اس کی ایک مثال دیتا ہوں۔ جب طاعون کی وبا پھیلی، تو حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے ’’نشر الطیب فی ذکر الحبیب‘‘ کتاب لکھنا شروع کر دی اور فرمایا: ہمارے اکابر کا طریقہ تھا کہ جب کبھی کوئی اس قسم کی وبا آتی، تو وہ سیرت پہ کام کر لیتے، تو اللہ تعالیٰ اس عذاب کو ہٹا دیتے۔ چنانچہ حضرت نے یہ کتاب ان دنوں لکھی ہے اور اس میں صاف لکھا ہے کہ الحمد للہ! جیسے کام جلدی ہوتا، صحیح ہوتا، تو اتنی اتنی ہمارے ہاں اموات کی تعداد کم ہو جاتی اور اگر اس میں سستی ہوتی، تو اموات کی تعداد زیادہ ہو جاتی۔ گویا کہ دکھا دیا گیا کہ کس طرح اس کے ساتھ یہ معاملہ وابستہ ہے۔ لہٰذا ہم لوگوں کو ان ذرائع کو استعمال کرنا چاہئے، جو اللہ تعالیٰ کے کرم اور فضل کو کھینچ لیں، اور ان ذرائع سے بچنا چاہئے، جو اللہ تعالیٰ کے قہر اور غضب کو دعوت دیتے ہیں۔ اس وقت لوگوں میں ایک بے باکی ہے، ایک بغاوت ہے، جس کا ظہور الیکشن میں ہو گیا، جو بالکل نظر آ گیا کہ کیسی بے باکی اور کیسی بغاوت کا سماں ہے۔ لہٰذا جو کچھ بھی ہو، ہم کیا کہہ سکتے ہیں، ہم کچھ بھی نہیں کہہ سکتے۔ ہم لوگوں کو اس بغاوت سے باہر آنا پڑے گا۔ ہم سیاسی لوگ نہیں ہیں، نہ سیاست کی بات کرتے ہیں، لیکن سیاست کے پیچھے کیا ہے، وہ ہم جانتے ہیں۔ الحمد للہ! در اصل قرآن اور حدیث سے جو طریقے ثابت ہیں، اسلامی سیاست ان طریقوں کو نافذ کرنے کی حکمت کا نظام ہے۔ یہ کوئی صدارت اور وزیرِ اعظم بننے کا نظام نہیں ہے۔ یہ تو صرف اس کے لئے وسائل ہیں۔ لہٰذا اگر اس سے آپ کا مقصود یہ نہیں ہے، تو آپ کی سیاست جاہلانہ سیاست ہے، اسلامی سیاست نہیں ہے۔ جاہلانہ سیاست میں کافر آپ سے آگے ہیں، آپ کیا اس پہ فخر کریں گے؟ لہٰذا ہمیں اس بغاوت سے نکلنا پڑے گا اور اگر کسی نے کوئی اس قسم کی غلطی کی، تو توبہ کرنی پڑے گی۔ جیسے فاسق کا ادب کرنے سے عرش لرزتا ہے۔ لیکن اگر ایک فاسق کو اپنا محبوب بنا لیا جائے، تو کیا ہو گا؟ ایک فاسق اور فاجر کے پیچھے پڑ کے لوگ یہاں تک کہہ دیتے ہیں کہ جہنم میں بھی چلے جائیں، تو ٹھیک ہے، کوئی بات نہیں۔ ’’اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَ‘‘۔ یہ کون سی بات ہے۔ یہ وہ بغاوت ہے، جو آج کل پھیلی ہوئی ہے۔ اس سے میں ڈر رہا ہوں۔ باقی باتوں سے انسان نہیں ڈرتا، وہ تو ایک زندگی کے معمولات ہیں، وہ ہو سکتے ہیں۔ لیکن جب اس قسم کی باتیں شروع ہو جائیں، تو پھر معاملہ بہت خطر ناک ہو جاتا ہے۔ ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ‘‘ کا مطلب کیا ہے؟ ’’لَآ ِالٰہَ‘‘ کا مطلب ہے؛ ہر چیز کو فنا کر دو سوائے اللہ کے، کسی کا خیال نہ رکھو سوائے اللہ کے۔ اگر کسی کا خیال رکھنا ہے، تو صرف اللہ کے لئے رکھنا ہے۔ کسی اور چیز کے لئے نہیں رکھنا۔ یہ سوچنا کہ مجھے دنیا میں فائدہ ہو جائے گا۔ فائدہ تو آپ کو اللہ پہنچائے گا۔ یہ کون ہے، جو تجھے فائدہ پہنچائے۔ حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے آپ ﷺ فرماتے ہیں: اگر یہ سارے لوگ جمع ہو جائیں اور تجھے کوئی فائدہ پہنچانا چاہیں اور اللہ کا ارادہ نہ ہو، تو نہیں پہنچا سکتے۔ اور اگر سارے لوگ جمع ہو جائیں اور تمہیں کوئی نقصان پہنچانا چاہیں، کوئی چیز تم سے روکنا چاہیں، اللہ کا ارادہ نہ ہو، تو نہیں روک سکتے۔ فائدہ اور نقصان تو آپ کو اللہ دے گا، اس کے لئے آپ اللہ کے سامنے گڑگڑائیں اور روئیں۔ ہاں! ان چیزوں کی selection میں اور چننے میں اللہ پاک کو راضی کرنے کا جذبہ ہو کہ میں اس کو چنوں، جس سے اللہ راضی ہوتے ہوں۔ بہر حال! اس وقت بہت خطر ناک صورت حال ہے اور لوگ بغاوت پر آمادہ ہیں۔ بالخصوص عورتیں اور نوجوان زیادہ اس بلا میں زیادہ مبتلا ہیں۔ اس سے توبہ کرنی پڑے گی۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو توبہ کرنے کی توفیق عطا فرما دے۔

’’اور اسی میں ان کے رزق نازل ہوتے ہیں‘‘۔ ایک ہوتا ہے وہ رزق، جو انسان کے لئے مفید بنے اور ایک ہوتا ہے وہ رزق، جو انسان کے لئے عذاب بنے۔ جو اچھے اعمال میں مصروف ہو گا، اس کے لئے وہ رزق نازل ہو گا، جو اس کے لئے مفید ہو گا۔ یہ بات سمجھنا کوئی آسان نہیں ہے۔ سلیمان علیہ السلام بھی بادشاہ تھے اور فرعون بھی بادشاہ تھا۔ دونوں میں فرق کیا تھا، ایمان اور کفر کا فرق تو تھا ہی۔ اس کے علاوہ یہ فرق ہے کہ سلیمان علیہ السلام جب کبھی اللہ کی نعمت کو اپنے اوپر دیکھتے، تو شکر کرتے کہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ مجھے یہ چیز ملی ہے۔ اور فرعون کو جب اللہ تعالیٰ کی دعوت دی گئی، تو کہتا ہے کہ اے ہامان! میرے لئے کوئی اونچا گھر بناؤ، جس پہ چڑھ کر میں موسیٰ کا خدا دیکھ سکوں۔ یہ بھی بغاوت تھی۔ بہر حال! رزق وہ ہو، جس سے انسان کو شکر کی توفیق ملے اور وہ اس کے لئے خیر کے کاموں کا ذریعہ ہو جائے۔ حضرت مولانا قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ اور دیگر حضرات کا واقعہ ہے کہ ایک صاحب تھے، جو خود اپنے ہاتھ سے کام کرتے تھے۔ مزدور آدمی تھے، روزانہ چار آنے کماتے تھے، ایک پیسہ اپنے پہ خرچ کر لیتے تھے، ایک پیسہ خیرات کرتے تھے، ایک پیسہ رشتہ داروں پہ لگاتے تھے اور ایک پیسہ جمع کرتے۔ اتنے پیسے جمع ہو جاتے کہ وہ سال میں ایک بار اس وقت کے بزرگوں کی دعوت کرتے تھے۔ وہ بزرگ فرماتے ہیں کہ ہم ان کی دعوت کے لئے انتظار کرتے تھے کہ وہ مہینہ آئے گا، تو وہ ہماری دعوت کریں گے۔ کیونکہ ان کی دعوت سے ہمارے دل روشن ہو جاتے اور ہمیں عبادت میں بڑا مزہ ملنا شروع ہو جاتا، جی لگنا شروع ہو جاتا۔ اس سے اندازہ لگائیں کہ خود ان کا دل کتنا روشن ہو گا، جس کے مال میں اتنی برکت تھی۔ یہ بھی رزق ہے اور وہ بھی رزق ہے کہ کوئی کھائے، تو فسق و فجور میں مبتلا ہو جائے اور پتا نہیں، کیا کیا کرنے لگے۔ بہر حال! اس رات لوگوں کے رزق نازل ہوتے ہیں اعمال کے حساب سے کہ جو ان کے اعمال ہوتے ہیں، ان کے حساب سے رزق اترتا ہے۔ اعمال اٹھائے جانے سے مراد ان کا پیش ہونا ہے اور رزق کے نازل ہونے سے مراد یہ ہے کہ اس سال میں جو رزق ملنے والا ہے، وہ سب لکھ دیا جاتا ہے اور گو یہ سب چیزیں بیشتر لوحِ محفوظ میں لکھی ہوتی ہیں، لیکن اس رات کو لکھ کر فرشتوں کے سپرد کر دیا جاتا ہے۔

رسول کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جب آدھے شعبان کی رات ہو، تو اس رات کو شب بیداری کیا کرو اور اس کے دن میں روزہ رکھو، کیونکہ اللہ تعالیٰ اس رات غروبِ آفتاب کے وقت ہی آسمانِ دنیا کی طرف نزول فرماتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ کیا کوئی مغفرت چاہنے والا ہے کہ میں اس کو بخش دوں؟ کیا کوئی روزی مانگنے والا ہے کہ میں اس کو روزی دوں؟ کیا کوئی مصیبت زدہ ہے کہ وہ عافیت کی دعا مانگے اور میں اس کو عافیت دوں؟ کیا کوئی ایسا ہے؟ کیا کوئی ایسا ہے؟ رات بھر یہی رحمت کا دریا بہتا رہتا ہے، یہاں تک کہ صبح صادق ہو جائے۔ یہاں پر ایک علمی بات ہے۔ وہ یہ ہے کہ احادیث شریفہ مختلف قسم کی ہوتی ہیں، کچھ احادیث شریفہ صحیح ہوتی ہیں، صحیح سے مراد یہ ہے کہ ان کے راویوں میں کوئی کمزوری نہیں ہوتی۔ کچھ احادیث شریفہ ضعیف ہوتی ہیں کہ ان کے کسی نہ کسی روای میں کوئی کمزوری ہو۔ حدیث شریف کی ایک قسم موضوع بھی ہے یعنی وہ گھڑ لی گئی ہوتی ہے، حقیقت میں کوئی حدیث شریف نہیں ہوتی۔ موضوعات کے بارے میں تو علماء کرام نے کتابیں لکھی ہیں کہ یہ موضوعات میں سے ہے، لہٰذا ان کی طرف تو دیکھنے کی ضرورت بھی نہیں ہے۔ علماء کرام بھی اس کو اس لئے دیکھتے ہیں کہ پتا چل جائے کہ یہ کیا ہے، ورنہ اس سے کوئی استفادہ نہیں ہوتا۔ اب رہ گئیں، ضعیف روایت اور صحیح روایت۔ صحیح روایات کسی چیز کے جائز نا جائز کے بارے میں جاننے کے لئے استعمال ہوتی ہیں، فقہی مسائل میں استعمال ہوتی ہیں، حلال حرام، جائز نا جائز کے مسائل ان سے ثابت ہوتے ہیں، ان سے فقہ بنتی ہے۔ اور ضعیف روایات کو فضائل میں استعمال کیا جاتا ہے۔ مثلاً: کسی چیز کی فضیلت آپ کو بیان کی جائے کہ آپ اگر یہ کام کریں گے، تو آپ کو اس کا اتنا اجر ملے گا۔ مثلاً: ایک حدیث شریف ایک خاص درود شریف کے بارے میں ہے کہ جمعہ کے دن عصر کے بعد اگر کوئی 80 مرتبہ یہ درود شریف پڑھ لے، تو اس کے 80 سال کے گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔ چونکہ اس پہ جائز اور نا جائز کا انحصار نہیں ہے، اس کو اجر ملتا ہے۔ اجر اگر زیادہ کی بجائے تھوڑا مل جائے، تو پھر بھی مل تو گیا۔ مثلاً: اگر کوئی یہ درود شریف پڑھ لے، تو زیادہ نہ سہی، 80 مرتبہ درود شریف پڑھنے کا اجر تو اس کو مل ہی گیا۔ چنانچہ کچھ ضائع تو نہیں ہوا، کچھ کم نہیں ہوا۔ ہاں! یہ بات ہے کہ جتنا بتایا گیا، وہ نہیں ملا، لیکن 80 مرتبہ درود شریف پڑھنے کا اجر تو مل گیا، وہ تو کہیں نہیں گیا۔ بہر حال! اس طرح کی احادیث مبارکہ فضائل میں استعمال ہوتی ہیں۔ حضرت مولانا مفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکاتهم نے اس حدیث شریف کے بارے میں بیان فرمایا ہے، جو مسجد بیت المکرم کراچی میں میں نے خود حضرت سے سنا ہے۔ جمعے کا دن تھا اور 15 شعبان کی رات آنے والی تھی۔ اسی پہ انہوں نے بیان فرمایا تھا۔ اس میں فرمایا کہ یہ احادیث شریفہ مختلف طرق سے وارد ہیں۔ جب ایک ضعیف روایت بھی مختلف طرق سے آ جائے، تو اس میں قوت آ جاتی ہے۔ چونکہ یہ حدیث بھی مختلف طرق سے صحابہ سے مروی ہے، لہٰذا اس میں قوت آ گئی، اس پر عمل کیا جا سکتا ہے۔ بہر حال! یہ میں نے اس لئے کہا کہ بعض لوگ اس کو ضعیف روایت سمجھ کر چھوڑ دیتے ہیں، لیکن بعض لوگوں کے ساتھ کچھ ایسے واقعات ہو چکے ہوتے ہیں کہ جن سے ان کو اس پر کسی طرح یقین آ جاتا ہے کہ بات تو یہ ٹھیک ہے۔ اگرچہ علمی طور پر اتنی مستند نہیں ہے، لیکن ہے تو ٹھیک۔ اس لئے میں بھی اس کا قائل ہوں کہ یہ رات معمولی رات نہیں ہے، بہت بڑی رات ہے۔ بڑے بڑے فیصلے اس میں ہوتے ہیں۔ لہٰذا اس کو ضائع نہیں کرنا چاہئے۔ کیونکہ اگر آپ ایک رات جاگ لیں، تو اس سے آپ کو کیا ہو جائے گا؟ فسق و فجور کے لئے لوگ جاگتے ہیں یا نہیں جاگتے؟ مختلف تماشوں کے لئے اور موبائل کے لئے اور پتا نہیں، کن کن چیزوں کے لئے جاگتے ہیں۔ لیکن اس کی کسی کو توفیق نہیں ہوتی۔ اس کے لئے طریقہ یہ ہے کہ اول تو اپنے گھر کو ہی مسجد بناؤ، بہترین طریقہ تو یہ ہے کہ اپنے گھر میں عبادت کرو۔ کیونکہ گھر میں عبادت کرنا مختلف وجوہات سے بہت اچھا ہے۔ اس لئے اپنے گھر کو ہی عبادت گاہ بناؤ۔ اگر گھر میں ماحول ایسا ہے، آپ دوسروں کو تبدیل نہیں کر سکتے، تو آپ کو لوگ تبدیل کر لیں گے۔ بعض دفعہ ایسی صورت حال ہوتی ہے۔ اور ایسی صورت حال میں ہجرت والا اصول تو ہے ناں۔ اس وقت ایک رات کی ہجرت کرنی چاہئے اور پھر انسان ایسی جگہ پہ آ جائے، جہاں ماحول بنا ہوا ہو۔ کیونکہ انسان ماحول سے اثر لیتا ہے۔ کہتے ہیں کہ خربوزہ خربوزے کو دیکھ کر رنگ پکڑتا ہے۔ مثلاً: مفتی عبدالرؤف سکھروی صاحب دامت برکاتھم کی مثال لے لیں۔ میں دارالعلوم میں تھا، پندرھویں شعبان کی رات آ گئی۔ میں دیکھنے لگا کہ ان حضرات کا کیا طریقہ ہے۔ تو عشاء کی نماز کے بعد مفتی عبدالرؤف سکھروی صاحب تشریف لائے، حضرت شیخ ہیں، ان کے بہت سارے مرید بھی آئے ہوئے تھے۔ حضرت نے کسی سے کچھ نہیں کہا، بس جا کر نماز کے لئے کھڑے ہو گئے، بڑی لمبی نماز پڑھی، ان کے مرید بھی کھڑے ہو گئے، وہ اپنی اپنی نماز پڑھنے لگے۔ پھر اس کے بعد دوبارہ کھڑے ہو گئے اور پھر دوبارہ نماز پڑھی، ان کے مرید بھی کھڑے ہو گئے، وہ بھی نماز پڑھنے لگے۔ اس طرح مسلسل نماز پڑھتے رہے۔ نہ کسی سے کوئی بات کی، نہ کسی سے کہا کہ کرو، نہ کسی سے کہا کہ نہ کرو۔ بس آئے اور اپنا عمل جاری رکھا اور ان کو دیکھ دیکھ کر لوگ کرتے رہے۔ بتائیں! فائدہ ہوا یا نہیں ہوا۔ کیونکہ ایک ہوتا ہے؛ قولاً کہنا۔ ایک ہوتا ہے؛ عملاً کہنا۔ انہوں نے اپنے عمل سے کہہ دیا کہ جو وہ کرتے رہے، لوگ بھی ان کے پیچھے اس طرح کرتے رہے۔ میں خود اس کا چشم دید گواہ ہوں، میں ادھر موجود تھا۔ گویا اس رات کی اہمیت تو ہے۔ اگر کچھ لوگوں نے علمی طور پر اشکالات کئے ہیں، تو ان کو علم تک محدود رکھو۔ مثلاً: اگر اس کو آپ صحیح حدیث شریف کے طور پر لیں گے، تو یہ علمی غلطی ہو گی۔ لہٰذا وہ نہیں کرنی چاہئے۔ ہمارے حضرت مولانا زکریا صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے جو ’’فضائلِ اعمال‘‘ کتاب لکھی ہے، اس کو آپ کہیں سے بھی پڑھنا شروع کر لیں، حضرت ہر قسم کی احادیث شریفہ، صحیح احادیث شریفہ، قرآن کی آیات، حسن روایات، حسن لغیرہ روایات، ضعیف روایات، سب بیان کرتے ہیں اور ساتھ لکھتے ہیں کہ یہ ضعیف ہے۔ بس اپنی بات پوری کر لیتے ہیں۔ یہاں تک کہ خواب بھی لکھے ہیں، حالانکہ خواب کون سی حدیث ہے، لیکن خواب بھی لکھے ہیں۔ کیوں کہ کچھ لوگ خوابوں سے متاثر ہوتے ہیں، اس لئے انہوں نے بزرگوں کے خواب بھی لکھے ہیں، جو ان کے پاس مستند طریقوں سے آئے ہیں۔ کیونکہ یہ practical لوگ ہیں، یہ theoretical لوگ نہیں ہیں۔ مناظروں اور بحثوں میں پڑنے والے لوگ نہیں ہیں۔ یہ تو لوگوں کو اعمال پہ لانے والے ہیں۔ لہٰذا لوگوں کو عمل پہ لانے کے لئے جن چیزوں کی ضرورت ہے، وہ کرتے ہیں اور جو ادھر ادھر کی بحث اور مباحثہ ہوتا ہے، وہاں سے بہت آرام سے ہٹ کے چلے جاتے ہیں، اس میں پڑتے ہی نہیں ہیں۔ یہی بات میں بھی عرض کرتا ہوں کہ اس رات کے اندر تقریریں نہ کرو، تقریریں پہلے ہونی چاہئیں، جیسے ابھی ہو رہی ہے۔ تقریر پہلے ہونی چاہئے، لوگوں کو سمجھانا چاہئے کہ کیا کرنا چاہئے، کیا نہیں کرنا چاہئے۔ سب چیزیں سمجھانی چاہئیں اور پھر اس رات عمل ہونا چاہئے۔ اور دو قسم کے اعمال ہیں، ایک وہ دینی اعمال ہیں، جو اجتماعی طور پر ہوتے ہیں جو کہ ذریعہ بنتے ہیں اللہ تعالیٰ کی رضا کا۔ جیسے آپ کسی مدرسہ میں تعلیم دے رہے ہیں یا لے رہے ہیں، تبلیغی جماعت میں پھر رہے ہیں، جہاد کر رہے ہیں یا کوئی دینی سیاست کر رہے ہیں یا اس طرح کا کوئی عمل کر رہے ہیں، یہ سب دین کے شعبے ہیں، جس شعبے میں آپ ہیں، اگر صحیح نیت کے ساتھ آپ کر رہے ہیں، تو آپ کو اس کا فائدہ ہو گا۔ لیکن کچھ چیزیں ایسی ہیں، جن سے یہ چیزیں جان دار ہوتی ہیں۔ مثلاً: آپ مدرسہ میں بیٹھے ہوئے ہیں، لیکن لِلّٰہیت نہیں ہے، تو مدرسے میں بیٹھنے کا کتنا فائدہ ہو گا؟ کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ جو اعمال لِلّٰہیت لاتے ہیں، وہ ان کی جان ہیں، مدرسہ کے کام کی، تبلیغ کے کام کی، سیاست کے کام کی، جہاد کے کام کی، یہ اعمال ان کی جان ہیں۔ جیسے حج بذاتِ خود ایک بہت بڑا عمل ہے، لیکن قرآن پاک میں حج کے بارے میں پڑھو کہ کیا فرمایا ہے کہ جب عرفات جاؤ، تو ذکر کثرت کے ساتھ کرو۔ جب واپس آ جاؤ، تو مزدلفہ میں ذکر کثرت کے ساتھ کرو۔ منیٰ میں آ جاؤ، تو ذکر کثرت کے ساتھ کرو۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ذکر جان ہے۔ جو حاجی ذکر نہیں کرتا، حج تو اس کا ہو جائے گا، لیکن اس حج میں اصل میں جان نہیں ہو گی۔ یہی بات میں عرض کرنا چاہتا ہوں کہ جو اعمال انسان کے ان اعمال کی جان ہیں، وہ اس رات کو ہونے چاہئیں۔ کیونکہ آپ کی پورے سال کے لئے screening ہو رہی ہے۔ لہٰذا جو چیزیں ان اعمال کی جان ہیں، وہ اس رات میں کرو، مثلاً: قرآن پاک کی تلاوت ہے، درود شریف کی کثرت ہے، استغفار ہے، کلمہ طیبہ کا ورد ہے، نماز ہے، دعائیں ہیں۔ یہ سب اعمال میں جان لانے والی چیزیں ہیں۔ تو ان راتوں میں یہ کام کیا کرو۔ آپ تقریر کریں گے، تو بے شک دین کی تقریر بھی آپ کر رہے ہیں، لیکن اس کا موقع یہ نہیں ہے۔ عموماً ہم دیکھتے ہیں کہ ایسی مبارک راتوں میں جو اجتماعات ہوتے ہیں، ان اجتماعات میں تقریریں ہوتی ہیں۔ حالانکہ تقریروں کے لئے تو یہ رات ہے ہی نہیں۔ یہ رات تو اللہ کی طرف متوجہ ہونے کے لئے ہے۔ ہاں! طریقہ سکھا دو اور اس کے بعد پھر آپ خود کرتے رہیں۔ ما شاء اللہ! یہاں پر ہم کوشش کرتے ہیں کہ اس ترتیب پر کچھ رات گزاری جائے۔ ہمت اپنی اپنی ہے، لیکن اس ترتیب پر ہونی چاہئے۔ اس کے لئے ایک طریقہ ہم عرض کرتے ہیں۔ وہ یہ ہے کہ انسان اپنی فطرت سے تو نہیں نکل سکتا۔ انسان کی فطرت یہ ہے کہ یکسانیت سے تنگ ہوتا ہے، ایک ہی چیز مسلسل کرنے سے اکتا جاتا ہے۔ مثلاً: ایک ہی کھانا بہت ہی اچھا کیوں نہ ہو، مسلسل کھائیں، تو اچھا نہیں لگے گا۔ کراچی میں مدرسہ ہے؛ معھد الخلیل، اس کے کچھ طالب علم ہمارے پاس آئے، تو کہتے ہیں کہ ہر وقت ہی گوشت ہوتا ہے۔ خدا کے بندو! لوگ گوشت کے پیچھے مر رہے ہیں، تم کہتے ہو ہر وقت گوشت۔ یہ وہی بات ہے۔ جیسے یہودیوں کو من و سلویٰ مل رہا تھا اور وہ کہہ رہے تھے کہ ہمیں پیاز چاہئیں، فلاں فلاں چاہئے۔ بہر حال! یہ انسان کی فطرت ہے، اس سے انکار نہیں ہے۔ لیکن کیا اللہ پاک نے اس پر ان کی تعریف فرمائی؟ اس پر تعریف نہیں فرمائی، بلکہ کہا کہ تم کیا کر رہے ہو؟ اچھی چیز کو ہلکی چیز سے بدل رہے ہو۔ چنانچہ بعض دفعہ انسان کی فطرت ہوتی ہے، لیکن آپ کو شریعت کی روشنی میں اپنی فطرت کی اصلاح بھی کرنی چاہئے، اس کے مطابق نہیں کرنا چاہئے۔ تو یہ فطرت ہے کہ یکسانیت سے انسان گھبرا جاتا ہے۔ جب یہ صورت حال ہے، تو اعمال ایک قسم کے تو نہیں ہیں۔ اکثر ہم عرض کرتے ہیں کہ خشوع و خضوع کے ساتھ دو رکعت نفل پڑھ لو، اس کے بعد بیٹھ کر آدھا پارہ تلاوت کر لو، تلاوت کے بعد ذکر کر لو، اگر آپ تنگ ہو چکے ہو، تو کھڑے ہو کر چلتے پھرتے ذکر کرو، کیونکہ ثوابی ذکر ہے، یہ آپ چلتے پھرتے بھی کر سکتے ہیں، تاکہ آپ کے پیروں میں خون نہ جم جائے۔ اس کے بعد دعائیں کرو۔ اور پھر دوبارہ دو رکعت نفل پڑھ لو، اور پھر کوئی آدھا پارہ قرآن پاک کی تلاوت کر لو، پھر مختلف رنگ کے ذکر اذکار کر لو، اور پھر دعائیں کرو، دعاؤں کی کتاب ہے ’’مناجاتِ مقبول‘‘ جس میں قرآن اور حدیث کی دعائیں ہیں، اس کا ختم کر لو، ایک ایک منزل پڑھتے جاؤ۔ اس طرح آپ کا قرآن پاک بھی ما شاء اللہ کسی حد تک ہو جائے گا، ذکر بھی آپ کا ہو جائے گا اور ان شاء اللہ تھکاوٹ بھی نہیں ہو گی اور اگر پھر بھی تھکاوٹ ہو گئی، تو میرے خیال میں مشروبِ صالحین سے مدد لے سکتے ہیں یعنی چائے پی سکتے ہیں۔ چائے اپنے ساتھ تھرماس میں رکھ لیں اور آدھا کپ پی لیجئے گا، تو تازگی آ جائے گی۔ اور پھر آپ دوبارہ شروع کر لیں۔ اس طرح ما شاء اللہ آہستہ آہستہ آپ پوری رات عبادات کر سکتے ہیں۔ کیونکہ پوری رات کے لئے فرمایا گیا۔

آگے فرمایا کہ ’’ہے کوئی مغفرت چاہنے والا کہ میں اس کو بخش دوں؟ ہے کوئی روزی مانگنے والا کہ میں اس کو روزی دوں؟ کیا کوئی مصیبت زدہ ہے کہ میں اس کو عافیت دوں؟ کیا کوئی ایسا ہے؟ کوئی ایسا ہے؟ رات بھر یہی رحمت کا دریا بہتا رہتا ہے، یہاں تک کہ صبح صادق ہو جائے‘‘۔ بہر حال! اس کے لئے ہمیں تیار رہنا چاہئے، مردوں کے لئے تو یہی ہے کہ عبادات کے ماحول میں رہیں۔ جب کہ عورتیں تو باہر نہیں نکل سکتیں، عورتیں گھر کے اندر ہی رہیں، بلکہ بہتر یہ ہے کہ اپنے مردوں کے ساتھ تعاون کریں اور گھر کا ماحول بھی بہتر بنا دیں اور مرد بھی ادھر ہی رہیں اور آپ خواتین بھی ادھر ہی رہیں اور سب اللہ تعالیٰ کی عبادت کریں، تو بہت فائدہ ہو گا۔ عورتوں کا یہ مسئلہ ہے کہ اگر یہ ایک سے دو ہوں، تو ان کی بات چیت آپس میں رکتی نہیں ہے، بات سے بات نکلتی ہے۔ میں نے مردوں کو بھی دیکھا ہے کہ مرد باتونی ہوتے ہیں، لیکن عورتیں تو اس حد تک باتونی ہوتی ہیں کہ سب بول رہی ہوتی ہیں اور سب سن رہی ہوتی ہیں، پتا نہیں چل رہا ہوتا کہ بول کون رہا ہے اور سن کون رہا ہے۔ بہر حال! ان راتوں میں کم از کم اپنی فطرت پہ کنٹرول کرو۔ آپ کا جی چاہے گا کہ آپ باتیں کریں، لیکن کبھی اپنی فطرت پر جبر کرنا پڑتا ہے، اس کو جبِلَّت کہتے ہیں۔ اپنی جبلت پر جبر کرنا پڑتا ہے، اسی پر اجر ملتا ہے۔ لہٰذا اگر آپ لوگ تھوڑا سا اپنے وقت کا خیال کریں کہ یہ وقت بہت قیمتی ہے، پھر پتا نہیں، دوبارہ ہمیں یہ رات ملتی ہے یا نہیں ملتی، ایک سال میں بہت کچھ ہو جاتا ہے۔ تو اس سال ہمیں اللہ تعالیٰ نے اگر یہ عطا فرمائی ہے، اللہ نصیب فرمائے۔ تو اس کو پوری طرح کمانا چاہئے، درمیان میں مِس نہیں کرنا چاہئے۔ اللہ جلّ شانہ ہم سب کو سمجھ کی توفیق عطا فرمائے۔

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا ہے کہ میں نے آپ ﷺ کو شعبان سے زیادہ روزے رکھتے ہوئے کسی ماہ میں نہیں دیکھا۔ یعنی رمضان کے علاوہ۔ کیونکہ رمضان میں تو روزے فرض ہیں، اس میں تو سب کو رکھنے ہوتے ہیں، اور شعبان میں نفل ہیں۔ لیکن آپ ﷺ خود اس میں کثرت کے ساتھ روزے رکھتے تھے۔ ایک روایت میں ہے کہ آپ کُل شعبان میں روزے رکھتے تھے، سوائے تھوڑے دنوں کے۔ لہٰذا ہمیں بھی آپ ﷺ کی زندگی کے نمونہ کو اختیار کرنا چاہئے۔ اور یہ بھی آپ ﷺ کا طریقہ تھا۔ اور رسول کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ متوجہ ہوتا ہے شعبان کی پندرھویں رات میں، پس مغفرت فرما دیتے ہیں سب مخلوق کی، مگر مشرک اور کینہ والے شخص کی مغفرت نہیں فرماتے۔ یہ ابنِ ماجہ کی روایت ہے۔ اور ایک روایت میں ہے کہ مگر دو شخص، ایک کینہ رکھنے والا اور ایک قتلِ ناحق کرنے والا۔ اور ایک روایت میں ہے: یا قطع رحم کرنے والا۔ اور ایک روایت میں ہے کہ اللہ نظرِ رحمت نہیں کرتے اس رات میں بھی مشرک کی طرف اور نہ کینہ والے کی طرف اور نہ قطع رحم کرنے والے (رشتہ ناطہ توڑنے والے) کی طرف اور نہ پائے جامہ ٹخنے سے نیچے لٹکانے والے کی طرف اور نہ ماں باپ کی نا فرمانی کرنے والے کی طرف اور نہ ہمیشہ شراب پینے والے کی طرف۔ البتہ اگر توبہ کر چکا ہے، تو رحمتِ خداوندی اس پر بھی متوجہ ہو جاتی ہے۔ یہ وہ گناہ ہیں، جن سے رحمت کا دروازہ بند ہو جاتا ہے۔ ایسے گناہوں سے تو فوراً توبہ کرنی چاہئے۔ کیونکہ یہاں فرمایا گیا کہ اگر توبہ کر لی جائے، تو اس پہ گرفت نہیں کی جاتی۔ لہٰذا اسی رات توبہ کر لینی چاہئے اور پھر اعمال کرنے چاہئیں۔ اس کے علاوہ بعض اور گناہوں پر بھی نظرِ رحمت نہ ہونا فرمایا ہے جیسا کہ دوسری روایتوں میں بھی آیا ہے۔ پس سب گناہوں سے توبہ کرنی چاہئے۔ حضرت فرماتے ہیں کہ سب روایتوں پر نظر ڈالنے سے یہ سامنے آتا ہے کہ کبائر بغیر توبہ کے معاف نہیں ہوتے اور صغائر سب اس رات کی برکت سے حق تعالیٰ معاف فرما دیتے ہیں۔ گویا کبائر کے لئے توبہ ہے، توبہ سے سارے گناہ معاف ہوتے ہیں۔ اس لئے توبہ بھی کر لیں، اِس کا بھی فائدہ لیں اور اُس کا بھی فائدہ لیں۔ بلکہ میں تو کہتا ہوں کہ توبہ ایک ایسا حل ہے کہ اس کے سامنے کوئی گناہ نہیں ٹھہرتا۔ وہ اس رات کی برکت سے نصیب ہو جاتی ہے۔ جب یہ توبہ نصیب ہو جاتی ہے، تو وہ گناہ بھی معاف ہو جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ بہت دینے والے ہیں۔ ہم لوگوں کو اللہ پاک کے ساتھ تعلق بنانا چاہئے۔ اور آپ ﷺ سے اس رات نفل کی نماز کے سجدہ میں یہ دعا مروی ہے: ’’أَعُوْذُ بِعَفْوِكَ مِنْ عِقَابِكَ، وَأَعُوْذُ بِرِضَاكَ مِنْ سَخَطِكَ، وَأَعُوْذُ بِكَ مِنْكَ جَلَّ وَجْهُكَ لَا أُحْصِيْ ثَنَاءً عَلَيْكَ أَنْتَ كَمَا أَثْنَيْتَ عَلٰى نَفْسِكَ‘‘۔

ترجمہ: "تیرے غصہ سے تیری رضا مندی کی پناہ لیتا ہوں اور تیرے عذاب سے عتاب سے در گزر کرنے کی پناہ لیتا ہوں اور تجھ سے تیری ہی پناہ مانگتا ہوں۔ برتر ہے تیری ذاتِ مقدس۔ میں تیری ثناہ کو شمار نہیں کر سکتا، تو ویسے ہی ہے جیسے تو نے اپنی تعریف کی ہے"۔

اس روایت میں یہ دعا بھی ہے طوالت کے خوف کی وجہ سے نقل نہیں کی اور ما ثبت بالسنہ کے بارے میں فرمایا کہ بیہودہ بدعات میں سے ایک یہ ہے جو کہ ہندوستان کے اکثر شہروں میں پھیلی ہوئی ہے یعنی چراغوں کا جلانا، ان کا مکانوں اور دیواروں پر رکھنا اور اس پر فخر کرنا کہ ہم نے زیادہ روشنی کی ہے اور لوگوں کا کھیل کود کے لئے جمع ہونا اور آگ کے ساتھ کھیلنا اور آتش بازی کرنا۔ غالب گمان یہ ہے کہ یہ رسم ہندوؤں سے لی گئی ہے۔ جاہل مسلمانوں نے اس کو لیا ہے۔ واقعتاً ہم نے خود اپنے گاؤں میں یہ چیزیں دیکھی ہیں۔ اب تو شاید نہیں ہوں گی، لیکن اس وقت با قاعدہ کپڑے کی بال بنا لیتے اور اس کو مٹی کے تیل میں ڈبو لیتے تھے اور پھر اس کو آگ لگاتے اور اس کو پھینکتے اور کچھ لوگ اپنے پیروں سے اور کچھ ڈنڈوں سے اس کو اس طرح بھگاتے جاتے تھے اور اس پہ ہلّا گُلّا کرتے تھے۔ گویا شیطان ایسا ظالم ہے کہ وہ ہر خیر کے موقع کو آپ کے لئے خراب کرنے کے لئے کوئی ترکیب بنائے گا۔ اتنی اچھی رات میں آپ یہ کام کیسے کر رہے ہیں، حیرت ہوتی ہے، اگر آپ نے کچھ کرنا بھی ہے، تو اس کے مطابق تو ہو۔ یہ تو ہندوؤں کی باتیں ہیں۔ لیکن بہر حال! لوگ اس قسم کی باتیں کرتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہر خیر کے کام پر اگر محنت جاری نہ رکھی جائے، تو وہ خیر کا کام کمزور ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ ہوتے ہوتے اتنا کمزور ہو جاتا ہے کہ ختم ہو جاتا ہے۔ بالآخر وہ ایک برائی کی صورت اختیار کرتا ہے اور وہ برائی کی صورت بڑھتی جاتی ہے، بڑھتی جاتی ہے اور بہت بڑھ جاتی ہے۔ مثلاً: ایک بزرگ فوت ہو گیا، اس کے غم میں جو لوگ لپٹے ہوئے ہیں، وہ اپنے غم میں تسلی پانے کے لئے ان کے یومِ وفات پر جمع ہوتے ہیں اور ان کی تعلیمات سنتے ہیں۔ ان کے خلفاء ان کی تعلیمات لوگوں کو سناتے ہیں۔ یہاں تک تو بات ٹھیک ہے۔ لیکن ہوتے ہوتے عرس بن جاتا ہے اور عرس میں صرف عرس کے ماننے والے نہیں آتے ہیں، بلکہ اور لوگ بھی جمع ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ وہ لوگ بھی پہلے اس طرح کرتے ہیں، لیکن آہستہ آہستہ وہ اپنے ساتھ کھانے پینے کی چیزیں بھی لے آتے ہیں، کیونکہ یہ چیزیں انسان کی ضرورت تو ہوتی ہیں۔ کھانے پینے کی چیزوں کے بعد آہستہ آہستہ لوگ کھیل کود کے سامان بھی لے آتے ہیں۔ جیسے حج کے موقع پہ ہوتا ہے۔ جب آپ اپنے ہوٹل سے آتے ہیں، خانہ کعبہ آتے ہیں یا مسجد نبوی تشریف لاتے ہیں، تو راستے میں پورا ہلے گلے کا سامان موجود ہوتا ہے۔ حالانکہ وہاں اس چیز کا کیا تعلق! لیکن ہوتا ہے اور لوگ اسی میں پھر رہے ہوتے ہیں۔ چنانچہ اس طرح آہستہ آہستہ یہ کھیل کی چیزیں شروع ہو جاتی ہیں۔ پھر کھیل سے آگے بڑھ کر فسق و فجور کی چیزیں شروع ہو جاتی ہیں، بے محابا عورتیں آتی ہیں اور بہت سارے مسائل ہوتے ہیں۔ پھر اس کے بعد جو چیزیں ہوتی ہیں، اللہ پاک رحم فرمائے۔ اخیر میں یہی عرسوں کی صورت ہوتی ہے۔ اس لئے اسلام نے اس کو جڑ سے پھینکا ہے کہ کوئی ضرورت نہیں ہے، بس آپ دعا گھر میں بھی کر سکتے ہیں اور بزرگ کا فیض آپ کو گھر میں بھی پہنچ جائے گا۔ ہمارے حضرت مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ اجمیر شریف گئے تھے، دیوبند کے صد سالہ پروگرام میں گئے تھے۔ وہاں سے اجمیر شریف اور ندوۃُ العلماء بھی گئے تھے۔ اجمیر شریف میں بہت بدعات ہوتی ہیں۔ خیر! حضرت نے فاتحہ پڑھی، چونکہ حضرت کو تھکاوٹ تھی، کیونکہ بیمار تھے، ان کو بازار میں چائے پلانے کے لئے لے گئے۔ جب چائے پی رہے تھے، تو حضرت نے فرمایا کہ یہاں حضرت کا فیض آ رہا ہے، مگر وہاں نہیں تھا۔ یعنی مزار پہ نہیں تھا، یہاں پر آ رہا ہے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہاں چونکہ فسق و فجور کی چیزیں شروع ہو گئی تھیں، اس لئے ایسی جگہوں پر فیض نہیں ٹھہرتا۔ لیکن چونکہ وہاں پر یہ چیزیں نہیں تھیں، باوجودیکہ بازار تھا، لیکن وہاں پر تھا۔ گویا یہ چیزیں ہم لوگ خود خراب کرتے ہیں۔ تو میلا ٹھیلا نہیں ہونا چاہئے۔ لیکن شبِ برات پہ عجیب صورت حال ہوتی ہے، لوگ ٹھٹھہ قبرستان جائیں گے، با قاعدہ گاڑیاں چلتی ہیں اور آوازیں لگاتی ہیں اور وہاں جاتے ہیں اور مزاروں پہ چراغاں کرتے ہیں اور وہاں پر پورا میلہ ہوتا ہے۔ حالانکہ رات کون سی ہے اور بنائی کون سی ہے۔ اس سے کون سی چیز بن گئی۔ اس طرح سے شیطان ہمارے سارے نظاموں کو خراب کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں تین چیزیں عطا فرمائی ہیں، ان تین چیزوں کو صحیح استعمال کرنا ہے۔ عقل دی ہے، الحمد للہ۔ دل دیا ہے اور نفس دیا ہوا ہے۔ عقل کا کام یہ ہے کہ اس سے ہم اچھی بری بات کو سمجھیں، قرآن کو سمجھیں، حدیث کو سمجھیں، ان کی روشنی میں اچھی باتوں کا علم حاصل کریں اور بری باتوں سے اپنے آپ کو بچائیں۔ یہ عقل ہے۔ اور دل دیا ہے، یہ اللہ تعالیٰ سے محبت کے لئے ہے اور دنیا کی محبت کو اس سے نکالنا ہے۔ ایمان کی روشنی بھی دل میں ہوتی ہے۔ پھر جو نفس دیا ہے، یہ سواری ہے۔ اس پر سواری کر کے آپ جنت جا سکتے ہیں۔ لیکن سواری کیسے کرو گے؟ وہ ایسے ہو گی کہ اس سے اللہ تعالیٰ کا حکم منواؤ گے۔ اس کا حکم نہیں مانو گے۔ کیونکہ سواری کو کوئی اپنے اوپر نہیں بٹھاتا۔ سواری کو اپنے اوپر کوئی نہیں بیٹھاتا، سواری کے اوپر سوار ہوتا ہے۔ لہٰذا اس نفس کے اوپر سوار ہونا ہے۔ خانقاہوں کے اندر یہی طریقہ سکھایا جاتا ہے کہ نفس کے اوپر کیسے سوار ہونا ہے، بشرطیکہ صحیح خانقاہ ہو۔ اگر رسوماتی خانقاہ ہو، تو اس کی میں بات نہیں کرتا ہوں، صحیح خانقاہوں میں یہ سکھایا جاتا ہے کہ نفس کے اوپر کیسے سوار ہوا جاتا ہے، دل کی صفائی کیسے ہوتی ہے، عقلِ فہیم کس طرح حاصل کی جاتی ہے۔ اگر ہماری یہ تین چیزیں درست ہو گئیں، تو سبحانَ اللہ! سب کچھ ٹھیک ہے۔ قرآن اور حدیث میں تبدیلی نہیں آ سکتی، ہم میں تبدیلی آئے گی۔ قرآن اور حدیث اپنی جگہ پر قائم ہیں۔ ساری دنیا بھی کافر ہو جائے، تو قرآن اور حدیث میں کوئی تبدیلی نہیں آ سکتی۔ وہ اپنی جگہ پر قائم ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ تباہ ہو جائیں گے۔ اور اگر قرآن اور حدیث پر عمل شروع ہو جائے، تو قرآن اور حدیث میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی، لیکن لوگ بدل جائیں گے، ان کا فائدہ ہو جائے گا۔ اس لئے ہم لوگوں کو یہ علم حاصل کرنا چاہئے کہ اللہ کیا کہتا ہے۔ ہم بہت ساری چیزوں کو جانتے ہیں کہ فلاں کیا کہے گا، فلاں کیا کہے گا۔ اسی سے تو لوگ متاثر ہوتے ہیں۔ لیکن یہ نہیں جانتے کہ اللہ کیا کہے گا۔ اس کے لئے علم کی ضرورت ہے۔ اس علم کو حاصل کرنا چاہئے، تاکہ ہمیں معلوم ہو جائے کہ اللہ پاک کی کیا منشاء ہے۔ اللہ جلَّ شانہ اس کام کو کیسے کروانا چاہتا ہے۔ ہم کھانا کیسے کھائیں، ہم سوئیں کیسے، ہم کمائیں کیسے، ہم خرچ کیسے کریں، ملیں جلیں کیسے، ہمارا نظامِ معیشت کیسے ہو، معاشرت کیسی ہو۔ یہ ساری چیزیں اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر کے ذریعے سے ہم تک پہنچائی ہیں۔ اب صرف اس کی سمجھ کی ضرورت ہے اور پھر اس پر عمل کی ضرورت ہے۔ اگر ہم اس بات کو سمجھ گئے ہیں، تو ان شاء اللہ کوئی مشکل نہیں ہے۔ اور جیسے میں نے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ زندگی بڑی مختصر ہے، اس میں تجربے نہیں کرنے چاہئیں، تجربوں سے انسان سیکھتا ہے۔ جیسے ساری سائنس تجربے سے سیکھی جاتی ہے، لیکن دین میں تجربے نہیں کرنے چاہئیں۔ کیونکہ وہ پہلے سے فائنل چیزیں ہمیں معلوم ہیں۔ تجربے کیا کرو گے۔ مجھ سے کسی نے کہا کہ آپ خود قرآن اور حدیث پر تحقیق کریں، اماموں کے پیچھے کیوں پڑتے ہو؟ میں نے کہا: چلو، میں نے تحقیق کر لی، پانچ سال میں نے ایک چیز پہ محنت کی اور میں نے معلوم کیا کہ یہ کام ایسے کرنا چاہئے۔ مگر وہ بھی کسی امام نے پہلے سے کہا ہوتا ہے۔ تو میں نے وہ چیز حاصل کی، جو پہلے سے موجود ہے۔ اب مجھے کیا فائدہ ہوا؟ دوسری بات یہ ہے کہ جو میری تحقیق ہے، وہ میری بیوی پہ لازم نہیں ہے کہ وہ اس کو لے اور میرے بیٹے کے اوپر نہیں ہے، میرے بھائی کے اوپر نہیں ہے، میرے باپ کے اوپر نہیں ہے، میرے دوست کے اوپر نہیں ہے۔ اب اس کا کیا فائدہ؟ تو جو پہلے سے ہو چکا ہے، اس پر دوبارہ کیوں محنت کی جائے؟ انگریزی میں کہتے ہیں: Inventing the wheel again کہ دوبارہ پہیے کو ایجاد کرنا۔ دوبارہ پہیے کو ایجاد کرنے سے کیا ہو گا؟ بس پہیے کو آپ استعمال کرو۔ جس چیز میں استعمال کرنا ہے، اس میں استعمال کرو۔ یہ کیا بات ہے کہ آپ ایک چیز کو بار بار دہرانا چاہتے ہیں۔ اور ہمیشہ کے لئے ایک اصول ہے کہ جو لوگوں کی تحقیقات سے فائدہ نہیں اٹھاتا، وہ اپنی زندگی ضائع کرتا ہے۔ کیونکہ انسان کی زندگی بہت مختصر ہے، اس میں یہ کیا کر سکتا ہے۔ اس لئے جو چیزیں پہلے سے settled ہیں، ان کو ہم کیوں چھیڑیں۔ ان کو نہ چھیڑ کر آج کل کے مسائل پر محنت کرو۔ مثلاً: آج کل بینکوں کا نظام کیسا ہونا چاہئے، اس پر محنت کرو، کس نے روکا ہے۔ رؤیتِ ہلال کے مسئلہ کو کیسے حل کریں، اس پر محنت کرو۔ زکوٰۃ کو کیسے صحیح استعمال کریں، یہ بھی آج کل بہت بڑا مسئلہ ہے، اس پہ محنت کرو۔ یہ سارے آج کل کے دور کے مسائل ہیں، ان کو شریعت کے مطابق حل کرنا، یہ ہمارے لئے بہت بڑا مسئلہ ہے۔ اس کے لئے جتنی محنت ہو سکتی ہے، اس کا ساتھ دو، آپ خود بھی اگر کر سکتے ہو، تو کرو۔ لیکن شرط یہ ہے کہ آپ کے پاس اتنا علم ہے، ورنہ ان لوگوں کا ساتھ دو، جو محنت کر سکتے ہیں اور خواہ مخواہ اپنا وقت ضائع نہ کرو۔ یقین جانئے کہ یہ زندگی بہت ہی مختصر ہے۔ خدا کی قسم! ہمیں یہ نہیں پتا کہ میں اس سیٹ سے اٹھ سکتا ہوں یا نہیں اٹھ سکتا۔ کسی کو پتا ہو گا، تو ہو گا، مجھے تو نہیں پتا۔ جب ہماری یہ زندگی اتنی مختصر ہے کہ ہمیں خاتمے کا کوئی پتا نہیں ہے، تو اس پہ ہم کیوں عیاشی کریں، کیوں اس کو ویسے ضائع کر دیں۔ آج کل زندگی کو ضائع کرنے والا بہت بڑا ذریعہ ہمارے پاس موبائل ہے۔ موبائل پہ انسان کا بہت وقت ضائع ہوتا ہے۔ جو اس وقت کو بچا کر نیک کاموں میں استعمال کر لے گا، وہ اس وقت کے ہوشیار ترین آدمیوں میں سے ہے۔ کیونکہ ہمارا سب سے قیمتی سرمایہ ہی یہی ہے، اور یہ store نہیں ہو سکتا، یہ نہیں ہو سکتا کہ پانچ منٹ میں جمع کر لوں کہ بعد میں استعمال کر لوں گا۔ پانچ منٹ گزرنے ہیں، چاہے آپ ان کو استعمال کریں یا نہ کریں۔ چاہے آپ ان کو نیند میں گزاریں، چاہے بات چیت میں گزاریں، چاہے لڑائی جھگڑے میں گزاریں، چاہے قرآن پاک کی تلاوت میں گزاریں، چاہے ذکر میں گزاریں، یہ آپ کے لئے ٹھہرے گا نہیں۔ ابھی میں بات کر رہا ہوں، تو یہ حال ہے، ابھی گزر گیا اور ماضی ہو گیا اور اس کے بعد جو آنے والا ہے، وہ مستقبل ہے۔ تو درمیان میں کیا ہے؟ یہ صرف چَل چلاؤ ہے۔ اس چل چلاؤ میں ہماری زندگی ختم ہو جائے گی۔ لہٰذا ہمیں اپنی زندگی کا خوب خیال رکھنا چاہئے اور یہ جو رات آ رہی ہے، اس میں ہمیں پوری کوشش کرنی چاہئے کہ ہماری زندگی کام کی بن جائے اور اس میں اللہ پاک ہم سے راضی ہو جائے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو توفیق عطا فرما دے۔

وَمَا عَلَیْنَا اِلَّا الْبَلَاغُ