مطالعہ سیرت بصورت سوال

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
سوال:
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم شعبان کے مہینے میں کثرت سے روزے رکھتے تھے۔ شعبان کا مہینہ رمضان المبارک سے پہلے ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس طریقے اور رمضان المبارک کا آپس میں کیا تعلق ہے؟ کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان المبارک کی تیاری کے سلسلے میں شعبان میں زیادہ روزے رکھا کرتے تھے؟ اس سنت پر آج کل عمل کرنے کی کیا ترتیب ہو سکتی ہے؟
جواب:
اس کے بارے میں کم از کم مجھے معلوم نہیں ہے کہ آپ ﷺ سے کوئی چیز منقول ہو، لہٰذا ہم یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ یہ کس وجہ سے کیا گیا ہے، لیکن شعبان کے ساتھ آپ ﷺ کا ایک خصوصی تعلق تھا، اس میں اس برکت کو حاصل کرنے کے لئے آپ ﷺ اس میں کثرت سے روزے رکھتے تھے۔ ہمیں بھی اس برکت کو حاصل کرنے کے لئے اور آپ ﷺ کی سنت کی پیروی کے طور پر یہ روزے رکھنے چاہئیں۔ چونکہ آپ ﷺ شعبان میں کثرت سے روزے رکھتے تھے، تو یہ آپ ﷺ کی سنت ہوئی۔ اس سنت پر ہم بھی عمل کر سکتے ہیں۔ بہر حال! چونکہ یہ سنتِ مستحبہ ہے، سنتِ مؤکدہ نہیں ہے، لہٰذا اگر کوئی اس پر عمل نہ کرے، تو اس پر کوئی ملامت نہیں ہے۔ کوئی رکھ لے، تو اس کی فضیلت ہے، لیکن اگر کوئی نہ رکھے، تو اس پر کوئی ملامت نہیں کرنی چاہئے۔ نہ ہی یہ کہنا چاہئے کہ میں تو رکھتا ہوں، فلاں نہیں رکھتا۔ کیونکہ جو ایسا کہے گا، تو اس پہ ملامت کی جائے گی کہ آپ نے اس طرح کیوں کہا۔ ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو کسی اور فضیلت کا موقع دیا ہو۔ بعض لوگ ہوتے ہیں، جیسے نفل نماز بہت کثرت سے پڑھتے ہیں، بعض لوگ صدقات بہت کثرت سے دیتے ہیں، بعض لوگ ذکر بہت کثرت سے کرتے ہیں، بعض لوگ دعوت و تبلیغ بہت کثرت سے کرتے ہیں۔ ایسی صورت میں کس کو کہیں گے کہ ٹھیک ہے اور کس کو کہیں گے کہ ٹھیک نہیں ہے۔ یہ تو ہر ایک کا اپنا اپنا راستہ ہے۔ ظُنُّوۡا بِالْمُؤْمِنِیْنَ خَیْرًا کہ مومن کے ساتھ نیک گمان کرنا چاہئے۔ لہٰذا اپنے اوپر تو انسان کو سوءِ ظن کرنا چاہئے کہ پتا نہیں، میں اس کو صحیح کر بھی رہا ہوں کہ نہیں کر رہا۔ یا میری نیت ٹھیک ہے یا نہیں ہے۔ لیکن دوسروں کے ساتھ حسنِ ظن کرنا چاہئے۔ اللہ جلّ شانہ ہم سب کو ایسے خیر کے کاموں میں زیادہ سے زیادہ شامل ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ