توضیح المعارف قسط 11
فلسفہ سائنس اور معرفت الٰہی – چھٹا حصہ
اللہ تعالیٰ کی معرفت میں سائنس کی افادیت اور اس کی حد:
ہمارے سامنے پھیلی ہوئی کائنات پر غور و فکر اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل کرنے کا ایک ذریعہ ہے۔ صوفیائے کرام کی دی ہوئی مثالوں کی طرح سائنسدانوں کی تحقیقات اور findings سے بھی معرفت کے میدان میں کام لیا جاسکتا ہے۔ لیکن دین کے مسلّم عقائد کو ثابت کرنے کا بوجھ سائنس پر نہیں ڈالا جاسکتا۔ کیونکہ سائنس ایک ترقی پذیر (evolving) چیز ہے۔ یہ بات درج ذیل مثال سے واضح ہوگی:
سائنس کی دریافت کے مطابق کائنات کے اندر ایسے دور دراز ستارے موجود ہیں، جو 12 بلین نوری سالوں کے فاصلے پر ہیں۔ یعنی روشنی 1 لاکھ چھیاسی ہزار کلومیٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے چلتے ہوئے 12 ارب سالوں میں جتنا فاصلہ طے کرتی ہے، اتنا فاصلہ ان ستاروں کا زمین سے ہے ۔ سائنسدانوں کی کائنات کی وسعت کے بارے میں اس دریافت سے ہم پر خالق کائنات کی عظمت کھلتی ہے۔ لیکن دوسری طرف اگر یہی سائنسدان اپنے ناکافی علم کی بنیاد پر آسمان کے وجود کی نفی کریں اور آسمانِ دنیا کو محض ہماری نظر کی حد قرار دینگے تو ہم یہ بات نہیں مانیں گے؛ کیونکہ قرآن پاک اور احادیث میں سات آسمانوں کا ذکر موجود ہے۔ ہم ان کے جواب میں کہہ سکتے ہیں کہ آسمانِ دنیا جس کا ذکر قرآن وحدیث میں ہے، وہ کم از کم 12 ارب نوری فاصلے یا اب تک کی دریافت کردہ سب سے دور ستارے سے بھی دور ہے۔ یہی حال معجزات مثلاً معراج شریف کا واقعہ یا حضرت موسی علیہ السلام کے واقعات کا ہے۔ ہم ان کو مستند روایات کی وجہ سے مانتے ہیں۔ سائنسی توجیہ ان کی ممکن نہیں۔ کیونکہ معجزہ نام ہی اس واقعہ کا ہے، جس میں اللہ تعالیٰ اپنی قدرت کے اظہار کے لئے معروف مادی قوانین (physical laws) کو نظر انداز (bypass) کردیں۔
خالق و مخلوقات کے باہمی تعلق کی ایک خاص مثال:
ذیل میں اس تعلق کو سمجھنے کے لئے ایک بہترین مثال دی جارہی ہے۔ لیکن اس مثال سے پہلے، معرفت کے میدان میں مثالوں اور تصورات کی افادیت کے بارے میں اپنے ذہن کو صاف کرنا ضروری ہے۔
بعض کم فہم لوگ مثالوں کی اہمیت یہ کہہ کر گھٹاتے ہیں کہ تصور سے حقیقت تو نہیں بدلتی، حقیقت تو اپنی جگہ رہتی ہے، تو فرضی مثالوں کو سوچنے کا پھر کیا فایدہ؟
اس کا جواب یہ ہے کہ مثالیں حقیقت کو واضح کرنے کے لیے ہوتی ہیں، حقیقت کو ثابت کرنے کے لیے نہیں۔ حقیقت کو ثابت کرنے کے لیے مستقل دلائل کی ضرورت پڑتی ہے۔
میں نے اپنی زندگی میں تصور کی دنیا کی مدد سے دو اہم فیصلے کئے۔ جس کا فائدہ ابھی تک اٹھارہا ہوں۔ پہلے تصور یا مراقبے کا تو یہ پس منظر تھا کہ لڑکپن میں مجھے مال جمع کرنے کا خیال آیا۔ چنانچہ میں نے یہ فرضی تصور دل میں جمایا کہ میں بہت مالدار ہوگیا ہوں اور تصور ہی تصور میں اس مال کو مختلف خیراتی کاموں میں خرچ کرنے لگا۔ گویا مال کے ذریعے جو اچھا کام بھی میں کرسکتا تھا، وہ کر دیا۔ اس کے بعد میں نے غور کیا کہ اس پورے عمل کا فائدہ کیا ہوا؟ تو معلوم ہوا کہ اب لوگ میرے خیراتی اداروں سے کھا رہے ہیں۔ مجھ سے منسوب ہسپتالوں میں اُن کا علاج ہو رہا ہے۔ میرے سکولوں میں ان کے بچے پڑھ رہے ہیں وغیرہ وغیرہ تو فوراً دل سے آواز آئی کہ کیا اس سے یہ بہتر نہیں کہ میرے بجائے لوگ اللہ کا کھا رہے ہوں اور سب کچھ اسی کا ہو۔ بس اسی سے زیادہ مال کی خواہش ختم ہوگئی کہ جب اچھے کاموں میں مال خرچ کرنے کا یہ حال ہے، تو زائد از ضروت مال جمع کرنے کی خواہش دل میں کیوں پالی جائے، جس کا شر یا اسراف کے مصارف میں خرچ ہونے کا بھی قوی امکان ہے۔اس طرح دل سے ابتدائی عمر میں ہی ضرورت سے زیادہ کمانے کی ہوس نکل گئی ۔
دوسرا واقعہ یوں ہے کہ لڑکپن میں داڑھی رکھنے کا فیصلہ کیا تو مخالفت شروع ہوگئی۔ اس وقت میں نے ایک اور تصور باندھا۔ میں نے سوچا کہ دنیا میں اچھے لوگ بھی ہیں اور برے بھی۔ برے اچھوں کو پسند نہیں کرتے اور اچھے بروں کے کام کو اچھا نہیں کہتے تو جب ارادہ ہو کہ اچھا بنوں تو بروں یا دنیاداروں کی نظروں میں اچھا بننے کا خیال اور خواہش دل سے نکالنی چاہئیے ۔ بس اسی سے یکسوئی حاصل ہوگئی، جو الحمدلله اب تک قائم ہے۔
ان دونوں واقعات میں محض ایک تصور سے اتنا فائدہ ہوا۔
ایک حکیم کے تصور کی مثال:
ایک ایسا حکیم جو ہر فن مولا ہے۔ اس کا ذہن بہت تیز ہے، معلومات بہت زیادہ ہیں اور چیزوں کو اخذ کرنے اور ان کو مستحضر کرنے میں اس کو کمال حاصل ہے اور اس کی صلاحیتیں اور معلومات بہت زیادہ گونا گوں اور ہمہ جہتی ہیں۔
وہ اپنے خیال میں ایک حکومت قائم کرتا ہے اور اس میں اپنی مرضی سے تفصیل کے ساتھ ساری چیزوں کا انتظام کرلیتا ہے۔ اس میں فوجی چھاونیاں بھی ہیں۔ پارلیمنٹ اور عدلیہ کے ادارے بھی ہیں۔ فیکٹریاں بھی ہیں۔ اور سرسبز کھیت بھی۔ فوج بھی ہے اور دوسرے سرکاری ادارے بھی۔ شہر بھی اور دیہات بھی۔ غرض ایسی سلطنت جس میں سب کچھ اصل کی طرح وہ موجود محسوس کرتا ہے اور پھر اس پوری حکومت میں اپنے خیال میں خود کو بھی ایک تخت پر بیٹھ کر اس حکومت کو چلاتا ہوا دیکھ رہا ہے۔ اس ذہنی عمل میں وہ پہلے خود اپنی ذات کی طرف متوجہ ہوگا کہ وہ سب کچھ کر رہا ہے پھر اس کے کاموں کو ہوتے ہوئے دیکھے گا گویا وہ خود اپنی ذات کے سامنے ایک خیالی دنیا کا ایک کھلا میدان کا دیکھے گا جس میں سب کچھ ہو رہا ہوگا۔ اب یہ سب چونکہ اس کی ذہنی تخیلات ہیں تو یہ گویا کہ اس کے ظلال ہیں جس میں ایک ظل وہ خود بھی ہے جسے اس نے اپنی ذات کا عنوان بنایا ہوا ہے برعکس دوسری چیزوں کے جس کے ساتھ اس کا ایسا تصور نہیں۔
انہماکی، خیالی اور عقلی توجہ:
یہاں پر ایک باریک بات سمجھنی ضروری ہے۔ اپنے اس تخیل کی پیدا کردہ چیزوں کی طرف ایک توجہ تو یہ ہوتی ہے کہ جو چیزیں ذہن میں ثبوت کے درجے میں موجود تھی وہ اس خیالی توجہ کی وجہ سے گویا موجود ہوجائیں۔ ایسی صورت میں کچھ چیزوں کو جوہر اور کچھ کو عرض کہا جاسکتا ہے۔ جیسا کہ اوپر والی مثال میں حکیم کے ذہن میں قائم ایک سلطنت کا حال تھا۔ اس توجہ کو تصور کرنا یا imagining یا انہماکی توجہ کہتے ہیں۔ لیکن تصور میں موجود ذہنی چیزیں پردہ خیال پر ظاہر ہونے سے پہلے ذہن کے گوشے میں محفوظ ہوتی ہیں۔ اس صورت میں جوہر اور عرض کی تمیز نہیں ہوتی۔ عقلی طور پر اگر ان کی طرف توجہ کی جائے تو سب ایک جیسے ہوں گی۔ اس سے کچھ اصطلاحات وضع کی جاسکتی ہیں۔
نظر، عنایت اور تکوین:
سائنس دانوں کے اندر کائنات کی پیدایش کے بارے میں مختلف آراء پائی جاتی ہیں۔ ابھی تک وہ کائنات کی تخلیق کے process کو شروع (trigger) کرنے والی چیز پر متفق نہیں ہوسکے۔
اس حکیم والی مثال میں صوفیائے کرام کا اس starting point کے بارے میں رائے کا سراغ مل سکتا ہے۔ اور وہ یہ کہ فاطر (حکیم) اپنی عقلی معلومات جو اس کے تحت شعور میں پوشیدہ ہیں، پر جس لمحے اپنی نظر عنایت (attention) مرتکز کرکے ان عقلی معلومات (اسماء کونیہ، حقائق امکانیہ) کو ظلال کی صورت میں تصور (visualize) کرتا ہے، اس لمحے تخلیقی عمل وقوع پذیر ہوجاتا ہے۔
جیسے انہماکی توجہ سے حکیم نے خیال ہی خیال میں چاند سورج پیدا کئے تو اللہ تعالیٰ نے اپنی علمی قوت سے ایک بسیط فضا پیدا کی۔ پس کائنات کے خارجی حقائق جب علم الٰہی میں تھیں ان کو حقائق امکانیہ یا اسماء کونیہ کہتے ہیں جیسے حکیم کی مثال میں وہ عقلی صورتیں جو ابھی خیالی پردے پر ظاہر نہیں ہوئی تھیں۔ تو اب سے جو کچھ سامنے آئے گا حکیم ان چیزوں سے ذرا بھر بھی متاثر نہیں ہوگا۔ اس کا مطلب ہے کہ حکیم کا ایک خارجی وجود ہے لیکن اس کی خیالی چیزوں کی اس کے خارجی وجود کے ساتھ کوئی نسبت نہیں۔ اسی طرح حق کی ذات اپنے مفطورات سے بالکل منزہ و مقدس ہے۔ قرآن پاک میں (وَمَا خَلَقْتَ ھٰذَا باطِلاً) کے ساتھ ہی (سبحانک) آیا ہے۔
یہاں پر ہم نے اس کو خیالات کی مثال سے صرف ذہنی بات سے کسی خارجی حقیقت کا متاثر نہ ہونا ثابت کیا ہے نہ یہ کہ اصل کائنات ایک خیالی چیز ہے جس کا کوئی حقیقی وجود نہیں۔ قرآن پاک میں تخلیق کو (وَمَا خَلَقْتَ ھٰذَا باطِلاً) آیا ہے اور اس کی حقیقت کے اقرار سے چونکہ اللہ تعالی کے وجود پر کائنات کے وجود کا اثر سمجھا جاسکتا تھا اس لئے ساتھ ہی (سبحانک) فرمایا گیا۔ ان ہی دو بظاہر متضاد چیزوں کو بیک وقت سمجھنے کے لئے یہ مثال گھڑی گئی لیکن مثال مثال ہی ہوتی ہے۔ اور اللہ کے لئے کوئی مثال نہیں ۔
کچھ شکوک اور شبہات کا حل:
مندرجہ بالا بحث کا ایک نتیجہ برآمد ہوا کہ فاطر وہ قیوم ہوتا ہے، جس سے ظِل قائم ہوتا ہے لیکن ظِل کی کوئی صفت فاطر کے ساتھ مشترک نہیں ہوتی۔ ظِل کے کسی عیب سے فاطر متصف نہیں ہوتا۔ اوپر چونکہ خیالات کی مثال سے مخلوقات اور موجودات کی حیثیت کو سمجھا گیا تھا۔ اس سے بعض کند ذہنوں میں یہ بات آسکتی ہے کہ یہ سارا کچھ خیالی ہے اور اصلی نہیں اس لئے وہ سب کچھ کو اپنا وہم سمجھنے لگتے ہیں ایسے لوگ پہلے گزرے بھی ہیں ان کو سوفسطائی کہتے تھے اور ہر چیز کو سمجھتے تھے کہ یہ ان کا وہم ہے۔ اصل میں ہم ان چیزوں کو محض اپنا خیال نہیں سمجھتے بلکہ ان خیالات کو خالقِ کُل کے علمی ارادے سمجھتے ہیں اور اس کا ارادہ تو خیالی چیز نہیں بلکہ وہ ایک حقیقت میں وجود بخشتی ہے بس اتنا ہے کہ ان چیزوں کا وجود اس کی ذات کے وجود کی طرح نہیں بلکہ اس کی ذات کے ارادے کی مرہون منت ہے، خود کچھ بھی نہیں پس اس کے لئے قرآن حکیم میں اس سوفسطائی نظریے کے ابطال کے لئے قرآن پاک کی یہ آیت (وَمَا خَلَقْتَ ھٰذَا باطِلاً) (آل عمران:191) کافی ہے جس کا ترجمہ یہ ہے کہ "ہم نے ان (سب مخلوقات کو) بے فائدہ پیدا نہیں کیا" اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہمارے اردگرد کی مخلوقات اور ہم خود اگرچہ ایک ظلی وجود رکھتے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود ان سے اللہ تعالیٰ کی معرفت میں کام لیا جاسکتا ہے۔ یہ آیت ہمیں سوفسطائیت سے بچاتی ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم تمام مخلوقات کو ایک عکس، ظِل اور محض خیال سمجھ کر ان سے بالکل لاتعلق ہو کر معطل نہ بن جائیں۔ علامہ زاہد کوثری جو ہمارے بڑے ہیں اور ترکی کے نائب شیخ الاسلام تھے نے بھی اسی خطرے کے پیش نظر عبقات پر رد کیا تھا لیکن فرق صرف حقیقت اور حقیقت کو سمجھانے میں تھا۔ اس پیرے میں حضرت کی بات کو اہم سمجھتے ہوئے عبقات کی تشریح ہوتی ہے کہ کائنات اور موجودات کی ایک حقیقت ہے جو اللہ تعالی کے علمِ ازلی کے ساتھ وابستہ ہے۔ اس حقیقت کو سمجھنے کے لئے خیال کو بنیاد بنایا گیا ہے کہ جیسے ہمیں خیالی دنیا قائم کرنے پر قادر بنایا گیا ہے، اس طرح اللہ جو فی الاصل قادر و قدیر ہے وہ اپنے علم کے مطابق ان سب موجودات کو ظاہر کرنے پر قادر ہیں لیکن ان سب سے جدا ایسا ہے جیسے ہم خیالات سے جدا ہیں اور خیالات سے ہم میں کوئی تبدیلی نہیں آتی۔ یہ پھر بھی مثال ہی ہے اور آیت (لَيْسَ كَمِثْلِهٖ شَيْءٌ) (الشوری: 11) کا مفہوم ہے کہ ترجمہ: "اس (اللہ تعالیٰ ) کی مانند کوئی شے نہیں"۔
یعنی مخلوقات میں سے کوئی چیز یا ان پر غور کرنے سے حاصل ہونے والا کوئی نتیجہ اللہ تعالیٰ کے لئے perfect مثال نہیں بن سکتا۔ یہ ہمیں تجسیم وغیرہ جیسی غلط نظریات سے روکتی ہے۔
اعتدال کی راہ ان دونوں آیات کے بیچ میں ہے۔
لَيْسَ كَمِثْلِهٖ شَيْءٌ ( الشوری: 11)
(رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هٰذَا بَاطِلًاۚ) (آل عمران:191)
اہل سنت والجماعت کا عقیدہ یہ ہے کہ کسی بھی فعل کا قریب ترین فاعل خود اللہ تعالیٰ ہوتے ہیں۔ مثلاً آگ چیز کو جلاتی نظر آتی ہے لیکن فی الحقیقت جلانے کی صفت اللہ تعالیٰ کے حکم سے آتی ہے۔
اس بات کو بھی اوپر والی حکیم اور اس کی تصوراتی سلطنت کی مثال سے سمجھا جاسکتا ہے۔آج کل کے لحاظ سے ایک اور مثال سے بھی اسی خالق اور مخلوق کے تعلق کو سمجھا جاسکتا ہے۔ جو اوپر گذر چکی ہے۔
مثلاً ایک ڈرائیونگ سیکھنے کے لئے جو training simulator کا سافٹ وئر بنایا جاتا ہے۔ اس میں سکھانے کے لیے ڈرائیور کو ایک virtual environment میں رکھا جاتا ہے۔ وہ سکرین پر مختلف چلتی گاڑیاں، رکاوٹیں بلڈنگ وغیرہ دیکھتا ہے۔ اس کے سامنے مختلف حالتیں (situations) آتی ہیں کبھی اس کو گاڑی موڑنی پڑتی ہے، کبھی بریک لگانی پڑتی ہے ایسا ہی جیسا کہ اصل ہو۔
اس training simulator میں بظاہر user کی inputs کام کرتی ہیں۔ لیکن فی الحقیقت designer کا algorithm کام کر رہا ہوتا ہے جو مختلف inputs سے اثر پیدا کرتا ہے۔
اس مثال میں غور طلب باتیں یہ ہیں:
سافٹ وئر designer جب چاہے آن کی آن میں اپنے سافٹ وئر کے source کوڈ کو delete کر سکتا ہے۔ جس کے ساتھ ہی اس سے منسلک screen پر نظر آنے والی قسم قسم کی اشیاء گاڑیاں، سڑکیں، عمارتیں درخت وغیرہ، جو کچھ دیر پہلے، بظاہر بالکل حقیقی نظر آتی تھیں، یکلخت غائب ہو جائنگی۔ اور یہ پتہ چل جائے گا کہ ان تمام کا وجود سکرین پر عارضی تھا، اور ایک ظل کی حیثیت رکھتا تھا۔ ان کا وجود اسی سافٹ وئر کوڈ پر منحصر (dependent) تھا۔
اب اگر آپ کسی کمپیوٹر پروگرامر سے پوچھیں کہ سافٹ وئر delete ہونے سے پہلے سکرین پر جو قسم قسم کی اشیاء نظر آتی تھیں، وہ کہاں چلی گئیں؟ تو وہ آپ کو یہی بتائے گا کہ یہ عارضی نظر آنے والی صورتیں، اب اپنی اصل یعنی (0،1) جو کمپیوٹر کی memory میں transistors پر چارج کی صورت میں ہوتی ہیں، موجود ہیں۔
کمپیوٹر پروگرامر اب کسی نئے کوڈ کے ذریعے سکرین پر انہیں 0،1 کو بالکل مختلف انداز میں دکھا سکتا ہے اور اگر چاہے تو انہیں پہلی والی صورتوں کو دوبارہ لا سکتا ہے۔
یہ 0،1 اس مثال میں سکرین پر نظر آنے والی چیزوں کا قیوم ہے۔ اسی کو وجود منبسط پر کلی ابتدائی تجلی کی طرح سمجھا جاسکتا ہے۔
2. دوسری بات جو اس مثال میں نوٹ کرنے کے قابل ہے، وہ یہ ہے کہ سکرین پر جو چیزیں نظر آرہی ہیں، مثلاً سڑکیں، گاڑیاں وغیرہ، ایک ہی domain میں ہیں۔ آپس میں ان کا تعلق ہے۔ ایک کا دوسرے سے موازنہ (compare) کیا جاسکتا ہے۔ predict کیا جاسکتا ہے۔
لیکن سافٹ وئر ڈیزائنر جو سکرین کے سامنے کرسی پر بیٹھا ہے، اس کا وجود ایک اور ہی domain میں ہے۔ اس کی ذات پر سافٹ وئر delete کرنے سے بھی کوئی اثر نہیں پڑے گا۔
اگر سکرین پر نظر آنے والی چیزوں میں عقل و فہم ہوتی تو کیا وہ اپنے بنانے والے پروگرامر کی ذات کے بارے میں کوئی اندازہ لگا سکتے؟ کہ وہ کیسا ہے؟ کیا کر رہا ہے؟ ظاہر ہے کہ نہیں۔ کیونکہ ان کی پرواز اور سوچ اسی virtual environment تک محدود ہوتی، جس میں وہ خود موجود ہیں۔ اور پروگرامر اس سے باہر ہے ۔
اس مثال سے مخلوقات اور خالق حقیقی کے درمیان تعلق کو سمجھا جاسکتا ہے۔ مخلوقات خالق کی ذات سے بالکل ایک الگ domain میں ہیں۔ ان کا آپس میں تو موازنہ (comparison) ہوسکتا ہے، لیکن خالقِ کائنات کے ساتھ نہیں ہو سکتا۔ باوجود اس کے کہ وہ خالق پر بے انتہا dependent ہیں۔ اور اسی سے اپنا عارضی وجود لئے ہوئے ہیں۔
عارفین کو وجود کے اصلی اور عارضی یا نقلی domains میں فرق کا احساس وجداناً ہو جاتا ہے۔ وہ دنیا میں رہ کر اور یہاں پر اعمال میں منہمک رہ کر بھی اس کو اصلی نہیں سمجھتے۔ ان کی قلبی کیفیت کا کچھ اندازہ کرنا ہو، تو ایک نئی نویلی دلہن کی مثال لیں۔ جس نے خوبصورت artificial jewelry پہنی ہو۔ اردگرد کے لوگ اس کو اصل سمجھ کر اس کی تعریف کررہے ہوں۔ لیکن خود دلہن کو دل میں ایک خاص خفت اور شرمندگی ہورہی ہو۔ کچھ اسی قسم کا حال اللہ والوں کا دنیادار لوگوں کے بیچ میں ہوتا ہے۔