اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
ایک موضوع جو حضرت مجدد الفِ ثانی رحمۃ اللّٰہ علیہ کے بیشتر مکتوبات شریفہ پہ چھایا ہوا ہے، وہ اتباعِ سنت کی ترغیب اور بدعت سے اجتناب کی ترغیب ہے۔ حضرت یہ دو کام بہت زیادہ فرمایا کرتے تھے۔ واقعتاً یہی کام (اتباع سنت و اجتناب من البدعت) حضرت کے طریقہ کا لبِ لباب بھی ہے، مقصد بھی ہے اور مطلوب تک پہنچنے کا ذریعہ بھی ہے۔ ذریعہ اس طرح ہے کہ نقشبندی سلسلہ میں اس (اتباعِ سنت و اجتناب من البدعت) پر استقامت، جزم اور عزیمت کے ساتھ عمل مطلوب ہے۔ جو ان چیزوں پر عمل کرتا ہے اس کے لئے آگے رستے کھلتے ہیں، باقی سنتوں پر عمل کی توفیق ہوتی ہے، اور اس طریقہ سے ان کو ما شاء اللہ دین پر استقامت نصیب ہوتی ہے۔
حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ مکتوب نمبر 87 میں فرماتے ہیں:
متن:
ایک نصیحت جو سعادت مند دوستوں کے لیے ہے وہ سنت سنیہ علی صاحبہا الصلوۃ والسلام والتحیۃ کی اتباع اور بدعت ناپسندیدہ سے اجتناب کرنا ہے۔ اور جو شخص سنتوں میں سے کسی سنت کو جس پر عمل کرنا متروک ہو گیا ہو، زندہ کرے اس کے لیے سو شہیدوں کا ثواب ہے تو پھر اندازہ کیجئے کہ جو شخص فرائض میں سے کسی فرض کو یا واجبات میں سے کسی واجب کو زندہ کرے گا تو اس کو کس قدر ثواب ملے گا۔ پس نماز میں تعدیل ارکان (ارکان کو اطمینان سے ادا کرنا) جو اکثر علماء حنفیہ کے نزدیک واجب ہے اور امام ابو یوسفؒ و امام شافعیؒ کے نزدیک فرض ہے اور بعض علماء حنفیہ کے نزدیک سنت ہے۔ اکثر لوگوں نے اس امر کو ترک کر دیا ہے اس ایک عمل کا زندہ اور جاری رکھنا بھی فی سبیل اللہ سو شہیدوں کے ثواب سے زیادہ ہو گا۔ باقی احکام شرعیہ یعنی حلال و حرام و مکروہ کو بھی اسی پر قیاس کرنا چاہئے۔ علماء نے فرمایا ہے کہ ایک دمڑی اس شخص کو واپس دے دینا جس سے غیر شرعی طریقے سے ظلم پر حاصل کی ہو سو درہم صدقہ کرنے سے بہتر ہے۔ نیز علماء نے فرمایا ہے کہ اگر کسی شخص کے نیک عمل پیغمبر کے عملوں کے مانند ہوں اور اس پر کسی شخص کی آدھی دمڑی جتنا حق باقی رہ گیا ہو تو اس شخص کو اس وقت تک بہشت میں نہ لے جائیں گے جب تک اس نیم دمڑی کو ادا نہ کر دے گا۔ غرض اپنے ظاہر کو احکام شرعیہ سے آراستہ کر کے باطن کی طرف متوجہ ہونا چاہئے تاکہ غفلت کے ساتھ آلودگی نہ رہے۔ اور باطن کی امداد کے بغیر احکام شرعیہ سے آراستہ ہونا مشکل ہے۔ علماء فتوی دیتے ہیں اور اہل اللہ کام کرتے ہیں۔
تشریح:
حضرت نے کتنی خوبصورتی کے ساتھ بات فرمائی کہ علمائے کرام فتوی دیتے ہیں اور اہل اللہ کام کرتے ہیں۔ گویا فتویٰ کا تعلق علم سے ہے اور کام ایک عملی چیز ہے۔ اہل اللہ سے کام سیکھنا ہوتا ہے۔ جائز و ناجائز اور حلال و حرام کا علماء کرام سے پتا کرنا ہوتا ہے۔ پس اگر کوئی عالم خود عمل نہ کرے تو اس کو علم کا اجر ملے گا عمل کا نہیں، بلکہ وہ علم اس کے اوپر حجت ہو جائے گا۔ جو شخص صرف علم کو لیتا ہے اور عمل کو نہیں لیتا، یا علم کا ذریعہ حاصل کرتا ہے عمل کا ذریعہ حاصل نہیں کرتا، وہ خسارے میں ہی رہتا ہے۔
متن:
باطن کے اہتمام کے ساتھ ساتھ لازم ہے کہ ظاہر کا اہتمام بھی ہو۔ اور کوئی باطن ہی کی درستی میں لگا رہے اور ظاہر کی پروا نہ کرے وہ ملحد ہے اور اس کے باطنی احوال استدراج کی حیثیت رکھتے ہیں۔ باطنی حالات کے درست ہونے کی علامت یہ ہے کہ ظاہر احکام شرعیہ سے آراستہ ہو۔ استقامت کا طریقہ یہی ہے۔ اور اللہ تعالیٰ ہی توفیق دینے والا ہے۔
تشریح:
حضرت نے ارشاد فرمایا کہ باطن کے اہتمام کے ساتھ ساتھ ظاہر کا اہتمام بھی ضروری ہے۔ جیسے نماز پڑھنا ایک ظاہری عمل ہے۔ اب اگر کوئی شخص وقت پر نماز نہ پڑھے اور وہ بہت زیادہ صابر، شاکر اور قانع ہو، اخلاص سے بھر پور ہو، الغرض باطنی طور پر ساری صفات حمیدہ رکھتا ہو، اس کا سب کچھ اپنی جگہ پر درست ہو گا، اسے چیلنج نہیں کیا جائے گا، لیکن وہ گناہ گار ہو گا کیونکہ اس نے فرض نماز کو چھوڑا ہے، اگر قصداً چھوڑا ہے تو کفر تک بات جا سکتی ہے، اور اگر قصداً نہیں چھوڑا، غلطی اور سستی سے چھوڑا ہے تو پھر اس کا حساب اس کے مطابق ہو گا۔ لہٰذا باطن کے ساتھ ساتھ ظاہر کو درست کرنا بہت ضروری ہے اور باطن کا درست کرنا قبولیت کے لئے ضروری ہے۔
متن:
دفتر دوم مکتوب نمبر 89 میں بعض مضامینِ ترغیب و ترہیب ارشاد فرماتے ہیں:
مخدوم و مکرم شفقت آثار! کام کا وقت گزرتا جا رہا ہے اور ہر لحظہ جو وقت گزرتا ہے وہ عمر کو کم کرتا ہے اور معین موت کا وقت نزدیک آتا جاتا ہے۔ اگر آپ نے آج فکر نہ کی تو کل (قیامت کے دن) حسرت و ندامت کے سوا کچھ حاصل نہ ہو گا۔ کوشش کرنی چاہئے کہ یہ چند روزہ زندگی شریعت غرّا کے موافق بسر ہو جائے تا کہ نجات متصور ہو۔ یہ عمل کا وقت ہے عیش و آرام کا وقت ابھی آگے ہے جو کہ اس عمل کا پھل ہے۔ عمل کے وقت عیش کرنا گویا اپنی کھیتی کو کچا کھا جانا اور اس کے پھل سے محروم رہنا ہے۔ زیادہ لکھنا موجب تکلیف ہے۔ خدا کرے کہ آپ کو ظاہری و باطنی دولت حاصل ہو۔
تشریح:
حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ نصیحت فرما رہے ہیں کہ وقت گزرتا جا رہا ہے۔ یہ ایسی مسلّم بات ہے، جس کے اندر اختلاف کی کوئی گنجائش ہی نہیں ہے۔ کوئی پاگل سے پاگل اور جاہل سے جاہل آدمی بھی یہ جانتا ہے کہ وقت گزرتا جا رہا ہے۔ وقت رک نہیں سکتا، وقت کسی کے لئے انتظار نہیں کرتا۔ اگر عصر کا وقت آ گیا، کوئی اس کو استعمال کرے نہ کرے، مغرب کا وقت تو آنا ہی ہے۔ اور پھر اگر کوئی مغرب کے وقت کو استعمال کرے نہ کرے، عشاء کا وقت تو آئے گا ہی۔ وقت گزر رہا ہے۔ کوئی اس کو صحیح استعمال کرے گا تو یہ اس کے account میں Plus point کی صورت میں جائے گا، اسے فائدہ ہو گا اور اگر کوئی گناہ میں استعمال کرے گا تو اس کے لئے Minus point کی صورت میں جائے گا اور اگر کوئی کچھ بھی نہیں کرے گا تو صفر کی صورت میں جائے گا۔ لہٰذا اللہ کے جو احکام ہماری طرف متوجہ ہیں، ہمیں پہلے ان کو پورا کرنا ہے جیسے فرائض و واجبات ہیں۔ اس کے بعد سنن و مستحبات کی باری آتی ہے۔ مستحبات کا میدان بہت وسیع ہے۔ مثلاً ذکر ہر وقت کیا جا سکتا ہے، اس کے لئے کوئی پابندی نہیں ہے۔ اس وقت میں جو دین کی بات کر رہا ہوں، اس کا بھی اجر ہے، الحمد للہ۔ اگر اس وقت میں اللہ تعالیٰ کو یاد کرتا، ذکر کرتا، اس کا بھی اجر تھا۔ لیکن اس وقت مجھے کیا کرنا چاہئے اور کیا نہیں کرنا چاہئے، یہ الگ بات ہے۔ اس میں ہمیں تقابل کر کے یہ طے کرنا ہوتا ہے کہ اس وقت میرے لئے زیادہ مفید کام کون سا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف بلانا اونچا کام ہے، جس میں اور لوگ بھی فائدہ اٹھاتے ہیں۔ اگر اس وقت میں ذکر کے لئے بیٹھ جاؤں گا، یہ کام نہیں کروں گا تو گویا میں نے زیادہ اہم کام کو چھوڑا، انفرادی کام کے لئے اجتماعی کام کو چھوڑ دیا۔ اسی طرح میں ہر وقت یہ تقابل تو کروں گا کہ کیا کروں اور کیا نہ کروں، مگر عمل ہر صورت میں کرنا پڑے گا۔ اسی وجہ سے ساٹھ سال کی عمر میں ایک شخص اچھے اعمال کی وجہ سے اونچے مقام پر پہنچ جاتا ہے، اور دوسرا برے اعمال کی وجہ سے کہیں اور پہنچ جاتا ہے۔ ہر ایک کی اپنی اپنی سمجھ، کوشش اور محنت کے مطابق اس کے account میں points آتے ہیں۔
دین اور دنیا کے جمع کرنے کے بارے میں دفتر اول کےمکتوب نمبر 72 میں ارشاد فرماتے ہیں کہ:
متن:
دین اور دنیا کا جمع کرنا متضاد چیزوں کو جمع کرنا ہے پس طالبِ آخرت کے لئے دنیا کا ترک کرنا ضروری ہے اور چونکہ اس زمانہ میں اس کا حقیقی ترک میسر نہیں ہو سکتا بلکہ دشوار ہے، ناچار ترکِ حکمی ہی اختیار کر لینا چاہئے۔
اور ترکِ حکمی سے مراد یہ ہے کہ دنیاوی امور میں روشن شریعت کے حکم کے مطابق عمل کرنا چاہئے اور کھانے پینے کی چیزوں اور رہنے سہنے کے مکانات میں شرعی حدود کو مدنظر رکھنا چاہئے اور ان حدود سے تجاوز نہیں کرنا چاہئے۔ بڑھنے والے مالوں اور چرنے والے جانوروں میں فرض شدہ زکوۃ ادا کرنی چاہئے، اور جب احکامِ شرعیہ کے ساتھ آراستگی حاصل ہوگئی تو دنیا کے ضرر و تکلیف سے نجات حاصل ہوگئی اور (دنیا) آخرت کے ساتھ جمع ہوگئی۔ اور اگر کسی کو اس قسم کا ترکِ حکمی بھی میسر نہ ہو تو ایسا شخص بحث سے خارج ہے وہ تو منافق کے حکم میں ہے کیونکہ صرف ظاہری ایمان آخرت میں اس کو کوئی فائدہ نہیں دے گا، اس کو (ایسے ایمان سے) صرف یہ فائدہ حاصل ہو جاتا ہے کہ اس کے جان و اموال محفوظ ہو جاتے ہیں۔
تشریح:
یہ ایک بڑی مشکل بحث کو ذرا آسان کر کے بیان فرمایا ہے۔ واقعی دین اور دنیا کو شرعی طریقہ سے جمع کرنا ایک مہتم بالشان کام ہے۔ ایک حدیث شریف کا مفہوم ہے کہ جو دنیا کو لیتا ہے وہ اپنی آخرت کو نقصان پہنچاتا ہے اور جو آخرت کو لیتا ہے وہ اپنی دنیا کو نقصان پہنچاتا ہے۔ چاہئے کہ فانی پر باقی کو ترجیح دی جائے۔ اس سے معلوم ہوا کہ ظاہری صورت میں دین و دنیا جمع نہیں ہو سکتے، جیسے اندھیرا اور روشنی جمع نہیں ہو سکتے۔ البتہ حکمی طور پر دین و دنیا کو جمع کیا جا سکتا ہے۔ حکمی طور پر جمع کرنے سے مراد یہ ہے کہ اس دنیا کو آخرت کے لئے استعمال کر لو تو یہ دنیا آخرت کے لئے فائدہ مند بن جائے گی۔ جیسے نماز انسان اُس وقت میں پڑھتا ہے جو اسے دنیا میں ملا ہے، لیکن جس وقت میں نماز پڑھ رہا ہوں، اُس وقت دنیا میں نہیں ہوں۔ میں نے یہ وقت دنیا سے کاٹ دیا اور اس کو آخرت کا کر دیا۔ اسی طرح میں جس وقت الله جل شانه کا کوئی حکم پورا کرتا ہوں وہ وقت دنیا سے کاٹ کے آخرت کا کر لیتا ہوں۔ اور یہ سلسلہ ساری عمر چلتا رہتا ہے۔ گویا میں دنیا کو حکمی طور پر ترک کر رہا ہوں۔ جاننا چاہئے کہ در اصل دنیا کیا ہے؟ دنیا کی ایک تعریف جو سب لوگوں کو پتا ہے، وہ یہ ہے کہ موت سے پہلے پہلے کی زندگی دنیا ہے اور موت کے بعد آخرت ہے۔ اس تعریف کے لحاظ سے دنیا و آخرت جمع نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن استعمال کے لحاظ سے جمع کیا جاسکتا ہے، کیونکہ میں دنیا میں رہتے ہوئے جو کام نفس کے لئے نہیں کر رہا بلکہ اللہ کے لئے کر رہا ہوں، وہ کام دنیا کا نہیں رہے گا دین کا ہو جائے گا، اس طرح دین اور دنیا کو جمع کیا جا سکتا ہے۔
الحمد للہ بہت اچھی بنیاد مل گئی۔ سورۂ شمس میں فرمایا:
﴿فَاَلْهَمَهَا فُجُوْرَهَا وَتَقْوٰىهَا قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىهَا وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰىهَا۔﴾ (الشمس: 8 تا 10)
ترجمہ: ’’پھر اس کے دل میں وہ بات بھی ڈل دی جو اس کے لیے بد کاری کی ہے، اور وہ بھی جو اس کے لیے پرہیز گاری کی ہے۔ فلاح اسے ملے گی جو اس نفس کو پاکیزہ بنائے۔ اور نامراد وہ ہوگا جو اس کو (گناہ میں) دھنسا دے۔‘‘ (آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب)
یعنی نفس کے اندر اللہ پاک نے دو چیزیں رکھی ہیں: (1) اس کا فجور (2) اس کا تقویٰ۔ میں ان دونوں میں سے کوئی بھی کر سکتا ہوں۔ فجور فطرتی طور پر ہیں۔ اگر میں محنت نہیں کر رہا اور جو ہو رہا ہے ہونے دے رہا ہوں، تو وہ نفس کی اتباع ہو رہی ہے۔ اور اگر میں سوچتا ہوں کہ کیا کروں اور کیا نہ کروں، اور دیکھتا ہوں کہ اللہ پاک نے کیا چاہا ہے کیا نہیں چاہا؟ اور نفس کی چاہت پہ اللہ کی چاہت کو ترجیح دیتا ہوں۔ جو اللہ چاہتا ہے اس کو لیتا ہوں اور جو نفس چاہتا ہے اس کو چھوڑتا ہوں تو یہ تقویٰ ہے۔ اگر میں اللہ پاک کی بات مانتا ہوں تو ایسی صورت میں تقویٰ مرتب ہوتا رہے گا۔ یہ حکمی طور پر دنیا کو ترک کرنا ہے۔ گویا میں نے نفس کی بات نہیں مانی تو دنیا کو ترک کر لیا۔ کیونکہ نفس کا ماننا ہی دنیا ہے، اس لئے جب نفس کی نہیں مانی تو دنیا ختم ہو گئی، پھر یہ عمل آخرت کا حصہ بن گیا۔ اگر ہم نفس کے تقاضوں کو پورا کرتے ہیں تو یہ چونکہ اللہ کی بات کے مخالف ہے لہذا یہ ہمارے لئے فجور ہے۔ لیکن اگر ہم نفس کے تقاضوں کو دبا دیں اور اللہ پاک کی چاہت کو ترجیح دیں تو یہ تقویٰ ہے اور یہ ہمارے لئے خیر بنے گا، حسنات بنے گا آخرت کا ذریعہ بنے گا۔ یہ ہے حکمی طور پر دنیا کو ترک کرنا۔ اس کے مطابق فرمایا کہ:
متن:
ترکِ حکمی سے مراد یہ ہے کہ دنیاوی امور میں روشن شریعت کے حکم کے مطابق عمل کرنا چاہئے اور کھانے پینے کی چیزوں اور رہنے سہنے کے مکانات میں شرعی حدود کو مدِ نظر رکھنا چاہئے اور ان حدود سے تجاوز نہیں کرنا چاہئے۔ بڑھنے والے مالوں اور چرنے والے جانوروں میں فرض شدہ زکوۃ ادا کرنی چاہئے، اور جب احکامِ شرعیہ کے ساتھ آراستگی حاصل ہو گئی تو دنیا کے ضرر و تکلیف سے نجات حاصل ہو جائے گی اور دنیا آخرت کے ساتھ جمع ہو جائے گی۔ اور اگر کسی کو اس قسم کا ترکِ حکمی بھی میسر نہ ہو تو ایسا شخص بحث سے خارج ہے، وہ تو منافق کے حکم میں ہے، کیونکہ صرف ظاہری ایمان آخرت میں اس کو کوئی فائدہ نہیں دے گا، اس کو ایسے ایمان کا صرف فائدہ اتنا ہو گا کہ اس کے جان و اموال محفوظ ہو جائیں گے۔
یعنی اگر کوئی اللہ کا حکم نہیں مان رہا، صرف ایمان کی بات کر رہا ہے تو یہ ظاہری ایمان ہے اور اگر باطنی طور پر اس کا انکار کر رہا ہے تو یہ منافقت ہے۔ ہاں! البتہ چونکہ ظاہری طور پر مومن ہے، لہٰذا اس کے مال کو نہیں چھینا جائے گا، اس کا جنازہ پڑھا جائے گا اس کے ساتھ معاملات مسلمانوں والے ہی ہوں گے۔
دفتر اول کے مکتوب نمبر 73 میں مزید فرماتے ہیں کہ
متن:
اے فرزند! دنیا آزمائش اور امتحان کی جگہ ہے، اس کے ظاہر کو طرح طرح کی باطل آرائشوں سے ملمع و آراستہ کیا گیا ہے، اس کی صورت کو وہمی خد و خال اور زلف و رخسار سے پیراستہ کیا گیا ہے، دیکھنے میں شیریں اور ترو تازہ نظر آتی ہے لیکن حقیقت میں عطر لگا ہوا مردار اور مکھیوں و کیڑوں سے بھری ہوئی کُوڑی (کوڑا ڈالنے کی جگہ) اور پانی کی طرح نظر آنے والا سراب اور زہر کی مانند لشکر ہے، اس کا باطن سراسر خراب و ابتر ہے۔ اس قدر گندگی کے باوجود اپنے اہل (دنیا داروں) کے ساتھ اس (دنیا) کا معاملہ اس سے بھی بدتر ہے جو بیان ہو سکے، اس (دنیا) کا فریفتہ و دیوانہ جادو کا مارا ہوا ہے، اس کا گرفتار مجنوں اور فریب خوردہ ہے۔ جو شخص اس کے ظاہر پر فریفتہ ہوا دائمی خسارہ کے داغ سے داغدار ہوا، اور جس نے اس کی شیرینی اور تر و تازگی پر نظر کی دائمی شرمندگی اس کے نصیب میں آئی۔
سرورِ کائنات حبیب رب العالمین علیہ وعلی آلہ الصلوات والتحیات نے فرمایا مَا الدُّنْیَا وَ الْآخِرَۃُ اِلَّا ضَرَّتَانِ اِنْ رَضِیَتْ اِحْدٰھُمَا سَخِطَتِ الْاُخْرٰی (دنیا اور آخرت دونوں آپس میں سوکنیں ہیں (یعنی ایک مرد کے نکاح میں دو عورتوں کی مانند ہیں) ان دونوں میں سے اگر ایک راضی ہو گی تو دوسری ناراض) پس جس نے دنیا کو راضی کیا آخرت اس سے ناراض ہوگئی، ناچار وہ آخرت سے بے نصیب ہو گیا۔ اَعَاذَنَا اللّٰہُ سُبْحَانَہٗ وَ اِیَّاکُمْ مِنْ مُحَبَّتِھَا وَ مَحَبَّةِ اَھْلِھَا (حق تعالیٰ ہمیں اور آپ کو دنیا اور اہلِ دنیا کی محبت سے بچائے)۔
اے فرزند! کیا تو جانتا ہے کہ دنیا کیا چیز ہے؟ دنیا وہی ہے جو تجھے حق سبحانہ وتعالیٰ سے دُور کر دے۔ پس بیوی بچے، مال و جاہ و ریاست، لہو و لعب اور لایعنی (بیکار) کاموں میں مشغول ہونا یہ سب دنیا میں داخل ہے (جبکہ یہ چیزیں اللہ تعالیٰ کی یاد سے غافل کر دیں) اور وہ علوم بھی جو آخرت میں کام نہیں آئیں گے وہ بھی سب دنیا میں داخل ہیں۔ اگر علمِ نجوم و منطق و ہندسہ اور حساب وغیرہ بے فائدہ علوم کار آمد ہوتے تو سب فلاسفہ اہل نجات میں سے ہوتے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: عَلَامَةُ اِعْرَاضِہٖ تَعَالیٰ عَنِْ الْعَبْدِ اِشْتِغَالُہٗ بِمَا لَا یَعْنِیْہِ (بندہ کا بے فائدہ (فضول کاموں میں مشغول ہونا اللہ تعالیٰ کی اس سے روگردانی (منھ پھیر لینے) کی علامت ہے)
تشریح:
حضرت نے دنیا اور آخرت کی تعریف بتائی اور نجات کا ذریعہ بتایا کہ نجات دنیا کو ترک کرنے میں ہے۔ حقیقت میں ترک نہیں ہو سکتا، حکمی طور پہ ہو سکتا ہے کہ دنیا کے تقاضے پہ عمل نہ کرے، اور پوری زندگی اسی طرح گذارے۔
پھر حضرت نے بتایا ہے کہ دنیا کے پیچھے چلنے والوں کا انجام خسارہ ہے۔ کمال کی بات یہ ہے کہ دنیا، دنیا کے معاملہ میں بھی وفا داری نہیں کرتی، اس کی وجہ یہ ہے کہ دنیا اور جو لوگ دنیا کے پیچھے ہیں، ان کے بارے میں حدیث شریف میں فرمایا گیا ہے: ’’اَلدُّنْیَا جِیْفَةٌ وَ طُلَّابُهَا کِلَابٌ‘‘۔ (ترتيب الأمالي الخميسية للشجري، حدیث نمبر: 2388)
ترجمہ: ’’دنیا مردار ہے اور اس کی طلب کرنے والے کتے ہیں۔‘‘
اب اگر ایک جِیْفة (مردار) کے طالب 100 کتے ہوں تو کیا وہ کتے ایک دوسرے کے ساتھ مخلص ہوں گے؟ ہرگز نہیں۔ وہ ایک دوسرے کو کاٹ کھائیں گے۔ ہر ایک چاہے گا کہ سارا مجھے مل جائے۔ لہٰذا جو دنیا دار ہے وہ دنیا سے بھی سُکھ میں نہیں ہے، جو اس سے جتنا دور ہے وہ اتنا زیادہ سکھی ہے۔ چونکہ دنیا ایسی چیز ہے کہ ایک تو یہ باقی رہنے والی نہیں ہے، ختم ہونے والی ہے۔ اور دوسری بات یہ ہے کہ دنیا دار کبھی کسی کے ساتھ مخلِص نہیں ہو سکتا، کیونکہ ہر دنیا دار دنیا ہی چاہتا ہے۔
ایک دفعہ ایک بزرگ کے پاس ایک شخص آیا اور اس نے ایک خطیر رقم ان کی خدمت میں پیش کی اور عرض کیا، حضرت یہ آپ مستحقین کو دے دیں۔ اس بزرگ نے اس سے پوچھا کہ کیا آپ اپنے مال کو مزید بڑھانا چاہتے ہیں؟ وہ سمجھا کہ شاید میرے لئے کوئی دعا کرنا چاہتے ہیں، کہا: جی ہاں۔ فرمایا: پھر یہ آپ ہی رکھیں آپ ہی زیادہ مستحق ہیں۔ کیونکہ ابھی تک آپ کے دل سے یہ چیز نکلی نہیں ہے تو آپ ہی اس کے محتاج ہیں، لہٰذا یہ آپ کی ہے۔
جو شخص اندھا دھند دنیا کے پیچھے پڑا ہے، حدیث کے مطابق وہ کتے کی خصلت والا ہے۔ اور جو دنیا میں رہ کر دنیا سے منہ موڑے ہوئے ہے اور دوسروں کے لئے اس کو استعمال کر رہا ہے تو وہ فرشتوں کی خصلت والا ہے۔ یعنی اپنے آپ کو اس سے بچا رہا ہے۔ اور ایثار کر رہا ہے، جیسے صحابہ کرام ایثار کرتے تھے، خود پیاسے رہ کر دوسروں کو پلایا۔ خود بھوکے رہ کر دوسروں کو کھلایا۔ وہ فرشتوں کی صفات والے تھے۔ کیونکہ فرشتوں کو کھانے پینے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ صحابہ کو ضرورت تو تھی لیکن اپنے اوپر اتنا زیادہ کنٹرول تھا کہ اپنے آپ پر دوسروں کو ترجیح دیتے تھے۔
دنیا کبھی کسی سے راضی نہیں ہوتی۔ جتنی زیادہ خوبصورت ہو گی اتنی زیادہ نقصان دہ ہو گی۔ بلکہ بعض بزرگوں نے فرمایا کہ اس کی مثال سانپ کی طرح ہے۔ سانپ جتنا زیادہ خوبصورت ہوتا ہے اتنا زیادہ زہریلا ہوتا ہے اور ڈستا ہے۔ آدم علیه السلام کے بیٹوں ہابیل اور قابیل کے درمیان پہلی لڑائی دنیا کی وجہ سے ہوئی تھی۔ بعد میں بھی جتنے مسائل ہوئے ہیں وہ دنیا کی وجہ سے ہوئے ہیں۔ یوسف علیه السلام کو کنوئیں میں پھینکا گیا، تو دنیا کی وجہ سے پھینکا گیا۔ ایک انسان جس وقت دنیا کا طالب ہو گا تو وہ اس کی وجہ سے ظالم بھی ہو گا، فاسق بھی ہو گا، اپنی تمام چیزوں کا ضائع کرنے والا بھی ہو گا۔ ضائع کرنے والا ایسے ہو گا کہ مثلاً آپ کو کوئی مال دے رہا ہے اور آپ اس کو بکھیر رہے ہیں، ادھر ادھر پھینک رہے ہیں۔ اور کوئی دوسرے آدمی کو مال دے رہا ہے، وہ اس کو جمع کر رہا ہے۔ تو دنیا کے لحاظ سے کون ہوشیار ہے؟ جو جمع کر رہا ہے وہ ہوشیار ہے۔ اب اگر آپ کو مال مل رہا ہے یا کوئی چیزیں مل رہی ہیں اور آپ اس کو اللہ کے راستے میں خرچ کر رہے ہیں تو یہ مال آخرت میں جمع ہو رہا ہے۔ اگر آپ اس کو اللہ کے راستے میں نہیں دے رہے ہیں تو دو صورتیں ہیں، یا اپنے وارثوں کے لئے چھوڑیں گے یا پھر یہ اپنے وقت پہ ختم ہو جائیں گی، پرانی ہو جائیں گی یا استعمال کر لی جائیں گی، بس یہی ہو گا۔ اس صورت میں آخرت میں تو جمع نہیں ہوا، ضائع ہو گیا۔ جہاں کام آنا تھا وہاں کام نہیں آیا۔ ہوشیار لوگ یہ کرتے ہیں کہ مال، جان، وقت اور اولاد کو اللہ کے لئے استعمال کرتے ہیں۔
آگے دنیا کی بے ثباتی کے بارے میں دفتر اول مکتوب 74 میں فرماتے ہیں:
متن:
آپ کا مکتوب شریف و مراسلہ لطیف صادر ہوا۔ الحمد للہ کہ اس کے مضمون سے فقراء کی محبت اور درویشوں کی طرف توجہ معلوم ہوئی جو کہ سعادتوں کا سرمایہ ہے، کیونکہ یہ لوگ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے ہم نشین ہیں۔
یہ وہ لوگ ہیں جن کا جلیس بد نصیب نہیں ہوتا۔ اور رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وعلی آلہ وسلم فقرائے مہاجرین کے طفیل حق سبحانہ و تعالیٰ سے فتح طلب کرتے تھے اور آنحضرت علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ان کی شان میں فرمایا ہے: رُبَّ اَشْعَثَ مَدْفُوْعٍ بِالْاَبْوَابِ لَو اَقْسَمَ عَلَی اللّٰہِ لَاَبَرَّہُ (بہت سے بکھرے ہوئے بالوں والے گرد آلود اور دروازوں سے ہٹائے ہوئے لوگ ایسے ہیں کہ اگر (کسی کام کی) حق تعالیٰ پر (بھروسہ کر کے) قسم کھالیں تو اللہ تعالیٰ ضرور اس قسم کو پورا کر دیتا ہے)۔
باقی نصیحت یہ ہے کہ صاحبِ شریعت علیہ الصلوۃ والسلام کی متابعت لازم پکڑیں کیونکہ آخرت کی نجات آپ کی متابعت کے بغیر محال ہے، اور دنیا کی زیب و زینت کی طرف التفات و توجہ نہ کریں اور دنیا کے حاصل ہونے یا نہ ہونے کو کوئی اہمیت نہ دیں (یعنی ان دونوں حالتوں کو یکساں جانیں) کیونکہ دنیا اللہ تعالٰی کی مبغوضہ (ناپسندیدہ و مکروہ) ہے، حق تعالیٰ کے نزدیک اس کی قدر و منزلت کچھ بھی نہیں، پس بندوں کے نزدیک اس کا عدم (یعنی نہ ہونا) اس کے وجود (یعنی ہونے) سے بہتر ہونا چاہئے اور اس کی بے وفائی اور جلدی جاتے رہنے (یعنی دولت کے زوال) کے قصے مشہور ہیں بلکہ مشاہدہ میں آچکے ہیں۔ پس اہلِ دنیا کے حال سے عبرت حاصل کریں جو پہلے گزر چکے ہیں۔ وَفَّقَنَا اللہُ سُبْحَانَہٗ وَاِیَّاکُمْ بِمُتَابَعَةِ سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ عَلَیْہِ وَعَلٰی آلِہِ الصَّلٰوۃ وَالسَّلَامُ (اللہ تعالیٰ ہم کو اور آپ کو سید المرسلین علیہ وعلیٰ آلہ الصلوٰۃ والسلام کی متابعت کی توفیق عنایت فرمائے) آمین۔
تشریح:
میں آپ کی خدمت میں ایک مثال عرض کرتا ہوں جو ہمارے حال کے مطابق ہے۔ سمجھنے کے لحاظ سے ایک درجہ پیچھے آتا ہوں۔ ایک مرحلہ یہ ہے کہ میں ادھر رہتا ہوں اور آخرت میں جاؤں گا۔ میں اس مرحلہ میں دنیا کی چیز کا مقابلہ آخرت کے ساتھ کر رہا ہوں۔ ایک تو یہ بات ذہن میں رکھیں۔
دوسرا مرحلہ یہ ہے کہ یہاں ایک میرا مستقل گھر ہے جس میں میں رہتا ہوں۔ اور اس کے مقابلہ میں ایک گھر hologram کے ذریعہ سے بنایا ہوا ہے۔ hologram کے ذریعہ ایسا ممکن ہوتا ہے کہ آپ کے ارد گرد ایسا ہی گھر (3D image کی صورت میں) کھڑا ہو جائے جیسے کہ اصلی ہوتا ہے۔ آپ سمجھیں گے کہ یہ بالکل اصلی گھر ہے اور اس کو اصلی گھر جیسا محسوس کریں گے۔
جیسے planetarium ہوتا ہے۔ یہ ایک گنبد نما جگہ ہوتی ہے جس کے اندر خلا جیسا ماحول بنایا ہوتا ہے، اس میں تارے ہوتے ہیں، اس میں سورج بھی چلتا ہے، اس میں سارا نظام ایسا ہوتا ہے کہ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے آپ آسمان کو دیکھ رہے ہیں۔ حالانکہ آپ صرف گنبد میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ اس میں اجرامِ فلکی کی حرکات سمجھائی جاتی ہیں، ستارے ٹوٹنے کا منظر دکھایا جاتا ہے اور اس طرح یہ سارا نظام عملاً ذرا تیز کر کے دکھا کر سکھایا جاتا ہے کہ یہ چیزیں کیسے ہوتی ہیں۔ اس کو planetarium کہتے ہیں۔ تو planetarium بھی hologram جیسی ہی ایک چیز ہے۔
ایک دوسری مثال سے سمجھیں کہ ایک ہے اصلی سونا اور اس سے بنے ہوئے زیورات، اور آج کل ایک چیز آئی ہے جو سونا دکھائی دیتی ہے لیکن سونا ہوتا نہیں ہے (مصنوعی زیورات)۔ اگر کسی عورت کو معلوم ہو کہ جو زیور مجھے دیا گیا ہے یہ اصلی سونے کا نہیں ہے بس سونے کی طرح دکھائی دے رہا ہے۔ وہ خوش ہو گی یا ناخوش ہو گی؟ ہمارے پشتو میں ایسے زیورات کے لئے نام ہی ایسا رکھا گیا ہے، ”د ناوے مور خفہ او د ھلک مور خوشحالہ“۔ ان زیورات کا نام یہی ہے کہ "دلہن کی ماں ناراض اور لڑکے کی ماں خوش"۔ جب میں نے یہ سنا تو میں حیران ہو گیا کہ یہ تو زبردست نام ہے۔ لڑکے کی ماں اس لئے خوش ہے کہ پیسے نہیں جا رہے، کیونکہ وہ زیورات سستے ہوتے ہیں، اور لڑکی کی ماں بے چاری غم کے مارے گھلی جا رہی ہوتی ہے، اس کو پتا ہوتا ہے کہ یہ نقلی زیور ہیں، بے شک لوگوں کو پتا نہیں ہوتا لیکن وہ لوگ اس کی بڑی تعریف کرتے ہیں کہ کیسا اچھا زیور ہے، کیونکہ اس میں بالکل فرق نہیں محسوس ہوتا۔ خالص سونے کا نظر آتا ہے۔ بلکہ خالص سونے سے بھی کچھ زیادہ خوبصورت اور اچھا نظر آتا ہے۔ لیکن لڑکے کی ماں خفا ہوتی ہے۔ دلہن کو بھی پتا ہو تو وہ بھی بے چاری افسردہ ہوتی ہے، بلکہ بعض دلہنوں کو اگر پتا ہو کہ یہ مصنوعی ہے تو پہنتی ہی نہیں ہیں۔ یہ میں آپ کو حقیقی واقعات بتا رہا ہوں۔
مقصد یہ ہے کہ جس کو ہم دنیا کہتے ہیں یہ بھی آخرت کے مقابلے میں ایسی ہے، جیسے اصلی گھر کے مقابلہ میں hologram سے بنا گھر ہوتا ہے۔ اور جیسے اصلی سونے کے زیورات کے مقابلہ میں مصنوعی زیورات۔ جو اس کی حقیقت سے آگاہ ہو، وہ اس کے ساتھ محبت نہیں کر سکتا۔ حقیقت سے آگاہ نہ ہونا ایک الگ بات ہے، جیسے پاگل آگاہ نہیں ہے، بچہ آگاہ نہیں ہے، جو نیند میں ہے وہ آگاہ نہیں ہے، ان پر شریعت کا حکم نافذ ہی نہیں ہے کیونکہ یہ حقیقت سے آگاہ نہیں ہیں۔ ان کے علاوہ جو صحیح سوچ و فکر والا شخص ہے اس کے اوپر اللہ کا حکم نافذ ہے۔ وہ جو اس سے آگاہ ہو اور پھر بھی اس کے ساتھ چِپکے، تو ہم کہیں گے یہ پاگل ہے۔ پاگل نظر تو نہیں آتا لیکن حقیقی پاگل یہی ہے۔
نفسیاتی ماہرین کا ایک مقولہ ہے کہ جس کو پاگل دیکھو تو یہ سمجھو کہ اس پہ صرف پاگل پن کا اثر ہے۔ اصل پاگل اس کے پیچھے چھپا ہوا ہے، وہ نظر نہیں آ رہا، جس نے اس کو پاگل بنایا ہے، اس کا خاوند ہو گا یا اس کی بیوی ہو گی یا اس کا باپ ہو گا یا اس کا کوئی بیٹا ہو گا جس نے اس کو پاگل بنایا ہو گا، جن کے غم کی وجہ سے پاگل بنا ہو گا۔ حقیقی پاگل وہی ہے۔ یہ بے چارا جو ہمیں پاگل نظر آ رہا ہے یہ تو پاگل پن کا نشانہ ہے۔ اسی طرح یہ دنیا دار لوگ بظاہر پاگل نہیں لیکن حقیقت میں پاگل ہیں، کیونکہ یہ لوگ جان بوجھ کر ایسی حرکتیں کر رہے ہیں، دنیا کی چیزوں کے ساتھ ایسے deal (معاملہ) کر رہے ہیں جیسے کہ یہ مستقل ہوں۔ اگر میں hologram کے ساتھ محبت کروں اور کہوں کہ میں یہیں رہوں گا اپنے گھر نہیں جاتا۔ تو لوگ کہیں گے اس کو ہسپتال میں لے جاؤ یہ تو پاگل ہے۔
جرمنی میں میرے ساتھ میری چھوٹی بچی تھی۔ ہمارے دفتر کی سیکرٹری نے مجھ سے پوچھا کہ آپ نے بچوں کے لئے کیا کھلونے رکھے ہوئے ہیں؟ کیونکہ وہ جانتی تھی کہ یہ ہر چیز کو اختیار نہیں کرتا۔ میں نے کہا: وہ فطرتی کھیل کھیلتی ہے۔ اس نے کہا: یہ فطرتی کھیل کیسا ہوتا ہے؟ میں نے کہا وہ جب والدہ کو کپڑے دھوتے ہوئے دیکھتی ہے تو جیسے والدہ کپڑوں کو خشک کرنے کے لئے ڈالتی ہے، بچی بھی اس طرح اپنے طور پر ایسی حرکتیں کرتی ہے جیسے دھو رہی ہو، پھر اس کو لٹکا لیتی ہے، ان کے نیچے برتن بھی رکھ لیتی ہے، کہ پانی نہ ٹپکے قالین خراب نہ ہو۔ اس طرح وہ سارا انتظام کر لیتی ہے، اور بہت ساری چیزوں میں بھی ایسا کرتی ہے، ہانڈی وغیرہ بھی اس طرح بناتی ہے، پھر کھلاتی بھی ہے، کھاتی بھی ہے۔ اس عورت نے کہا: میں اس کے ساتھ ضرور ملوں گی، یہ تو بہت دلچسپ بچی ہے۔ پھر وہ ہمارے گھر آئی اور ان کے ساتھ ملی تھی۔
عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ بچی کے ساتھ اس طرح کے مصنوعی کام اچھے لگتے ہیں۔ لیکن اگر ایک بڑا اس طرح کرے تو کیسا نظر آئے گا؟ پاگل ہی ہو گا۔ بس دنیا کی بے ثباتی یہی ہے کہ دنیا اصل میں نہیں ہے۔ یہ تو صرف ایک ظاہری ڈھانچہ ہے لیکن اصل چیز اس میں نہیں ہے۔ اصل چیز تو اُدھر ہے، ہاں اس نکمی چیز کو آپ آخرت کے لئے استعمال کر لیں تو وہ اصل چیز اِس کے ذریعہ مزید بہترین بن جائے گی۔ گویا اس نکمی چیز کے اندر یہ صلاحیت بہت زبردست ہے کہ اگر اس کو آخرت کے لئے استعمال کر لو تو یہ بہت کام کی چیز بن جاتی ہے۔
ایک بہت اہم بات بتاتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ مجھے صحیح طور پہ سمجھنے سمجھانے کی توفیق عطا فرمائے۔ ایک ہے میرا یہ فیصلہ کہ میں اپنی نکمی چیز کو آخرت کے لئے اپنے ارادے سے، اپنے علم و بصیرت کے ذریعہ سے استعمال کر لوں، اس طرح کہ وہ چیز وہاں کے لئے صحیح بن جائے۔ مثلاً ایک طریقہ یہ ہے کہ میرے پاس پیسے ہیں وہ میں نے غریب کو دے دئیے، وہ چلے گئے ادھر جمع ہو گئے۔ یہ ایک transaction کا طریقہ ہے۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ الله جل شانهٗ اپنے ارادہ کو استعمال کر کے تمہارے لئے وہاں جمع کرنا چاہے، اور یہاں چھین لے۔ یہاں ہاتھ سے چلا جائے۔ اس کے بدلے میں آپ کو دو چیزیں ملیں گی۔ دنیا میں تکلیف اور آخرت میں اجر۔ دنیا میں آپ کو تکلیف ملے گی لیکن اس تکلیف پر جب آپ صبر کریں گے تو وہ آپ کے لئے آخرت میں اجر بن جائے گا۔ اب transaction کی صورت بدل گئی۔ اس صورت میں آپ جمع کرانے والے نہیں ہوئے، جمع کرنے والے اللہ تعالیٰ ہوئے۔ آپ نے مان لیا کہ اللہ نے جو کیا ہے ٹھیک کیا ہے، یہ صبر ہے۔ اس کے مقابلہ میں بہت بڑا اجر ہے۔ اگر یہ صبر والا معاملہ آپ نہ کر سکے تو transaction مکمل نہیں ہوئی۔ گویا transaction ہوا چاہتی تھی لیکن مکمل نہیں ہوئی۔ کیونکہ آپ کے ذمے جو کام تھا وہ آپ نے نہیں کیا۔ اب ہوشیاری کا تقاضا یہ ہے کہ آپ کے ہاتھ سے مال تو چلا گیا ہے، اب آپ کے پاس دو صورتیں ہیں: بے صبری اور صبر۔ آپ بے صبری بھی کر سکتے ہیں، صبر بھی کر سکتے ہیں۔ بے صبری سے آپ کا یہ مال بھی چلا گیا، وہ بھی گیا۔ اور صبر کے ساتھ آپ کا یہ مال یہاں سے چلا گیا، وہاں پر پہنچ گیا، transaction مکمل ہو گئی۔ لہٰذا عقل کا تقاضا یہ ہے کہ صبر کر لینا چاہئے۔
جو کام آپ کے ذمے تھا صرف اس کا فارمیٹ تبدیل ہو گیا ہے۔ پہلے آپ اپنے ارادے سے کر رہے تھے اب اپنے ارادے سے نہیں کر رہے۔ اللہ کے ارادے سے کر رہے ہیں۔ اس وجہ سے اللہ کے ارادہ والی چیز آپ کے ارادہ والی چیز سے بڑھیا ہو گی۔ اسی لئے فرماتے ہیں کہ غیر اختیاری مجاہدہ اختیاری مجاہدہ سے بہت زیادہ اجر رکھتا ہے۔ یہ میں نے آپ کو ایسی مثال دی جو سب کی سمجھ میں آسانی سے آئے گی۔ ان شاء اللہ۔ لیکن اس کی کچھ ایسی صورتیں بھی ہیں جو سب کی سمجھ میں نہیں آتیں، لیکن اس مثال کو ذہن میں رکھتے ہوئے، آپ ان کو بھی سمجھ سکتے ہیں۔ مثلاً آپ کو بیماری لگ گئی، یہ بھی اللہ کا حکم ہے، ایسی بیماری جس میں آپ کی کسی غفلت و بے احتیاطی کا کوئی دخل نہیں ہے، بس اللہ تعالیٰ کی طرف سے آ گئی، جیسے مال آپ کو اللہ نے دیا تھا، اس طرح جان بھی اللہ نے دی ہوئی ہے، تو اللہ پاک جہاں مال سے لے لیتا ہے، اسی طرح جان سے بھی لے سکتا ہے۔ مثلاً جان کا کوئی حصہ لے لے، آنکھ لے لے، کان لے لے، کوئی ایک گردہ لے لے۔ انسان اپنی جان میں اپنی مرضی سے تصرف نہیں کر سکتا، یہ مال کی طرح نہیں ہے، لیکن اگر اللہ چاہے تو کر سکتا ہے۔ لہذا جب اللہ ایسا کرے اور آپ اللہ پاک کے کئے پر راضی رہیں کہ ہاں اس نے میرا بھلا کیا، اس کے بدلے مجھے اجر ملے گا۔ تو پھر اس کا اجر بہت ہی زیادہ ہو گا کیونکہ جان مال سے زیادہ پیاری ہے۔ اگر جان کا معاملہ کسی کے ساتھ پڑ گیا، بیماری کا معاملہ ہو گیا یا کوئی اور بات ہو گئی، یا مثلاً کسی کا بچہ فوت ہو گیا، تو یہ جان کا معاملہ ہے، اس کا اجر اس سے بھی زیادہ ہے۔ دنیا کی تکالیف کو آپ یوں سمجھ لیجئے کہ یہ آخرت کی transactions کا ذریعہ ہیں۔ سمجھ لو کہ آخرت میں آپ کی چیزوں کو وہاں بھیجا جا رہا ہے۔ اگر آپ اس طرح سمجھیں گے تو پھر آپ کو اطمینان بھی حاصل ہو گا اور صبر بھی جلدی حاصل ہو جائے گا اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ آپ کا اجر بھی محفوظ ہو جائے گا۔ اور اگر آپ اس چیز کو نہیں سمجھتے تو بے شک آپ کو کتنا ہی کوئی کہہ دے، آپ کی سمجھ میں بات نہیں آئے گی۔
ہماری بچی جرمنی میں فوت ہو گئی تھی اور ہم اسے ڈاکٹر تک پہنچا بھی نہیں سکے، اچانک اس کا Cardiovascular arrest ہوا تھا۔ وہاں پولیس والوں کو بھی اطلاع کرنی ہوتی ہے، کیونکہ وہاں تو بڑے عجیب عجیب واقعات ہوتے ہیں۔ لہٰذا ان کو اطلاع کرنے سے پہلے خود declare نہیں کرنا ہوتا۔ یہ مجھے وہاں کے ایک پاکستانی ساتھی نے بتایا کہ آپ یہ نہ کہہ دینا کہ یہ فوت ہو گئی ہے۔ یہ پولیس والے ڈاکٹر سے declare کروائیں گے۔ ہم اس وقت سرکاری کاروائی میں لگ گئے۔ میں نے اپنی بیوی سے کہا کہ جو کچھ ہونا تھا وہ ہو گیا۔ جانے والی چلی گئی اب وہ واپس تو نہیں آ سکتی۔ اب چاہے اس پہ صبر کریں اور اجر حاصل کر لیں۔ چاہے صبر نہ کریں اور اجر کو ضائع کر لیں، آپ کی اپنی مرضی ہے۔ اس نے کہا کہ میں اللہ کے کئے پہ صبر کرتی ہوں۔ لیکن چونکہ وہ ماں تھی، میں تو باپ تھا، باپ کے احساسات ذرا مختلف ہوتے ہیں۔ ماں کے احساسات اولاد کے ساتھ بڑے مضبوط ہوتے ہیں۔ تو یہ کہتے ہوئے کہ میں اللہ کے کئے پہ صبر کرتی ہوں، ایک دم اس کا سارا جسم ہل گیا، گویا اس کا جسم ساتھ نہیں دے رہا تھا، یہ اس کا قلب و ایمان کہہ رہا تھا۔ یہ چیزیں اللہ کو بہت پسند ہیں۔ اس پہ اللہ تعالیٰ بہت راضی ہوتے ہیں۔ چنانچہ یہ طرز عمل کہ عین اس وقت جب سانحہ ابھی ابھی ہوا ہو، اسی وقت کوئی یہ کہہ دے میں اس پر راضی ہوں، اور یہ کہے کہ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ تو وہ پورا پورا اجر پا لیتا ہے۔
یہ میرے ساتھ میری بچی کی وفات کی صورت میں بھی ہوا تھا اور والد صاحب کی وفات پہ بھی ہوا تھا۔ جب والد صاحب کی وفات ہوئی تو وہ بھی چونکہ میرے سامنے فوت ہوئے۔ بھاگتے دوڑتے کچھ نہیں بنا، میں نے کہا کہ اب تو ان کے پاس ہی کھڑا ہو جاؤں۔ کیونکہ سب راستے بند ہو گئے ہیں، ڈاکٹر نہیں ہے، کمپاؤنڈر نہیں ہے، ڈاکٹر کے گھر کا پتہ نہیں ہے، کمپاؤنڈر کے گھر کا پتہ نہیں ہے، ہم ہسپتال میں ہیں۔ جب اس کا پتا چل گیا کہ بس اب ٹائم پورا ہو گیا ہے، پھر میں نے ایک دعا کی، وہ قلبی دعا تھی، الفاظ کی دعا نہیں تھی۔ قلبی دعا ایک لہر ہوتی ہے، آپ اس کا ترجمہ تو کر سکتے ہیں، اصل کیفیت کو نہیں بتا سکتے۔ وہ دعا یہ تھی کہ یا اللہ! جو کچھ ہونا تھا وہ ہو گیا، اب تو فیصلہ ہو گیا، اب مجھے صبر کی توفیق عطا فرما۔ اگر الفاظ میں کہتا تو ایسے ہی کہتا۔ اور وہ دعا اتنی جلدی قبول ہوئی تھی کہ اتنی جلدی دعا قبول ہوتے میں نے کبھی دیکھی نہیں۔ اتنی جلدی قبول ہوئی تھی کہ بالکل جیسے کسی کو انستھیزیا (Anesthesia) کا انجکشن لگا دیا جائے اور صورت حال بدل جائے۔ اب میرے والد صاحب میرے سامنے فوت شدہ حالت میں تھے، لیکن مجھے ذرہ بھر مسئلہ نہیں تھا کہ یہ میرے والد ہیں، ایسے محسوس ہوتا تھا کہ یہ کسی اور کے والد ہیں اور میں صرف انسانی طور پر معاملہ کر رہا ہوں۔ اللہ پاک نے اتنا صبر دے دیا۔ حالانکہ اس سے پہلے میں بالکل برداشت نہیں کر پا رہا تھا۔ پھر میں نماز کے لئے گیا۔ وہ ایک بج کر بیس منٹ پہ فوت ہوئے تھے اور ڈیڑھ بجے نماز تھی، پاس ہی مسجد تھی۔ میں مسجد میں گیا اور جماعت کے ساتھ نماز پڑھی۔ آپ تصور کر لیں کہ اسی وقت باقاعدہ والد صاحب کے لئے دعا کا اعلان کروا دیا اور سب نے میرے والد صاحب کے لئے دعا کی۔ پھر میں نے نعش لے جانے کے لئے سوزوکی کا بندوبست کیا۔ ہمارے گاؤں کا ایک آدمی تھا جو میری پہلی حالت کو جانتا تھا وہ کہنے لگا کہ تو ساتھ نہیں جائے گا۔ میں نے کہا، میں ہی جاؤں گا۔ کہتا ہے، تجھ سے نہیں ہو گا، میں نے کہا، ان شاء اللہ ہو جائے گا، اب وہ حالت ٹھیک ہو گئی ہے۔ پھر میں خود ساتھ گیا ہوں، وہاں جا کر پہلے گھر والوں کی ذہن سازی کی ہے۔ تین دن تک سب کچھ اسی ایک انجکشن سے چل رہا تھا۔ سب سنت کے مطابق ہوا۔ اللہ کا شکر ہے الحمد للہ، اللہ پاک نے ساری چیزیں کروا دیں۔ تین دن کے بعد اس انجکشن کا اثر ختم ہو گیا اور پھر مجھ پر پہلی حالت آ گئی۔ وہ انجکشن کا اثر ختم ہوا۔ گویا کہ مجھے دکھا دیا گیا کہ یہ ہمارا کام تھا کوئی تیری بہادری نہیں تھی۔ اور اب تجھے دوبارہ پہلی حالت میں لے آئے ہیں۔ اب اپنے آپ کو سنبھالو۔ اذیتوں کا وقت صبر کے قریب ہوتا ہے، (یعنی یہی موقع مقام صبر کے قریب کرنے والا ہوتا ہے)۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿وَاسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوةِ﴾ (البقرہ: 153)
ترجمہ: ’’اور صبر اور نماز سے مدد حاصل کرو‘‘
چنانچہ جب انتہائی مشکل حالت ہو تو سمجھو کہ دعاؤں کی قبولیت کا وقت آ گیا۔ اس وقت کو ضائع نہ کرو۔ جہاد میں جو دعائیں ہوتی ہیں، حج میں جو دعائیں ہوتی ہیں، یہ سب قبول ہوتی ہیں کیونکہ مشکل حالات ہوتے ہیں، مصائب میں جو دعائیں ہوتی ہیں، یہ سب بڑے کام کی دعائیں ہوتی ہیں۔ ہمیں ان سے فائدہ اٹھانا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو عمل کی توفیق عطا فرما دے۔
و اٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ للہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ