مقاماتِ قطبیہ و مقالاتِ قدسیہ درس 19

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
ہمارے ہاں حضرت کاکا صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ کے بارے میں ان کے صاحبزادے حضرت حلیم گل بابا رحمۃ اللّٰہ علیہ کی کتاب ’’مقاماتِ قطبیہ و مقالاتِ قدسیہ‘‘ کا درس ہوتا ہے۔ اس سے پہلے کی مجالس میں حضرت کاکا صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ کی نماز کے بارے میں بتایا گیا تھا، اب ان شاء اللّٰہ زکوٰۃ کے بارے میں بتایا جائے گا۔
متن:
فصل
زکوٰۃ کے بارے میں
نماز کے بعد زکوٰۃ کا رکن ہے۔ سرورِ عالم ﷺ نے فرمایا ہے کہ "اَلزَّکوٰۃُ قَنْطَرَۃُ الْإِسْلَامِ"(المعجم الأوسط للطبرانی، باب: المیم، رقم الحدیث: 8937) ”زکوٰۃ اسلام کا پُل ہے“ جو لوگ مال و دولت رکھتے ہوں، اُن پر زکوٰۃ واجب ہے۔ ﴿إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَآء﴾ (التوبہ: 60) ”زکوٰۃ فقیروں کے لئے ہے“ اس زکوٰۃ سے علماءِ ظاہر ایک چیز مراد لیتے ہیں اور محقق لوگ دوسری مُراد لیتے ہیں، مگر ہر ایک کو اس کا حصّہ دینا چاہئے۔ چنانچہ مال سے زکوٰۃ کے طور پر بہر حال دینا واجب ہے۔ اسی طرح اولیاء اللّٰہ پر واجب ہے کہ علمِ معرفت میں سے زکوٰۃ دے دیں کہ رسول اللّٰہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ "لَا کَنْزَ أَنَفَعُ مِنَ الْعِلْمِ (أَيْ عِلْمِ الْمَعْرِفَۃِ)" (هذا من أقوال علی رضی اللّٰہ عنہ کما نقله المجلسی فی بحار الأنوار، رقم الصفحۃ: 282/72) ”علم سے زیادہ نفع دینے والا خزانہ نہیں اور علم سے مراد علمِ معرفت ہے“ کیونکہ علم اولیاء اللّٰہ کا خزانہ اور رزق ہے۔ قرآن کریم میں ہے کہ ﴿مَنْ رَّزَقْنَاہُ مِنَّا رِزْقًا حَسَنًا﴾ (نحل: 75) کہ ”جس کو ہم رزقِ حسن عطا فرمادیں“ اے برادرِ عزیز! رزقِ حسن بس یہی علمِ معرفت ہے کہ "اَلْعِلْمُ لَا یُحِلُّ اللّٰہُ مَنْعَہٗ" یعنی علم کا منع کرنا اور کسی کو نہ دینا اللّٰہ تعالیٰ نے ناجائز فرمایا ہے۔ پس اے بھائی! لوگوں کے حوصلے کے مطابق یہ نثار کرنا چاہئے اور قرآن کریم کی آیتِ مبارکہ پر عمل کرنا چاہئے کہ ﴿مِمَّا رَزَقْنٰھُمْ یُنْفِقُوْنَ﴾ (البقرۃ: 3) ”اور جو ہم نے روزی دی ہے ان کو اس میں سے خرچ کر دیتے ہیں“ اور اس میں نکتہ یہ ہے کہ زکوٰۃ سے مراد ایک خزانہ ہے: "کُنْتُ کَنْزًا مَّخْفِیًّا فَأَحْبَبْتُ أَنْ اُعْرَفَ" (الأسرار المرفوعۃ فی الأخبار الموضوعۃ، رقم الحدیث: 253) "میں ایک پوشیدہ خزانہ تھا، میں نے چاہا کہ میں پہچانا جاؤں" یہ زکوٰۃ ہے کہ جس سے علماءِ ظاہر محروم ہیں۔ اولیاء اللّٰہ پر واجب ہے کہ یہ زکوٰۃ اپنے بھائیوں کو دے دیں کہ رسول اللّٰہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ "أَشَرُّ النَّاسِ مَنْ أَکَلَ وَحْدَہٗ" (مختصر تاریخ دمشق لابن منظور بتغییر قلیل، رقم الصفحۃ: 307/21) ’’یعنی لوگوں میں سب سے زیادہ بُرا شخص وہ ہے، جو اکیلا کھائے‘‘۔ اور ہمارے حضرت شیخ صاحب کو اس علم و معرفت سے بہت بڑا اور کامل حصہ نصیب ہوا تھا اور اس کی زکوٰۃ بہت سے لوگوں کو دے چکے تھے۔ اور ان کو ان کا حصہ دے کر محفوظ ہوئے تھے۔
تشریح:
دونوں معانی صحیح ہیں، رزق کا اطلاق دونوں پر ہوتا ہے۔ کیونکہ جو رزق مانگتے ہیں، اس میں سارے قسم کے رزق آ جاتے ہیں، تو جن کے پاس بقدر نصابِ زکوٰۃ مال ہو، ان پر پورا سال گزرنے کے بعد اس مال سے ایک حصہ جو ڈھائی فیصد ہوتا ہے، زکوٰۃ میں دینا پڑتا ہے۔ لیکن چونکہ اولیاء اللّٰہ جو فقراء ہوتے ہیں وہ مال رکھتے ہی نہیں ہیں، بلکہ سارا ہی خرچ کرتے رہتے ہیں، جیسے آپ ﷺ کے گھر مبارک میں کئی کئی دن چولہا نہیں جلتا تھا، ان پر زکوٰۃ فرض نہیں ہوتی تھی۔ لہٰذا یہ زکوٰۃ ان پر فرض نہیں تھی، لیکن جو اللّٰہ پاک نے مال کا نعم البدل عطا فرمایا ہوتا تھا یعنی علوم و معرفت اور حقائق، وہ ان حضرات کا سب سے بڑا اثاثہ ہوتا ہے اور اس اثاثہ میں بھی وہ لوگوں کو بے دریغ دیتے رہتے ہیں۔ کہتے ہیں: پیاسے کو کنویں کی تلاش۔ یعنی پیاسے کنویں کے پاس جاتے ہیں۔ لیکن یہاں معاملہ الٹ ہوتا ہے، کنواں پیاسے کی طرف جاتا ہے، یعنی یہ حضرات تلاش کرتے رہتے ہیں اور جو اہل ہوتے ہیں، ان کو یہ چیز دیتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ بعض لوگ اس کے اہل نہیں ہوتے، تو ان سے چھپا لیا جاتا ہے۔ کیونکہ پھر یہی باتیں لوگوں کے اپنے نفس کے استعمال کے لئے ذریعہ بن جاتی ہیں۔ چونکہ ایسے لوگ اپنے آپ کو نقصان پہنچاتے ہیں، اس لئے ایسے لوگوں کو یہ چیز نہیں دی جاتی جس سے وہ اپنے آپ کو نقصان پہنچائیں یا دوسروں کو نقصان پہنچائیں۔ لیکن جو لوگ اہل ہوتے ہیں، وہ اس کی تلاش میں ہوتے ہیں کہ کب کوئی ایسا شخص آ جائے جس کو میں یہ دے دوں۔ حضرت امام مالک رحمۃ اللّٰہ علیہ تشریف فرما تھے اور لوگوں کے سوالوں کے جواب دے رہے تھے، حضرت امام شافعی رحمۃ اللّٰہ علیہ اس وقت نوجوان تھے، وہ بھی تشریف لائے تھے اور ایک طرف بیٹھے ہوئے تھے، امام مالک رحمۃ اللہ علیہ سے لوگ جو سوال پوچھ رہے تھے حضرت ان کو جوابات دے رہے تھے۔ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ خود اپنا سوال نہیں کر رہے تھے، بلکہ ایک بڑے میاں وہاں بیٹھے تھے، ان کو کاغذ پر وہ سوال لکھ کے دیتے تھے اور وہ بڑے میاں سوال کر لیتے تھے۔ جب چند سوالات ہو گئے تو اس سے امام مالک رحمۃ اللّٰہ علیہ کو اندازہ ہوا کہ یہ کوئی معمولی شخص نہیں ہے، جو یہ سوال کر رہا ہے، کوئی بڑا عالم ہے۔ انہوں نے اس بڑے میاں سے کہا کہ آپ آیئے! آپ کی جگہ ادھر نہیں ہے، آپ کی جگہ میرے قریب ہے۔ تب ان کو احساس ہوا کہ میں تو اس کا اہل نہیں ہوں، یہ میرے سوال تو نہیں تھے۔ انہوں نے کہا کہ یہ سوال کوئی نوجوان مجھے دے رہا ہے، وہ میں آپ سے پوچھتا ہوں، یہ میں نے نہیں کئے۔ امام مالک رحمۃ اللّٰہ نے پوچھا: کون ہیں وہ؟ کھڑے ہو جائیں۔ حضرت امام شافعی رحمۃ اللّٰہ علیہ کھڑے ہو گئے، اس وقت وہ نوجوان تھے۔ حضرت نے امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کو پہچان لیا اور ان سے فرمایا کہ ادھر قریب آ جاؤ۔ وہ قریب آئے تو انہیں بہت نوازا۔ ان حضرات کو ایسے لوگوں کی تلاش ہوتی ہے۔ اسی طرح ان حضرات کے پاس جب کبھی کوئی ایسا شخص آ جاتا ہے جس میں طلب ہو تو وہ بہت خوش ہوتے ہیں اور اس کو منجانب اللّٰہ عطیہ سمجھتے ہیں۔
امام ابو حنیفہ رحمۃ اللّٰہ علیہ کا علم ہم تک پہنچا ہے، امام مالک رحمۃ اللّٰہ علیہ کا علم مالکیہ تک پہنچا، امام شافعی رحمۃ اللّٰہ علیہ کا علم شوافع تک پہنچا ہے، امام احمد بن حنبل رحمۃ اللّٰہ علیہ کا علم حنابلہ تک پہنچا۔ بہت سارے حضرات آئمہ کرام تھے، جن کا علم آگے نہیں پہنچا۔ وجہ یہ تھی کہ ان کے شاگرد اتنے زیادہ قابل نہ رہے کہ وہ اس کو دوسروں تک پہنچا سکیں، یا وہ دوسروں میں اتنے مشہور نہ رہے کہ ان کے پاس لوگ آ سکیں۔ لہذا ان کا علم اس جگہ پہ رک گیا۔ ورنہ صرف یہ چار ہی امام نہیں تھے، کافی زیادہ تھے۔ اُس دور میں اللّٰہ تعالیٰ نے بہت سارے اہلِ علم پیدا کئے تھے۔ بہرحال ان کے شاگرد اس قابل تھے کہ وہ دوسروں تک پہنچا سکتے تھے۔ جیسے امام ابو حنیفہ رحمۃ اللّٰہ علیہ کے شاگرد اور ان میں بھی دو شاگرد بہت زیادہ آگے تھے، امام ابو یوسف اور امام محمد رحمہما اللّٰہ۔ بہرحال اور حضرات بھی تھے۔ اس سے پتا چلا کہ شاگردوں کے ذریعے سے علم آگے پہنچتا ہے، لہذا اچھے شاگرد اللّٰہ کی بڑی نعمت ہے اگر اللّٰہ تعالیٰ کسی کو نصیب فرما دے۔ اچھے مرید بھی بڑی نعمت ہیں اگر اللّٰہ تعالیٰ کسی کو نصیب فرما دے۔ حضرت مولانا جامی رحمۃ اللّٰہ علیہ جب خواجہ عبید اللّٰہ احرار رحمۃ اللّٰہ علیہ سے بیعت ہوئے تو خواجہ عبید اللّٰہ احرار رحمۃ اللّٰہ علیہ فرمانے لگے کہ آج میں نے شہباز کو شکار کیا ہے۔ بڑے خوش تھے۔ اسی طرح جب کوئی اہل ان کے قریب آتا ہے تو ان کی خوش نصیبی ہوتی ہے اور جو کچھ اللّٰہ تعالیٰ نے ان کو دیا ہوتا ہے اس کو آگے چلا دیتے ہیں۔
متن:
فصل
روزے کے بیان میں
ہمارے حضرت صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ شریعت کا روزہ بھی رکھتے تھے اور حقیقت کا بھی روزہ رکھتے تھے۔ اللّٰہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿يَآ أَيُّـهَا الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّـذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ(البقرۃ: 183)
”اے ایمان والوں فرض کیا گیا تم پر روزہ جیسے فرض کیا گیا تھا تم سے اگلوں پر تاکہ تم پرہیزگار ہو جاؤ“۔ شاید کہ تم گناہوں سے پرہیز کرو اور تقویٰ اختیار کرو اور روزہ آرزؤں کو توڑتا ہے۔ تفسیر عرائش میں ہے کہ یہ آواز اہل دل کے لئے ہے۔ یعنی اللّٰہ تبارک و تعالیٰ اُن لوگوں کو بلاتا ہے جو زمین و آسمان کی وسعتوں میں مشاہدۂ محبوب کے ہلال کو تلاش کرتے ہیں، اور یہ آواز دلوں کو فرحت دیتی ہے اور رنج و غم کو دور کر دیتی ہے۔ فرماتے ہیں کہ تم اہلِ یقین لوگوں کو تمام چیزوں سے منع کیا جاتا ہے، کیونکہ تم مشاہدۂ جمال کے طالب ہو اور اس مطلوب کے طلب کرنے والوں پر روزہ واجب ہے کہ تم پر مرغوب اور دلپسند چیزوں سے (جیسا کہ انبیاء اور اولیاء کے بارے میں لکھا گیا ہے) روزہ واجب ہے تاکہ تم بشریت کی نجاست سے رہائی پا کر امن و قرب کے مقام سے واصل ہو جاؤ۔ اور جناب عین القضاۃ صاحب نے اپنی کتاب تمهیدات میں تحریر فرمایا ہے کہ شریعت میں روزہ طعام اور پینے سے منع ہونے اور نہ کھانے سے ہے، اور حقیقت میں اشارہ ہے کھانے پینے کی طرف۔ لیکن کھانا کونسا؟ "عِنْدَ رَبِّيْ یُطْعِمُنِيْ" (زاد المعاد، فصل فی ھدیہ علیہ الصلوۃ والسلام، رقم الصفحۃ: 31/2، مکتبہ: مؤسسۃ الرسالۃ بیروت) کہ میرے رب کے پاس مجھے کھانا کھلایا جاتا ہے اور پینا کونسا؟ ﴿وَسَقٰھُمْ رَبُّھُمْ شَرَابًا طَھُوْرًا﴾ (الانسان: 21) ”اور ان کو ان کا رب پاک شراب پلاتا ہے“ اور صاف ظاہر ہے کہ یہ روزہ عارفوں کے سوا کسی کو حاصل نہیں۔
نظم:
مردِ عارف چوں یافت لذتِ قرب
نہ باکلش کشش بودش نہ بشرب
اکلش و شرابش چه باشد اُنس بحق
دائم او در حق ست مستغرق
لقمہ از خوان بطعمش یُطْعِمُنِيْ
شربت از چشمه سار یَسْقِیْنِيْ
”عارف آدمی جب قرب کی لذت سے آشنا ہوتا ہے تو اس کے لئے نہ کھانے میں کوئی کشش ہوتی ہے اور نہ پینے میں۔ اس کا کھانا پینا کیا ہوتا ہے، بس صرف اللّٰہ تعالیٰ کے ساتھ محبت اور ہمیشہ حق کی محبت میں ڈوبا رہتا ہے، اس کو ''یُطْعِمُنِيْ'' کے دسترخوان سے لقمہ ملتا ہے اور ''یَسْقِیْنِيْ'' کے چشمۂ صافی سے پینے کو ملتا ہے“
اور اس زمانے میں یہ شرف ہمارے حضرت شیخ المشائخ کو اللّٰہ تعالیٰ کی لطف و کرم سے عنایت کیا گیا تھا۔ اور یہ بات تو مسلّم ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ "اَلصَّوْمُ لِيْ" کہ ’’روزہ میرے لئے ہے اور روزے کی حالت میں خدا کے سوا کوئی پیش نظر نہیں ہوتا‘‘ "وَأَنَا أَجْزِيْ بِہٖ" (سنن النسائی، کتاب الصیام، باب: فضل الصیام، رقم الحدیث: 2212) ”اور میں خود اس کی جزا دوں گا“ بلکہ میں خود اِس کی جزاء ہوں۔ اور قطبِ عالم شیخ نصیر الدین محمود قدّس سرّہُ العزیز نے اسی معنیٰ کی وضاحت میں فرمایا ہے: "الصَّوْمُ الْغُنْیَۃُ عَنْ رُُؤْیَۃِ مَا دُوْنَ اللّٰہِ بِرُؤْیَۃِ اللّٰہِ" ’’یعنی روزہ اللّٰہ تعالیٰ کے دیکھنے کی وجہ سے دوسری چیز کو دیکھنے سے غنا یعنی بے پروائی ہے۔‘‘ اور اس قسم کے روزے کو مریم علیہا السلام بیان کرتی ہیں: ﴿إِنِّيْ نَذَرْتُ لِلرَّحْمٰنِ صَوْمًا فَلَنْ اُکَلِّمَ الْیَوْمَ إِنْسِیًّا﴾ (مریم: 26)میں نے نذر مانی ہے رحمٰن کا روزہ، سو بات نہ کروں گی آج کسی آدمی سے“ (شیخ الہند) کہ ان کا افطار اللّٰہ کے دیدار کے بغیر نہیں ہوتا جیسا کہ رسول اللّٰہ نے فرمایا ہے کہ "لِلصَّائِمِ فَرْحَتَانِ فَرْحَۃٌ عِنْدَ إِفْطَارِہٖ وَفَرْحَۃٌ عِنْدَ لِقَاءِ رَبِّہٖ" (سنن النسائی بتغییر قلیل، کتاب الصیام، باب: فضل الصیام، رقم الحدیث: 2212) ”روزہ دار کے لئے دو خوشیاں ہیں: ایک خوشی اُس کے افطار کے وقت اور دوسری خوشی اپنے رب کی ملاقات کے وقت“
محمد حسین رحمۃ اللّٰہ علیہ نے ایک رمز بیان فرمایا ہے کہ میرا روزہ: "صُوْمُوْا لِرُؤْیَۃِ اللّٰہِ وَأَفْطِرُوْا لِرُؤْیَۃِ اللّٰہِ" یعنی اللّٰہ تعالیٰ کو دیکھ کر روزہ رکھو اور اللّٰہ تعالیٰ کو دیکھ کر افطار کرو۔
اور روزے سے دوسری کوئی چیز یا نشانی نہیں لی جا سکتی کیونکہ اس روزے کی ابتدا بھی اللّٰہ تعالیٰ سے ہے اور اس کا افطار بھی اللّٰہ تعالیٰ ہی پر ہو گا۔ کہا گیا ہے کہ "اَلصَّوْمُ جُنَّۃٌ" (سنن النسائی، کتاب الصیام، باب: ذکر الاختلاف علی محمد بن أبی یعقوب…، رقم الحدیث: 2224) کہ روزہ ڈھال ہے۔ شیخ محمد حسین صاحب نے ایک دوسرا رمز بیان فرمایا ہے کہ اصلاح نفس اور تدبیرِ روح روزے سے ہوتی ہے، اس لئے کبھی روزہ رکھو اور کبھی افطار کرو۔ کیونکہ اگر تو عمر بھر کے لئے روزے سے ہوگے تو تم ایک رنگ میں رہو گے جیسا کہ رسول اکرم نے فرمایا ہے کہ "لَا صَامَ مَنْ صَامَ الْأَبَدَ" (الصحیح للبخاری، کتاب الصوم، باب: حق الأھل فی الصوم، رقم الحدیث: 1977) کہ جو عمر بھر کے روزے رکھے تو اس کا کوئی روزہ نہیں۔ اگر افطار نہ ہو تو روزے کا نام کہاں ہوتا (اشیاء اپنی اضداد سے پہچانی جاتی ہیں)۔ تمام عمر کا روزہ دار صائم تو صرف ایک ہے جو کہ "اَلصَّمَدُ" یعنی بے نیاز ہے۔ یہ بھی اس ذاتِ پاک کی مخلوق کے لئے ایک نعمت ہے کہ "صُوْمُوْا سَاعَۃً وَّأَفْطِرُوْا سَاعَۃً" ”کبھی روزہ رکھو اور کبھی افطار کیا کرو“ اس جگہ میں بہت مدارج تھے اور بہت سے رفیع و بلند مقامات تھے، لیکن اہل ظاہر کی وجہ سے جو کہ اس راہ سے واقف نہیں وہ باتیں چھوڑی گئیں اور بیان نہ کی گئیں۔
تشریح:
روزے کی ایک ظاہری صورت ہے کہ انسان کی طرف سے ان چند چیزوں کو جن کا اس کے نفس کے ساتھ گہرا تعلق ہے، چھوڑ دیا جائے اور اللّٰہ تعالیٰ کے لئے ان چیزوں کو اپنے اوپر ایک خاص وقت تک کے لئے یعنی صبح صادق سے غروب آفتاب تک بند کر دیا جائے۔ یہ ظاہر کا روزہ ہے اور اس پر تقویٰ کی باطنی نسبت ملتی ہے۔ جیسے کہا گیا: ’’لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ‘‘۔ لیکن حقیقت کا روزہ یہ ہے اور اسی سے اس ظاہری روزے میں طاقت آتی ہے کہ ہر اس چیز سے جس سے اللّٰہ نے منع کیا ہوا ہے چاہے وہ ظاہری ہے، چاہے وہ باطنی ہے یعنی اس وقت تک منہ موڑ لینا جب تک اللّٰہ تعالیٰ اجازت نہ دے، یعنی موت کے بعد تک۔ لہٰذا پوری زندگی کا روزہ ہوتا ہے، اس میں انسان موانع الہیٰ کی طرف قدم نہیں اٹھاتا بلکہ اللّٰہ جل شانہ نے جن چیزوں کو جائز کہا ہے صرف انہی پر اکتفا کرتا ہے۔ دوسرا یہ ہے کہ غیر اللّٰہ سے اپنے آپ کو بچانا، غیر اللّٰہ کی محبت اور غیر اللّٰہ کے تعلق سے اپنے آپ کو بچانا۔
جیسے فرمایا: ’’اَلصَّوْمُ لِیْ‘‘ کہ روزہ میرے لئے ہے۔ ظاہر ہے جو روزہ ہم رکھتے ہیں اس میں اللّٰہ تعالیٰ کے لئے ہی نیت ہونی چاہئے۔ اور اگر باطنی طور اور حقیقی طور اس کو لیا جائے تو اس کا مطلب ہے کہ روزہ تو میرے لئے ہے، یعنی میں ہی مطلوب بن جاؤں، کوئی اور مطلوب نہ رہے۔ شیخ محمد حسین رحمۃ اللّٰہ علیہ کی طرف جو حضرت نے اشارہ فرمایا ہے، اس میں یہی بات تھی کہ میرا روزہ بھی اللّٰہ کے لئے ہے، میرا ظاہر بھی اللّٰہ کے لئے ہے۔ میں تمام چیزوں سے منہ موڑتا ہوں اور جن کو دیکھنا ہوتا ہے، ان کو بھی اللّٰہ کے لئے دیکھتا ہوں، یعنی میرا رخ اللّٰہ کی جانب ہے، اللّٰہ تعالیٰ جیسے چاہے مجھے استعمال فرمائے۔ اصل بات یہی ہے کہ انسان دونوں چیزوں کو حاصل کر لے۔ کیونکہ ظاہر ایک ڈھانچہ ہوتا ہے اور باطن اس کی حقیقت ہوتی ہے، اس کی قوت ہوتی ہے۔ اگر صرف ظاہر کو لیا جائے تو وہ ڈھانچہ بغیر طاقت کے ہو گا، اس کی کوئی حیثیت نہیں ہو گی، وہ کسی بھی طریقے سے ٹوٹ سکتا ہے۔ لیکن جو ڈھانچہ باطنی طور پر مضبوط ہوتا ہے تو جتنے بھی جکھڑ (طوفان) چل جائیں، اسے کوئی نقصان نہیں ہوتا۔ لہٰذا روزے کی بنیاد تعلق مع اللّٰہ ہے۔ اور ظاہری چیزوں سے جو تعلق توڑ دیا جاتا ہے، وہ اسی لئے ہوتا ہے تاکہ اس کا رخ اصل کی طرف موڑ دیا جائے۔ جیسے نماز میں ہم کہتے ہیں: ﴿اِنِّیْ وَجَّهْتُ وَجْهِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ (الانعام: 79)۔ اسی طرح روزے میں بھی ہم اپنے نفس کے تقاضوں سے اپنے آپ کو موڑ کر اللّٰہ تعالیٰ کی طرف کر لیتے ہیں۔ کھانا، پینا اور مباشرت، یہ نفس کے مؤثر ترین تقاضے ہیں، ان سے نفس رک نہیں سکتا۔ ان چیزوں کو ہم اللّٰہ تعالیٰ کے لئے اپنے اوپر ایک خاص وقت تک کے لئے بند کر لیتے ہیں۔ گویا کہ ایک ترتیب ہمیں سکھائی جا رہی ہے کہ اس طرح ہم اپنے نفس کے تعلق کو پیچھے کر کے اللّٰہ تعالیٰ کی طرف رخ کر لیں اور اللّٰہ جل شانہ کے جو تقاضے ہیں، ان کی طرف ہم چلے جائیں اور اللّٰہ تعالیٰ ہم سے جو کروانا چاہتا ہے، وہ ہم کر لیں اور ہمارے نفس کے جو تقاضے ہیں، ان کو ہم دبا دیں۔ یہ ہے روزے کی حقیقت۔ اور حضرت کاکا صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ کا روزہ بھی اسی حقیقت کے اعتبار سے تھا، اس وجہ سے حضرت نے اس کے بارے میں اشارہ فرمایا ہے۔
جیسے میں نے پہلے بھی بتایا تھا کہ حضرت کاکا صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ کے مجاہدہ کی ترتیب بھی یہی تھی کہ کبھی مجاہدہ کرتے تھے اور کبھی نہیں کرتے تھے۔ آپ ﷺ نے اسی طرح فرمایا کہ جو عمر بھر روزہ رکھتا ہے، اس کا کوئی روزہ نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس طرح اس کو اس کا احساس ہی نہیں ہو گا، وہ اسی کے رنگ میں رنگ جائے گا۔ اور اگر کبھی مجاہدہ ہو گا اور کبھی نہیں ہو گا، تو اس کو مجاہدے کا احساس ہو گا۔ اسی لئے آپ ﷺ نے صومِ داؤدی کو پسند فرمایا ہے کہ وہ ایک دن روزہ رکھتے تھے اور ایک دن نہیں رکھتے تھے۔ بہر حال نفس کے تقاضوں کو اختیاری مجاہدہ کے طور پر کبھی اپنے اوپر بند کر دیا جائے تاکہ نفس شیر نہ ہو اور کبھی جائز حد تک کھول دیئے جائیں تاکہ اللّٰہ تعالیٰ کے حکم پر عمل ہو اور اصل چیز سامنے رہے۔ تو اس طریقے سے جو مجاہدہ ہو گا، وہ صحیح مجاہدہ ہو گا اور اس سے انسان کو فائدہ ہو گا۔
متن:
فصل
حج کے بارے میں
حضرت صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ شاید خلیل اللّٰہ کا کعبہ دیکھ چکے تھے۔ حاجیوں میں سے بعض نے کہا ہے کہ ہم نے حضرت صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ کو حرم پاک میں دیکھا تھا۔ اور یہ بھی نقل کیا گیا ہے کہ بہت عرصہ مسجد حرم میں نماز پڑھا کرتے تھے۔ یہ ایک تحقیقی بات ہے کہ کعبہِ خلیل علیہ السلام کا حج فرما چکے تھے ﴿وَلِلّٰہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَیْہِ سَبِیْلًا﴾ (آل عمران: 97) ”اور اللّٰہ تعالیٰ کا حق ہے لوگوں پر حج کرنا اس گھر کا جو شخص قدرت رکھتا ہو اس کی طرف راہ چلنے کی“ پس اے بھائی! اللّٰہ تبارک و تعالیٰ کا راستہ نہ تو دائیں جانب اور نہ بائیں، نہ اوپر کی طرف ہے اور نہ نیچے کی طرف ہے، اور نہ دوری میں ہے اور نہ نزدیکی میں، ہاں اس کا راستہ مؤمن کے دل میں ہے اور صرف ایک قدم کے فاصلے پر ہے کہ "دَعْ نَفْسَکَ وَتَعَالْ" پس اپنے نفس سے (شریعت میں "صُوْمُوْا لِرُؤْیَتِہٖ وَأَفْطِرُوْا لِرُؤْیَتِہٖ" (الصحیح للبخاری، کتاب الصوم، باب: قول النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إِذَا رَأَیْتُمُ الْھِلَالَ فَصُوْمُوْا، رقم الحدیث: 1909) ہے کہ چاند کو دیکھ کر روزہ رکھو اور چاند کو دیکھ کر عید مناؤ۔ مگر یہاں طریقت میں چاند کی بجائے اللّٰہ کر دیا۔ سبحان اللّٰہ)
دست کش ہو جاؤ اور آ جاؤ۔ چنانچہ عبد اللّٰہ بن عمر رضی اللّٰہ عنہما نے رسول اللّٰہ سے پوچھا کہ "أَیْنَ اللّٰہُ تَعَالٰی؟ فَقَالَ: فِيْ قُلُوْبِ عِبَادِہٖ" (لم أجد ھذا الحدیث) اللّٰہ تعالیٰ کہاں ہے؟ تو فرمایا کہ اپنے بندوں کے دلوں میں“ اپنے بندوں یعنی مؤمنوں کے دلوں میں ہے۔
ابیات ؂
نباشد عیب پرسیدن ترا خانه کی باشد
نشانے دہ گر یابم کہ آن اقبالِ ما باشد
تو خورشیدِ جہاں باشی نہ چشمِ ما ازاں باشی
تو خود آں را روا داری و آنگه ایں روا باشد
”اس بات کو پوچھنے میں کوئی برائی نہیں اور عیب نہیں کہ تجھ سے پوچھ لیں کہ تمہارا گھر کہاں ہو گا۔ اپنے گھر کی نشانی بتا، شاید اگر ہم اس کو معلوم کر کے باریابی حاصل کریں تو یہ ہماری اقبال مندی ہو گی۔ آپ زمانے کے خورشید (سورج) ہیں اور ہماری آنکھوں سے پوشیدہ ہیں، اس بات کو آپ جائز سمجھتے ہیں تو پھر یہ جائز ہی ہو گی“
"قَلْبُ الْمُؤْمِنِ بَیْتُ اللّٰہِ" ”مؤمن کا دل اللّٰہ تعالیٰ کا گھر ہے“ پس اے مؤمن! تو دِل کا حج کر، کہ حج کرنا دل کا حج کرنا ہے۔ اگر تم یہ پوچھو کہ دل کہاں ہے، تو دل کو ان دو جگہوں میں تلاش کرو کہ "قَلْبُ الْمُؤْمِنِ بَیْنَ إِصْبَعَیْنِ مِنْ أَصَابِعِ الرَّحْمٰنِ" (الصحیح لمسلم بتغییر قلیل، کتاب القدر، باب: تصریف اللّٰہ تعالٰی القلوب کیف شاء، رقم الحدیث: 2654) ”مؤمن کا دل اللّٰہ تعالیٰ کی انگلیوں میں سے دو انگلیوں کے درمیان میں ہے“ ایک جمال ہے دوسری جلال ہے۔
تشریح:
کیونکہ اللّٰہ تعالیٰ کی انسان کی طرح جسمانی انگلیاں نہیں ہیں، اللّٰہ تعالیٰ جسم سے پاک ہے۔ مومن کے دل کا اللّٰہ کی دو انگلیوں کے درمیان ہونا، یہ اللّٰہ تعالیٰ کی خاص شانوں کی طرف اشارہ ہے، یعنی انسان کا دل اللّٰہ تعالیٰ کی دو شانوں کے درمیان ہے، ایک شانِ جلال ہے اور دوسری شانِ جمال ہے۔ لہٰذا دل کو ان دونوں کے درمیان تلاش کر لو۔
متن:
شیخ محمد حسین صاحب فرماتے ہیں کہ یہاں ایک رمز ہے۔ اگر وہ نکتہ میں بیان کروں، تو لوگ مجھے قتل کر دیں گے۔ اسی وجہ سے میں نے وہ نکتہ بیان کرنا چھوڑ دیا۔ مطلب یہ کہ صورت کا حج یعنی حجِ صوری تو ہر کوئی کر سکتا ہے، مگر حجِ معنوی ہر ایک کے کرنے کا کام نہیں۔ اور حجِ حقیقی کے راستے میں یہ بات ضروری ہے کہ وہ اس حج کی خاطر اپنی روح کے شہر سے اُٹھے، کیونکہ کہا گیا ہے کہ ﴿مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَیْہِ سَبِیْلًا﴾ (آل عمران: 97)جو اس کی طرف قدرت رکھتا ہو راہ چلنے کی“۔
ایک دن حضرت عمر فاروق رضی اللّٰہ عنہ نے حجرِ اسود کا بوسہ لیا اور حجرِ اسود کو مخاطب فرما کر کہا کہ "إِنَّکَ حَجَرٌ لَّا تَضُرُّ وَلَا تَنْفَعُ لَوْلَا رَأَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ﷺ يُقَبِّلُکَ مَا قَبَّلْتُکَ" (الصحیح للبخاری، کتاب الحج، باب: ما ذکر فی الحجر الأسود، رقم الحدیث: 1597) ”تم ایک پتھر ہو، نہ تو نقصان پہنچا سکتے ہو اور نہ فائدہ، اگر میں اپنے آقا رسول اللّٰہ کو تجھے بوسہ دیتے ہوئے نہ دیکھتا، تو کبھی بھی تجھے بوسہ نہ دیتا“۔ امیر المؤمنین حضرت علی کرم اللّٰہ وجہہ ساتھ تشریف فرما تھے۔ حضرتِ عمر فاروق رضی اللّٰہ عنہ کو مخاطب کر کے فرمایا کہ "مَھْلًا یَّا عُمَرُ! إِنَّہٗ یَضُرُّ وَیَنْفَعُ" ”خیال فرمائیے، اے عمر! (رضی اللّٰہ عنہ) یہ نفع بھی پہنچا سکتا ہے اور نقصان بھی“ "فَقَالَ عُمَرُ مَا ضَرُّہٗ وَمَا نَفْعُہٗ؟" ”حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ نے پوچھا کہ اس کا نفع کیا ہے اور اس کا نقصان کیا ہے؟“ فَقَالَ عَلِيٌّ کَرَّمَ اللّٰہُ وَجْھَہٗ: قَالَ اللّٰہُ تَعَالٰی: ﴿إِلَّا مَنِ اتَّخَذَ عِنْدَ الرَّحْمٰنِ عَھْدًا﴾ (مریم: 87) ”تو حضرت علی کرم اللّٰہ وجہہ نے فرمایا کہ اللّٰہ تعالیٰ فرماتا ہے: ”مگر جس نے لیا ہے رحمٰن سے وعدہ“ یعنی جو عہد کہ ہم نے کیا ہے، وہ عہد نامہ لکھا گیا ہے اور وہ عہد نامہ اس پتھر کے منہ میں رکھا گیا ہے۔ ہمارا بوسہ اس عہد نامے کا ہے، نہ کہ پتھر کا۔ اور رسول اللّٰہ نے فرمایا ہے کہ "اَلْحَجَرُ یَمِیْنُ اللّٰہِ فِي الْأَرْضِ" (الکامل فی الضعفاء لابن عدی، رقم الصفحۃ: 557/1، دار الکتب العلمیۃ، بیروت) ”یہ پتھر اللّٰہ تعالیٰ کا اس کی زمین میں ہاتھ ہے“ اس کو خدا کا ہاتھ کہا گیا ہے۔ اور اے عمر! (رضی اللّٰہ عنہ) تُو اس کو ایک پتھر تصور کرتا ہے؟ جب حضرت عمر رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے حضرت علی کرم اللّٰہ وجہہ سے یہ اسرار معلوم فرمائے، جو کہ اُنہیں فرمانے چاہئیں تھے۔
پس اے بھائی! موسیٰ علیہ السلام کوہِ طور کے دیکھنے کے مشتاق تھے۔ اُن پتھروں کے دیکھنے کے نہیں، بلکہ اس مقام کے کہ جہاں اپنے محبوب سے ہم کلامی کی سعادت اور شرف حاصل کر چکے تھے۔ اور اس مقام کی دید کے مشتاق تھے، نہ کہ پتھروں کے دیکھنے کے شوقین تھے۔ ﴿وَأَنَّ الْمَسَاجِدَ لِلّٰہِ فَلَا تَدْعُوا مَعَ اللّٰہِ أَحَدًا﴾ (الجن: 18) ”اور یہ کہ مسجدیں اللّٰہ تعالیٰ کی یاد کے لئے ہیں، سو مت پکارو اللّٰہ تعالیٰ کے سوا کسی کو“ اے بھائی! کعبہ کا حُسن و جمال یہ پتھر نہیں، جس کو حجاج کرام دیکھتے ہیں، کعبے کا جمال وہ نور ہے، جو کہ اولیاء اللّٰہ کی آنکھوں پر عیاں اور روشن ہے۔ اور کل قیامت کے دن وہ نور ایک خوبصورت شکل میں نمودار ہو کر اپنے زائرین کی شفاعت کے لئے نمودار ہو جائے گا۔ اے بھائی! کسی شخص نے بھی اپنی عُمر میں ایک بار بھی روحِ اعظم کا حج نہیں کیا ہے۔ "اَلجُمُعَۃُ حَجُّ الْمَسَاکِیْنِ" ”جمعہ مسکینوں کا حج ہے“ یعنی اے بھائی! جمعہ روح کا نام ہے، جو کہ جمیع کونین (ساری کائنات) ہے اور کچھ کے نزدیک کونین یعنی کائنات میں ہے کہ "اَلرُّوْحُ جُمُعَۃٌ" ”روح جُمعہ ہے“ کہ رسول اللّٰہ ﷺ نے ایک رمز فرمایا ہے کہ "طَوَافُ الرُّوْحِ حِجَّۃٌ مَّبْرُوْرَۃٌ" (لم أجد ھذا الحدیث) ”روح کا طواف حجِ مبرور و مقبول ہے“ اور یہاں سے یہ معلوم کرو گے کہ "أَوَّلُ مَا خَلَقَ اللّٰہُ نُوْرِيْ" (بحار الأنوار للمجلسی، ھو من غلاۃ الروافض، رقم الصفحۃ: 24/15) اللّٰہ تعالیٰ نے پہلے پہل جو چیز تخلیق فرمائی، وہ میرا نور تھا“ جو کہ ساری کائنات کا منبع اور مصدر ہے۔ چنانچہ اے بھائی! ایک دن بایزید بسطامی رحمۃ اللّٰہ علیہ نے ایک شخص کو دیکھ کر اس سے پوچھا کہ کہاں جاتے ہو؟ اُس نے کہا: "إِلٰی بَیْتِ رَبِّيْ" ”میں اپنے رب کے گھر کی جانب جاتا ہوں“ بایزید رحمۃ اللّٰہ علیہ نے پوچھا: کتنے درہم رکھتے ہو؟ اس نے کہا کہ میرے پاس سات درہم ہیں۔ بایزید رحمۃ اللّٰہ علیہ نے اسے کہا کہ یہ مجھے دے دو اور میرے گرد سات بار طواف کرلو تو گویا کہ تم نے ستر دفعہ حج کیا اور تمھیں ستر حجوں کا ثواب مل جائے گا۔ اُس شخص نے ویسا ہی کیا، لیکن اس کے دل میں خیال آیا کہ ستر حجوں کا ثواب خواب میں دیکھ لوں۔ اسی رات اس نے خواب میں دیکھا کہ اس کے نامۂ اعمال میں ستر مبرور حجوں کا ثواب درج کیا گیا ہے کہ "طَوَافُ الرُّوْحِ حَجٌّ مَّبْرُوْرٌ" ”روح کا طواف حجِ مبرور ہے“ اور اصحابِ شریعت کا فتویٰ ہے کہ "اَلْجُمُعَۃُ حَجُّ الْمَسَاکِیْنِ" جمعہ مسکینوں کا حج ہے۔ بیت:
؂ محرابِ جہاں جمالِ رخسارۂ ماست
سلطانِ جہاں در دِلِ بے چارۂ ماست
شور و شرک و کفر توحید و یقین
در گوشۂ دیدۂ مئے خون خوارۂ ماست
”ہمارے رخسار کا جمال و حُسن دنیا کی محراب و سجدہ گاہ ہے، اور دنیا جہاں کا بادشاہ ہمارے بے چارے اور شکستہ دِل میں جا گزین ہے۔ شور، شرک، کُفر، توحید اور یقین؛ یہ سب ہماری خونخوار آنکھوں کے گوشوں میں ہیں“۔
شیخ محمد حسین رحمۃ اللّٰہ علیہ فرماتے ہیں کہ ابھی اجسام اور کعبہ وغیرہ کی شکل و صُورت نہ تھی کہ ہماری روحِ اعظم، کعبہِ اعظم میں سجدے میں تھی اور یہ اشعار بھی اُنہوں نے پڑھے:
؎ پیش ازاں روز کہ یادِ مے مے خانہ نہ بود
جانِ ما سوی خرابات ہمے کرد سجود
عاشقی را به طوافِ حرمِ کعبہ چه کار
شاہدِ ما چو رخ از خانۂ خمار نمود
”جب شراب اور شراب خانے کا نام تک بھی نہ تھا، اُس سے پہلے ہماری روح خرابات میں سجدہ کرتی تھی۔ جب ہمارے معشوق نے شراب خانے سے اپنا جلوہ دکھایا، تو اب عاشقی کے لئے حرمِ کعبہ کے طواف کی کیا ضرورت ہے؟“
؂ سرِّ وحدت ہمہ روشن شود گہ آن شنود
زنگِ هستی خود از آئینہ ہمے بزدود
بادہ می نوش کہ معشوقِ حقیقی ہرگز
ہر کہ او بستہ زہد است برو در نکشود
گاہ از نعرۂ مستان صبوحی تا روز
اندریں میکدہ چشمان محمد نہ غنود
”وحدت کے راز سب کُھل جائیں گے اور وہ شخص روشنی لے گا، جس نے اپنے آئینے سے ہستی کا زنگ مٹا دیا۔ جو کوئی کہ زہد کا پابند ہوا ہے، اُس پر معشوقِ حقیقی نے اپنا دروازہ رحمت نہیں کھولا۔ اس لئے شراب پیتا رہ۔ جامِ صبوحی کے مستوں کے نعروں سے دن چڑھنے تک اس شراب خانے میں محمد کی آنکھوں میں نیند تک نہ آئی“۔
شیخ محمد حسین رحمۃ اللّٰہ علیہ نے فرمایا ہے کہ بشریت اور شریعت میں کعبۂ ربوبیت کو بیان کروں، لیکن اس کے متعلق میں نے رمز اور اشارہ کیا ہے۔ اسلام کے اِن پانچ ارکان کے متعلق میں نے حقیقت کا بیان کیا، اس کے بعد کعبہ شریفہ کے اعجاز بیان کروں گا۔
﴿إِنَّ أَوَّلَ بَیْتٍ وُّضِعَ لِلنَّاسِ﴾ (آل عمران: 96) سب سے پہلے خانہ کعبہ کو بنایا گیا ہے، جو کہ مکہ مکرمہ میں ہے۔ جب اللّٰہ تعالیٰ نے زمین کو پیدا کیا اور اس کو فرشتوں کے سکونت اختیار کرنے کا مقام بنایا، زمین میں سے سبز رنگ کے زمرد سے جہاں آج کل خانہ کعبہ ہے، ایک محل بنایا اور اسی غرض کے مطابق یہ ایک گوہر (دانہ زمرد) سے بنایا گیا اور اس میں کوئی جوڑ نہیں تھا اور اس کو فرشتوں کا قبلہ بنایا۔ تعمیر کی تاریخ سے حضرت نوح علیہ السلام کے زمانے تک اُسی جگہ وہ محل موجود تھا۔ جب طوفانِ نوح آیا، تو اللّٰہ تعالیٰ نے وہ گھر اُٹھایا اور اسے چوتھے آسمان پر لے گیا۔ چنانچہ جیسا کہ زمین میں قبلہ موجود ہے آسمان میں بھی قبلہ ہے اور اس قبلے کے عین مقابل کعبہ ہے۔ اُس قبلے کو بیت المعمور کہتے ہیں۔ اور اس کعبہ سے بیت المعمور تک اور بیت المعمور سے ساتویں آسمان تک بھی قبلہ ہے۔ اور کعبہ سے نیچے کی جانب ساتویں زمین تک بھی قبلہ ہے اور وہ بھی کعبہ کے مد مقابل ہے۔ کیا تُو نہیں دیکھتا کہ حضرت یوسف علیہ السلام اور حضرت یونس علیہ السلام کنویں اور مچھلی کے پیٹ میں جب نماز پڑھتے تھے، تو اسی قبلے کی طرف رخ کرتے تھے۔ ﴿لَلَّذِيْ بِبَکَّۃَ مُبَارَکًا﴾ (آل عمران: 96) مکہ کو مبارک کہا یا کعبہ کو مبارک کہا اور صحیح بات یہ ہے کہ یہ مکہ ہے اور مکہ کی مبارکی اس لئے کہ رسول اللّٰہ کو اس مٹی سے پیدا کیا اور حضرت آدم علیہ السلام کی خلافت کا اجلاس بھی اسی جگہ پر تھا اور حضرت آدم علیہ السلام کا تخت بھی کعبہ کے مقام میں تھا، یا اس وجہ سے مبارک ہے کہ جو کوئی وہاں جائے گا، اُسے قبر کا عذاب نہیں ہو گا، یا اس وجہ سے مبارک ہے کہ جو کوئی مکہ مکرمہ آ جائے، تو اُسے برص یا جذام نہیں ہوتا۔ یہ بات اسی حدیث میں ہے۔ اور یا اس وجہ سے مبارک ہے کہ رحمت کا نزول پہلے سے وہاں پر ہو گا اور وہاں سے دنیا کی اطراف میں پھیل جائے گا۔ اور یا اس لئے مبارک ہے کہ دنیا کی پیدائش سے لے کر قیامت تک کئی ہزار انبیاء، اولیاء، زہاد، عبادت گزار اور اوتادوں کی رہائش گاہ رہا ہے، یا اس وجہ سے مبارک ہے کہ اس کی جانب ہر طرف سے نماز کے لئے رخ کرنا جائز ہے، یا اس لئے مبارک ہے کہ دوسرے مقاموں سے وہاں کی عبادت کا بہت زیادہ ثواب ہے۔ قَالَ اللّٰہُ تَعَالٰی: ﴿وَھُدًی لِّلْعَالَمِیْنَ﴾ (آل عمران: 96) ”اور عالمین کے لئے عبادت ہے“۔ جس کسی نے اس کی کرامتیں اور نشانیاں دیکھ لیں، وہ مسلمان ہو گیا۔ چنانچہ روایت ہے کہ ایک دن پیغمبر نے فرمایا کہ جو کوئی حالتِ جنابت میں کعبہ کے دروازے کو پکڑے، اس کا ہاتھ خشک ہو جاتا ہے۔ ایک کافر کو آدھی رات کو جنابت پیش آئی، اس نے کعبہ کی طرف ہاتھ بڑھایا، اُسی وقت اس کا ہاتھ خشک ہو گیا۔ صبح سویرے وہ کافر رسول اللّٰہ کی خدمتِ عالیہ میں حاضر ہوا اور مسلمان ہو گیا۔ اور ایک قول کے مطابق ﴿ھُدًی لِّلْعَالَمِیْنَ﴾ (آل عمران: 96) کا مفہوم "قِبْلَۃُ الْعَالَمِیْنَ أَيْ قِبْلَۃُ الْمُسْلِمِیْنَ" اور ایک قول کے مطابق "مَلْجَأٌ لِّلْعَالَمِیْن" یعنی مسلمانوں کا قبلہ اور دنیا جہاں والوں کا ملجا ہے۔ آگے فرمایا گیا ہے: ﴿اٰیَاتٌ بَیِّنَاتٌ﴾ (آل عمران: 97) یعنی اس میں روشن نشانیاں ہیں۔ آیاتِ بینات، یعنی اس میں کرامتیں اور برکتیں اور مظاہرِ سعادت ہیں۔ ایک نشانی اور کرامت تو یہ ہے کہ کوئی پرندہ اُس کے اوپر نہیں گزر سکتا، اور اگر قصد کرے، تو اُسی وقت جل اٹھتا ہے۔ دوسری کرامت اور نشانی یہ ہے کہ جب کوئی درندہ شکار پر حملہ آور ہوتا ہے اور شکار حرم میں داخل ہو جاتا ہے، تو اگر وہ درندہ شکار پر حملہ کرنے سے تب بھی باز نہ آئے، تو وہ درندہ فوراً ہلاک ہو جاتا ہے، اس طرح باز کا حال ہے، جب وہ حدودِ حرم میں کبوتر پر جھپٹنا چاہے۔ تیسری کرامت یہ کہ جب صحرائی جانور بیمار ہو جائیں، وہ ایسی جگہ کھڑے ہو جائیں جہاں کعبہ کی جانب سے ہوا چلتی ہو، جب ہوا کا کوئی ایسا جھونکا کعبہ کی جانب سے آئے اور اُن کو وہ ہوا لگ جائے، تو وہ فوراً صحت یاب ہو جاتے ہیں۔ چوتھی کرامت یہ ہے کہ خانہ کعبہ کو دیکھنے سے کوئی سیر نہیں ہوتا۔ پانچویں کرامت یہ ہے کہ جو شخص اس کے خراب کرنے اور اجاڑنے کا ارادہ کرے، وہ ہلاک ہو جاتا ہے جیسا کہ اصحابِ فیل کا واقعہ مشہورِ عالم ہے۔ چھٹی کرامت یہ ہے کہ اگر جُنبی آدمی اس کی طرف ہاتھ بڑھائے، تو اس کا ہاتھ خشک ہو جاتا ہے۔ ساتویں کرامت یہ کہ وہ کسی وقت بھی طواف سے خالی نہیں رہتا۔ بایزید بسطامی رحمۃ اللّٰہ علیہ نے فرمایا کہ میں چالیس دن حرمِ کعبہ میں تھا، میں چاہتا تھا کہ کسی وقت کعبہ کو خالی پاؤں اور میں طواف کروں، مجھے کسی وقت بھی یہ طواف سے خالی نہیں ملا۔ آٹھویں کرامت یہ ہے کہ اس کی محبت مسلمانوں کے دلوں میں جاگزیں ہے، اگرچہ انہوں نے اس کو نہیں دیکھا۔ نویں کرامت یہ ہے کہ جو کوئی اس کو دیکھے، اس کی آنکھوں میں آنسو آتے ہیں۔ دسویں کرامت یہ ہے کہ جس نے اس کی زیارت کی، تو اس کا اثر اس پر ضرور ہوتا ہے۔ گیارہویں کرامت یہ ہے کہ ایک شخص نے ارادہ کیا کہ بیت المقدس کی زیارت کو جائے، اس کے پاس چند ہزار اشرفیاں تھیں، خانہ کعبہ کے اندر ان کو رکھا اور چلا گیا کہ کوئی یہاں سے چوری نہیں کر سکتا۔ ایک چور اس سے باخبر ہوا، اس نے ایک سرنگ بنائی اور اس کے نزدیک سرنگ لے جا کر سوراخ کر دیا اور اس سے سر باہر نکالا اور اس مال کی جانب ہاتھ بڑھایا، اللّٰہ تعالیٰ نے زمین کو حکم دیا کہ سکڑ کر تنگ ہو جاؤ۔ جب زمین تنگ ہو گئی، تو اس کا سر بدن سے کٹ کر جدا ہو گیا اور اس مال کے نزدیک پڑا رہا۔ ایک آواز آئی کہ جو کوئی ہمارے گھر میں چوری کی نیت سے آئے گا، تو وہ اپنا سر ضائع کرے گا۔ یہ آواز کعبہ کے مجاوروں نے سنی۔ انہوں نے جب کعبہ کا دروازہ کھولا، تو اس آدمی کو پاس پڑا ہوا پایا۔ بارہویں کرامت یہ ہے کہ ایک شخص کعبے کے اندر مصروفِ عبادت تھے۔ حسبِ معمول انہوں نے دروازہ بند کیا اور دروازے کو مقفل کر کے چلے گئے۔ جب آدھی رات گزری، تو ان کو حاجتِ ضروری کا تقاضا ہوا، مجاوروں کو اندر سے بہت آوازیں دیں، مگر کسی نے دروازہ نہیں کھولا۔ وہ شخص مجبوراً خانہ کعبہ کے اندر حاجتِ انسان سے فارغ ہوا۔ صبح نکل آیا اور اپنے اس بُرے کام کی شرم کی وجہ سے بھاگ نکلا۔ جب مجاور خانہ کعبہ کے اندر آئے، تو انہوں نے مشکِ ازفر کی ایک پوٹلی دیکھی۔ مجاوروں نے اعلان کیا کہ اے برادرانِ اسلام! یہاں کسی نے مشک کی پوٹلی چھوڑی ہے؟ کسی نے جواب نہ دیا، یہاں تک کہ وہ آدمی آیا اور اس نے اپنا قصہ بلا کم و کاست بیان کیا۔ تیرھویں کرامت یہ ہے کہ زمانۂ جاہلیت میں "رخاب" نام کی ایک عورت تھی، وہ "عقیل" نام کے ایک مرد پر عاشق تھی۔ ایک رات اس کو خانہ کعبہ کے اندر پکڑ کر اپنی خواہش پوری کی۔ دونوں کی شرم گاہیں ایک دوسرے کے ساتھ چسپاں رہ گئیں۔ بہت زور لگایا، مگر کسی حالت میں بھی جدا نہ ہو سکے۔ صبح لوگوں کے درمیان ذلیل ہوئے۔ تین دن اسی طرح تھے۔ چوتھے دن ہلاک ہوئے اور اُن کی شکل خنزیر کی مانند ہو گئی۔ چودھویں کرامت یہ ہے کہ ایک شخص نے طواف کی حالت میں ایک پرائی عورت کو بری نگاہ سے دیکھا، اُسی وقت اندھا ہو گیا۔ پندرھویں کرامت یہ ہے کہ ایک شخص چوری کی تہمت میں پکڑا گیا، اس نے کہا کہ میں کعبہ کی قسم کھاتا ہوں۔ مخالف راضی ہو گیا، جونہی چور نے کعبہ پر ہاتھ رکھنا چاہا، اسی وقت اس کا ہاتھ خشک ہو گیا۔ سولہویں کرامت یہ ہے کہ ایک دفعہ خادمانِ کعبہ، کعبہ کے اندر چلے گئے اور چاہا کہ رسول اللّٰہ کے سامنے کچھ بہانہ بیان کریں، انہوں نے کعبہ کے اندر ایک آواز سنی کہ میرے دوست کے ساتھ فریب دہی کی کوشش نہ کرو، تم اس میں کامیاب نہ ہوگے۔ یہ سُن کر سب بھاگ نکلے۔ سترھویں کرامت یہ ہے کہ رسول اللّٰہ نے فرمایا ہے کہ جو کوئی خانہ کعبہ کو بہت دیکھا کرے، تو اس کی بینائی تیز ہو جائے گی۔ اٹھارہویں کرامت یہ ہے کہ اس میں جتنے لوگ بھی جمع ہو جائیں، سب سما سکتے ہیں۔ انیسویں کرامت یہ ہے کہ جو شخص خانہ کعبہ کے ساتھ اپنا جسم مَل دے، تو اس کی وہ جسمانی تکلیف زائل ہو جاتی ہے۔ بیسویں کرامت یہ ہے کہ ایک دن ابوجہل اپنے غلام پر غصے ہوا اور اس کے پیچھے بھاگا۔ غلام خانہ کعبہ کے اندر جا گھسا۔ یہ بھی تعاقب کرتے ہوئے اندر گھسا، فوراً اسی وقت اندھا ہو گیا۔ تبرک کے خیال سے اس کی مٹی آنکھوں میں ڈالی، تو بلا تاخیر پھر بینا ہو گیا۔ اکیسویں کرامت یہ ہے کہ نوشیروان عادل، بزرجمہر پر غصہ ہوا اور اس کو مکہ مکرمہ میں قید کر دیا۔ ایک رات چھت پر کھڑا تھا کہ آسمان سے ایک نور کو دیکھا جو کہ خانہ کعبہ پر پڑ رہا تھا۔ فوراً دُعا کی کہ اے خدا! اس گھر کے طفیل مجھے اس قید سے نجات عطا فرما۔ ابھی وہ چھت پر سے نہیں اُترا تھا کہ نوشیروان نے قاصد بھیج کر اس کو قید سے رہائی دے دی۔ وہ اُسی وقت اللّٰہ تعالیٰ پر دل میں ایمان لایا۔ غرض خانہ کعبہ کی آیاتِ بینات بہت زیادہ ہیں، اختصار کے طور پر یہ چند بیان کی گئی ہیں۔ وَقَالَ اللّٰہُ تَعَالٰی: ﴿مَقَامُ إِبْرَاھِیْمَ﴾ (آل عمران: 97) چونکہ آخری عمارت حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دستِ مبارک کی بنائی ہوئی ہے۔ اسی وجہ سے آپ کے اسم گرامی کے ساتھ اضافت کی گئی۔ کہتے ہیں کہ کعبہ کو سات مرتبہ تعمیر کیا گیا ہے۔
تشریح:
حج بہت بڑی عبادت ہے۔ حج چونکہ پوری زندگی میں ایک دفعہ فرض ہوتا ہے، اس لئے اس کے اندر اللّٰہ پاک نے بہت کچھ رکھا ہے اور انسانیت کی تکمیل اس کے ذریعے سے ہوتی ہے۔ حج میں خاص طور پہ تین چیزوں سے روکا گیا ہے: ﴿فَلَا رَفَثَ وَلَا فُسُوْقَۙ وَلَا جِدَالَ فِی الْحَجِّ (البقرہ: 197)
ترجمہ: ’’تو حج کے دوران نہ وہ کوئی فحش بات کرے، نہ کوئی گناہ، نہ کوئی جھگڑا‘‘۔
یعنی نظروں کی حفاظت کا حکم فرمایا گیا کہ نظروں کی حفاظت کرو۔ اللّٰہ کی نافرمانی مت کرو اور جدال یعنی لڑائی جھگڑا نہ کرو۔ وہاں ان تینوں باتوں کے مواقع بہت زیادہ ہوتے ہیں، اس لئے یہ مجاہدہ کرایا جاتا ہے۔ جو اس مجاہدے کو کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے، تو الحمد للہ عمر بھر اس کو نظروں کی حفاظت بھی نصیب ہو جاتی ہے اور ناحق لڑائی جھگڑے سے بھی پرہیز ہو جاتا ہے اور نافرمانی سے بھی حفاظت ہو جاتی ہے۔ اللّٰہ تعالیٰ کی نافرمانی عام ہے، کیونکہ جدال بھی اللّٰہ تعالیٰ کی نافرمانی ہے اور رفث بھی اللّٰہ تعالیٰ کی نافرمانی ہے، لیکن ان دونوں کا علیحدہ علیحدہ ذکر ہے۔ رفث کا علیحدہ ذکر ہے جو خود ایک نافرمانی ہے اور جدال کا بھی علیحدہ ذکر ہے اگرچہ وہ بھی نافرمانی ہے۔ رفث میں انسان اپنے آپ کو نقصان دیتا ہے، کسی اور کو تو نقصان نہیں دے سکتا، کیونکہ بد نظری میں اپنا ہی نقصان ہوتا ہے۔ جدال میں دوسرے کو بھی نقصان دیتا ہے۔ گویا وہ نافرمانی جو خود کو نقصان دینے والی ہے اور وہ نافرمانی جو دوسروں کو نقصان دینے والی ہے، ان کا خاص طور پر علیحدہ ذکر کیا ہے۔ ویسے نافرمانی عام ہے، ہر قسم کی نافرمانیوں سے بچنا چاہئے۔ بہر حال حکم ہے:
﴿فَلَا رَفَثَ وَلَا فُسُوْقَۙ وَلَا جِدَالَ فِی الْحَجِّ (البقرہ: 197)
اس کی وجہ یہ ہے کہ حج خانہ کعبہ کے قریب ہوتا ہے اور خانہ کعبہ میں اللّٰہ پاک نے بہت سی بزرگیاں اور کرامتیں رکھی ہیں۔ ان تمام چیزوں کے ہوتے ہوئے روحانیت اس طرح بڑھ سکتی ہے کہ ان چیزوں کے اوپر عمل ہو سکے۔ جیسے: کسی کو ٹریننگ دی جاتی ہے، تو انگلی سے پکڑ کے چلایا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ انگلی کو چھوڑیں نہیں۔ اور جو انگلی چھوڑتا ہے، وہ مارا جاتا ہے۔
اسی طرح حج میں اگر ان تین چیزوں کو انسان اللّٰہ کی طرف سے خصوصی نعمت سمجھے کہ مجھے اب ٹریننگ دی جا رہی ہے اور خانہ کعبہ کے ساتھ انگلی پکڑ کر ان تین چیزوں کو حاصل کر لے، تو جب ہماری انگلی چھوٹ جائے گی یعنی ہم یہاں (مکہ) سے چلے جائیں گے، تو ان شاء اللّٰہ ہم اتنی تربیت حاصل کر چکے ہوں گے کہ خود ہم ان چیزوں سے بچ سکیں۔ لہٰذا خانہ کعبہ کی روحانیت کی برکت سے ان تینوں چیزوں پہ خصوصی محنت کرنی چاہئے، کیونکہ خانہ کعبہ کی بزرگی بہت زیادہ ہے۔ نافرمانی کے مواقع زیادہ ہیں، لیکن روحانیت بھی ساتھ دے دی گئی۔ یعنی چونکہ عورتیں بھی طواف کرتی ہیں اور مرد بھی طواف کرتے ہیں، لہٰذا جب عورتیں ساتھ طواف کر رہی ہوتی ہیں، تو نظر ان کی طرف اٹھ سکتی ہے۔ ایسی صورت میں اللّٰہ تعالیٰ کے حکم سے اپنی نظروں کو وہاں سے ہٹانا، روحانیت کے ذریعے سے ممکن ہے، بشرطیکہ اگر کوئی فائدہ اٹھانا چاہے۔ لیکن اگر کوئی فائدہ نہ اٹھانا چاہے، تو اس کی مرضی۔ جیسے: شیطان اللّٰہ تعالیٰ کے سامنے تھا۔ وہ جانتا بھی تھا، لیکن اس نے نافرمانی کی، تو پھر اس کا انجام کیا ہوا؟ اس لئے یہاں پر بھی نافرمانی کرنا شیطانیت اور بڑی خباثت کی بات ہے، اس سے اپنے آپ کو بچانا چاہئے۔ کیونکہ یہاں کا مردود پھر بچتا نہیں ہے۔
حجرِ اسود کی جو بزرگی ہے، جو حضرت علی کرم اللّٰہ وجہہ نے حضرت عمر رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کے سامنے بیان فرمائی ہے کہ یہ نفع بھی پہنچا سکتا ہے اور نقصان بھی پہنچا سکتا ہے۔ یہ انہوں نے اسباب کے دائرے میں فرمایا۔ اصل میں حضرت عمر رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ پہ توحید غالب تھی، اس لئے انہوں نے کہا کہ یہ نہ نفع پہنچا سکتا ہے، نہ نقصان پہنچا سکتا ہے۔ اللّٰہ ہی نفع پہنچاتے ہیں۔ لیکن اللّٰہ پاک نے جو اسباب بنائے ہیں، حضرت علی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کی نظر ان اسباب پر تھی۔ ان اسباب کو اختیار کرنا ہوتا ہے۔ اسی طرح حجرِ اسود ایک روحانی سبب ہے۔ جب انسان اس کے سامنے گزرتا ہے اس وقت اس کی جو بھی قلبی حالت ہوتی ہے اس پر مہر لگ جاتی ہے۔ پھر وہ اسی حالت پر رہتا ہے۔ اگر وہ توبہ کر کے نہ گزرے اور اپنے آپ کو نہ بچا سکے، تو اس کی یہ حالت اپنے مُلک میں بھی رہے گی۔ اس سے یہ نقصان ہو گا کہ اس کی تمام بری باتیں کھل جائیں گی۔ پہلے اس کے بارے میں لوگ جو حسنِ ظن کرتے تھے، وہ حسنِ ظن نہیں رہے گا۔ لہذا اگر کوئی اپنے آپ کو اس سے بچانا چاہتا ہے، تو یہاں توبہ تائب ہو کر آئے۔ اپنے آپ کو محفوظ کر کے اس کے سامنے گزرے۔ طواف کی کثرت مطلوب نہیں ہے، کیفیت مطلوب ہے۔ اگرچہ ایک طواف ہی ہو، لیکن صحیح ہو۔ جس میں یہ کیفیت حاصل ہو جائے، تو اس پر مُہر لگ جائے گی۔ اور اگر کئی طواف کر لئے اور ان میں اس کو یہ چیز حاصل نہ ہو، تو کوئی فائدہ نہیں ہے۔ بعض لوگ کثرت کے ساتھ طواف کرتے ہیں، شوق میں ہوتے ہیں، لیکن اس کیفیت کو حاصل نہیں کر پاتے۔ اسی وجہ سے لوگوں کو حقیقت کی طرف لانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ہمارے کاکا صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ کی تعلیمات میں حقیقت کا بار بار ذکر ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ لوگ ان چیزوں کو mechanical سمجھ لیتے ہیں کہ بس بٹن دبا دیا اور وہ کام ہو گیا۔ اس میں یہ سمجھایا گیا کہ بٹن والی بات نہیں ہے۔ بلکہ پیچھے پورا ایک مکانیزم (mechanism) ہے۔ جب تک وہ پورا مکانیزم موجود نہ ہو، تو کام نہیں بنتا۔ یہاں یہ بات سمجھنا بہت اہم ہے۔ یہاں چونکہ دنیا جہان کے لوگ آئے ہوتے ہیں، اس لئے یہاں اس کمی کو سمجھنا بہت اہم ہے کہ جن لوگوں کی عادت یہ ہوتی ہے کہ وہ چیز کے ظاہر کو لیتے ہیں، اس کے باطن کو نہیں لیتے، تو ان کا انجام یہ ہوتا ہے کہ وہ اس چیز کو حاصل نہیں کر پاتے۔ مثلاً: حجر اسود کو بوسہ دینا یقیناً فائدہ کی چیز ہے۔ جیسے: حضرت علی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: ’’إِنَّہٗ یَضُرُّ وَیَنْفَعُ‘‘ ’’یہ نفع بھی پہنچاتا ہے اور نقصان بھی پہنچاتا ہے‘‘۔ لیکن اگر کوئی شخص ظلم کر کے جائے گا، تو اس کی اسی حالت پر مُہر لگ جائے گی اور وہ بھیڑیے کے طور پہ سامنے آئے گا۔ اس کے دل پہ بھیڑیا پن کی مُہر لگ جائے گا اور پھر وہ نتیجتاً اپنے ملک میں وہی کام کرے گا اور اس کی بری صفت عام ہو جائے گی اور اس سے بچنا اس کے لئے بہت مشکل ہو جائے گا۔ اس لئے بہت سارے حضرات جو اس چیز سے ڈرتے ہیں، وہ دور سے ہی استلام کرنے پر اکتفاء کرتے ہیں، لیکن اس کے قریب نہیں جاتے، کیونکہ ان کو پتا ہوتا ہے کہ ایک دم سے ظلم ہو جائے گا۔ اور جو mechanical سمجھتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ بس ہم چاہے کسی طریقے سے بھی پہنچ جائیں، تو وہ چیز مل جائے گی، حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ پورا ایک mechanism ہے۔ جیسے: پیچھے اگر سرکٹ (circuit) نہ ہو، آپ بٹن کو لاکھوں مرتبہ دبائیں، تو کچھ بھی نہیں ہو گا۔ سرکٹ کا موجود ہونا ضروری ہے۔ اور وہ سرکٹ منشاء الہیٰ ہے۔ منشاء الہیٰ آپ کے دل کو دیکھتی ہے، وہ آپ کے ظاہر کو نہیں دیکھتی۔ یہ جو بار بار حقیقت کی باتیں کی جاتی ہیں، وہ اس لئے نہیں کی جاتی کہ نعوذ باللّٰہ من ذلک باریک بینی کا شوق ہے۔ باریک بینی کا شوق نہیں ہے۔ اصل میں وہ سرکٹ سمجھا رہے ہیں کہ پیچھے سرکٹ کیا ہے۔ ظاہر ہے کہ اصل چیز تو حکم ہے، لیکن اس کے پیچھے احکامات کی ایک باطنی سیریز ہے۔ اگر وہ پوری نہ ہو، تو ظاہر کام نہیں دے گا۔ مثلاً: آپ نماز بالکل اچھی طرح پڑھ لیں، لیکن آپ کی نیت نہ ہو، تو آپ کی نماز نہیں ہو گی۔ حالانکہ نماز کے ڈہانچے کے لحاظ سے اس میں کوئی کمی نہیں ہے۔ اسی طرح اگر زبان سے کہہ دیا، مگر دل میں نیت نہ ہو، تو پھر بھی نماز نہیں ہو گی۔ اس سے پتا چلا کہ اس کے پیچھے ایک سرکٹ ہے، جب تک وہ کام نہیں کرے گا، اس وقت تک آپ وہ چیز حاصل نہیں کر سکتے۔ اور حج میں یہ چیز زیادہ سمجھ میں آتی ہے۔ کیونکہ یہاں پر عبادات کا رخ الگ ہے۔ ان عبادات میں حرکت ہے اور حرکت سے دوسروں کے ساتھ ٹکراؤ ہے۔ پھر انسان کی اپنے نفس کی صورت سامنے آتی ہے کہ وہ کیسا ہے۔
بہر حال! خانہ کعبہ کی بزرگیاں بہت زیادہ ہیں، خانہ کعبہ کی برکات بہت زیادہ ہیں، لیکن جب تک ہمارے دل کا رخ اللّٰہ کی طرف نہیں ہو گا، اس وقت تک ان چیزوں سے کچھ حاصل نہیں ہو گا۔ ہم ظاہری چیزوں سے متاثر ہوں گے۔ نتیجتاً باطنی چیزوں کے اوپر نظر نہیں جائے گی اور ہمیں وہ چیز نہیں ملے گی، جو اس میں نظر آنی چاہئے۔ شیخ سعدی رحمۃ اللہ علیہ کا ایک شعر ہے۔
خرِ عیسٰی اگر بمکہ رود
چوں بیاید ہنوز خر باشد
(عیسٰی کا گدھا اگر مکہ بھی چلا جائے وہ جب واپس آئے گا، گدھے کا گدھا ہی رہے گا۔)
انسان کی اپنی جو حقیقت ہے، اس کے ذریعے سے وہ بندہ ظاہر ہو جاتا ہے۔ اس لئے یہاں کی برکات حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم حجرِ اسود کی حقیقت سے آگاہ ہو جائیں، خانہ کعبہ کی حقیقت سے آگاہ ہو جائیں، عرفات کی حقیقت سے آگاہ ہو جائیں، مزدلفہ کی حقیقت سے آگاہ ہو جائیں، روضۂ اقدس کی حقیقت سے آگاہ ہو جائیں اور اپنے نفس کے اوپر جبر کر کے ہم منشاءِ الہیٰ کے مطابق حج بھی کریں۔ منشاءِ الہیٰ کے مطابق روضۂ رسول پر بھی جائیں اور آپ ﷺ کے طریقہ کا خیال کریں ظاہراً ور باطناً دونوں اعتبار سے۔ اور اگر ایسا نہیں ہے، تو پھر بظاہر تو حاجی بن جاؤ گے، لیکن حجرِ اسود کی کسوٹی آپ کو ظاہر کر دے گی کہ آپ جیسے ہیں وہی حالت آپ کی ظاہر ہو جائے گی۔ لہٰذا حج کے اندر اس کیفیت کو حاصل کرنے کے لئے یہ بہت ضروری ہے کہ ہم ان چیزوں کو mechanical نہ سمجھیں۔
روح کا بھی یہی مطلب ہے کہ اگر کوئی شخص اصل کو پا لے، مثلاً: جب وہ طواف کرے اور طواف میں اس کا یہ تصور ہو کہ میں اللّٰہ جل شانہ کی اس تجلی کا طواف کر رہا ہوں جو اس خانہ کعبہ کے اوپر ہے، تو وہ اس تجلی کا نور پاتا جائے گا اور اس سے اس کا دل منور ہوتا رہے گا۔ خانہ کعبہ انبیاءِ کرام کی تربیت گاہ ہے، انبیاء کرام کی تربیت اس میں ہوئی تھی اور اب بھی جن کے مشائخ فوت ہو جائیں اور ان کے بڑے نہیں رہتے، تو ان کو یہاں آنا پڑتا ہے اور ان کو فیض حاصل ہوتا ہے۔ لہذا جو اس کے سامنے تربیت کے نقطۂ نگاہ سے دیکھ کر اپنی آنکھوں سے اس سے لینا شروع کر لے، تو وہ پاتا جاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ انسان ہے، اسے لینے کا ڈھنگ نہیں آتا، اس وجہ سے حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ نے طریقہ سکھایا ہے، اگر ہم اس طریقہ پر چلیں، تو زیادہ آسانی سے کام ہو جائے گا۔
یقیناً اللّٰہ کی طرف سے فیض آ رہا ہے اور سب کو آ رہا ہے، لیکن اسے ہم صحیح انداز میں وصول کر سکیں۔ اس کے لئے آپ ﷺ واسطہ ہیں۔ آپ ﷺ کے قلب پر فیض آتا ہے، پھر آپ ﷺ سے شیخ کے قلب پر اور شیخ کا مرید کے دل پر اثر ہوتا ہے، پھر پیر اپنے مریدین کے لئے دروازہ بنتا ہے اور شیخ کے قلب سے پھر مرید کے قلب پر آتا ہے۔ اگر کوئی خانہ کعبہ پر آ کر یہ تصور کر لے کہ خانہ کعبہ پر جو رحمت آ رہی ہے، وہ آپ ﷺ کے قلب پہ آ رہی ہے اور پھر شیخ کے قلب پر اور پھر وہاں سے میرے قلب پر آ رہی ہے، تو سبحان اللّٰہ فیض آتا رہے گا اور وہ بھی اس سے مستفید ہوتا رہے گا۔ لیکن اس چیز کو حاصل کرنے کی نیت تو کم از کم ہونی چاہئے۔ کیونکہ اگر نیت ہی نہیں، تو گویا اس کو اس کا پتا ہی نہیں ہے۔ اس کو اس کا احساس ہی نہیں ہے۔ اس کے لئے صرف دیکھنا ہی ہے۔ ایک بزرگ فرماتے تھے کہ مومن بد نیت نہیں ہے، بے نیت ہے۔ یعنی اس کی نیت نہیں ہے۔ اس کے پاس اس کی صحیح نیت ہونی چاہئے اور نیت سے سارے مسئلے حل ہوتے ہیں۔ ’’إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ‘‘ (بخاری شریف، حدیث نمبر: 1)
ترجمہ: ’’تمام اعمال کا دار و مدار نیتوں پر ہے‘‘۔
لہذا اگر کوئی صحیح نیت کے ساتھ عمل کرے گا، تو اس کو اس کا فائدہ ہو گا۔ اسی طرح اگر ہم صحیح نیت کے ساتھ طواف کر لیں، صحیح نیت کے ساتھ عبادت کر لیں، تو ان شاء اللّٰہ العزیز یہاں سب کچھ مل سکتا ہے۔ لیکن یہ تب ہو گا، جب یہ ان چیزوں کے ادراک کے ساتھ ہو۔
اللّٰہ تعالیٰ ہم سب کو زیادہ سے زیادہ اس کی برکات عطا فرمائے۔
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ