جدید دور کے فتنے

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
﴿قَالَ رَبِّ اِنِّیْ لَاۤ اَمْلِكُ اِلَّا نَفْسِیْ وَاَخِیْ فَافْرُقْ بَیْنَنَا وَبَیْنَ الْقَوْمِ الْفٰسِقِیْنَ﴾ (المائدۃ: 25)
وَقَالَ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ وَقَدْ ذَکَرَ بَعْضَ الْفِتَنِ۔ قَالُوۡا: فَمَا تَأْمُرُنَا؟ قَالَ: ’’كُوۡنُوۡا أَحْلَاسَ بُيُوۡتِكُمْ‘‘۔ (ابو داؤد، حدیث نمبر: 4262)
’’وَقَالَ عَلَیْہِ الصَّلوٰۃُ وَالسَّلَامُ: يُوْشِكُ أَنْ يَّكُوْنَ خَيْرُ مَالِ الْمُسْلِمِ غَنَمًا يَّتْبَعُ بِهَا شَعَفَ الْجِبَالِ وَمَوَاقِعَ الْقَطْرِ يَفِرُّ بِدِيْنِهٖ مِنَ الْفِتَنِ‘‘۔ (ابو داؤد، حدیث نمبر: 4269)
وَقَالَ عَلَیْہِ الصَّلوٰۃُ وَالسَّلَامُ فِی الْفِتَنِ: ’’تَلْزَمُ جَمَاعَةَ الْمُسْلِمِيۡنَ وَإِمَامَهُمْ۔ قِیْلَ: فَإِنْ لَّمْ تَكُنْ لَّهُمْ جَمَاعَةٌ وَّلَا إِمَامٌ؟ قَالَ: فَاعْتَزِلْ تِلْكَ الْفِرَقَ كُلَّهَا‘‘۔ (صحیح مسلم، حدیث نمبر: 4890)
وَقَالَ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ: ’’اَلْوَحْدَةُ خَيْرٌ مِّنْ جَلِيۡسِ السُّوۡءِ، وَالْجَلِيۡسُ الصَّالِحُ خَيْرٌ مِّنَ الْوَحْدَةِ‘‘۔ (المستدرك على الصحيحين، حدیث نمبر: 5466)
صَدَقَ اللہُ الْعَظِیْمُ وَصَدَقَ رَسُوْلُہُ النَّبِیُّ الْکَرِیْمُ
اس وقت جو حالات ہیں، زیادہ ضرورت اس بات کی ہے کہ ان حالات کے متعلق بات کی جائے۔ ادھر ادھر کی باتوں سے کوئی فائدہ نہیں ہے۔ مثلاً: ایک شخص مر رہا ہے اور آپ اس کے زکام کا علاج کر رہے ہیں، تو یہ عجیب بات ہے۔ کیونکہ پہلے تو اس کو موت سے بچانے کی کوشش کریں۔ اس کا دل بیٹھ رہا ہے اور آپ کہتے ہیں کہ اس کا زکام ٹھیک ہونا چاہئے۔ مقصد یہ ہے کہ جو فوری تقاضا ہو، اس پہ عمل کرنا چاہئے۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ لوگوں کے ایمان خطرے میں پڑ رہے ہیں اور ہر طرف سے فتنے برپا ہو رہے ہیں۔ فتنہ اس چیز کو کہتے ہیں، جس کے بارے میں انسان کو پتا نہ ہو کہ یہ غلط ہے اور اس میں مبتلا ہونے کا اس کو اندیشہ ہو۔ جو ظاہری چیز ہوتی ہے، اس کو فتنہ نہیں کہتے۔ اس کو ہم غلط چیز کہہ سکتے ہیں، لیکن فتنہ وہ ہوتا ہے، جس کا پتا نہ چلے کہ اس کا نقصان ہے اور نقصان اس میں ہو۔ مثلاً: کینسر کی بیماری خطرناک اس لئے ہے کہ اس کا پتا اس وقت چلتا ہے، جب انسان آخری stage پہ پہنچ چکا ہوتا ہے۔ وہ خوش قسمت ہوتا ہے، جس کو کسی وجہ سے پہلے stage پر معلوم ہو جائے۔ ورنہ اکثر صورتِ حال علاج سے گزر چکی ہوتی ہے۔ اُس وقت صرف اس کی موت کو آسان بنانے کی ترکیب کی جاتی ہے اور کچھ نہیں کیا جا سکتا۔ اسی طرح فتنے بھی انسان کو کفر کی حالت تک لے جاتے ہیں اور اس کو پتا بھی نہیں چلتا۔ اس لئے ہمیں اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ ہم کس دور میں رہ رہے ہیں اور آخر کیا مسائل ہمیں در پیش ہیں۔
سب سے پہلے جو میں نے قرآن پاک کی آیت پڑھی ہے، اس کے بارے میں کچھ عرض کروں گا کہ اس کا کیا مطلب ہے۔ اور پھر جو احادیث شریفہ تلاوت کی ہیں، ان کے بارے میں عرض کروں گا۔ پھر اس کے بعد جو مناسب بات ہو گی، ان شاء اللہ عرض کرنے کی کوشش کی جائے گی۔
جو آیتِ مبارکہ میں نے تلاوت کی ہے، یہ موسیٰ علیہ السلام کے الفاظ مبارک ہیں، جو قرآن نے نقل کئے ہیں۔ آپ ذرا غور سے سن لیں۔ موسیٰ علیہ السلام فرما رہے ہیں: "اے میرے رب! میں نہیں مالک ہوں، مگر اپنا اور اپنے بھائی کا"۔ ان کے بھائی ہارون علیہ السلام بھی پیغمبر ہیں اور وہ خود بھی پیغمبر ہیں۔ اور وہ کہہ رہے ہیں کہ "میں نہیں مالک ہوں اے میرے رب! مگر اپنے آپ کا اور اپنے بھائی کا۔ پس علیحدگی کر دیجئے ہم میں اور فاسقوں میں"۔ گویا اس حد تک حالات خراب ہو گئے تھے کہ موسیٰ علیہ السلام ان سے جدائی اختیار کر رہے تھے۔ حالانکہ پیغمبر کا کام یہ ہوتا ہے کہ پیغمبر تو آیا ہی تبلیغ کے لئے ہوتا ہے۔ لیکن قوم نے اس حد تک بے وفائی کی، اس حد تک نافرمانیاں کیں اور اس حد تک حکم عدولی کی کہ موسیٰ علیہ السلام اپنے رب سے کہہ رہے ہیں کہ یا اللہ! مجھے اپنی قوم سے جدا کر دیجئے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اپنے آپ کو بچانا سب سے زیادہ ضروری ہے۔ میں آپ کو ایک واقعہ سناتا ہوں، یہ خود میرے ساتھ ہوا ہے، اس وجہ سے میں عرض کر سکتا ہوں۔ میں ایک جلسہ میں شریک تھا، اس میں کسی وجہ سے بھگدڑ مچ گئی۔ مجھے پتا نہیں چلا کہ کیا ہوا، ابھی تک اس کا پتا نہیں ہے کہ وجہ کیا تھی۔ لیکن سب لوگ کھڑے ہو گئے تھے۔ ظاہر ہے کہ سٹیج والوں کے لئے یہ بڑا مسئلہ ہوتا ہے۔ جلسہ میں اگر اس قسم کی صورت حال ہو جائے، تو وہ پریشان ہو جاتے ہیں۔ وہاں سے مسلسل ایک اعلان سنائی دے رہا تھا کہ بزرگو اور دوستو! سب اپنے آپ کو بٹھاؤ، کسی اور کو نہ بٹھاؤ۔ بزرگو اور دوستو! سب اپنے آپ کو بٹھاؤ، کسی اور کو نہ بٹھاؤ۔ چنانچہ پانچ منٹ میں سارا مجمع بیٹھ گیا۔ یہ کیا چیز تھی؟ یہ اس اعلان کی برکت تھی۔ اگر یہ فرماتے کہ لوگوں کو بٹھاؤ، تو لوگ نہ بیٹھتے۔ سب لوگ بٹھانے والے ہوتے، کوئی بیٹھنے والا نہ ہوتا۔ پس جب انسان اپنے آپ پر توجہ کر لے کہ میں ٹھیک ہو جاؤں، تو سارے ٹھیک ہو سکتے ہیں۔ اگر سارے لوگ اس طرح سوچنے لگیں، تو سب ٹھیک ہو سکتے ہیں۔ اور اگر ہر ایک یہ سوچے کہ باقی لوگ ٹھیک ہو جائیں، تو کوئی بھی ٹھیک نہیں ہو گا۔ ہر ایک کے لئے باقی لوگ ہوں گے، خود تو ٹھیک نہیں ہو گا۔ لہٰذا مسئلہ ٹھیک نہیں ہو گا۔ اس لئے اپنے آپ کو بچانا یہ بہت زیادہ اہم ہے۔
اب میں احادیث شریفہ عرض کرتا ہوں۔
حدیث اول: آپ ﷺ نے بعض فتنوں کا ذکر کیا۔ اور صحابہ نے عرض کیا کہ آپ اس وقت کے لئے ہم کو کیا حکم فرماتے ہیں؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: بس تم اپنے گھروں کے ٹاٹ بن جاؤ۔ یعنی باہر نہ نکلو کہ ان فتنوں میں شریک ہونا پڑے۔
حدیث دوم: رسول کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ قریب ہے کہ مسلمان کا سب سے بہتر مال بکریاں ہوں گی، جن کو لے کر پہاڑ کی چوٹیوں اور بارش کے موقعوں کو تلاش کرتا پھرے گا، اپنے دین کو فتنوں سے بچا کر بھاگے گا۔
حدیث سوم: رسول اللہ ﷺ نے فتنوں کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ پکڑے رہو تم مسلمانوں کی جماعت کو اور ان کے امام کو۔ عرض کیا گیا کہ پس اگر نہ ہو ان کی جماعت اور کوئی امام؟ ارشاد فرمایا: تو ایسی حالت میں ان کل فرقوں سے دور رہنا۔
حدیث چہارم: رسول کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ خلوت بہتر ہے برے ہم نشین سے اور نیک ہم نشین بہتر ہے خلوت میں رہنے سے۔
ان سب روایات سے معلوم ہوا کہ نہ ہر حال میں خلوت بہتر ہے، نہ جلوت۔ بلکہ خلوت برے ہم نشینوں سے بچنے کے واسطے ہے اور جلوت اچھی صحبت کے لئے ہے۔ اور فتنے کے موقع پر ضعیف لوگوں کے لئے یعنی جو رفعِ فتنہ پر قادر نہ ہوں، ان کے لئے خلوت بہتر ہوتی ہے۔ جیسا کہ ابھی آنے والی حدیث سے یہ ثابت ہو جائے گا۔
رسول کریم ﷺ سے جب اس آیت کے بارے میں سوال کیا گیا: ﴿یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا عَلَیْكُمْ اَنْفُسَكُمْ ۚ لَا یَضُرُّكُمْ مَّنْ ضَلَّ اِذَا اهْتَدَیْتُمْ﴾ (المائدہ: 105)
ترجمہ: ’’اگر تم صحیح راستے پر ہو گے، تو جو لوگ گمراہ ہیں، وہ تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے‘‘۔
آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کیا کرو، یہاں تک کہ جب حرص کی پیروی اور خواہش کی اتباع اور دنیا کو ترجیح دینا اور ہر ایک رائے والے کا اپنی رائے کو پسند کرنا دیکھو، تو تجھ پر اپنی فکر لازم ہے اور اس وقت عوام کے کام کو اپنے ذمہ سے الگ کرو۔
اب میں آپ کو اپنا واقعہ سناتا ہوں، جو میرے ساتھ گزرا ہے۔ ایک جنرل صاحب ہیں، ڈاکٹر بھی ہیں، میرے دوست ہیں۔ میں اپنے کسی کام سے ان سے ملنے کے لئے گیا۔ انہوں نے کہا کہ اچھا ہوا آپ آ گئے، مجھے تو خیال نہیں تھا، میری بیٹی کی شادی ہے اور فلاں جگہ پر ہم نے ساتھیوں کو بلایا ہے۔ آپ صرف دین کی دعوت دینے کے لئے تشریف لائیں۔ در اصل ان کو پتا تھا کہ میں برات وغیرہ میں شریک نہیں ہوتا، اس لئے انہوں نے کہا کہ آپ صرف دین کی دعوت دینے کے لئے تشریف لائیں۔ میں نے کہا کہ یہ بات تو صحیح ہے، دعوت کے لئے تو جانا چاہئے۔ میں چلا گیا۔ جنرل کی بیٹی کی شادی ہو گی، تو جنرل ہی آئے ہوں گے۔ جنرل تھے، بریگیڈیر تھے یا سیکریٹری لیول (level) کے بڑے بڑے لوگ تھے۔ یقین جانئے کہ اتنا تکبر میں نے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ اتنا تکبر کہ چہروں سے ٹپک رہا تھا۔ ان کے ساتھ بات کرنا تو دور کی بات ہے، مجھے اپنی فکر ہو گئی۔ میں ’’لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللّٰهِ الْعَلِيِّ الْعَظِيْمِ‘‘ پڑھتا رہا، کم از کم مجھ پر تو اثر نہ ہو۔ میں نے سارا وقت ’’لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللّٰهِ الْعَلِيِّ الْعَظِيْمِ‘‘ پڑھنے میں گزارا اور بچ جانے میں عافیت سمجھی۔ پس ایسی حالت میں اپنے آپ کو بچانا چاہئے۔ وجہ یہ ہے کہ انسان بعض دفعہ سمجھتا ہے کہ میں فلاں کو دعوت دے رہا ہوں۔ حالانکہ وہ مدعو ہو رہا ہوتا ہے۔ کسی چیز سے متاثر ہو کر وہ مدعو ہو رہا ہوتا ہے۔ ایک دفعہ ایسا ہوا کہ ایک صاحب تھے، اس نے سنا تھا کہ پیسے پیسوں کو کھینچتے ہیں۔ وہ ایک دکان پہ گیا اور دکان کے گلّے میں جو پیسے پڑے تھے، اپنے روپیہ ان کے اوپر کئے رکھا کہ اس کے پیچھے پیسے آئیں گے۔ بالآخر جب نہیں آئے، تو غصہ ہو گیا اور وہ بھی اس میں پھینک دیا۔ دکان دار نے کہا کہ کیا کر رہے ہو؟ کیوں پھینکے پیسے؟ کہتا ہے کہ مجھے بتایا گیا تھا کہ پیسے پیسوں کو کھینچتے ہیں، لیکن اس نے کھینچا نہیں، اس لئے میں نے پھینکا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ میرے پیسوں نے کھینچ لیا ہے۔ یعنی میرے پیسوں نے تمہارے پیسوں کو کھینچ لیا ہے۔ یہ بات صحیح ہے۔ کیونکہ زیادہ چیز تھوڑی کو کھینچ لیتی ہے۔ اس لئے یا تو آپ کے اندر اتنی روحانیت ہو کہ آپ اس کو کھینچیں اور اگر اتنی روحانیت نہیں ہے اور اس کے اندر شیطانیت زیادہ ہے، تو پھر مسئلہ ہو گا، پھر وہ آپ کو کھینچے گا۔ شاہ عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ کی بات کر رہا ہوں، جو حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ کے بیٹے ہیں۔ اس وقت یہ فتنہ تھا کہ چار آبرو صاف کر لیتے اور ایسے ہو جاتے کہ آبرو بھی مونڈھ لیتے۔ داڑھی تو مونڈھی ہوتی تھی، مونچھیں بھی اور سر بھی مونڈ لیتے۔ اس کو چار آبرو صاف کہتے تھے۔ یہ بہت بڑا مسئلہ تھا۔ ان میں توجہ کی قوت بڑی زیادہ ہوتی تھی۔ شاہ عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ کا ایک ساتھی تھا۔ انہوں نے سمجھانے کے لئے اس ساتھی کو ان کے پاس بھیجا۔ لیکن آگے سے وہ زیادہ طاقتور تھا۔ تو اس نے کہا کہ اچھا، تم عبد العزیز کی طرف سے آئے ہو، آؤ بیٹھو۔ اس وقت وہ حلوہ بنا رہے تھے۔ کہتے ہیں کہ جاؤ، یہ عبد العزیز کے پاس لے جاؤ۔ اور اس کو کہا کہ یہ سارے چار آبرو صاف کر لو۔ چار آبرو ان کے صاف کروا دیئے۔ اور پھر ان کو واپس بھیج دیا۔ وہ جب دور سے آ رہے تھے، تو شاہ عبد العزیز صاحب نے کہا: ’’اِنَّا لِلّٰهِ وَاِنَّا اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَ‘‘ میں نے غلطی کی، میں نے کمزور آدمی کو بھیجا۔ یعنی اس کے اندر اتنی روحانیت نہیں تھی کہ اس کا مقابلہ کر سکے۔ نتیجتاً خود ہی سب کچھ چھوڑ بیٹھا۔ آج کل کے دور میں یہ چیزیں چل رہی ہیں۔ اس وقت سب سے بڑا فتنہ سوشل میڈیا ہے۔ یقین کیجئے، ناراض نہ ہونا، اس وقت بیٹھنے والوں میں بہت سارے لوگ سوشل میڈیا کے مارے ہوئے بیٹھے ہوئے ہیں۔ میں گپ شپ نہیں لگا رہا، سچ بات بتا رہا ہوں، کیونکہ میرے پاس لوگ آ کر خود بتاتے ہیں۔ مجھے ان ساری چیزوں کا علم ہوتا رہتا ہے کہ کون کس وجہ سے مار کھا رہا ہے۔ چنانچہ سوشل میڈیا کی وجہ سے اتنا ذہنی انتشار، خلفشار، مذہب سے برگشتی، برے خیالات، یہ ساری چیزیں آج کل آ رہی ہیں اور بہت زور سے آ رہی ہیں۔ کمزور آدمی اس کے سامنے نہیں ٹھہر سکتا۔ اگر کوئی پہلوان ہو، تو علیحدہ بات ہے۔ لیکن پہلوان کتنے ہوتے ہیں۔ کمزور آدمی اس کے سامنے نہیں ٹھہر سکتا۔ تو ایسی صورت میں پھر کیا کرنا چاہئے؟ اب ذرا حدیث شریف سے بتاتا ہوں۔ باقی میں زیادہ تبصرہ نہیں کروں گا۔ کیا آپ ﷺ نے دجال کے بارے میں یہ فرمایا ہے کہ اس کے ساتھ مقابلہ کرو؟ نہیں! دجال کے متعلق فرمایا کہ اس سے بھاگو۔ کیونکہ اتنی زیادہ اس کے اندر شیطانی قوت ہو گی کہ جو بھی اس کے پاس آئے گا، وہ دجال اسے مقناطیس کی طرح کھینچ لے گا۔ نتیجتاً وہ اس کا شکار ہو جائے گا۔ ایک طرف اس کی جنت ہو گی، جو اس کی بنائی ہو گی، جو فراڈ کی جنت ہو گی۔ اور ایک طرف دوزخ ہو گی۔ اپنے پسندیدہ لوگوں کو جنت میں ڈالے گا اور اپنے نا پسندیدہ لوگوں کو دوزخ میں ڈالے گا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اس کی جنت اصل میں دوزخ ہو گی اور اس کی دوزخ اصل میں جنت ہو گی۔ چنانچہ یہ باتیں تو ہیں۔ ایسی صورت میں فرمایا کہ دجال سے مقابلہ نہ کرو، اس سے بھاگو اور اپنے ایمان کو بچاؤ۔ سوشل میڈیا اس وقت دجال کا پورا کردار ادا کر رہا ہے۔ اس وقت یہ صورت حال ہے کہ جو اس کا مارا ہوا ہے، وہ کوئی بات نہیں سمجھ سکتا۔ ہم نے مجبوراً یہ اندازے لگائے ہیں، یقین جانئے کہ ایک بچہ کو آپ ایک بات سمجھا سکتے ہیں، لیکن ایک بڑے ذہین و فطین آدمی کو جو اس کا شکار ہو، اس کو آپ نہیں سمجھا سکتے۔ الٹا آپ کو پکڑے گا۔ اس وقت اپنے آپ کو بچانا ہے۔ اور فقہ کا ایک مشہور قاعدہ ہے، علماء حضرات جانتے ہیں کہ جلبِ منفعت سے دفعِ مضرت زیادہ اہم ہے۔ یعنی جس چیز میں فائدہ بھی ہو اور نقصان بھی ہو، تو اس وقت نقصان سے بچنا زیادہ لازم ہے۔ کسی کافر کو مسلمان بنانے سے مسلمان کو مرتد بننے سے بچانا زیادہ ضروری ہے۔ یہ اصول ہے۔ اگرچہ سوشل میڈیا میں فائدہ بھی ہے۔ جیسے شراب کے بارے میں قرآن پاک میں اللہ پاک فرماتے ہیں کہ اس میں لوگوں کے لئے نفع بھی ہے۔ اللہ پاک نے فرمایا: ﴿قُلْ فِیْهِمَاۤ اِثْمٌ كَبِیْرٌ وَّمَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَاِثْمُهُمَاۤ اَكْبَرُ مِنْ نَّفْعِهِمَا﴾ (البقرہ: 219)
ترجمہ: ’’آپ کہہ دیجئے کہ ان دونوں میں بڑا گناہ بھی ہے، اور لوگوں کے لئے کچھ فائدے بھی ہیں، اور ان دونوں کا گناہ ان کے فائدے سے زیادہ بڑھا ہوا ہے‘‘۔ (آسان ترجمہ قرآن، از مفتی تقی عثمانی صاحب)
یعنی اس کا گناہ زیادہ ہے، لہٰذا نہ پیو۔ اب اگر کوئی شراب کے فائدے ثابت کرنا چاہے، تو ہم کہیں گے کہ بالکل ہیں، ہمیں انکار نہیں ہے۔ لیکن اس کا نقصان بھی ہے۔ نقصان یہ ہے کہ یہ وقتی طور پر عقل کو زائل کرتی ہے اور عقل انتہائی قیمتی چیز ہے، جس کے ذریعے سے انسان نقصان سے بچ سکتا ہے۔ جب یہ عقل کو زائل کرتی ہے، تو اس سے بچو۔ اسی طرح سوشل میڈیا بھی انسان کی عقل پہ حملہ کرتا ہے۔ معلومات کا ایک طوفان ہے۔ اس وقت دنیا میں گمراہی کی دو بڑی طاقتیں ہیں۔ چھوٹی چھوٹی اور بھی ہیں۔ لیکن بڑی کی بات کر رہا ہوں۔ ایک وہ ہے، جو زبردستی ڈنڈے کے زور سے برائی کی طرف مائل کرتی ہے اور ایک وہ ہے، جو ڈنڈا نہیں چلاتی، وہ انفارمیشن کے ذریعے سے لوگوں کو خراب کرتی ہے۔ مثلاً: انہوں نے کسی حقیقت کو چھپانا ہو، تو اتنا زیادہ جھوٹ اس کے ارد گرد جمع کر لیں گے کہ اس میں یہ نظر نہیں آئے گا کہ سچ کیا ہے۔ آپ حیران ہو جائیں گے کہ اصل بات کدھر ہے۔ کیونکہ چھپانے کا انداز اس طرح ہے کہ جھوٹ ادھر ادھر سے اتنا ساتھ شامل کر لیں گے کہ آدمی کو سچ کا پتا چلنا بڑا مشکل ہو گا۔ اس وقت غزہ میں جو ہو رہا ہے، ایک بچے کو بھی سمجھ میں آ رہا ہے کہ یہ کیا ہو رہا ہے۔ لیکن جو لوگ اسرائیل کے حمایتی ہیں، ان کو کوئی سمجھا سکتا ہے؟ ان کو کوئی نہیں سمجھا سکتا۔ ان کو سب کچھ نظر آ رہا ہے، لیکن وہ شیطان کے ساتھ ہیں۔ جب شیطان کے ساتھ ہیں، تو شیطان کی حکمت عملی کے ساتھ بھی ہیں۔ ان کو یہ چیزیں بالکل صحیح نظر آ رہی ہیں۔ کیونکہ وہ بالکل ان کے ساتھ ہیں۔ چنانچہ اگر ہم لوگ اپنی روحانیت کو نہیں پیدا کر سکتے، تو کم از کم اپنے آپ کو فتنے سے بچانے کے لئے اس سے ہٹ تو جائیں، اس کے پاس تو نہ جائیں۔ کیونکہ آپ ﷺ نے جو فرمایا، جیسے ابھی حدیث شریف گزری کہ بری صحبت سے بچنے کے لئے خلوت اچھی ہے اور اچھی صحبت خلوت سے اچھی ہے۔ ویسے عام حکم تو ہے: ﴿كُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ﴾ (التوبہ: 119)
ترجمہ: ’’سچے لوگوں کے ساتھ رہا کرو‘‘۔(آسان ترجمہ قرآن، از مفتی تقی عثمانی صاحب)
قرآن پاک کا اصل حکم تو یہی ہے۔ لیکن اگر سچے لوگ available نہیں ہیں، تو پھر خلوت کا حکم ہے۔ پھر اپنے آپ کو بچاؤ، پھر عام اس طرح کھلے نہ پھرو، ظاہر (expose) نہ ہو۔ میں جرمنی میں تھا، تو ایک دن دروازے پر دستک ہوئی، ایک صاحب اور ایک چھوٹا بچہ ساتھ تھا، اندر آنے کی اجازت چاہی۔ میں ان دنوں اکیلا تھا۔ میں نے کہا: جی، تشریف لایئے۔ انہیں بٹھایا۔ بچے کے لئے میں نے دودھ کا انتظام کر لیا اور اس صاحب کے لئے coffee وغیرہ کا۔ بات چیت شروع ہو گئی۔ وہ اصل میں وہاں کے چرچ کی طرف سے آیا تھا۔ کہتا ہے کہ آپ چونکہ غیر ملکی ہیں، ہمیں پتا چل گیا ہے۔ یہ جو ہمارا چرچ ہے، یہ غیر ملکیوں کی کچھ خدمت کرنا چاہتا ہے۔ آپ کو جس قسم کی ضرورت ہو، تو آپ ہمیں کہہ سکتے ہیں۔ آپ ہمیں بتایئے۔ مجھے تو پتا چل گیا کہ وہ کس لئے آئے ہیں، میری کون سی خدمت کرنا چاہتے ہیں، لیکن براہِ راست انکار کرنا تو مناسب نہیں ہوتا۔ کیونکہ آپ انکار کریں گے، تو ایک عجیب بات ہو جاتی۔ میں نے کہا: واہ واہ! کیا بات ہے، آپ نے تو بالکل صحیح بات کی ہے، ہم تو آپ کی انتظار میں تھے۔ ضرور تشریف لایئے۔ کہتے ہیں کہ کیا بات ہے؟ میں نے کہا: ہمارا بہت بڑا کام ہے، جس میں آپ اور ہم شریک ہیں، آپ کو بھی نقصان ہو رہا ہے، ہمیں بھی نقصان ہو رہا ہے، اس نقصان سے بچنا بہت ضروری ہے۔ میں نے کہا: آپ کرسچن (عیسائی) ہیں اور ہم مسلمان ہیں۔ یہود مسلمانوں کے خلاف بھی ہیں، کرسچن کے خلاف بھی ہیں۔ اپنی تاریخ کو پڑھیں کہ کتنا نقصان پہنچایا کرسچن کو، اور ہمیں تو ابھی تک نقصان پہنچا رہے ہیں۔ اس لئے ان کے خلاف اکٹھے ہو جائیں اور کچھ کام کریں۔ یہ تو آپ بڑے اچھے موقع پہ آ گئے۔ اس کے بعد اس نے کہا کہ ٹھیک ہے، میں اپنے بڑوں سے بات کروں گا۔ پھر وہ کبھی نہیں آیا۔ چنانچہ اس طریقے سے لوگوں کو گھیرتے ہیں، کسی نہ کسی طریقے سے، کبھی پیسے کے لحاظ سے، کبھی سروس کے لحاظ سے، کبھی ہسپتالوں کے لحاظ سے، کبھی NGOs کے ذریعے سے، وہ با قاعدہ لوگوں کو ممنون بناتے ہیں اور جب لوگ ممنون ہو جاتے ہیں، تو پھر ان کو اپنا literature دیتے ہیں۔ پھر آہستہ آہستہ اپنا بناتے ہیں۔ جیسے پشاور کے Edwardes College کے پرنسپل تھے۔ ہمارے ایک ساتھی تھے، وہ UK میں پڑھنے کے لئے گئے تھے۔ ویسے ہی دیکھنے کے لئے ایک چرچ میں گئے تھے کہ یہ کیا کرتے ہیں۔ وہ سب بیٹھے ہوئے تھے، ان کو کیا پتا کہ کوئی آدمی پشاور سے بھی آیا ہو گا، وہ جو Edwardes College کے پرنسپل تھے، وہ وہاں پر آ گئے اور انہوں نے وہاں پر speech کی اور اس speech میں انہوں نے کہا کہ "میں پشاور میں ہوں اور میں نے یہ کام کیا، یہ کام کیا، یہ کام کیا۔ پھر انہوں نے کہا کہ میں یہ دعوی تو نہیں کر سکتا کہ ان کو میں عیسائی بنا سکا، لیکن ان کو مسلمان بھی نہیں رہنے دیا"۔ یہی طریقہ ہوتا ہے۔ شیطان کا طریقہ کار یہ ہے کہ وہ پہلے کافر بنانا چاہتا ہے۔ اللہ بچائے۔ ایمان کے اوپر وار کرنا چاہتا ہے۔ اگر وہ کامیاب نہ ہو، تو پھر گناہِ کبیرہ میں مبتلا کرنا چاہتا ہے۔ اگر پھر بھی کامیاب نہ ہو، تو پھر گناہِ صغیرہ پہ اصرار کرواتا ہے۔ اگر یہ بھی نہیں کر سکتا، تو پھر کسی نیک کام سے ہٹاتا ہے۔ آپ کو اس وقت بہت سارے لوگ ملیں گے، میرے خیال میں اس وقت بیٹھے ہوئے لوگوں میں آپ کو ملیں گے کہ مستحب کے بارے میں ان کا خیال یہ ہے کہ مستحب ہی تو ہے، کیا کرنا ضروری ہے؟ ایسے لوگ ہیں۔ حالانکہ واقعی مستحب اللہ تعالیٰ نے ایک کھلا اختیار دیا ہے کہ کوئی کرنا چاہے، تو اس پر یہ چیزیں دوں گا، فائدے ہیں، کوئی نہ کرنا چاہے، تو اس پر کوئی گناہ نہیں ہے۔ مثلاً: آئیسکریم نہ کھائیں، تو اس سے کسی کا پیٹ خراب نہیں ہو گا، گلا خراب نہیں ہو گا، بخار نہیں ہو گا۔ صرف مزے کے لئے کھاتے ہیں، یعنی اضافی مزہ ہے۔ مستحب ایسی چیز ہے۔ یعنی آپ مستحب کو جب اختیار کرتے ہیں، تو اس سے آپ کو مزید فائدہ ہوتا ہے۔ نفل ایک زائد چیز کو کہتے ہیں۔ فرائض و واجبات تو مقرر ہیں۔ ایک واضح حدیث شریف ہے کہ سب سے زیادہ قرب تو فرائض کے ذریعے ہوتا ہے۔ اور اگر فرائض موجود ہوں، تو نوافل کے ذریعے سے اتنا قرب ہوتا ہے، جس کو قرب بالنوافل کہتے ہیں۔ کہ انسان اتنی ترقی کرتا ہے کہ اللہ پاک فرماتے ہیں کہ میں اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں، جس سے وہ پکڑتا ہے۔ میں اس کی زبان بن جاتا ہوں، جس سے وہ بولتا ہے۔ تو یہ کس چیز کی برکت سے ہوا؟ نفل کی وجہ سے ہوا۔ اس وقت بہت سارے لوگ بلکہ میں کہتا ہوں کہ علماء بھی اس میں شامل ہیں۔ یہ میں ان سے بھی بات کرتا ہوں۔ بہت سارے علماء کہتے ہیں کہ فرائض، واجبات ہو جائیں، بس کافی ہے۔ خدا کے بندو! کیا آپ نے علم اس وجہ سے پڑھا ہے کہ آپ یہ چیزیں سیکھ جائیں؟ امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کیا عالم نہیں تھے؟ جو سو رکعت نفل عام راتوں میں پڑھتے تھے، رمضان کی بات نہیں کر رہا ہوں۔ عام راتوں میں سو رکعت نفل پڑھتے تھے۔ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ، امام مالک رحمۃ اللہ علیہ، عجیب عجیب احوال ہیں ان کے۔ یہ بڑے علماء تھے۔ تو کیا عالم ہو کر پھر انسان چھوڑ دے؟ عالم ہو کر انسان اس کا داعی بنے، خود عمل کرے اور دوسروں کو بھی اس طرف لے آئے۔ شیطان یہ کرتا ہے کہ پہلے تو کافر بناتا ہے، کافر نہ بنے، تو گناہِ کبیرہ میں مبتلا کرتا ہے۔ گناہِ کبیرہ نہ کروا سکے، تو گناہِ صغیرہ میں مبتلا کرتا ہے۔ گناہِ صغیرہ نہ کروا سکے، تو پھر نیکیوں سے روکتا ہے۔ نماز چھوڑنا گناہِ کبیرہ ہے، اس سے تو نہیں روک سکتا، واجب سے بھی نہیں روک سکتا، اس کو چھوڑنا مکروہِ تحریمی ہے۔ لہٰذا نوافل سے روکے گا، مستحبات سے روکے گا۔ تو یہ شیطان کا انداز ہے۔ لہٰذا اگر ہم اس سوشل میڈیا کے ساتھ شامل ہوں گے، تو پہلے تو ہمیں بالکل ہی کاٹ دے گا۔ نہ کر سکا، تو پھر کسی گناہِ کبیرہ میں مبتلا کرے گا۔ نہ کر سکے، تو پھر گناہِ صغیرہ میں مبتلا کرے گا۔ نہ کر سکے، تو پھر نیکیاں آپ سے چھڑا دے گا۔ ان چیزوں کی آپ کے ذہن میں کوئی قدر نہیں ہو گی۔ اور چھوٹی چھوٹی چیزوں کی قدر آپ کو بہت بڑھا دے گا کہ اوہ! یہ کرنا چاہئے، یہ کرنا چاہئے، یہ کرنا چاہئے۔ لیکن جو اصل کام ہے، اس کی اہمیت نہیں ہو گی۔ اور اصل کام کیا ہے؟ قرآن پاک میں ہے، میں اپنی طرف سے نہیں کرتا۔ ﴿وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ﴾ (الذّٰریٰت: 56)
ترجمہ: ’’اور میں نے جنات اور انسانوں کو اس کے سوا کسی اور کام کے لئے پیدا نہیں کیا کہ وہ میری عبادت کریں‘‘۔ (آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عثمانی صاحب)
چنانچہ اللہ کی عبادت اور بندگی یہ ہمارا اصل کام ہے۔ بندگی میں یہ ساری چیزیں آ جاتی ہیں، معاملات بھی آتے ہیں، معاشرت بھی آتی ہے، اخلاق بھی آتے ہیں۔ یہ ساری چیزیں آتی ہیں۔ ہمیں اس کے لئے پیدا کیا گیا ہے۔ دنیا میں ہم اگر کچھ ایسا کام کر سکیں، جس سے باقی لوگوں کو فائدہ ہوتا ہے، تو بالکل ٹھیک ہے، منع نہیں ہے۔ لیکن ان کاموں پہ رک کر اس اصل کام کو چھوڑ دیں، یہ ٹھیک نہیں ہے۔ ان کے ہوتے ہوئے آپ کرو، تو بالکل ٹھیک ہے۔ میں اپنا ایک واقعہ سناتا ہوں، ہمارے ایک دوست ہیں، اب بھی ما شاء اللہ زندہ ہیں، اللہ ان کو زندہ رکھے۔ باہر ملکوں میں بہت بڑے عہدے پر ہیں۔ چونکہ کلاس فیلو ہیں اور کلاس فیلو انسان کے ساتھ ہر قسم کی بات کر سکتا ہے۔ وہ مجھے کہتے ہیں کہ شبیر! یہ آپ کو کیا ہو گیا؟ آپ کون سی باتیں کر رہے ہیں؟ دنیا کہاں پہنچ گئی اور آپ کون سی باتیں کر رہے ہیں۔ میں نے کہا: اچھا، میں آپ سے ایک سوال پوچھتا ہوں۔ کہتے ہیں: کیا؟ میں نے کہا کہ یہ بتاؤ، ہم دنیا دار ہیں یا صحابہ کرام دنیا دار تھے؟ کہتے ہیں: صحابہ کرام تو دنیا دار تھے ہی نہیں۔ میں نے کہا: میں آخرت کی بات نہیں کر رہا ہوں، دنیا میں صحابہ کرام زیادہ کامیاب تھے یا ہم زیادہ کامیاب ہیں؟ کچھ سوچ کے بولے کہ وہ زیادہ کامیاب تھے۔ میں نے کہا کہ آپ کی theory تو فیل ہو گئی۔ کیونکہ آپ کہتے ہیں کہ میں کچھ دین کی باتیں کر رہا ہوں، تو اس کا مطلب ہے کہ میں دنیا میں کامیاب نہیں ہوں۔ آپ یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ میں تو آپ کو صحابہ کی پوری جماعت کا بتا رہا ہوں کہ پوری دنیا ان سے ڈرتی تھی۔ کیا ہم سے لوگ ڈرتے ہیں؟ ہمارے اوپر چڑھ دوڑتے ہیں اور پروا بھی نہیں کرتے۔ جیسے کیڑے مکوڑوں کے اوپر کوئی چڑھ جاتا ہے، پروا نہیں کرتا، اسی طرح ہماری کوئی پروا بھی نہیں کرتا۔ اور ان کا معاملہ یہ تھا کہ سب ان سے ڈرتے تھے۔ اس کا مطلب ہے کہ ہم لوگوں کو ان کے نقشِ قدم پہ چلنا چاہئے۔ میں دنیاوی ترقی سے روکتا نہیں ہوں، نہ روک سکتا ہوں، نہ ہی یہ شریعت کا حکم ہے۔ صرف اس لئے کہتا ہوں کہ ان چیزوں کو اس کے لئے نہ چھوڑو۔ میرے ایک استاد تھے، اب وہ فوت ہو گئے ہیں، اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے۔ ان استاذ نے پوچھا، تب، جب میں پڑھ رہا تھا، مجھے کہتے ہیں: شبیر! اگر reactor پر آپ کی ڈیوٹی لگا دی جائے اور نماز کا وقت آ جائے، تو آپ کیا کریں گے؟ میں نے کہا: نماز پڑھوں گا۔ وہ مجھ سے توقع رکھ رہے تھے کہ میں کہوں گا کہ میں reactor پر رہوں گا، کیونکہ ماڈرن لوگ ہیں۔ جب میں نے کہا کہ میں نماز پڑھوں گا۔ کہنے لگے کہ کیا reactor کو چھوڑ دو گے؟ میں نے کہا: یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ میں نماز نہ پڑھوں۔ میرے پیٹ میں درد ہو جائے، میں ٹائیلٹ چلا جاؤں، پھر recator کا خیال کون رکھے گا؟ میں نے کہا: کیا reactor کے لئے ایک ہی آدمی ہو گا؟ اس کے لئے کئی لوگ ہوں گے، صرف ایک تو نہیں ہو گا۔ آخر! ٹرک ڈرائیور بھی لمبے سفر کے لئے دو ہوتے ہیں، تو reactor کو آپ ایک آدمی پہ چھوڑ دیں گے؟ ظاہر ہے کہ کبھی کوئی ہو گا اور کبھی کوئی ہو گا اور باری باری کام کرتے رہیں گے۔ میں بھی اس طرح کروں گا۔ پھر وہ چُپ ہو گئے۔ یہ ہیں فتنے۔ مجھ سے ڈاکٹر لوگ پوچھتے ہیں کہ ہم آپریشن کر رہے ہوتے ہیں، نماز کا وقت آ جائے، تو کیا نماز پڑھیں؟ میں نے کہا: خدا کے بندے! آپریشن شروع کرتے وقت یہ سوچ لیا کرو کہ اس میں کیا کیا آئے گا۔ اور ایک آدمی تو نہیں ہوتا، پوری ٹیم ہوتی ہے، اس کے لئے آپ پلاننگ کرو۔ میں نے کہا: آپریشن کے لئے کبھی کھانا چھوڑا ہے؟ اگر وہ کھا سکتے ہو، تو نماز کیوں نہیں پڑھ سکتے ہو؟ ہر چیز کا اپنا اپنا طریقہ ہوتا ہے۔ اگرچہ میں مفتی نہیں ہوں، ایک مشورہ دے سکتا ہوں۔ آپ مفتیوں سے بات کر لیں، ان سے پوچھ لیں۔ لیکن بہر حال! آج کل سارا زور اس پر اٹھا ہے کہ بس آپ دین چھوڑیں، تو آپ کامیاب ہوں گے۔ ’’اِنَّا لِلّٰهِ وَاِنَّا اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَ‘‘۔ ہم دین نہیں چھوڑیں گے، چاہے دنیا ہمارے پاس رہے یا نہ رہے۔ دین کو رکھیں گے، پھر ان شاء اللہ دنیا کے اوپر حکمرانی بھی کریں گے۔ خلافت فی الارض کا وعدہ دین پر چلنے والوں کے ساتھ ہے۔ ہم صحیح معنوں میں دیندار ہو جائیں، حضور ﷺ کے طریقے پر اور صحابہ کرام کے طریقے پر چلنا شروع کر دیں، پھر دیکھیں، یہ پوری دنیا آپ کے ہاتھ پہ دی جاتی ہے یا نہیں دی جاتی۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو نصیب فرمائے۔
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ