مطالعہ سیرت بصورت سوال




اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

سوال:

رجب کا مہینہ شروع ہو چکا ہے۔ ایک روایت کے مطابق آپ ﷺ نے جب رجب کا چاند دیکھا، تو یہ دعا کی کہ یا اللہ! رجب اور شعبان میں ہمارے لئے برکت رکھ دے اور ہمیں رمضان تک پہنچا دے۔ کیا اس سے رجب کے مہینے سے رمضانُ المبارک کی تیاری شروع کرنے کی طرف اشارہ ہے؟

جواب:

اس میں یہی اشارہ نظر آتا ہے کہ رجب اور شعبان میں بھی اللہ پاک نے برکت رکھ دی ہے۔ کیونکہ آپ ﷺ نے اس کے لئے دعا فرمائی ہے۔ یقیناً یہ برکت ہے۔ بلکہ شعبان کے مہینے میں تو شبِ برات بھی ہے۔ اور ویسے بھی آپ ﷺ اس مہینے میں بہت اہتمام کے ساتھ کثرت سے روزے رکھتے تھے۔ اسی طرح رجب کے مہینہ میں بھی برکات ہیں۔ چنانچہ ان میں برکات تو یقیناً ہیں۔ البتہ بعض لوگوں نے بھی درمیان میں کچھ باتیں شامل کی ہیں، جن کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔ مثلاً: بعض لوگوں نے ستائیسویں رجب کے روزے کو لازم سمجھا ہے اور اس میں بہت زیادہ اجر و ثواب بتاتے ہیں، جو ثابت نہیں ہے۔ حالانکہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے ستائیس رجب کے روزے کو با قاعدہ تُڑوایا تھا، کیونکہ یہ ثابت نہیں ہے۔ لیکن بہر حال! رجب کے مہینہ میں برکات تو ہیں۔ اسی طرح پندرھویں شعبان کی رات کی فضیلت کے بارے میں بھی روایات صحابہ کرام سے مروی ہیں۔ لہٰذا ان سے فائدہ اٹھانا چاہئے۔ ایک بات یاد رکھنی چاہئے کہ ضعیف احادیث فضائل میں استعمال ہو سکتی ہیں، اور ان میں جو برکات اور فضیلتیں بتائی گئی ہوتی ہیں، ان کو ضعیف سمجھتے ہوئے اگر انسان ان پہ یقین کر لے، تو اگر وہ واقعی حقیقت ہوں، تو اس فضیلت سے محرومی نہیں ہو گی، وہ فضیلت مل جائے گی۔ کیونکہ ضعیف حدیث موضوع نہیں ہوتی، بلکہ ایسا ہونا ممکن ہوتا ہے۔ اور اگر ایسا نہ ہو، تو خطرہ کوئی نہیں ہے، کوئی پریشانی نہیں ہے، کیونکہ آپ کو کوئی نقصان نہیں ہے، بلکہ ثواب مل گیا۔ مثلاً: اگر دو رکعت پڑھے گا، تو دو رکعت کا ثواب تو مل ہی جائے گا، وہ تو کہیں نہیں گیا۔ البتہ اگر اس کا زیادہ ثواب مل گیا، تو سبحان اللہ۔ مثلاً: تبلیغ والے حضرات اُنچاس کروڑ نمازوں کا ثواب بتاتے ہیں۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ تو ضعیف روایتیں ہیں۔ میں کہتا ہوں کہ ضعیف ہی سہی، لیکن اگر کسی نے جماعت کے ساتھ پڑھ لی، تو ستائیس یا پچیس نمازوں کا ثواب تو ملے گا۔ اور اگر وہ ایسے ہی ہوا جیسے بتایا جاتا ہے، تو انچاس کروڑ نمازوں کا ثواب ملے گا۔ لہٰذا نقصان کسی چیز کا نہیں ہوا۔ البتہ تبلیغ والوں سے ہم کہتے ہیں کہ جو لوگ خانقاہ آتے ہیں، ان کے لئے بھی انچاس کروڑ مان لو۔ کیونکہ وہ بھی اللہ کے راستے میں جانا ہے۔ کیونکہ یہ صرف رائیونڈ کی تبلیغ میں جانے کے لئے تو نہیں فرمایا گیا۔ بلکہ اللہ کے راستے میں جانے کا بتایا گیا ہے۔ تو خانقاہ میں لوگ اللہ کے لئے جاتے ہیں۔ اسی طرح اگر کوئی جہاد کے لئے جاتا ہے، تو اس کو بھی اتنا ہی ثواب ملے گا۔ چنانچہ بعض لوگوں کا یہ مسئلہ ہوتا ہے کہ وہ ضدی (rigid) ہوتے ہیں۔ ضدی نہیں ہونا چاہئے، دل کھلا رکھنا چاہئے، بخیل نہیں ہونا چاہئے۔ یہ بھی بخل ہے کہ خواہ مخواہ اپنے آپ کے ساتھ ایک چیز خاص کر لیتے ہیں۔ ایک بہت سادہ صحابی تھے، انہوں نے دعا کی کہ یا اللہ! مجھ پر رحم کر، حضور ﷺ پر رحم کر۔ آمین۔ آپ ﷺ نے انہیں فرمایا کہ اللہ پاک کی وسیع رحمت کو تو نے کیوں تنگ کر دیا؟ سب کے لئے دعا کرو۔ لہٰذا وسعتِ قلبی ہونی چاہئے۔ اس طرح کا میرا ایک شعر بھی ہے:

وسعتِ قلبی کا شیشہ مجھے عطا فرما

تنگ نظری سے الہی تو بچانا مجھ کو

بہر حال! یہ چیز بہت عجیب ہے کہ انسان اتنا تنگ نظر ہو جائے کہ اللہ پاک سے بھی بخل کے ساتھ مانگے۔ حالانکہ آپ تو نہیں دے رہے، اللہ تعالیٰ دے رہا ہے۔ آپ کو کیا پریشانی ہے؟ کیوں پیٹ میں درد ہو رہا ہے کہ مجھے ملے، کسی اور کو نہ ملے۔ لہٰذا یہ طرزِ عمل ٹھیک نہیں ہے۔ اللہ پاک ہم سب کو ہدایت نصیب فرمائے۔

وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ