عارفانہ کلام

روح عاشق تھا مگر نفس نے مرے الجھایا ہے
اس کو بے حس کرکے یہ پانچوں حسوں پہ چھایا ہے
خامشی سینے کو گوہر سے مزین کرتی ہے
راز سربستہ یہ سیپی نے مجھے سمجھایا ہے
آنکھ اگر خائن نہ ہو تو دل مرا محفوظ ہو
راز بفضلِ رب یہ خوب مجھ کو سمجھ میں آیا ہے
گھولے رس کانوں میں جس کے جس گھڑی اس کا کلام
دل سے پوچھ کتنا سکون اس نے پھر اس سے پایا ہے
نفس کو باندھنے سے چمکے ہے نصیب دنیا میں خوب
مژدۂ قَدْ أَفْلَحَ کا شرط مَنْ زَكَّاهَا ہے
اور اس پر گر عمل نہ ہوسکے جس سے شبیر
ہے بہت محروم کہ قَدْ خَابَ مَنْ دَسَّاهَا ہے
نور معرفت