توضیح المعارف قسط 10

توضیح المعارف، قسط نمبر: 10

فلسفۂ سائنس اور معرفتِ الٰہی – پانچواں حصہ

کیا امکانی حقائق یعنی کائنات میں پھیلی ہوئی مخلوقات اور وجودِ منبسط میں منافرت اور منافات (conflict, contradiction) کی نسبت پائی جا سکتی ہے یا نہیں؟ جواب یہ ہے کہ نہیں۔ کیونکہ جیسا کہ پہلے کہا گیا ہے کہ وجودِ منبسط محض ایک نور ہے، جو اپنے غیر کو عدم کی ظلمت سے نکالتا ہے۔ مثال کے طور پر ایک بہت اچھے قسم کی لوہے سے ایک ایسی تلوار بنائی گئی جو کہ چھری کے مشابہ ہے ۔ تو اگرچہ یہ اپنی حقیقت یعنی تلوار کے اعتبار سے تو ناقص ہوگی۔ لیکن اس میں لوہے کی اپنی خوبی پھر بھی برقرار رہے گی۔ لوہا یہاں وجودِ منبسط کی مثال ہے ۔جبکہ چھری نما تلوار ظل کی مثال ہے۔ ہم اس چھری نما تلوار کے عیب یا کمی کو لوہے کی طرف منسوب نہیں کرسکتے، کیونکہ اس چھری نما تلوار سے بھی ایسے مخصوص آثار ظاہر ہونگے جو نہ کامل تلوار میں پائے جاتے ہیں اور نہ کامل چھری میں۔ خلاصہ یہ کہ ظِلال کے نقص کو ہم وجودِ منبسط کے ساتھ منسوب نہیں کرسکتے۔ اچھائی اور برائی، کمال اور نقص، خوبصورتی اور بد صورتی کسی سیاق اور متعلق کے اعتبار سے ہوتی ہے۔ مثلاً: چاند کی دھیمی روشنی، سورج کی روشنی کے مقابل میں ناقص ہے۔ لیکن اس کا رات کے وقت اپنا ایک کردار ہے، جو سورج کی روشنی سے حاصل نہیں ہو سکتا۔


صوفیائے کرام کی مثالوں کے بارے میں ایک وضاحت:

وجودِ منبسط اور ظِلال کے تعلق کے چند پہلؤوں کو سمجھانے کے لیے نیچے چند مثالیں دی جارہی ہیں۔ لیکن اس سے پہلے اس قسم کی مثالوں کے بارے میں ایک وضاحت ضروری ہے۔ یہ بات تو مسلّم ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات وراء الورا ہے۔ وہ ہماری غور و فکر کی پہنچ یا range سے باہر ہے۔ کوئی مثال اس کی کسی صفت کا احاطہ نہیں کر سکتی۔ ﴿لیس کمثلہ شئ(الشوری: 11)۔ ’’اس کی مثل کوئی شے نہیں‘‘۔ البتہ مثالیں بالکل بے فائدہ بھی ںہیں۔ مثالوں سے جو چیز حاصل ہو سکتی ہے وہ یہ کہ ان پر غور و فکر کر کے اعتباری انداز میں اللہ تعالیٰ کی کسی صفت کی طرف ذہن کا انتقال ہو سکے اور اپنے اپنے فہم اور ظرف کے مطابق اس کا ادراک حاصل ہو۔

اگر مثال پر یہ restriction (پابندی) لگائی جائے کہ وہ اصل کی پوری عکاسی کرے اور اس کی شان کے مطابق ہو، تو پھر تو معرفت الہٰی کے سلسلے میں کوئی مثال پیش نہ ہو سکے۔ اس لئے مثالوں کی افادیت کے سلسلے میں اصل سے کامل مناسبت سے زیادہ مخاطب (audience) کے فہم اور ذہنی سطح کو مد نظر رکھا جاتا ہے۔ اس کی سب سے بڑی مثال قرآن مجید کی ہے، جس میں اللہ تعالیٰ، اپنی شان سے تنزل کر کے اپنے بندوں کے فہم کے مطابق کلام فرماتے ہیں۔ مثلاً قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ اکثر ان چیزوں کی قسم اٹھاتے ہیں جن چیزوں کی ہم انسانوں کے ذہن میں وقعت اور اہمیت مسلّم ہوتی ہے۔

1- پہلی مثال :

لکڑی کرسی کی قیوم ہے، اس لئے کرسی سے پہلے لکڑی کا ہونا لازم ہے۔ یعنی یہاں قیوم کی ذات ظل سے وجودًا مقدم ہے۔ لیکن قیوم کی اس مثال میں قیوم (لکڑی) اور ظل (کرسی) میں کچھ صفات مشترک بھی ہیں۔ مثلاً: وزن، جلنے کی صفت وغیرہ۔ قیوم اور ظل کی اس نسبت کو ’’ظہور‘‘ کہتے ہیں۔ قیوم کو ظاہر اور ظل کو مظہر کہا جاتا ہے۔

2- دوسری مثال:

قیوم اور ظل کی نسبت کی دوسری مثال آئینہ اور اس میں نظر آنے والے عکس کی ہے۔ اس صورت میں بھی آئینہ یا قیوم کی ذات، اپنے اندر نظر آنے والے عکس سے مقدم ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ لکڑی والی مثال کے برعکس آئینہ اپنے اندر نظر آنے والی عکوس کی صفات سے بالکل پاک ہوتا ہے۔ عکس کی جو بھی شکل اور رنگ ہو، آئینہ اس سے متصف نہیں ہوتا۔ مثلاً: اگر آئینہ میں گرد و غبار سے آلودہ کوئی چیز نظر آتی ہو، تو آئینہ اس عکس کی وجہ سے میلا نہیں ہوتا۔ یا اگر آئینے کے اندر کوئی عکس، مثلًا: کار وغیرہ حرکت کر رہی ہو، تو وہی عکس کبھی بھی آئینے کی surface (سطح) تک نہیں پہنچ سکتا۔ کیونکہ آئینہ کا domain (وطن) اور ہے اور اس میں نظر آنے والے عکس کا وطن اور ہے۔

دونوں صورتوں میں قیوم کا وجود؛ جس چیز کا وہ قیوم ہے، اس سے پہلے موجود ہوتا ہے۔ یہ ایک بدیہی بات ہے کہ وجودِ منبسط جن ظلال کا قیوم ہے۔ ان سے اس کا وجود مقدم (prior) ہوتا ہے۔


آئینے کی مثال وجودِ منبسط جو کائنات کی تمام مخلوقات کا قیوم ہے، کو سمجھنے کے لیے ایک بہترین مثال ہے۔ آئینہ چاہے چھوٹا ہو اس میں آسمان تک کی چیزوں کی تصویریں سما جاتی ہیں جب کہ خود ان چیزوں کا حجم اس سے کہیں بڑا ہوتا ہے۔ ان چیزوں کا اور ان کی صفات مثلاً رنگ، حجم اور رفتار اگر چل رہی ہوں، سب کا قیوم وہی ایک آئینہ ہے اور ہر صفت کا براہ راست قیوم ہے نہ کہ اس صورت کی ذات کے توسط سے۔ آئینہ ان سب صورتوں کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے لیکن یہ صورتیں آئینہ کو نہ مَس کر سکتی ہیں نہ کسی طرح متاثر کر سکتی ہیں۔ اس طرح آئینہ کی اندر کی صورتوں کو اگر الگ الگ کیا جائے تو وہ موجود ہوتی ہیں لیکن اگر ان صورتوں سے آئینہ کو دور کیا جائے تو وہ ختم ہو جاتی ہیں۔ سب سے آخر میں آئینہ کا وجود ہو تو اس میں صورتیں بنیں گی پس یہ قیوم اپنے ظلال سے اس معنی میں مقدم ہوتا ہے۔

اس تمام بحث سے کچھ مفید نتائج:

وجود کی دو قسمیں ہیں ایک اصلی اور دوسرا ظلی۔ اور ان میں مؤطن (domain) کا اختلاف ہوتا ہے۔

قیوم کی بھی دو قسمیں ہیں۔ ایک صورت یہ کہ خود قیوم اور اس چیز کا جس کا قیوم قیوم ہے ایک ہی domain ہو۔ اس میں قیوم ظاہر اور ظلال مظاہر ہوں گے اور اس عمل کو ظہور کہتے ہیں۔ ان میں قیوم اپنے ظلال کے بعض احکام سے متصف ہوسکتا ہے جیسا کہ لکڑی اور کرسی کی مثال ہے۔

اگر domain کا اختلاف پایا جائے تو پھر اس عمل کو ابداع کہیں گے اور قیوم کا نام مبدِع ہوگا اور ظلال کا مبدعۃ۔ ایسا قیوم اپنے ظلال کے احکام سے متصف نہیں ہوتا نہ انضمامی نہ انتزاعی۔ الفاظ کے اشتباہ سے بچنے کے لیے مبدِع کو فاطر کہا جائے گا اور مبدَع کو مفطور (ان شاء اللہ)۔

اوپر کی ڈسکشن سرسری نظر میں پچیدہ اور شاید بےفائدہ نظر آئے۔ پھر اس کی تعلیم کیوں فرمائی جارہی ہے؟

اس کا جواب یہ ہے:

کسی بھی مفید مبحث (dialogue) کے لئے ضروری ہے کہ دونوں فریقین کے درمیان ایک باہم متفقہ (mutually agreed) بنیاد ہو۔ آج کل کا جدید ذہن جو دین کے بنیادی source قرآن و سنت سے نا واقف ہے، بلکہ اس کے بارے میں شکوک و شبہات کا شکار ہے، اس سے discussion کے لئے بھی ایک بنیاد کی ضرورت ہے، جس سے وہ مانوس ہو۔ انداز logical ہو۔ مثالیں آج کل کی ہوں۔ مدارس میں منطق اسی لیے پڑھائی جاتی ہے۔ لیکن مقصد اوجھل ہونےکی وجہ سے اس سے پورا فائدہ نہیں ہو رہا۔

اس کتاب سے ہم یہی چیز سیکھ سکتے ہیں۔

علم الیقین، عین الیقین اور حق الیقین:

ابتدا میں مسلمان اللہ کی ذات اور صفات کو مان لیتا ہے، لیکن اس کو مشاہدہ مخلوقات کا ہو رہا ہوتا ہے۔ اس سے وہ یہ علمی اندازہ لگا لیتا ہے کہ ان سب کثرتوں میں ایک وحدت ہے یعنی ان سب کا قیوم ایک ہے جیسا کہ کمپیوٹر سافٹ وئیر والے جانتے ہیں کہ جو چیزیں سکرین پر آرہی ہیں، یہ سب 0 اور 1 کے مختلف حالات ہیں۔ اس معرفتِ علمی کو ’’علم الیقین‘‘ کہتے ہیں۔ ایسا شخص مختلف چیزوں کے مشاہدہ سے disturb (پریشان) ہوتا رہتا ہے اور اس کے فیصلے ایمانی تقاضوں اور مشاہدہ؛ دونوں سے متاثر ہوتے ہیں۔ کیونکہ اس کا نفس اس کو بار بار عاجلہ کی طرف کھینچتا ہے، جس سے اس کے دل میں عاجلہ کی محبت پیدا ہوتی ہے اور وہ عاجلہ میں مشغول ہوتا رہتا ہے۔

جتنا جتنا اس کا سلوک طے ہوتا جاتا ہے، اتنا اس کے اوپر حقائق کھل رہے ہوتے ہیں، وہ علم سے مشاہدے میں قدم رکھتا ہے اور اپنی عاجلہ کے مشاہدات کی نفی کرتے کرتے ’’عین الیقین‘‘ تک پہنچ جاتا ہے۔ لیکن ابھی تک اس نے اپنی ذات کی نفی نہیں کی ہوتی، اس کی ذات باقی ہوتی ہے، اس لئے ابھی اس پر وہ کیفیت اثر انداز نہیں ہوتی، جیسا کہ ہونی چاہئے۔

وہ جب سلوک کی انتہاء یعنی فنائے نفس تک پہنچ جاتا ہے، تو اپنے نفس کی فنائیت سے اس کی محسوسات ایسی ہو جاتی ہیں، جیسا وہ اس کا حصہ ہو۔ اب وہ اللہ تعالیٰ کو اس کیفیت میں پاتا ہے، جس میں اللہ کو پانا چاہئے۔ پس سالک اس وقت وحدۃ الوجود حاصل کر لیتا ہے۔ لیکن ابھی وہ عمل کے قابل نہیں ہوتا، کیونکہ اس وقت اس کا علم زائل ہو چکا ہوتا ہے۔ اس کے بعد پھر جب اس کا علم واپس لوٹ آتا ہے، تو اس وقت بھی وہ اللہ تعالیٰ کو اسی طرح پاتا ہے، جس طرح وحدۃ الوجود کی حالت میں پاتا تھا، لیکن اب اسے اللہ تعالیٰ کی صفات، اس کی تخلیقات بھی معلوم ہوتی ہیں، اس وجہ سے اب وہ عمل کر کے سب کا حق ادا کرتا ہے اور اس کا نفس وحدۃ الوجود کی کیفیت سے گزرنے کی برکت سے حائل نہیں ہوتا۔

ایک الہامی نکتہ:

توحید کے سفر کی ابتدا میں انسان اللہ تعالیٰ کو علمًا دیکھتا ہے، جبکہ مخلوقات کا اس کو مشاہدہ ہوتا ہے۔ سفر کی تکمیل پر وہ اللہ تعالیٰ کو گویا مشاہدہ سے پاتا ہے، جبکہ مخلوقات کو علم کے ذریعے دیکھتا ہے۔