تعلیمات مجددیہ درس 18

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
تعلیماتِ مجددیہ کے دروس کا سلسلہ جاری ہے جس میں ہم حضرت مجدد الفِ ثانی رحمۃ اللہ علیہ کے مکتوبات سے ماخوذ شدہ تعلیمات کے بارے میں گفتگو کرتے ہیں۔
حضرت مجدد الفِ ثانی رحمۃ اللّٰہ علیہ نے والدین کی خدمت کے بارے میں فرمایا کہ ”یہ ہر چند کہ حسنات میں سے ہے لیکن مطلوبِ حقیقی تک پہنچنے کے مقابلے میں محض بے کاری اور خالص معطلی، بلکہ برائی میں داخل ہے“۔
دفتر اول مکتوب نمبر 127 میں اس کے بارے میں ارشاد فرماتے ہیں کہ:
متن:
(آپ کا) پسندیدہ مکتوب موصول ہوا۔ (یہاں آنے کے بارے میں) توقف کا جو عذر (والدین کی خدمت) آپ نے بیان کیا ہے وہ صحیح و درست ہے (اور اس سلسلہ میں) اس سے بھی زیادہ جس قدر ہوسکے کرنا چاہئے (اور اس سب کے باوجود) اپنے آپ کو قصور وار اور کوتاہ عمل سمجھنا چاہئے۔ حق سبحانہ وتعالیٰ کا ارشاد ہے ﴿وَوَصَّیْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَیْہِ اِحْسنًا حَمَلَتْہُ اُمُّہٗ کُرْھًا وَّوَضَعَتْہُ کُرْھًا﴾ (الاحقاف:15) (یعنی ہم نے انسان کو والدین کے ساتھ نیک سلوک کرنے کی تاکید کی ہے، اس کی ماں نے تکلیف کے ساتھ اسے اُٹھائے رکھا پھر تکلیف کے ساتھ جنا)۔ پھر دوسری جگہ ارشاد ہے: ﴿اَنِ اشْکُرْ لِی وَلِوَالِدَیْکَ﴾ (لقمان:14) (میرا اور اپنے والدین کا شکر ادا کرو)۔ اس کے باوجود اعتقاد رکھنا چاہئے کہ یہ سب کچھ مطلوبِ حقیقی تک پہنچنے کے مقابلے میں محض بیکار ہے بلکہ منازل سلوک کے طے کرنے میں ایک طرح کا تعطّل ہے۔ حَسَنَاتُ الْاَبْرَارِ سَیِّئَاتُ الْمُقَرَّبِیْنَ (ابرار کی نیکیاں مقربین کی برایئاں ہیں) آپ نے سُنا ہو گا۔
بیت
ہرچہ جزِ عشق خدائے احسن است
گر شکر خوردن بود جان کندن است
جو بھی ہے عشق الہٰی کے سوا اُس میں ہے زہرِ ہلاہل کا مزہ)
اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا حق تمام مخلوقات کے حقوق پر مقدم ہے، اور ان (والدین) کے حقوق کی ادائیگی بھی حق سبحانہ وتعالیٰ کے حکم کی فرمانبرداری کی وجہ سے ہے ورنہ کس کی مجال ہے کہ اس کی خدمت کو چھوڑ کر دوسرے کے خدمت میں مشغول ہو، لہذا ان کی خدمت حق تعالیٰ ہی کی خدمت میں سے ہے، اگرچہ خدمت، خدمت میں بڑا فرق ہے۔ کاشت کار اور ہل چلانے والے بھی بادشاہوں کے خادم شمار ہوتے ہیں لیکن مقربین کی خدمت کچھ اور ہی چیز ہے۔ ان کے نزدیک کھیتی باڑی اور ہل چلانے کا نام لینا بھی معصیت میں داخل ہے۔ ہر کام کی اجرت اس کام کے اندازے کے مطابق ہوتی ہے۔ ہل چلانے والے کو سخت محنت کے بعد ایک ٹکا مزدوری کا ملتا ہے لیکن مقرب حق سبحانہ تعالیٰ کی حضوری حاصل ہونے کو ایک ساعت میں لاکھوں کا مستحق بن جاتا ہے اگرچہ اس کو لاکھوں سے کوئی تعلق نہیں ہوتا کیونکہ وہ تو صرف بادشاہ (حق تعالیٰ) کے قرب میں گرفتار ہے اور بس شَتَّانَ بَیْنَھُمَا (ان دونوں کے درمیان بڑا فرق ہے) فرخ حسین کافی ترقی حاصل کر چکا ہے اس کی طرف سے مطمئن رہیں، زیادہ کیا لکھوں۔ والسلام
تشریح:
یہاں حضرت مجدد الفِ ثانی رحمۃ اللّٰہ علیہ نے ایک بہت ہی مشکل موضوع پر گفتگو فرمائی ہے۔ سالکین کے ذہن میں عموماً یہ سوال اٹھتا ہے اور انہیں اس کے جواب کی ضرورت پیش آتی ہے۔ ایک چیز ہے: عرفی اور ایک چیز ہے: حقیقی۔ عرفی میں بھی حقیقت کا رنگ ہوتا ہے اسی وجہ سے وہ معروف ہوتی ہے اور اس کی قدر کی جاتی ہے۔ مثلاً آپ نے بسوں کے اوپر اور مختلف جگہوں پہ نمایاں طور پر یہ لکھا دیکھا ہو گا کہ یہ میری ماں کی دعاؤں کا نتیجہ ہے، ماں تیری عظمت کو سلام۔ والدین کے بارے میں اس قسم کی جو چیزیں سننے میں آتی ہیں یہ سب عرفی ہیں، مگر اس میں کوئی شک نہیں کہ ان میں حقیقت بھی ہے۔ جیسے ابھی حضرت نے ارشاد فرمایا کہ اس میں حقیقت تو ہے۔ حقیقت ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اس عرفی کام کا بھی اللہ پاک نے حکم دیا ہے۔ لہٰذا اس بات سے انکار نہیں کہ عرفی چیز میں بھی حقیقت کا رنگ ہوتا ہے۔
ایک اہم مسئلہ جو میں اکثر اپنے آپ کو بھی اور دوسروں کو بھی سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں، جس میں اکثر ناکام رہتا ہوں۔ وہ یہ ہے کہ حقوق العباد حقوق اللہ ہی کی وجہ سے ہیں۔ آج کل الٹی ہوا چل رہی ہے، لوگ عموماً یہ سمجھتے ہیں کہ حقوق العباد حقوق اللہ سے زیادہ اہم ہیں۔ یہ بڑی جرأت کی بات ہے۔ جو حقوق العباد حقوق اللہ سے آزاد ہوں، وہ حقوق ہی نہیں رہتے۔ جیسے ابھی حضرت نے فرمایا کہ یہ حقوق العباد چونکہ اللہ نے مقرر کئے ہیں تو یہ اصل میں حقوق اللہ ہی ہوئے۔ بس اتنا فرق ہے کہ حقوق العباد بالواسطہ حقوق اللہ ہیں اور حقوق اللہ بلا واسطہ حقوق اللہ ہیں۔ آخرت میں سوال تو دونوں کے بارے میں کیا جائے گا۔ مجھے اس معاملے میں بعض دفعہ بہت سخت بات بھی کرنا پڑ جاتی ہے۔ میں کہتا ہوں کہ ایمان حقوق اللہ میں سے ہے۔ اگر کوئی اللہ کا یہ حق پورا نہ کرے اور باقی سارے حقوق پورے کر لے تو کیا وہ بچ سکتا ہے؟ ہرگز نہیں بچ سکتا۔ اسی ایک حق کے سامنے آدمی کچھ نہیں کر سکتا، چہ جائیکہ دوسرے حقوق کے بارے میں کوئی بات کرے۔
حضرت نے بہت خوبصورت لکیر کھینچی ہے۔ سبحان اللہ! حضرت فرماتے ہیں کہ:
متن:
اللہ پاک نے ارشاد فرمایا ہے: ﴿اَنِ اشْکُرْ لِی وَلِوَالِدَیْکَ﴾ (لقمان:14) (میرا اور اپنے والدین کا شکر ادا کرو)۔ اس کے باوجود اعتقاد رکھنا چاہئے کہ یہ سب کچھ مطلوب حقیقی تک پہنچنے کے مقابلے میں محض بیکار ہے بلکہ منازل سلوک کے طے کرنے میں ایک طرح کا تعطّل ہے۔ حَسَنَاتُ الْاَبْرَارِ سَیِّئَاتُ الْمُقَرَّبِیْنَ (ابرار کی نیکیاں مقربین کی برائیاں ہیں) آپ نے سُنا ہو گا۔
تشریح:
اشفاق احمد صاحب فلاسفر قِسم کے آدمی تھے۔ انہوں نے نیک نیتی کے ساتھ بڑے اچھے فلسفیانہ انداز میں کہا تھا کہ بھئی والد سے بڑا پیر کوئی نہیں ہوتا۔ اس طرح کے لوگ اس قِسم کی باتیں کرتے ہیں۔ عوام کو یہ باتیں بہت پسند ہیں، کیونکہ اس میں کچھ کرنا نہیں پڑتا۔ پیر کی بات تو ماننی پڑتی ہے۔ مثلاً والد کا بھی حق ہے، پیر کا بھی حق ہے۔ یہ دونوں الگ الگ حقوق ہیں۔ اگر آپ نے والد کے حق میں پیر کا حق بھی رکھ لیا تو پھر یہ دونوں ایک ہی ہو جائیں گے، آسانی ہو جائے گی۔ نفس کو یہ آسانی پسند ہے۔ لہٰذا لوگ اس قسم کی باتیں کر کے انسانوں کو تو خوش کر سکتے ہیں، لیکن الله جل شانه کی بات اور ہے۔ الله جل شانه کا معاملہ اس سے بالکل مختلف ہے۔ کیونکہ اللہ پاک نے فرمایا ہے:
﴿اَنِ اشْکُرْ لِیْ وَ لِوَالِدَیْکَ۔﴾ (لقمان: 14)
ترجمہ: ’’کہ تم میرا شکر ادا کرو، اور اپنے ماں باپ کا۔‘‘
حضرت فرماتے ہیں:
متن:
اس کے باوجود اعتقاد رکھنا چاہئے کہ یہ سب کچھ مطلوبِ حقیقی تک پہنچنے کے مقابلے میں محض بیکار ہے، بلکہ منازل سلوک کے طے کرنے میں ایک طرح کا تعطّل ہے۔
تشریح:
میں اس کی اصل روح بتا دیتا ہوں کہ حضرت کیا کہنا چاہتے ہیں! حضرت یہ کہنا چاہتے ہیں کہ اگر تم صرف والدین کا شکر ادا کرتے ہو اور الله جل شانه کا تعلق حاصل کرنے کی کوشش کو چھوڑتے ہو تو والدین کے حقوق کی کوئی شرعی حیثیت نہیں رہ جائے گی۔ بلکہ ایک دنیاوی بات رہ جائے گی۔ کیونکہ پھر اس میں وہ اخلاص نہیں رہے گا، جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق کی وجہ سے ہوتا ہے۔ چونکہ یہ حق اللہ تعالیٰ نے مقرر کیا ہے، اس لئے اللہ تعالیٰ کے حوالے سے اس میں طاقت آئے گی۔ جتنا آپ کا تعلق اللہ تعالیٰ کے ساتھ مضبوط ہو گا، اتنا ہی حقوق العباد کا حوالہ مضبوط ہو گا، لیکن ہو گا ثانوی حیثیت میں۔ اللہ تعالیٰ کا حق جس پر جتنا کھلے گا، اتنا ہی اس کو اپنے والدین کے حق کا احساس زیادہ ہو گا۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا دار لوگ والدین کی رسمی خدمت کرتے ہیں اور جو حقیقی معنوں میں دین دار لوگ ہوتے ہیں، وہ واقعی والدین کی خدمت کرتے ہیں۔ سب سے بڑی خدمت ان کی یہ ہوتی ہے کہ میرے والدین کہیں جہنم میں نہ چلے جائیں، اس کے لئے کوشاں رہتے ہیں کہ کسی طریقہ سے ان کا بھلا ہو جائے۔ اس کے لئے مختلف طریقے استعمال کرتے ہیں۔ جب کہ دنیا دار لوگ کہتے ہیں، میرے والدین مجھ سے ظاہری طور پر خوش ہو گئے ہیں، بس یہی کافی ہے۔
اصل بات یہ ہے کہ یہاں پر حضرت نے جس چیز کی طرف اشارہ کیا ہے وہ یہ ہے کہ: ’’حَسَنَاتُ الْاَبْرَارِ سَیِّئَاتُ الْمُقَرَّبِیْنَ‘‘۔ ابرار ظاہری چیز کو مانتے ہیں۔ اس کا تقابل کچھ اس طرح کیا ہے کہ جیسے اللہ پاک نے حکم دیا کہ جنت مانگو اور دوزخ سے پناہ مانگو۔ یہ ایک حکم ہے، جیسے ’’اَنِ اشْکُرْ لِیْ وَ لِوَالِدَیْکَ‘‘ (لقمان: 14) حکم ہے۔ لیکن یہ جنت اور دوزخ ہمارے نفس کے لحاظ سے ہیں۔ ہمارے نفس کو پسند ہے کہ میں جنت میں چلا جاؤں اور دوزخ سے بچ جاؤں۔ لیکن جس وقت انسان کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ محبت ہوتی ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کے لئے اپنے نفس کو بالکل صفر سے ضرب دے دیتا ہے تو وہ ان چیزوں سے باہر نکل جاتا ہے۔ چونکہ ایسے لوگوں کا خصوصی معاملہ ہے، اس لئے اس کو زیادہ بیان بھی نہیں کیا گیا، البتہ اشارے موجود ہیں۔ جیسے حضرت نے ایک موقع پہ ارشاد فرمایا کہ اصل علم امورِ متشابہات کے اندر ہے۔ محکمات تو سب کے درمیان مشترک ہیں، لیکن اصل علم متشابہات کے اندر ہے اور وہ علم بہت کم لوگوں کو حاصل ہوتا ہے۔ اسی طرح یہ بات بھی ہے کہ ابرار عمومی ہیں اور مقربین خصوصی ہیں، ان کا معاملہ بالکل الگ ہوتا ہے۔ حضرت فرماتے ہیں:
متن:
اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا حق تمام مخلوقات کے حقوق پر مقدم ہے، اور ان (والدین) کے حقوق کی ادائیگی بھی حق سبحانہ وتعالیٰ کے حکم کی فرمانبرداری کی وجہ سے ہے ورنہ کس کی مجال ہے کہ اس کی خدمت کو چھوڑ کر دوسرے کے خدمت میں مشغول ہو، لہذا ان کی خدمت حق تعالیٰ ہی کی خدمت میں سے ہے، اگرچہ خدمت، خدمت میں بڑا فرق ہے۔ کاشت کار اور ہل چلانے والے بھی بادشاہوں کے خادم شمار ہوتے ہیں لیکن مقربین کی خدمت کچھ اور ہی چیز ہے۔ ان کے نزدیک کھیتی باڑی اور ہل چلانے کا نام لینا بھی معصیت میں داخل ہے۔ ہر کام کی اجرت اس کام کے اندازے کے مطابق ہوتی ہے۔ ہل چلانے والے کو سخت محنت کے بعد ایک ٹکا مزدوری کا ملتا ہے لیکن مقرب حضرت حق سبحانہ وتعالیٰ کی حضوری حاصل ہونے کو ایک ساعت میں لاکھوں کا مستحق بن جاتا ہے اگرچہ اس کو لاکھوں سے کوئی تعلق نہیں ہوتا کیونکہ وہ تو صرف بادشاہ (حق تعالیٰ) کے قرب میں گرفتار ہے اور بس شَتَّانَ بَیْنَھُمَا۔
تشریح:
اب میں کچھ واقعات اور ملاتا ہوں۔ حضرت کاکا صاحب رحمة اللہ علیه کی کتاب ”مقاماتِ قطبیہ و مقالاتِ قدسیہ“ میں حضرت کاکا صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی طرف ایک واقعہ منسوب ہے، حضرت حلیم گل بابا رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ انہوں (حضرت کاکا صاحب رحمۃ اللہ علیہ) نے اپنی والدہ اور بھائیوں سے اجازت لی تھی کہ مجھے اپنے حقوق معاف کر دو، کیونکہ میں صرف اللہ کا بننا چاہتا ہوں۔ انہوں نے اجازت بھی دے دی تھی۔ اس کے بعد یہ ہوا کہ حضرت کاکا صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے اپنا سب مال و جائداد ایسے لٹایا کہ پتا ہی نہیں چلا کہ کہاں گیا۔ جب تک گھر والوں کے حقوق تھے، تب ایسا نہیں کر سکتے تھے۔ اس لئے پہلے ان سے معاف کرائے۔ چنانچہ مقربین کا معاملہ بالکل مختلف ہوتا ہے، اگرچہ عمومی حکم یہی ہے جو بتایا جا رہا ہے۔
در اصل حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے یہ مکتوب ایک مرید کے خط کے جواب میں لکھا تھا، جس نے عذر بیان کیا تھا کہ میں والدین کی خدمت میں مصروف ہوں، اس وجہ سے آپ کی خدمت میں نہیں آ سکتا۔ فرمایا: آپ بالکل ٹھیک کر رہے ہیں، لیکن جب تک آپ کا اللہ کے ساتھ تعلق سیدھا نہیں ہوتا، تب تک چیزیں اسی درجے کی ہوں گی جتنا آپ کا اللہ کے ساتھ تعلق ہے۔ جب اللہ کے ساتھ تعلق سیدھا ہو جائے گا تو ہر چیز کی قیمت اس کے لحاظ سے بڑھ جائے گی۔ کیونکہ باقی سب چیزوں کی قیمت اس پر منحصر ہے کہ آپ کا اللہ تعالیٰ کے ساتھ کون سا تعلق ہے، آپ کا اللہ تعالیٰ کے ساتھ کس حد تک قرب ہے۔ پھر تمام اعمال کی قیمت اس کے لحاظ سے لگائی جائے گی۔
حضرت نے فرمایا: کھیتی باڑی کرنے والے بھی بادشاہ کے ملازم ہیں اور مقربین جو پاس بیٹھے ہیں وہ بھی بادشاہ کے ملازم ہیں، مزدور اُس حساب سے مزدوری پاتے ہیں اور مقربین اِس حساب سے مزدوری پاتے ہیں۔ حالانکہ ان کو ان چیزوں سے بھی کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ حضرت نے یہ فرق مقربین اور اَبرار میں بیان فرمایا۔
نفس امارہ کی مذمت و علاج کے سلسلے میں دفتر اول مکتوب نمبر 52 میں ارشاد فرماتے ہیں کہ:
متن:
(میرے) مخدوم و مکرم! انسان کا نفسِ امارہ جاہ و ریاست کی محبت پر پیدا کیا گیا ہے اس کی تمام ہمت و کوشش اپنے ہم عصروں پر بلندی حاصل کرنا ہے اور وہ فطری طور پر اس بات کا خواہاں ہے کہ تمام مخلوقات اس کی محتاج اور اس کے اوامر و نواہی کے تابع ہو جائے اور وہ خود کسی ایک کا بھی محتاج اور محکوم نہ ہو، اس کا یہ دعوی الوہیت خدا ہونے اور خدائے بے مثل جل سلطانہ کے ساتھ شرکت کا دعوی ہے بلکہ وہ بدبخت شرکت پر بھی راضی نہیں ہے (بلکہ) چاہتا ہے کہ حاکم صرف وہی ہو اور سب اس کے محکوم ہوں۔
حدیث قدسی میں آیا ہے: عَادِ نَفْسَکَ فَاِنَّھا اِنْتَصَبَتْ بِمُعَادَاتِی (یعنی اپنے نفس سے دشمنی رکھ کیونکہ بلاشک و شبہ وہ میری دشمنی پر کمر بستہ ہے) پس جاہ و ریاست، بڑائی اور تکبر وغیرہ نفس کی خواہشات حاصل کرنے کے ساتھ نفس کی تربیت کرنا حقیقت میں خدائے عزّ وجلّ کے دشمن کی مدد کرنا اور اس کو تقویت دینا ہے، اس بات کی برائی کو اچھی طرح جان لینا چاہئے۔
تشریح:
یعنی ریاست اور بڑائی وغیرہ، ان چیزوں سے نفس لذت پاتا ہے اور ان کا خواہاں ہے۔ لہٰذا جو جتنا بھی اس کو دیتا ہے، یہ مزید موٹا ہوتا جاتا ہے، اس کی خواہشیں بڑھتی جاتی ہیں اور انسان کو مصیبت میں ڈالتا جاتا ہے۔
متن:
نیز حدیث قدسی میں وارد ہے: اَلْکِبْرِیَاءُ رِدَائِی وَ الْعَظَمَةُ اِزَارِی فَمَنْ نَازَعَنِی فِی شَيءٍ مِّنْهُمَا أَدْخَلْتُهٗ فِي النَّارِ وَلَا أُبَالِيْ (یعنی بڑائی میری چادر ہے اور عظمت میری ازار ہے پس جس نے ان دونوں میں سے کسی ایک بات میں مجھ سے جھگڑا کیا تو میں اس کو دوزخ میں داخل کروں گا اور مجھے اس کی کچھ پرواہ نہیں)۔
کمینی دنیا حق سبحانہ وتعالیٰ کے نزدیک اس وجہ سے ملعونہ و مبغوضہ (یعنی لعنت کی ہوئی اور غضب کی ہوئی) ہے کہ دنیا کا حصول نفس کی خواہشات کے حاصل ہونے میں معاون و مددگار ہے پس جو کوئی (اللہ تعالیٰ کے) دشمن کی مدد کرے وہ بالضرور لعنت کے لائق ہے. اور فقر جو حضرت سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے فخر بن گیا،
تشریح:
یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا ہے: ’’وَ احْشُرْنِیْ فِيْ زُمْرَةِ الْمَسَاکِيْنِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ۔‘‘ (ترمذی شریف، حدیث نمبر: 2352)
ترجمہ: ’’اور قیامت کے دن مجھے مساکین کی جماعت میں اٹھا۔‘‘
متن:
(اس کی وجہ یہ ہے کہ) فقر میں نفس کی نامرادی اور اس کے عجز کا حصول ہے. انبیاء علیہم الصلوات والتسلیمات کی بعثت سے مقصود، اور شرعی احکامات میں حکمت کی وجہ یہی ہے کہ نفسِ امارہ عاجز اور خراب ہو جائے (کیونکہ) شرعی احکامات نفسانی خواہشات کو دُور کرنے کے لئے وارد ہوئے ہیں، جس قدر شریعت کے مطابق عمل کیا جائے گا اسی قدر نفسانی خواہشات زائل ہوتی جائیں گی، یہی وجہ ہے کہ خواہشاتِ نفسانی کے دُور کرنے میں شرعی احکامات میں سے ایک حکم بجا لانا اُن ہزار سالہ ریاضتوں اور مجاہدوں سے بہتر ہے جو اپنی طرف سے کی جائیں، بلکہ یہ ریاضتیں اور مجاہدے جو روشن شریعت کے مطابق واقع نہیں ہوئے نفسانی خواہشات کو مدد اور قوت دینے والے ہیں۔
برہمنوں اور جوگیوں نے ریاضتوں اور مجاہدوں میں کمی نہیں کی ہے لیکن ان میں سے کوئی چیز (ان کے لئے) فائدہ مند نہیں ہوئی اور نفس کی تقویت و پرورش کے سوا (ان کو) اور کچھ حاصل نہیں ہوا.
مثلًا زکوۃ کی ادائیگی میں جس کا کہ شریعت نے حکم دیا ہے ایک دام (دینار) خرچ کرنا نفس کے خراب (و ذلیل) کرنے میں (بغیر امر شرعی) اپنی مرضی سے ہزار دینار خرچ کرنے سے زیادہ فائدہ مند ہے، اور شریعت کے حکم سے عید الفطر کے دن کھانا خواہش (نفسانی) کے دور کرنے میں اپنی مرضی سے کئی سال کے روزے رکھنے سے زیادہ فائدہ مند ہے، اور نمازِ فجر کی دو رکعتوں کو جماعت کے ساتھ ادا کرنا جو کہ سنتوں میں سے ایک سنت کا بجا لانا ہے اس بات سے کئی درجے بہتر ہے کہ تمام رات نفل نماز ادا کرتا رہے اور فجر کی نماز جماعت کے بغیر ادا کر ے۔
غرضیکہ جب تک نفس کا تزکیہ نہ ہو جائے اور دماغ سرداری کے مالیخولیا کی پلیدی سے پاک نہ ہو جائے نجات محال ہے، اس مرض کے دُور کرنے کی فکر ضروری ہے تاکہ ایسا نہ ہو کہ اسی مرض میں ابدی موت آ جائے۔
کلمہ طیبہ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ جو آفاقی (بیرونی) و انفسی (اندرونی) معبودوں کی نفی کے لئے وضع کیا گیا ہے نفس کے پاک صاف کرنے میں بہت ہی مفید اور نہایت مناسب ہے۔ بزرگانِ طریقت قَدَّسَ اللہُ تعالٰی اِسرارَہم نے نفس کے تزکیہ کے لئے اسی کلمہ طیبہ کو اختیار فرمایا ہے۔
تشریح:
حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے نفس کی اصلاح کو ہمیشہ مقدم رکھا ہے، کیونکہ نفس تمام شرور کی بنیاد ہے۔ شیطان کا شر بھی نفس کی بنیاد پر ہے۔ اگر نفس کی اصلاح ہو جائے تو شیطان کچھ نہیں کر سکتا۔ شیطان نفس ہی کے ذریعہ سے ہمیں دھوکہ دیتا ہے۔ ہمیں جس چیز کی چاہت ہوتی ہے، وہ اس کا وسوسہ بنا لیتا ہے اور چونکہ انسان اس کو پہلے ہی چاہتا ہے، لہٰذا وہ اس وسوسہ پہ عمل کرنا شروع کر لیتا ہے۔ شیطان نفس کی چاہت کو اس کے لئے ایک طریقہ کار بنا لیتا ہے۔ یا تو اس کو تدریجاً (آہستہ آہستہ) Step by step برائی کی طرف لے آتا ہے۔ اس کارروائی کو چھوٹے چھوٹے steps میں تقسیم کر لیتا ہے، لہذا تبدیلی کا پتا نہیں چلتا۔ یا پھر اس کام کے لئے کوئی ایسی دلیل بنا لیتا ہے کہ انسان اس پر آمادہ ہو جاتا ہے۔ مثلاً بعد میں توبہ کر لیں گے، دیکھو تم نے اتنے اچھے اچھے کام بھی تو کئے ہیں وہ اس کا کفارہ ہو جائیں گے، اگر یہ کر بھی لو گے تو کیا ہو جائے گا۔ اس طرح کوئی نہ کوئی دلیل دے کر بہکا دیتا ہے۔ کیونکہ خواہش تو پہلے سے ہے، لہٰذا انسان اس کے اوپر عمل کرنے کے لئے تیار ہو جائے گا۔ شیطان کا طریقہ کار یہی ہے، اس کا راستہ نفس ہے۔ لہٰذا جب تک نفس کا علاج نہ ہو جائے، تب تک شیطان سے بچنا مشکل ہے۔ نفس کا علاج ہو جائے تو شیطان کا علاج خود ہی ہو گیا، پھر انسان شیطان سے بچ جاتا ہے۔
ڈاکٹر یونس صاحب ایک بہت ماہر برگیڈیئر تھے، Psychiatry Department (نفسیات کے شعبے) کے head (سربراہ) تھے، اب ریٹائر ہو گئے ہیں۔ جب میں نے نفس کی اصلاح کی بات کی تو انہوں نے مجھ سے ایک سوال کیا: کہنے لگے کہ ”شاہ صاحب آپ کیا باتیں کر رہے ہیں۔ کیا آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ انسان گناہ گار پیدا ہوتا ہے؟ جب کہ ہم کہتے ہیں کہ انسان تو پاک پیدا ہوتا ہے اور بعد میں شیطان اس کو گندا کر دیتا ہے۔ آپ نے یہ بات کہاں سے کی؟“ ان کا اشارہ اس حدیث کی طرف تھا جس میں آتا ہے کہ ”بچہ فطرت پہ پیدا ہوتا ہے اور ماں باپ اس کو یہودی یا نصرانی یا مجوسی بنا دیتے ہیں۔“ میں نے کہا کہ میں نے قرآن پاک سے یہ بات کی ہے۔ انہوں نے کہا: کہاں سے؟ میں نے کہا: یہ اللہ پاک نے فرمایا ہے، میں قرآن سے دو چیزیں بتاتا ہوں۔ ایک تو یہ کہ شیطان جس وقت مردود ہو گیا تو اس نے اللہ پاک سے مہلت مانگی اور اللہ پاک نے مہلت دے دی، پھر یہ شیر ہو گیا۔ اس نے کہا کہ یا اللہ! جن کی وجہ سے میرا یہ حال ہوا ہے، میں ان کے سامنے بیٹھ جاؤں گا، صراط مستقیم پر دائیں سے آؤں گا بائیں سے آؤں گا، آگے سے آؤں گا پیچھے سے آؤں گا۔ ان کو تجھ تک نہیں پہنچنے دوں گا اور تو بہت کم کو شکر گذار پائے گا۔ اِلَّا عِبَادَكَ الْمُخْلَصِیْنَ۔ (ص: 83) مگر تیرے بعض چنے گئے لوگ۔ ان پر میرا داؤ نہیں چلے گا۔ الله جل شانه نے فرمایا: ہو گئی بات! جو میرے ہیں ان کو تو گمراہ نہیں کر سکتا اور میں تجھ سے اور تیرے متبعین سے جہنم کو بھر دوں گا۔
میں نے کہا: آپ مجھے بتائیے کہ وہ کون لوگ ہیں؟ جن کے بارے میں اللہ پاک نے فرمایا کہ جو میرے ہیں ان کو تو گمراہ نہیں کر سکتا اور یہ شیطان جو کہتا ہے تیرے چنے ہوئے لوگ۔ یہ کون لوگ ہیں؟ آپ نے اس پر کچھ غور کیا ہے؟ کہنے لگے: نہیں۔ میں نے کہا میں بتاتا ہوں: اس کے بارے میں سورۃ الشمس میں آتا ہے، 11 قسمیں کھا کر اللہ پاک فرماتے ہیں:
﴿قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىهَا Ο وَ قَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰىهََا۔ (الشمس: 9-10)
ترجمہ: ’’فلاح اسے ملے گی جو اس نفس کو پاکیزہ بنائے۔ اور نا مراد وہ ہو گا جو اس کو (گناہ میں) دھنسا دے۔‘‘
یقیناً ”کامیاب ہو گیاسے مراد وہی وہ لوگ ہوں گے جن پر شیطان کا بس نہیں چلے گا، وہی یقینی کامیاب ہو سکتے ہیں۔ یہ کامیابی نفس کی اصلاح والوں کے لئے قرار دی گئی ہے۔ جس نے اپنے نفس کی اصلاح کی وہ شیطان کی دعوت سے بچ گیا۔ قرآن پاک کی آیات سے ثابت ہوا کہ جس نے اپنے نفس کی اصلاح کی وہ شیطان کے داؤ سے بچ گیا اور اللہ تعالیٰ کی حفاظت میں آ گیا۔ اس پر وہ بات سمجھ گئے۔
مقصد یہ ہے کہ جس نفس کی اصلاح نہ ہوئی ہو، وہ بہت خطرناک چیز ہے۔ اس کی اصلاح کے لئے جتنی کوششیں ہیں وہ اپنے طور پر جاری رہنی چاہئیں۔ حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں کہ اس کے علاج و اصلاح کے لئے کیا طریقہ ہو سکتا ہے؟ اصل میں علاج بالضد ہوتا ہے۔ مثلاً کسی کی طبیعت سرد خشک ہے، اس کو گرم مرطوب غذا دیں گے تو وہ صحت مند ہو جائے گا اور اگر کسی کا مزاج گرم مرطوب ہے، اس کو سرد خشک چیزیں دیں گے تو اس کا علاج ہو جائے گا۔ نفس کا علاج بھی اسی طرح ہوتا ہے۔ نفس جس چیز کو نہیں چاہتا اُس پہ اِس کو مجبور کرو گے تو یہی اس کا علاج ہے۔ کیونکہ نفس کے اندر شر ہے، شر کو دفع کرنا خیر ہے۔ منفی کو منفی سے ضرب دینا مثبت ہے۔ شر کو دفع اس طرح کیا جاتا ہے کہ جو کام شر چاہتا ہے وہ نہ ہونے دیں۔ اس کو دفع کرنے کا یہی طریقہ ہے۔ اوامر و نواہی، جن کو ہم شریعت کہتے ہیں۔ اللہ پاک کی طرف سے جس چیز کا امر ہوتا ہے، نفس وہ نہیں کرنا چاہتا اور جس چیز سے روکا گیا ہوتا ہے، وہ کرنا چاہتا ہے۔ جیسے نماز پڑھنے کا حکم ہے، لیکن نفس نماز نہیں پڑھنا چاہتا۔ بد نظری سے روکا گیا ہے تو نفس بد نظری کرنا چاہتا ہے۔ فضول گوئی سے منع کیا گیا ہے تو وہ فضول گوئی چاہتا ہے۔ اگر یہ ساری عمر بولتا رہے پریشان نہیں ہو گا، تھوڑی دیر کے لئے خاموش کر دو تو پریشان ہو جائے گا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ نفس اوامر و نواہی سے آزادی چاہتا ہے۔ لہٰذا اس کو اوامر و نواہی پر مجبور کیا جائے گا۔ یہی اس کا علاج ہے۔
اس کی بہترین Medical مثال جو اللہ پاک نے مجھے عملاً دکھائی ہے وہ thyroid ہے۔ hyper-thyroidism ایک بیماری ہے، جس میں thyroid کا function بہت زیادہ ہو جاتا ہے، Metabolic rate بہت بڑھ جاتا ہے۔ اس کے لئے neomercazole ایک tablet ہے، جو thyroid کا ٹینٹوا دبا دیتی ہے، thyroid کو کام نہیں کرنے دیتی۔ اس بیماری میں thyroid کو کافی عرصے تک دبائے رکھنا ہوتا ہے، مثلاً دو سال تک neomercazole کھانی ہوتی ہے، گویا thyroid کو کام نہیں کرنے دیا جا رہا ہے۔ اب دو سال تک آپ نے اس کو بے کار رکھا۔ thyroid انسان کے جسم میں جو فائدہ مند کام کرتا ہے، اس کے لئے یہ علاج نکالتے ہیں کہ وہ اس کو thyroxine سے دیتے ہیں، لیکن thyroid کے ذریعہ نہیں دیتے۔ اس سے یہ ہوتا ہے کہ thyroid کی تیزی ختم ہو جاتی ہے۔ اب دو سال کے بعد اس سے پنجہ ہٹا دیا جاتا ہے، neomercazole بند کر دیا جاتا ہے۔ بس سیدھا ہو گیا! میں کہتا ہوں کہ نفس کی اصلاح کے لئے یہ بہترین مثال ہے۔ جب تک آپ نفس کو دبائے رکھیں گے، یہ دبتا جائے گا، دبتا جائے گا اور سیدھا ہوتا جائے گا۔ نفس اوامر و نواہی سے آزادی چاہتا ہے، اسے اس میں آزاد نہ ہونے دو اس کو پابند کر دو، اتنا پابند کرو کہ یہ سیدھا ہو جائے۔ پھر یہ تکلف والا عمل بے تکلف ہوتا جائے گا۔
یہی چیز حضرت تھانوی رحمة الله عليہ ذرا مختلف الفاظ میں بیان فرماتے ہیں۔ ہر دور کے الفاظ اپنے اپنے ہوتے ہیں۔ حضرت فرماتے ہیں: بھئی پہلے تکلف کے ساتھ یہ کام کرو، پھر آپ کی عادت ہو جائے گی۔ پھر عادت سے عبادت ہو جائے گی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ دونوں حضرات (حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ) کی بات ایک ہے۔ دونوں مجددین ہیں، لیکن صرف یہ فرق ہے کہ حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے اُس دور کے لحاظ سے اُس انداز میں بات کی اور حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے اس دور کے لحاظ سے اِس انداز میں بات کی۔
بہرحال نفس کا علاج یہی ہے کہ اس کو اوامر و نواہی کا پابند کر دو۔ اوامر و نواہی کی پابندی سے یہ سیدھا ہوتا جائے گا۔ یہی علاج صحیح ہے۔ اب ایک اور سوال ہے، نفس بہت زیادہ بگڑ گیا ہو اور اس پابندی کے لئے بھی تیار نہ ہو تو پھر کیا کیا جائے؟
اس کی مثال یہ ہے کہ جیسے یہ کاغذ ہے۔ میں اس کاغذ کو نلکی بناتا ہوں، موڑ لیتا ہوں، جس وقت میں اس کو کھولوں گا تو یہ پورا نہیں کھلے گا۔ پھر اس کو مخالف سمت میں نلکی بنانا ہوتا ہے، اس کے بعد جب کھولیں گے تو یہ ٹھیک ہو جائے گا، پھر کھل جائے گا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ابتدا میں جتنا اس کو چاہئے، اس سے زیادہ زور لگایا جائے۔ یہ ریاضت برہمنوں اور جوگیوں والی ریاضت نہیں ہے، یہ تو شریعت پر لانے کے لئے ہے، اس لئے یہ بھی ضرورت ہے۔ جب نفس سیدھا ہو جائے تو اس کے بعد پھر وہی مسنون طریقہ اختیار کرنا ہے، اس کے علاوہ کچھ نہیں کرنا۔ اس معاملہ میں دوسرے سلسلوں والے حضرات بھی صحیح کہتے ہیں اور حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللّٰہ علیہ بھی صحیح کہتے ہیں۔ حضرت کا طریقہ اب بھی مستعمل ہو سکتا ہے، اس طرح کہ اس پر پورا پورا عمل ہو۔ مثلاً سنت پر چلنے میں عزیمت اختیار کی جائے اور نفس کو گنجائش نہ دی جائے، اس کو راستہ نہ دیا جائے، کیونکہ نفس بڑا مکار ہے، یہ راستہ نکالتا رہتا ہے۔ اس لئے عزیمت پہ پختہ ہو جائیں کہ یہ حکم ہے تو بس یہی ہے میں نے اور کچھ نہیں کرنا۔ اگر کوئی عزیمت کے ساتھ اس پر عمل کر سکتا ہے تو کچھ ہی عرصہ کی بات ہے، نفس ٹھیک ہو جائے گا ان شاء اللہ۔ وہی neomercazole والی بات ہے، لیکن اگر ایسا نہ ہو تو پھر دوسرا نلکی والا طریقہ کار ہے۔ اب میں ایک کو Neomercazole method کہوں گا اور دوسرے کو میں نلکی method کہوں گا، دونوں صحیح ہیں۔ کیونکہ دونوں سے ہمیں وہ فائدہ حاصل ہوتا ہے، جو ہمیں حاصل کرنا چاہئے۔
شریعت کو رواج دینا سب سے بڑی نیکی ہے۔ اس ضمن میں دفتر اول کے مکتوب 48 میں حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں کہ:
متن:
انبیاء صلوات اللہ تعالیٰ و تسلیماتہ علیہم نے جو کہ تمام کائنات میں سب سے بہتر ہیں (اپنی اپنی) شریعتوں کی طرف دعوت دی ہے اور نجات کا انحصار اسی پر رہا ہے اور ان بزرگوں کی پیدائش سے مقصود شریعتوں کی تبلیغ ہے پس سب سے بڑی نیکی شریعت کے رواج دینے اور اس کے حکموں میں سے کسی حکم کے زندہ کرنے میں کوشش کرنا ہے خصوصاً ایسے زمانے میں جب کہ اسلامی شعائر (نشانات و ارکان) بالکل مٹ گئے ہوں۔ اللہ تعالیٰ عز و جل کے راستہ میں کروڑوں روپیہ خرچ کرنا بھی شرعی مسائل میں سے کسی ایک مسئلہ کو رواج دینے کے برابر نہیں ہے کیونکہ اس فعل (شرعی مسائل کی ترویج) میں انبیائے کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام کی اقتدا (پیروی کرنا) ہے جو کہ مخلوقات میں سب سے زیادہ بزرگ ہیں اور اس فعل میں ان بزرگوں کے ساتھ شریک ہونا ہے۔ اور یہ بات ثابت ہے کہ سب سے کامل نیکیاں انہی بزرگوں کو عطا ہوئی ہیں اور کروڑوں روپیہ خرچ کرنا تو ان بزرگوں کے علاوہ دوسروں کو بھی میسر ہے۔
اور (ایک دلیل) یہ بھی ہے کہ احکام شریعت کے بجا لانے میں نفس کی پوری پوری مخالفت ہوتی ہے کیونکہ شریعت نفس کے مخالف وارد ہوتی ہے اور اموال کے خرچ کرنے میں تو کبھی نفس بھی موافقت کر لیتا ہے ہاں البتہ اموال کا خرچ کرنا اگر شریعت کی تائید اور مذہب کی ترویج کے لئے ہو تو اس کا بہت بڑا درجہ ہے اور اس نیت کے ساتھ ایک جیتل (دام) کا خرچ کرنا کسی اور نیت سے کئی لاکھ (روپیہ) خرچ کرنے کے برابر ہے۔
تشریح:
حضرت نے بہت عمدہ محاکمہ فرمایا ہے۔ شریعت اللہ کا حکم ہے، منشاء الٰہی ہے۔ لہٰذا منشاء الٰہی کے مطابق چلنا کتنا اچھا کام ہے۔ اگر آپ کسی کے ساتھ نیکی کر سکتے ہیں تو سب سے بڑی نیکی یہ ہے کہ اس کو جہنم کے عذاب سے بچا لیں۔ اس کے لئے وہ اسباب اختیار کر لیں جو اس کو جہنم سے بچا لیں۔ یہ اس کے لئے بہت بڑی سعادت ہو گی۔ جب یہ بات سمجھ میں آ گئی تو جو حضرات دین کے کام میں لگے ہوئے ہیں اور شریعت نافذ کرنے میں یا شریعت کو سمجھانے میں یا شریعت پر عمل کروانے میں لگے ہوئے ہیں، جیسے خانقاہوں کا کام علم کو عمل میں لانا ہے، سیاست کے میدان میں جو لوگ ہیں ان کا کام شریعت کو نافذ کرانا ہے اور مجاہدین کا کام شریعت کے مخالفین کا راستہ روکنا ہے۔ یہ سارے کام اپنے اپنے لحاظ سے بڑے اونچے اونچے کام ہیں۔ ان سب کے ذریعہ سے شریعت رواج پا رہی ہے اور شریعت کی حفاظت ہو رہی ہے، لہذا یہ سب بہت اونچے اور بہت اہم کام ہیں۔ ان میں سے کسی کو بھی دوسرے سے کم درجہ نہیں سمجھنا چاہئے۔ کیونکہ ان سب سے شریعت کو فائدہ ہو رہا ہے۔
الحمد للہ آج مجھے بڑی خوشی ہوئی۔ آج خواتین کے بیان میں قربانی کے بارے میں بات ہوئی تھی۔ ایک خاتون نے مجھے پیغام بھیجا۔ انہوں نے کہا کہ خود ہمارے اپنے گھر کے افراد مدرسہ میں قربانی کرتے ہیں اور ہمارے گھر کی دیوار کے دوسری طرف مدرسہ ہے، جو کھڑکی سے نظر آتا ہے۔ اگر میں اس کھڑکی میں سے اس جانور کو جو میری قربانی ہے، ذبح ہوتے دیکھوں تو کیا یہ ٹھیک ہے؟ میں نے کہا کہ اگر اس سے بے پردگی ہو رہی ہو تو پھر یہ ٹھیک نہیں ہے کیونکہ پردہ واجب ہے اور اپنا قربانی کا جانور اپنے سامنے ذبح کرانا مستحب ہے۔ اور مستحب کے لئے واجب کو نہیں چھوڑا جا سکتا، لیکن اگر پردہ ہو تو پھر دیکھ سکتی ہیں۔ حضرت فاطمہ رضي الله تعالیٰ عنها سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: ’’اپنی قربانی کے پاس کھڑی ہو جاؤ۔‘‘ اس لئے میں نے کہا بے پردگی نہیں ہو تو بالکل ٹھیک ہے۔ دیکھیے! اللہ تعالیٰ نے عمل کی توفیق کا رستہ کھول دیا۔ بات کرنے سے یہ فائدہ ہوتا ہے۔ اب پتا نہیں بات کہاں تک پہنچ رہی ہے اور کس کس کے پاس پہنچ رہی ہے اور کس کس کو عمل کی توفیق ہو رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ اس سے بڑے فائدے پہنچاتے ہیں۔ ہاں یہ ضروری ہے کہ بات اللہ کے لئے ہو، اپنے لئے نہ ہو۔ اپنے لئے نہ ہونے سے مراد یہ ہے کہ یہ مقصد نہ ہو کہ مجھے عالم کہا جائے، مجھے بڑا سکالر کہا جائے۔ ایسا کرنے سے یہ عمل اپنے لئے ہو جائے گا اور کام خراب ہو جائے گا۔ لیکن اگر یہ اللہ کے لئے ہے تو پھر ٹھیک ہے، پھر کوئی خطرہ کی بات نہیں، بلکہ فائدہ ہی فائدہ ہے۔
دین کی اتباع کی ترغیب کے سلسلے میں دفتر اول مکتوب نمبر 70 میں ارشاد فرماتے ہیں کہ:
متن:
پس تمام مخلوقات میں بہتر بھی انسان ہی ہے اور کائنات میں سب سے بدتر بھی انسان ہی ہے جیسا کہ حبیب رب العالمین حضرت محمد مصطفٰے علیہ وعلیٰ آلہ الصلوات والتسلیمات والتحیات بھی انسانوں میں سے ہی ہیں اور زمین و آسمان کے پروردگار خدائے پاک کا دشمن ابو جہل لعین بھی انہی میں سے ہے۔ پس لامحالہ جب تک ان سب کی گرفتاری سے نجات حاصل نہ ہو جائے اور ایک ذات کی جو ایک ہونے سے یعنی وحدت سے بھی منزہ و پاک ہے کی گرفتاری حاصل نہ ہو جائے اس وقت تک خرابی ہی خرابی ہے لیکن مَا لَا یُدْرَکُ کُلُّہٗ لَا یُتْرَکُ کُلُّہٗ (جو چیز پوری حاصل نہ ہوسکے اس کو بالکلیہ چھوڑا بھی نہ جائے یعنی جس قدر ملے حاصل کر لی جائے) کے موافق اپنی چند روزہ زندگی کو صاحبِ شریعت علیہ وعلی آلہ الصلوۃ والتحیتہ کی متابعت میں بسر کرنا چاہئے کیونکہ آخرت کے عذاب سے رہائی اور دائمی نعمتوں سے کامیابی حاصل کرنا اسی اتباع کی سعادت پر وابستہ ہے۔ پس بڑھنے والے مالوں (نقدی اور سونا چاندی) اور چرنے والے جانوروں کی زکوۃ بقدر واجب پورے طور پر ادا کرنی چاہئے اور اس کو مالوں اور مویشیوں کے ساتھ تعلق نہ ہونے کا وسیلہ بنانا چاہئے اور لذید کھانوں اور نفیس کپڑوں میں نفس کی لذت ملحوظ نہیں رکھنی چاہئے۔ بلکہ کھانے اور پینے کی چیزوں میں اس کے سوا اور کوئی نیت نہ ہونی چاہئے کہ عبادات کے ادا کرنے پر قوت حاصل ہو، اور نفیس کپڑوں کو آیتِ کریمہ ﴿خُذُوا زِیْنَتَکُمْ عِنْدَ کُلِّ مَسْجِدٍ﴾ (اعراف:31) اَیْ عِنْدَ کُلِّ صَلوۃٍ (ہر مسجد یعنی نماز کے وقت اپنی زینت حاصل کر لیا کرو) کے حکم کے مطابق مذکورہ و مامورہ آیت زینت کی نیت پر پہننا چاہئے اور کسی نیت کو اس میں نہیں ملانا چاہئے اور اگر نیت کی حقیقت میسر نہ ہو تو اپنے آپ کو تکلف کے ساتھ اس نیت پر لانا چاہئے۔
تشریح:
حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللّٰہ علیہ نے اس میں دین کی مجموعی ترغیب کے بارے میں بات فرمائی ہے کہ اصل میں بات یہ ہے کہ الله جل شانه کے علاوہ اگر کوئی چیز ہے تو اسے چھوڑنا چاہئے اور جو اللہ تعالیٰ کے لئے ہے بس اسی کو کرنا چاہئے، اصل کام تو یہی ہے۔ لیکن جب تک یہ مکمل حاصل نہیں ہوتا اس وقت تک جتنا حاصل ہو اس پر شکر ادا کیا جائے اور آگے بڑھا جائے، جس قدر بھی ملے اس کو استعمال کیا جائے۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سنت طریقہ کو عمل میں لانا چاہئے۔ کیونکہ سنت کے علاوہ اور کوئی طریقہ اللہ پاک کو پسند نہیں ہے، لہذا سنت طریقہ اختیار کرنا چاہئے۔ اپنے نفس کی دعوت پر کوئی کام نہیں کرنا چاہئے، بلکہ الله جل شانه کے حکم کے مطابق عمل کرنا چاہئے۔
حضرت نے فرمایا کہ لذیذ کھانوں میں اور نفیس کپڑوں میں اپنے آپ کو نفس کے لئے نہیں استعمال کرنا چاہئے، بلکہ کھانا اس نیت سے کھانا چاہئے کہ اس سے مجھے قوت حاصل ہو گی اور اس سے میں عبادت کروں گا، یہ دینی عبادت کی نیت ہو جائے گی اور کپڑوں میں یہ نیت ہو کہ چونکہ اللہ پاک کو زینت پسند ہے، اَللہُ جَمِیْلٌ وَ یُحِبُّ الْجَمَالَ، اللہ تعالیٰ جمیل ہے اور جمال کو پسند کرتا ہے اور یہ فرمایا:
﴿یٰبَنِیْۤ اٰدَمَ خُذُوْا زِیْنَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ﴾ (الأعراف: 31)
ترجمہ: ’’اے آدم کے بیٹو اور بیٹیو! جب کبھی مسجد میں آؤ تو اپنی خوشنمائی کا سامان (یعنی لباس جسم پر) لے کر آؤ۔‘‘
لہذا ہمیں مسجدوں میں جاتے ہوئے اس نیت سے اچھے کپڑے پہننے چاہئیں کہ یہ اللہ تعالیٰ کو پسند ہے۔ نیت کو بہتر کرنا چاہئے۔ اگر اس وقت نیت بے تکلف حاصل نہ ہو تو تکلف کے ساتھ نیت کی جائے تاکہ ہم لوگ صحیح انداز میں اس سے استفادہ کر سکیں۔
الله جل شانه ہم سب کو اس پر عمل کی توفیق عطا فرما دے۔ اصل میں تو یہ بہت لمبا مضمون ہے، لیکن اس وقت اختصار مطلوب ہے۔ ان شاء اللہ یہ موضوع چلتا رہے گا۔ الله جل شانه ہم سب کو زیادہ سے زیادہ سنت کا اتباع نصیب فرما دے۔
وَ اٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ للہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ