اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
آج کل ہمارے ہاں حضرت کاکا صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ کی زندگی کے بارے میں ان کے صاحبزادہ حضرت سید حلیم گل بابا رحمۃ اللّٰہ علیہ نے ’’مقالاتِ قدسیہ اور مقاماتِ قطبیہ‘‘ کے نام سے جو کتاب لکھی ہے، اس کی تعلیم جاری ہے اور اللّٰہ کا شکر ہے کہ اس وقت ہم حرم شریف سے بات کر رہے ہیں اور حدودِ حرم کے اندر مقام ’’عزیزیہ‘‘ سے اس کی تعلیم شروع ہے۔ حضرت کی نماز کے بارے میں بات چل رہی ہے۔ اگرچہ اس میں بعض باتیں دوبارہ آ جاتی ہیں، لیکن دوبارہ آنے کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ بعض باتیں اتنی تفصیل کے ساتھ اس وقت نہیں ہو پاتیں جتنی کہ ہونی چاہئیں، لہذا اس کا وہ حصہ دوبارہ ذکر کرنا پڑتا ہے۔ شیخ محمد حسین رحمۃ اللّٰہ علیہ کے اشعار میں فرمایا کہ:
متن:
”اُس ایک نظر کے نور اور روشنی سے میرا سارا وجود سراسر محو ہو جاتا ہے۔
ابیات:
در فروغ آں یک نظر
محوے گردد قدم وجودم سر بسر
اش شعاع آفتاب فرشاہ
پاک بر خیزیم آن ساعت ز راہ
چو نمے ماند ز من نامِ وجود
چوں بخدمت پیش رقم در سجود
گر تو مے بینی مرا آن دم عیان
نیستم من ہست آں شاہ جہان
گفتم اکنون مے ندانم کسنیم
بندۂ باری نیستم پس چیشتم
مے ندانم تو منی یا من توئی
محو گشتم در تو و گم شد دوئی
”اُس ایک نظر کے نور اور روشنی سے میرا سارا وجود سراسر محو ہو جاتا ہے۔ بادشاہ کے دبدبے کی شعاعِ آفتاب کی وجہ سے میں اس وقت راہ پر سے اُٹھ جاتا ہوں۔ جب میرے وجود کا نام تک نہیں رہ جاتا، تو میں آپ کی خدمت میں سجدہ ریز کیسے ہوا؟ اگر تُو اس وقت مجھے دیکھتا ہے، تو میں نہیں ہوتا، بلکہ وہ جہان کا بادشاہ موجود ہوتا ہے۔ میں نے پوچھا کہ اب میں نہیں جانتا کہ میں کون ہوں۔ میں بندہ نہیں ہوں، تو پھر کیا ہوں؟ میں یہ نہیں جانتا کہ تُو، میں ہے یا کہ میں ”تم“ ہوں۔ میں تمہاری ذات میں محو ہو گیا اور دوئی درمیان سے مٹ گئی“۔
سمجھنے والے ان باتوں کو سمجھ پاتے ہیں۔ اے میرے محبوب! بس جس چیز کی جانب روح مائل ہو کر اس جانب کا رُخ کرے، وہی اس کا قبلہ ہوتا ہے۔ ﴿فَأَیْنَمَا تُوَلُّوْا فَثَمَّ وَجْہُ اللّٰہِ﴾ (البقرہ: 115) ”سو جس طرف تو منہ کرو۔ وہاں ہی متوجہ ہے اللّٰہ“۔ (شیخ الہند)
حاصلِ کلام یہ کہ جب بندہ اس مقام تک پہنچ جائے جس تک کہ ہم آواز دیتے ہیں، تو وہاں نہ دِن ہوتا ہے، نہ رات ہوتی ہے۔ "لَیْسَ عِنْدَ اللّٰہِ صَبَاحٌ وَّلَا مَسَاءٌ" ”اللّٰہ تعالیٰ کے نزدیک نہ صبح ہوتی ہے، نہ شام“ تو پھر پانچ وقتوں کو کیسے دریافت کرے گا؟ مگر جب یہ آیت ﴿وَالَّذِیْنَ ھُمْ عَلٰی صَلٰوتِھِمْ دَاۤئِمُوْنَ﴾ (المعارج: 23) ”اور وہ لوگ جو اپنی نماز پر قائم ہیں“ اس گروہ کے بارے میں درست ہو۔ اس مقام پر شیخ محمد حسین نے لکھا ہے کہ میں کیا کروں کہ دنیا کے حال سے بے خبر راستے کے بچوں کی طرح ہوں، اس کا بیان اور تشریح نہیں کر سکتا، لیکن تکبیر اس طرح کہنی چاہئے کہ تُو دونوں جہانوں کو محو سمجھے اور ﴿إِنِّيْ ذَاھِبٌ إِلٰی رَبِّيْ سَیَھْدِیْنِ﴾ (الصافات: 99) ”میں جاتا ہوں اپنے رب کی طرف، وہ مجھے راہ دے گا“ کے استقبال میں چلے اور مشاہدہ کرے کہ جس وقت ﴿إِنِّيْ وَجَّھْتُ وَجْھِيَ لِلَّذِيْ...﴾ (الانعام: 79) کہے، تو محبوب کے رخِ زیبا کو اپنا مرکز سمجھے اور اس کو مرکز السمٰوٰت والارض تصور کرے اور اس مقام کو دیکھے کہ ﴿فَلَاۤ اُقْسِمُ بِمَا تُبْصِرُوْنَ وَمَا لَا تُبْصِرُوْنَ﴾ (الحاقۃ: 38-39) "سو قسم کھاتا ہوں اُن چیزوں کی جو تم دیکھتے ہو اور ان چیزوں کی جو کہ تم نہیں دیکھتے" اور وہ مرکز دیکھے جو "حَنِیْفًا" "مِلَّۃَ إبْرَاہِیْمَ" کا مرکز ہے، اور "مُسْلِمًا" کہہ کر استغفار کہے۔ اس کے بعد ﴿إِنَّ صَلوٰتِيْ وَنُسُکِيْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِيْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ﴾ (الانعام: 62) کہ "میری نماز اور میری قربانی اور میرا جینا اور میرا مرنا اللّٰہ تعالیٰ ہی کے لئے ہے، جو پالنے والا سارے جہان کا ہے" اور ان سب کو تو ظاہر اور عیاں دیکھے اور غیر کو شوق کی آگ سے جلتا ہوا کرے۔ اس کے بعد اے بھائی! ﴿وَبِذَالِکَ اُمِرْتُ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُسْلِمِیْنَ﴾ (الانعام: 163) "مجھے اس کا حکم دیا گیا ہے اور میں پہلا مسلمان ہوں" کی مبارک آیت تم کو مسلمانی سکھائے۔ اس کے بعد ﴿أَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ﴾ کہنا اس مقام پر درست ہو گا۔ اور "بِسْمِ اللّٰہِ" سے شروع کرنے کی ضرورت ہو گی۔ "اَلرَّحْمٰنِ" اور "اَلرَّحِیْمِ" اُس کی صفات ہیں، جو کہ ذات کے ساتھ تعلق پذیر ہیں۔ پس اے بھائی! "اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ" شکر کرنا ہے۔ "اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ" اِس کے بعد "رَبِّ الْعَالَمِیْن" کی ذات کی صفات ہیں، جو بارِ دیگر توثیق اور مزید آرائش کے لئے ہیں۔ جیسا کہ "اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ" خوش نما اور زیبا ہے۔ اس کے بعد اے برادرِ عزیز! اللّٰہ اور اِلٰہ ایک ہو جائیں گے۔ (’’اللّٰہ اور اِلٰہ ایک ہو جائیں گے‘‘ اس پہ بات ہو گی، ان شاء اللّٰہ) اس لئے "اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم" کا تکرار ضروری ہے۔ "مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ" یعنی دنیا کو دین کے آئینے میں دیکھے گا، کیونکہ آخرت کے لئے دنیا میں جگہ نہیں اور وہ اس میں سما نہیں سکتی۔ پس اے بھائی! سورۂ فاتحہ میں ساقی واسطہ (رسول اللّٰہ ﷺ) سے شراب مانگو گے اور یہی کر کہ تجھے مستی اور دیوانگی ہو جائے اور ساقئ واسطہ جناب رسالت پناہ ﷺ کی ذاتِ مبارک اور پِیر تربیت ہے تو اے بھائی! اِسی ساقئ واسطہ سے ساقی واسطہ تک پہنچ جاؤ گے۔ اور جب تم مست ہو جاؤ تو "إِیَّاکَ نَعْبُدُ" کہہ کر خدمت پر کمر بستہ ہو جاؤ گے اور "إِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ" تمہاری زبان سے نکل پڑے گا۔ اور تمہارے دونوں جہانوں کی تمنا بر آئے گی اور "اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ" کو بعینہ دیکھو گے کہ ساقی کے ہاتھ سے بغیر کسی واسطے کے شراب نوش کرتے ہیں۔ اور وہ لوگ کون ہیں جو بلا واسطہ دستِ ساقی سے شراب نوش کرتے ہیں وہ لوگ "صِرَاطَ الَّذِیْنَ أَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ" ہیں۔ اور وہ لوگ جو کہ محروم ہیں اور جدائی کے صدمے سہہ رہے ہیں، تم گھر کے اندر بیٹھ کے نعمتوں سے لطف اندوز ہو رہے ہو اور وہ زنجیر کے حلقے کی طرح باہر نکلے اور نکالے پڑے ہوئے ہیں۔ "غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَا الضَّالِّیْنَ" ہیں، اس وقت تجھے معلوم ہو جائے گا کہ سرور عالم ﷺ نے جو اشارہ فرمایا ہے کہ "لَا صَلٰوۃَ لِمَنْ لَّمْ یَقْرَأْ بِفَاتِحَۃِ الْکِتَابِ" (الصحیح للبخاری، کتاب الأذان، باب: وجوب القراءۃ للإمام و المأموم، رقم الحدیث: 756) یعنی سورۂ فاتحہ کے بغیر نماز ادا نہیں ہو سکتی، اور کوئی نماز سورۂ فاتحہ کے بغیر وجود ہی نہیں رکھتی۔ اس مبارک قول میں کتنی صداقت ہے۔ اس کے بعد یعنی ان مراحلِ تعریف اور بیان کے بعد تیری فاتحہ درست ہو جائے گی۔ اور فاتحہ یہی جو میں نے ابھی ذکر کی اور تم نے سُنی۔ اور یہ بات قطعی طور پر ناجائز اور حرام ہے کہ ہم اور تم اور تمام اہلِ ظواہر یہ لاف زنی کریں کہ ہم نماز پڑھتے ہیں اور فاتحہ پڑھتے ہیں۔ افسوس… صد افسوس! کہ ہم نے تمام عمر میں ایک نماز بھی نہیں پڑھی اور ایک دفعہ بھی فاتحہ نہیں پڑھی اور تکبیر اور نیت نہیں کہی۔ یہی جو میں نے ذکر کیا اور جس کی تشریح کی، یہی فاتحہ، نیتِ قبلہ، تکبیرِ توجہ اور قیام تھے۔ مگر اس قسم کی نماز ہمارے شیخ صاحب یعنی شیخ رحمکار صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ کی شایانِ شان ہے۔ جس کے بارے میں شیخ محمد حسین نے بطور رمز کنایۃً کہا تھا کہ تیس 30 سال ہوئے کہ میں قلم کو ارادتًا مقدور بھر استعمال کرتا ہوں، لیکن اس کے رموز ابھی تک مکمل نہیں ہوئے اور مکمل ہونے کے بھی نہیں۔ اور یہ چند نکات جو کہ انوار کے سمندروں میں سے اس فقیر کو جلوہ نما ہوئے ہیں آسان طریقہ پر حل شدہ انداز میں تحریر کرتا ہوں۔ حقیقت میں اِس کی حقیقت تک کوئی بھی نہیں پہنچ سکتا اور نہ اِس تک کسی کی رسائی ہو سکے گی۔
تشریح:
اصل میں انسان، انسان ہے اور انسان جو نظر آتا ہے، وہی انسان ہوتا ہے۔ ہر انسان کی دو آنکھیں، دو کان، زبان، ہاتھ، پاؤں وغیرہ اعضاء ہوتے ہیں۔ بظاہر کوئی انسان کالا ہوتا ہے، کوئی گورا ہوتا ہے، کوئی خوبصورت ہوتا ہے، کوئی خوبصورت نہیں ہوتا، کوئی عالی خاندان کا ہوتا ہے، کوئی کم خاندان کا ہوتا ہے، یہ سب ظاہری باتیں ہیں۔ اصل میں انسان جو حقیقتاً انسان کہلانے کا مستحق ہے، وہ کچھ صفات کے واسطے سے ہے۔ اگر اس میں وہ صفات پائی جاتی ہیں تو وہ انسان ہے، ورنہ وہ حیوان ہے۔ کیونکہ انسان اور حیوان کے اندر یہی فرق ہے۔ ہر انسان کے اندر حیوانی صفات پائی جاتی ہیں۔ اگر ان حیوانی صفات کے اوپر غلبہ پا کر کسی نے اپنے آپ کو انسان ہونے کے لئے تیار کر لیا تو وہ انسان ہے۔ اللّٰہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْۤ اَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ﴾ (التین: 4)
ترجمہ: ’’ہم نے انسان کو بہترین سانچے میں ڈھال کر پیدا کیا ہے‘‘۔
لہٰذا انسان کا ڈھانچہ بہت اونچا ہے اور اس کا مرتبہ بھی بہت اونچا ہے۔ لیکن اگر ایسا نہیں ہے، تو پھر وہ ﴿ثُمَّ رَدَدْنٰهُ اَسْفَلَ سٰفِلِیْنَ﴾ (التین: 5) میں چلا جائے گا۔ اس وجہ سے انسانیت کی معراج درجہ بدرجہ ہے۔ مثلاً: بظاہر انسانوں کے اندر جو پہلے درجے کے منتخَب لوگ ہیں اور حقیقی انسان ہیں، وہ مؤمنین ہیں یعنی جو ایمان رکھنے والے ہیں۔ اس کے بعد ان مؤمنین کے اندر وہ لوگ ہیں، جو صحیح اور غلط کا علم رکھتے ہیں۔ پھر ان کے اندر مُخلَص یعنی چنے ہوئے وہ لوگ ہیں، جو اس علم پر عمل کرتے ہیں۔ اور پھر ان کے اندر مُخلَص وہ لوگ ہیں، جو اس پر اخلاص کے ساتھ عمل کرتے ہیں اور پھر ان میں مُخلَص لوگ وہ ہوتے ہیں، جن کو معرفت حاصل ہوتی ہے، جنہیں ’’عارفین باللّٰہ‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس وجہ سے اللّٰہ جل شانہ نے اپنے تک پہنچنے کے لئے جو ذرائع بنائے ہیں، جس کو ان ذرائع کی جتنی معرفت حاصل ہو گی اور ان کو جو صحیح استعمال کرے گا، اس کو اللّٰہ تعالیٰ کی اسی درجہ کی معرفت حاصل ہو گی، وہ اتنے درجہ اللّٰہ کے قریب ہو گا۔
یہاں حضرت نے فرمایا ہے کہ نماز بھی ایسے ہی ہے جیسے انسان ہے۔ یعنی جیسے ہر انسان بظاہر ایک نظر آتا ہے، بس وہ ایک انسان ہے، لیکن اسی انسان میں بہت سے درجے ہیں، کہاں سے کہاں بات پہنچ جاتی ہے۔ اسی طرح نماز کے اندر بہت سے درجے ہیں، کہاں سے کہاں بات پہنچ جاتی ہے۔ نماز کو اللّٰہ پاک نے معراج المؤمنین بنایا ہے۔ جیسے فرمایا گیا ہے: ’’اَلصَّلوٰۃُ مِعْرَاجُ الْمُؤْمِنِ‘‘۔ اس کے اندر اللّٰہ پاک سب کچھ دے رہا ہوتا ہے، لیکن ارکان کے لحاظ سے نماز بڑی مختصر ہے۔ تو یہ درجے کیسے بنتے ہیں؟ کسی کی دو رکعت لاکھوں رکعتوں کے برابر معرفت کی وجہ سے ہو جاتی ہے۔ عارف باللّٰہ کی دو رکعت غیر عارف کی لاکھوں رکعتوں سے افضل ہوتی ہے۔ گویا یہ درجے ان کے دل کی کیفیت، معرفت اور ہمت اور اس میں اپنے نفس پر قابو پانے سے بنتے ہیں۔ ہمارا نفس آزادی چاہتا ہے اور دین و شریعت پابندی چاہتے ہیں، شریعت ہمیں آزاد نہیں چھوڑتی۔ ﴿لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْ كَبَدٍ﴾ (البلد: 4)
ترجمہ: ’’ہم نے انسان کو مشقت میں پیدا کیا ہے‘‘۔
لہٰذا اللّٰہ تعالیٰ نے اسی طرح ہمیں پیدا کیا ہے۔ اور یہ بھی فرمایا کہ: ’’اَلدُّنْيَا سِجْنُ الْمُؤْمِنِ وَجَنَّةُ الْكَافِرِ‘‘۔ (مسلم شریف، حدیث نمبر: 7606)
ترجمہ: ’’دنیا مؤمن کے لئے قید خانہ اور کافر کے لئے جنت ہے‘‘۔
پس پتا چل گیا کہ کافر اس میں آزاد رہ سکتا ہے، مسلمان آزاد نہیں رہ سکتا۔ اس کے لئے جو اللّٰہ جل شانہ نے مظہر بنایا ہے، جس سے اس پورے نظام کو انسان سمجھ سکتا ہے، وہ نماز ہے۔ باقی جگہوں پر اس کا مطالعہ کرنا مشکل ہے، لیکن نماز کے اندر اس کا مطالعہ کرنا آسان ہے۔ کیونکہ اس کی جو شناخت، ترتیب اور ہئیت بنائی گئی ہے، اگر کوئی نظر والا ہو تو اس کو یہ ساری چیزیں نظر آتی ہیں۔ مثلاً: جس وقت ہم تکبیرِ تحریمہ کہتے ہیں: ’’اَللّٰہُ اَکْبَرُ‘‘ اس سے مراد یہ ہے کہ سب کو پیچھے گراؤ، صرف اللّٰہ کے دربار میں حاضر ہو جاؤ۔ اس سب میں انسان خود بھی شامل ہوتا ہے۔ حدیثِ نفس تو موجود ہے۔ کیونکہ جو انسان ابھی جاگ رہا ہے یعنی جس نے اپنے آپ کو فنا نہیں کیا، تو وہ چیزیں تو ساتھ آئیں گی۔ لہٰذا نماز کے اندر اپنے نفس کو بھی چھوڑ دینا ہے۔ یہی حضرت بیان فرما رہے ہیں۔ یعنی تکبیرِ تحریمہ کہہ کر انسان ساری چیزوں کو چھوڑ دے، صرف اللّٰہ کے دربار میں حاضر ہو جائے۔ لیکن اللّٰہ کا دربار کیا ہے؟ یہی حضرت سمجھا رہے ہیں۔ اللّٰہ کے دربار میں کیسے پہنچو گے؟ اس کا افتتاح سورۂ فاتحہ ہے۔ اللّٰہ کے دربار میں پہنچنا نماز کا مقصد ہے اور فاتحہ اس کا ذریعہ ہے۔ لہٰذا جو فاتحہ نہیں پڑھے گا، وہ نہیں پہنچے گا۔ اسی لئے فرمایا: ’’لَا صَلٰوۃَ اِلَّا بِقِرَاءَةِ فَاتِحَۃِ الْکِتَابِ‘‘۔ (مسند احمد، حدیث نمبر: 9529) یعنی کوئی نماز، نماز نہیں، اگر اس میں سورۂ فاتحہ نہ پڑھی جائے۔
بعض حضرات اس سے یہ مراد لیتے ہیں کہ ہر نماز کے اندر سورۂ فاتحہ پڑھنی چاہئے۔ ہمارے احناف کہتے ہیں: ہاں، ہر نماز میں سورۂ فاتحہ پڑھنی چاہئے، لیکن پڑھنے کا ہر ایک کا اپنا اپنا انداز ہوتا ہے۔ کیونکہ اجتماعی کاموں میں امیر کی بات پوری جماعت کی طرف سے ہوتی ہے۔ جب کوئی معاملہ کرتا ہے، تو جماعت کے ہر فرد کے ساتھ نہیں کرتا، بلکہ جماعت کے امیر کے ساتھ معاملہ کر لے، تو سب کی طرف سے سمجھا جاتا ہے۔ اسی طرح جو امام ہوتا ہے، جس کے پیچھے ہم نے نیت باندھی، وہ ہمارا امیر ہو گیا۔ ہم نے خود نیت کی ہے۔ یہ ایسے ہے کہ جیسے اس مسئلہ میں اس سے بیعت کی ہو۔ ہم نے اس کے پیچھے نیت باندھی ہے۔ لہٰذا وہ جو کچھ اللّٰہ سے کہہ رہا ہے، ہماری طرف سے کہہ رہا ہے۔ اسی طرح وہ سورۂ فاتحہ پڑھ رہا ہے، وہ سورۂ فاتحہ بھی ہماری طرف سے ہے۔
حدیث شریف میں آتا ہے کہ: ’’مَنْ صَلّٰى خَلْفَ إِمَامٍ فَإِنَّ قِرَاءَةَ الْإِمَامِ لَهٗ قِرَاءَةٌ‘‘۔ (الآثار لِاَبی یوسف، حدیث نمبر: 113)
ترجمہ: ’’جو کوئی امام کے پیچھے نماز پڑھے، تو امام کی قرات اس کی قرات ہے‘‘۔
لہٰذا امام کی قرات اس کے پیچھے نماز پڑھنے والے مقتدی کی بھی قرات سمجھی جائے گی۔ اس لئے ہم بھی سورۂ فاتحہ پڑھتے ہیں، لیکن ہم لوگ اجتماعی اور انفرادی میں مختلف طریقے اختیار کرتے ہیں۔ انفرادی میں تو ہم اپنی اپنی پڑھتے ہیں، لیکن اجتماعی میں ہم امام کے پیچھے ہوتے ہیں، امام ہماری طرف سے پڑھ لیتا ہے۔ ہم بھی اس میں شامل ہیں اور ہم اخیر میں آمین کہہ دیتے ہیں۔ سِرّی نماز میں بھی ہماری طرف سے سمجھی جاتی ہے۔ لہذا ہم امام کے ساتھ شامل ہوتے ہیں، وہ ہماری بات اللّٰہ تعالیٰ کے سامنے رکھتا ہے۔ اور یہ ایک منظم طریقہ ہے۔ شاید اسی تحقیق کی وجہ سے ہی حنفی فقہ پر زیادہ حکومتیں چلی ہیں اور زیادہ منظم انداز میں چلی ہیں۔ کیونکہ اجتماعیت کا جو بنیادی اصول ہے، وہ ان کی نماز میں شامل ہے۔ یہ نقطے کی بات ہے۔ یعنی اجتماعیت کا جو نقطہ ہے، جس سے اجتماعیت اُبھرتی ہے اور اجتماعیت صحیح چلتی ہے کہ امام کی بات کو مانا جائے اور اس کو اپنی طرف سے سمجھا جائے۔ اور یہ ہماری نماز کے اندر شامل ہے۔ لہذا ہمارے لئے ایک امیر کی اطاعت میں چلنا بہت آسان ہوتا ہے۔
بہر حال! یہ تو درمیان میں ایک جملہ معترضہ آ گیا۔ جب ہم سورۂ فاتحہ پڑھتے ہیں، تو سورۂ فاتحہ کے مضامین میں اگر ہم غور کریں، تو یہ ہمیں وہاں تک پہنچاتے ہیں، جہاں تک پہنچنا چاہئے۔
سب سے پہلے ہم ثناء پڑھتے ہیں۔ یہ اللّٰہ تعالیٰ کی ثناء ہے۔ ظاہر ہے کہ وہ تو ہمیں کرنی چاہئے، کیونکہ اللّٰہ تعالیٰ ہی کے لئے ساری ثناء ہے۔ ثناء کے بعد پھر ہم ’’أَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ‘‘ پڑھتے ہیں اور شیطان سے پناہ مانگتے ہیں، کیونکہ شیطان ہمارے درمیان بہت بڑا مداخلت کرنے والا ہے۔ وہ ہماری تمام چیزوں کو اچک سکتا ہے۔ اسی لئے ہم ’’أَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ‘‘ پڑھ لیتے ہیں۔ اس کے بعد اللّٰہ جل شانہ کے نام سے اپنے کام کی ابتدا کرتے ہیں اور پڑھتے ہیں: ’’بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ کہ اللّٰہ کے نام سے میں شروع کر رہا ہوں جو رحمٰن ہے، رحیم ہے۔ یہ ہماری ابتدا ہے۔ اس کے بعد پھر سورۂ فاتحہ ہم شروع کرتے ہیں اور سورۂ فاتحہ کے اندر ’’اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ‘‘ پڑھتے ہیں کہ تمام تعریفیں، جس قدر بھی ہو سکتی ہیں، وہ صرف اللّٰہ کے لئے ہیں۔ اس پر حضرت ابو بکر صدیق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کا اتنا عمل تھا کہ ایک مشورہ ہو رہا ہے، بڑا سنجیدہ مشورہ ہے، سب حضرات رائے دے رہے ہیں، حضرت چُپ ہیں۔ اخیر میں حضرت فرماتے ہیں: میرے دل میں بھی ایک رائے ہے، وہ بیان کرتا ہوں۔ اگر اچھی ہے، تو اللّٰہ کی طرف سے ہے اور اگر بری ہے، تو میری طرف سے اور میرے شیطان کی طرف سے ہے۔ دیکھیں! اپنی طرف کس چیز کی نسبت کی اور اللّٰہ کی طرف کس چیز کی نسبت کی۔ لہٰذا تعریف صرف اللّٰہ کی ہے۔ آپ نے جب کوئی اچھا کام کیا، تو سمجھو کہ اللّٰہ نے کرا دیا اور جب کوئی برا کام کرو، تو سمجھو کہ شیطان اور نفس نے کرا دیا ہے۔ کیونکہ اللّٰہ تعالیٰ خیر کا داعی ہے، اللّٰہ تعالیٰ شر کا داعی نہیں ہے۔ ہاں یہ الگ بات ہے کہ بٹن کی طرح سرکٹ اللّٰہ تعالیٰ ہی بنائے گا اور بٹن آپ دبائیں گے۔ ارادہ آپ کریں گے، پورا اللّٰہ کرے گا۔ لیکن اللّٰہ تعالیٰ کی طرف اس کی نسبت بے ادبی ہے۔ کیوں کہ اللّٰہ تعالیٰ نے تو آپ کے کہنے پہ کیا ہے۔ تو نے اس طرح کرنے کے لئے کہا ہے، تو اللّٰہ تعالیٰ نے اس طرح کر دیا۔ اس لئے نسبت تیری طرف ہو گی۔ جیسے آپ کو کوئی اختیار دیتا ہے کہ یہ دے دوں یا یہ دے دوں؟ آپ جو بھی کہتے ہیں، وہ آپ کی طرف نسبت ہوتی ہے۔ دینے والے کی طرف نسبت نہیں ہوتی۔ کیونکہ آپ نے خود ہی یہ کہا تھا۔
ایک دفعہ ایسا ہوا کہ میں ٹال پہ لکڑی خرید رہا تھا۔ ٹال والا کافی اچھا آدمی تھا اور ماہر تھا۔ اس نے ایک نَگ کی طرف اشارہ کیا کہ یہ لے لیں۔ مجھے وہ نَگ کم لگ رہا تھا، پورا نہیں لگ رہا تھا۔ میں نے کہا: یہ نہیں، یہ دے دیں۔ وہ پیچھے ہو گیا۔ کہتا ہے: اچھا ٹھیک ہے۔ اب میں کچھ نہیں کہوں گا، اب جو کچھ ہو گا، آپ ہی کا ہو گا۔ اس سے اگر پوری لکڑی نکل آئی جس طرح کہ آپ چاہتے ہیں تو ٹھیک ہے، آپ کی قسمت۔ اگر پوری نہ نکلی، تو میں ذمہ دار نہیں ہوں گا۔ مجھے چونکہ اس کا پتا تھا، اس لئے میں نے کہا: بس ٹھیک ہے جو آپ کہ رہے ہیں وہی دے دیں۔ یہی بات ہے کہ ایک انسان کو جب اختیار دے دیا جائے اور وہ اختیار استعمال کر لے تو وہ اس کا ذمہ دار ہو جاتا ہے۔ اور جو دوسرے پر چھوڑ دیتا ہے، تو پھر وہی سب کچھ کرتا ہے۔ اسی طرح انسان جب بھی کوئی خیر کا کام کرتا ہے، تو وہ اللّٰہ کی طرف سے ہے اور جب کوئی شر کرتا ہے، تو شیطان اور نفس کی طرف اس کی نسبت جائے گی۔
’’اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ‘‘ (ساری تعریفیں اللّٰہ کے لئے ہیں) یہ بات تب ٹھیک ہو گی، جب آپ اپنے آپ کے جال سے بھی نکلو گے۔ جس کے بارے میں حضرت نے فرمایا ہے۔ جب اپنے جال سے بھی نکلو گے۔ جب اپنی ساری خیروں کو بھی اللّٰہ کا خیر سمجھو گے۔ پس یہ دوئی کو مٹانے والی چیز ہے۔ یہ بظاہر مشکل چیز ہے۔ اصل میں یہی چیز ہے کہ دوئی اس طرح مٹتی ہے کہ جب آپ اپنی تمام خیروں کو بھی اللّٰہ کی طرف سے سمجھیں گے تو پھر دوئی مٹ جائے گی۔ پھر تیرا کرنا، اس کا کرنا؛ یہ برابر ہو جائے گا۔ جیسا کہ میں اس سلسلہ میں بہلول رحمۃ اللّٰہ علیہ کا واقعہ میں بار بار بتایا کرتا ہوں کہ ہارون الرشید نے اس سے پوچھا کہ بہلول کیا حال ہے؟ اس نے کہا کہ اس آدمی کا کیا کہتے ہو جس کی مرضی کے مطابق سب کام ہو رہے ہیں۔ ہارون الرشید نے کہا: بہلول خدائی کا دعویٰ کب سے شروع کیا ہے؟ بہلول نے کہا: میں نے تو خدائی کا دعویٰ نہیں کیا۔ ہارون الرشید کہتے ہیں: یہ آپ کے الفاظ تو یہی کہہ رہے ہیں۔ کیونکہ سب کچھ تو اللّٰہ کی مرضی سے ہو رہا ہے۔ تیری اور میری مرضی سے تو نہیں ہو رہا۔ بہلول رحمۃ اللّٰہ علیہ نے فرمایا: میں نے اپنی مرضی کو اللّٰہ کی مرضی میں فنا کر دیا ہے، اس وجہ سے جو کچھ ہو رہا ہے، اللّٰہ جو کر رہے ہیں، وہ میری طرف سے بھی ہے۔ میری بھی وہی مرضی ہے۔ لہذا میری مرضی کے مطابق ہو رہا ہے۔ اگر کوئی مر رہا ہے، تو میری مرضی کے مطابق اور اگر کوئی پیدا ہو رہا ہے، تو میری مرضی کے مطابق۔ کیونکہ جو اللّٰہ کی مرضی وہی ہماری مرضی۔
یہاں پر بھی وہی نقطے کی بات ہے کہ دوئی ختم ہو جاتی ہے۔ اور دوئی اس طرح ختم ہو جاتی ہے کہ جب آپ اپنے آپ کو مٹا دیتے ہیں۔ اللّٰہ کے وصال میں سب سے بڑی رکاوٹ ہم خود ہیں۔ بایزید بسطامی رحمۃ اللّٰہ علیہ نے خواب میں اللّٰہ تعالیٰ کا دیدار کیا، (خواب میں اللّٰہ تعالیٰ کا دیدار ہو سکتا ہے) انہوں نے اللّٰہ تعالیٰ سے پوچھا: یا اللّٰہ! تجھ تک پہنچنے کا آسان ترین راستہ کیا ہے؟ اللّٰہ پاک نے فرمایا: ’’دَعْ نَفْسَکَ وَتَعَالْ‘‘ ’’اپنے نفس کو چھوڑ دو اور میرے پاس آ جاؤ‘‘۔ اس سے معلوام ہوا کہ اگر نفس سے خلاصی اللّٰہ کے لئے ہو، تو وہ اللّٰہ تعالیٰ کے ساتھ وصال ہے۔
بہر حال! ’’اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ‘‘ میں ہم تمام مراحل طے کر لیتے ہیں۔ ہم رجوع کرتے ہیں اپنے آپ سے اللّٰہ کی طرف یعنی ’’رَبُّ الْعَالَمِیْنَ‘‘ کی طرف۔ پھر جو عالمین کا رب ہے، وہ میرا بھی رب ہے۔ سب کچھ وہی کر رہا ہے۔ اس کے بعد اس کی جو خاص صفات بسم اللّٰہ میں ہیں، وہ یہاں دوبارہ دوہرا رہے ہیں: ’’اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘۔ ’’اَلرَّحْمٰنِ‘‘ کا احاطہ دنیا کے سارے کاموں پر ہے، یعنی دنیا کے کاموں میں اگر مَمتا ہے، تو الرحمٰن سے ہے۔ اگر کوئی کسی کے ساتھ خیر کا معاملہ کرتا ہے، تو وہ الرحمٰن سے ہے۔ حتیٰ کہ کافر لوگ بھی کھا رہے ہیں، تو وہ الرحمٰن کی وجہ سے کھا رہے ہیں، کیونکہ وہ مہربان ہے۔ اپنی مخلوق کے ساتھ محبت کرتا ہے اور ان کو دیتا ہے، کھلاتا ہے، پلاتا ہے، سب کچھ ان کو دیتا ہے۔ جو وہ چاہتے ہیں، اس طرح ہوتا ہے۔ ہاں یہ الگ بات ہے کہ قیامت میں معاملہ الٹ ہو جائے گا۔ قیامت میں بات بالکل مختلف ہو جائے گی۔ لہٰذا ’’الرَّحِیْمِ‘‘ وہاں صرف مؤمنوں کے لئے ہو گا۔ کیونکہ کافروں کے لئے تو عذابِ شدید ہو گا۔ ’’الرَّحِیْمِ‘‘ صرف مؤمنوں کے لئے ہوگا۔ اس لئے فرمایا: ﴿نُزُلًا مِّنْ غَفُوْرٍ رَّحِیْمٍ﴾ (حم سجدہ: 32)
ترجمہ: ’’یہ سب کچھ اس ذات کی طرف سے پہلی پہل میزبانی ہے، جس کی بخشش بھی بہت ہے، جس کی رحمت بھی کامل‘‘۔
لہٰذا وہاں مہمانی غفور اور رحیم کی طرف سے ہو گی۔ غفور اس لئے ہے کہ اللّٰہ کے معاف کئے بغیر کوئی آدمی وہاں ٹھہر بھی نہیں سکے گا۔ اور رحیم کا معنیٰ ہے رحم فرمانے والا۔ لہٰذا اللّٰہ پاک رحم فرمائیں گے۔ جنت میں پہنچائیں گے اور جنت میں اللّٰہ تعالیٰ ہمیں بڑی نعمتوں سے نوازیں گے، مہمانی ہو گی۔ بہر حال! ’’بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ میں بھی یہ چیز ہے اور ’’الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ‘‘ میں بھی یہ چیز ہے۔
’’مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ‘‘ روزِ قیامت، جو حساب و کتاب کا دن ہے، وہ اس کا مالک ہے۔ میرے خیال میں یوں سمجھ لیجئے کہ جو ’’اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ‘‘ میں اپنے آپ کو چھوڑا تھا، ’’مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ‘‘ میں اس کو واپس لائیں گے۔ گویا وہ وحدۃ الوجود ہے اور یہ یعنی ’’مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ‘‘ وحدۃ الشہود ہے، کیوں کہ اگر یہ نہ ہو، تو چونکہ عمل آپ کر رہے ہیں، اس لئے آپ ذمہ دار ہیں۔ آپ کو مسائل کا استحضار ہونا چاہئے۔ کیا کرنا چاہئے اور کیا نہیں کرنا چاہئے، سب پتا ہونا چاہئے۔ یہ سب ’’مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ‘‘ کے لئے ہے۔ جب اللّٰہ پوچھیں گے، تو حساب دینا پڑے گا۔ اور یہ ساری باتیں شہود کے ذریعے سے ہی ہو سکتی ہیں۔ یعنی جو ’’اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ‘‘ میں فنائیت ہے، اس میں اپنے آپ کو فنا کرو۔ تکبیرِ تحریمہ میں بھی یہی ہے کہ اپنے آپ کو فنا کر دو۔ یہاں پر عمل کے لئے اپنے آپ کو سامنے لاؤ۔ یعنی پھر اپنے آپ کا استحضار کر لو کہ میں نے ’’مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ‘‘ کے مطابق عمل کرنا ہے۔ اور جب واپس ہم آ گئے ہیں، تو ’’إِیَّاکَ نَعْبُدُ‘‘ ہے۔ گویا شہود شروع ہو گیا۔ اور آگے ہے: ’’إِیَّاکَ نَعْبُدُ وَإِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ‘‘۔ لہٰذا اس کا بھی ادراک ہو جائے اور پھر اللّٰہ پاک سے مدد مانگیں گے: ’’إِیَّاکَ نَعْبُدُ وَإِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ‘‘۔ پھر ہم رہبری کے لئے اپنے آپ کو محتاج سمجھیں گے، اور وہ ہے: ’’اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ‘‘ کہ اے اللّٰہ! ہمیں سیدھا راستہ عنایت فرما۔ ’’صِرَاطَ الَّذِیْنَ أَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ‘‘ ’’راہ ان لوگوں کی جن پر تو نے انعام کیا ہے‘‘۔ انعام ایسے ہوا کہ ان کو اللّٰہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کے ذریعے سے اپنی محبت نصیب فرمائی ہے۔ یہ ساقی والی بات ہے کہ ساقی واسطہ ہے۔ آپ ﷺ کے ذریعے سے ان کو اللّٰہ تعالیٰ نے اپنی محبت نصیب فرمائی ہے۔ انعام یہی ہے۔ لہٰذا اللّٰہ تعالیٰ جب کسی کو محبت نصیب فرما دے اور پھر اس کے بعد دنیا کی محبت جب ختم ہو جائے، تو وہ انعام یافتہ ہو جائے گا۔ جس درجہ کی دنیا کی محبت نکلی ہوئی ہو اور اس کو معرفت حاصل ہو، اس کے مطابق وہ عمل کرے گا۔ ان میں سب سے پہلے انبیاء ہیں۔ انبیاء بالکل سیدھی لائن پر ہیں۔ ذرہ بھر بھی انحراف نہیں ہے۔ جیسے ایک تار کے اوپر کوئی جا رہا ہو، یعنی بالکل شعاع کی طرح ہے۔ اسے شعاعِ ہدایت فرمایا گیا ہے۔ اور صدیقین میں بالکل تھوڑی سی deviation ہے، جو ان کی شان کے مطابق ہوتی ہے۔ پھر اس کے بعد شہداء ہیں۔ پھر اس کے بعد صالحین ہیں کہ ان کی deviation نسبتاً زیادہ ہوتی ہے، لیکن یہ بھی حق پر ہوتے ہیں۔ dispersion ذرہ زیادہ ہوتی ہے۔ پھر جو اس سے بھی زیادہ dispersion پہ چلے جاتے ہیں، تو وہ عام لوگ ہوتے ہیں۔ گویا صالحین تک چار درجے ہیں: انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین۔
بہر حال! ’’صِرَاطَ الَّذِیْنَ أَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ‘‘ کا مطلب ہے کہ مجھے ان لوگوں کے راستے پر ڈال دے، جن پر تو نے انعام فرمایا یعنی مجھے ان میں شامل فرما۔ ’’غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْہِمْ‘‘ یعنی وہ لوگ جو اس انعام سے محروم ہیں۔ اور اس انعام سے جو محروم ہیں، وہ کبھی مطمئن نہیں ہو سکتے۔ اسی کو حضرت نے فرمایا کہ وہ تکلیف میں مبتلا ہیں۔
اس کا میں آپ کو ایک نظارہ کرا سکتا ہوں، جو یہ ہے کہ جب آپ سڑک سے گزریں اور اپنے پاس سے ایک گاڑی کو گزرتے ہوئے دیکھیں، جس میں ڈرم میوزک بہت زور سے بج رہا ہو، تو سمجھو کہ اس کے دل کا خانہ بالکل خالی ہے۔ اس کو اطمینان بالکل نہیں ہے۔ یہ اعلان کر رہا ہے کہ میرے دل کو اطمینان نہیں ہے۔ کیونکہ جس کے دل کو اطمینان ہو، اس کو ان چیزوں کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اور کمال کی بات ہے کہ وہ شیطان کے اغوا سے راستہ وہ اختیار کرتا ہے، جو اس کے اطمینان کو مزید خراب کر رہا ہو۔ لہذا ان کی وہ چیزیں وقت کے ساتھ ساتھ بڑھ رہی ہوتی ہیں۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ نیٹ کے اوپر (اللّٰہ تعالیٰ بچائے) کسی کو معلومات حاصل ہو جائیں، تو وہ ایسے تیز تیز ناچتے ہیں کہ ناچتے ناچتے گر جاتے ہیں، چُور ہو جاتے ہیں، پھر بھی ان کو اطمینان نہیں ہوتا۔ جیسے مائیکل جیکسن اس حد تک مشہور بھی تھا اور پیسہ بھی تھا۔ اس کے پاس سب کچھ تھا، لیکن سب سے زیادہ اطمینان سے فارغ تھا۔ خود کہتا ہے کہ میں دنیا میں سب سے زیادہ تنہا انسان ہوں۔ حالانکہ اس کے ارد گرد ہر وقت بے شمار لوگ ہوتے تھے اور بے شمار لوگ اس کو چاہتے تھے۔ لیکن پھر بھی کہتا ہے کہ میں دنیا میں سب سے زیادہ تنہا انسان ہوں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایسے لوگوں پر یہ حقیقت بھی کھل جاتی ہے، اگرچہ اس کو وہ بیان نہیں کرتے۔ ان کو لوگوں کی خود غرضی کا پتا چل جاتا ہے۔ کیونکہ وہ بھی اس صورتحال سے گزر چکا ہوتا ہے کہ یہ لوگ صرف اپنے مزے کے طالب ہیں، میرے نہیں ہیں۔ جبکہ اللّٰہ والوں کے ارد گرد جو لوگ ہوتے ہیں، وہ مزے کے طالب نہیں ہوتے، وہ دل سے ان کے ساتھ ہوتے ہیں۔ اپنے مزوں کو قربان کر کے ان کے پاس آتے ہیں۔ جب کہ یہ اپنے مزوں کے لئے ان کے پاس آتے ہیں۔ یہ ان کو مزوں کے لئے کھلونا سمجھتے ہیں۔ ان کی حیثیت ایک کھلونے سے زیادہ نہیں ہوتی۔ ان کے ساتھ لوگ ایسے ہی کرتے ہیں، جیسے ایک کھلونے کے ساتھ ہوتا ہے۔ آپ نے دیکھا ہو گا کہ جب ایکٹر وغیرہ فوت ہو جاتے ہیں، تو ان میں سے بعض لوگوں کے لئے گروپ بھی بن جاتے ہیں، ان کے چاہنے والوں کی طرف سے ان کے لئے دو تین کانفرنسیں بھی ہو جاتی ہیں، آپس میں gathering بھی ہو جاتی ہے، پھر سب کچھ ختم ہو جاتا ہے۔ لیکن اللّٰہ والوں کو آپ دیکھیں گے، تو کیسے ان کا سلسلہ چل رہا ہوتا ہے، ختم نہیں ہوتا۔
جیسے کاکا صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ کتنا عرصہ ہوا، دنیا سے تشریف لے گئے، لیکن ہمارے ہاں اب بھی ان کا سلسلہ چل رہا ہے۔ مقصد یہ ہے کہ جو لوگ دنیا میں پھنسے ہوئے ہیں، وہ عذاب میں پھنسے ہوئے ہیں، پریشانی میں پھنسے ہوئے ہیں، ان کو پتا نہیں ہے۔ دنیا کی محبت تو آگ ہے، وہ انسان کو جلا کے رکھ دیتی ہے۔ وہ انسان کو انسانیت پہ نہیں رہنے دیتی۔ وہ ایک تکلیف دہ مرحلہ ہے، اس سے اطمینان ختم ہو جاتا ہے اور اطمینان اس دنیا میں سب کچھ ہے۔ جیسے یورپین مال دار لوگ اخیر میں charity پہ آ جاتے ہیں، تاکہ وہ اپنے ضمیر کو کچھ سُلا سکیں۔ چنانچہ دنیا میں جو ’’غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْہِمْ‘‘ ہیں یعنی جن پر اللّٰہ کو غصہ ہے، وہ کبھی خوش رہ ہی نہیں سکتے، اگرچہ ان کے پاس خوشی کی ساری چیزیں ہوں گی۔ وہ چیزیں ہوں گی، جن کو لوگ خوشی کی چیزیں سمجھتے ہیں۔ مثلاً: کار بھی ہو گی، بنگلے بھی ہوں گے، عہدے بھی ہوں گی، سب کچھ ہو گا، لیکن اطمینان سے فارغ ہوں گے۔ ان کے کسی بھی بڑے سے بڑے آدمی کے قریب ہو جاؤ، پتا چلے گا کہ بے اطمینانی کس کو کہتے ہیں۔ یہ ان کی صورتحال ہوتی ہے۔ بہر حال! ان بیچاروں کا یہ حال ہے۔ میں جب جرمنی میں تھا، تو وہاں چونکہ مسجدیں قریب قریب نہیں ہوتیں، دور دور ہوتی ہیں، ہر وقت ان تک پہنچنا مشکل ہوتا ہے، اس لئے ہم نے کچھ مشترکہ جگہیں بنائی ہوئی تھیں کہ فلاں نماز کے لئے فلاں جگہ سب جمع ہو کر نماز پڑھیں گے، فلاں نماز فلاں جگہ پڑھیں گے۔ مغرب کی نماز کے لئے بھی ہماری ایک جگہ متعین تھی۔ میں وہاں پہنچا، تو نماز ہو چکی تھی۔ میں اکیلے نماز پڑھنے کے لئے آگے ہو گیا۔ وہاں ایک دکان تھی، اس دکان کے مالک کے ساتھ ایک لڑکی بیٹھی ہوئی باتیں کر رہی تھی، جو کہ ایک گاہک تھی۔ میں نے سلام کیا اور آگے چلا گیا اور نماز کے لئے کھڑا ہو گیا۔ جب نماز مکمل کی، تو لڑکی جا چکی تھی۔ دکان کے مالک نے کہا کہ آپ کو پتا ہے کہ یہ لڑکی کیا کہہ رہی تھی؟ میں نے کہا: نہیں، میں تو نماز پڑھ رہا تھا۔ اس نے کہا کہ وہ آپ کو گھور گھور کے دیکھ رہی تھی اور کہہ رہی تھی اوہو! یہ دیکھو کیسے اطمینان کے ساتھ عبادت کر رہا ہے۔ کاش! میرا والد بھی ایسا ہوتا۔ ہمیں کسی نے کچھ سمجھایا نہیں۔ اب یہ ہماری زندگی ہے کہ صبح ناشتہ دوڑتے دوڑتے کرتی ہیں، اس کے بعد آفس جاتی ہیں، وہاں گدھوں کی طرح کام کرتی ہیں۔ پھر شام کو آ جاتی ہیں، پھر ڈرنک کرنے کے لئے باہر چلی جاتی ہیں۔ پھر وہاں ڈرنک کرتی ہیں، اس کے بعد ناچتی ہیں۔ جب چور ہو جائیں، تو پھر آ کر بستر پہ ڈھیر ہو جاتی ہیں۔ پھر صبح سے یہی ڈرامہ شروع ہو جاتا ہے۔ تو کیا ہم اسی کے لئے پیدا کئے گئے ہیں؟ یہ اس وقت کی نوجوان نسل کی آواز ہے۔
ایک جگہ بہت سارے hippies بیٹھے ہوئے تھے، ہمارے جرمن نو مسلم بھائی الفریڈ رحمۃ اللّٰہ علیہ مجھے کہنے لگے:
Mr. Shabbir they have already said لَآ اِلٰہَ, there should be someone to tell them الا اللّٰہ they will become Muslim.
یعنی انہوں نے ’’لَآ اِلٰہَ‘‘ تو پڑھ لیا ہے، اب کوئی ہو، جو ان کو ’’اِلَّا اللّٰہُ‘‘ بھی بتا دے تو بس یہ مسلمان ہو جائیں گے۔ یہ بات بالکل صحیح ہے۔ وہ لوگ اپنے نفس کی آگ میں جل رہے ہیں۔ وہ اس سے بھاگنا چاہتے ہیں، لیکن اس سے بھاگنا آسان نہیں ہوتا، کیونکہ اس کی مثال ایسی ہے جیسے آپ ایک چیز سے بھاگیں، تو دوسری چیز آپ کو پھنسا دے۔ اس سے بھاگیں گے، تو تیسری چیز آپ کو پھنسا دے۔ یہ اسی طرح کا چکر ہے۔ لہٰذا اگر کوئی راستہ دینے والا ہو، تو پھر ہی انسان اس سے بھاگ سکتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ تنگ بہت ہوتے ہیں۔ بھاگتے بھی ہیں اور بھاگنے کے اپنے اپنے طریقے بھی دریافت کر لیتے ہیں۔ کوئی چوک میں پناہ لیتا ہے، کوئی کس چیز میں پناہ لیتا ہے۔ مختلف حرکتیں کرتے ہیں، مطالعے بھی کرتے ہیں، لیکن رہنمائی نہ ہونے کی وجہ سے گمراہ ہو جاتے ہیں۔ اگر کسی کو کوئی صحیح رہنما مل جائے، تو یہی لوگ ہوتے ہیں، جو رہنمائی لے کر پتا نہیں، کہاں سے کہاں پہنچ جاتے ہیں۔
بہر حال! یہ سورۂ فاتحہ کی حقیقت تھی۔ اب میں اس context میں دوبارہ پڑھ دیتا ہوں، ان شاء اللّٰہ آپ کو سمجھ میں آ جائے گی۔
متن:
اس لئے "اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم" کا تکرار ضروری ہے۔ "مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ" یعنی دنیا کو دین کے آئینے میں دیکھے گا۔
یعنی اپنے اعمال کو سامنے لائے گا۔
کیونکہ آخرت کے لئے دنیا میں جگہ نہیں اور وہ اس میں سما نہیں سکتی۔ پس اے بھائی! سورۂ فاتحہ میں ساقی واسطہ (رسول اللّٰہ ﷺ) سے شراب مانگو گے اور یہی کر کہ تجھے مستی اور دیوانگی ہو جائے اور ساقئ واسطہ جناب رسالت پناہ ﷺ کی ذاتِ مبارک اور پِیرِ تربیت ہے۔
تشریح:
یعنی آپ کے لئے ذریعہ آپ ﷺ ہیں اور آپ ﷺ سے لینے کا ذریعہ پیر ہے۔
متن:
تو اے بھائی! اِسی ساقئ واسطہ سے ساقی واسطہ تک پہنچ جاؤ گے۔ اور جب تم مست ہو جاؤ، تو "إِیَّاکَ نَعْبُدُ" کہہ کر خدمت پر کمر بستہ ہو جاؤ گے۔
یعنی اب تم ’’إِیَّاکَ نَعْبُدُ‘‘ کہہ سکتے ہو۔
اور "إِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ" تمہاری زبان سے نکل پڑے گا۔ اور تمہارے دونوں جہانوں کی تمنا بر آئے گی اور "اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ" کو بعینہ دیکھو گے کہ ساقی کے ہاتھ سے بغیر کسی واسطے کے شراب نوش کرتے ہیں۔ اور وہ لوگ کون ہیں، جو بلا واسطہ دستِ ساقی سے شراب نوش کرتے ہیں، وہ لوگ "صِرَاطَ الَّذِیْنَ أَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ" ہیں۔ اور وہ لوگ جو کہ محروم ہیں اور جدائی کے صدمے سہہ رہے ہیں، تم گھر کے اندر بیٹھ کے نعمتوں سے لطف اندوز ہو رہے ہو اور وہ زنجیر کے حلقے کی طرح باہر نکلے اور نکالے پڑے ہوئے ہیں۔ "غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَا الضَّالِّیْنَ" ہیں۔ اس وقت تجھے معلوم ہو جائے گا کہ سرورِ عالم ﷺ نے جو اشارہ فرمایا ہے کہ "لَا صَلٰوۃَ لِمَنْ لَّمْ یَقْرَأْ بِفَاتِحَۃِ الْکِتَابِ" (الصحیح للبخاری، کتاب الأذان، باب: وجوب القراءۃ للإمام و المأموم، رقم الحدیث: 756) یعنی سورۂ فاتحہ کے بغیر نماز ادا نہیں ہو سکتی اور کوئی نماز سورۂ فاتحہ کے بغیر وجود ہی نہیں رکھتی، اس مبارک قول میں کتنی صداقت ہے۔
تشریح:
کاش! ہم ایسی نماز پڑھ لیں۔ کیونکہ بظاہر تو ہم نے ایسی نماز کوئی نہیں پڑھی۔ نماز کی حقیقت نصیب ہو گی، تو نماز کی برکات نصیب ہوں گی۔
اب دوسری فصل شروع ہونے والی ہے، جو زکوٰۃ کے بارے میں ہے۔
متن:
فصل
زکوٰۃ کے بارے میں
نماز کے بعد زکوٰۃ اسلام کا رکن ہے۔ سرورِ عالم ﷺ نے فرمایا ہے کہ "اَلزَّکوٰۃُ قَنْطَرَۃُ الْإِسْلَامِ" 1؎ (المعجم الأوسط للطبرانی، باب: المیم، رقم الحدیث: 8937) ”زکوٰۃ اسلام کا پُل ہے“ جو لوگ مال و دولت رکھتے ہوں، اُن پر زکوٰۃ واجب ہے۔ ﴿إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَآء﴾ (التوبہ: 60) ”زکوٰۃ فقیروں کے لئے ہے“ اس زکوٰۃ سے علماءِ ظاہر ایک چیز مراد لیتے ہیں اور محقق لوگ دوسری مُراد لیتے ہیں، مگر ہر ایک کو اس کا حصّہ دینا چاہئے۔ چنانچہ مال سے زکوٰۃ کے طور پر بہر حال دینا واجب ہے۔ اسی طرح اولیاء اللّٰہ پر واجب ہے کہ علمِ معرفت میں سے زکوٰۃ دے دیں۔
تشریح:
کیونکہ جو فقیر اولیاء اللّٰہ ہیں، ان کے پاس مال نہیں ہوتا۔
متن:
رسول اللّٰہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ "لَا کَنْزَ أَنَفَعُ مِنَ الْعِلْمِ (أَيْ عِلْمِ الْمَعْرِفَۃِ)" (هذا من أقوال علی رضی اللّٰہ عنہ کما نقله المجلسی فی بحار الأنوار، رقم الصفحۃ: 282/72) ”علم سے زیادہ نفع دینے والا خزانہ نہیں اور علم سے مراد علمِ معرفت ہے“ کیونکہ علم اولیاء اللّٰہ کا خزانہ اور رزق ہے۔ قرآن کریم میں ہے کہ ﴿مَنْ رَّزَقْنَاہُ مِنَّا رِزْقًا حَسَنًا﴾ (نحل: 75) کہ ”جس کو ہم رزقِ حسن عطا فرمادیں“ اے برادرِ عزیز! رزقِ حسن بس یہی علمِ معرفت ہے کہ "اَلْعِلْمُ لَا یُحِلُّ اللّٰہُ مَنْعَہٗ" یعنی علم کا منع کرنا اور کسی کو نہ دینا اللّٰہ تعالیٰ نے ناجائز فرمایا ہے۔ پس اے بھائی! لوگوں کے حوصلے کے مطابق یہ نثار کرنا چاہئے اور قرآن کریم کی آیتِ مبارکہ پر عمل کرنا چاہئے کہ ﴿مِمَّا رَزَقْنٰھُمْ یُنْفِقُوْنَ﴾ (البقرۃ: 3)
تشریح:
اصل میں رزق کا لفظ صرف کھانے پینے کی چیزوں کے لئے نہیں ہے، بلکہ یہ ان سب چیزیں پر بولا جاتا ہے، جو ہم برت رہے ہیں۔ اس میں علمِ معرفت بھی آتا ہے۔ یہ سب اللّٰہ پاک کی طرف سے رزق ہے۔ ورنہ تو بہت ساری باتوں کی تشریح نہیں ہو سکے گی۔
﴿مِمَّا رَزَقْنٰھُمْ یُنْفِقُوْنَ﴾ (البقرۃ: 3) ”اور جو ہم نے روزی دی ہے ان کو، اس میں سے خرچ کر دیتے ہیں“۔ اور اس میں نکتہ یہ ہے کہ زکوٰۃ سے مراد ایک خزانہ ہے: "کُنْتُ کَنْزًا مَّخْفِیًّا فَأَحْبَبْتُ أَنْ اُعْرَفَ" (الأسرار المرفوعۃ فی الأخبار الموضوعۃ، رقم الحدیث: 253) "میں ایک پوشیدہ خزانہ تھا، میں نے چاہا کہ میں پہچانا جاؤں" یہ زکوٰۃ ہے کہ جس سے علماءِ ظاہر محروم ہیں۔ اولیاء اللّٰہ پر واجب ہے کہ یہ زکوٰۃ اپنے بھائیوں کو دے دیں کہ رسول اللّٰہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ "أَشَرُّ النَّاسِ مَنْ أَکَلَ وَحْدَہٗ" (مختصر تاریخ دمشق لابن منظور بتغییر قلیل، رقم الصفحۃ: 307/21) ’’یعنی لوگوں میں سب سے زیادہ بُرا شخص وہ ہے، جو اکیلا کھائے‘‘۔ اور ہمارے حضرت شیخ صاحب کو اس علم و معرفت سے بہت بڑا اور کامل حصہ نصیب ہوا تھا اور اس کی زکوٰۃ بہت سے لوگوں کو دے چکے تھے۔ اور ان کو ان کا حصہ دے کر محفوظ ہوئے تھے۔
اصل میں کاکا صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ اپنے پاس کوئی چیز بچا کر رکھتے ہی نہیں تھے کہ ان کے اوپر اصطلاحی زکوٰۃ واجب ہوتی۔ آپ ﷺ بھی اپنے پاس کوئی چیز نہیں رکھتے تھے۔ لہٰذا اولیاء اللّٰہ بھی یہی کرتے ہیں۔ جیسے: حضرت ترنگزو بابا جی کا طریقہ یہ تھا کہ سال میں ایک دن دو جوڑے کپڑے بغل میں دبا کے باہر آ کر فرماتے: لوٹ لو۔ ان کے گھر میں جو ہوتا تھا، لوگ لے جاتے۔ بس ان کے پاس یہ دو جوڑے کپڑے بچتے۔ اور اگلے سال پھر اسی حالت میں ہوتے۔ ہم نے دیکھا ہے۔ یہ باتیں ہمارے لئے عجیب ہیں اور آج کل لوگ ماننے والے بھی نہیں کہ یہ بات صحیح ہے، کیونکہ ہمارا ماحول سارا بدل گیا ہے۔ لیکن کتابیں تو بدلی ہوئی نہیں ہیں۔ کتابیں تو اسی طرح موجود ہیں۔ آپ ذرا تابعین اور صحابہ کرام رضوان اللّٰہ علیہم اجمعین کے بارے میں کتابوں میں پڑھیں کہ وہ کیا کرتے تھے۔ حضرت عبد اللّٰہ بن عمر رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کیا کیا کرتے تھے، حضرت امام حسین رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کیا کرتے تھے، حضرت حسن رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کیا کرتے تھے۔ کمال کی بات یہ ہے کہ خود ان کو ضرورت ہوتی تھی، اس کے باوجود وہ سارا کچھ کسی اور ضرورت مند کو دے دیتے تھے۔ دوسروں سے قرض لے لے کر دیتے تھے۔ کیونکہ ان کے ایمان قوی تھے، لہذا ان کے لئے جائز تھا۔ ہمارے لئے یہ شاید جائز نہیں ہے کہ ہم قرض لے کر دیں، کیونکہ بعد میں پھر مسئلہ ہو گا۔ ہم تنگ ہو جاتے ہیں۔ ہمارا اللّٰہ کے ساتھ معاملہ بھی ایسا نہیں ہوتا، ان کا معاملہ ذرا الگ تھا۔ لہٰذا ان کے حالات پڑھیں، پتا چل جائے گا۔ امام احمد بن حنبل رحمۃ اللّٰہ علیہ کا معاملہ یہ تھا کہ ان کے ہاں علماءِ ظاہر بھی آتے تھے اور اولیاء اللّٰہ بھی آتے تھے، کیونکہ وہ دونوں میں امام تھے۔ علمِ ظاہر میں بھی امام تھے اور اللّٰہ تعالیٰ نے معرفت بھی عطا فرمائی تھی، لہٰذا اس کے لئے بھی لوگ آتے تھے۔ ایک دفعہ ایک ہی محفل میں دونوں طرح کے حضرات موجود تھے، ایک عالمِ ظاہر تھے اور ایک صاحب بزرگوں میں سے تھے۔ جن علمِ ظاہر والوں کی تربیت نہ ہو چکی ہو، تو وہ ذرا ایسے لوگوں کو چھیڑتے رہتے ہیں۔ وہ ایسے آرام سے نہیں بیٹھتے۔ ان کے اوپر اعتراضات کرتے رہتے ہیں۔ جیسے اس دن حاجی صاحب کے ساتھ واقعہ ہوا۔ خود وہی کام کر رہے ہوتے ہیں، لیکن اپنے لئے جائز سمجھتے ہیں اور دوسروں کے لئے جائز نہیں سمجھتے۔ بہر حال! عالمِ ظاہر نے ان کو چھیڑنا چاہا، تو امام احمد بن حنبل رحمۃ اللّٰہ علیہ نے ان کو روکا اور کہا کہ ان کو نہ چھیڑو۔ لینے کے دینے پڑ جائیں گے۔ لیکن وہ چھیڑنے سے باز نہیں آئے۔ اور کہا: حضرت زکوٰۃ کے بارے میں بھی کچھ جانتے ہیں؟ انہوں نے کہا: کون سی زکوٰۃ؟ امراء کی یا فقراء کی؟ انہوں نے کہا: حضرت زکوٰۃ تو امراء کی ہوتی ہے۔ لیکن چلیں، آپ دونوں بتا دیں۔ انہوں نے کہا: امراء کی زکوٰۃ تو یہ ہے کہ سال کا نصاب ہوتا ہے، سال گزرنے کے بعد سو میں ڈھائی فیصد انہیں دینے پڑتے ہیں۔ اور فقراء کی زکوٰۃ یہ ہے کہ جو جمع کیا ہے، وہ سارا خیرات کریں اور اللّٰہ پاک سے معافی مانگیں کہ جمع کیوں کیا تھا۔ عالم نے کہا کہ دلیل دیں۔ انہوں نے کہا: حضرت ابو بکر صدیق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کا عمل ہے کہ سارا کچھ خرچ کر دیا اور شکریہ کے طور پہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہا کو بھی عقد میں دے دیا۔ امام احمد بن حنبل رحمۃ اللّٰہ علیہ نے ان سے کہا کہ اب جواب دو۔ اب کیوں چپ ہو گئے ہو؟ میں نے کہا نہیں تھا کہ لینے کے دینے پڑ جائیں گے۔ انہوں نے افضل البشر بعد الانبیاء کی مثال دے دی، اس کے بعد کیا ہو سکتا ہے۔ چنانچہ جو لوگ یہ کام نہیں کر سکتے، ان کا یہ خیال ہوتا ہے کہ دوسرے لوگ بھی نہیں کر سکیں گے۔ یہ اپنی اپنی ہمت کی بات ہے۔ جیسے کسی نے کہا تھا؎
کہا منصور نے خدا ہوں میں
ڈارون بولا بوزنا ہوں میں
سن کر کہنے لگے میرے ایک دوست
فکرِ ہر کس بقدرِ ہمتِ اوست
لہٰذ ہر ایک کی اپنی اپنی ہمت ہے، اسی کے حساب سے بات ہوتی ہے۔
زکوٰۃ یقیناً مال سے متعلق ہے، لیکن یہ ظاہر میں ہے۔ حقیقت میں زکوٰۃ یہ ہے کہ آپ کو اللّٰہ نے جو بھی دیا ہے، اس میں سے آپ اللّٰہ کے لئے حصہ نکالیں۔ وہ علمِ معرفت بھی ہو سکتا ہے، دوسری چیزیں بھی ہو سکتی ہیں۔ تاکہ وہ چیز آپ کے لئے اللّٰہ سے تعلق کا ذریعہ بن جائے۔ نفس اس میں عمل نہ کر سکے۔ اپنے نفس کے اوپر آرا چلانا زکوٰۃ ہے۔
اللّٰہ جل شانہ ہم سب کو عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ