جدید دور کے فتنے

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
﴿قَالَ رَبِّ اِنِّیْ لَاۤ اَمْلِكُ اِلَّا نَفْسِیْ وَاَخِیْ فَافْرُقْ بَیْنَنَا وَبَیْنَ الْقَوْمِ الْفٰسِقِیْنَ﴾ (المائدہ: 25)
وَقالَ عَلَیْہِ الصَّلوٰۃُ وَالسَّلَامُ: (وَذَکَرَ بَعْضَ الْفِتَنِ) ’’قَالُوْا: فَمَا تَأْمُرُنَا؟ قَالَ: كُوْنُوْا أَحْلَاسَ بُيُوْتِكُمْ‘‘۔ (ابوداؤد، حدیث نمبر: 4264)
وَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ’’يُوْشِكُ أَنْ يَّكُوْنَ خَيْرُ مَالِ الْمُسْلِمِ غَنَمًا يَّتْبَعُ بِهَا شَعَفَ الْجِبَالِ، وَمَوَاقِعَ الْقَطْرِ يَفِرُّ بِدِيْنِهٖ مِنَ الْفِتَنِ‘‘۔
(مسند احمد، حدیث نمبر: 11253)
وَقَالَ عَلَیْہِ الصَّلوٰۃُ وَالسَّلَامُ فِی الْفِتَنِ: ’’تَلْزَمُ جَمَاعَةَ الْمُسْلِمِيْنَ وَإِمَامَهُمْ، قِیْلَ: فَإِنْ لَّمْ يَكُنْ لَّهُمْ جَمَاعَةٌ وَّلَا إِمَامٌ؟ قَالَ: فَاعْتَزِلْ تِلْكَ الْفِرَقَ كُلَّهَا‘‘۔
(بخاری شریف، حدیث نمبر: 3411)
وَقَالَ عَلَیْہِ الصَّلوٰۃُ وَالسَّلَامُ: ’’اَلْوَحْدَةُ خَيْرٌ مِّنْ جَلِيْسِ السُّوْءِ، وَالْجَلِيْسُ الصَّالِحُ خَيْرٌ مِّنَ الْوَحْدَةِ‘‘۔ (المستدرک علی الصحیحین، حدیث نمبر: 5466)
صَدَقَ اللہُ الْعَلِیُّ الْعَظِیْمُ وَصَدَقَ رَسُوْلُہُ النَّبِیُّ الْکَرِیْمُ
اس وقت ہم جس دور سے گزر رہے ہیں، یہ فتنوں کا دور ہے۔ فتنہ اس شر کو کہتے ہیں، جس کو شر نہ سمجھا جائے، لیکن وہ شر ہو۔ جیسے کینسر ہے، کینسر کو خطر ناک بیماری اس لئے کہتے ہیں کہ اس کا پتا نہیں چلتا۔ یہ اندر ہی اندر پھیلتا جاتا ہے۔ اتفاقاً اگر کسی کو پتا نہ چلے، تو اس وقت پتا چلتا ہے، جب یہ آخری سٹیج پر پہنچ جاتا ہے۔ مثلاً: درد شروع ہو جاتا ہے یا بخار شروع ہو جاتا ہے۔ اس وقت وہ لا علاج ہو چکا ہوتا ہے۔ ہاں! اگر کسی وجہ سے پہلے کسی کو کوئی اور ٹیسٹ کرتے ہوئے معلوم ہو جائے، تو ایک علیحدہ بات ہے۔ لیکن اصل میں خود اپنی طرف سے یہ اس وقت اپنے آپ کو دکھاتا ہے، جب یہ بالکل آخری سٹیج پہ پہنچ چکا ہوتا ہے۔ اس لئے مہلک مرض ہے۔ ابتدائی سٹیج میں اس کا علاج ہوتا ہے۔ لیکن جس وقت آخری سٹیج پہ چلا جاتا ہے، تو اس کا علاج نہیں ہوتا۔ اسی طرح فتنہ بھی وہ چیز ہے، جس کا پتا اس وقت چلتا ہے، جب بالکل آخری سٹیج پہ نقصان کر جاتا ہے۔ ہاں! اللہ تعالیٰ جن پہ کھول دیتے ہیں، تو ان کو پہلے سے پتا چل جاتا ہے۔ اور ایسے لوگوں کے قریب رہنا ہی مفید ہے کہ ان کے ذریعے سے ہمیں وقت کے فتنوں کا اندازہ ہوتا رہے، اور اس سے بچنے کے لئے جس طرح وہ بتائیں، اس طریقے سے ہم اپنے آپ کو بچائیں۔ چنانچہ ﴿وَكُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ﴾ (التوبہ: 119) کا حکم اللہ تعالیٰ نے اسی لئے دیا ہے کہ جب ان کے ساتھ ہم ہوں گے، تو ان کے ذریعے سے ہماری حفاظت بھی ہو گی۔ آپ ﷺ نے بعض فتنوں کا ذکر کیا اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا کہ آپ اس وقت کے لئے ہم کو کیا حکم فرماتے ہیں؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: بس تم اپنے گھروں کے ٹاٹ بن جاؤ۔ یعنی باہر نہ نکلو کہ ان میں شریک ہونا پڑے۔ میں اس کی ایک مثال دیتا ہوں۔ یہ چیز فی الحال سمجھ میں نہیں آئے گی، بعد میں سمجھ آئے گی۔ لیکن جب سمجھ میں آئے گی، اس وقت تک کام بہت آگے پہنچ چکا ہو گا۔ لیکن ایک چیز جو آج بھی سمجھ آ سکتی ہے، وہ ان شاء اللہ میں عرض کرتا ہوں۔ اس وقت فتنوں کا بہت بڑا ذریعہ (source) موبائل اور سوشل میڈیا ہے، اگر امریکہ میں کوئی چیز شروع ہوتی ہے، تو سوشل میڈیا کے ذریعے سے اگلے پانچ منٹ میں پوری دنیا میں پھیل چکی ہوتی ہے۔ کوئی وقت ہی نہیں لگتا۔ شیئر ہوتی جاتی ہے اور آپ تک بھی پہنچ جاتی ہے۔ جب آپ کو پتا چل گیا کہ یہ کتنی خطر ناک چیز ہے، تو ’’اپنے گھروں کا ٹاٹ بن جاؤ‘‘ کا یہ مطلب ہوا کہ آپ اس چیز سے اپنے آپ کو چھڑاؤ، اس چیز کے اندر پڑو ہی نہ، سادہ موبائل فون رکھو، جس پہ آپ صرف کال کر سکتے ہیں۔ اور بڑے موبائلز چھوڑ دو۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس کے بہت سارے فوائد ہیں، لیکن اس کے نقصانات بہت زیادہ ہیں۔ لہٰذا ان نقصانات سے بچنے کے لئے اپنے آپ کو اس سے سائیڈ پہ کر لو۔ تو اس حدیث شریف کا مفہوم اس ضمن میں آ سکتا ہے اور اس موبائل کے اوپر اس کا اطلاق ہو سکتا ہے۔ اس وقت صورتِ حال کیا ہے، ہمارے گھروں کے احوال کیا ہیں، اللہ تعالیٰ ہماری حفاظت فرمائے۔ کیا مرد اور کیا عورتیں اور کیا بچے۔ سب موبائل پر لگے ہوئے ہیں۔ اور بچے موبائل کے ساتھ کھیل رہے ہیں، ان کے لئے کھیل کا سامان ہے اور بڑے موبائل کے ساتھ اپنے آپ کو مشغول کر رہے ہیں۔ ایسے ایسے واقعات ہم تک پہنچے ہیں کہ 80 سال کی بڑھیا ہے، پوری دنیا میں اس کے فرینڈ بنے ہوئے ہیں، کوئی فرانس میں ہے، کوئی ماسکو میں ہے، کوئی انڈیا میں ہے، کوئی امریکہ میں ہے، ان کے ساتھ ساری ساری رات باتیں کر رہی ہے اور پورا دن سوتی ہے۔ یہ آج کے دور کی بات بتا رہا ہوں، 80 سال کی بڑھیا کی بات بتا رہا ہوں۔ آج کل یہ صورتِ حال ہے۔ یہ فتنہ ہے یا نہیں؟ فتنہ اور کس کو کہتے ہیں؟ سب سے زیادہ اس نے یہ نقصان کیا کہ وقت کو ضائع کر دیا، سب سے بڑا ڈاکہ اس نے وقت پہ ڈالا ہے۔ وقت اتنا تیزی کے ساتھ اس میں ضائع ہوتا ہے کہ کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا۔ پوری رات گزر جائے، پتا نہیں چلتا۔ پھر اگر دفتر جاتے ہیں، تو دفتر میں نیند کی وجہ سے اونگھتا ہے۔ اگر کوئی اور کام کرتا ہے، تو اس میں بھی توجہ نہیں ہوتی۔ اس طرح اس کے سارے اوقات ضائع ہو جاتے ہیں۔ بچوں کا معاملہ کیا ہے، ڈاکٹر حضرات کہتے ہیں (یہ ڈاکٹروں کی بات ہے، میری بات نہیں ہے) کہ اس وقت بچوں میں وہ بیماریاں آ رہی ہیں، جو بیماریاں چالیس پچاس سال کے بعد لوگوں میں آتی تھیں، کمر کا درد، گردن کا درد، اس طرح کے اور مسائل ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بچے موبائل میں بہت جذب (absorb) ہوتے ہیں، بڑے تو پھر بھی تھوڑا بہت اپنا خیال رکھ لیتے ہیں، اٹھتے بھی ہیں، لیکن بچے بہت focused ہوتے ہیں۔ آپ کبھی بچوں کو موبائل استعمال کرتے ہوئے دیکھیں کہ وہ کیسے موبائل کو استعمال کرتے ہیں، وہ پورے اس کے اندر جذب (absorb) ہوتے ہیں۔ ان کو اپنے جسم کی کوئی فکر نہیں ہوتی کہ میں کس اینگل پہ کھڑا ہوں۔ اس کو کوئی پتا نہیں ہوتا۔ لہٰذا والدین ہی اس کے ذمہ دار ہوتے ہیں کہ ان کا خیال رکھیں۔ لیکن اگر والدین ان سے اپنا پیچھا چھڑانے کے لئے ان کے ہاتھ موبائل دے دیں اور وہ ایک گھنٹہ موبائل استعمال کر لیں، تو اس سے ان کو جو fatigue ہو گی، اس کا اندازہ آپ نہیں کر سکتے۔ میں آپ کو اس کی مثال دیتا ہوں، یہ میں Engineering کے طور پہ مثال دے رہا ہوں، میں میڈیکلی نہیں بتا رہا، میڈیکلی ڈاکٹروں سے پوچھ لیں۔ مثلاً: انگلی کو آپ ہلانا شروع کر لیں، اگر آپ دو منٹ ہلاتے ہیں اور ایک منٹ نہیں ہلاتے، تو دنوں تک ہلاتے رہیں، کوئی مسئلہ نہیں ہو گا۔ لیکن اگر آپ مسلسل ہلاتے رہیں، تو ممکن ہے کہ پانچ چھ گھنٹے تک آپ اس کو ہلائیں، پھر اس کے بعد چھ مہینے نہ ہلا سکیں۔ یعنی اس میں اتنی fatigue ہو جائے کہ پھر آپ اس کو نہ ہلا سکیں۔ یہ کیا چیز ہے؟ یہ وہی focus والا معاملہ ہے کہ اگر آپ اپنے آپ کا خیال نہیں رکھتے، اپنی physique (جسم) کا خیال نہیں رکھتے اور اس چیز کے اندر absorb ہوتے ہیں، تو جسم کی اپنی ایک Natural tone (فطری حالت) ہے، اس کے مطابق کام کرتا ہے۔ پھر وہ یہ تو نہیں دیکھتا کہ آپ کو اس سے کیا ہوتا ہے، اپنے طور پہ اس میں تبدیلیاں آ جاتی ہیں۔ اس لئے ہمیں اس سے بچنا چاہئے۔ خود میرے ساتھ ایسا ہوا تھا، میری گردن میں تکلیف ہوئی تھی، مجھے ڈاکٹروں نے کافی ورزش وغیرہ بتائی۔ الحمد للہ اللہ پاک نے شفا عطا فرما دی۔ تو اب میں احتیاط کرتا ہوں۔ یہ جو میرے سامنے ٹیبلٹ کا سٹینڈ پڑا ہوا ہے، حالانکہ پہلے اس طرح نہیں ہوتا تھا۔ کیونکہ مجھے پتا ہے کہ اگر میں اس طرح نہیں کرتا ہوں، تو دوبارہ یہ سلسلہ شروع ہو جائے گا۔ اس لئے میں نے اپنے لئے انتظام کر لیا ہے، یہ سارے انتظامات ہمیں مجبوراً کرنے پڑے۔ کیونکہ ہمارا سارا کام اس کے ساتھ ہے، یہ مجبوری ہے۔ لیکن جن کی مجبوری نہیں ہے، ان کو نہیں کرنا چاہئے۔ اپنے آپ کو خواہ مخواہ خراب کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ بالخصوص بچوں کی کیا مجبوری ہے۔ بچوں کے ہاتھ میں یہ بالکل نہیں دینا چاہئے۔ سوشل میڈیا کی خوبیوں کو حاصل کرنے کے لئے بھی صحبتِ صالحین چاہئے اور مستقل اس پہ نظر رکھنی چاہئے کہ کہیں نقصان نہ ہو۔ ورنہ ہماری عقل اور ہمارا نفس مسائل پیدا کر سکتے ہیں۔ نفس کی اپنی خواہشات ہیں، اس کو جو بھی ذریعہ ملتا ہے، وہ فوراً اس کی طرف jump لگاتا ہے۔ اب کاروائی یہ ہو رہی ہے کہ اس موبائل کے اوپر جو بھی اچھی چیز ہے، اس اچھی چیز کو برائی کے لئے ذریعہ بنایا جاتا ہے۔ مثلاً: خود میرے ساتھ ہوا تھا، میں تفسیر عثمانی ڈھونڈ رہا تھا، جو کہ ایک اچھا کام تھا۔ اور مجھے مل گئی اور میں اس میں absorb ہوں، میں ڈاؤن لوڈ کرنا چاہتا ہوں، ادھر ادھر نظر گئی، تو ساری گندی sites ہیں، اِدھر بھی، اُدھر بھی، اوپر بھی، ہر طرف گندی چیزیں۔ اب اس کے ساتھ کیا کریں۔ حالانکہ تفسیر عثمانی کو دیکھو اور ان چیزوں کو دیکھو، کوئی جوڑ نہیں بنتا، لیکن ہیں۔ میرے بیانات چونکہ یوٹیوب پہ لوگوں نے ڈالے ہوئے ہیں، تو ایک دفعہ میں اپنے کچھ بیانات سرچ کر رہا تھا۔ لیکن جب بیان ملا، تو گندی ویب سائٹوں کے درمیان تھا۔ جنہوں نے اسے یوٹیوب پہ دیا تھا، ان سے میں نے شکوہ کیا اور ان کو میں نے میسج کیا کہ یہ تم نے کیا کیا ہے؟ کہاں رکھا ہوا ہے اس کو؟ یہ تو گندی جگہ پہ ہے۔ وہ روہانسا (رونے کی کیفیت میں) ہو کر کہنے لگے کہ ہم نے تو علیحدہ رکھا تھا، لیکن آج کل یہی طریقہ ہے کہ جو بھی اچھی چیز ہوتی ہے، اس کے ساتھ یہ چیزیں لگا دی جاتی ہیں۔ اس صورتِ حال میں اگر صحبتِ صالحین نہ ہو اور انسان کے اندر ہمت نہ ہو، تو جیسے ہی آپ اچھی چیز سے گندی چیز کی طرف متوجہ ہو گے، تو اچھی چیز کو بھول جاؤ گے اور گندی چیز میں لگ جاؤ گے۔ اور پھر آپ click کرتے جاؤ گے اور click کرتے کرتے کہاں پہنچ جاؤ گے۔ گھنٹوں ضائع ہو جائیں گے اور گناہ پہ گناہ اور پتا نہیں کیا کیا چیزیں ہوں گی۔ پہلے یہ ہوتا تھا کہ صحبتِ سوء سے محفوظ رہنے کے لئے آپ کو بری جگہ سے بچنے کے لئے کہا جاتا کہ ادھر نہ جاؤ، کیونکہ قدموں سے چل کر جانا پڑتا تھا، پروگرام بنانا پڑتا تھا، بعض دفعہ پیسے دینے پڑتے تھے۔ جیسے سینما میں پیسے دینے پڑتے تھے، تو لوگ بچ جاتے تھے۔ کسی کے پاس پیسے نہ ہوتے، تو بچ جاتا۔ کسی کے پاس وقت نہ ہوتا، تو بچ جاتا۔ کوئی شرم کی وجہ سے بچ جاتا کہ ایک اچھا آدمی ہے، داڑھی رکھی ہوئی ہے، وہ ایسے راستے پہ کیسے جائے، جہاں پر اس قسم کے مسائل ہوں، وہ نہ جاتا، تو بچ جاتا۔ مگر اب بچنے کا کیا سامان ہے؟ کوئی سامان نہیں ہے۔ آپ بالکل علیحدہ بیٹھے ہوئے ہیں، اپنے کمرے میں ہیں یا اپنے آفس میں ہیں اور یہ سلسلہ شروع ہو جائے، تو کون آپ کو دیکھے گا سوائے اللہ کے۔ اگر اللہ کا خوف نہ ہو، تو آپ کہاں کہاں سے کیا کیا شروع کر لیں گے۔ یہ میں ویسے نہیں کہہ رہا، یہ میں آپ کو وہ باتیں بتا رہا ہوں، جو مجھے لوگ خود بتاتے ہیں۔ گویا یہ چیزیں تو ہیں۔ اس وجہ سے اب صحبتِ صالحین کی ضرورت بہت زیادہ ہو گئی اور ذکرُ اللہ کی ضرورت بہت زیادہ ہو گئی۔ اس وقت ان چیزوں سے غفلت کی وجہ سے انسان فائدہ کی کمی سے نکل کے نقصان کے دائرے میں چلا گیا ہے۔ کیونکہ پہلے تو یہ ہوتا تھا کہ آپ ذکر نہ کرتے، تو آپ کی اصلاح نہ ہوتی یا ثواب نہ ملتا، یہی بات تھی۔ اب یہ بات نہیں ہے، ثواب والی بات پیچھے رہ گئی، اب گناہوں میں پڑنا شروع ہو جاتا ہے۔ لہٰذا اس وقت ان چیزوں کا حصول اور اچھے نظاموں میں داخل ہونا بے حد ضروری ہو گیا ہے۔ چنانچہ آج کل اس چیز کی ضرورت بہت زیادہ ہو گئی ہے اور ہمیں اس کے لئے کوئی ترتیب بنانی پڑے گی۔ اپنے بچوں کو پہلے سے خبر دار کرنا پڑے گا، ان کو وقت دینا پڑے گا، ان کی اصلاح کے لئے ان کو وقت دینا پڑے گا۔ یعنی آپ ان کو دوست بنائیں، اگر آپ نہیں بنائیں گے، تو کوئی اور ان کو دوست بنا لے گا، آپ ان کی تمام اخلاقی چیزوں سے واقف رہیں۔ ورنہ جب وہ addiction کے فیز میں چلے جائیں گے (عادی ہو جائیں گے)، تو پھر وہ آپ کے قابو نہیں آئیں گے۔ پھر وہ اسی لائن میں چلیں گے اور یہ چیز ہر جگہ موجود ہے۔ کیونکہ پہلے وقتوں میں اس کے لئے دور جانا پڑتا تھا، اب دور نہیں جانا پڑتا، ہر ایک کے پاس یہ چیز موجود ہے۔ اس لئے اگر کوئی بگڑ گیا، تو بگڑنے کا سامان بہت موجود ہے۔ نتیجتاً اس طرف چلا جائے گا۔ چنانچہ یہ جو فرمایا کہ اپنے گھروں کے ٹاٹ بن جاؤ۔ اگر ہم اس کو اس context (ضمن) میں لیں، تو یوں کہیں گے کہ ان چیزوں سے دست بردار ہو جاؤ۔ ٹھیک ہے، فائدے ہیں، مگر فائدے کو چھوڑو، اس کے نقصان سے بچو، کم از کم اپنی اولاد کے لئے، اپنی عورتوں کے لئے۔ بہت ضروری ہے۔ اس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ بچے رو رہے ہوتے ہیں اور مائیں موبائل کے ساتھ کھیل رہی ہوتی ہیں یا موبائل کے اوپر کچھ دیکھ رہی ہوتی ہیں۔ چونکہ پہلے ٹیلی فون مہنگا تھا، ہر کال پہ کافی کافی پیسے لگتے تھے۔ اس وقت پیسے بھی کم تھے، پھر بھی کال دو تین روپے کی ہوتی تھی۔ منٹوں کے حساب سے کال ہوتی تھی، پہلے صرف تین منٹ کے لئے کال ہوتی تھی، اگر اس سے اوپر ٹائم ہوتا، تو اس پر Extra charges لگتے تھے۔ اس لئے لوگ فون مناسب کرتے تھے۔ اب پیکج کر لیتے ہیں، جب پیکج کر لیتے ہیں، تو جب بات شروع ہو جائے، تو پھر ختم ہی نہیں ہوتی۔ آپ بے شک کچھ بھی کہیں، اس پر لڑائیاں شروع ہو جاتی ہیں۔ اس کے اوپر گھر تباہ ہوئے ہیں۔ یہ میرے علم کی بات ہے، سب کا تو مجھے علم نہیں ہے۔ عورتوں نے اس بات پر باقاعدہ طلاق لی ہے کہ اس کو موبائل نہیں دے رہے۔ تو یہ مصیبت اور بلا ہے یا نہیں ہے؟ لہٰذا ہمیں بچوں تک موبائل کے مقابلہ میں متبادل چیزیں پہنچانی ہوں گی، ان میں ان کو مشغول کرنا ہو گا۔ مثلاً: اچھی کتابیں ہیں، پہلے مطالعہ کا شوق ہوتا تھا، گھروں کے اندر اچھی کتابیں موجود ہوتی تھیں، اسلام اخبار میں "بچوں کا اسلام" اور "خواتین کا اسلام" کے عنوان سے مضامین ہوتے تھے، گھروں میں جو شریف زادیاں ہوتی تھیں، وہ ان کو باقاعدہ پڑھتی تھیں۔ اب اس کا تو کوئی نام بھی نہیں لیتا، کیونکہ موبائل پہ ساری چیزیں موجود ہیں۔ یہ چیزیں ہمیں دوبارہ شروع کرنی پڑیں گی اور اپنے گھروں کے اندر مثبت پروگرام کرنے پڑیں گے۔ مثلاً: تربیتی سلسلے اگر گھروں میں شروع ہو جائیں کہ نماز سیکھنے کا انتظام شروع ہو جائے اور مرد کسی عالم کے پاس جا کر سیکھیں تو پھر گھر میں آ کر اپنی عورتوں اور بچوں کو بٹھا کے ان کے ساتھ مذاکرہ بھی ہو جائے گا، پکا بھی ہو جائے گا اور ساتھ ساتھ ان کو بھی پتا چل جائے گا۔ اس طرح فرضِ عین درجہ کا علم اور دیگر ضروری چیزیں علماء سے انسان سیکھ کر اپنے گھروں میں ان کے مذاکرے شروع کر لے، نتیجتاً وہ ان چیزوں سے بھی بچ جائیں گے اور ساتھ ساتھ الحمد للہ علم بھی ملتا جائے گا۔ بچوں کو اپنے بڑوں کے واقعات، صحابہ کرام کے واقعات، اولیاء اللہ کے واقعات سنائیں اور ان کے ذہن میں یہ باتیں بٹھائیں کہ اصل کیا ہے۔ ان کو خود کفیل بنا دو، تاکہ وہ اگر کسی اور جگہ بھی جائیں، تو ان چیزوں کو برا سمجھیں اور دوسرے لوگوں کی باتوں میں نہ آئیں۔ اس طرح ان شاء اللہ العزیز ہو سکتا ہے کہ ہماری بھی حفاظت ہو جائے۔
بہر حال! اس کی طرف توجہ کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’قریب ہے کہ مسلمان کا سب سے بہتر مال بکریاں ہوں گی، جن کو لے کر وہ پہاڑ کی چوٹیوں اور بارش کے موقعوں کو تلاش کرتا پھرے گا، اپنے دین کو فتنوں سے بچا کر بھاگے گا‘‘۔ اس میں گویا یہ فرمایا ہے کہ کم سے کم پر گزارہ کے موقع پر گزارہ کرنا پڑے گا۔ جیسے بکری کا فرمایا ہے، تو آپ ایک بکری کا دودھ پئیں، اسی پہ گزارہ کریں اور کوئی سامان آپ کے پاس نہیں ہے۔ لیکن آپ کا سب سے قیمتی سامان آپ کا ایمان ہے، کہیں وہ ضائع نہ ہو جائے۔ کیونکہ اس وقت ایمان کے ضائع ہونے کا بہت زیادہ امکان ہو گا۔ جیسے ہی آپ عوامی زندگی میں آئیں گے، تو ایمان کو خطرہ ہو گا۔ لہٰذا ایمان سب سے زیادہ قیمتی ہے۔ جو ایمان سلامت لے کے گیا، وہ کامیاب ہے۔ ایسی حالت میں ہم اپنے آپ کو بچائیں اور اپنے ایمانوں کو بچائیں۔
رسول کریم ﷺ نے فتنوں کے بارے میں ارشاد فرمایا: ’’پکڑے رہے تو مسلمانوں کی جماعت کو اور ان کے امام کو۔ عرض کیا گیا: پس اگر نہ ہو ان کی جماعت اور نہ کوئی امام؟ ارشاد فرمایا کہ ایسی حالت میں ان تمام فرقوں سے دور رہنا‘‘۔ یعنی کوئی ایسی بات نہ ہو، تو خواہ مخواہ اپنے آپ کو گندا نہیں کرنا چاہئے۔ پھر اپنے آپ کو علیحدہ کرو اور اللہ پاک کی طرف متوجہ رہو، اللہ پاک سے مدد مانگتے رہو، اللہ پاک مدد فرمائیں گے اور ان تمام چیزوں سے دستبردار ہو جاؤ۔ میں آج کل دیکھتا ہوں کہ واقعتاً مختلف قسم کے لوگ ہیں، کسی کا کیا نعرہ ہے، کسی کا کیا نعرہ ہے، اور ہر چیز کے اندر دنیا ہے، لِلّٰہیت بہت کم ہے۔ ابھی تو یہ صورتِ حال نہیں ہوئی کہ بالکل ہی ختم ہو جائے، لیکن اس کی طرف بہت تیزی کے ساتھ لوگ جا رہے ہیں کہ خدا نخواستہ اگر کوئی ایسا مرحلہ آ جائے کہ بالکل ہی کوئی نہ ملے، تو اس وقت اپنے آپ کو اپنے گھروں میں محبوس کرنا پڑے گا اور تمام چیزوں سے دستبردار ہو کر اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کرنا پڑے گا۔ گویا سوشل لائف بالکل ختم ہو جائے گی۔ صرف اپنے آپ کو بچانے والی بات رہ جائے گی کہ بس ہم بچ جائیں۔ اور یہ دور شاید بہت ہی جلدی آ جائے۔ کیونکہ تیزی اتنی زیادہ ہے کہ آج سے دس سال پہلے کیا تھا اور اب کیا ہے۔ ہماری زندگی میں کتنی تبدیلیاں آ گئیں۔ ایک وقت وہ تھا، جب ریڈیو تھا اور ریڈیو پہ وقت ضائع ہوتا تھا، ریڈیو پہ لوگ گانے سنتے تھے، ریڈیو سے وہی سب کچھ ہوتا تھا۔ اور اس کے بعد پھر ٹیلی ویژن آ گیا۔ ٹیلی ویژن ہمارے دور میں آیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ کوئی دور کی بات نہیں ہے۔ ٹیلی ویژن جس گھر میں ہوتا تھا، اس گھر میں بچے بہت سارے اکٹھے ہو جاتے تھے اور بڑے بھی آ جاتے تھے اور ایک عجیب چیز کو دیکھتے کہ یہ کیا ہے۔ ٹیلی ویژن کے بعد وی سی آر آ گیا۔ وی سی آر کے بعد سی ڈیز اور اس قسم کی چیزیں آ گئیں۔ اس کے بعد پھر لیپ ٹاپ وغیرہ کے اوپر یہ چیزیں آ گئیں۔ اس کے بعد پھر موبائل آ گیا۔ اب موبائل بھی مختلف صورتیں اور شکلیں بدل رہا ہے۔ تو یہ بہت جلدی جلدی تبدیلی آ رہی ہے۔ چنانچہ یہ جو چیزیں آ رہی ہیں اور تبدیلیاں آ رہی ہیں، ان سائنسی چیزوں کو انسان اللہ تعالیٰ کی قدرتوں کے مظہر ہونے کے طور پہ بھی دیکھ سکتے ہیں کہ اللہ پاک نے ایسی ایسی چیزیں بنائی ہیں۔ لیکن اس وقت ان چیزوں کو الحاد کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ لوگ کامیابی کس چیز کو سمجھنے لگے ہیں؟ لوگ دنیا کی کامیابی کو کامیابی دیکھتے ہیں۔ مثلاً: اسرائیل کو لے لو، اسرائیل بنی اسرائیل ہیں اور بنی اسرائیل پیغمبروں کی اولاد ہیں، بہت ذہین لوگ ہیں، اپنی ذہانت کی وجہ سے پوری دنیا پہ بغیر تاج کے حکمرانی کر رہے ہیں، امریکہ ان کی مان رہا ہے، انگلینڈ ان کی مان رہا ہے، فرانس ان کی مان رہا ہے، ہر جگہ ان کی حکمرانی چل رہی ہے۔ اور ہمارے مسلمان آج کل موبائل کے اوپر ان کی اس چیز کو بڑھا چڑھا کے بیان کر رہے ہیں کہ یہ اتنے ذہین ہیں اور انہوں نے یہ کیا اور انہوں نے یہ کیا۔ ٹھیک ہے، مان لیا کہ ذہین ہیں، لیکن نتیجہ کیا ہے؟ ان کا انجام کیا ہے؟ انجام کو دیکھو، اگر یہ ساری دنیا پہ حکومت کر لیں گے تو فرعون بن جائیں گے۔ فرعون کا کیا انجام ہوا؟ شداد بن جائیں گے، تو شداد کا کیا انجام ہوا؟ نمرود بن جائیں گے، تو نمرود کا کیا انجام ہوا؟ کیا وہ دنیا پہ حکومت نہیں کر رہے تھے؟ کیا قیصر و کسریٰ دنیا پہ حکومت نہیں کر رہے تھے؟ ان کا انجام کیا ہوا؟ تو کیا اس کی لالچ ہمیں کرنی چاہئے؟ ہمیں اس کی لالچ نہیں کرنی ہے۔ ہمیں صحابہ کرام کی زندگی کی لالچ کرنی چاہئے کہ انہوں نے کیسے زندگی گزاری۔ یہود ہمارے ideal نہیں ہیں۔ ٹھیک ہے، دنیا میں اگر ہم لوگوں نے ترقی نہیں کی، ہم پسماندہ ہیں، ترقی کرنی چاہئے، یہ نہیں کہ نہیں کرنی چاہئے، کرنی چاہئے، یہ ایک نقصان کی بات ضرور ہے، لیکن فائنل نقصان نہیں ہے۔ فائنل نقصان یہ ہے کہ دنیا کی ساری چیزیں آپ کے پاس ہوں اور آپ کا انجام یعنی موت کفر پر ہو جائے۔ یہ فائنل نقصان ہے۔ لہٰذا اس نقصان کے مقابلہ میں یہ بہت چھوٹا نقصان ہے۔ مثلاً: ہمارے پاس ہتھیار نہیں ہیں اور وہ ہمیں مار دیں، قتل کر دیں، تو ہم شہید ہو جائیں گے۔ تو کیا شہادت کم چیز ہے؟ میں یہ نہیں کہتا کہ ہمارے پاس ہتھیار ہونے ہی نہیں چاہئیں، اس کو غلط معنوں میں نہیں لینا چاہئے۔ میں صرف یہ کہتا ہوں کہ ہم اس کو احساسِ کمتری کی صورت نہ بنا لیں کہ ان کو ہم اپنے آپ سے بہتر کہنے لگیں اور ہم ان کے پیچھے چلنا شروع ہو جائیں، ایمان کو چھوڑ کر چیزوں کو لینا، یہ انتہائی درجہ کی بڑی حماقت ہے۔ چیزیں اگر آپ کے پاس ہیں، تو اچھی بات ہے، بشرطیکہ دین کے لئے استعمال ہو جائیں۔ لیکن اگر نہ ہوں، تو اگرچہ نقصان ہے، لیکن اتنا نہیں ہے، جتنا کہ اُن کا ہے کہ جن کے پاس سب کچھ ہے، لیکن ایمان نہیں ہے۔ یہی بنیادی چیز ہے۔ مولانا عبد اللہ شہید رحمۃ اللہ علیہ (اللہ تعالیٰ حضرت کے درجات بلند فرمائے) بڑے اچھے خطیب تھے، مجھے خود فرمایا کہ مجھے اپنے استادوں نے یہاں اسلام آباد میں خطیب بنا کر بھیجا، تو فرمایا کہ تم خطیب بن رہے ہو، خطیب وہ ہوتا ہے، جو پانچ منٹ کی بات کو ایک گھنٹہ میں کر سکے اور ایک گھنٹہ کی بات کو پانچ منٹ میں کر سکے۔ اور واقعی یہ صفت ان میں تھی کہ گھنٹے کی بات کو وہ پانچ منٹ میں کر لیتے تھے، ان کے لئے کوئی مشکل نہیں تھا۔ لال مسجد کے پاس جمعہ بازار لگتا تھا، میں بھی جمعہ بازار میں گیا، مغرب کی نماز کا وقت ہو گیا، مغرب کی نماز کے بعد ان کا چند منٹوں کا ایک مختصر سا بیان ہوتا تھا، اس میں میں شریک ہو گیا۔ اس میں حضرت نے یہ بات چھیڑ دی۔ حضرت نے فرمایا کہ لوگ کہتے ہیں کہ مسلمان خراب ہیں، ان سے تو انگریز اچھے ہیں، ان سے تو فلاں اچھے ہیں، لیکن من حیثُ القوم مسلمان کو برا نہ کہو، کیونکہ انہیں مسلمانوں میں اس دور کے اولیاء اللہ موجود ہیں۔ سارے مسلمان ایک جیسے نہیں ہیں اور خراب مسلمان بھی ہوتے ہیں، اچھے مسلمان بھی ہوتے ہیں، اچھے مسلمان اولیاء اللہ بھی ہیں۔ اس لئے سب کو برا کہو گے، تو سب کے ضمن میں وہ بھی آ جائیں گے۔ فرمایا: مسلمانوں کے اندر جو خرابیاں ہیں اور کفار کے اندر جو خرابیاں ہیں، ان کی وجہ سمجھ لو، وجہ یہ ہے کہ برائی کے دو ذریعے ہیں، ایک شیطان اور دوسرا نفس۔ فرمایا: جو برائی مسلمانوں میں اور کفار میں مشترک ہے یعنی ان دونوں میں ہے، وہ نفس کی وجہ سے ہے۔ کیونکہ نفس دونوں کے ساتھ ہے۔ لیکن جو برائیاں مسلمانوں میں ہیں، لیکن کفار میں نہیں ہیں، وہ شیطان کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ کیونکہ شیطان جانتا ہے کہ مسلمان کا ایک پتھر بھی راستے سے ہٹانا اس کو اللہ تعالیٰ کے قریب کرتا ہے۔ ایک مسلمان بھائی سے مسکرا کے بات کرنا بھی اللہ کے قریب کر دیتا ہے۔ ایک دفعہ ’’سُبْحَانَ اللہ‘‘ کہنا بھی اس کو اللہ پاک کے قریب کر دیتا ہے۔ لہٰذا مسلمانوں پر پوری طاقت لگاتا ہے کہ کہیں کوئی اچھا کام نہ کر لے۔ لہٰذا مسلمانوں کو بھٹکاتا ہے۔ جب کہ کفار اس سے آزاد ہوتے ہیں، کیونکہ جو سب سے بڑی برائی ہے یعنی کفر وہ تو کر ہی چکے ہوتے ہیں، لہٰذا ان سے مزید کیا لینا۔ لہٰذا مزید وہ ان کو دوسروں کے لئے مثال بناتا ہے، جیسے چھوٹی مچھلی کو بنیاد بنا کر بڑی مچھلی کو شکار کیا جاتا ہے، اسی طرح وہ مسلمانوں کے ساتھ کرتا ہے۔ انہوں نے پھر فرمایا کہ اکثر لوگ کہتے ہیں کہ کفار کا کلچر اچھا ہے، فرمایا: میں اس کی مثال دیتا ہوں۔ مثلاً: یہاں ہندوستان اور پاکستان میں سب لوگوں کا کلچر ایک ہی ہے، لیکن جب کوئی قادیانی ہو جائے، تو پھر یہ کیسے dutiful بھی ہو جاتے ہیں، دیانت دار بھی ہو جاتے ہیں، حتیٰ کہ اپنے مذہب کے لئے اپنی بیٹیوں تک کو قربان کر لیتے ہیں۔ ہم لوگ ڈھائی فیصد سے زکوٰۃ نہیں دیتے، وہ دس فیصد جماعت خانہ کو دیتے ہیں۔ یہ کیوں ہو جاتا ہے؟ کیا بات ہو جاتی ہے؟ کلچر تو ہمارا ایک ہی ہے۔ پہلے وہ ہمارے ساتھ تھے، اب ایسے بن گئے۔ آخر ایسی کیا وجہ ہو گئی؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ شیطان نے ان سے اپنا زور ختم کر دیا ہے۔ اب وہ ان کو مثال بنا رہا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ یورپ اور امریکہ میں ان کے جو اچھے لوگ ہوتے ہیں، وہ اوپر آتے ہیں، برے لوگ اوپر نہیں آ سکتے۔ گویا وہ اپنے لئے برائی پسند کرتے ہیں، اپنے بادشاہوں کے لئے، اپنے بڑے لوگوں کے لئے برائی پسند نہیں کرتے۔ اگر دیکھا جائے، تو وہاں کے لوگ جو ہمارے ساتھ معاہدات کرتے ہیں، ان میں کتنے دھوکے کرتے ہیں، ان کے وزیر، ان کے مشیر، ان کے صدور، ان کے بادشاہ ہمارے ساتھ کتنے دھوکے کرتے ہیں۔ ان کے اپنے درمیان سب کچھ ٹھیک ہوتا ہے۔ لیکن جب ہمارے ساتھ کوئی معاہدہ کرتے ہیں، تو پھر اس میں ڈنڈی مارتے ہیں۔ گویا جب شیطان ان کو ہمارے خلاف استعمال کر رہا ہوتا ہے، تو ان کو بد دیانت بنا دیتا ہے اور جب ان کا آپس میں معاملہ ہوتا ہے، تو ان کو دیانتدار بنا دیتا ہے۔ لہٰذا جو برائی شیطان کی طرف سے ہے، وہ کفار میں نہیں ہو گی۔ اور جو برائی نفس کی وجہ سے ہو گی، وہ کفار میں بھی ہو گی اور مسلمانوں میں بھی ہو گی۔ فرمایا: اب مجھ سے اس کا حل پوچھو، میں حل بتاتا ہوں۔ حل یہ ہے کہ ہمیں صحابہ کی پیروی کرنی چاہئے۔ کیونکہ صحابہ مومن بھی تھے، دیانتدار بھی تھے، اچھے اخلاق والے بھی تھے۔ ہم اپنے اندر یہ چیز لے آئیں کہ ایمان کے ساتھ یہ تمام چیزیں ہمیں حاصل ہو جائیں۔ ایمان کے بغیر تو بہت آسانی کے ساتھ حاصل ہو جائیں گی لیکن اس کے لیے آپ نے اپنا ایمان قربان کر دیا!! جب آپ ان کے اندر دیانتداری دیکھتے ہو یا یہ دیکھتے ہو کہ وہ اپنی ڈیوٹی کے پابند ہوتے ہیں یا سچ بولتے ہیں یا اس طرح کی کوئی اور چیز دیکھتے ہو، تو آپ کہتے ہیں کہ یہ مسلمانوں سے اچھے ہیں۔ حالانکہ مسلمانوں سے اچھے ہو ہی نہیں سکتے، کیونکہ مسلمانوں میں ایمان ہے اور ان کے اندر ایمان نہیں ہے۔ ایک ایمان ساری چیزوں سے زیادہ قیمتی ہے۔ واقعتاً ایمان کی یہ بات بہت کم لوگوں کو سمجھ میں آتی ہے۔ میں خود جب جرمنی گیا تھا، وہاں ہمارے پاکستانی بھائی بھی تھے، ترک بھی تھے۔ ترکوں کے ساتھ ہماری پرانی محبت ہے، ان کو ہمارے ساتھ ہے، ان کے ساتھ ہمیں ہے۔ ترکوں کے بارے میں میں نے کچھ تعریفی کلمات کہے، تو وہاں جو پاکستانی ساتھی تھے، ان کو ذرا ترکوں کے ساتھ کچھ خار تھی، کوئی لڑائی وغیرہ ہو چکی ہو گی، جیسے آپس میں ہو جاتا ہے۔ تو وہ مجھے کہتے ہیں کہ تم نئے نئے آئے ہو، اس لئے اس طرح باتیں کرتے ہو، تمہیں پتا چل جائے گا کہ یہ کیسے ہیں۔ مجھے اندازہ ہوا کہ کچھ مسئلہ ہے۔ میں نے ان سے کہا کہ زیادہ سے زیادہ یہ گناہ گار ہوں گے، کافر تو نہیں کہہ سکتے؟ کہتے ہیں: ہاں۔ میں نے کہا: سارے جرمنی کے کافروں کو ایک پلڑے میں رکھ دو اور گناہ گار سے گناہ گار ترک کو دوسرے پلڑے میں رکھو، اللہ کے نزدیک یہ تُرک بھاری ہے۔ کیونکہ اس میں ایمان ہے۔ لہٰذا ان بے ایمان جرمنوں کے مقابلہ میں اللہ تعالیٰ کے قریب یہ گناہ گار سے گناہ گار مسلمان ہے۔ کیونکہ آپ ایمان کی دولت کو جانتے نہیں ہیں۔ پھر میں نے کہا: ریاضی کا کلیہ ہے کہ ایک کو صفر پہ تقسیم کرو، تو جواب infinity آتا ہے۔ اور اگر ایک کروڑ کو ایک پہ تقسیم کرو، تو جواب ایک کروڑ آتا ہے۔ تو ایک کروڑ زیادہ ہے یا infinity زیادہ ہے؟ بس یہی بات ہے کہ اعمال میں ایک دوسرے کو نہ تولو۔ اس مسئلہ میں جب کفار اور مسلمانوں کا معاملہ ہو، تو اعمال کے اوپر بات نہ کرو، ایمان کے اوپر بات کرو۔ کیونکہ ایمان تمام اعمال سے اوپر کی چیز ہے۔ کیوں زیادہ سے زیادہ یہ ہو گا کہ وہ گناہ گار ہو گا۔ اور گناہ گار ہو گا تو کچھ عرصہ کے لئے جہنم میں چلا جائے گا اور بالآخر مسلمان ہونے کی وجہ سے جہنم سے نکلے گا۔ جب نکلے گا، تو کم از کم اس دنیا سے دس گنا جنت ملے گی۔ یہ میں گناہ گار سے گناہ گار مسلمان کی بات کر رہا ہوں کہ جب وہ جہنم سے نکلے گا اور جنت میں جائے گا، تو دنیا سے کم از کم دس گنا بڑی جنت اس کو ملے گی۔ تو جو فرمانبردار ہو گا، اس کا کیا حال ہو گا؟ اس کی تو کیا ہی بات ہو گی۔ اور بے ایمان چاہے کتنا ہی با اخلاق ہو گا، کتنے ہی اچھے خیالات والا ہو گا، اس سب کا فائدہ اس کو دنیا میں مل چکا ہو گا، آخرت میں اس کے پاس کچھ بھی نہیں ہو گا۔ یہ میں اپنی طرف سے نہیں کہ رہا، قرآن پاک کو پڑھو، قرآن پاک میں کافروں کے بارے میں آیا ہے: ﴿وَقَدِمْنَاۤ اِلٰی مَا عَمِلُوْا مِنْ عَمَلٍ فَجَعَلْنٰهُ هَبَآءً مَّنْثُوْرًا﴾ (الفرقان: 23)
ترجمہ: ’’اور انہوں نے (دنیا میں) جو عمل کیے ہیں، ہم ان کا فیصلہ کرنے پر آئیں گے، تو انہیں فضا میں بکھرے ہوئے گرد و غبار (کی طرح بےقیمت) بنا دیں گے‘‘۔
کیونکہ کفر میں تو اعمال کی کوئی قیمت ہی نہیں رہے گی۔ اس لئے ہمیں اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ اپنے ایمانوں کی حفاظت کریں۔ اس وقت سب سے زیادہ حملے ہمارے ایمانوں پر ہو رہے ہیں۔ اسی طرح آپ ﷺ کے ساتھ تعلق پہ حملے ہو رہے ہیں کہ آپ ﷺ کے ساتھ ہمارا تعلق کمزور ہو جائے۔ یہ بہت ہی زیادہ کوششیں ہو رہی ہیں۔ چنانچہ کچھ ہی عرصہ گزرتا ہے کہ آپ ﷺ کے بارے میں کچھ گستاخیوں کی باتیں چل پڑتی ہیں، پھر کوئی نیا شوشہ اٹھ کھڑا ہوتا ہے اور پورے مسلمانوں کے دلوں کو تکلیف پہنچاتے ہیں، تاکہ ان کو اتنے چرغے لگا دیں کہ اس کو معمول کی کاروائی سمجھنے لگیں۔ پھر اس کے بعد پروا نہیں کریں گے۔ جب پروا نہیں کریں گے، تو ان کے دل سے وہ چیز اٹھ جائے گی۔ اس کے بعد پھر تباہی ہی تباہی آئے گی۔ تو وہ ہمیں آپ ﷺ سے جدا کرنا چاہتے ہیں، اس لئے آپ ﷺ کے ساتھ وفاداری بہت ہی ضروری ہے۔ یہ ختمِ نبوت والا معاملہ بھی اسی ضمن میں ہے کہ ہمیں ختمِ نبوت کے بارے میں بہت ہی زیادہ محتاط رہنا چاہئے، کبھی بھی کوئی ایسی بات نہ ہو، جس میں ان لوگوں کے لئے کچھ نرمی پائی جائے۔
’’فکر آگہی‘‘ میری کتاب ہے، یہ concepts یعنی مفاہیم کے متعلق ہے۔ میں جب یہ لکھ رہا تھا، تو میں نے کہا کہ ابھی تک اس میں ختمِ نبوت کے بارے میں نہیں لکھا، اگر مجھ سے پوچھا گیا کہ تو نے اس کے بارے میں کیوں نہیں لکھا، تو میں کیا جواب دوں گا۔ پھر الحمد للہ خصوصی طور پر میں نے اس کے اندر ختمِ نبوت کے متعلق کلام شامل کیا۔ وہ میں سناتا ہوں، کیونکہ ختمِ نبوت کے بارے میں یہ ایک بہت ہی اہم بات ہے، جو میں نے اس میں کی ہے۔
ایک شخص ایک عالم سے پوچھتا ہے:
ایک صاحب ہیں میرے دوست احمدی مشہور
ان سے دوسرے جو مسلمان ہیں، رہتے ہیں دور
وہ احمدی پورا کلمہ پڑھے نماز پڑھے
ہماری طرح شریعت کے سب اعمال کرے
وہ غریبوں اور مسکینوں پہ مہربان بھی رہے
کوئی ان سب کے ہوتے ہوئے کیسے ان کو کافر کہے
تشریح:
واقعتاً یہ بہت اہم سوال ہے، جن علاقوں میں قادیانی رہتے ہوں، وہاں یہ بڑا مسئلہ ہے، وہاں اس قسم کے مسائل بن جاتے ہیں۔
میں تو اس بات پہ حیران و پریشان بھی ہوں
اس میں غلط کہیں نہ ہو کہ مسلمان بھی ہوں
عالم کا جواب:
میرے بھائی! اگر نفاق سے کریں یہ سب
غلام محمد کو محمد رسول اللہ سمجھیں جب
اور آپ کا ختمِ نبوت کا نہ مانیں منصب
اس طرح جھوٹا سمجھیں آپ کو تو بولو اب
وہ اس حالت میں مسلمان رہ سکتا ہے پھر؟
جو بھی ہو، اس کا ایمان رہ سکتا ہے پھر؟
بیٹے! دیکھ عقیدے کا ہے نمبر اول
یہ نہ ہو درست، تو بیکار ہوتے ہیں سب عمل
دل میں ایمان نہ ہو اگر تو باقی سارا دجل
اس پہ دھوکہ وہی کھائے گا جو ہے بے عقل
مسیلمہ کذّاب کے ساتھ صدّیق نے کیا کیا
اس طرح واجب دلائل سے بھی سبق نہ لیا
آپ کی ختمِ نبوت میں شک ہے بے ایمانی
آپ کے حیران ہونے پر ہے مجھے حیرانی
نا واقفی پر آپ کی مجھے ہے پریشانی
اس سے معلوم ہوتی ہے دل کی ویرانی
آپ کی ختمِ نبوت پر ہے اجماع قائم
جو نہ مانے، اس پر ہے لعنت دائم
ملکی قانون میں کافر ہیں احمدی سارے
قادیانی تو ہیں اور لاہوری سارے
سارے ملکی تو ہیں اور غیر ملکی سارے
مارے آستین ہیں امت کے یہی سارے
ان سے دوستی تو دیکھ احمد سے بے وفائی ہے
کیا میری بات آپ کی سمجھ میں آئی ہے؟
جو کوئی بھی نبی ہونے کا دعویٰ جب کرے
اور کوئی اپنی تسلی کے لئے اتنا کہے
کہ نبی ہو، تو معجزہ دکھا تو وہ یہ سُنے
وہ ہے بد بخت وہ ہے کافر وہ ایسا کہنے پہ
تشریح:
یہ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اگر کوئی جھوٹے مُدّعِی سے نبوت کی دلیل مانگتا ہے کہ اگر آپ نبی ہیں، تو معجزہ دکھاؤ۔ اسی کے ساتھ وہ بھی کافر ہو جائے گا، کیونکہ اس نے آپ ﷺ کی بات ’’لَا نَبِیَّ بَعْدِیْ‘‘ پہ شک کیا۔ لہٰذا وہ کافر ہو گیا۔
چھوڑ دوستی اس کی، ساتھ اس کے تو بد بخت نہ بن
ذکر سے دل کو مُجلّا کر دل کا سخت نہ بن
تشریح:
وہ شخص سمجھ جاتا ہے اور کہتا ہے:
جزاک اللہ مجھے حق سے با خبر کر دیا
جو میرا جہل تھا، اس سے مجھے باہر کر دیا
خبث باطن کا آپ نے ظاہر کر دیا
اور اس مسئلہ میں آپ نے مجھے ماہر کر دیا
اب میں دیکھوں کہ مسلمان خود کو یہ کیسے کہیں
اب میں جانوں انہیں کوئی بھی بہروپ بھریں
اب ان کا خبث مومنوں کو بتاؤں گا خوب
ان کے دھوکوں ڈھکوسلوں کو دکھاؤں گا خوب
جو پھنسیں ان میں، جان پہ کھیل کے نکالوں گا خوب
فکر سے ان کی آگہی میں دلاؤں گا خوب
میرا رب مجھ کو اپنے فضل سے معاف کرے
جو کجی دل میں ہے میری، دل اس سے صاف کرے
چنانچہ اس میں کوئی شک نہیں کہ مُنکرِ ختمِ نبوت کافر ہے۔ لیکن جو اس کو کافر نہ کہے، وہ کیا ہے؟ یہ خطر ناک بات ہے۔ اس وجہ سے اپنے آپ کو بچانا چاہئے۔ اور آج کل کے دور کے فتنے یہی ہیں کہ اس میں آپ کو بعض دفعہ حق اور باطل کے درمیان فرق نظر نہیں آتا، جس کی وجہ سے باطل باطل رہتا ہے، لیکن آپ کو چونکہ پتا نہیں چلتا، تو آپ اس کے شکار ہو جاتے ہیں۔ مثلاً: اگر آپ کو پتا ہے کہ یہ تیزاب ہے، تو آپ بچ جائیں گے۔ لیکن اگر آپ تیزاب کو سپرائٹ کی بوتل سمجھ کے ایک گھونٹ بھر لیں، تو کیا ہو گا؟ تیزاب جو کچھ آپ کے ساتھ کرے گا، وہ نظر آئے گا۔ اسی طرح فتنے بہت خطر ناک چیزیں ہوتی ہیں۔ اپنے آپ کو فتنوں سے بچانا چاہئے اور اس کے لئے تعلیم بہت ضروری ہے۔ الحمد للہ علماء کرام نے اس شعبے کو لیا ہے اور اس کے لئے باقاعدہ انہوں نے انتظام بھی کئے ہوئے ہیں۔ بالخصوص ختمِ نبوت کے موضوع پر علماء کرام نے literature مہیا کرنے کا پورا انتظام کیا ہے اور اس پر کتابیں لکھی ہیں۔ اس کے اوپر ما شاء اللہ بہت کچھ موجود ہے۔ لہٰذا پہلے سے اپنے بچوں کے ذہن میں ان چیزوں کو لانا چاہئے، تاکہ کسی وقت بھی ان کو کوئی خطرہ نہ ہو۔ ورنہ یہ لوگ بہت شاطر ہیں، مختلف طریقوں سے دجل کرتے ہیں۔ جب میں جرمنی میں تھا، تو ایک سڑک پہ پیدل میں جا رہا تھا تھا۔ تین چار لڑکے تھے، لباس سے نظر آ رہے تھے کہ پاکستانی ہیں یا انڈین ہیں۔ گزرتے ہوئے میں نے سلام کیا، تو انہوں نے سلام لے لیا، آپس میں کچھ بات چیت شروع ہو گئی۔ انہوں نے کہا: آپ کہاں کے ہیں؟ میں نے کہا: پاکستان سے۔ کہنے لگے کہ ہم بھی پاکستان کے ہیں۔ میں نے کہا: پاکستان میں کون سی جگہ سے؟ کہنے لگے: فلاں جگہ سے۔ کوئی اور پاکستانی جو وہاں settled تھا، اس کے بارے میں نے کہا کہ آپ فلاں صاحب کو جانتے ہوں گے؟ کہتے ہیں: ہاں! ہم اس کو جانتے ہیں، لیکن وہ ہمیں اچھا نہیں کہتے۔ ان کی زبان سے یہ نکل گیا۔ میں نے کہا: کیوں اچھا نہیں کہتے؟ کہتے ہیں: اس لئے کہ ہم احمدی ہیں۔ میں نے کہا: پھر آپ نے مجھے نہیں دیکھا۔ یہ کہہ کر میں چل پڑا۔ پیچھے سے انہوں نے آواز دی: ’’لَعْنَۃُ اللّٰهِ عَلَى الْكَاذِبِیْنَ‘‘ یعنی جھوٹوں پر اللہ کی لعنت ہو، یہ سارا مولویوں کا پکھنڈ (فریب) ہے۔ میں نے کہا: ’’لَعْنَۃُ اللّٰهِ عَلَى الْكَاذِبِیْنَ‘‘ میں بھی کہتا ہوں، بس آپ کے لئے یہ بات کافی ہے۔ اور میں چل پڑا۔ ایسے لوگوں کے ساتھ یہی معاملہ کرنا چاہئے، کبھی بھی ان کی دوستی کسی بھی بنیاد پر نہیں کرنی چاہئے۔ چاہے آپ کو دنیا کی پوری سلطنت دے دیں، پھر بھی ان کے ساتھ دوستی نہیں کرنی چاہئے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ ہمارے آستین کے سانپ ہیں، یہ ہمارے ایمانوں پہ ڈاکہ ڈالتے ہیں۔ اور ایمان سب سے زیادہ عزیز چیز ہے۔ اس لئے ان کے ساتھ کوئی نرمی نہیں برتنی چاہئے۔ یہ ظالم کس طرح ہیں؟ یہ ظالم اس طرح ہیں کہ ہمیشہ مسلمانوں کو ان لوگوں نے ڈسا ہے۔ اس وقت بھی اسرائیل کے اندر ان کی جماعت موجود ہے۔ یہ اسرائیلیوں کے ساتھ ہیں۔ اور پروفیسر عبد السلام با قاعدہ ہماری پوری تفصیلات امریکہ کو دے چکا تھا۔ اور ہر چیز میں یہ ان کی سائیڈ لیتے ہیں۔ ابھی بھی وہ UK میں پناہ لئے ہوئے ہیں اور وہاں موجود ہیں۔ اور با قاعدہ ان کے لئے فنڈنگ ہوتی ہے۔ بلکہ جب یہ حکومت آئی تھی، تو مرزا مسرور آیا تھا، اس وقت کے وزیرِ اعظم نے کہا کہ UK نے ہمیں آپ کے لئے کہا ہے۔ با قاعدہ یہ recorded ہے، یہ کوئی چھپی ہوئی بات نہیں ہے۔ چنانچہ یہ پوری کوشش کرتے ہیں اور یہ ان کے ساتھ ہیں۔ اس لئے ہمیں اس پہ دھوکہ نہیں کھانا چاہئے۔ ان لوگوں کے ساتھ بالکل رابطہ نہیں کرنا چاہئے۔ CNS میں ہمارے ایک ٹیچر تھے، وہ قادیانی تھے، وہ میرا بہت احترام کرتے تھے، اس طرح ایک سٹوڈنٹ تھا، وہ بھی میرا بہت احترام کرتا تھا۔ مجھے اس سے شک ہو گیا کہ ضرور کوئی مسئلہ ہے۔ کیونکہ ان کا طریقہ یہ ہے کہ جس سے ان کو خطرہ ہو کہ یہ ہمیں پکڑ سکتے ہیں، تو ان کے نیچے پڑ جاتے ہیں۔ یعنی ان کی بہت تعریف کرتے ہیں اور بہت زیادہ ان کی چاپلوسی کرتے ہیں، تاکہ یہ ہمارا ممنون رہے اور ہمیں کچھ نہ کہے۔ تو وہ جو ہمارا ایک کلاس فیلو تھا، رفیق اس کا نام تھا، وہ بھی قادیانی تھا۔ مجھے پتا چلتا رہتا تھا، کیونکہ وہ لوگوں کے ساتھ اس طرح کی باتیں کرتا تھا۔ میں نے کہا کہ میں اگر اس کو اس وقت چھیڑوں گا، تو یہ مظلوم بن جائے گا اور لوگوں کی ہمدردی اس کے ساتھ ہو جائے گی، جس سے نقصان ہو جائے گا۔ میں نے سوچا: جب یہ مجھے دعوت دے گا، تو پھر میں اس کو نہیں چھوڑوں گا۔ میں نے گویا کہ سانس روک لیا۔ خدا تعالیٰ نے موقع دے دیا۔ Flashman ہوٹل سے ہماری گاڑیاں چلتی تھیں۔ میں اس میں بیٹھ گیا۔ Flashman ہوٹل میں طاہر احمد آیا تھا، جو بعد میں ان کا خلیفہ بن گیا تھا، اس وقت خلیفہ نہیں تھا، وہ کلاس فیلو اس کا بیان سننے کے لئے آیا تھا۔ اس وقت یہ بڑے موڈ میں تھا۔ گاڑی میں میرے ساتھ سیٹ پر بیٹھ گیا اور مجھے کہتا ہے: شبیر صاحب! آپ کو پتا ہے کہ میں یہاں کیوں آیا تھا؟ میں نے کہا: مجھے کیا پتا؟ کہتا ہے: مرزا طاہر احمد صاحب آئے تھے، بڑے اچھے سپیکر ہیں، میں کیا بتاؤں، بس ایسے سپیکر ہیں کہ آدمی حیران ہو جاتا ہے۔ بار بار اس طرح کہتا رہا۔ میں نے سوچا: اس کا مطلب ہے کہ یہ پوری تیاری کر کے آیا ہے، آج بھڑنے کی تیاری کر کے آیا ہے۔ میں نے کہا: ٹھیک ہے، تم سن لو اس کی باتیں۔ آپ لوگوں کے پاس تقریروں کے سوا ہے ہی کیا۔ تقریریں ہی سنو گے، تو سنو، آپ کی مرضی ہے، جو کرو۔ اس نے اس کو برا محسوس کیا، کہنے لگا: نہیں نہیں، ہماری ماں نے بھی بڑی تربیت کی ہے، صرف تقریریں نہیں ہیں۔ میں نے کہا: یہ تو معاملہ آسان ہو گیا، اس کو جواب دیا جا سکتا ہے۔ میں نے کہا: اور باتیں چھوڑو، مجھے صرف ایک بات کا جواب دو۔ اگر آپ نے اس بات کا جواب دیا، تو پھر آپ میرے ساتھ بات چیت کے قابل ہیں اور اگر اس کا بھی جواب نہیں دیا، تو پھر آپ میرے ساتھ بات کے قابل ہی نہیں ہیں۔ پھر میں آپ کے ساتھ بات کیوں کروں۔ اس نے کہا: بتاؤ، کیا بات ہے؟ میں نے کہا کہ غلام احمد قادیانی نے جامع مسجد دہلی میں کہا تھا کہ میں ختمِ نبوت پہ یقین کرتا ہوں اور اہل سنت و الجماعت میں سے ہوں، میں کیسے ختمِ نبوت کا انکار کر کے کافر بن سکتا ہوں۔ یہ ریکارڈ پر موجود ہے، اگر انکار کرنے کی جرأت ہو، تو کرو انکار۔ کہا ہے یا نہیں کہا؟ بتاؤ۔ وہ چُپ ہو گیا، کیونکہ یہ سارا کچھ ریکارڈ پر ہے۔ میں نے کہا: دو باتیں ہیں یا اس وقت سچا تھا یا جھوٹا تھا؟ اگر یہ سچا تھا، تو اپنے قول کے مطابق خود کافر ہو گیا۔ کیونکہ یہ تو تم بھی مانتے ہو کہ بعد میں اس نے اپنے آپ کو پیغمبر کہا تھا۔ تو وہ خود اپنے کہنے پر کافر ہو گیا۔ اور اگر جھوٹا تھا، تو جھوٹا نبی ہو سکتا ہے؟ میں نے کہا: اس کا جواب دو۔ کہتا ہے: اصل میں وہ الہامات تھے۔ میں نے کہا: دیکھو! باریک باتیں نہ کرو، میں نے آپ کو صاف بات کی ہے، تم بھی اس طرح صاف بات کرو، جو باریکات سے باہر ہو۔ موٹی بات ہو۔ موٹی بات کرو، دلیل دو۔ یہ باریکات میں نہ جاؤ کہ یہ الہام ہو گیا، فلاں ہو گیا، یہ ساری باتیں باریکات ہیں۔ موٹی بات کرو، جھوٹ اور سچ؛ یہ موٹی بات ہے۔ اس طرح کوئی بات کرو۔ وہ چُپ ہو گیا۔ پھر میں نے کہا کہ میں آپ کو موقع دیتا ہوں۔ تین دن اپنے مولویوں سے پوچھو۔ وہ جو جواب دیں، مجھے بتانا۔ پھر ہم دیکھیں گے کہ آپ کے ساتھ بات کی جا سکتی ہے یا نہیں کی جا سکتی۔ پھر مجھے موقع مل گیا، تو میں بس میں کھڑا ہو گیا اور خوب ان کے خلاف تقریر کی۔ میں نے سوچا کہ اب یہ کچھ کہہ نہیں سکتا، کیونکہ اب تو دبا ہوا ہے۔ تو میں نے خوب تقریر کی اور یہ بیٹھا کڑھ رہا تھا۔ خیر! اس کے بعد تین دن کیا، پانچ دن تک مجھے نظر نہیں آیا۔ پانچویں دن نظر آیا، تو میں نے کہا: رفیق! کیا ہوا؟ آپ کو کچھ بتانا تھا۔ کہتا ہے: نہیں، میں تیرے ساتھ بات نہیں کرتا، تو جذباتی آدمی ہے۔ میں نے کہا: جذباتی تو میں ہوں، اس میں کوئی شک نہیں ہے، ہماری جذباتی بات ہے۔ لیکن تم مجھے جانتے تھے کہ میں جذباتی ہوں، آپ نے مجھے کیوں چھیڑا؟ میں آپ کو چھوڑوں گا نہیں، یا جواب دو یا پھر حساب دو۔ اور حساب ہمارا ہاتھ لے گا۔ اگر آپ نے اب کسی کے ساتھ قادیانیت کی بات کی، تو میرا ہاتھ ہو گا اور تیرا سر ہو گا۔ اب بات چیت نہیں ہو گی۔ بات چیت کے تم قابل ہی نہیں ہو۔ بات چیت تو تُو کر نہیں سکتا، لہٰذا اب ہاتھ ہی چلے گا۔ اس پر وہ خاموش ہو گیا۔ کچھ دنوں تک خاموش تھا، پھر دوبارہ اِدھر اُدھر کی چہ میگوئیاں شروع کر دیں۔ راستے پہ جا رہا تھا، میں اپنے گھر کے باہر کھڑا تھا۔ مجھے کہتا ہے: شبیر صاحب! آپ ہمیں کافر کہتے ہیں اور ہم تمہیں مسلمان سمجھتے ہیں۔ یہ زیادتی ہے۔ میں نے کہا: رفیق! قدم نہ بڑھانا، میں جواب دیتا ہوں۔ میں نے تمہیں روکا تھا، تو نے پھر وہی حرکت کی۔ میں نے کہا: یا تُو جھوٹا ہے یا تیرا نبی جھوٹا ہے، دونوں میں سے ایک جھوٹا ضرور ہے۔ کیونکہ اس نے کتابوں میں لکھا ہے کہ جو میرے اوپر ایمان نہیں لاتا، وہ خنزیر کی اولاد ہے، کتے کی اولاد ہے اور خبیث ہے اور فلاں فلاں ہے، چاہے کسی کو میری بات پہنچی ہے یا نہیں پہنچی۔ جو میرے اوپر ایمان نہیں لائے، تو وہ سب ایسے ہیں۔ میں نے کہا: اب تم کیسے کہہ سکتے ہو کہ تم ہمیں مسلمان سمجھتے ہو!!
ایک دن قائدِ اعظم یونیورسٹی اسلام آباد میں لبرلز اور اسلامی جمعیت طلباء کے درمیان لڑائی ہوئی تھی۔ اس پہ ہم آپس پہ بات چیت کر رہے تھے، درمیان میں یہ قادیانی بھی شیئر کرنے لگا۔ میں نے کہا: خبر دار! اگر تو نے بات کی۔ مسلمانوں کی آپس کی بات ہے، کافر اس میں نہیں بول سکتا۔ یہ ہماری آپس کی بات ہے۔ اس پہ وہ غصہ ہو گیا اور کہتا ہے: داڑھی بھی رکھی ہے اور اس طرح کرتے ہو۔ جیسے ہی اس نے داڑھی کی بات کی، میں نے دیر والی شڑی پہنی ہوئی تھی، جو بہت بالوں والی ہوتی ہے۔ میں وہ اتار کے اس پہ حملہ کرنا چاہتا تھا کہ اس کو اس کا صرف ایک پلو لگ گیا، اور وہ دور جا پڑا۔ میں حیران ہوں کہ اِس میں تو اتنا زور نہیں تھا، یہ کیسے گر پڑا۔ وہ چیخنے لگا اور کہتا ہے: میں انعامُ الرحمٰن صاحب سے کہوں گا۔ میں نے کہا: ضرور کہنا، اب میں تجھے چھوڑوں گا نہیں، تو نے داڑھی کی توہین کی ہے۔ بہر حال! اس کے بعد پھر وہ خاموش ہو گیا۔ چنانچہ وہ ہر ہر قسم کا حربہ کرتے ہیں، لیکن اللہ کی مدد ہوتی ہے۔ کیونکہ وہ اللہ کی مدد نہیں تھی، تو اور کیا تھا کہ وہ ایک پلو سے گر گیا۔ آخر وہ کون سی چیز تھی، مجھ میں تو اتنی طاقت نہیں تھی۔ تو وہ اللہ تعالیٰ کی مدد ہی تھی اور کچھ نہیں تھا۔ میرا مقصد یہ ہے کہ ان لوگوں کے ساتھ نرمی نہیں کرنی چاہئے، یہ نرمی کے مستحق نہیں ہیں۔ اس وقت یہ بہت بڑا فتنہ ہیں، پوری کوششیں کر رہے ہیں کہ ہمارے آئین سے ان شقوں کو نکال دیا جائے، جن میں ختمِ نبوت کے اوپر یقین نہ رکھنے والے کو کافر کہا گیا ہے۔ وہ اس کے لئے پوری دنیا کی طاقتوں کو استعمال کر رہے ہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ ایمانی قوت ہے کہ ابھی تک یہ نہیں کر سکے۔ بہر حال! اس کے لئے ہمیں پوری کوشش کرنی پڑے گی کہ کبھی یہ سلسلہ آگے نہ بڑھ سکے۔ یہ باتیں ساری میں نے اس لئے کی ہیں کہ شاہ منصور کے پاس ختمِ نبوت کا اجتماع ہے، ہم لوگ بھی اس میں شامل ہو جائیں۔ کیونکہ ناموسِ رسالت ہمارے ایمان کا مسئلہ ہے۔ اس کے لئے ہمیں پوری کوشش کرنی چاہئے کہ کبھی بھی ان کو آگے نہ آنے دیا جائے، ان لوگوں نے ہمیں بہت نقصان پہنچایا ہے۔ نقصان تو چھوٹی بات ہے، کیونکہ دنیاوی نقصان تو بہت چھوٹی بات ہے۔ اصل نقصان تو ایمان کا نقصان ہے۔ اگر خدا نخواستہ کسی ایک کو بھی کافر بنا دیں، تو یہ ہمارے لئے تباہی کی بات ہے۔ کہیں کوئی مرتد نہ بن جائے، اور یہ مرتد بناتے ہیں۔ جب بھی ان کو موقع ملتا ہے، یہ ممنون کر دیتے ہیں یعنی احسان کرتے ہیں، اس کے بعد پھر اپنے نرخے میں پھنسا لیتے ہیں۔ بہت سارے لوگ صرف اس وجہ سے احمدی بنے کہ چونکہ باہر جو لوگ جلا وطنی اختیار کرتے ہیں، تو اگر کوئی اپنے آپ کو احمدی کہہ دے، تو بڑی جلدی جلدی پناہ مل جاتی ہے۔ گویا اس قسم کی چیزوں میں بھی وہ مسلمانوں کو پھنساتے ہیں۔ لہٰذا ہمیں اپنے مسلمان بھائیوں کو سمجھانا چاہئے کہ ایمان کی دولت بہت بڑی ہے، کبھی بھی ایمان کو کسی صورت میں ضائع نہیں کرنا چاہئے۔ یہ ہماری زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔ بلکہ اس سے بھی زیادہ اہم ہے۔ کیونکہ موت کے بعد اگر کسی کے پاس ایمان نہ ہو، تو ہمیشہ کے لئے تباہی ہے، ہمیشہ کے لئے جہنم ہے۔ دنیا میں چاہے کچھ بھی ہو جائے، ایمان کو بچانا چاہئے۔ جیسے فلسطین والے ایمان کے لئے ہی جنگ لڑ رہے ہیں۔ اور کیا ہے ان کے پاس؟ کچھ بھی نہیں ہے، لیکن ایمان کے لئے لڑ رہے ہیں، اپنے ایمانوں کو بچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ بوسنیا میں بھی یہی تھا کہ ایمان کے لئے لوگ لڑ رہے تھے اور کچھ بھی نہیں تھا۔ چچینیا میں بھی یہی تھا، لوگ ایمان کے لئے لڑ رہے تھے۔ کشمیر میں بھی یہی ہے۔ اسی طرح جہاں بھی مسلمان لڑ رہے ہیں، وہ ایمان کی بنیاد پر لڑ رہے ہیں کہ ایمان خطرے میں ہے۔ لہٰذا اپنے ایمان کو بچانے کے لئے ہم لوگوں کو تمام مشکلات کو برداشت کرنا ہو گا۔ اگرچہ اللہ سے عافیت مانگنی چاہئے۔ مصیبت طلب نہیں کرنی چاہئے، لیکن اگر خدا نخواستہ کوئی مشکل آ جائے، تو اس صورت میں ہمیں خوب سمجھنا چاہئے کہ ساری دنیا ایک طرف ہو اور ہمارا ایمان ایک طرف ہو، تو ایمان قیمتی ہے۔ جیسے میں نے تُرکوں کے متعلق عرض کیا تھا کہ ایک طرف گناہ گار سے گناہ گار ترکی کا ایماندار لے لو اور دوسری طرف تمام اچھے اخلاق والے جرمنی کے کافر لے لو، اللہ تعالیٰ کے نزدیک گناہ گار ترک بہت بڑا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس پر عمل کی توفیق عطا فرمائے اور ہر قسم کی گندگی سے محفوظ فرمائے۔
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ