مطالعہ سیرت بصورت سوال




اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

سوال:

رسولُ اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دو نعمتیں ایسی ہیں، جن کے بارے میں بہت سے لوگ خسارے میں ہیں: صحت اور فراغت۔

1۔ ہمارے اس دور میں ایک طرف تو لوگ جسمانی طور پر پہلے لوگوں کے مقابلے میں کمزور ہیں۔ دوسری طرف ہماری خوراک زیادہ تر غیر خالص ہے۔ ایسے حالات میں صحت کی نعمت کی حفاظت کے لئے کیا طریقہ اختیار کیا جا سکتا ہے؟

2۔ اس دور میں فارغ وقت کو صحیح استعمال کرنے کا کیا طریقہ ہے؟ جب کہ فارغ اوقات کو ضائع کرنے والے ذرائع ہمارے ارد گرد موجود ہیں۔ اپنے وقت کو صحیح استعمال کرنے میں اصلاحِ نفس کا کیا کردار ہے؟

جواب:

حدیث میں جو صحت کے بارے میں فرمایا گیا ہے اس کے مطلب کے لحاظ سے یہ سوال ذرا ایڈوانس ہے۔ اس حدیث شریف کا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ جس کو صحت میسر ہے، وہ اس کی قدر کرے۔ اور جس کو فراغت میسر ہے، وہ اس کی قدر کرے۔ بات تو یہاں پر ختم ہو جاتی ہے۔ کیونکہ فراغت نہ ہو، تو انسان کے کرنے کے ضروری کام کرنے بڑے مشکل ہو جاتے ہیں۔ اور اگر صحت نہ ہو، تو پھر بھی مشکل ہو جاتے ہیں۔ ہاں! یہ اس سے ایڈوانس سوال ہے کہ صحت کو کیسے حاصل کیا جائے؟ کیونکہ صحت کی ضرورت بتا دی گئی ہے۔ تو اب صحت کو کیسے برقرار رکھا جا سکتا ہے یعنی صحت اچھی کیسے رکھی جا سکتی ہے؟ دوسرا سوال فراغت کے متعلق ہے کہ فراغت کی قدر کیسے کی جائے؟ اس کے لئے کیا ذرائع ہیں؟ اور آج کل کے دور میں کیا ذرائع ہیں؟ چنانچہ سب سے پہلا step یہ ہے کہ جو موجودہ صحت ہے، اس کو صحیح استعمال کرنا شروع کر لیں۔ اور یہی صحت کا شکر ادا کرنا ہے۔ کیونکہ شکر کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ جو چیز اللہ تعالیٰ نے آپ کو دی ہے، اس کو صحیح استعمال کر لیں اور اس کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے سمجھیں اور اس پر اللہ تعالیٰ کا لفظوں میں بھی شکر ادا کریں کہ یا اللہ! تیرا شکر ہے۔ اور دل سے بھی الحمد للہ کہیں۔ لہٰذا ایک تو ہم صحت پر اللہ کا شکر ادا کریں اور اصلی شکر یہ ہے کہ جس مقصد کے لئے اللہ نے صحت دی ہے، اس مقصد کے لئے استعمال کریں۔ اور جب شکر کیا جاتا ہے، تو شکر سے نعمت بڑھتی ہے۔ لہٰذا اگر ہم صحت کو صحیح معنوں میں اور صحیح چیزوں کے لئے استعمال کریں گے، تو ہماری صحت بھی بہتر ہو گی۔ کیونکہ یہ شکر کا معاملہ ہے اور شکر سے نعمت بڑھتی ہے۔ تو ایک بالکل فوری طور پر یہ کام کرنے کا ہے۔ اسی طرح فراغت کا معاملہ ہے، تو فراغت کا بھی شکر یہی ہے کہ اس کو اللہ کی طرف سے سمجھا جائے اور اللہ کا شکر لفظوں میں بھی ادا کیا جائے اور اس کو صحیح استعمال کیا جائے۔ چنانچہ یہ اس کا شکر ہو گا۔ جب شکر ہو گا، تو یہ بھی بڑھے گی۔ ایسے بڑھے گی کہ اوقات میں برکت ہو گی، کیونکہ وقت تو چوبیس گھنٹے ہوتا ہے، چوبیس گھنٹے تو نہ بڑھتے ہیں نہ کم ہوتے ہیں، لیکن برکت ایک ایسی چیز ہے، جس کو سب لوگ مانتے ہیں، لیکن جان نہیں پاتے کہ یہ کیسے ہے۔ لیکن مانتے سب ہیں کہ اللہ تعالیٰ کسی کے وقت میں برکت دے، تو اس کے تھوڑے وقت میں بہت کام ہو جاتا ہے۔ صحت میں برکت دے، تو اللہ تعالیٰ اس کی صحت کو اچھا رکھتے ہیں اور اگر مال میں برکت دے، تو تھوڑے سے پیسوں میں اس کا کام ہو جاتا ہے۔ لہٰذا فراغت میں بھی برکت ہو گی۔ تاہم اس کے لئے حسّی طریقے یہ ہیں کہ اپنے نفس کی نہ مانیں بلکہ ڈاکٹر کی مانیں۔ یہ میں صحت کے نقطۂ نظر سے کہہ رہا ہوں اور کم از کم یہ بات صحت کے لحاظ سے ہے۔ ڈاکٹر کی کیسے مانیں؟ ڈاکٹر حضرات جو اپنی فیلڈ کے ماہر ہوں، ان کی مانیں۔ کیونکہ ایک تو اتائی ڈاکٹرز ہیں، جو ویسے ہی اپنے طور پہ بنے ہوتے ہیں، ان کی بات نہیں کر رہا ہوں۔ آج کل انٹرنیٹ پر بہت سارے لوگ اتائی باتیں کرتے ہیں کہ فلاں چیز کھانے سے آپ کو یہ ہو جائے گا، یہ ہو جائے گا۔ یہ سن کر انسان کہتا ہے کہ میں ساری عمر یہی چیز کھاتا رہوں۔ تو اس قسم کی چیزیں ہوتی ہیں۔ لیکن ان کی باتیں نہیں ماننیں، یہ ان کی فیلڈ ہی نہیں ہے۔ اس لئے اس فیلڈ کے کسی ماہر کی طرف جانا چاہئے۔ بہر حال! صحیح ماہر ڈاکٹر جو بھی آپ کو بتائے، اس پر عمل کرو۔ مثلاً: ڈاکٹر آپ کو کہتا ہے کہ چلو پھرو، حرکت کرو، اگر آپ کو حرکت کا موقع نہیں ملتا، تو ورزش کرو، صبح کے وقت چہل قدمی کرو۔ اگر ڈاکٹر نے آپ کو یہ بتایا، تو حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے یہاں تک فرمایا کہ اشراق کی نماز کے لئے بیٹھنے سے اس پر عمل زیادہ ثواب کا باعث ہوتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اس مسئلہ میں ڈاکٹر کی بات ماننی چاہئے۔ دوسری بات یہ ہے کہ پرہیز کرنا چاہئے۔ ایسی چیزیں نہیں کھانی چاہئیں، جو صحت کے لئے نقصان دہ ہیں۔ آج کل تقریباً لوگ وہی چیزیں کھاتے ہیں، جو صحت کے لئے نقصان دہ ہیں۔ حالانکہ ان کو پتا بھی ہوتا ہے کہ یہ نقصان دہ ہیں۔ مثلاً: Junk food ہے، کتنے لوگ ہیں، جو Junk food کھاتے ہیں اور بڑے شوق سے کھاتے ہیں، جیسے چپس اور Lays اور پتا نہیں، کیا کیا چیزیں ہیں۔ اسی طرح برگر ہے، لوگ برگر کے بہت ہی شوقین ہیں۔ اس قسم کی باہر کی تلی ہوئی چیزیں ہیں، یہ سب نقصان دہ ہیں۔ آپ اگر ان کے پکانے کا نظام دیکھیں، تو جس طریقے سے پکائی جاتی ہیں وہ دیکھ کر آپ شاید کھانے سے انکار کر دیں۔ بہت ساری جگہوں پر ہوٹل والے اپنی چیزیں نہیں کھاتے، کیونکہ انہوں نے پکائی ہوتی ہیں، اس لئے ان کو پتا ہوتا ہے کہ ہم نے کون سا گھی استعمال کیا ہوا ہے اور کون سی چیزیں استعمال کی ہیں، اس لئے وہ نہیں کھاتے۔ اسی طرح cold drinks ہیں، ان میں بہت زہر ہے۔ ہمارے ایک دوست ڈاکٹر مشعل صاحب کمیسٹری کے ماہر ہیں، وہ لاہور میں پڑھتے تھے، چونکہ لاہور میں کھانے پینے کے شوقین بہت ہیں۔ وہاں ٹکا ٹک کا سسٹم بہت زیادہ ہے۔ تو وہ بھی ٹکا ٹک ڈش کھاتے تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ گلاس برف سے بھر لیتا اور اس میں 7up ڈال لیتا اور کھانے کے ساتھ وہ پیتا۔ جس سے ان کا معدہ بہت خراب ہو گیا اور جان کے لالے پڑ گئے۔ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ میں بڑی تکلیف میں تھا، تو میرے دل سے دعا نکلی کہ یا اللہ! میری صحت صحیح کر دے۔ کہتے ہیں کہ اسی وقت دل میں آیا کہ فلاں حکیم کے پاس جاؤ۔ میں اس حکیم کے پاس چلا گیا۔ اس نے میری پوری ہسٹری لی۔ اس نے پہلی بات یہ کی کہ جتنا ظلم تم اپنے معدے پہ کر چکے، سو کر چکے، اب مہربانی کر کے مزید ظلم نہ کرو۔ انہوں نے پوچھا: کیا مطلب؟ حکیم صاحب نے کہا کہ ٹکا ٹک کھانا چھوڑ دو اور اسی طرح یہ جو تم کھانے کے ساتھ Cold drinks لیتے ہو، یہ زہر ہے، یہ نہ لو۔ اور پھر ان کو دودھ پینے کا بتایا، تو اس نے کہا کہ مجھے دودھ ہضم نہیں ہوتا۔ انہوں نے کہا: پھر دہی کھا لیا کرو۔ اس طرح ان کو کچھ مشورے دے دیئے، دوائی بھی دے دی۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو صحت عطا فرمائی۔ پھر وہ اس پر عمل کرتے رہے۔ ہمیں بھی یہ کہانی سنائی۔

یہ ساری صورتِ حال اس وجہ سے ہوئی کہ قدرتی چیز کے مقابلہ میں ایک مصنوعی چیز کرتے تھے، نتیجتاً ان کا نقصان ہو گیا۔ اس لئے بازاری چیزوں سے حتی الوسع بچنا چاہئے۔ جتنا انسان سے ہو سکتا ہے، بازاری چیزوں سے بچنا چاہئے۔ ایک تو مجبوری ہوتی ہے، جیسے ایک انسان مسافر ہے۔ اس میں بھی میں مشورہ دیتا ہوں کہ چنے لے لو، فروٹ لے لو اور جہاں سے اچھا دودھ ملتا ہو، دودھ لے لو، اس سے گزارہ کرو۔ پکی ہوئی چیزیں بازار کی نہیں کھانی چاہئیں۔ اس میں کوئی فائدہ نہیں ہے، نقصان ہی نقصان ہے۔ کمال کی بات ہے کہ عموماً لوگ اپنے گھر میں ہوتے ہیں، جیسے اسلام آباد میں تو یہ بہت رواج ہے کہ اپنے گھر میں اچھا کھانا پک سکتا ہے، مگر یہ باہر outing کرتے ہیں، باہر جا کے ہوٹلوں پہ کھانا کھاتے ہیں۔ خدا کے بندو! تمہیں کیا پڑی ہے باہر ہوٹلوں پہ کھانا کھانے کی۔ اپنے گھر کی روٹی کیوں نہیں کھاتے ہو۔ کم از کم تمہیں معلوم تو ہے کہ اس میں آپ نے کیا استعمال کیا ہے، آٹا کون سا ہے، گھی کون سا ہے۔ تو یہ سب ہماری بری عادتیں ہیں۔ اگر صحت برقرار رکھنی ہے، تو ان بری عادتوں کو چھوڑنا پڑے گا۔ لہٰذا ایک تو پرہیز کرنا چاہئے اور ڈاکٹر آپ کو جو activities بتا دیں، ان activities پر عمل کرنا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں ہمیں ایک زبردست اصول بتایا ہے: ﴿كَلَّا بَلْ تُحِبُّوْنَ الْعَاجِلَةَ وَتَذَرُوْنَ الْاٰخِرَةَ (القیامۃ: 20-21)

ترجمہ: ’’خبردار (اے کافرو!) اصل بات یہ ہے کہ تم فوری طور پر حاصل ہونے والی چیز (یعنی دنیا) سے محبت کرتے ہو۔ اور آخرت کو نظر انداز کئے ہوئے ہو‘‘۔

چنانچہ بد پرہیزی بھی تو یہی چیز ہوتی ہے اور نفس کی اس خواہش کو پورا کرنے کے لئے انسان اپنی صحت کا کباڑہ کر لیتا ہے۔ اسی طرح دوسری جگہ فرمایا: ﴿بَلْ تُؤْثِرُوْنَ الْحَیٰوةَ الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَةُ خَیْرٌ وَّاَبْقٰى (الاعلیٰ: 16-17)

ترجمہ: ’’لیکن تم لوگ دنیوی زندگی کو مقدم رکھتے ہو، حالانکہ آخرت کہیں زیادہ بہتر اور کہیں زیادہ پائیدار ہے‘‘۔

بہر حال! ہم لوگوں کو اگر صحت اچھی کرنی ہے، تو پرہیز کرنا چاہئے۔ صحت مند سرگرمیاں کرنی چاہئیں۔ صحت مند سرگرمیوں میں یہ بھی شامل ہے کہ غیبت، حسد اور کینہ سے بھی بچنا چاہئے۔ یہ چیزیں صحت پر بھی بہت برا اثر ڈالتی ہیں۔ اس کے بارے میں ڈاکٹر حضرات اگر ریسرچ کریں، تو انہیں معلوم ہو جائے گا کہ یہ کتنا برا اثر ڈالتی ہیں۔ ایک حاسد کی زندگی کو دیکھو اور ایک حسد فری آدمی کی زندگی کو دیکھو، تو بہت فرق ہوتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حسد فری آدمی کا دل کھلا ہوتا ہے، اس کے لئے ہر چیز میں تفریح موجود ہے، ہر چیز میں سہولت موجود ہے۔ اور حسد والا ٹینشن ہی میں رہتا ہے، کُڑھ رہا ہوتا ہے۔ جب انسان کُڑھ رہا ہوتا ہے، تو معدے پر بھی اثر پڑتا ہے۔ یہ چیز انسان کو نقصان پہنچاتی ہے۔ Heart burning با قاعدہ لوگوں کو محسوس ہوتی ہے۔ لہٰذا ہمیں ان چیزوں سے بچنا ہے۔ اور اس میں اصلاحِ نفس کا کردار بہت اہم ہے، چنانچہ اگر نفس کو کنٹرول کرنا آ جائے، تو دنیا کے لئے بھی کنٹرول کر سکو گے اور آخرت کے لئے بھی کنٹرول کر سکو گے۔ میں اکثر یہ statement دیتا ہوں کہ پرہیز صرف وہ کر سکتا ہے، جس کا اپنے نفس پہ قابو ہو اور عقل سے کام لیتا ہو۔ دوسرا آدمی پرہیز نہیں کر سکتا۔ یہ الگ بات ہے کہ جس شخص کا نفس پہ قابو تو ہو، مگر وہ قابو کس لئے ہے، دین کے لئے ہے یا دنیا کے لئے ہے۔ اس لحاظ سے فرق پڑے گا۔ جیسے یہ جو جوگی ہوتے ہیں، ان کا نفس پہ قابو ہوتا ہے، اگرچہ مسلمان بھی نہیں ہوتے۔ چونکہ ان کا نفس پہ قابو ہوتا ہے، تو ان کو وہ فائدہ ملتا ہے۔ جیسے مودی بہت بڑا جوگی ہے، اس لئے اس کی صحت بہت اچھی ہے، chest بھی اور دوسری تمام چیزیں کافی مضبوط ہیں۔ کیونکہ جوگی لوگ اس کی practice بھی کرتے ہیں۔ لہٰذا یہ ضروری نہیں ہے کہ جس کا نفس پہ قابو ہو، وہ دیندار بھی ہو۔ لیکن اگر دیندار ہے، تو پھر سبحان اللہ! پھر اللہ پاک نے اس کے بارے میں فرمایا: ﴿قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىهَا (الشمس: 9)

ترجمہ: ’’فلاح اسے ملے گی، جو اپنے نفس کو پاکیزہ بنائے‘‘۔

چنانچہ پھر تو بہت بڑی بات ہے۔ لیکن اگر وہ ایمان نہیں رکھتا، دیندار نہیں ہے، تو اس کا نفس پر کنٹرول دنیا کے لئے استعمال ہو گا، اس کی صحت اچھی ہو گی، اس کو دنیا کی سہولتوں کا فائدہ ملے گا اور دنیا میں اس سے جو فائدے relevant ہیں، وہ اس کو ملتے رہیں گے۔ لہٰذا ہم اپنے نفس کی اصلاح اللہ کے لئے کریں، تو دونوں چیزیں مل جائیں گی۔ نیت ہماری یہ ہو کہ اللہ پاک راضی ہو اور یہ اللہ کا حکم ہے۔ اور پھر دنیا کے فائدے بھی ہمیں ملیں گے۔ کیونکہ دنیا کے فائدے حاصل کرنے کے لئے نیت کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ بہت اہم بات ہے، اس کو نوٹ کر لیں کہ دنیا کے فائدے حاصل کرنے کے لئے نیت کی ضرورت نہیں ہے۔ آپ کوئی بھی اچھا کام کریں، تو دنیا کے لحاظ سے آپ کو اس کا فائدہ ملے گا، چاہے اس نیت سے نہ کیا ہو۔ لیکن دین کا فائدہ نیت پر منحصر ہے۔ ’’إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ‘‘ (بخاری شریف، حدیث نمبر: 1)

ترجمہ: ’’تمام اعمال کا دار و مدار نیتوں پر ہے‘‘۔

مثلاً: وضو ہے۔ ویسے اگر آپ کا سارا جسم بھیگ جائے، تو آپ کا وضو ہو گیا، اس سے آپ نماز پڑھ سکتے ہیں، لیکن وضو کا ثواب نہیں ملے گا، ثواب تب ملے گا، جب آپ وضو کی نیت سے اپنے اعضاء کو دھوئیں گے اور ثواب کی نیت بھی ہو گی، تو ثواب کے لحاظ سے آپ کا فائدہ ہو گا۔ ویسے تو فرض ادا ہو جائے گا، اس سے آپ کی نماز ہو جائے گی۔ چنانچہ دینی چیزوں کے لئے نیت ضروری ہے اور دنیاوی چیزوں کے لئے نیت کی ضرورت نہیں ہے۔ مثلاً: میں ورزش کرتا ہوں اس لئے کہ میری صحت اچھی رہے اور اللہ پاک کے احکامات پہ اچھی طرح عمل کر سکوں۔ تو سبحان اللہ! دنیا کا فائدہ تو مل ہی رہا ہے، وہ تو مجھ سے کوئی نہیں لے سکتا، لیکن ساتھ دین کا فائدہ بھی مل گیا۔ اگر میں دنیا کے لئے ورزش کروں، تو دنیا کا فائدہ تو ملے گا، لیکن آخرت کا فائدہ نہیں ملے گا۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی سمجھ عطا فرما دے۔

وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ