دل ترا اُس کی امانت ہے
خود کوجب ہار کے دیکھو گے تم جیتنے کا مزہ تو پاؤ گے
ہو بلند اتنا جتنا خود کو تم یاں اس کے واسطے گراؤ گے
مٹی ہو مٹی سے بنے ہو تم مٹی بن جانا ذرا سیکھ بھی لو
عاجزی اس سے ہوگی جب حاصل سیڑھیاں خود ہی چڑھتے جاؤ گے
دل سے ہر غیر اس کا پھینکنا ہے دل میں بس صرف وہ ہی رہ جائے
وہ ہی جب سامنے ہوگا تو پھر ہاتھ سامنے کس کے پھیلاؤ گے
موت سے پہلے مرنا سیکھنا ہے وہاں میزان کے تصور سے
جان و مال وقت استعمال کر کے اپنے اعمال کو بڑھاؤ گے
ہر جگہ اس کا تجھ کو احساس ہو اس سے غافل کسی لمحے نہ رہو
پھر عبادت بنے تیری جاندار خود کو محبوب اس کا بناؤ گے
ساری باتیں نظر آئیں مشکل تم اگر دل نہ اس کو دے پائے
دل تو اس کی ہی امانت ہے شبیر ؔ یہ امانت اس کو پہنچاؤ گے
تصنیف: پیغامِ محبت