توضیح المعارف قسط 9

توضیح المعارف، قسط نمبر: 9
فلسفۂ سائنس اور معرفتِ الٰہی – چوتھا حصہ
وجودِ منبسط:
۔ اللہ کا وہ نور جس سے ساری کائنات روشن ہے، جو ’’اَللہُ نُوْرُ السَّمٰوَاتِ وَالْاَرْضِ‘‘ (النور: 35) سے مستنبط ہے، اصطلاحاً اس کا نام ’’وجودِ منبسط‘‘ رکھا گیا ہے۔ اس کا نام وجود تو اس لئے ہے کہ سارے ظلال کا قیوم یہی ہے اور منبسط اس لئے ہے کہ یہ ہر چیز یعنی ظل کا قیوم ہے۔
وجود منبسط اور ظلال کے تعلق یعنی قیومیت کی حقیقت
وجود منبسط کی ظلال کے ساتھ اس منفرد تعلق کے بارے میں بس اتنا ہی کہا جا سکتا ہے کہ وجودِ منبسط ظلال کا قیوم ہے، کیونکہ سارے ظلال اس کے وجود کے ساتھ قائم ہیں۔ ظلال سے وجود منبسط کی نسبت ایسی نہیں جیسی نسبت ہیولیٰ کی صورت کے ساتھ ہے۔کیونکہ وجود منبسط خالص نور اور ظہور ہے۔ جیسا ہیولی (unformed body) صورت (shape, face) کا محتاج ہے وجود منبسط اپنی تحصیل و تعیین میں ظلال کا محتاج نہیں ہے
ظلال اپنے آثار میں آپس میں مختلف ہیں اور ان کے احکام بھی جدا جدا ہیں، کیونکہ ہر ظل کی حقیقت جدا ہوتی ہے، اس لئے ان کے آثار بھی مختلف ہو جاتے ہیں۔ اس نقطۂ نظر سے ان ظلال اور ان کے قیوم کی حیثیت ہیولیٰ یا مادے اور صورت کی طرح ہو جاتی ہے یعنی محض تشبیہ کے طور پر، نہ کہ فی الحقیقت۔ عام لوگوں کی نظر پہلے صورت پر جاتی ہے، پھر جس سے صورت کا وجود بنتا ہے اس پر جاتی ہے۔ مثال کے طور پر انسان کو جب کوئی دیکھتا ہے، تو کوئی بھی اس کو مٹی نہیں سمجھتا، لیکن جب وہ انسان کی حقیقت پر غور کرے گا، تو اس نتیجہ تک پہنچ جائے گا، یا کمپیوٹر کی سکرین پر عام آدمی کی نگاہ پہلے پڑتی ہے، لیکن محقق مہندس (Engineer) جب سکرین کو دیکھتا ہے، تو اس کی نظر 0 اور 1 پر جاتی ہے کہ یہ سب کچھ اسی کا کرشمہ ہے۔ پس حقیقت میں قیوم کو اوّلیت حاصل ہے، لیکن بادیُ النظر میں ظلال کی طرف توجہ ہوتی ہے، اس نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو ظلال صورت کے مشابہ اور قیوم مادے کا مشابہ ہے۔
ایک باریک نکتہ: اس صورت و ہیولیٰ کی تشبیہ کو جب حقیقت کے آئینے میں دیکھا جاتا ہے، تو بندے کا ذہن تنزیہ کی طرف بڑھتا چلا جاتا ہے اور حقائق کھلتے جاتے ہیں۔
ایک قیوم میں کثرتوں کا ظہور:
مختلف ظلال کا جب ایک قیوم کے ساتھ رشتہ جڑتا ہے، تو ان کے مختلف آثار و احکام وجود میں آتے ہیں اور مختلف ہویتوں کا ظہور ہوتا ہے۔ ایسا نہ تو تنہا قیوم اور نہ تنہا ظلال کی وجہ سے ہوتا ہے، بلکہ ایسا صرف اس وقت ہوتا ہے، جب مختلف ظلال کا اسی ایک قیوم کے ساتھ تعلق ہوتا ہے، جس کے بعد مختلف اشیاء وجود میں آتی ہیں۔ یہی وہ بنیادی نکتہ ہے جو سائنسدانوں کی دسترس میں نہیں آتا۔
کثرت میں وحدت کے ظہور کی مادی مثالیں۔
کائنات میں بہت زیادہ تنوع کی وجہ سے ایمان سے بے بہرہ سائنسدان جتنی بھی تحقیق کریں، ان کو نامکمل معرفت حاصل ہوتی ہے اور وہ اس واحد قیوم تک نہیں پہنچ پاتے۔ حالانکہ ایک عام انسان کو بھی اس کی نظیریں مل سکتی ہیں۔ مثلاً ہم دیکھتے ہیں کہ سورج کی روشنی جب فضا میں آنکھوں کو نظر نہ آنے والے بارش کے قطروں پر پڑتی ہے، تو اس سے رنگ برنگی قوس قزح نمودار ہو جاتی ہے اور یہی سورج کی روشنی جب مختلف پودوں پر پڑتی ہے، تو اس سے مختلف پھل اور پھول ظاہر ہوتے ہیں۔ ایک مثال بجلی کی بھی ہے کہ بجلی سے چلنے والے مختلف آلات، میں جب بجلی کی لہر دوڑے تو وہ سب اپنا اپنا کام شروع کر دیتے ہیں، حالانکہ سب کا کام ایک دوسرے سے مختلف ہوتا ہے۔
اسی طرح کمپیوٹر کے تمام functions کی اصل 0 اور 1 پر مبنی ہے۔ اس پر غور کرکے وجود منبسط کی صفات قیومیت وغیرہ کو اچھی طرح visualize کیا جا سکتا ہے۔
اس تمہید کے بعد یہ چیز سمجھنا چاہئے کہ دنیا میں ہر پیدا ہوئی چیز ایک ترکیبی جوڑے کی حیثیت رکھتی ہے۔ ایک تو وہ ہے جو اپنے وجود میں مستقل ہے، لیکن مستور ہے۔ وہ یہی قیوم ہے اور دوسرا وہ ہے جو ظاہر و نمایاں ہے، لیکن قیوم کی وجہ سے قائم ہے۔ وہ ظل ہے۔ ظل جب قیوم کے ساتھ ملتا ہے، تو بے شمار ابتدائی ہویتیں وجود میں آتی ہیں۔ ان میں کچھ صورِ الٰہیہ ہوتی ہیں، ان کو تجلیات بھی کہتے ہیں اور کچھ صورِ کونیہ ہوتی ہیں، جن میں ارواح و امثالِ علوی و سفلی، اجسام یعنی عناصر و موالید، جمادات و نباتات اور حیوانات وغیرہ ہیں۔ گویا ابتدائی ہویتیں صورِ الٰہیہ یا تجلیات ہیں اور ابتدائی ہویتوں کے بعد کی چیزیں جو ان سے پیدا شدہ ہیں، مرکب اور مرکب در مرکب، وہ اشیائے کونیہ اور تَنَزُّلات ہیں۔ پھر ان سے آگے اور ان سے آگے ایک سلسلہ چلتا ہے۔ بس تجلیات بھی اشیاء ہیں، لیکن بے رنگ ہیں۔ اور تجلیات سے پیدا شدہ تنزلات و اشیائے کونیہ رنگ برنگ ہیں۔ ان کے اندر اللہ تعالیٰ کے کمالات کا یوں ظہور ہوتا ہے کہ بے ساختہ ان کے اندر غور کر کے دل سے یہ صدا بلند ہوتی ہے: ’’رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ ھٰذَا بَاطِلًا‘‘۔
ترجمہ: ’’اے ہمارے پروردگار! آپ نے یہ سب کچھ بے مقصد پیدا نہیں کیا‘‘۔
اور بندہ یہ کہنے پر مجبور ہوتا ہے: ’’لَآ اُحْصِیْ ثَنَاءً عَلَیْکَ اَنْتَ کَمَا اَثْنَیْتَ عَلٰی نَفْسِکَ‘‘۔
ترجمہ: (اے پروردگار!) میں آپ کی تعریف کا احاطہ نہیں کر سکتا۔ آپ اس شان سے ہیں، جس شان سے آپ نے اپنی خود تعریف فرمائی ہے‘‘۔
اس کارخانہ کی ساری چیزیں گویا وجودِ منبسط کے فرش پر ابھرتی ہیں یا اس کی عکسی صورتیں ہیں، جو اسمِ الٰہی کے آئینہ میں چھپی ہوئی ہیں۔ بس یہ سب کچھ تو ظاہر ہوتا ہے، لیکن ان سب کا قیوم اِن ظلال کے نقاب میں مستور ہو جاتا ہے۔ عقلمند اگرچہ ظلال کے حسن و کمال کا معترف ہوتا ہے، لیکن وہ اس حسن و کمال کے پیچھے چھپے ان ظلال کے قیوم کو بھانپ لیتا ہے، جس کی وجہ سے یہی ظلالی حجابات اس کے لئے نورِ معرفت بن جاتے ہیں۔
ظلال کے کمال اور حسن کا ایک تجزیہ:
کمال اور حسن ظلال کی دو صفات ہیں۔ ظلال میں اگر وہ باتیں پائی جائیں، جو ظلال میں ہونی چاہئیں، تو یہ کمال ہے اور اگر ظلال کے مختلف اجزاء میں ایک موزوں تناسب پایا جائے، تو وہ ان کا حسن ہے۔ ہر چیز کا ایک تو اپنا معیار ہوتا ہے۔ وہ چیز اس معیار کے جتنا قریب ہو، اتنی وہ کامل ہوتی ہے۔ اور دوسرا ارد گرد کی چیزوں یا ماحول سے اس چیز کا مناسب اور معتدل تناسب ہوتا ہے۔ دونوں کو دیکھ کر ہی اس کے بارے میں حسین یا بد صورت ہونے کا حکم لگایا جا سکتا ہے۔
مثلاً: جس انسان میں بولنے، سننے، سوچنے، دیکھنے، علم یا تقویٰ جیسی صفات پائی جاتی ہوں، تو اس انسان کو ان صفات کے لحاظ سے باکمال سمجھا جاتا ہے اور اگر اس کے ہاتھ، پاؤں، قد، ناک وغیرہ کے نقشہ میں باہمی تناسب اچھا ہو، تو وہ حسین بھی سمجھا جاتا ہے۔ اسی طرح اگر ظلال کی فطرت کے مطابق ان کی صفات میں کوئی کمی یا نقصان ہو، تو اس کو ’’نقص‘‘ کہتے ہیں اور اگر ان میں ان کی فطرت کے بر عکس صفات پائی جائیں، تو اس کو قبح کہتے ہیں۔ قبح کی پیدائش کے اسباب متعدد ہو سکتے ہیں۔ مثلاً: ایک سبب یہ ہو سکتا ہے کہ ان کے بننے کے نظام میں کوئی کمزوری پائی جائے یا پھر ان کے مددگار عوامل کمزور ہو جائیں اور مخالف عوامل قوی ہو جائیں۔ جبکہ نقص کی وجہ ان کے بننے میں باہمی ہم آہنگی نہ ہونا ہو سکتی ہے۔ مثلاً: آئینہ کو تِرچھا رکھا جائے، تو شکل میں بگاڑ ظاہر ہو جاتا ہے۔
پھر ان میں دو طرح کی ترکیبوں سے دو قسمیں مزید بنیں گی۔ ایک قسم یہ ہے کہ باکمال ہو، لیکن قبیح ہو اور دوسری قسم یہ ہے کہ حسین ہو، لیکن ناقص ہو۔ جن ظلال میں قبح ہو، اگر ان کے قبح کو دوسرے ظلال کی مدد سے دور کیا جائے، تو اس کو تکمیل کہیں گے اور جن ظلال میں نقص ہو، اگر ان کے نقص کو کسی دوسرے ظل یا ظلال کی مدد سے دور کیا جائے، تو اس کو تحسین کہتے ہیں۔ بعینہٖ اسی طرح حسن کو اگر کوئی دوسرا ظل ضائع یا کم کر دے، تو اس کو اس کی تقبیح کہتے ہیں۔
ظلال کے ذریعے ظلال کی تکمیل و تحسین اور تقبیح و تنقیص میں وہ تمام نظام آجاتے ہیں، جو مطلوبہ منافع حاصل کرنے کے لئے ہیں۔ مثلاً: دوائی کا نظام، معاشی نظام اور تعلیمی نظام وغیرہ وغیرہ۔ اسی طرح نقصان اور خرابی پیدا کرنے کے لئے زہر، ناموافق حالات اور گمراہی کے اسباب وغیرہ۔ یہ سب آتے ہیں۔ یہ تو ظلال کی مختلف قسمیں ہوئیں، لیکن کیا وجودِ منبسط بھی ان ظلال سے موصوف ہے؟ تو اس سوال کا جواب یہ ہے کہ ہاں، وجودِ منبسط ان ظلال سے موصوف ہے، لیکن انتزاعی طور پر۔ کیونکہ انسانی ذہن ان کو وجودِ منبسط سے پیدا کرتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا وجودِ منبسط بھی ظلال کے احکامات سے موصوف ہوتا ہے یا نہیں؟ جواب یہ ہے کہ اس میں تفصیل ہے۔ اس بارے میں ایک کلی ضابطہ یہ ہے کہ دیکھنا چاہئے کہ ظلال کے احکام کی نوعیت کیا ہے؟ اگر وہ ایسے احکام ہیں کہ جن سے ظلال کے کمالات کا مفقود ہونا لازم آتا ہے یا ان کے نظاموں میں خلل آتا ہے یعنی ان ظلال سے متعلق کوئی منفی صورتِ حال پیدا ہوتی ہے، تو ان احکام سے وجودِ منبسط متصف نہیں ہو گا۔ کیونکہ وجودِ منبسط محض نور ہی نور ہے۔ لیکن ہر وہ چیز جس سے خیر وجود میں آئے، اس سے وجودِ منبسط موصوف ہوتا ہے، لیکن اس سے اس کے نور کے حجابات کا کوئی تعلق نہیں۔ جیسے: سورج کی روشنی آ رہی ہو اور اس کے سامنے کوئی حجاب آ جائے، جو کسی چیز کے لئے سورج کی روشنی سے مانع ہو جائے، تو اس میں سورج کا کیا قصور ہو گا؟ پس چاہئے کہ ان حجابات کو رفع کیا جائے، تاکہ اس نور سے استفادہ ہو سکے۔ پس ظلال کا کوئی عیب وجودِ منبسط سے منسوب نہیں کیا جا سکتا، بلکہ عیب کو اسی ظل سے ہی منسوب کرنا ٹھیک ہے۔ مثلاً: روشنی کا ایک source (ذریعہ) ہے، جو تمام چیزوں کو روشن کر رہا ہے، اب اگر کوئی چیز کسی آڑ میں آ کر روشن نہیں ہے، تو عیب روشنی کے source (ذریعہ) کا نہیں ہے۔
اس کے الطاف شہیدی تو ہیں مائل سب پر
تجھ سے کیا بیر تھا گر تو کسی قابل ہوتا
اسی طرح بادیُ النظر میں بعض چیزوں میں نقصان نظر آتا ہے، لیکن اگر اس کو پوری کائنات کے تناظر میں دیکھا جائے، تو اس کا فائدہ معلوم ہو جاتا ہے۔ جیسے: چاند میں روشنی انعکاسی ہے اور سورج سے بہت کم ہے اور اس کی سطح کھردری ہے، لیکن اسی سبب سے ہی چاند کی روشنی آنکھوں کو بھلی لگتی ہے۔ اسی طرح کسی انسان کا سیاہ رنگ والا ہونا عیب سمجھا جاتا ہے، لیکن کالی داڑھی اور کالے بال سب کو بھلے لگتے ہیں۔
اس لئے وجودِ منبسط سے جس چیز کا بھی تعلق ہے، وہ خیر ہے، اگر اس سے اس کو کوئی حجاب نہ ہو۔ اچھی چیزوں کے ساتھ بری چیزوں کے پیدا کرنے کی بھی یہی علت ہو سکتی ہے۔ اسی طرح لوہے سے تلوار اور چھری بنائی جا سکتی ہے، لیکن اگر لوہے سے کسی شخص نے عیب دار چھری یا تلوار بنائی، تو اس کی وجہ سے لوہے پر کوئی الزام نہیں۔ محض کاریگری کا فرق ہے۔ اسی طرح وجودِ منبسط سب ظلال کا قیوم ہے، لیکن اگر ان میں اچھائی ہے، تو وہ وجودِ منبسط سے ہے اور اگر ان میں کوئی برائی ہے، تو اس کا تعلق وجودِ منبسط کے غیر کے ساتھ ہے۔