تعلیمات مجددیہ درس 17

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
ہماری خانقاہ میں بدھ کے دن حضرت مجدد الف ثانی رحمة اللہ علیه کے مکتوبات شریفہ پر مشتمل معارف و تعلیمات کا درس ہوتا ہے۔ آج کے درس میں ایک خاص بات یہ ہے کہ ماہ ذی الحجہ شروع ہو چکا ہے اور ہمارے درس میں اِن ایام کی برکت بھی شامل ہو گئی ہے۔ حدیث شریف میں ارشاد فرمایا گیا ہے کہ الله جل شانهٗ کو جتنا عبادت کرنا ان ایام میں محبوب ہے، اتنا کسی اور دنوں میں نہیں ہے۔ ماہ ذی الحجہ کے ابتدائی دنوں یعنی یکم ذی الحجہ سے 8 ذی الحجہ تک روزے رکھنے میں ہر روزہ کا اجر ایک سال روزے رکھنے کے برابر ہے۔ 9 ذی الحجہ یعنی یوم عرفہ کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ میں گمان کرتا ہوں، اللہ پاک سے امید کرتا ہوں کہ اس ایک دن کا روزہ رکھنا ایک گذشتہ سال اور ایک آئندہ سال کے گناہوں کا کفارہ ہو جائے۔ ایک روایت میں یہ ارشاد فرمایا کہ عشرۂ ذی الحجہ کے روزوں کا اجر ہزار دنوں کے روزوں جتنا ملتا ہے۔ یہ تقریباً پونے تین سال بن جاتے ہیں۔
عقل مند کے لئے اشارہ کافی ہوتا ہے جبکہ محرومیت کے لئے دلیل کی بھی ضرورت نہیں، بس سستی ہی کافی ہے۔ اِن ایام کے روزے رکھنا مستحب ہے، فرض و واجب نہیں ہے۔ لیکن مستحب ہی میں تو مُسابَقَت ہے۔ فرائض و واجبات تو سب نے کرنے ہیں، ان میں کوئی کمی بیشی نہیں کر سکتا۔ البتہ مستحبات میں مسابقت ہوتی ہے۔ کوئی کسی ایک مستحب میں آگے جاتا ہے، کوئی دوسرے مستحب میں آگے جاتا ہے۔ اس معاملہ میں میدان بڑا وسیع ہے۔
ہمارے اکابر رحمۃ اللہ علیہم یہ نیکیاں بڑھ چڑھ کر کیا کرتے تھے۔ امام ابو حنیفہ رحمة اللہ علیه کی تو خیر شان ہی الگ تھی کہ وہ بعض دفعہ عشاء کے وضو سے فجر کی نماز پڑھا کرتے تھے۔ بعض روایات کے مطابق ان کا مستقل طور پر یہ معمول تھا کہ فجر کی نماز عشاء کے وضو سے پڑھ لیتے تھے۔ امام شافعی رحمة اللہ علیه کے بارے میں بھی ایسی روایت آئی ہے۔ امام احمد بن حنبل رحمة اللہ علیه کے بارے میں منقول ہے کہ روزانہ تین سو رکعت نفل پڑھا کرتے تھے۔ یہ تمام کاموں کے علاوہ عام دنوں کی بات ہے۔
اس سے پتا چلا کہ ان حضرات کو الله جل شانهٗ نے ان چیزوں کی قدر دانی اور معرفت نصیب فرمائی تھی۔ لہٰذا اُن سے اِن نیکیوں میں سستی نہیں ہوتی تھی۔ آج کل معاملہ زیادہ مشکل ہے کیونکہ عمومی طور پر مستحب کو اس انداز میں لیا جاتا ہے کہ جیسے اس کی تو کوئی خاص اہمیت ہی نہیں ہے۔
دو چیزوں کو بالکل ہلکا لیا جاتا ہے: (1) ضعیف حدیث (2) مستحب امور۔ ضعیف حدیث کو لوگ موضوع تک پہنچا دیتے ہیں۔ حالانکہ ضعیف حدیث موضوع نہیں ہوتی۔ ضعیف حدیث میں صرف یہ ہوتا ہے کہ اس میں صحیح ہونے کی تمام شرائط نہیں پائی جاتیں۔ اس لئے وہ سنداً صحیح نہیں رہ پاتی۔ بعض اوقات کسی حدیث کے کسی راوی میں کمزوری پائی جاتی ہے۔ راوی مجہول ہوتا ہے یا اس قسم کی کوئی اور بات ہو جاتی ہے جس کی وجہ سے اس حدیث کی سند ضعیف قرار پاتی ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ حدیث موضوع کے درجے میں چلی گئی ہے اور بالکل قابلِ عمل ہی نہیں رہی۔ آپ اپنے عام دنیاوی معاملات میں دیکھیں۔ کتنے ہی لوگ ہیں جو مجہول روایتوں پہ عمل کرتے ہیں۔ مثلاً راستہ میں جاتے ہوئے اگر کوئی کہہ دے کہ بھئی آگے گاڑی نہیں جا سکتی، رکاوٹ ہے۔ تو ہم بلا شک و شبہ اس کی بات پر عمل کرتے ہوئے راستہ تبدیل کر لیتے ہیں۔ حالانکہ اس کہنے والے کو ہم نہیں جانتے۔ پھر بھی اس کی بات پہ عمل کرتے ہیں۔ اگر دو آدمی کہہ دیں پھر تو بات مزید پختہ ہو جاتی ہے، اور تین آدمی کہہ دیں پھر تو ہر صورت میں واپس مڑنا ہو جاتا ہے۔
احادیثِ ضعیفہ کا بھی یہی معاملہ ہے۔ حضرت مولانا تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم فرماتے ہیں کہ ضعیف روایات میں یہ طریقہ اختیار کیا جاتا ہے کہ اگر مختلف طُرُق سے ایک ہی بات آ جائے تو وہ بات مضبوط ہو جاتی ہے۔
آج کل چونکہ سستی غالب ہے، اس لئے مستحبات پر عمل نہ کرنے کے لئے بہانہ ڈھونڈا جاتا ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ مستحب کو واجب بنا دو۔ کیونکہ جو کسی مستحب کو واجب سمجھے گا اس کے لئے اس کا ترک واجب ہو جائے گا۔ لیکن بہرحال مستحب ہوتا تو کسی مقصد کے لئے ہی ہے۔ عمل کرنے کے لئے ہی ہوتا ہے۔ اس وجہ سے ہم لوگوں کو اس کی قدر دانی کرنی چاہئے اور مستحب اعمال کو نظر انداز نہیں کرنا چاہئے۔
حضرت مجدد الف ثانی رحمة اللہ علیه کی تعلیمات میں بہت نور ہے۔ یہ حضرت کی فکر کی وجہ سے ہے۔ اللہ پاک اہل اللہ کی فکر کو محفوظ رکھتا ہے اور اس سے ان لوگوں کو فائدہ پہنچاتا ہے جنہیں اہل اللہ کے ساتھ حسنِ ظن ہوتا ہے۔ جن لوگوں کو اہل اللہ کے ساتھ جتنا زیادہ حسنِ ظن ہوتا ہے انہیں اتنا زیادہ فائدہ پہنچتا ہے۔
کاملین پہ اعترا ض کرنے کی ممانعت:
حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ دفتر اول مکتوب نمبر 101 میں ارشاد فرماتے ہیں:
متن:
جو خطاب آپ نے ظاہر طور پر نفس کی طرف کئے ہیں واضح ہوئے، ہاں نفس کی امارگی (سرکشی) کے زمانے میں اس پر اعتراض کریں وہ مسلم ہے لیکن (نفس کے) مطمئنہ ہو جانے کے بعد اُس پر اعتراض کرنے کی گنجائش نہیں ہے
تشریح:
یہ وہی عنوان ہے جس پہ گذشتہ ہفتے بات ہوئی تھی۔ اولیاء کرام کے گروہ سے محبت رکھنے اور ان کے بغض سے بچنے کی ترغیب۔
حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کو بیک وقت دو محاذوں پر مقابلہ در پیش تھا۔ ایک یہ کہ جن لوگوں نے تصوف کو بگاڑ دیا تھا، ان کی سرزنش کرنا اور ان کے جال سے لوگوں کو نکالنا۔ یہ حضرت کا شعبہ تھا۔ دوسری طرف جو لوگ اللہ والوں کے بارے میں گستاخی اور بد گمانی کیا کرتے تھے۔ مجدد صاحب رحمة اللہ علیہ نے ان کا رد بھی ایسے عجیب و غریب انداز سے کیا کہ آدمی حیران ہو جاتا ہے۔
مثلاً حضرت شیخ اکبر رحمة اللہ علیه کے تصورِ وحدۃ الوجود کے معارف پر اگر کسی نے سب سے زیادہ تنقید فرمائی ہے تو وہ حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ ہیں۔ اس کے باوجود ان کے بارے میں ارشاد فرماتے ہیں کہ میں جب بھی کشف کی نگاہ سے دیکھتا ہوں تو انہیں (شیخ اکبر رحمۃ اللہ علیہ کو) جنت کے اعلی درجہ میں پاتا ہوں۔
اِس کی وجہ یہ ہے کہ حضرت شیخ اکبر رحمۃ اللہ علیہ کے وقت میں اُس چیز کی ضرورت تھی اور اِس وقت اِس چیز کی ضرورت ہے۔ اُن کی نیت میں تو مسئلہ نہیں تھا۔ بلکہ لوگوں نے مسئلہ کو بگاڑ دیا ہے۔ جیسا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں عیسائیوں نے اپنا عقیدہ بگاڑ لیا ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے عیسائیوں سے یہ تو نہیں کہا تھا کہ تم ایسے عقیدے رکھو۔ ایسے ہی حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے لوگوں سے نہیں کہا تھا کہ تم میرے ساتھ اس طرح کی عقیدت رکھو۔ اس میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام یا حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا قصور نہیں ہے۔ اگر حضرت علی رضي الله تعالیٰ عنه کے حوالے سے کسی نے کوئی جھوٹ مشہور کیا ہے یا کسی نے حضرت عیسٰی علیہ السلام کے نام سے کوئی جھوٹ مشہور کیا ہے تو اس کا رد تو کرنا ہی پڑے گا۔ حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے یہی کام کیا ہے اور بڑے محتاط انداز میں ان عقائد کی حفاظت فرمائی ہے۔ اعمال، احوال اور ادب و آداب کے بارے میں مکتوبات لکھے ہیں۔ پوری عمر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا دفاع کیا ہے۔ لیکن اندازہ کیجئے کہ اپنی دعاؤں میں یہ کہا کرتے تھے کہ اے اللہ! اہل بیت کے طفیل میری دعاؤں کو قبول فرما۔ باقاعدہ صراحتاً فرمایا ہے کہ اہل بیت کے تمام ائمہ کرام حضرت امام جعفر صادق رحمة اللہ علیه، امام کاظم رحمة اللہ علیه اور بعد والے دوسرے حضرات، بارہ کے بارہ ائمہ کرام بڑے اولیاء اللہ تھے، ان کے ذریعہ سے باقی لوگوں کی روحانیت محفوظ ہے۔ یہ مکتوب شریف گزر چکا ہے، اُس میں صاف صاف یہ بات فرمائی ہے۔
اس سے معلوم ہوا کہ حضرت نے انتہائی درجہ کا محتاط اور مضبوط رویہ رکھا ہے۔ کہتے ہیں جہاں تلوار پڑنی ہے وہیں پڑے۔ آگے پیچھے بالکل نہ کٹے۔ یہ کمال کی بات ہوتی ہے کہ جہاں پر وار کرنا ہے اسی جگہ ہی وار ہو۔ آگے پیچھے نہ جائے۔ حضرت نے اسی انداز میں کام کیا ہے۔ فرماتے ہیں:
متن:
جو خطاب آپ نے ظاہر طور پر نفس کی طرف کئے ہیں واضح ہوئے ہاں نفس کی امارگی (سرکشی) کے زمانے میں اس پر اعتراض کریں وہ مسلم ہے لیکن (نفس کے) مطمئنہ ہو جانے کے بعد اُس پر اعتراض کرنے کی گنجائش نہیں ہے کیونکہ نفس اس مقام میں پہنچ کر حق سبحانہ وتعالیٰ سے راضی اور سبحانہ وتعالیٰ اس سے راضی ہو جاتا ہے پس جب وہ (حق تعالیٰ کا) پسندیدہ و مقبول (بندہ) ہو گیا تو اس پر اعتراض جائز نہیں، کیونکہ اس کی مراد حق سبحانہ و تعالیٰ کی مراد ہو جاتی ہے، لہذا اس دولت کا حاصل ہونا حق سبحانہ وتعالیٰ کے اخلاق کے ساتھ متخلّق (متصف) ہونے کے تحت ہے، اس کا مقدس میدان (صحن) ہم پست فطرت لوگوں کے اعتراض سے بہت بلند و بالا ہے، ہم جو کچھ کہتے ہیں وہ ہماری طرف لَوٹ آتا ہے۔ بیت
آگہ از خویشتن چو نیست جنین
چہ خبردار داز چنان و چنین
(جو بچہ اپنی ماں کے پیٹ میں ہے اُسے اِس کی خبر ہے نہ اُس کی)
اکثر اوقات ایسا ہوتا ہے کہ جاہل لوگ اپنی حد درجہ جہالت کی وجہ سے نفسِ مطمئنہ کو نفسِ امارہ خیال کر لیتے ہیں اور نفس کی امارگی کے احکام نفسِ مطمئنہ پر جاری کر دیتے ہیں جیسا کہ کفار نے انبیاء علیہم الصلواتُ والتسلیمات کو دوسرے انسانوں کی طرح خیال کر کے نبوت کے کمالات سے انکار کیا ہے۔ حق سبحانہ وتعالیٰ ان اکابر بزرگوں علیہم الصلوات والتحیات اور اُن کے تابعداروں کے انکار سے بچائے۔
تشریح:
اس میں حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے یہ بتا دیا ہے کہ ہم لوگ شر کی مخالفت کریں گے، خیر کی مخالفت نہیں کریں گے۔ نفسِ امارہ شر ہے اور نفسِ مطمئنہ خیر ہے۔ ایک پکی بات یہ بھی ہے جس پر حضرت مولانا اشرف علی تھانوی صاحب رحمة الله عليه نے بڑا زور دیا اور حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی بڑا زور دیا ہے کہ مبتدی اور منتہی ایک جیسے نظر آتے ہیں جبکہ متوسط مختلف نظر آتا ہے۔ مثلاً مبتدی تکلیف کے موقع پر روتا ہے۔ منتہی بھی روتا ہے لیکن منتہی تکلیف سے نہیں روتا بلکہ اللہ کے سامنے عاجزی ظاہر کرنے کے لئے روتا ہے۔ عام لوگوں کو دونوں کا رونا نظر آ رہا ہے۔ دونوں رو رہے ہیں۔ لیکن متوسط کا معاملہ الگ ہے۔ جب مصیبت آئے گی تو متوسط قہقہے لگا رہا ہو گا۔ مثال کے طور پر اس کو کسی نے اطلاع کر دی کہ آپ کا بیٹا فوت ہو گیا ہے، تو وہ ہنس پڑے گا کہ اللہ پاک نے قبول فرما لیا۔ اب یہ متوسط آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑا تو نہیں ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں سے بھی حضرت ابراہیم رضي الله تعالیٰ عنه کی وفات پر آنسو جاری ہو گئے تھے۔ کسی نے پوچھا کہ حضرت آپ بھی؟ فرمایا: یہ تو رحمت ہے۔ ہاں زبان سے ہم ایسی بات نہیں کریں گے جس سے نقصان ہو۔
الغرض متوسط مختلف نظر آتا ہے جبکہ مبتدی اور منتہی ایک جیسے نظر آتے ہیں۔ عام لوگ سب کو اکٹھا سمجھ لیتے ہیں، ایک ہی بات سمجھ کر ان کے ساتھ ایک ہی معاملہ کرتے ہیں۔
ایک بات تو یہ ہوئی اور دوسری بات یہ ہے کہ یہ لوگ چونکہ خود نفسِ امارہ کے مارے ہوئے ہوتے ہیں، اس لئے دوسروں کو بھی اپنے جیسا سمجھ لیتے ہیں اور دوسروں کے بارے میں یہ سوچ ہی نہیں سکتے کہ وہ ان سے مختلف ہیں۔ یہ گمان کرتے ہیں کہ میرے ساتھ ایسا ہے تو ان کے ساتھ بھی ایسا ہو گا۔ حقیقت میں ان کا اپنا نفس نفسِ اَمَّارہ ہوتا ہے اور اپنے آپ کو حق پر سمجھ رہا ہوتا ہے۔ لہٰذا یہ باقی لوگوں کو بھی اس قسم کا دیکھنا چاہتے ہیں۔ ایسی باتیں صحیح نہیں ہیں۔ اللہ والے ان چیزوں سے پاک ہوتے ہیں۔ اللہ پاک ہمیں معاف فرمائے۔ آگے ایسے لوگوں سے بچنے کا ذکر آ رہا ہے۔
پیر ناقص سے طریقہ اخذ کرنے کے نقصانات:
حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ دفتر اول کے مکتوب نمبر 23 میں ارشاد فرماتے ہیں:
متن:
کمالات کے ظہور کی استعداد رکھنے والے بھائی! حق سبحانہ و تعالٰی آپ کے فعل کی استعداد کو عملی جامہ پہنانے کی توفیق بخشے۔ آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ بے شک دنیا آخرت کی کھیتی ہے پس اس شخص کے لئے افسوس کا مقام ہے جس نے اس میں کچھ نہیں بویا اور اپنی استعداد کی زمین کو بیکار رہنے دیا اور اعمال کے بیج کو ضائع کر دیا اور یہ بھی جاننا چاہئے کہ زمین کا ضائع و بیکار کرنا دو طرح پر ہے ایک یہ کہ اس میں کوئی چیز کاشت ہی نہ کی جائے اور دوسرے یہ کہ اس میں گھٹیا (نکمّا) اور خراب بیج ڈالا جائے، اور یہ دوسری قسم ضائع کرنے میں پہلی قسم سے زیادہ شدید نقصان دہ اور بہت زیادہ خرابی والی جیسا کہ یہ بات پوشیدہ نہیں ہے اور بیج کا نکمّا اور خراب ہونا اس طرح پر ہے کہ کسی ناقص سالک سے طریقہ اخذ کرے اور اس کے مسلک (راستے) پر چلے اس لئے کہ ناقص سالک اپنی خواہشاتِ نفسانی کی پیروی کرتا ہے اور جو شخص خواہشاتِ نفسانی کے تابع ہوتا ہے اس کا اپنا کچھ نہیں ہوتا، اور اگر (بالفرض) کوئی اثر ہوتا بھی ہو تو وہ خواہشاتِ نفسانی ہی کی مدد کرے گا پس اس سے سیاہی پر مزید سیاہی حاصل ہو گی، اور اس لئے بھی کہ ناقص (پیر) ان طریقوں میں جو حق سبحانہ وتعالٰی تک پہنچانے والے ہیں اور ان طریقوں میں جو حق سبحانہ وتعالٰی تک نہیں پہنچاتے تمیز نہیں کرسکتا کیونکہ وہ خود واصل نہیں ہے اور اسی طرح وہ طالبانِ طریقت کی مختلف استعدادوں کے درمیان تمیز نہیں کرسکتا، اور جب وہ جذبہ (سیر انفسی) اور سلوک (سیر آفاقی) کے طریقوں میں تمیز نہیں کرسکتا تو بسا اوقات طالب کی استعداد ابتدا میں طریقۂ جذبہ کے مناسب ہو گی اور طریقۂ سلوک کے مناسب نہیں ہو گی اور ناقص پیر ان دونوں طریقوں اور طالبین کی مختلف استعدادوں میں تمیز نہ کرسکنے کی وجہ سے ابتدا میں سلوک کے طریقہ پر چلائے گا۔ پس جس طرح وہ خود طریقہ سے بھٹکا ہوا (گمراہ) ہے اسی طرح اس طالب کو بھی راہِ حق سے بھٹکا دے گا پس شیخِ کامل مکمل (یعنی جو خود کامل ہو اور دوسروں کو کامل کرنے والا ہو) جب اس طالب کی تربیت کرنا اور اس کو اس راستہ پر چلانا چاہے تو سب سے پہلے اس کو اس خرابی کے دُور کرنے کی ضرورت پیش آئے گی جو اس طالب کو ناقص پیر سے پہنچی ہے اور اس فساد (بگاڑ) کی اصلاح کرنی ہو گی جو اس میں اس ناقص پیر کے سبب سے پیدا ہوا ہے۔ پھر اس کی زمین میں اس کی استعداد کے مناسب صالح (عمدہ) بیج ڈالے گا تب اس سے اچھی کھیتی اُگے گی۔
تشریح:
اگر میں اس مضمون کو مکتوب نمبر 287 کے ساتھ ملا دوں تو مضمون مکمل واضح ہو جائے گا۔ مکتوب 287 بہت معرکۃ الآرا مکتوب ہے۔ میں کہہ سکتا ہوں کہ یہ ایک انقلابی مکتوب ہے۔ حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کو جس کیفیت میں لکھا ہے وہ کیفیت مکتوب شریف میں حضرت نے خود ہی ظاہر فرمائی ہے۔ اپنے بھائی کو لکھتے ہیں کہ میں دیکھ رہا ہوں کہ لوگ جذب اور سلوک کے سمجھنے میں گڑبڑ کر رہے ہیں۔ میں آپ کو بتاتا ہوں کہ جذب کیا ہوتا ہے اور سلوک کیا ہوتا ہے۔ (اس مکتوب میں حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے لئے کچھ کسرِ نفسی کے الفاظ استعمال کئے ہیں۔ اور فرمایا ہے کہ) میرے خاطِر فاتِر میں یہ آتا ہے کہ میں اس پر کچھ کلام کروں۔ پھر جذب کو واضح کیا ہے کہ جذب کیا ہوتا ہے۔ پھر سلوک کو واضح کیا ہے کہ سلوک کیا ہوتا ہے۔ اس کے بعد فرمایا ہے کہ لوگ جذب ہی کو کمال سمجھ لیتے ہیں، کہ ہم کامل ہو گئے ہیں اور اس کے ذریعہ سے سلوک بھی طے ہو گیا ہے۔ حالانکہ ابھی سلوک طے نہیں ہوا ہوتا۔
حضرت نے تو بڑی تفصیل سے یہ بات ذکر کی ہے۔ میں ذرا مختصر طور پہ عرض کرنا چاہوں گا، کیونکہ اپنے موقع پہ تفصیلاً بیان ہو چکا ہے۔
مثلاً میں کسی لوہے، سٹیل، ایلومینیم یا کسی اور دھات تانبے وغیرہ سے کوئی چیز بنانا چاہتا ہوں۔ اسے کوئی خاص صورت دینا چاہتا ہوں مثلاً اس سے کوئی گھڑا بنانا چاہتا ہوں، کوئی پائپ بنانا چاہتا ہوں یا کوئی اور چیز بنانا چاہتا ہوں تو مجھے اس کے لئے کیا کرنا ہو گا؟ پہلے میں اس دھات کو گرم کروں گا، جب گرم کرنے سے نرم ہو جائے گا تو پھر میں اس کو shape (مخصوص صورت) دوں گا۔ اس کے لئے فیکٹریوں میں باقاعدہ طریقۂ کار ہوتے ہیں۔ اگر میں گرم اور نرم کئے بغیر اس کو موڑنا چاہوں تو وہ دھات نہیں مڑے گی بلکہ درمیان سے ٹوٹ جائے گی اور ضائع ہو جائے گی۔ حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے یہاں یہ بات ذکر کی ہے۔ اگر میں سالک کو جذب سے نہ گزاروں اور ابتداء ہی سے اس کا سلوک طے کرانا شروع کر دوں تو یہ پھٹ جائے گا۔ اس کی اصلاح نہیں ہو گی بلکہ یہ کٹ جائے گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ابھی یہ اس کی برداشت سے باہر ہے۔ وہ ٹوٹ جائے گا۔ پہلے اس کو جذب کی بھٹی میں گرم کرو۔ اللہ تعالی کے ساتھ اس کو گرما گرمی کا ایسا تعلق اور ایسی محبت حاصل ہو جائے کہ اس کے لئے کچھ بھی کرنے کو تیار ہو جائے۔ تب اسے آپ جس بات کے بارے میں کہیں گے کہ یہ اللہ کے لئے ہے۔ وہ کہے گا کہ ٹھیک ہے بالکل صحیح ہے۔ اب یہ نرم ہو چکا ہے۔ اب اسے اس مخصوص صورت میں ڈھالنے کا وقت ہے۔ اب اگر آپ نے اس کو ویسے ہی رہنے دیا تو آپ نے اس کو ضائع کر دیا۔ کیونکہ جذب ہمیشہ کے لئے نہیں ہوتا بلکہ عارضی طور پر ہوتا ہے۔ کچھ عرصہ کے بعد چلا جاتا ہے۔ اگر یہ ویسے ہی ٹھنڈا ہو گیا تو آپ نے وہ ساری محنت ضائع کر دی۔ بلکہ پھر ایک اور خطرناک صورت بھی بن جاتی ہے اور وہ یہ ہے کہ ایسا شخص ”مٹہ کور“ ہو جائے گا۔ پشتو میں ”مٹہ کور“ چکنے گھڑے کو کہتے ہیں۔ جب یہ چکنا گھڑا بن گیا تو پھر اس کی اصلاح ہی نہیں ہو سکے گی اور یہ بالکل منکر بن جائے گا۔ لہٰذا یہ کام ترتیب کے ساتھ کرنا ہوتا ہے۔
اگر انسان جذب حاصل کرتا ہے تو اس کے لئے بھی کامل شیخ کی ضرورت ہے۔ اگر کامل شیخ کی رہنمائی حاصل نہ ہو تو انسان اس منزل پر نقصان بھی اٹھا سکتا ہے۔ جیسا کہ حضرت نے تفصیل کے ساتھ مکتوب نمبر 287 میں بیان فرمایا ہے کہ ایسے وقت میں احوال تبدیل ہو رہے ہوتے ہیں کیونکہ جذب تلوین کی حالت ہوتی ہے۔ سلوک سے حالتِ تمکین آتی ہے۔ تلوین تبدیلی کو کہتے ہیں۔ جب انسان جذب میں ہوتا ہے تو اس وقت احوال میں مسلسل تبدیلی ہو رہی ہوتی ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ شاید ان تبدیلیوں کی وجہ سے میرا سلوک طے ہو رہا ہے۔ حالانکہ وہ سلوک نہیں ہوتا بلکہ جذب کے احوال تبدیل ہو رہے ہوتے ہیں۔ جس وقت کوئی لوہا گرم کیا جاتا ہے تو اس کے رنگ بدلتے ہیں اسی طرح حالت جذب میں احوال تبدیل ہو رہے ہوتے ہیں جس سے یہ سمجھتا ہے کہ میرا سلوک طے ہو رہا ہے۔ اللہ تعالی ہم سب کو ان مسائل سے بچائے۔
آپ یہ سن کر حیران ہوں گے کہ نقشبندی سلسلے کے بعض حضرات سے میری بات چیت ہوئی۔ جب میں نے ان سے کہا کہ یہ جذب کسبی ہے تو وہ میرے سخت مخالف ہو گئے اور پتا نہیں مجھے کیا کیا سمجھنے لگے۔ کہنے لگے کہ آپ کو مکتوبات کی سمجھ نہیں آ رہی۔ آپ ویسے ہی اپنی طرف سے باتیں کر رہے ہیں۔ پھر میں نے حضرت کے مکتوبات سے وہ تمام چیزیں نکال نکال کر انہیں بتائیں۔ انہوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ سلوک جذب کے ساتھ ہی طے ہوتا ہے۔ میں نے کہا کہ حضرت مجدد الف ثانی صاحب رحمة اللہ علیه یہی رونا روتے ہیں کہ سلوک جذب کے ساتھ نہیں ہوتا بلکہ سلوک ایک علیحدہ چیز ہے۔ اس کے لئے حضرت نے ایک زبردست مثال دی ہے جس کو اگر کوئی نہ سمجھے اس کے لئے دعا ہی کی جا سکتی ہے۔ حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ مثال دیتے ہیں کہ جیسے کوئی شخص خانہ کعبہ کی زیارت کے لئے، طواف کے لئے، عمرہ کے لئے یا حج کے لئے جا رہا ہے۔ اسے خانہ کعبہ کا پتا نہیں ہے کہ خانہ کعبہ کیسا ہے۔ اس نے ذہن میں ایک خاکہ بنا لیا کہ خانہ کعبہ ایسا ہو گا۔ راستے میں اسے کوئی عمارت ایسی معلوم ہوتی ہے کہ شاید خانہ کعبہ ہے۔ وہ وہاں ٹھہر جاتا ہے اور طواف و اعتکاف کرنے لگتا ہے۔ حضرت فرماتے ہیں: یہ شخص علماً بھی محروم ہے، عملاً بھی محروم ہے۔ دوسرا شخص ہے جس کو خانہ کعبہ کا پتا ہے کہ کیسا ہے۔ اسے اچھی طرح علم ہے لیکن وہ ایک قدم بھی باہر نہیں نکالتا، اپنی جگہ پہ رہتا ہے۔ یہ شخص علماً محروم نہیں ہے لیکن عملاً محروم ہے۔ تیسرا آدمی جو چل پڑا ہے لیکن ابھی پہنچا نہیں ہے۔ یہ نہ علماً محروم ہے نہ ہی عملاً محروم ہے۔ لیکن ابھی راستہ میں ہے۔ پہنچا یہ بھی نہیں ہے۔ چوتھا وہ شخص ہے جو باقاعدہ پہنچ چکا ہے۔ یہ وہ شخص ہے جو خود بھی پہنچا ہے اور دوسروں کو بھی پہنچا سکتا ہے۔ پہلی مثال مجذوب متمکن کی ہے۔ یہ مجذوب متمکن ہے، جس نے اپنے جذب کو قابو کر لیا اور سمجھا کہ میرا سلوک مکمل ہو گیا۔ یہ شخص ایسا ہوتا ہے کہ اس کے اندر جذب کی وجہ سے کچھ صفات پیدا ہو جاتی ہیں اور اس کی توجہ کی قوت بہت تیز ہو جاتی ہے۔
آج کل یہ مسئلہ عام ہے کہ لوگ توجہ سے دوسرے لوگوں کو کھینچتے ہیں۔ ان کی توجہ کی قوت بہت زبردست ہوتی ہے۔ ان کے احوال بڑے عالی شان ہوتے ہیں۔ لوگ ان سے بہت متاثر ہوتے ہیں۔ عموماً عوام کی توجہ ان کی طرف ہوتی ہے، کاملین کی طرف نہیں ہوتی۔ کیونکہ کاملین سادہ لوگ ہوتے ہیں۔ سادگی کے ساتھ رہتے ہیں۔ ان کے ہاں کوئی ظاہری نمود و نمائش اور شور شرابا نہیں ہوتا۔ جبکہ متوسطین کے ساتھ کچھ مسائل ہوتے ہیں۔ حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمة الله عليه نے متوسطین کی مثال دیتے ہوئے فرمایا ہے کہ متوسط کی مثال ہری بھری فصل کی سی ہے۔ اگر اسی وقت اسے کاٹ دیا جائے تو سوائے چارہ کے کسی کام نہ آئے۔ جب کہ منتہی کی مثال پکی ہوئی فصل کی سی ہوتی ہے جو آنکھوں کو اتنی بھلی نہیں لگتی لیکن کام کی چیز وہی ہوتی ہے۔ اسی کے لئے فصل کو بویا گیا ہوتا ہے۔ اصل مقصود وہی ہوتا ہے۔ ہری بھری چیز کی طرف سب لوگ آ جاتے ہیں کیونکہ وہ دیکھنے میں بڑی خوشنما ہوتی ہے لیکن پکی ہوئی فصل کی طرف کم لوگ آتے ہیں۔
مجذوب متمکن قسم کے لوگوں کی ایک خرابی یہ بھی ہے کہ یہ لوگ جب شیخ بن جاتے ہیں تو خود بھی خراب ہوتے ہیں اور دوسروں کو بھی خراب کرتے ہیں۔ یہ ابھی منتہی مرجوع نہیں ہوتے۔ شیخ منتہی مرجوع ہونا چاہئے۔ منتہی مرجوع وہ ہوتا ہے جس نے اپنے نفس کو فنا کیا ہوتا ہے۔ وہ اپنے نفس کے اثر سے نکل چکا ہوتا ہے۔ اپنے نفس پہ قابو پا چکا ہوتا ہے۔ اس کو نفسِ مطمئنہ کہتے ہیں۔ اس کے لئے اللہ پاک نے فرمایا ہے:
﴿یٰۤاَیَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَىِٕنَّةُ O ارْجِعِیْۤ اِلٰی رَبِّكِ رَاضِیَةً مَّرْضِیَّةًۚ O فَادْخُلِیْ فِیْ عِبٰدِیْۙ O وَ ادْخُلِیْ جَنَّتِیْ﴾ (الفجر: 26-29)
ترجمہ: ”(البتہ نیک لوگوں سے کہا جائے گا کہ) اے وہ جان جو (اللہ کی اطاعت میں) چین پا چکی ہے۔ اپنے پروردگار کی طرف اس طرح لوٹ کر آ جا کہ تو اس سے راضی ہو، اور وہ تجھ سے راضی۔ اور شامل ہو جا میرے (نیک) بندوں میں۔ اور داخل ہو جا میری جنت میں“۔
یہ خود اللہ تعالی سے راضی ہے اور اللہ بھی اس سے راضی ہے۔ پس اس کو بندگی حاصل ہو جاتی ہے اور آخر جنت اس کو ایسے مل جاتی ہے۔
حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: نفسِ اَمّارہ اور نفسِ مطمئنہ کو اکٹھا نہ سمجھو۔ جو نفس امارہ کے حال میں ہیں ان کی بات اور ہے۔ جو نفس مطمئنہ پہ پہنچ گئے ان کی بات اور ہے۔ لیکن اگر کوئی مجذوب متمکن ہو گیا تو پھر اس کا نفس والا مسئلہ حل نہیں ہوا۔ اس کا نفس اب بھی فعال ہے۔ اس وجہ سے اس کے تمام اچھے کام بھی نفس کے لئے استعمال ہو رہے ہیں۔ مثال کے طور پر آپ اس کے ہاتھ چوم رہے ہیں وہ نفس کے لئے استعمال ہو گا۔ آپ اس کو نذرانے دے رہے ہیں وہ بھی نفس کے لئے استعمال ہو رہا ہے۔ وہ کہیں کسی کے ساتھ دین کی بات کر رہا ہے تو نفس کے لئے استعمال ہو رہا ہے۔ کسی کو اچھی بات بتا رہا ہے تو نفس کے لئے استعمال ہو رہا ہے۔ اس کی باتیں بالکل صحیح ہیں لیکن وہ سب نفس کے لئے استعمال ہو رہی ہیں۔ جبکہ منتہی جس کو اللہ تعالی نے بنایا ہو گا، جس کا نفس مطمئنہ ہو گا، وہ اگر دھتکارے گا بھی تو اللہ کے لئے دھتکارے گا۔
حضرت مولانا اشرف علی تھانوی صاحب رحمة الله عليه کتنے لوگوں کو دھتکارتے تھے۔ کہتے تھے: ”نکل جاؤ خانقاہ سے“۔ لیکن دل سے کھینچتے تھے کیونکہ وہ یہ سب اللہ کے لئے کرتے تھے۔ بظاہر حکم دیتے کہ باہر نکل جاؤ اور دل میں کہتے کہ اندر آ جاؤ۔ حضرت خواجہ عزیز الحسن مجذوب رحمة اللہ علیه حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے بہت زیادہ مزاج شناس تھے۔ ایک دفعہ حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمة الله عليه کسی کے اوپر سخت غصہ ہوئے۔ انہیں کہا کہ نکل جاؤ۔ نماز کا وقت تھا۔ نماز کے لئے مسجد میں تو آنا تھا۔ وہ صاحب حضرت خواجہ عزیز الحسن مجذوب صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے بالکل پاس بیٹھے وضو کر رہے ہیں۔ حضرت مجذوب صاحب بھی وضو کر رہے ہیں۔ حضرت مجذوب صاحب انہیں کہتے ہیں: خبر بھی ہے کہ اس وقت تُو پوری محفل کا دولہا ہے۔ اس وقت حضرت کی جو توجہ آپ کی طرف ہے تمام لوگوں میں کسی اور کی طرف نہیں ہے۔ یہ ڈانٹ ویسے ہی نہیں پڑ رہی۔ اس وقت حضرت دل سے آپ کو کھینچ رہے ہیں۔ اصلاح کے لئے آپ کو ڈانٹ ضرور رہے ہیں لیکن دل سے کھینچ رہے ہیں۔ خبردار! کوئی بُری بات دل میں نہ لانا۔
خود خواجہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا یہ حال تھا کہ ایک دفعہ دوات صحیح جگہ پہ نہیں رکھی۔ مصروف ہوں گے یا کسی کام کے لئے اٹھ گئے ہوں گے۔ دوات وہیں پڑی رہی۔ کوئی آیا، اس کے پیر کے ساتھ ٹھوکر لگ گئی اور ساری سیاہی فرش پہ گر گئی۔ حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کو پتا چلا تو حضرت نے سخت سرزنش فرمائی۔ فرمایا کہ نکل جاؤ خانقاہ سے۔ تمہیں یہ بھی تمیز نہیں ہے کہ دوات کہاں رکھی جاتی ہے۔ یہ کوئی طریقہ ہے؟ مجذوب صاحب رحمة اللہ علیه حکم پر عمل کرتے ہوئے خانقاہ سے نکل گئے سیڑھیوں کے پاس بیٹھ گئے۔ صاحبِ ذوق شاعر تھے اور حضرت نے بھی دلی طور پر نہیں نکالا تھا۔ تھوڑی دیر بعد پوچھا وہ باؤلا کدھر گیا؟ تو لوگوں نے کہا حضرت وہ تو سیڑھیوں پر بیٹھا ہوا ہے اور مزے سے یہ شعر کہہ رہا ہے۔
اُدھر وہ در نہ کھولیں گے اِدھر میں در نہ چھوڑوں گا
حکومت اپنی اپنی ہے کہیں ان کی کہیں میری
فرمایا: ان کو بلاؤ۔ بلایا گیا۔ کہا: آئندہ اس قسم کی حرکتیں نہ کرنا۔ انہوں نے کہا: ٹھیک ہے حضرت۔ فرمایا: بیٹھ جاؤ۔
یہ حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کا اپنا ایک جلالی انداز تھا اور اس سے بہت سارے لوگوں کی اصلاح ہو جاتی تھی۔ یہ بگڑا ہوا نفس آسانی سے ٹھیک نہیں ہوتا۔ بہرحال! ایسے لوگوں کا دھتکارنا بھی اللہ کے لئے ہوتا ہے۔ اس سے لوگ بن رہے ہوتے ہیں۔ نفس والوں کا بلانا بھی نفس کے لئے ہوتا ہے اس سے لوگ بگڑ رہے ہوتے ہیں۔
حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے اس پہ فرمایا کہ ان کو ایک جیسا نہ سمجھو۔ ناقص پیر کے پاس کوئی جائے گا تو اپنی صلاحیتوں کو ضائع کر دے گا۔ کیونکہ صلاحیتیں غلط چیز کے لئے استعمال ہو جائیں گی۔ نفس کے لئے استعمال ہو جائیں گی۔ صلاحیتیں اس لئے تو نہیں دی گئی تھیں۔ اس وجہ سے فرمایا کہ ایسے لوگوں سے اپنی استعداد کو ضائع نہ کرواؤ۔
پھر یہ بھی بہت عجیب بات فرمائی کہ اگر کوئی غلط پیر کے پاس گیا اور اس کے بعد صحیح پیر کے پاس جائے گا۔ تو اسے دگنا کام کرنا پڑے گا۔ پہلے اس کی ناقص تعمیر کو گرائے گا پھر اس پہ صحیح تعمیر کرے گا۔ غلط پیر کی وجہ اس کی جو چیزیں خراب ہو گئی ہیں پہلے ان کو ٹھیک کرے گا۔ اس کے بعد اصلاح کرے گا۔ اس طرح کام مشکل ہو جائے گا۔ لہٰذا ابتدا ہی سے جو شخص صحیح پیر کی طرف چلا جائے تو اسے بہت فائدہ ہوتا ہے۔
یہ بات صحیح ہے کہ اگر کوئی آدمی خدا نخواستہ غلط پیر کے پاس چلا جائے تو اس کی اصلاح میں بڑے مسئلے ہوتے ہیں۔ میرے ہاں یہ مسائل اتنے زیادہ پیش آتے ہیں کہ کبھی کبھی تو میں حیران و پریشان ہو جاتا ہوں۔ مثلاً مجھے اچھی طرح علم ہے کہ فلاں آدمی صحیح پیر نہیں ہے (جیسے حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کو اپنے وقت کے لوگوں کے بارے میں پتا تھا اس طرح ہمیں اپنے وقت کے لوگوں کے بارے میں پتا ہوتا ہے) لیکن اس کا مرید ہماری مجلس میں بیٹھا ہوا ہے اور میں یہ بات کرتا ہوں کہ اپنے شیخ کی طرف متوجہ ہو جاؤ۔ بزرگوں نے لکھا ہے کہ آپ اپنے شیخ کے مقام کو جتنا بڑا سمجھیں گے اتنا ہی آپ کو زیادہ فائدہ ہو گا۔ اب یہ بات کر کے میں اس کو نقصان پہنچا رہا ہوں گا۔ جو صحیح لوگوں کے ساتھ وابستہ ہیں انہیں تو فائدہ ہو گا لیکن اس مجلس میں ہی اگر کوئی ایسا شخص بیٹھا ہو گا جو غلط پیر سے بیعت ہے تو اسے نقصان ہو رہا ہو گا کیونکہ وہ جتنا اپنے اس شیخ کی طرف متوجہ ہو گا اسے اتنا زیادہ نقصان ہو گا۔ کبھی کبھی میرے ساتھ ایسا ہوتا ہے کہ تین چار آدمی اس قسم کے بیٹھے ہوتے ہیں اور میرے لئے بات کرنا اتنا مشکل ہو جاتا ہے کہ میں پریشانی میں پڑ جاتا ہوں کہ کیسے بات کروں کہ اسے نقصان کی بجائے فائدہ ہو۔
ایک مرتبہ ایک صاحب میرے پاس آئے اور کہنے لگے کہ شاہ صاحب میرا اپنے پیر صاحب کے ساتھ کوئی رابطہ نہیں ہے۔ اگر میں آپ کے ساتھ تعلق جوڑ لوں تو کیسا رہے گا؟ مجھے اس کے پیر صاحب کے بارے میں علم تھا کہ ان میں کچھ مسائل ہیں۔ لیکن میں اسے یہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ آپ کا پیر ٹھیک نہیں ہے۔ اگر میں ایسا کہتا تو اسی وقت سارا کچھ خراب ہو جاتا۔ میں نے اسے کہا: اچھا ٹھیک ہے، دیکھیں گے۔ اس نے پھر اپنی بات دہرائی۔ میں نے کہا بھئی بیعت کی ضرورت نہیں ہے لیکن آپ اصلاح کے لئے رابطہ کر سکتے ہیں۔ کیونکہ نقشبندیت میں شیخِ تعلیم کا طریقہ موجود ہے۔ یعنی ایسا ہو سکتا ہے کہ بیعت کئے بغیر صرف اصلاح کی جائے۔ میں نے ان سے کہا کہ میں آپ کا شیخِ تعلیم بن جاتا ہوں۔ ہمارے ہاں طریقہ یہ ہے کہ معمولات کا چارٹ بھرنا ہوتا ہے۔ آپ اپنے معمولات کا چارٹ بھرنا شروع کریں۔ ایک ماہ بعد جب اس نے معمولات کا چارٹ مجھے دیا تو میں نے دیکھا کہ اس میں فجر کی نماز بالکل نہیں ہے اور مراقبات کی بڑی تفصیل موجود ہے۔ میں نے کہا خدا کے بندے آپ کے ان مراقبات کا آپ کو کیا فائدہ ہو رہا ہے؟ ایک فرض آپ سے مسلسل چھوٹ رہا ہے۔ ایک دو دن کی بات نہیں بلکہ مسلسل چھوٹ رہا ہے اور آپ کو اس کی فکر ہی نہیں ہے۔ آپ کے مراقبوں کا آپ کو کوئی فائدہ نہیں ہو رہا۔ کہنے لگے کہ میرے ساتھ یہ مسئلہ ہے کہ میں فجر کی نماز نہیں پڑھ سکتا۔ میں نے کہا: آپ کے لئے سب سے پہلا کام فجر کی نماز پڑھنا ہے۔ باقی سب وظیفے بعد میں ہیں۔ آپ سب سے پہلے فرض نماز شروع کریں۔ اسے ٹھیک کریں۔ اس کے لئے آپ کو جو بھی طریقہ اختیار کرنا ہو اختیار کریں۔ آپ کی ابتدا اسی سے ہو گی۔ خیر! اللہ پاک نے توفیق دی اور اس کی فجر کی نماز شروع ہو گئی۔ پھر اللہ پاک نے اس پہ یہ بات کھول دی۔ ایک دن مجھے کہنے لگے کہ اب مجھے سمجھ آگیا ہے کہ تصوف کیا چیز ہے۔ میں نے کہا کہ تصوف یہی چیز ہے۔ تصوف اعمال پہ آنے کا نام ہے۔ یہ کوئی علیحدہ چیز نہیں ہے شریعت ہی کے اعمال ہیں۔ کوئی مختلف چیز نہیں ہے۔ تصوف کے دو ہی مقاصد ہیں۔ شریعت کے اعمال پر پختگی اور صحیح عقائد۔ اگر یہ نہ ہوں پھر تو تصوف کا بنیادی مقصد ہی حل نہیں ہوتا۔
دفتر اول مکتوب نمبر 61 میں ارشاد فرماتے ہیں:
متن:
کیونکہ فائدہ پہنچانا اور فائدہ حاصل کرنا دونوں طرف کی مناسبت پر موقوف ہے اور ابتدا میں طالبِ طریقت کو اپنی نہایت پستی و کمینگی کے باعث حق تعالیٰ عزَّ سلطانُہٗ کی پاک بارگاہ کے ساتھ کوئی مناسبت نہیں ہوتی اس لئے دونوں طرف (یعنی خالق و مخلوق کے درمیان) تعلق والا ایک واسطہ (برزخ) ہونا ضروری ہے، اور وہ شیخِ کامل و مکمل ہے، اور طلب میں فتور و سستی واقع ہونے کا سب سے بڑا قوی سبب شیخِ ناقص کی طرف رجوع کرنا ہے، جس نے ابھی اپنا جذبہ و سلوک کا کام پورا نہیں کیا۔
تشریح:
اس سے مراد وہی مجذوب متمکن ہے جس نے ابھی اپنا جذب و سلوک کا کام پورا نہیں کیا۔
متن:
اور شیخی و پیری کی مسند پر بیٹھ گیا اس کی صحبت طالب کے لئے زہرِ قاتل ہے اور اس کی طرف رجوع کرنا مہلک مرض ہے، اس قسم کے شیخ کی صحبت طالب کی بلند استعداد کی پستی میں لے آتی ہے اور بلندی سے پستی کے غار میں گرا دیتی ہے مثلاً جو مریض ناقص طبیب سے علاج کرائے وہ اپنی بیماری کے زیادہ کرنے میں کوشش کرتا ہے اور اپنے مرض کے زائل کرنے کی قابلیت کو ضائع کر دیتا ہے، اگرچہ ابتدا میں وہ دوائی مرض میں کچھ تخفیف کر دے لیکن حقیقت میں وہ عین مضر ہے۔ یہ مریض اگر بالفرض کسی حاذق (تجربہ کار) طبیب کے پاس جائے تو وہ طبیب پہلے تو اس دوا کی تاثیر کو زائل کرنے کی فکر کرے گا اور مسہلات کے ساتھ اس کا علاج کرے گا۔ اس تاثیر کے زائل ہو جانے کے بعد (اصلی) مرض کے دور کرنے کی طرف توجہ کرے گا۔
ان بزرگواروں قدس اللہ تعالیٰ اسرارہم کے طریق کا دارومدار (پیر کی) صحبت پر ہے اور (صرف) کہنے سننے سے کوئی کام نہیں بنتا بلکہ طلب میں سُستی پیدا ہو جاتی ہے۔
تشریح:
ساری بات وقت اور زمانے کی ہے۔ ایک وقت میں ایک طریقے سے کام ہوتے ہیں۔ دوسرے وقت میں وہ طریقے کام نہیں آتے بلکہ کوئی اور طریقے موثر ہوتے ہیں۔ الله جل شانهٗ نے پورا ایک نظام بنایا ہے۔ جو اس نظام کے تحت چلتا ہے وہی منزل تک پہنچتا ہے۔ میں صاف بات عرض کرتا ہوں۔ جس طرح اللہ تعالی کسی شخص کا رشتہ دار نہیں ہے اسی طرح کسی سلسلے کا بھی رشتے دار نہیں ہے۔ لہٰذا الله جل شانهٗ اگر کسی خاص سلسلے سے کام لینا چاہتا ہے تو اس کے لئے وہ احوال پیدا ہو جاتے ہیں۔ حضرت مجدد الف ثانی صاحب رحمة اللہ علیه کے دور میں نقشبندی سلسلہ میں فائدہ کے حصول کے لئے صحبتِ شیخ لازمی تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ جو مسائل پیدا ہو گئے تھے ان کا علاج اسی میں تھا۔ لہٰذا انہوں نے دوری کو کم کرنے کی کوشش کی اور صحبت کو ضروری قرار دیا۔ صحبت ہو تو مرید کی اصلاح زیادہ بہتر طریقہ سے ہو سکتی ہے۔ لہٰذا انہوں نے صحبت کو لازم پکڑا ہوا تھا۔ اس لئے نقشبندی سلسلہ میں انعکاسی نسبت سے بات شروع ہوتی ہے۔ یہ انعکاسی نسبت صحبت کے ذریعہ ہوتی ہے۔ جس سے ابتداءً مرید کو فائدہ ہونا شروع ہوتا ہے۔ ابتدا میں شیخ کی صحبت کی وجہ سے کام ہوتا رہتا ہے۔ بعد میں آہستہ آہستہ مرید خود بھی کام شروع کر لیتا ہے۔
ہمارے زمانے میں گاڑیوں کا ایک ہینڈل ہوتا تھا۔ پہلے اس ہینڈل کو چلاتے تھے۔ جب وہ چل پڑتا تو پھر اس میں ڈرائیور بیٹھ کے گاڑی چلاتا تھا۔ جیسے موٹر سائیکل کو kick (کِک) لگاتے ہیں، اسی قسم کی چیز تھی۔ جب تک وہ نہیں چلتا تھا گاڑی بھی نہیں چلتی تھی۔ اس کا کوئی سیلف سٹارٹ والا طریقہ نہیں ہوتا تھا۔ یہی معاملہ پرانے زمانے کے تصوف میں بھی ہوتا تھا۔ یوں سمجھ لیں کہ سالک کو بھی سٹارٹ کروانا ہوتا تھا۔ پہلے صحبت کے ذریعہ سٹارٹ کرواتے تھے۔ اس کے بعد وہ خود چلنا شروع کر لیتا تھا۔
میں نے ایک مرتبہ ایک خواب دیکھا کہ حضرت مولانا اشرف صاحب رحمة اللہ علیه تشریف فرما ہیں۔ ان کے ہاتھ میں آئینہ ہے۔ خواب میں مجھے اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں کہ میری طرف دیکھو۔ میں نے دیکھا تو آئینے میں مدینہ منورہ کا راستہ نظر آیا۔ ایسے محسوس ہوا کہ گویا وہ راستہ چل رہا تھا۔ جیسے کوئی آگے جا رہا ہو تو راستہ پیچھے کی طرف دوڑتا اپنی طرف آتا محسوس ہوتا ہے۔ اگرچہ میں سمجھ رہا تھا کہ وہ آئینہ ہے لیکن بہرحال اس میں راستہ قریب آ رہا تھا۔ پھر وہ راستہ گاڑی بن گیا اور یہ آئینہ Wind screen بن گیا۔ جیسے Wind screen میں انسان کو فاصلہ طے ہوتا محسوس ہوتا ہے۔ ایسے ہی اس میں فاصلہ طے ہوتا محسوس ہو رہا تھا۔ بہت تیزی کے ساتھ جا رہا تھا۔ اچانک میں دیکھتا ہوں کہ مدینہ منورہ پہنچ گیا ہوں اور سامنے روضۂ اقدس نظر آ گیا ہے۔ وہاں ایک بہت بڑا سبز بورڈ لگا ہوا ہے۔ پھر گاڑی غائب ہو گئی اور میں پیدل چلنے لگتا ہوں۔ پھر میں راستہ میں کسی کو کہتا ہوں کہ کمال ہے لوگ یہاں سے خانہ کعبہ دور سمجھتے ہیں، حالانکہ خانہ کعبہ بھی ادھر ہی ہے۔ لوگ ویسے ہی اس کو دور سمجھ رہے ہیں۔
میں نے یہ خواب اپنے شیخ مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو سنایا۔ حضرت نے فرمایا: آئینہ تو میں ہوں۔ خواب میں شیخ آئینہ ہوتا ہے۔ اور جو مدینہ منورہ کا راستہ نظر آیا اس سے مراد ہمارا سلسلہ ہے۔ ہمارا طریقۂ کار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہی جاتا ہے۔ سارے کاموں کا نتیجہ وہی ہوتا ہے۔ پھر فرمایا کہ پہلے آپ چلائے جا رہے ہیں۔ پھر بعد میں جب آپ خود چلنا شروع کر لیں گے تو میں درمیان سے نکل جاؤں گا۔
خواب کے دوسرے حصہ کے بارے میں فرمایا کہ دو قسم کے لوگ ہوتے ہیں۔ ایک وہ جن کو اللہ کے ساتھ محبت کی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تعلق ہوتا ہے۔ اور کچھ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ محبت کی وجہ سے اللہ پاک کے ساتھ تعلق ہوتا ہے۔ آپ کا راستہ دوسرا ہے۔ ویسے دونوں راستے ہی ٹھیک ہیں۔ نتیجہ ایک ہی ہے۔ اس تعبیر سے میں سمجھ گیا۔
ابتدا میں مرید کو صحبت کی ضرورت ہوتی ہے۔ بعد میں وہ خود چلنا شروع کر لیتا ہے۔ حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی یہی بات فرمائی کہ ہمارا طریقہ تو یہی ہے کہ ابتدا میں صحبت ہوتی ہے۔ لیکن اب دوسرا دور آ گیا ہے۔ اس وقت صورت حال پہلے جیسی نہیں رہی۔
تین نسبتیں ہوتی ہیں: انعکاسی، القائی اور اصلاحی۔ انعکاسی نسبت بہت مؤثر ہے لیکن یہ وقتی طور پر مؤثر ہوتی ہے۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے ہیٹر کے سامنے کھڑے ہوں تو گرم ہو جاتے ہیں، ہیٹر سے دور ہوئے تو ٹھنڈے ہو جاتے ہیں۔ آئینہ کے سامنے کھڑے ہوں، تو آئینہ میں تصویر نظر آتی ہے، آئینہ کے سامنے سے ہٹ گئے تو کچھ بھی نظر نہیں آتا۔ اسی طرح انعکاسی نسبت میں آدمی اپنے شیخ پر انحصار کرتا ہے۔ اس کے بعد القائی نسبت ہے۔ القائی نسبت یہ ہوتی ہے کہ آپ کو کوئی ایسا طریقۂ کار بتا دیا جائے کہ آپ خود سے کام شروع کر لیں۔ کام شروع کرنے کے بعد آپ کو فائدہ ہونے لگ جائے تو یہ القائی نسبت ہے۔ تیسری نسبت اصلاحی نسبت ہے۔ اصلاح نسبت سے مراد یہ ہے کہ سلوک طے ہو جائے پھر اصلاح ہو جائے۔ یہ نسبت اصل ہے۔
پہلے وقتوں میں صحبت کو حاصل کرنا آسان تھا۔ لوگ اس کے لئے اپنے آپ کو فارغ کر سکتے تھے۔ آج کل مصروفیات اتنی زیادہ ہیں کہ بعض دفعہ بالکل صحبت کا موقع ہی نہیں ملتا۔ حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمة الله عليه سے تقریباً پورے ہندوستان کے لوگ بیعت تھے۔ اب سب لوگ تو حضرت کے پاس نہیں جا سکتے تھے۔ ان کا رابطہ خط کے ذریعہ سے ہوتا تھا۔ یقین جانئے کہ جو حضرات خط لکھتے تھے وہ خود فرماتے تھے کہ ہمیں پتا چل جاتا تھا کہ ہمارا خط پہنچ گیا ہے۔ کیونکہ جیسے ہی حضرت کو خط پہنچ جاتا ہماری حالت تبدیل ہو جاتی۔ یہ حضرت کا اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق تھا جس تعلق کی بنیاد پر ان مریدین کی حالت تبدیل ہو جاتی۔ یوں سمجھ لیجئے کہ اِس دور کے لئے اللہ پاک نے ایک خصوصی کرم فرمایا ہے۔ یہ عمومی طریقہ نہیں ہے۔ عمومی طریقہ وہی صحبت والا ہے۔ زیادہ فائدہ تو اُسی میں تھا۔ لیکن آج کل حالات ایسے ہیں کہ سب سے پہلی ترجیح تو ایمان بچانا ہے۔ ایک شخص کو کسی شیخ کے ساتھ تعلق ہے اس تعلق کی برکت سے ایمان ہی بچ جائے تو بہت بڑی بات ہے۔
ایک مرتبہ میں نے باقاعدہ ارادہ کر لیا کہ اب کسی کو بیعت نہیں کروں گا۔ بھلا اتنے سارے لوگوں کی اصلاح کون کر سکتا ہے۔ بس جتنے ہیں وہی قابو آ جائیں تو بڑی بات ہے۔ میں نے اپنے طور پہ ارادہ کر لیا۔ اس کے کچھ دن بعد ایک صاحب کو ہمارے شیخ حضرت مولانا اشرف صاحب رحمة اللہ علیه کی زیارت ہوئی۔ ان کے توسط سے حضرت نے مجھے پیغام بھیجا کہ بیعت کرنا نہ چھوڑو۔ کم از کم لوگوں کا ایمان تو بچ جائے گا۔ اس سے پتا چل گیا کہ واقعی سلسلوں میں آنے سے ایمان بچ جاتا ہے۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں، بہت بڑی بات ہے کہ کم از کم ایمان تو بچ جائے گا۔ اس کے بعد جو جتنا زیادہ تعلق رکھے گا اسے اتنا زیادہ فائدہ ہو گا۔
ہم نے جرمنی میں دو سال کے قیام کے دوران اس بات کا بخوبی مشاہدہ کیا ہے کہ جب تک ہم جرمنی میں تھے ہمیں اپنے شیخ حضرت مولانا اشرف سلیمانی رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ تعلق زیادہ محسوس ہوا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ شاید وہ دُور تھے اس لئے ان کی قدر زیادہ محسوس ہوتی تھی یا کوئی اور وجہ تھی، ہمیں واضح طور پر معلوم نہیں لیکن ہم ایسا محسوس کرتے تھے جیسے ہم حضرت کے ساتھ ہیں۔ ہم لوگ حضرت کا فیض باقاعدہ محسوس کرتے تھے۔ یہ اللہ کی طرف سے ہوتا ہے کہ بعض احوال کے مطابق کچھ خاص انتظامات کر لئے جاتے ہیں۔ اگر آج کل اس قسم کی بات ہو تو اس پہ ہم اعتراض نہیں کریں گے۔ البتہ سب سے اعلیٰ طریقہ وہی ہے کہ فیضِ صحبت سے اس کا اجرا ہو، اس کے بعد آہستہ آہستہ بڑھتا رہے۔
حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ دفتر اول کے مکتوب نمبر 39 میں ارشاد فرماتے ہیں:
متن:
کام کا دار و مدار دل پر ہے، اگر دل حق سبحانہ وتعالیٰ کے غیر کے ساتھ پھنسا ہوا ہے تو خراب اور ابتر ہے محض ظاہری اعمال اور رسمی عبادتوں سے کوئی کام نہیں بنتا، اللہ تعالیٰ کے غیر کی طرف التفات کرنے سے دل کو بچانا اور اعمالِ صالحہ جو بدن سے تعلق رکھتے ہیں اور شریعت نے ان کے بجا لانے کا حکم دیا ہے یہ دونوں امور ضروری ہیں، بدنی اعمالِ صالحہ کے بجا لانے کے بغیر دل کی سلامتی کا دعوٰی کرنا باطل ہے۔
تشریح:
یعنی اگر کوئی شخص شریعت کے اعمال نہیں بجا لاتا اور کہتا ہے کہ میرا دل پاک ہے تو اس کا یہ دعویٰ باطل ہے۔ جیسے آج کل بعض بے پردہ عورتوں کو پردہ کرنے کی ترغیب دی جائے تو کہتی ہیں کہ اصل پردہ تو دل کا ہوتا ہے۔ بھلا یہ کیا بات ہوئی؟ پردہ دل کا کیسے ہوتا ہے؟ دل تو ویسے ہی پردہ میں ہے۔ اس کو کوئی نہیں دیکھ سکتا۔ اصل پردہ تو چہرے اور جسم کا ہے۔ لیکن شاعروں نے ان کو یہ طریقے سکھائے ہوئے ہوتے ہیں۔ شاعر لوگ اس قسم کی باتیں کرتے ہیں۔
اصل بات یہ ہے کہ شریعت پر عمل کئے بغیر دل کی حفاظت ناممکن ہے۔ شریعت پر چلتے ہوئے دل کو پاک کرنا اس کے اندر جان ڈالنے کے مترادف ہے۔ جب تک آپ کا دل اللہ کے ساتھ نہیں لگا ہوتا تب تک آپ کے اعمال میں جان نہیں ہوتی۔ وہ بے جان ہوتے ہیں۔
متن:
جس طرح اس دنیا میں بغیر بدن کے روح کا ہونا متصور نہیں ہے اسی طرح بدنی نیک اعمال کے بغیر دل کا احوال کا حاصل ہونا محال ہے، بہت سے ملحد (بے دین و گمراہ لوگ) اس زمانے میں اس قسم کے دعوے کرتے ہیں۔ نَجَّانَا اللہُ سُبْحَانَہٗ عَنْ مُعْتَقَدَاتِھِمُ السُّوءِ بِصَدَقَةِ حَبِیْبِہٖ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ وَالتَّحِیَّةُ (اللہ تعالیٰ اپنے حبیب علیہ الصلواۃ والسلام والتحیتہ کے صدقہ ہم کو ان کے ان برے اعتقادات سے نجات بخشے)۔
سیر و سلوک سے مقصود دلی امراض کا دور کرنا ہے:
حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ دفتر اول کے مکتوب نمبر 40 میں فرماتے ہیں:
متن:
پس سیر و سلوک و تزکیہ نفس و تصفیہ قلب سے مقصود ان باطنی آفتوں اور قلبی امراض کو دور کرنا ہے جن کی طرف آیت کریمہ ﴿فِی قُلُوْبِھِمْ مَرَضٌ﴾ (بقرہ: 10) (ان کے دلوں میں مرض ہے) میں خبر دی گئی ہے تا کہ ایمان کی حقیقت حاصل ہو جائے اور ان امراض و آفات کے موجود ہوتے ہوئے اگر ایمان حاصل ہے تو وہ صرف ظاہر کے اعتبار سے ہے۔
تشریح:
یہاں پر ایک باریک نکتہ ہے کہ دل محبت و نفرت، ایمان و کفر اور اخلاقِ حسنہ و اخلاق قبیحہ کی جگہ ہے۔ جبکہ نفس احساسات و خواہشات اور فجور و تقویٰ کے پیدا ہونے کی جگہ ہے۔ نفس ہی اخلاص میں رکاوٹ ہے۔ اگر آپ یہ رکاوٹ دور کر لیں تو اخلاص پیدا ہو جائے گا۔ مثلاً میرا یہ چاہنا کہ لوگ مجھے اچھا کہیں۔ یہ خواہش نفس سے پیدا ہو رہی ہے۔ اگر میں اپنے نفس میں اس خواہش کو نہ آنے دوں اور اس سے بچ جاؤں۔ اگر میں فجور سے اپنے آپ کو بچاؤں اور تقویٰ کی طرف آ جاؤں۔ اور اس عمل کو مسلسل جاری رکھوں تو میرا نفس نفسِ مطمئنہ ہوتا چلا جائے گا۔ تقویٰ دل میں محفوظ ہوتا ہے۔ دل تقویٰ کی جگہ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اَلتَّقْویٰ ھٰھُنَا اَلتَّقْویٰ ھٰھُنَا“۔ (صحیح مسلم: 6541) اور دل کی طرف اشارہ کیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ تقوی نفس میں پیدا ہوتا ہے اور دل میں محفوظ ہوتا ہے۔ اسی طرح فجور نفس میں پیدا ہوتا ہے اور اس کا اثر دل پر ہوتا ہے۔
حدیث شریف میں آتا ہے کہ جب کوئی گناہ کرتا ہے تو اس کا اثر ایک دھبے کی صورت میں اس کے دل پر آ جاتا ہے۔ اس کے دل پر سیاہ دھبہ لگ جاتا ہے۔ اگر وہ توبہ کر لے تو وہ دھبہ دور ہو جاتا ہے اور اگر توبہ نہیں کرتا تو وہ دھبہ رہ جاتا ہے۔ اس کے بعد اگر کوئی اور گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پر ایک اور دھبہ لگ جاتا ہے۔ اگر وہ گناہ کرتا جائے اور اس کے دل پر سیاہ دھبے بڑھتے جائیں تو عین ممکن ہے کہ کسی وقت اس کا سارا دل سیاہ ہو جائے۔ ایسی صورت میں اس پہ حق بات اثر ہی نہیں کرے گی۔ ایسے ہی لوگوں کے بارے میں فرمایا گیا ہے:
﴿لَهُمْ قُلُوْبٌ لَّا یَفْقَهُوْنَ بِهَا﴾ (الاعراف: 179)
ترجمہ: ”ان کے پاس دل ہیں جن سے وہ سمجھتے نہیں“۔
﴿وَقَالُوْا قُلُوْبُنَا غُلْفٌ﴾ (البقرۃ: 88)
ترجمہ: ” اور یہ لوگ کہتے ہیں کہ : ہمارے دل غلاف میں ہیں“۔
ایسے لوگ جو گناہ در گناہ کرتے چلے جاتے ہیں اور توبہ نہیں کرتے ان کا دل اتنا سیاہ ہو چکا ہوتا ہے کہ اس میں حق بات کی گنجائش ہی نہیں رہتی۔ اگر کسی کے ساتھ ایسی صورت حالت ہے تو اسے ایک زبردست جھٹکے کی ضرورت ہے۔ جیسے دل کا مریض جسے دل کا دورہ پڑے، اس کا دل بند ہو جائے تو اسے ایک جھٹکا لگاتے ہیں۔ کبھی ہاتھ سے جھٹکا لگاتے ہیں اور کبھی بجلی کا جھٹکا بھی دیتے ہیں۔
ایک ڈاکٹر نے مجھے بتایا کہ میرے پاس ایک مریضہ انتظار میں بیٹھی ہوئی تھی۔ اچانک اسے دل کا دورہ پڑا اور وہ نیچے گر گئی۔ میرے پاس اس وقت آپریشن کرنے کے ذرائع اور آلات موجود نہیں تھے۔ میں نے پیر کا انگوٹھا اس کے دل پر رکھ کر زور سے جھٹکا دیا۔ اس کا دل چل پڑا لیکن اس کی 2 پسلیاں ٹوٹ گئیں۔ اس کے بیٹوں نے مجھ پر دعویٰ کر دیا کہ اس ڈاکٹر نے ہماری والدہ کی 2 پسلیاں توڑ دی ہیں۔ میں نے کہا کہ عدالت میں چلے جاؤ۔ مجھے کوئی پروا نہیں ہے۔ میں یہی کہوں گا کہ آپ کو ثابت پسلیوں کے ساتھ والدہ کی لاش چاہئے تھی یا ٹوٹی ہوئی پسلیوں کے ساتھ زندہ ماں چاہئے تھی۔ میرے پاس اس وقت آلات وغیرہ نہیں تھے، میں یہی کر سکتا تھا اس لئے میں نے یہی کیا۔
خیر! یہ جھٹکا لگانا ہی ہوتا ہے۔ حضرت عمر رضي الله تعالیٰ عنه کو یہ جھٹکا قرآن پاک سے لگا۔ اس کے بعد عمر، وہ عمر نہیں رہا۔ وہ تبدیل ہو گیا۔ اگرچہ قرآن سن کر وہ فوری طور پر مسلمان نہیں ہوئے لیکن تبدیل ہو چکے تھے۔ انہوں نے کہا کہ مجھے ان کے پاس لے جاؤ۔ انہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے جایا گیا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم گھبرا گئے۔ ان کو پتا تھا کہ عمر تو ایسے ہیں۔ امیر حمزہ رضي الله تعالیٰ عنه نے کہا کہ آنے دو اگر صحیح ارادہ سے آیا ہے تو ٹھیک، ورنہ انہی کی تلوار سے ان کا سر قلم کر دوں گا۔ جس وقت حضرت عمر رضی اللہ عنہ اندر آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے کپڑے کو جھٹکا دیا اور پوچھا: ”کس ارادہ سے آئے ہو؟“ کہا: ”ایمان لانے کے لئے“۔
اس جھٹکے کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ کسی اللہ والے کے قلب کا اثر ہوتا ہے۔ بعض اوقات خاص ماحول کا اثر ہوتا ہے جس دل پہ پڑے ہوئے پردے پھٹ جاتے ہیں اور وہ پیغام اندر گھس جاتا ہے۔ پھر ایسے شخص پہ دوبارہ حق بات کا اثر ہونا شروع ہو جاتا ہے۔
دل کی غیر اللہ سے رہائی کے لئے اتباع سنت سب سے بہتر ہے:
حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ دفتر اول کے مکتوب نمبر 42 میں ارشاد فرماتے ہیں:
متن:
انسان جب تک پراگندہ تعلقات کی مَیل کچیل سے آلودہ ہے (محبوبِ حقیقی سے) محروم اور مہجور (جدا) ہے۔ حقیقتِ جامع (دل) کے آئینہ کو غیر اللہ کی محبت کے زنگ سے صاف کرنا ضروری ہے، اور اس زنگ کو دُور کرنے کے لئے سب سے بہتر مصقلہ (زنگ دُور کرنے والی چیز) حضرت محمد مصطفٰے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روشن و بلند سنت کی پیروی کرنا ہے۔ اتباعِ سنت کا دارومدار نفسانی عادتوں کے ہٹانے اور ظلمانی رسموں کے دور کرنے پر ہے۔
تشریح:
حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے یہاں ایک بہت بڑی بات فرمائی ہے کہ اصل میں اصلاح کی ابتدا ذکر سے ہوتی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث شریف ہے کہ ہر چیز کے لئے ایک صِقالہ ہے اور دلوں کے لئے صقالہ ذکرُ اللہ ہے۔ اصلاح کی ابتدا ذکر سے ہوتی ہے جبکہ بعد میں اصل اصلاح سلوک طے کرنے سے ہوتی ہے۔ اب سلوک کون سے طریقہ سے طے کیا جائے۔ نقشبندی تحقیق یہ ہے کہ سنت اعمال میں جو مجاہدہ ہے اس مجاہدہ کو برداشت کیا جائے۔ جیسا کہ میں نے ان صاحب سے کہا تھا کہ کچھ بھی ہو آپ نے فجر کی نماز ضرور پڑھنی ہے۔
آج کل میں اکثر عرض کیا کرتا ہوں کہ خدا کے بندو! اس وقت اللہ پاک نے آپ کو ترقی کرنے کا بہت اچھا موقع دیا ہے۔ فجر کی نماز کو تکبیر اولیٰ کے ساتھ پڑھا کرو۔ اس سے آپ کے اتنے مجاہدات ہو جائیں گے کہ آپ بہت آگے چلے جائیں گے کیونکہ اس وقت راتیں چھوٹی ہیں فجر کی نماز آسانی سے پڑھی جا سکتی ہے۔ واقعتاً فجر کی نماز پڑھنا کوئی آسان بات نہیں ہے بہت بڑا مجاہدہ ہے لیکن جو اس مجاہدہ کے لئے تیار ہو گیا، اس نے اَڑی نہیں کی اور اپنے نفس کو قابو رکھا۔ تو ان شاء اللہ سارا قناعت و ریاضت کا رستہ اسی میں طے کر لے گا۔
اصل مقصد نفس کو قابو کرنا ہے۔ سوال یہ ہے کہ نفس کو قابو کرنے کا اصل گُر کیا ہے؟
اس کا جواب یہ ہے کہ اگر نفس کی ایک مانو گے تو یہ مزید منوائے گا اور اگر اس کو منواؤ گے تو یہ مانتا چلا جائے گا۔ یہ نفس کا اصول ہے کہ اگر اس کو منواؤ گے تو مانتا جائے گا اور اگر اس کی مانو گے تو مزید منواتا جائے گا۔
سنت ہمارے لئے پوری زندگی میں ہے۔ ہر ہر رخ میں سنت موجود ہے۔ آپ صبح اٹھتے ہیں تو اٹھنے کے ساتھ ہی سنتیں شروع ہو جاتی ہیں اور لیٹنے تک سنتیں چل رہی ہوتی ہیں۔ اگر آپ ہر کام سنت کے مطابق کریں تو یہ نفس کے لئے بہت بڑا مجاہدہ ہے۔ اگر آپ یہ مجاہدہ کرتے رہیں تو اسی کے ذریعہ آپ کی اصلاح ہو جائے گی۔
آج کل میں دیکھتا ہوں کہ ایک خاندان میں داڑھی رکھنے کی عادت ہی نہیں ہے۔ اس میں جب کوئی داڑھی رکھے گا تو اسے کتنا مجاہدہ کرنا پڑے گا۔ وہ جتنا مجاہدہ برداشت کرے گا اس کی اتنی ہی زیادہ اصلاح ہو گی۔ اسی طرح اگر کسی خاندان میں عورتوں کے پردہ کا رواج نہیں ہے۔ ایسے خاندان میں جو عورت پردہ کرے گی اسے بہت باتیں سننا پڑیں گی۔ جب بھی وہ کچھ عورتوں کے ساتھ بیٹھے گی تو اسے ان کی باتیں جھیلنی پڑیں گی۔ کسی گھر میں ٹی وی ہے اور اس سے بچنا ہے تو یہ بہت بڑا مجاہدہ ہو گا کہ پاس ہی کوئی آدمی ٹی وی دیکھ رہا ہے لیکن آپ نہیں دیکھ رہے۔ ان سب مجاہدوں سے مجاہدہ کرنے والے کو بہت فائدہ ہوتا ہے۔
مجھے بعض لوگ کہتے ہیں کہ حضرت ہم سے ذکر نہیں ہوتا کیونکہ ہمیں ذکر میں یکسوئی حاصل نہیں ہوتی اور ذکر کرنے کو دل نہیں چاہتا۔ مسلسل خیالات آتے رہتے ہیں۔ میں ان سے کہتا ہوں کہ اگر آپ کا دل چاہے اور آپ ذکر کریں تو اس میں صرف دل کا فائدہ ہے اور اگر آپ کا دل نہ چاہے پھر بھی ذکر کریں تو اس میں دل کا فائدہ بھی ہے اور نفس کی اصلاح بھی ہے۔ اس میں دونوں فائدے ہیں لہٰذا آپ دونوں فائدوں کو حاصل کریں۔ بلکہ جس وقت جی نہ چاہے تب تو والہانہ انداز میں ذکر کریں۔ یہ سوچ کر خوب توجہ اور شوق سے ذکر کریں کہ اس وقت ذکر کرنے میں دونوں چیزوں کا فائدہ ہے۔ نفس کی بھی اصلاح ہے اور دل کی اصلاح بھی ہے۔
حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے یہی بات فرمائی ہے کہ نفس کی اصلاح نفسانی عادتوں کے ہٹانے اور ظلمانی رسموں کے دور کرنے پر موقوف ہے۔ مثلاً شادی کی فضول رسموں سے بچتے ہوئے سنت کے مطابق شادی کرنا۔ فوتگی کے موقع پر سنت کے مطابق عمل کرنا۔ گھر میں رہن سہن سنت کے مطابق اختیار کرنا۔ مثلاً سالگرہ کی رسم کو دیکھ لیں۔ آج کل بڑے دین دار گھرانوں میں یہ رسم ہے۔ جو لوگ یہ رسم نہیں کرتے انہیں بہت ساری باتیں سننی پڑتی ہیں۔ یہ ان کے لئے بہت بڑا مجاہدہ ہے۔ اگر اس نے یہ مجاہدہ برداشت کر لیا تو اس کی اصلاح ہو جائے گی۔
صوفی کائن بائن اور حسنات الابرار سیئات المقربین کی تشریح:
حضرت دفتر اول مکتوب نمبر 24 میں ارشاد فرماتے ہیں:
متن:
اَلْمَرْءُ مَعَ مَنْ اَحَبَّ (آدمی اسی کے ساتھ ہے جس سے وہ محبت کرتا ہے) پس وہ شخص مقبول و برگزیدہ ہے جس کے دل میں حق سبحانہ و تعالٰی کے ساتھ محبت کے سوا کسی اور کی محبت باقی نہ رہی ہو، اور وہ ذات تعالٰی و تقدس کے سوا کسی اور کا طالب نہ ہو۔ پس ایسا شخص اللہ جلّ جلالہ کے ساتھ ہے اگرچہ وہ بظاہر مخلوق کے ساتھ مشغول ہے اور یہ کائن بائن صوفی کی شان ہے یعنی حقیقت میں وہ حق تعالٰی شانہ کے ساتھ واصل اور مخلوق سے جدا ہے۔
تشریح:
بائن سے مراد یہ ہے کہ وہ جدا ہے اور کائن سے مراد یہ ہے کہ ملا ہوا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ کے ساتھ واصل ہے اور مخلوق سے جدا ہے۔
متن:
یا اس سے یہ مراد ہے کہ ظاہر میں مخلوق کے ساتھ ہے اور حقیقت میں مخلوق سے جُدا ہے۔
تشریح:
یہ کام سب کو کرنا پڑتا ہے۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ ایک شخص لوگوں کے ساتھ رہنے کی ایذائیں برداشت نہیں کرتا، علیحدہ خلوت میں رہتا ہے۔ دوسرا آدمی لوگوں کے ساتھ رہنے کی وجہ سے مخلوق کی ایذائیں برداشت کرتا ہے تو یہ دوسرا شخص پہلے سے افضل ہے؛ کیونکہ اس کو ان ایذاؤں کی وجہ مسلسل روحانی ترقی حاصل ہو رہی ہے۔ یہ لوگوں کے ساتھ ہے لیکن حقیقت میں اللہ کی طرف متوجہ ہے۔ لوگ اس کو دنیا دار سمجھتے ہیں لیکن حقیقت میں وہ دنیا دار نہیں ہوتا۔
ایک مرتبہ حکیم اختر صاحب رحمة اللہ علیه نواب قیصر صاحب کے ہمراہ تشریف لائے تھے۔ حضرت نے بیان کے دوران فرمایا کہ نواب قیصر صاحب کی مرسیڈیز کو نہ دیکھیں۔ جس وقت برف پانی ہو جائے تو وہ پانی کے حکم میں ہوتی ہے۔ پھر برف کے حکم میں نہیں رہتی۔ لہٰذا اب یہ (نواب قیصر) مرسیڈیز میں بیٹھتا ہے مگر مرسیڈیز اس کے دل میں نہیں ہے۔
حضرت اورنگزیب عالمگیر رحمة اللہ علیه بادشاہ تھے۔ تخت پر بیٹھتے تھے۔ تاج پہنتے تھے۔ شاہی لباس پہنتے تھے لیکن یہ سب دربار میں ہوتا تھا۔ گھر میں ان کا وہی جوڑا ہوتا تھا جو انہوں نے خود سیا ہوتا تھا۔ قرآن پاک لکھ کر اور ٹوپیاں سی کر جو پیسے کمائے ہوتے تھے ان سے سوت خرید کر اس سے اپنے کپڑے سیتے تھے اور گھر میں وہی پہنتے تھے۔ گھر میں ان کا معاملہ الگ ہوتا تھا۔ اگر کوئی پوچھتا کہ حضرت آپ ایسا کیوں کرتے ہیں تو فرماتے کہ یہ تو وردی ہے۔ میں دربار میں آتا ہوں تو وردی کے طور پر یہ لباس پہنتا ہوں۔ باقی میری اصل حقیقت وہی ہے۔ جو قرآن شریف خود لکھتے تھے وہ بہت دور دراز کے ایسے علاقوں میں بھجواتے تھے جہاں کے لوگوں کو یہ معلوم نہ ہو سکتا کہ یہ قرآن مجید کے نسخے انہوں نے لکھے ہیں، اس کی وجہ یہ ہوتی تھی کہ لوگ ان نسخوں کو گراں قیمتوں پر نہ لیں۔ یہ حضرات اگرچہ لوگوں کے ساتھ تھے لیکن ان کے دل لوگوں کے ساتھ نہیں بلکہ اللہ کے ساتھ ہوتے تھے۔
متن:
اور قلب کی محبت کا تعلق ایک سے زیادہ کے ساتھ نہیں ہوتا پس جب تک اس کی محبت کا تعلق اس ایک (ذات) سے ہو گا اس کےعلاوہ قلب کو کسی سے محبت نہیں ہو گی اور یہ جو اس کی خواہشات کی کثرت اور بے شمار چیزوں کے ساتھ اس کی محبت کے تعلق کا متعدد ہونا (مثلاً مال، اولاد، سرداری، تعریف اور لوگوں میں بلند مرتبہ ہونا) دیکھا جاتا ہے تو اس کے باوجود (بھی اس کا محبوب ایک ہی ہو گا اور وہ اس کا اپنا نفس ہے۔
تشریح:
یعنی ہر چیز نفس کی طرف آ رہی ہے کیوں کہ نفس اس چیز کو چاہ رہا ہے۔ لہٰذا اصل میں تو اس کو نفس کے ساتھ محبت ہے۔
متن:
اور ان سب چیزوں کی محبت اس کے اپنے نفس کی محبت کی فرع (شاخ) ہے اس لئے کہ وہ ان چیزوں کو اپنے نفس ہی کے لئے چاہتا ہے، فی نفسہٖ ان اشیاء کو نہیں چاہتا، پس جب اس کو اپنے نفس کے ساتھ محبت نہیں رہے گی تو ان چیزوں کی محبت بھی اس کے نفس کے تابع ہونے کی وجہ سے دُور ہو جائے گی اسی لئے کہتے ہیں کہ بندہ اور حق سبحانہ وتعالٰی کے درمیان حجاب، بندہ کا اپنا نفس ہے نہ کہ دنیا۔ کیونکہ دنیا فی نفسہ بندہ کا مقصود نہیں ہے جو وہ حجاب بنتی، بلکہ بے شک بندہ کا مقصود اس کا اپنا نفس ہی ہے تو لازمی طور پر بندہ (کا نفس) خود حجاب ہے نہ کہ اس کے سوا کوئی اور چیز، پس جب تک بندہ اپنے نفس کی خواہش سے پوری طرح خالی نہیں ہو گا حق تعالٰی اس کی مراد نہیں ہو سکتا، اور حق سبحانہ کی محبت اس کے قلب میں نہیں سما سکتی، اور یہ اعلٰی درجہ کی دولت فنائے مطلق کے بعد ہی متحقق ہوتی ہے جو کہ تجلئی ذاتی پر موقوف ہے، کیونکہ ظلمات (اندھیروں) کا پوری طرح دُور ہونا اس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک سورج طلوع ہو کر پوری طرح روشن نہ ہو جائے۔
پس جب یہ محبت جس کو محبتِ ذاتیہ سے تعبیر کیا جاتا ہے حاصل ہو جاتی ہے تو مُحِبّ کے نزدیک محبوب کا انعام اور رنج و الم دینا یکساں ہو جاتا ہے۔
تشریح:
حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے اس عبارت میں ایک بہت بڑے مقام کی تشریح فرمائی ہے۔ انسان جیسے جیسے آگے بڑھتا ہے اللہ تعالی ویسے ویسے اس پہ چیزیں کھولتے جاتے ہیں۔ محبتِ ذاتی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات کے ساتھ محبت ہو۔ ایک ذات کے ساتھ محبت ہوتی ہے اور ایک صفات کے ساتھ محبت ہوتی ہے۔ ہماری پہلی نظر صفات پر پڑتی ہے۔ اللہ کو تو کسی نے نہیں دیکھا۔ اللہ تعالیٰ کی ذات وراء الوریٰ ہے۔ اسے دیکھ تو کوئی نہیں سکتا البتہ اس کی صفات کو محسوس کیا جا سکتا ہے۔ مثلاً اللہ پاک کریم ہیں۔ اللہ پاک رزاق ہیں۔ الله جل شانهٗ غفور ہیں۔ اللہ پاک رحیم ہیں۔ اب اللہ تعالیٰ کی یہ صفات اس پر منکشف ہو رہی ہیں۔ یہ انکشاف اس کے لئے محبت کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ یہ شخص جب اس محبت میں ترقی کرتا ہے تو صفت میں فنا ہو رہا ہوتا ہے۔ مثلاً اللہ تعالیٰ نے اس کو وسیع رزق دیا ہوا ہے تو یہ بڑا خوش ہے کہ اللہ تعالیٰ بڑا رزاق ہے اور اسے اللہ تعالی کے ساتھ بڑی محبت ہے۔ یہ فنا فی الرزاقیت ہے فنا فی اللہ نہیں ہے۔ فنا فی اللہ اُس وقت قرار دیا جائے گا جب اللہ پاک اس کا رزق کھینچے گا اور اس کے اوپر پریشانی آئے گی۔ اگر اس کی محبت پھر بھی باقی رہے تب پتا چلے گا کہ اس کی فنا فنا فی الرزاقیت نہیں ہے۔ بہت سارے لوگ خوشی کی حالت میں اللہ تعالیٰ کی تعریفیں کرتے ہیں مگر جب مشکل آتی ہے تو نا شکری کی باتیں کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ ایسے لوگ صفت میں فنا ہیں ذات میں فنا نہیں ہیں۔ لیکن جس خوش قسمت کو اللہ تعالیٰ کی ذات میں فنا نصیب ہو جاتی ہے بے شک کچھ بھی ہو جائے وہ اللہ تعالی کی ذات پر ہی فدا ہوتا ہے۔ اسے کسی خاص شرط اور کسی خاص حالت کی ضرورت نہیں ہوتی۔ آپ غور کریں کہ اگر انسان کو کسی دوسرے انسان کے ساتھ عشق ہو جائے تو وہ کسی خاص شرط پر منحصر نہیں ہوتا بلکہ بلا شرط اس سے محبت کرتا ہے۔ اسی طرح اگر اللہ کے ساتھ کسی کو سچی محبت ہو جائے تو پھر مشکل اور آسانی میں فرق نہیں ہوتا۔ تعریف اور مذمت میں فرق نہیں ہوتا۔ اگر لوگ اس پہ ٹماٹر پھینک رہے ہوں، غصہ کر رہے ہوں اور تھوک رہے ہوں پھر بھی وہ اللہ کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔ وہ اس تکلیف اور پریشانی کی حالت کو امتحان سمجھتا ہے۔
جب تک محبتِ ذاتی نصیب نہ ہو اس وقت فنا فی اللہ نہیں قرار دیا جا سکتا۔ اور جب تک کوئی فنا فی اللہ نہیں ہوا اس وقت تک وہ چیز حاصل نہیں ہو سکتی جس کا حضرت نے ذکر کیا ہے۔
متن:
اور وہ حق تعالٰی سبحانہ کی عبادت خاص اسی کے لئے کرتا ہے اپنے نفس کے لئے نہیں کرتا یعنی وہ عبادت اپنے اوپر انعام طلب کرنے اور اپنے آپ سے رنج و الم دور کرنے کے لئے نہیں کرتا کیونکہ یہ دونوں اس کے نزدیک برابر ہیں اور یہ مرتبہ مقربین کے لئے مخصوص ہے کیونکہ ابرار محبتِ ذاتیہ کی سعادت سے کامیاب نہ ہونے کے باعث حق سبحانہ و تعالٰی کی عبادت خوف اور طمع کے لئے کرتے ہیں اور یہ دونوں (یعنی خوف و طمع) ان کے اپنے نفسوں کی طرف راجع ہیں۔
تشریح:
خوف بھی نفس کی طرف ہے اور طمع بھی نفس کی طرف ہے۔
متن:
پس لامحالہ (بالضرور) ابرار کی نیکیاں مقربین کی نسبت سے برائیاں ہیں۔
تشریح:
کہتے ہیں۔ ”حَسَنَاتُ الْاَبْرَارِ سَیِّئَاتُ الْمُقَرَّبِیْنَ“
متن:
لہذا ابرار کی نیکیاں ایک لحاظ سے برائیاں ہیں اور ایک لحاظ سے نیکیاں، اور مقربین کی نیکیاں خالص اور محض نیکیاں ہیں۔
تشریح:
حضرت کاکا صاحب رحمة اللہ علیه کی سوانح حیات ”مقاماتِ قطبیہ و مقالات قدسیہ“ میں ایک واقعہ ذکر کیا گیا ہے کہ ایک صاحب بہت تکلیف میں تھے۔ کسی نے ان کو دیکھا تو اس کا دل بڑا پسیجا کہ یہ کس حالت میں ہیں۔ تو ان صاحب نے اسے گھور کے دیکھا اور کہا کہ اے مکلف! میرے اور اللہ کے درمیان نہ آنا۔ اگر اللہ پاک مجھے ٹکڑے ٹکڑے بھی کردے تو پھر بھی وہ میرا اللہ ہے۔ آپ کو درمیان میں آنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ یہ مقربین والا مقام ہے۔ یقین جانیے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی یہی بات تھی۔ وہ شہید ہو رہے ہیں تو کہہ رہے ہیں ”فُزْتُ بِرَبِّ الْکَعْبَةِ“۔ ”ربِ کعبہ کی قسم میں کامیاب ہو گیا“۔ کافر حیران ہوتے تھے کہ یہ کیا کہہ رہے ہیں۔ میں اس کو مار رہا ہوں یہ جان قربان کر رہا ہے اور کہہ رہا ہے کہ رب کعبہ کی قسم میں کامیاب ہو گیا۔ یہ مقربین کی بات ہے۔
متن:
ہاں مقربین میں سے بعض وہ ہیں جو بقائے اکمل کے حصول اور عالمِ اسباب میں نزول ثابت ہونے کے بعد بھی خوف اور طمع کی و جہ سے حق سبحانہ و تعالٰی کی عبادت کرتے ہیں لیکن ان کا خوف اور طمع اُن کے اپنے نفسوں کی طرف راجع نہیں ہوتا، بلکہ بلا شبہ وہ حق سبحانہ وتعالٰی کی عبادت اس کی رضامندی کی طمع کرتے ہوئے اور اس کے غضب و ناراضگی سے ڈرتے ہوئے کرتے ہیں۔
تشریح:
حضرت عمر رضی الله تعالیٰ عنه بیمار تھے اور رو رہے تھے۔ کسی نے کہا: حضرت آپ بھی اس طرح کرتے ہیں؟ فرمایا: کیا میں اللہ پاک کو اپنی پہلوانی دکھاؤں؟ اللہ پاک نے مجھے بیمار اس لئے کیا ہے تاکہ میں اپنی عاجزی دکھاؤں۔ دیکھئے ان کی طرف سے اس حالت میں رونا تو تھا لیکن یہ رونا تکلیف کی وجہ سے نہیں تھا بلکہ اللہ تعالی کے سامنے عاجزی ظاہر کرنے کے لئے تھا۔ یہ طمع یا خوف دونوں اللہ کے لئے ہیں۔ کیونکہ اللہ ہم سے یہ چاہتا ہے۔ جب اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ ہم ایسا کریں تو ہم ضرور کریں گے۔
متن:
اور اسی طرح وہ بے شک جنّت کو اس لئے طلب کرتے ہیں کہ وہ حق سبحانہ و تعالٰی کی رضامندی و خوشنودی کا مقام ہے نہ کہ اپنے نفس کی لذت کے لئے۔ اور وہ دوزخ سے اس لئے پناہ مانگتے ہیں کہ وہ حق سبحانہ و تعالٰی کے غضب و ناراضگی کی جگہ ہے نہ کہ اپنے نفسوں سے اس کے رنج و الم کو دور کرنے کے لئے کیونکہ یہ اکابر اپنے نفسوں کی غلامی سے آزاد ہو چکے ہیں اور محض حق سبحانہ وتعالٰی ہی کے لئے مخصوص ہو گئے ہیں اور مقربین کے مرتبوں میں یہ مرتبہ سب سے اعلٰی ہے۔ اور اس مرتبہ والے بزرگ کو مرتبئہ ولایتِ خاصہ کے حصول کے بعد مقامِ نبوت کے کمالات میں سے پورا پورا حصہ حاصل ہو جاتا ہے۔ اور جو شخص عالم اسباب کی طرف نزول نہیں کرتا وہ اولیائے مستہلکین (مغلوب الحال اولیاء) میں سے ہے۔
وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ