مقاماتِ قطبیہ و مقالاتِ قدسیہ درس 17

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
حضرت شیخ عبد الحلیم رحمۃ اللہ علیہ (جو حلیم گل بابا کے نام سے مشہور ہیں) کی کتاب "مقالات قدسیہ اور مقامات قطبیہ" (جو حضرت کاکا صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں ہے) سے تعلیم جاری ہے۔ اللہ کا شکر ہے کہ اس وقت اس کتاب کی تعلیم حرم شریف سے ہو رہی ہے۔ گذشتہ درس میں حضرت کاکا صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی نماز کے بارے میں بات ہوئی تھی۔
آج اس سے آگے پڑھیں گے۔
متن:
اَلْأَمْثَالُ مَصَابِيْحُ الْأَقْوَالِ" یعنی مثالیں باتوں کے ستارے ہوتی ہیں۔ "اَلْأَنْبِیَاءُ یُصَلُّوْنَ فِيْ قُبُوْرِھِمْ" (ميزان الاعتدال بتغییر یسیر، رقم الصفحۃ: 460/1، مکتبہ: دار المعرفۃ، بیروت) ”انبیاء علیہم السلام اپنی قبروں میں نماز ادا کرتے ہیں“ یہ صورتاً ظاہری طور پر موت ہے اور باطنی طور پر زندگی ہے۔
تم نے طہارت کی تشریح سُن لی، اب نیت کے اسرار سُن لو۔ اے بھائی! اہلِ ظواہر نہیں جانتے کہ نیت کیا چیز ہوتی ہے۔ نیت کرنا بھی نماز کے لئے شرط ہے۔
نیت کرنا بھی نماز کے لئے شرط ہے۔ نماز تب درست ہوتی ہے، جب نیت صحیح اور درست ہو، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرما چکے ہیں کہ "إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ" (الصحیح للبخاری، رقم الحدیث: 1) ”اعمال کا دار و مدار نیتوں پر موقوف رہتا ہے“ اور عبید اللہ تشتری صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ "اَلنِّیَّۃُ نُوْرٌ" یعنی نیت نور ہے، اور نیت کے حروف میں یہ نکتہ پوشیدہ ہے: "اَلنُّوْنُ إِشَارَۃٌ إِلَی النُّوْرِ وَ الْیَاءُ إِشَارَۃٌ إِلٰی یَدِ اللہِ وَ التَّاءُ إِلٰی ھِدَایَۃِ اللہِ وَ قِیْلَ: اَلتَّاءُ إِشَارَۃٌ إِلٰی تَأیِیْدِ اللہِ بِالْھِدَایَۃِ فَإِنَّ النِّیَّۃَ نَسِیْمُ الرُّوْحِ فَرَوْحٌ وَّ رَیْحَانٌ وَّ جَنَّۃُ النَّعِیْمٌ" ”نون اشارہ ہے نور کی جانب، اور یاء اشارہ ہے ید اللہ، اللہ کے ہاتھ کی جانب، اور تاء اشارہ ہے اللہ تعالیٰ کی ہدایت کی جانب۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ تاء اشارہ ہے اللہ تعالیٰ کی تائید جو کہ ہدایت کی جانب ہو کیونکہ نیت روح کی خوشگوار ہوا، خوشبو اور نعمتوں سے بھر پور جنت ہے“ پس اے بھائی! اعمال کا دار و مدار نیت پر ہے۔ اور نیت کوئی چیز نہیں ہوتی، لیکن اللہ تعالیٰ کا کرم و عطا ہوتی ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کی جانب سے خلعت ہوتی ہے۔ یہی وجہ تھی کہ بشر حافی رحمۃ اللہ علیہ نے جناب حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ کی میت پر نماز جنازہ نہیں پڑھی، دوستوں نے اس پر اعتراض کیا کہ تم نے حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ پر نمازہ جنازہ نہیں پڑھی۔ بشر حافی رحمۃ اللہ علیہ نے جواب میں فرمایا کہ "لَا أَجِدُ نِیَّۃً" ”مجھے نیت حاصل نہیں تھی“ انہوں نے کہا کہ سب دوست مذکورہ نیت سے محروم تھے۔ پس نماز میں اس قسم کی نیت درکار ہوتی ہے تاکہ نماز ادا کی جا سکے۔ نیت کے بعد تکبیر کہنا ہے تاکہ نماز میں جو باطل سامنے ہو، سب کو آگ میں جلا ڈالے اور نماز میں باطل کا شائبہ تک نہ رہے اور سب حق ہی حق رہ جائے۔ ﴿قُلْ جَاءَ الْحَقُّ وَ زَهَقَ الْبَاطِلُ﴾ (بنی اسرائیل: 81) ”کہہ دو آیا سچ اور نکل بھاگا جھوٹ“
اے بھائی! پروانہ جو آگ کا عاشق ہے، جب وہ اپنے آپ کو آگ کے حوالے کرتا ہے اور آگ اس کو قبول کرتا ہے اور غیر کی نفی کرتا ہے، تو اس کو آگ ہی سے قوت حاصل ہوتی ہے، اور کسی غیر کے بغیر اُس کو اُس سے قوت حاصل ہوتی ہے۔ اے بھائی! میں نہیں جانتا کہ کیا لکھوں! یہ ایسا مقام ہے، جہاں زمان و مکان اُٹھ جاتے ہیں۔ پس محمد حسین کے اِن اشعار پر غور کرنا چاہئے۔
ابیات:
؂ در فروغ آں یک نظر
محوے گردد قدم وجودم سر بسر
اش شعاع آفتاب فرشاہ
پاک بر خیزیم آن ساعت ز راہ
چو نمے ماند ز من نامِ وجود
چوں بخدمت پیش رقم در سجود
گر تو مے بینی مرا آن دم عیان
نیستم من ہست آں شاہ جہان
گفتم اکنون مے ندانم کسنیم
بندۂ باری نیستم پس چیشتم
مے ندانم تو منی یا من توئی
محو گشتم در تو و گم شد دوئی
”اُس ایک نظر کے نور اور روشنی سے میرا سارا وجود سراسر محو ہو جاتا ہے۔ بادشاہ کے دبدبے کی شعاعِ آفتاب کی وجہ سے میں اس وقت راہ پر سے اُٹھ جاتا ہوں۔ جب میرے وجود کا نام تک نہیں رہ جاتا، تو میں آپ کی خدمت میں سجدہ ریز کیسے ہوا؟ اگر تُو اس وقت مجھے دیکھتا ہے، تو میں نہیں ہوتا بلکہ وہ جہان کا بادشاہ موجود ہوتا ہے۔ میں نے پوچھا کہ اب میں نہیں جانتا کہ میں کون ہوں۔ میں بندہ نہیں ہوں، تو پھر کیا ہوں؟ میں یہ نہیں جانتا کہ تُو، میں ہے یا کہ میں ”تم“ ہوں۔ میں تمہاری ذات میں محو ہو گیا اور دوئی درمیان سے مٹ گئی“۔
سمجھنے والے ان باتوں کو سمجھ پاتے ہیں۔ اے میرے محبوب! بس جس چیز کی جانب روح مائل ہو کر اس جانب کا رُخ کرے، وہی اس کا قبلہ ہوتا ہے۔ ﴿فَأَیْنَمَا تُوَلُّوْا فَثَمَّ وَجْہُ اللہِ﴾ (البقرہ: 115) ”سو جس طرف تو منہ کرو، وہاں ہی متوجہ ہے اللہ“ (شیخ الہند)
حاصلِ کلام یہ کہ جب بندہ اس مقام تک پہنچ جائے، جس تک کہ ہم آواز دیتے ہیں تو وہاں نہ دِن ہوتا ہے، نہ رات ہوتی ہے۔ "لَیْسَ عِنْدَ اللہِ صَبَاحٌ وَّلَا مَسَاءٌ" ”اللہ تعالیٰ کے نزدیک نہ صبح ہوتی ہے، نہ شام“ تو پھر پانچ وقتوں کو کیسے دریافت کرے گا؟ مگر جب یہ آیت ﴿وَالَّذِیْنَ ھُمْ عَلٰی صَلٰوتِھِمْ دَائِمُوْنَ﴾ (المعارج: 23) ”اور وہ لوگ جو اپنی نماز پر قائم ہیں“ اس گروہ کے بارے میں درست ہو۔ اس مقام پر شیخ محمد حسین نے لکھا ہے کہ میں کیا کروں کہ دنیا کے حال سے بے خبر راستے کے بچوں کی طرح ہوں، اس کا بیان اور تشریح نہیں کر سکتا۔ لیکن تکبیر اس طرح کہنی چاہئے کہ تُو دونوں جہانوں کو محو سمجھے اور ﴿إِنِّيْ ذَاھِبٌ إِلٰی رَبِّيْ سَیَھْدِیْنِ﴾ (الصافات: 99) ”میں جاتا ہوں اپنے رب کی طرف، وہ مجھے راہ دے گا“ کے استقبال میں چلے اور مشاہدہ کرے کہ جس وقت ﴿إِنِّيْ وَجَّھْتُ وَجْھِيَ لِلَّذِيْ﴾ (الانعام: 79) کہے، تو محبوب کے رخِ زیبا کو اپنا مرکز سمجھے اور اس کو مرکز السمٰوت والارض تصور کرے اور اس مقام کو دیکھے کہ ﴿فَلَاۤ اُقْسِمُ بِمَا تُبْصِرُوْنَ وَ مَا لَا تُبْصِرُوْنَ﴾ (الحاقۃ: 38-39) "سو قسم کھاتا ہوں اُن چیزوں کی جو دیکھتے ہو اور چیزیں کہ تم نہیں دیکھتے" اور وہ مرکز دیکھے جو "حَنِیْفًا" "مِلَّۃَ إبْرَاہِیْمَ" کا مرکز ہے، اور "مُسْلِمًا" کہہ کر استغفار کہے۔ اس کے بعد ﴿إِنَّ صَلوٰتِيْ وَنُسُکِيْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِيْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ﴾ (الانعام: 62) کہ "میری نماز اور میری قربانی اور میرا جینا اور میرا مرنا اللہ تعالیٰ ہی کے لئے ہے، جو پالنے والا سارے جہان کا ہے" اور ان سب کو تُو ظاہر اور عیاں دیکھے اور غیر کو شوق کی آگ سے جلتا ہوا کرے۔ اس کے بعد اے بھائی! ﴿وَ بِذَالِکَ اُمِرْتُ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُسْلِمِیْنَ﴾ (الانعام: 163) "مجھے اس کا حکم دیا گیا ہے اور میں پہلا مسلمان ہوں" کی مبارک آیت تم کو مسلمانی سکھائے۔ اس کے بعد ﴿أَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ﴾ کہنا اس مقام پر درست ہو گا۔ اور "بِسْمِ اللہِ" سے شروع کرنے کی ضرورت ہو گی۔ "اَلرَّحْمٰنِ" اور "اَلرَّحِیْمِ" اُس کی صفات ہیں جو کہ ذات کے ساتھ تعلق پذیر ہیں۔ پس اے بھائی! "اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ" شکر کرنا ہے، "اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ" اِس کے بعد "رَبِّ الْعَالَمِیْنَ" کی ذات کی صفات ہیں، جو بارِ دیگر توثیق اور مزید آرائش کے لئے ہیں۔ جیسا کہ "اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ" خوش نما اور زیبا ہے۔ اس کے بعد اے برادرِ عزیز! اللہ اور اِلٰہ ایک ہو جائیں گے۔ اس لئے "اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ" کا تکرار ضروری ہے۔ "مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ" یعنی دنیا کو دین کے آئینے میں دیکھے گا، کیونکہ آخرت کے لئے دنیا میں جگہ نہیں اور وہ اس میں سما نہیں سکتی۔ پس اے بھائی! سورۂ فاتحہ میں ساقی واسطہ (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم) سے شراب مانگو گے، اور یہی کر کہ تجھے مستی اور دیوانگی ہو جائے اور ساقئ واسطہ جناب رسالت پناہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ مبارک اور پِیر تربیت ہے تو اے بھائی! اِسی ساقئ واسطہ سے ساقی واسطہ تک پہنچ جاؤ گے۔ اور جب تم مست ہو جاؤ تو "إِیَّاکَ نَعْبُدُ" کہہ کر خدمت پر کمر بستہ ہو جاؤ گے اور "إِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ" تمہاری زبان سے نکل پڑے گا۔ اور تمہارے دونوں جہانوں کی تمنا بر آئے گی اور "اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ" کو بعینہ دیکھو گے کہ ساقی کے ہاتھ سے بغیر کسی واسطے کے شراب نوش کرتے ہیں۔ اور وہ لوگ کون ہیں، جو بلا واسطہ دستِ ساقی سے شراب نوش کرتے ہیں؟ وہ لوگ "صِرَاطَ الَّذِیْنَ أَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ" ہیں۔ اور وہ لوگ جو کہ محروم ہیں اور جدائی کے صدمے سہہ رہے ہیں، تم گھر کے اندر بیٹھ کے نعمتوں سے لطف اندوز ہو رہے ہو اور وہ زنجیر کے حلقے کی طرح باہر نکلے اور نکالے پڑے ہوئے ہیں۔ "غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَا الضَّالِّیْنَ" ہیں، اس وقت تجھے معلوم ہو جائے گا کہ سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو اشارہ فرمایا ہے کہ "لَا صَلٰوۃَ لِمَنْ لَّمْ یَقْرَأْ بِفَاتِحَۃِ الْکِتَابِ" (الصحیح للبخاری، کتاب الأذان، باب: وجوب القراءۃ للإمام والمأموم، رقم الحدیث: 756) یعنی سورۂ فاتحہ کے بغیر نماز ادا نہیں ہو سکتی، اور کوئی نماز سورۂ فاتحہ کے بغیر وجود ہی نہیں رکھتی۔ اس مبارک قول میں کتنی صداقت ہے۔ اس کے بعد یعنی ان مراحلِ تعریف اور بیان کے بعد تیری فاتحہ درست ہو جائے گی۔ اور فاتحہ یہی جو میں نے ابھی ذکر کی اور تم نے سُنی۔ اور یہ بات قطعی طور پر ناجائز اور حرام ہے کہ ہم اور تم اور تمام اہلِ ظواہر یہ لاف زنی کریں کہ ہم نماز پڑھتے ہیں اور فاتحہ پڑھتے ہیں۔ افسوس… صد افسوس! کہ ہم نے تمام عمر میں ایک نماز بھی نہیں پڑھی اور ایک دفعہ بھی فاتحہ نہیں پڑھی اور تکبیر اور نیت نہیں کہی۔ یہی جو میں نے ذکر کیا اور جس کی تشریح کی، یہی فاتحہ، نیتِ قبلہ، تکبیرِ توجہ اور قیام تھے۔ مگر اس قسم کی نماز ہمارے شیخ صاحب یعنی شیخ رحمکار صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی شایانِ شان ہے۔ جس کے بارے میں شیخ محمد حسین نے بطور رمزاً کنایۃً کہا تھا کہ تیس 30 سال ہوئے کہ میں قلم کو ارادتًا مقدور بھر استعمال کرتا ہوں، لیکن اس کے رموز ابھی تک مکمل نہیں ہوئے اور مکمل ہونے کے بھی نہیں۔ اور یہ چند نکات جو کہ انوار کے سمندروں میں سے اس فقیر کو جلوہ نما ہوئے ہیں، آسان طریقہ پر حل شدہ انداز میں تحریر کرتا ہوں۔ حقیقت میں اِس کی حقیقت تک کوئی بھی نہیں پہنچ سکتا اور نہ اِس تک کسی کی رسائی ہو سکے گی۔
تشریح:
حضرت کاکا صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی نماز کے بارے میں بات ہو رہی تھی۔ اس سلسلہ میں ابھی مزید بات چل رہی ہے۔
اصل میں ہم ظاہر کے لحاظ سے نماز پڑھتے ہیں، ورنہ یہی نماز ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پڑھتے تھے۔ یہی نماز حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ پڑھتے تھے۔ یہی نماز تمام صحابہ پڑھتے تھے۔ یہی نماز انبیاء پڑھتے رہے ہیں۔ یہی نماز بزرگانِ دین پڑھتے رہے ہیں اور یہی نماز ہم بھی پڑھ رہے ہیں۔ یہی نماز ایک بچہ بھی پڑھتا ہے، جس نے ابھی ابھی نماز سیکھی ہوتی ہے۔ لیکن ان سب کی نماز برابر نہیں ہے، بلکہ ہر ایک کی نماز اس کے مقام کے لحاظ سے ہے۔ اب اگر شرعی طور پر یہ کہہ دیا جائے کہ جو شخص اس مقام کے مطابق نماز نہیں پڑھتا، جس مقام کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز تھی، تو اس کی نماز نہیں ہوتی، پھر تو اس پر عمل ہی نہیں ہو سکے گا اور اگر کم سے کم درجے والی نماز کو کامل سمجھ لیا جائے، تو درجۂ کمال تک پہنچنے کی کوشش رک جائے گی یعنی کمال تک پہنچنے کی کوشش نہیں ہو سکے گی۔ اس وجہ سے عملی صورتِ حال یہ ہے کہ جس درجہ کی نماز میسر ہے، اس نماز کو تو نہ چھوڑیں، بے شک وہ نماز اس درجۂ کمال کی نہ ہو، جس درجۂ کمال کی ہونی چاہئے۔ لیکن اسی نماز کو کافی سمجھ کر اس میں ترقی کی کوشش چھوڑنا؛ یہ بذاتِ خود ایک قسم کا اعراض اور سستی ہو گی، کیوں کہ جب آپ کسی چیز میں ترقی چاہتے ہیں، تو پہلے ترقی یافتہ صورت آپ کو سمجھ میں آنی چاہئے۔ اگر آپ کو کسی چیز کی ترقی یافتہ صورت معلوم نہ ہو، تو آپ ترقی کیسے کریں گے؟ آپ جس سیڑھی پر کھڑے ہیں، اگر اس سے اگلی سیڑھی آپ کو نظر نہیں آ رہی، تو آپ اگلی سیڑھی پر کیسے چڑھیں گے؟ اس لئے پہلے سیڑھیاں نظر آنی چاہیں، بے شک آپ ابھی ان سیڑھیوں تک پہنچے نہ ہوں۔ مگر آپ کو پتا ہونا چاہئے کہ اس منزل تک مثلاً ستر سیڑھیاں ہیں اور آپ ابھی پہلی سیڑھی پر قدم رکھے ہوئے ہیں۔ لیکن اگر آپ کو سیڑھیاں نظر نہیں آ رہیں، تو آپ ان سیڑھیوں پر نہیں چڑھ سکتے۔ اس لئے اگرچہ آپ پہلی سیڑھی پر ہوں، لیکن آپ کو ستر کی ستر سیڑھیوں کی معرفت حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے تاکہ آپ ان سیڑھیوں پر چڑھ کر اس مقام کو حاصل کر سکیں۔
ابھی جو بیان ہو گا، ان شاء اللہ، اس بیان کو بھی اسی مقصد کے لئے سمجھیں، ورنہ پھر یہ ہو گا کہ انسان ڈر جائے گا اور کہے گا کہ میں تو نماز پڑھتا ہی نہیں۔ لہٰذا ہم اس کو کہیں گے کہ آپ نماز پڑھ رہے ہیں، آپ کی نماز ہو بھی رہی ہے اور ان شاء اللہ قبول بھی ہو گی، لیکن اس سے آگے بھی راستے ہیں۔ جیسا کہ حضرت بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ سے کسی نے پوچھا تھا کہ حضرت! آپ بھی وہی اعمال کرتے ہیں، جو اعمال ہم کرتے ہیں، لیکن آپ آپ ہیں اور ہم ہم ہیں۔ کون سی چیز ہے، جس میں فرق ہے؟ بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کو ایک جملے میں سمجھا دیا کہ تم جو اعمال کرتے ہو، تمہارا نفس ان کو کھا جاتا ہے۔ اس لئے جتنی نفس کی نفسانیت ختم ہو گی اور روح کی روحانیت بڑھے گی، اتنی ہماری نماز کی کیفیت بڑھ جائے گی۔ یہ بالکل ایک سرکل کی طرح ہے کہ یہ کیفیت نماز کو improve (بہتر) کرے گی۔ پھر نماز اس کیفیت کو improve (بہتر) کرے گی، پھر یہ کیفیت نماز کو improve (بہتر) کرے گی، پھر نماز اس کیفیت کو improve (بہتر) کرے گی۔ اس طریقے سے انسان ترقی کی سیڑھیوں پر چڑھتا جائے گا۔ اس وجہ سے ان کتابوں کو پڑھنے کا کم از کم یہ فائدہ ہو گا کہ ہمیں جہاں تک پہنچنا ہے، اس کا راستہ ہمیں معلوم ہو جائے گا۔ یہی معرفت ہے۔ پھر اس کے بعد ہر ایک شخص اپنی اپنی ہمت اور استعداد کے مطابق ترقی کرے گا۔ اور یہ بات بھی ہے کہ اگر ایسی استعداد والے حضرات ایسے مشائخ تک پہنچ جائیں، جو ان حضرات سے کام لے لیں اور ان کو اس مقام تک پہنچا دیں، تو ان کو ان کی استعداد کا فائدہ ہو جائے گا اور اگر وہ ایسے مشائخ تک نہیں پہنچ سکے، جو ان کی استعداد کے مطابق ان سے کام لے سکیں، تو پھر ان کی استعداد ضائع بھی ہو سکتی ہے۔ حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اس بات کا ذکر فرمایا ہے۔ اس وجہ سے ان دونوں باتوں میں انسان کو کوشش کرنی چاہئے۔ یہ انسان ایسے اچھے لوگوں تک پہنچے، جہاں اس کی استعداد استعمال ہو جائے اور اس کو معرفت حاصل ہو جائے، پھر ہمت کے مطابق اس معرفت کے مطابق عمل کرتا رہے۔
حضرت نے فرمایا کہ ’’مثالیں باتوں کے ستارے ہوتی ہیں۔‘‘
یعنی مثالوں سے باتوں میں رہنمائی حاصل ہوتی ہے، کیونکہ ستاروں سے ہدایت حاصل ہوتی ہے جیسا کہ قرآن پاک میں بھی ہے۔ گویا مثالوں سے بہت بڑا مفہوم چند الفاظ میں سمٹ کے سامنے آ جاتا ہے، جس سے اس مفہوم تک رسائی بہت آسان ہو جاتی ہے۔ لہٰذا یہاں بھی مثالوں کے ذریعے سے چیزیں سمجھائی جائیں گی۔ فرمایا:
متن:
’’اَلْأَنْبِیَآءُ یُصَلُّوْنَ فِيْ قُبُوْرِھِمْ‘‘ (ميزان الاعتدال بتغییر یسیر، رقم الصفحۃ: 460/1، مکتبہ: دار المعرفۃ، بیروت) ”انبیاء علیہم السلام اپنی قبروں میں نماز ادا کرتے ہیں“
تشریح:
یہاں نماز کے بارے میں بات ہو رہی ہے، گویا نماز کا کوئی ایسا مقام بھی ہے، جو قبر میں بھی انبیاء کرام کو حاصل ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ جن کو انبیاء کرام کے نقشِ قدم پر لے آئے، ان کے لئے بھی ہو سکتا ہے۔ حضرت فضلِ حق گنج مراد آبادی رحمۃ اللہ علیہ مجذوب نما بزرگ تھے۔ انہوں نے کہا کہ اگر جنت میں حور آ جائے، تو میں کہوں گا کہ تو بھی یہاں بیٹھ جا، نماز پڑھنی ہے تو پڑھ۔ لہٰذا نماز کے ساتھ جن کو تعلق ہوتا ہے، ان کی بات الگ ہوتی ہے۔ جیسا کہ انبیاء کرام علیہم السلام قبروں میں جا کر بھی نمازیں پڑھتے ہیں، حالانکہ وہ عمل کی جگہ نہیں ہے، وہاں جو عمل ہوتا ہے، وہ صرف شوق کی وجہ سے ہوتا ہے۔ وہاں اگر کوئی قرآن پڑھتا ہے، تو وہ قرآن کے شوق کی وجہ سے پڑھتا ہے۔ وہاں اگر کوئی نماز پڑھتا ہے، تو وہ نماز کے شوق کی وجہ سے پڑھتا ہے۔
انبیاء علیہم السلام اپنی قبروں میں نماز ادا کرتے ہیں“ یہ صورتاً ظاہری طور پر موت ہے۔ (یعنی ظاہری طور پر تو قبر موت کی نشانی ہے) اور باطنی طور پر زندگی ہے۔ (یعنی ان کو وہ زندگی حاصل ہے، جو کبھی ختم نہیں ہو گی)۔
آگے فرمایا:
متن:
تم نے طہارت کی تشریح سُن لی، اب نیت کے اسرار سُن لو۔
تشریح:
یعنی نیت کیا چیز ہے؟ چونکہ نماز کے لئے طہارت شرط ہے، لہٰذا طہارتِ بدنی اور طہارتِ روحانی کے بارے میں حضرت نے بڑی تفصیل کے ساتھ کلام فرمایا ہے۔ اب فرمایا کہ نیت جو کہ طہارت کے بعد کا عمل ہے، یعنی طہارت تک تو شرائط ہیں، مثلاً: کپڑوں کا پاک ہونا، جگہ کا پاک ہونا، جسم کا پاک ہونا، پھر قبلہ رخ ہونا ہے، یہ تمام شرائط ہیں۔ اس کے بعد نماز میں نیت کے ساتھ داخل ہوں گے۔ اور یہ بات کہ کون سی نماز میں داخل ہو رہے ہو، یہ نیت پر منحصر ہے۔ جیسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ‘‘ (بخاری شریف، حدیث نمبر: 1) اور پھر نیت جس درجے کی ہو گی، اسی درجے کی نماز میں آپ داخل ہو جائیں گے۔ اور نیت منحصر ہے معرفت پر، لہذا جس کی جس درجہ کی معرفت ہو گی، اس کی نیت اس لحاظ سے اتنی اونچی ہو گی اور اسی حساب سے اس کا عمل اونچا ہو گا۔
آگے فرمایا:
متن:
اے بھائی! اہل ظواہر نہیں جانتے کہ نیت کیا چیز ہوتی ہے۔
تشریح:
واقعتاً اہلِ ظواہر نہیں جانتے۔ اہلِ ظواہر میں بھی کئی قسمیں ہیں، لیکن جو معرفت نیت کی ہے، وہ ان کو معلوم نہیں ہے کہ نیت کیا چیز ہے۔ فرمایا:
متن:
نیت کرنا بھی نماز کے لئے شرط ہے۔ نماز تب درست ہوتی ہے جب نیت صحیح اور درست ہو، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرما چکے ہیں کہ "إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ" (الصحیح للبخاری، رقم الحدیث: 1) ”اعمال کا دار و مدار نیتوں پر موقوف رہتا ہے“ اور عبید اللہ تشتری صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ "اَلنِّیَّۃُ نُوْرٌ" یعنی نیت نور ہے۔
تشریح:
نور ایسے ہے کہ نور میں یہ ہوتا ہے کہ جو کچھ ہو رہا ہوتا ہے، اس میں آپ وہ دیکھ رہے ہوتے ہیں، وہ آپ کو نظر آ رہا ہوتا ہے۔ لہٰذا نیت نورِ ہدایت بھی ہے، نورِ بصیرت بھی ہے، نورِ معرفت بھی ہے۔
آگے فرمایا:
متن:
اور نیت کے حروف میں یہ نکتہ پوشیدہ ہے: "اَلنُّوْنُ إِشَارَۃٌ إِلَی النُّوْرِ۔
تشریح:
یہ وہی مثال والی باتیں ہے، جیسے فرمایا کہ مثالیں باتوں کے ستارے ہوتے ہیں۔ یہ سارے اشارے ہیں۔
نور کیا ہے؟ اصل میں ہم بہت ساری چیزوں کو سمجھنے کے لئے تھوڑی سی چیزوں کو سمجھنے سے کام لیتے ہیں، یعنی پہلے ہم تھوڑی چیزوں کو سمجھ لیتے ہیں پھر ان کے ذریعے سے ہم دوسری چیزوں کو سمجھتے ہیں۔ جیسے پہلے ہم حروفِ تہجی کو سیکھ لیتے ہیں، پھر حروفِ تہجی کے ذریعے سے باقی تمام لکھائی اور پڑھائی کو سیکھتے ہیں۔ اسی طرح اصل مقصود نیت کو سمجھانا ہے، لیکن نیت کو سمجھانے کے لئے کچھ راستہ تو ہونا چاہئے۔ یہ ان حضرات کے تجربے ہیں اور ان تجربوں کے ذریعے سے انہوں نے اشارے اخذ کئے ہیں۔ آگے فرمایا:
متن:
"اَلنِّیَّۃُ نُوْرٌ" یعنی نیت نور ہے، اور نیت کے حروف میں یہ نکتہ پوشیدہ ہے: "اَلنُّوْنُ إِشَارَۃٌ إِلَی النُّوْرِ وَالْیَاءُ إِشَارَۃٌ إِلٰی یَدِ اللہِ وَالتَّاءُ إِلٰی ھِدَایَۃِ اللہِ وَقِیْلَ: اَلتَّاءُ إِشَارَۃٌ إِلٰی تَأیِیْدِ اللہِ بِالْھِدَایَۃِ فَإِنَّ النِّیَّۃَ نَسِیْمُ الرُّوْحِ فَرَوْحٌ وَّرَیْحَانٌ وَّجَنَّۃُ النَّعِیْمٌ" ”نون اشارہ ہے نور کی جانب، اور یاء اشارہ ہے ید اللہ یعنی اللہ کے ہاتھ کی جانب، اور تاء اشارہ ہے اللہ تعالیٰ کی ہدایت کی جانب۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ تاء اشارہ ہے اللہ تعالیٰ کی تائید جو کہ ہدایت کی جانب ہو۔
تشریح:
یعنی پہلے آپ کو نور ملتا ہے، اس کے بعد پھر اللہ کی طرف سے تائید ہوتی ہے اور پھر اس کے بعد ہدایت ملتی ہے۔ کیونکہ اگر آپ نے صحیح راستہ دیکھ بھی لیا لیکن اگر اللہ کی تائید نہیں ہو گی تو آپ اس پہ چل نہیں سکیں گے، اور ہدایت ٹارگٹ ہے، یہاں تک پہنچنا ہے۔ اور نیت میں پوشیدہ جو نور ہے، اس کے ذریعے آپ اللہ کی تائید سے اپنے ٹارگٹ یعنی ہدایت تک پہنچتے ہیں۔
آگے فرمایا:
متن:
خوشبو اور نعمتوں سے بھر پور جنت ہے“ پس اے بھائی! اعمال کا دار و مدار نیت پر ہے۔ اور نیت کوئی چیز نہیں ہوتی، لیکن اللہ تعالیٰ کا کرم و عطا ہوتی ہے۔
تشریح:
یعنی اللہ جل شانہ اگر صحیح نیت نصیب فرما دیں، تو یہ بہت بڑی نعمت ہے۔ ایک بزرگ نے فرمایا کہ امت بد نیت نہیں ہے، بے نیت ہے۔ یعنی ان کے پاس نیت نہیں ہے۔ مثلاً: لوگ بہت سارے اچھے کام کرتے ہیں، لیکن نیت کوئی نہیں ہوتی۔ اگر نیت کر لیں تو ان کا ثواب پالیں۔ مثلاً: میں بہت خدمت گار ہوں، لوگوں کی خدمت کرتا ہوں، رفاعی کاموں میں شامل ہوتا ہوں، سب کچھ کرتا ہوں، لیکن اس میں میری نیت کوئی نہیں ہے۔ لہٰذا گناہ بھی کوئی نہیں ہے، ثواب بھی کوئی نہیں ہے۔ کیونکہ اعمال کا دار و مدار نیتوں پر ہے۔ اس لئے پہلے اپنی نیت بناؤ کہ آپ کس لئے کام کر رہے ہیں۔ اگر میں یہ نیت بنا لوں کہ مخلوق اللہ تعالیٰ کا کنبہ ہے اور مخلوق کی خدمت کرنے سے اللہ تعالیٰ کو بڑی خوشی ہوتی ہے، اس لئے اگر میں اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے مخلوق کی خدمت کروں کہ اللہ تعالیٰ مجھ سے راضی ہو جائے، تو یہ نیت ہے۔ اب اگر میں یہ نیت کروں گا، تو ثواب ملے گا، اور نیت کے حساب سے ثواب ملے گا۔ اس نیت میں جس درجہ کا اخلاص ہو گا، اتنا زیادہ ثواب ملے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کرام رضوان اللّٰہ علیہم اجمعین کے بارے میں ارشاد فرمایا تھا کہ اگر وہ ایک مُد خیرات کر دیں، تو وہ باقی لوگوں کے احد کے پہاڑ کے برابر سونا خیرات کرنے سے افضل ہے۔ یہ نیت کی بنا پر ہی تھا۔ ان کی اتنی پاک نیت تھی۔ بلکہ یہاں تک فرماتے ہیں کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ما بین جو اختلاف تھا، وہ آج کے دور میں اولیاء اللہ میں اتفاق سے زیادہ مقبول تھا۔ کیونکہ ہمارے اتفاق میں کچھ غرض شامل ہوتی ہے۔ نیت پوری طرح صحیح نہیں ہوتی۔ کچھ غرض شامل ہوتی ہے کہ فلاں خفا نہ ہو جائے، یہ نہ ہو جائے، وہ نہ ہو جائے۔ لہٰذا جس میں جس درجہ آلودگی ہو گی، اس کا وہی درجہ ہو گا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اللہ کے لئے اختلاف کرتے تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کا کوئی حکم رہ نہ جائے، لہٰذا وہ اسی لئے اختلاف کرتے تھے۔ چنانچہ اللہ کے لئے اختلاف کرنا اور اپنی غرض کے لئے اتفاق کرنا؛ ان میں فرق تو ہے۔ بظاہر اتفاق میں اچھائی نظر آتی ہے اور اختلاف میں برائی نظر آتی ہے، لیکن وہ حضرات اللہ کی رضا کے لئے اختلاف کرتے تھے۔ مثلاً: اگر کسی نے مسجد کے پاس کِلّا گاڑ دیا تاکہ کوئی جانور وغیرہ باندھنا چاہیں، تو باند سکیں، اور دوسرے نے اسے نکال دیا کہ کہیں کسی کو ٹھوکر نہ لگے۔ ان دونوں کو اپنی اپنی نیت کا ثواب مل گیا۔ حالانکہ عمل مختلف ہے، لیکن ثواب دونوں کو اپنی اپنی نیت کا مل رہا ہے۔ پس پتا چلا کہ نیت بنیادی چیز ہے، عمل اس کے پیچھے ہے۔ عمل اس پر منحصر ہے۔ جیسے فرمایا گیا: إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ (بخاری شریف، حدیث نمبر: 1)
ترجمہ: ’’اعمال کا دار و مدار نیتوں پر ہے‘‘
لہٰذا ہم سے ہماری نیتوں کا حساب ہو گا۔ اس وجہ سے جس نے جس نیت کے ساتھ کوئی کام کیا، وہ نیت اس کے ساتھ رہے گی۔ مثلاً: ایک شخص اچھی نیت سے نماز پڑھاتا ہے اور دوسرا آدمی نماز نہیں پڑھاتا اور وہ بھی اچھی نیت سے نہیں پڑھا رہا، ان دونوں کو اجر مل رہا ہے۔ ایک کو نماز پڑھانے پہ زیادہ اجر مل رہا ہے اور دوسرے کو نہ پڑھانے پہ زیادہ اجر مل رہا ہے۔ ایک آدمی خدمت کر رہا ہے اچھی نیت سے، دوسرا آدمی خدمت لے رہا ہے اچھی نیت سے، دونوں کو اجر مل رہا ہے۔ ایک دفعہ ایسا ہوا کہ حضرت مولانا یعقوب نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ بہت چکر لگانے لگے، بہت زیادہ مشی کرتے تھے۔ لوگوں نے پوچھا: کیا بات ہے؟ آج کل تو آپ نظر ہی نہیں آتے، ہر وقت مشی کرتے رہتے ہیں۔ آخر کوئی حد بھی ہوتی ہے؟ حضرت بڑے مجذوب تھے، اللہ والے تھے۔ فرمایا: مجھ سے فرمایا گیا ہے کہ جہاں جہاں تیرے قدم جائیں گے، وہاں تک آبادی کروں گا اور وہ جگہ آباد ہو جائے گی۔ اس لئے اب میں روزانہ زیادہ سے زیادہ چلتا ہوں، تاکہ یہ جگہ آباد ہو جائے۔ یہ بظاہر تو سیر ہے، وہ ویسے ہی سیر نہیں تھی، بلکہ وہ سیر الی اللہ تھی۔ یہ بات عام لوگ نہیں جانتے، لہذا لوگ اعتراض بھی کر دیتے ہیں۔ کمال کی بات ہے کہ معترض اعتراض کرتا ہے کہ شاید یہ اس سے خراب ہو رہا ہے، حالانکہ اس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اس کو دے رہا ہوتا ہے۔ ایک دفعہ مجھے کسی نے کہا کہ مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے گھر پر ٹیلی ویژن کا انٹینا ہے۔ بیعت کے بعد میں نے خود مولانا صاحب سے پوچھا تھا کہ حضرت! ٹیلی ویژن کے بارے میں آپ کیا ارشاد فرماتے ہیں؟ فرمایا: میں تو نہیں دیکھتا۔ مجھے پیغام کا پتا چل گیا کہ حضرت نہیں دیکھتے، اس لئے مجھے نہیں دیکھنا چاہئے۔ لہذا مجھے تو پتا تھا۔ بہر حال! اس نے یہ بات کہی۔ بعد میں جب میں نے تحقیق کی، تو پتا چلا کہ مولانا صاحب کی ایک بھانجی تھی، جس کا ذہنی توازن درست نہیں تھا اور اس کی والدہ بیوہ تھی یعنی وہ لڑکی یتیم تھی اور مولانا صاحب کے پاس ٹھہری ہوئی تھی۔ اس کی بیوہ ماں نے اپنی بچی کو باہر سے بچانے کے لئے ٹیلی ویژن اپنے کمرے میں لگایا تھا، کیونکہ وہ مرفوع القلم تھی، کیونکہ پاگل مرفوع القلم ہوتا ہے۔ اس پر شریعت کا حکم لاگو نہیں ہوتا۔ مولانا صاحب نے اس کو برداشت کیا تھا۔ میں نے سوچا کہ کمال کی بات ہے کہ مولانا صاحب کو اس پر کتنی تکلیف ہو رہی ہو گی اور اس پر اللہ پاک حضرت کو کتنا اجر دے رہے ہوں گے۔ اور لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ کام غلط ہے اور ان پہ اعتراض کرتے ہیں۔
اسی طرح تسنیم الحق صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں کچھ لوگوں نے کہا کہ حضرت ٹیلی ویژن دیکھتے ہیں۔ میرا حضرت کے ساتھ چونکہ بہت قریبی تعلق تھا، مجھے ہر قسم کے سوال کرنے کی اجازت تھی۔ میں نے حضرت سے عرض کیا کہ حضرت! آپ کے بارے میں میں نے یہ سنا ہے، چونکہ مجھے جواب دینا ہوتا ہے، لہذا آپ سے اس لئے پوچھ رہا ہوں کہ یہ کیا بات ہے؟ حضرت مسکرائے اور فرمایا: یہ تو میں نہیں کہہ سکتا کہ کہیں میں مہمان ہو چکا ہوں (چونکہ حضرت مفلوج تھے) اور اگر مجھے کسی ایسے کمرے میں ٹھہرایا گیا، جہاں پہ ٹیلی ویژن ہو، جس کی وجہ سے کسی نے کہا ہو، تو ٹھیک ہے، وہ کہہ سکتا ہیں۔ لیکن خود میرے گھر میں تو نہیں ہے اور نہ میں دیکھتا ہوں۔ بلکہ تیری پھوپھی نے بارہا کہا ہے کہ بچیاں ٹیلی ویژن کے لئے کیوں ادھر ادھر جائیں؟ ان کے لئے ٹیلی ویژن رکھ لیتے ہیں۔ میں نے اتنا کہا کہ میں معذور آدمی ہوں اور تو کچھ نہیں کر سکتا، ہاں اس کا شیشہ اپنے ہاتھ سے توڑ سکتا ہوں لہٰذا تو لاتی رہ اور میں شیشہ توڑتا رہوں گا۔ اب دیکھیں! حضرت کا معاملہ کیا تھا اور لوگوں کا خیال کیا تھا۔ ایک دفعہ ایک بزرگ دریا کے کنارے کہیں جا رہے تھے۔ دیکھا کہ ایک عورت لیٹی ہوئی ہے اور اس کے اوپر ایک صاحب نے اس کے منہ میں کوئی بوتل وغیرہ دی ہوئی ہے۔ انہوں نے زبان سے تو کچھ نہیں کہا، صرف ان کے دل میں خیال آیا کہ بے حیائی کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔ اس طرح کھلی بے حیائی ہو رہی ہے۔ اسی دوران ایک دم شور مچ گیا۔ دیکھا کہ دریا میں ایک کشتی الٹ گئی ہے، تو وہ آدمی اس عورت کو چھوڑ کر بھاگا اور دریا میں چھلانگ لگا دی۔ اور دریا میں گیارہ بارہ ڈوبنے والوں کو بچا لیا اور پھر واپس آ کر ان کی طرف منہ کر کے کہا: یہ میری والدہ ہے، یہ بیمار ہے، میں اس کو دوائی پلا رہا تھا اور میرے بارے میں تو نے یہ گمان کیا۔ میں نے الحمد للہ گیارہ لوگوں کو ڈوبنے سے بچا لیا ہے، تو نے کیا کیا؟ گویا فوراً ان کو تبنیہ ہو گئی کہ میں کیا سوچ رہا تھا اور اصل حقیقت کیا ہے۔ لہٰذا نیت بہت بڑی چیز ہوتی ہے۔ انسان اگر اپنی نیت صحیح کر لے تو بہت سارے مسائل حل ہو جائیں۔
مجھے حضرت نے کوئی مخصوص مراقبہ نہیں بتایا تھا۔ جب کبھی کوئی اس قسم کا خیال آتا، تو میں حضرت کے ساتھ شئر کر لیتا کہ حضرت اب تو مجھے یہ سوچ آ رہی ہے، یہ ہو رہا ہے۔ فرمایا: ہاں یہ فلاں مراقبہ ہے، اب اس کو نیت کر کے کریں تاکہ ثواب ملے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر خود بخود کچھ ہو رہا ہو تو اس وقت تک اس کا ثواب نہیں مل رہا، جب تک کہ آپ نے اس کی نیت نہیں کی۔ گویا نیت اتنی ضروری ہے۔ کیونکہ نیت کے بغیر عمل نہیں ہے۔ بے نیتی کے ساتھ عمل نہیں ہوتا۔ لہٰذا اپنی نیتوں کو درست کرنا چاہئے۔ نیتوں کو درست کرنا دنیا کا بہت بڑا مفید کام ہے۔ بہت عقل مندی کا کام ہے۔ بغیر نیتوں کو درست کئے انسان کے اعمال درست نہیں ہو سکتے۔ آگے فرمایا:
متن:
اور اللہ تعالیٰ کی جانب سے خلعت ہوتی ہے۔ یہی وجہ تھی کہ بشر حافی رحمۃ اللہ علیہ نے جناب حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ کی میت پر نماز جنازہ نہیں پڑھی، دوستوں نے اس پر اعتراض کیا کہ تم نے حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ پر نمازہ جنازہ نہیں پڑھی۔ بشر حافی رحمۃ اللہ علیہ نے جواب میں فرمایا کہ "لَا أَجِدُ نِیَّۃً" ”مجھے نیت حاصل نہیں تھی“ انہوں نے کہا کہ سب دوست مذکورہ نیت سے محروم تھے۔ پس نماز میں اس قسم کی نیت درکار ہوتی ہے تاکہ نماز ادا کی جا سکے۔ نیت کے بعد تکبیر کہنا ہے تاکہ نماز میں جو باطل سامنے ہو سب کو آگ میں جلا ڈالے اور نماز میں باطل کا شائبہ تک نہ رہے۔
تشریح:
تکبیر کا مطلب کیا ہے؟ لفظِ تکبیر ہم بہت کہتے ہیں اور ’’اَللہُ اَکْبَرْ‘‘ بھی بہت کہتے ہیں، لیکن ’’اَللہُ اَکْبَرْ‘‘ کا تعلق دل کے ساتھ ہے۔ ’’اَکْبَرْ‘‘ یعنی میں کسی کو بڑا سمجھتا ہوں، تو کتنا بڑا سمجھتا ہوں؟ یہ چیز میرے دل کے ساتھ تعلق رکھتی ہے۔ ظاہر ہے کہ میں ہر چیز کو بڑا کہہ سکتا ہوں۔ جیسے یہ بڑی بوتل ہے، یہ بڑی فریج ہے، یہ بڑا فلاں ہے، یہ بڑا فلاں ہے۔ گویا میرے ذہن کے اندر ایک تصور ہوتا ہے کہ وہ کتنی بڑی چیز ہے۔ جب ہم ’’اَللّٰہُ اَکْبَرْ‘‘ کہتے ہیں کہ اللہ سب سے بڑے ہیں، تو میرے خیال میں جو چیزیں میرے لئے اہم ہیں اور وہ اللہ کی اس بڑائی میں حائل ہیں، تو گویا میں اللہ پاک کو اتنا بڑا نہیں سمجھ رہا جیسا ہونا چاہئے۔ جس چیز کی طرف دیکھ رہا ہوں، تو گویا میں اس کو اللہ تعالیٰ سے زیادہ توجہ دے رہا ہوں۔ تو یہ کتنی خطرناک بات ہے۔ بارہا ایسا ہوا کہ اگر نیت میں کسی بزرگ کا، کسی ولی کا، کسی بڑے کا خیال آیا، تو اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ فوراً میرے دل میں یہ تقاضا پیدا ہوتا ہے کہ نماز میں نہیں، نماز میں تو صرف اللہ ہی ہے۔ نماز میں اور کوئی نہیں ہے۔ نماز کے اندر ہم جو تکبیر کہتے ہیں: ’’اَللّٰہُ اَکْبَرْ‘‘ اس ’’اَللّٰہُ اَکْبَرْ‘‘ کے ساتھ گویا ہم ہر غیر کو پیچھے کر دیتے ہیں۔ ’’اَللّٰہُ اَکْبَرْ‘‘ کے ساتھ رفع الیدین یعنی اپنی ہتھیلیوں کو کعبہ کی طرف کر کے گویا ہم تمام چیزوں کو پیچھے کر دیتے ہیں۔ جیسے ہم کسی کو ہاتھ سے اشارہ کر کے کہتے ہیں کہ دفع ہو جا۔ گویا ہم دونوں ہاتھوں سے دفع کرتے ہیں اور سامنے کی طرف نہیں کرتے، بلکہ پیچھے کی طرف کرتے ہیں کہ باقی ساری چیزیں اب میرے سامنے نہیں ہیں۔ میرے سامنے سے ہٹ جاؤ، اب میرے سامنے کچھ بھی نہ آئے۔ کیونکہ میں اب اللہ پاک کے دربار میں داخل ہو رہا ہوں۔ جب اللہ کے دربار میں داخل ہوں، تو وہاں اللہ کے سوا میرے سامنے اور کوئی نہیں آنا چاہئے، ورنہ پھر اتنا ہی میں اللہ تعالیٰ کے وصال سے محروم ہو جاؤں گا۔ اور یہ ہر شخص کی اپنی اپنی معرفت ہے۔ جس کی جتنی معرفت ہے، اس کی تکبیر میں اتنا وزن ہو گا، اتنا زور ہو گا، اتنا ہی وہ غیر اللہ کو دفع کر سکے گا۔ نتیجتاً اتنا اللہ جل شانہ کا قرب حاصل کر سکے گا۔ آگے فرمایا:
متن:
تاکہ نماز میں جو باطل سامنے ہو سب کو آگ میں جلا ڈالے (یعنی دفعہ کرے) اور نماز میں باطل کا شائبہ تک نہ رہے اور سب حق ہی حق رہ جائے۔ (’’اَلْحَقُّ لِلْحَقِّ‘‘ سب حق ہی حق رہ جائے) ﴿قُلْ جَاءَ الْحَقُّ وَ زَهَقَ الْبَاطِلُ...﴾ (بنی اسرائیل: 81)
تشریح:
اس واقعے کو ذرا دل میں لے کر آئیں کہ یہ آیت کہاں پڑھی گئی تھی؟ اس کا شانِ نزول کیا تھا؟ چنانچہ جب آپ ﷺ خانہ کعبہ سے بت گرا رہے تھے اور ساتھ ساتھ ﴿قُلْ جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ اِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوْقًا (بنی اسرائیل: 81) پڑھ رہے تھے۔ وہ تو خانہ کعبہ تھا۔ اسی طرح میرے دل کے اندر جتنے بت ہیں، وہ سارے کے سارے گرا دو۔ سارے کے سارے دفع کر دو اور یقین جانئے کہ ہر چیز کی قرآن پاک میں دلیل موجود ہے۔ ذرا سمجھنے کی بات ہے۔ اللہ پاک فرماتے ہیں:
﴿اَفَرَأَیْتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰهَهٗ هَوٰىهُ (الجاثیہ: 23)
ترجمہ: ’’پھر کیا تم نے اسے بھی دیکھا جس نے اپنا خدا اپنی نفسانی خواہش کو بنا لیا ہے‘‘۔
اصل میں ہماری ہر خواہشِ نفس بت ہے۔ ان بتوں نے ہمارے تعلق کو خراب کیا ہے۔ البتہ یہ باطنی بت ہے، ظاہری بت نہیں ہے۔ جلی نہیں ہے، خفی ہے۔ اگر جلی ہو تو پھر تو انسان کافر اور مشرک ہو جاتا ہے۔ یہ خفی ہے، اسی لئے ریا خفی شرک ہے۔ ریا کی وجہ سے انسان اس طرح مشرک نہیں ہوتا، جس طرح بت کو ماننے سے مشرک ہوتا ہے اور ما سوی اللہ خداؤں کو ماننے سے مشرک ہوتا ہے۔ لیکن چونکہ یہ اللہ تعالیٰ سے تعلق میں رکاوٹ ڈالتے ہیں، اللہ تعالیٰ تک پہنچنے میں حائل ہیں۔ لہذا یہ بھی بُت ہیں۔ جس کا جتنا بڑا بت ہوتا ہے، وہ اسی کے حساب سے اللہ تعالیٰ سے دور ہوتا ہے۔ جنہوں نے خواہشاتِ نفس کو اپنا معبود بنایا ہوتا ہے، وہ اپنی خواہشاتِ نفس کی وجہ سے مار کھا رہے ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے دور ہو رہے ہوتے ہیں۔ یہاں فرمایا:
﴿قُلْ جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ اِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوْقًا (بنی اسرائیل: 81) یعنی اس آیت کے مطابق اپنے دل سے تمام باطل چیزوں کو ہٹا دو۔ آگے فرمایا:
متن:
اے بھائی! پروانہ جو آگ کا عاشق ہے، جب وہ اپنے آپ کو آگ کے حوالے کرتا ہے اور آگ اس کو قبول کرتی ہے اور وہ پروانہ غیر کی نفی کرتا ہے تو اس کو آگ ہی سے قوت حاصل ہوتی ہے، اور کسی غیر کے بغیر اُس کو اُس سے قوت حاصل ہوتی ہے۔ اے بھائی! میں نہیں جانتا کہ کیا لکھوں۔ یہ ایسا مقام ہے جہاں زمان و مکان اُٹھ جاتے ہیں۔ پس محمد حسین کے اِن اشعار پر غور کرنا چاہئے۔
تشریح:
واقعتاً اگر انسان غور کرے، تو زمان و مکان کا تعلق انسان کے ساتھ موجود ہے اور اس دنیا کے ساتھ ہے۔ ایک دفعہ کسی کو بادشاہِ وقت نے کہا تھا کہ میری سلطنت سے اتنی دیر میں نکل جاؤ۔ اس وقت سلطنت کی سرحدیں کافی دور دور تک ہوتی تھیں، اور وقت کم تھا۔ اس سے پتا چلا کہ اس کو مارنے کا ارادہ ہے، یعنی اگر تو اتنی دیر تک نہیں نکلا، تو میں تجھے قتل کر دوں گا۔ اس نے وہاں اس وقت کے ایک بزرگ سے مشورہ کیا کہ میں کیا کروں؟ کیونکہ مجھے یہ کہا گیا ہے۔ اس بزرگ نے فرمایا کہ جا کر مسجد میں بیٹھ جاؤ۔ اگر وہ مسجد میں مارنے کے لئے آ جائیں، تو ان کو کہہ دو کہ مسجد خدا کا گھر ہے، یہاں تمہاری نہیں چلتی۔ میں تمہاری سلطنت میں نہیں ہوں۔ مسجد میں تمہاری حکومت نہیں ہے۔ چنانچہ اس نے وہی کیا۔ وہ چونکہ سمجھ دار لوگ تھے، تو انہوں نے مان لیا کہ واقعی مسجد میں تو ہماری حکومت نہیں ہے۔ بہر حال! انسان کو زمان و مکان کے ساتھ تعلق حاصل ہے۔ جب اللہ کی بات آ گئی، تو پھر ساری چیزیں ہٹ گئیں۔ لہٰذا انسان اگر اللہ کے ساتھ ہو، تو وہ تمام چیزوں کو بھول جائے گا۔ زمان کو بھی بھول جائے گا، مکان کو بھی بھول جائے گا۔ جتنے اس کو زمان و مکان یاد ہیں، اتنا ہی وہ محروم ہے۔ لہٰذا اس کو زمان و مکان کو چھوڑ دینا چاہئے۔ بس اپنے آپ کو اللہ کے حوالے کرنا چاہئے، لیکن یہ ساری باتیں وحدۃ الوجود کی ہیں۔ یہاں تک معاملہ راستے کا ہے کہ راستہ یہی ہے، لیکن اس کے بعد جب اس کو اللہ جل شانہ دوبارہ واپس لوٹائے گا اور وحدۃ الشہود کی کیفیت میں پہنچائے گا، تو پھر وہ مخلوق سے نکل کر اللہ کا ہو کر پھر مخلوق کے مطابق جو اللہ پاک کا حکم ہو گا، اس پر عمل کرے گا۔ پھر اس کو یہ پتا ہو گا کہ باقی لوگوں کے حقوق کہیں میری نماز کی وجہ سے متاثر تو نہیں ہو رہے۔ مثلاً: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز ایسی تھی کہ پیچھے نماز پڑھنے والی عورتوں کے بچوں کے رونے کی آواز سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز مختصر فرما دیتے۔ گویا اس وقت آپ ﷺ کو سب یاد تھا، لیکن چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے پاس تھے، اس لئے آپ ﷺ اللہ ہی کے لئے کر رہے تھے۔ اپنے لئے نہیں ہوتا تھا۔
صحیح بات یہ ہے کہ اس وقت جو بظاہر انتہائی جذب کی حالت میں قرآن پڑھ رہے ہیں، ان میں بھی بہت کم لوگ ہیں، جو اللہ کے لئے پڑھ رہے ہوتے ہیں۔ جس میں وہ مخلوق کو بھول جاتے ہیں کہ وہ دھوپ میں تپ رہے ہیں یا ان کے ساتھ کیا ہو رہا ہے، ان کو اس کی کوئی پروا نہیں ہوتی۔ یہ اللہ کے لئے نہیں کر رہے ہوتے بلکہ اپنی مشہوری کے لئے کر رہے ہوتے ہیں۔ یہ بالکل وہی بات ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا اختلاف آج کل کے اولیاء کرام کے اتفاق سے افضل تھا۔ اسی طرح آج کل کے دور کا انہماک فی الصلوٰۃ کا حال ہے۔ کیونکہ یہ اپنے نفس کے لئے ہے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اس وقت ان تمام چیزوں میں لوگوں کا خیال رکھنا افضل ہے۔ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’صَلُّوْا كَمَا رَأَيْتُمُوْنِيْ أُصَلِّيْ‘‘ (بخاری شریف، حدیث نمبر: 605)
ترجمہ: ’’نماز اس طرح پڑھو، جس طرح تم مجھے نماز پڑھتے ہوئے دیکھتے ہو‘‘۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کیسے پڑھی اور کیسے پڑھائی؟ اس میں اگر غور کریں، تو معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی انفرادی نماز بڑی لمبی ہوتی تھی اور اجتماعی نماز یعنی جماعت کی نماز مختصر ہوتی تھی۔ اور آج کل صورتحال یہ ہے کہ جماعت کی نماز لمبی اور اپنی انفرادی نماز مختصر ہوتی ہے۔ ایک دفعہ ہماری مسجد کے امام صاحب بڑی لمبی نماز پڑھاتے تھے۔ سترہ اٹھارہ منٹ میں چار رکعت پڑھاتے تھے۔ میں نے ان کی چار رکعت سنتوں کو باقاعدہ نوٹ کیا کہ وہ کتنی دیر میں پڑھتے ہیں، تو وہی چھ سات منٹ لگاتے تھے۔ وہی اُلٹی بات کہ اپنی انفرادی نماز کم وقت میں اور جماعت کی نماز لمبی پڑھتے تھے۔ بظاہر تو یہ بات لوگوں کی نظر میں اچھی ہے کہ واہ جی واہ، حالانکہ واہ جی سے بات نہیں بنے گی۔ یہ بات دیکھی جائے گی کہ سنت کے مطابق کون سا عمل ہے۔ سنت کے مطابق تو اپنی انفرادی نماز لمبی ہونی چاہئے، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی انفرادی نماز اتنی لمبی ہوتی تھی کہ رات کی نماز میں پاؤں میں ورم آ جاتا تھا اور اجتماعی نماز ایسی ہوتی کہ بچوں کے شور سے اس کو مختصر فرما دیتے تھے۔
آگے حضرت نے فرمایا کہ محمد حسین کے ان اشعار میں غور کر لو۔ وہ اشعار تو میں نے پڑھ دیئے ہیں۔ اب ان کا ترجمہ دوبارہ پڑھ دیتا ہوں۔
متن:
”اُس ایک نظر کے نور اور روشنی سے میرا سارا وجود سراسر محو ہو جاتا ہے۔
تشریح:
یعنی جب میں نیت کر لیتا ہوں، تو اس کے بعد میرا سارا وجود سراسر محو ہو جاتا ہے۔ میں ’’اَللہُ اَکْبَرْ‘‘ کہہ کر اپنے آپ کو ختم کر دیتا ہوں۔ میں اب کہیں نہیں ہوتا۔
متن:
بادشاہ کے دبدبے کی شعاعِ آفتاب کی وجہ سے میں اس وقت راہ پر سے اُٹھ جاتا ہوں۔ جب میرے وجود کا نام تک نہیں رہ جاتا، تو میں آپ کی خدمت میں سجدہ ریز کیسے ہوا؟
تشریح:
اس کو ’’فناء الفنا‘‘ کہتے ہیں۔ یعنی فنا کی جو اپنی کیفیت ہے، وہ بھی فانی ہو گئی۔ یعنی جب میں نے سجدہ کرنا تھا، تو میں رہا ہی نہیں تو میں نے سجدہ کیسے کیا؟
متن:
اگر تُو اس وقت مجھے دیکھتا ہے، تو میں نہیں ہوتا بلکہ وہ جہان کا بادشاہ موجود ہوتا ہے۔
تشریح:
حضرت مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ کمال ہے، کبھی کسی کو اس طرح دیکھا ہے کہ آپ کے ساتھ بیٹھا ہو اور اچانک کہہ دے: السلام علیکم۔ اگر کوئی یوں کہہ دے تو آپ کیا کہیں گے: خیریت تو ہے!، کیوں السلام علیکم کہہ دیا؟ آپ تو ادھر ہی بیٹھے ہوئے تھے۔ لیکن نماز میں ہمیشہ اسی طرح ہوتا ہے کہ انسان آپ کے ساتھ نماز پڑھ رہا ہے اور کہتا ہے: السلام علیکم۔ کوئی اس پر حیرت نہیں کرتا۔ حالانکہ سوچنا چاہئے کہ کیوں سلام کر رہا ہے۔ اصل میں وہ یہاں تھا ہی نہیں۔ ابھی ہی نماز سے باہر آیا، وہ یہاں تھا ہی نہیں، وہ اللہ کے پاس تھا۔ ’’اَللہُ اَکْبَرْ‘‘ کے ساتھ اللہ کے پاس چلا گیا تھا۔
میں کہتا ہوں کہ طئ ارض کو لوگ بڑا سمجھتے ہیں۔ حالانکہ طئ ارض اس کے مقابلہ میں بہت کم ہے۔ کیونکہ آپ زمین میں ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچ جائیں، تو کیا ہو گیا؟ جنات بھی پہنچ جاتے ہیں۔ کیا آپ جن بن گئے؟ شریر جن بھی پہنچ جاتے ہیں۔ لہٰذا اس سے کیا ہو گیا کہ آپ ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچ گئے۔ اصل تو یہ ہے کہ آنِ واحد میں آپ یہاں ہوں اور یہاں نہ ہوں۔ جیسے آپ نے ’’اَللہُ اَکْبَرْ‘‘ کہہ دیا تو بس آپ ادھر نہ ہوں۔ اب آپ کا رابطہ ادھر سے منقطع ہو گیا اور جس وقت واپس آ رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں: السلام علیکم ورحمۃ اللہ، السلام علیکم ورحمۃ اللہ۔ اس وقت آپ دوبارہ واپس آ جائیں۔ آگے فرمایا:
متن:
میں نے پوچھا کہ اب میں نہیں جانتا کہ میں کون ہوں۔ میں بندہ نہیں ہوں، تو پھر کیا ہوں؟ میں یہ نہیں جانتا کہ تُو، میں ہے یا کہ میں ”تم“ ہوں۔ میں تمہاری ذات میں محو ہو گیا اور دوئی درمیان سے مٹ گئی“
تشریح:
یہ اصل میں وحدۃ الوجود کی بات ہے۔
متن:
سمجھنے والے ان باتوں کو سمجھ پاتے ہیں۔ اے میرے محبوب! بس جس چیز کی جانب روح مائل ہو کر اس جانب کا رُخ کرے، وہی اس کا قبلہ ہوتا ہے۔
تشریح:
میرا دل اگر کسی اور چیز کی طرف جا رہا ہے، تو قبلہ وہ ہو گیا۔ لیکن اگر میرا دل اللہ کی طرف جائے، تو اللہ تعالیٰ تو ہر جگہ ہے۔
متن:
﴿فَأَیْنَمَا تُوَلُّوْا فَثَمَّ وَجْہُ اللہِ﴾ (البقرہ: 115) ”سو جس طرف تو منہ کرو، وہاں ہی متوجہ ہے اللہ“ (شیخ الہند)
حاصل کلام یہ کہ جب بندہ اس مقام تک پہنچ جائے، جس تک کہ ہم آواز دیتے ہیں تو وہاں نہ دِن ہوتا ہے، نہ رات ہوتی ہے۔ "لَیْسَ عِنْدَ اللہِ صَبَاحٌ وَّلَا مَسَاءٌ" ”اللہ تعالیٰ کے نزدیک نہ صبح ہوتی ہے، نہ شام“ تو پھر پانچ وقتوں کو کیسے دریافت کرے گا۔ مگر جب یہ آیت ﴿وَالَّذِیْنَ ھُمْ عَلٰی صَلٰوتِھِمْ دَائِمُوْنَ﴾ (المعارج: 23) ”اور وہ لوگ جو اپنی نماز پر قائم ہیں“ اس گروہ کے بارے میں درست ہو۔ اس مقام پر شیخ محمد حسین نے لکھا ہے کہ میں کیا کروں کہ دنیا کے حال سے بے خبر راستے کے بچوں کی طرح ہوں، اس کا بیان اور تشریح نہیں کر سکتا، لیکن تکبیر اس طرح کہنی چاہئے کہ تُو دونوں جہانوں کو محو سمجھے اور ﴿إِنِّيْ ذَاھِبٌ إِلٰی رَبِّيْ سَیَھْدِیْنِ﴾ (الصافات: 99) ”میں جاتا ہوں اپنے رب کی طرف وہ مجھے راہ دے گا“ کے استقبال میں چلے اور مشاہدہ کرے
تشریح:
یعنی انسان کا تعلق اللہ کے ساتھ ہو اور اللہ تعالیٰ سے امید ہو۔ اللہ تعالیٰ پر بھروسہ ہو اور اپنی نیت کر لیں کہ اب میں نماز کے اندر داخل ہو رہا ہوں، اللہ تعالیٰ مجھے وہاں پہنچا دے گا، جہاں مجھے پہنچنا ہے اللہ کے بھروسہ پر۔ میرا جتنا بھروسہ کامل ہو گا، جتنی نیت کامل ہو گی، اس کے حساب سے اللہ تعالیٰ اس مقام تک پہنچا دے گا۔
متن:
کہ جس وقت ﴿إِنِّيْ وَجَّھْتُ وَجْھِيَ لِلَّذِيْ﴾ (الانعام: 79) کہے تو محبوب کے رخِ زیبا کو اپنا مرکز سمجھے
’’إِنِّيْ وَجَّھْتُ وَجْھِيَ لِلَّذِيْ...‘‘ یہ واقعتاً قرآن کریم کے اندر بہت محبت والا کلام ہے۔ جیسے صحابہ کرام کے بارے میں ہے: ﴿یُرِیْدُوْنَ وَجْهَهٗ (الکہف: 28) کہ وہ اللہ تعالیٰ کی رضا چاہتے ہیں۔ یہاں ’’یُرِیْدُوْنَ رِضَی اللّٰہِ‘‘ بھی ہو سکتا تھا، لیکن فرمایا گیا: ﴿یُرِیْدُوْنَ وَجْهَهٗیعنی اب اللہ کی توجہ چاہتے ہیں، کیونکہ جس کا رخ کسی کی طرف ہو، تو وہ اسی کی طرف متوجہ ہے۔
متن:
اور اس کو مرکز السمٰوٰت والارض تصور کرے اور اس مقام کو دیکھے کہ ﴿فَلَاۤ اُقْسِمُ بِمَا تُبْصِرُوْنَ وَمَا لَا تُبْصِرُوْنَ﴾ (الحاقۃ: 38-39) "سو قسم کھاتا ہوں اُن چیزوں کی جو دیکھتے ہو اور چیزیں کہ تم نہیں دیکھتے" اور وہ مرکز دیکھے جو "حَنِیْفًا" "مِلَّۃَ إبْرَاہِیْمَ" کا مرکز ہے، اور "مُسْلِمًا" کہہ کر استغفار کہے۔ اس کے بعد ﴿إِنَّ صَلوٰتِيْ وَ نُسُکِيْ وَ مَحْیَایَ وَ مَمَاتِيْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ﴾ (الانعام: 62)
تشریح:
سب نیتیں اس میں شامل ہیں۔
متن:
کہ "میری نماز اور میری قربانی اور میرا جینا اور میرا مرنا اللہ تعالیٰ ہی کے لئے ہے، جو پالنے والا سارے جہان کا ہے" اور ان سب کو تو ظاہر اور عیاں دیکھے اور غیر کو شوق کی آگ سے جلتا ہوا کرے۔ اس کے بعد اے بھائی! ﴿وَبِذَالِکَ اُمِرْتُ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُسْلِمِیْنَ﴾ (الانعام: 163) "مجھے اس کا حکم دیا گیا ہے اور میں پہلا مسلمان ہوں" کی مبارک آیت تم کو مسلمانی سکھائے۔ اس کے بعد ﴿أَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ﴾ کہنا اس مقام پر درست ہو گا۔
میرے خیال میں اس مقام کے لحاظ سے یہ کافی ہے۔ اور یہ بڑا مبارک مقام ہے۔ ان شاء اللہ اگلے بیان میں نماز کا باقی طریقہ بھی اس عنوان کے ساتھ سمجھا دیا جائے گا۔
اللہ جل شانہ ہم سب کو عمل کی توفیق عطا فرما دے۔
وَمَا عَلَیْنَآ اِلَّا الْبَلَاغُ الْمُبِیْنُ