اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
﴿وَنَفْسٍ وَّمَا سَوّٰىهَا 0 فَاَلْهَمَهَا فُجُوْرَهَا وَتَقْوٰىهَا قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىهَا وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰىهَا﴾ (الشمس: 7-10)
جناب ڈاکٹر صاحب اور مقتدر اساتذہ کرام! یقیناً میرے لئے یہ بہت بڑی سعادت کی بات ہے کہ ایک دینی خدمت کے لئے آپ کے پاس حاضر ہوا ہوں۔ یہ جو عنوان یہاں لکھا گیا ہے، جس کی طرف حضرت ڈاکٹر صاحب نے اشارہ فرمایا ہے: ’’نظامِ تصوف سے گزری ہوئی شخصیت معاشرے کے لئے عملی نمونہ ہے‘‘ یہ اتنی بڑی حقیقت ہے، جس کا کوئی انکار نہیں کر سکتا۔ لیکن آج کل کے دور میں جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ ثابت کرنے کی پوری مہارت لوگوں کے پاس موجود ہے۔ لہٰذا جو صحیح چیزیں ہوتی ہیں، ان سے لوگوں کو متنفر کیا جاتا ہے، اور جو غلط چیزیں ہیں، ان پہ لوگوں کو لایا جاتا ہے۔ یہ پوری ایک سائنس develop ہوئی ہے۔ لیکن ان چیزوں پہ صرف رونا ٹھیک نہیں ہے کہ ہم روتے رہیں کہ اس طرح ہو رہا ہے، اس طرح ہو رہا ہے۔ بلکہ اس کا مدلل جواب دینا ضروری ہوتا ہے۔ آج کل کے حالات میں اس کے بارے میں کیا کہا جا سکتا ہے، یہ ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ در اصل ہماری ایک کمی ہے اور اس کمی کا ہمیں بڑا نقصان ہوا ہے۔ وہ کمی یہ ہے کہ ہم اپنے اکابر اور بزرگوں کی کتابیں نہیں پڑھتے۔ اس کی ایک وجہ بھی ہے، وہ وجہ بھی میں عرض کروں گا، لیکن اس کا نقصان یہ ہوا کہ ان کی کتابوں کا نچوڑ دوسرے لوگوں کی زبانوں میں اور دوسرے لوگوں کی تحقیقات میں لپٹا ہوا جب ہم تک پہنچتا ہے، تو اس میں بہت ساری چیزیں شامل ہو چکی ہوتی ہیں اور وہ اصلی صورت میں موجود نہیں ہوتا۔ نتیجتاً بد گمانی کی فضا قائم ہو جاتی ہے۔ جیسے: وحدتُ الوجود اور وحدتُ الشہود اور اس قسم کی باتیں لوگ کرتے ہیں، سوشل میڈیا پر بھی چلتی ہیں، لیکن ان کی اصل حقیقت سامنے نہیں آتی۔ اور اس میں قصور ہمارا ہے۔ حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ، حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ، حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ، شاہ اسماعیل شہید رحمۃ اللہ علیہ، ان حضرات نے اس پر بہت معرکۃُ الآراء کتابیں لکھی ہیں، تحقیقات موجود ہیں۔ میں آپ کو صرف ایک چھوٹا سا واقعہ بتاتا ہوں، جو اس مضمون سے متعلق بھی ہے اور میرا ذاتی تجربہ بھی ہے۔ میرا ایک دوست ہے عبد العلام شاہین، جو اپنے وقت کا بہت ذہین سٹوڈنٹ تھا، آج کل کراچی میں ہے۔ اس نے سوشالوجی میں داخلہ لیا، تو مجھے کہا کہ میں نے آج سوشالوجی میں داخلہ لیا ہے۔ میں نے کہا: سوشالوجی کیا ہوتا ہے؟ کہتا ہے: اس میں سوسائٹی یعنی عمرانیات کے متعلق باتیں ہوتی ہیں۔ میں نے کہا: ان شاء اللہ کل سے اس پر discussion کریں گے۔ اس نے مجھے contents بتا دیئے۔ ہمارے گاؤں کے پاس دریائے کابل ہے، تو ہم دریائے کابل کے کنارے چہل قدمی کرتے تھے۔ وہ مضمون بتاتا اور پھر ہم اس پر بات کرتے۔ چار پانچ دن کے بعد اس نے مجھے کہا کہ آپ نے یہ سوشالوجی کہاں سے پڑھی ہے؟ میں نے کہا: میں نے تو سوشالوجی کا نام ہی آپ سے سنا ہے۔ کہتا ہے: آپ تو میرے ساتھ ایسے discuss کر رہے ہیں کہ جیسے آپ اس کو پڑھ چکے ہیں۔ میں نے کہا: اچھا! بتاتا ہوں، آؤ میرے ساتھ۔ اس کو میں اپنی بیٹھک میں لے گیا اور حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے مواعظ کی چند جلدیں میں نے اٹھا کر اس کے سامنے رکھ دیں۔ چونکہ میں نے اس کی باقاعدہ کوئی تیاری تو نہیں کی تھی، اس لئے اس کی ورق گردانی کرنے لگا۔ ورق گردانی کرتے کرتے کوئی ایک پوائنٹ نکل آتا، تو وہ میں اس کو دکھاتا کہ اس میں یہ ہے۔ پھر اور ورق گردانی کرتے کرتے کوئی دوسرا پوائنٹ بتاتا۔ جب چار پانچ پوائنٹ میں نے بتائے، تو کہتا ہے: یہاں تو سب کچھ ہے۔ میں نے کہا: یہی بات تو ہم کہتے ہیں کہ یہاں سب کچھ ہے، لیکن لوگ اس کو پڑھتے نہیں ہیں۔ اس لئے نہیں پڑھتے کہ ہم نے عربی اور فارسی سے اپنے آپ کو اتنا دور کر دیا ہے کہ یہ چیزیں سمجھ نہیں آتیں۔ کیونکہ علمائے کرام کی باتوں میں تھوڑی بہت عربی تو آتی ہے۔ جیسے ہم آج کل بلا تکلف درمیان میں انگریزی کے الفاظ بولتے ہیں، یعنی زبان بولتے ہیں اردو یا پشتو کی، لیکن اس میں اتنی انگریزی ہوتی ہے کہ اس کو اردو یا پشتو کہنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ گفتگو کے درمیان انگریزی بولتے رہتے ہیں اور ہمیں پتا ہی نہیں چلتا کہ ہم کتنی انگریزی بول رہے ہیں۔ اسی طرح علمائے کرام کی باتوں میں عربی بھی ہوتی ہے، فارسی بھی ہوتی ہے۔ لیکن چونکہ ہم اس سے دور ہو چکے ہیں، لہٰذا ہمیں وہ زبان بڑی مشکل لگتی ہے، اور ہم کہتے ہیں کہ یہ ہماری سمجھ میں نہیں آتا۔ حالانکہ اس کو اگر بار بار پڑھا جائے، تو صرف چار پانچ دفعہ پڑھنے کے بعد انسان کو سمجھ بھی آنے لگتی ہے اور پھر مزید چیزیں بھی آسان ہو جاتی ہیں۔
بہرحال! میں اپنے موضوع سے زیادہ دور نہیں جانا چاہتا۔ چند بنیادی اصطلاحات جو اس عنوان میں ہیں۔ پہلی چیز ہے شخصیت (personality)۔ اس میں کیا ہوتا ہے؟ ہر شخص کی شخصیت تین چیزوں سے بنتی ہے: اس کی عقل سے، اس کے نفس کی حالت سے اور اس کے دل کی حالت سے۔ اس پر ان شاء اللہ میں بعد میں عرض کروں گا۔ لیکن اس وقت آپ اتنا سمجھ لیں کہ اگر ان تینوں کا امتزاج (combination) کچھ ایسی حالت اختیار کر لے جو کہ موزوں ترین (optimum) ہو، تو یہ بہترین شخصیت بن جاتی ہے۔ اور اگر اس میں گڑبڑ ہو، کوئی افراط و تفریط ہو، تو اس سے اتنے مسائل بنتے ہیں، جس طرح دوسری چیزوں میں بنتے ہیں۔ دوسرا لفظ ہے "معاشرہ"۔ معاشرہ کسے کہتے ہیں؟ جتنے بھی افراد مل کر رہتے ہیں، آپس میں ملتے ہیں، ایک دوسرے کے ساتھ تعلقات رکھتے ہیں، ایک دوسرے کے کام آتے ہیں، ان تمام چیزوں سے معاشرہ تشکیل پاتا ہے۔ اور یہ تمام چیزیں کرنے کو معاشرت کہتے ہیں۔ معاشرت ایسا مضمون ہے، جس کو بہت زیادہ نظر انداز کیا گیا ہے۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کے متعلق ارشاد فرمایا کہ بہت سارے لوگ صرف عبادات کو دین سمجھتے ہیں۔ ان میں سے چند ایک لوگ معاملات کو بھی دین سمجھ لیتے ہیں کہ یہ بھی دین ہے۔ لیکن معاشرت کو تو کوئی آج کل دین ہی نہیں سمجھتا۔ لہٰذا ہماری معاشرت دوسری بنیادوں پہ کھڑی ہے، جو ہماری اسلامی بنیادیں نہیں ہیں۔ نتیجتاً دوزخ کا معاشرہ بن جاتا ہے اور اس میں ایک دوسرے کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ مثلاً: معاشرہ میں یہ بھی ہوتا ہے کہ دکان دار گاہک پہ ظلم کر دے، گاہک اس کا بدلہ کسی اور سے لے لے۔ مثلاً: اگر وہ ڈاکٹر ہے، تو مریض سے اس کا بدلہ لے لے۔ وہ کسی اور سے اس کا بدلہ لے لے اور وہ پھر کسی اور سے اس کا بدلہ لے لے۔ اس طرح سارا معاشرہ بالکل جہنم کا معاشرہ بن جاتا ہے۔ اگر یہ سارے دوسروں کے مفادات کے لحاظ سے انصاف کرتے، تو پھر بھی یہی حالت رہتی، حالت تو تبدیل نہیں ہونی تھی، لیکن وہ معاشرہ جنت کا ہوتا، سب لوگ سکون کے ساتھ رہ رہے ہوتے۔ لیکن اب ایک دوسرے پر ظلم کر رہے ہیں، اور ظلم کا معاشرہ ہے۔ لہٰذا معاشرے کے بارے میں بھی کچھ نہ کچھ بات ہونی چاہئے۔ میں آپ کو اس کی ایک سائنسی طور پر (scientifically) مثال دے سکتا ہوں کہ اگر کوئی شخص سمندر میں پتھر پھینکے، تو ریاضی کے نقطہ نظر سے (Mathematical point of view) سے اس پتھر کا اثر (effect) پورے سمندر میں پہنچتا ہے، یعنی سمندر میں جو لہریں بنتی ہیں۔ اگرچہ کچھ دور جا کے وہ decay ہوتی نظر آتی ہیں جیسا کہ بالکل نہیں ہیں۔ لیکن اگر بہت حساس آلات (Sensitive instruments) ہوں، تو اس کا اثر بہت دور بھی محسوس کیا جا سکتا ہے۔ اور پھر جتنے بھی پتھر گرتے ہیں، ان سب کا ایک امتزاج (combination) بنتا ہے۔ اسی طرح جتنے افراد معاشرے کو متاثر کرتے ہیں، اس سے ان کی معاشرت یا اچھی بنتی ہے یا بری بنتی ہے، اس کا ایک خالص نتیجہ (Net result) بنتا ہے۔ اللہ جل شانہ نے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا ہے: ﴿ظَهَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ اَیْدِی النَّاسِ﴾ (الروم: 41)
ترجمہ: ’’لوگوں نے اپنے ہاتھوں جو کمائی کی، اس کی وجہ سے خشکی اور تری میں فساد پھیلا‘‘۔
یہ فساد اس لئے ہوتا ہے کہ اگر ہم صحیح طریقے سے زندگی نہ گزاریں، تو میرا ایک غلط بول، میرا غلط دیکھنا، میرا غلط سوچنا، میری غلط حرکت، یہ سب پورے معاشرے کو متاثر کر رہی ہیں۔ لہٰذا صرف میں اس سے متاثر نہیں ہوں گا، میرے پڑوسی بھی متاثر ہوں گے، میرے گھر والے بھی متاثر ہوں گے۔ یہاں تک کہ نفسیاتی ماہرین نے ایک بات کہی ہے، وَاللہُ اَعْلَمُ، کتنی صحیح ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ جس کو پاگل دیکھو، تو پاگل وہ بھی ہے، لیکن اصل پاگل اس کے پیچھے ہے، جس کا لوگوں کو پتا نہیں ہے، جس نے اس کو پاگل بنایا ہے۔ بہرحال! معاشرے کے اندر یہ مسائل چلتے ہیں۔ اللہ جل شانہ نے اس چیز کو سمجھانے کے لئے ایک پوری سورت یعنی سورت الشمس اتاری ہے ۔ ابھی میں قاری صاحب کی تلاوت سن رہا تھا، تو میں نے دل میں کہا: کاش! یہ سورت تلاوت فرماتے۔ اس موقع کے لئے بہترین presentation سورت الشمس سے ہو رہی تھی۔ اس پوری سورت میں اللہ جل شانہ نے نفس کو متعارف کروایا ہے اور پھر نفس کی اصلاح سے کیا ہوتا ہے اور نفس کی اصلاح نہ ہو، تو کیا ہوتا ہے اور پھر زبردست مثال دی اور مثال بھی معاشرے کی دی ہے یعنی اجتماعی مثال دی ہے۔ اس میں اللہ جل شانہ نے گیارہ قسمیں کھائی ہیں، حالانکہ ایک قسم بھی اللہ تعالیٰ کے لئے ضروری نہیں ہے، لیکن ہم لوگوں کے لئے اللہ پاک نے گیارہ قسمیں کھا کر فرمایا کہ اس نفس کے اندر میں نے دو چیزیں رکھی ہیں۔ یعنی اس کا فجور اور اس کا تقویٰ الہام کیا ہے۔ اور اگرچہ اجازت ہوتی ہے کہ آپ جو بھی اختیار کرنا چاہیں کر لیں، لیکن اس کے نتائج بھگتنے ہوتے ہیں۔ چنانچہ فرمایا: قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىهَا 0 وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰىهَا﴾ (الشمس: 9-10)
ترجمہ: ’’فلاح اسے ملے گی جو اس نفس کو پاکیزہ بنائے۔ اور نامراد وہ ہوگا، جو اس کو (گناہ میں) دھنسا دے‘‘۔
ابتدائی طور پر نفس کی یہ کیفیت ہوتی ہے کہ جب انسان پیدا ہوتا ہے، تو وہ نفسِ امّارہ کے ساتھ پیدا ہوتا ہے اور شیطان کے ساتھ پیدا ہوتا ہے۔ نفسِ امّارہ برائی کی طرف مائل کرنے والا نفس ہے۔ اگر اس کی تربیت نہ کی جائے، تو تباہی کے لئے یہی کافی ہے۔ جیسے فرمایا: ﴿وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰىهَا﴾ (الشمس: 10) اور اگر اس کی تربیت کی جائے، نفسِ مطمئنہ بنا دیا جائے، تو اس کے لئے فرماتے ہیں: ﴿یٰۤاَیَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَىِٕنَّةُ 0 ارْجِعِیْۤ اِلٰى رَبِّكِ رَاضِیَةً مَّرْضِیَّةً﴾ (الفجر: 27-28)
ترجمہ: ’’(البتہ نیک لوگوں سے کہا جائے گا کہ) اے وہ جان جو (اللہ کی اطاعت میں) چین پا چکی ہے۔ اپنے پروردگار کی طرف اس طرح لوٹ کر آ جا کہ تو اس سے راضی ہو، اور وہ تجھ سے راضی‘‘۔
اللہ پاک نے جو مثال دی ہے، وہ قومِ ثمود کی دی ہے کہ ایک شقی بد بخت اپنے نفس کی خواہش کو پورا کرنے کے لئے اس اونٹنی کو شہید کرنے کے لئے تیار ہو گیا جو معجزانہ طور پر اللہ پاک نے بھیجی تھی۔ چٹان سے برآمد ہوئی تھی اور بہت بڑی اونٹنی تھی۔ پانی پینے کی باریاں مقرر تھیں، تو وہ اپنی باری پہ پانی پیتی۔ بعد میں پھر دوسرے لوگ پانی پیتے۔ اس نے اپنے نفس کی خواہش کی بنیاد پر اس اونٹنی کو مارنا چاہا، تو پیغمبر نے کہا: ایسا نہ کرو، یہ اللہ کی اونٹنی ہے اور اس کی باری ہے۔ اس نے بات نہیں مانی اور اس کو شہید کر دیا۔ جب اس اونٹنی کو شہید کر دیا، تو ان پہ اللہ پاک کا عذاب نازل ہو گیا، پوری قوم کو ملیا میٹ کر دیا۔ چنانچہ فرمایا: ﴿فَدَمْدَمَ عَلَیْهِمْ رَبُّهُمْ بِذَنْۢبِهِمْ فَسَوّٰىهَا 0 وَلَا یَخَافُ عُقْبٰهَا﴾ (الشمس: 14-15)
ترجمہ: ’’نتیجہ یہ کہ ان کے پروردگار نے ان کے گناہ کی وجہ سے ان کی اینٹ سے اینٹ بجا کر سب کو برابر کر دیا۔ اور اللہ کو اس کے کسی برے انجام کا کوئی خوف نہیں ہے‘‘۔
گویا ایک شخص نے اپنے نفس کی خواہش کو پوری کیا اور دوسروں نے اپنے نفسوں کے لئے اس کا ساتھ دیا، یعنی اس کی مخالفت نہیں کی، تو نتیجتاً سب کے سب تباہ و برباد ہو گئے۔ بالکل اسی طرح ہمارے معاشرے تباہی کے دھانے پہ پہنچتے ہیں اور پھر بعد میں بھگتتے ہیں۔ لہٰذا ہمارا اپنا فائدہ اس میں ہے کہ ہم اس سسٹم کو سمجھ جائیں اور ہم اگر اپنے آپ کو بچانا چاہیں، تو کم از کم بچا سکیں اور کیسے معلوم ہو کہ کس طریقے سے ہم اپنے آپ کو بچا سکتے ہیں، اس کے لئے اللہ پاک نے ہم مسلمانوں کو جو نظام دیا ہے، وہ ہے شریعت۔ شریعت کیا چیز ہے؟ اللہ پاک نے اوامر و نواہی کے جو قوانین بھیجے ہیں کہ یہ کرو، یہ نہ کرو، یہ شریعت ہے۔ در اصل بہت ساری باتیں تو ہم جانتے ہی نہیں ہیں۔ مثلاً: اسلام نے جو باتیں بتائی ہیں، تو کچھ باتیں آج سے چودہ سو سال پہلے کسی کو پتا نہیں تھیں، لیکن آج ہمیں پتا ہیں۔ اور جو ابھی پتا نہیں ہیں، ممکن ہے کہ کچھ سالوں کے بعد وہ بھی پتا چلنا شروع ہو جائیں۔ لیکن اللہ جل شانہ نے ہمیں جو قوانین دیئے ہیں، یہ آفاقی قوانین ہیں، وہ روزِ ازل سے ہی ہیں، چاہے ہمیں پتا چلے یا نہ چلے۔ لہٰذا جو ایمان بالغیب کی بنیاد پر ان پر یقین کر لے، تو اس کی پوری دنیا بھی درست ہو جاتی ہے اور آخرت بھی درست ہو جاتی ہے۔ اور اگر کوئی ان پر یقین نہیں کرتا، عمل نہیں کرتا، تو ان کی دنیا بھی خراب ہو جاتی ہے اور آخرت بھی خراب ہو جاتی ہے۔ میرے ایک دوست ہیں ایرج جلال، جو جنیوا میں بہت بڑے عہدے پر تھے، شاید اب ریٹائر ہو چکے ہوں۔ انہوں نے مجھے کہا: شبیر! یار، یہ تم کیا کر رہے ہو؟ تم کہاں پر ہو؟ آج دنیا چاند پر پہنچ گئی ہے، تمہاری پرانی باتیں ہیں۔ افسوس کی بات ہے کہ جب ہم ذرا اونچے عہدہ پہ پہنچ جائیں، تو ہمیں مسلمان ہونا پسند نہیں ہوتا۔ یہ کتنی بد قسمتی کی بات ہے۔ بہرحال! مجھے اس نے کہا کہ لوگ کہاں پہنچ چکے ہیں اور آپ کیا کر رہے ہیں؟ میں نے کہا: میں آپ سے ایک سوال کرتا ہوں۔ میں نے اس سے پہلا سوال یہ کیا ہے کہ یہ بتاؤ کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین دنیا دار تھے یا دین دار؟ اس نے کہا کہ صحابہ کرام تو دین دار تھے۔ میں نے کہا: دنیا کے لحاظ سے دنیا میں کامیاب تھے یا نہیں تھے یا ہم ان سے زیادہ کامیاب ہیں؟ انہوں نے کہا: وہ کامیاب تھے۔ آپ حضرات بھی اس بات سے متفق ہوں گے کہ صحابہ کرام دنیا میں ہم سے زیادہ کامیاب تھے۔ آج کل ہمارے سر غیر مسلموں کے لئے فٹ بال بنے ہوئے ہیں، جس طرح بھی kick لگانا چاہیں، تو لگا لیتے ہیں۔ جب کہ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کا معاملہ یہ تھا کہ ان سے سارے ڈرتے تھے، تھرتھر کانپتے تھے۔ گویا دنیا میں بھی وہی کامیاب تھے، سکون بھی ان کے پاس سب سے زیادہ تھا۔ بہرحال! اس نے کہا کہ وہ دنیا میں زیادہ کامیاب تھے۔ میں نے کہا: آپ کی theory تو فیل ہو گئی۔ آپ تو کہتے ہیں کہ تم کہاں ہو؟ گویا آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ میں آپ کی طرح ہو جاؤں اور سب کچھ چھوڑ دوں، تو میں کامیاب ہو جاؤں گا۔ آپ تو جانتے ہیں کہ میں آپ کی طرح دنیا دار آدمی ہوں، صحابہ کرام تو دنیا دار نہیں تھے، وہ کامیاب تھے۔ اب میں ان کی طرح ہو جاؤں یا آپ کی طرح ہو جاؤں؟ بس اس کے بعد اس نے کچھ نہیں کہا۔ تو میں عرض کر رہا تھا کہ شریعت یہی چیز ہے۔ شریعت میں ہمارے سامنے یہی چیز رکھی گئی ہے۔ اب اگر اس پر عمل کر لیں، تو ہم کامیاب ہو جائیں گے۔ دنیا میں بھی اور دین میں بھی۔ لیکن عمل کیسے کریں؟ عمل کرنے میں جو رکاوٹیں ہیں، ان کو دور کرنا ہے۔ جیسے ہمارا نفس رکاوٹ ہے، ہمارا دل رکاوٹ ہوتا ہے، ہماری عقل رکاوٹ ہوتی ہے، ان کو کیسے ٹھیک کریں؟ اس کے لئے طریقت ہے۔ یعنی وہ طریقے (procedures) جن سے ہماری رکاوٹیں دور ہو جائیں، ان کو ہم طریقت کہتے ہیں۔ گویا عملی طور پر (practically) طریقت سے گزرنا ہمیں شریعت پر لاتا ہے اور شریعت پر آنا، یہ معاشرے کو بہتر کرتا ہے اور معاشرے کی بہتری ہماری دنیا و آخرت یعنی دونوں جہانوں کی کامیابی کی ضمانت ہمیں دیتی ہے۔ الحمد للہ اس سے یہ ٹاپک کچھ justify ہوا ہے۔ ان شاء اللہ ابھی detail میں جا رہے ہیں۔ لیکن کم از کم یہاں تک بات سمجھ میں آ گئی ہے۔
معاشرتی تعلیمات میں نبی کریم ﷺ فرماتے ہیں: ’’مسلمان وہ ہے، جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان سلامت رہیں‘‘۔ ہم میں ہر ایک چاہتا ہے کہ ہم دوسروں سے سلامت رہیں؟ کوئی بھی ایسا نہیں ہے، جو یہ نہ چاہتا ہو۔ لہٰذا جو اس پر عمل کرے گا، تو اس میں سب کا فائدہ ہو گا۔ دوسری حدیث مبارکہ ہے کہ: ’’تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا، جب تک کہ وہ اپنے بھائی کے لئے بھی وہی پسند نہ کرے، جو اپنے لئے کرتا ہے‘‘۔ آج کل کی management کا اعلیٰ اصول یہی ہے کہ جو فیصلہ (decision) کر رہا ہے، وہ یہ سوچ لے کہ جو میرے سامنے کھڑا ہے، یہ اگر میری جگہ پر ہوتا اور میں اس سے جو چاہتا، اب مجھے وہ اس کو دینا چاہئے۔ تاکہ یہ مطمئن رہے اور میرا کام بھی ہوتا رہے۔ جیسے میں نے پہلے بات کی تھی کہ معاشرے میں لوگ ایک دوسرے پہ ظلم کرتے ہیں۔ چنانچہ ایک دوسرے پہ ظلم کرنے کا کیا نقصان ہوتا ہے؟ بیڑا غرق تو فیکٹری کا ہوتا ہے۔ بیڑا غرق تو انسٹیٹوٹ کا ہوتا ہے۔ استاد اگر شاگرد پہ ظلم کرے اور شاگرد استاد پہ کرے، تو نتیجہ یہی ہو گا کہ انسٹیٹوٹ تباہ ہو جائے گا۔ لہٰذا ان چیزوں سے نکلنے کے لئے ہمارے پاس یہی راستہ ہے کہ ہم سوچیں کہ میں اگر ٹیچر ہوتا، تو میں سٹوڈنٹس سے کیا چاہتا۔ اور ٹیچر کو یہ سوچنا چاہئے کہ اگر میں سٹوڈنٹ ہوتا، تو میں ٹیچرز سے کیا چاہتا۔ گویا شاگرد اپنے آپ کو استاد فرض کرے اور استاد اپنے آپ شاگرد فرض کرے، تو اس وقت اس کا جو بہترین فیصلہ ہو گا، وہ نافذ کر لے، تو حالت بہتر ہو جائے گی۔
اصلاح کیوں ضروری ہے؟ در اصل ایک ہوتی ہے انفرادی اصلاح اور ایک ہوتی ہے اجتماعی اصلاح۔ انفرادی اصلاح بھی اہم ہے، کیونکہ اس کے بغیر اجتماعی اصلاح ہو نہیں سکتی۔ لیکن اجتماعی اصلاح بھی ضروری ہے، کیونکہ اس کے بغیر انفرادی اصلاح برقرار نہیں رہ سکتی، بہت مشکل ہو جاتی ہے۔ میں آپ کو انفرادی اصلاح کی ایک مثال دیتا ہوں۔ ایک دفعہ میں ایک جلسے میں بیٹھا تھا، جلسے میں بھگدڑ مچ گئی اور سارے لوگ اٹھ کھڑے ہوئے۔ پتا نہیں کہ کیا وجہ تھی، وہ تو مجھے معلوم نہیں ہوئی۔ اسٹیج سے ایک آواز آ رہی تھی کہ بزرگو اور دوستو! اپنے آپ کو بٹھاؤ، کسی اور کو نہ بٹھاؤ۔ بزرگو اور دوستو! اپنے آپ کو بٹھاؤ، کسی اور کو نہ بٹھاؤ۔ پانچ منٹ میں سارا مجمع بیٹھا ہوا تھا۔ یہ برکت اسی بات کی تھی کہ "اپنے آپ کو بٹھاؤ"۔ لیکن اگر ہر شخص دوسرے لوگوں کو بٹھاتا، تو مجمع کبھی نہ بیٹھتا۔ لہٰذا جو دوسروں کی اصلاح کرتے ہیں اور اپنے آپ کو بھول جاتے ہیں، ان کے ساتھ پھر یہی ہوتا ہے۔ سارے ایسے ہی ہوتے ہیں۔ چنانچہ اپنی اصلاح تو اس لحاظ سے ضروری ہے۔ لیکن اجتماعی اصلاح کے لئے کچھ اجتماعی قوانین کی ضرورت پڑتی ہے، تاکہ سب لوگ ان کو قوانین کی پابندی کریں۔ مثلاً: ٹریفک کے قوانین ہیں، اگر ہم سارے لوگ ٹریفک کے قوانین کی پابندی کریں، تو سب کو فائدہ ہو گا۔ اس میں پوری کوشش کی جاتی ہے کہ سب کو فائدہ ہو۔ اگر کوئی ایک خلاف ورزی کرتا ہے، تو اس کا سب کو نقصان ہوتا ہے اور جب سب اس کی پابندی کرتے ہیں، تو یہ سب کو فائدہ دیتا ہے۔ لیکن قوانین کا ہونا ضروری ہوتا ہے۔ کیونکہ اگر قوانین نہ ہوں، تو پابندی کس چیز کی کریں گے؟ لہٰذا معاشرت کے لئے اچھے قوانین کی ضرورت ہوتی ہے۔ پھر آپس میں خواہشات اور مفادات میں ٹکراؤ ہوتا ہے۔ لہٰذا اگر ہماری خواہشات اور مفادات کسی قانون کے ساتھ ٹکرا جائیں، تو آدمی اس کی پابندی نہیں کرتا اور اپنے آپ کو بھی خطرے میں ڈالتا ہے اور دوسروں کو بھی خطرے میں ڈالتا ہے۔
مثلاً: ایک شخص سگنل پر کھڑا ہے، سرخ بتی جل رہی ہے، لیکن ابھی کوئی گاڑی وغیرہ نظر نہیں آ رہی، وہ کہتا ہے کہ کوئی نہیں ہے، چلو۔ اور اچانک کسی جگہ سے کوئی آئے، تو بس حادثہ ہو گیا۔ کیونکہ حادثے کی تعریف یہی ہے کہ دو یا دو سے زیادہ افراد کا کسی جگہ کسی event کے لئے اتفاقاً ایک ہو جانا۔ یعنی یہ بھی ادھر پہنچنا چاہتا ہے اور وہ بھی ادھر پہنچنا چاہتا ہے۔ دونوں کا فیصلہ یہ ہو اور وقت بھی ایک ہو، تو حادثہ (accident) ہو گا، چاہے وہ غلطی سے ہی کیوں نہ ہو۔ لہٰذا اگر ہم لوگ قوانین کی پابندی نہ کریں، تو نقصان ہو گا۔ چونکہ مفادات اور خواہشات دنیا کے لئے ہوتی ہیں اور دنیا کی محبت تمام خطاؤں کی جڑ ہے، اس لئے کہ دنیا کی محبت میں انسان خود غرض ہو جاتا ہے۔ اپنے آپ کو دیکھتا ہے کہ میرے پاس یہ چیز ہو، لہٰذا دوسروں کا احترام نہیں کرتا، دوسروں کا خیال نہیں رکھتا، تو دوسرے سارے لوگوں کو نقصان پہنچاتا ہے اور اپنے آپ کو بھی نقصان پہنچاتا ہے۔
اب میں عقل، قلب اور نفس کے بارے میں عرض کرتا ہوں۔ ان تینوں میں سے ہر ایک کا اپنا کام ہے، ہر ایک باقی دو سے متاثر ہے اور ہر ایک باقی دو پر اثر انداز ہے۔ حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے اس کی مثال یہ دی ہے کہ جیسے کہ سینگ والے دو جانور آپس میں سینگ اڑا لیں اور دونوں ایک دوسرے کو دبائیں۔ فرمایا: اسی قسم کی حالت عقل اور نفس میں ہوتی ہے۔ نفس اور عقل میں ہوتی ہے، قلب اور عقل میں ہوتی ہے، عقل اور قلب میں ہوتی ہے، قلب اور نفس میں ہوتی ہے، نفس اور قلب میں ہوتی ہے۔ بالکل اسی طرح ٹکراؤ ہوتا ہے۔ آگے جا کر میں عرض کروں گا کہ اس میں توازن (balance) کس طرح لایا جاتا ہے، کیونکہ خوبی تو توازن (balance) میں ہے۔
لطائف کی مثال milestones کی ہے۔ ادراک اور محسوسات کا نظام اور ملاءِ اعلیٰ کے ساتھ رابطوں کے ذرائع۔ اصل میں جیسے میں نے عرض کیا کہ یہ باتیں آپ حضرات کو ذرا اجنبی لگیں گی، لیکن یہ موجود تو ہیں۔ ہمارے اندر ادراک و محسوسات کا نظام موجود ہے، یہ سب مانتے ہیں۔ ڈاکٹر لوگ بھی مانتے ہیں، سائنسدان بھی مانتے ہیں، لیکن ہمارا اوپر کے ساتھ کیا رابطہ ہو سکتا ہے، یہ ذرا الگ مضمون ہے۔ اس پہ مزید بات کرنے کی ضرورت ہے۔ لیکن بہرحال! یہ تو ہم سب مانتے ہیں کہ ہماری آنکھیں ہمارے دل پر اثر انداز ہیں اور ہمارا دل ہماری آنکھوں پہ اثر انداز ہے۔ اگر میں اچھے خیال کا ہوں یعنی اگر میرا دل بنا ہوا ہے، تو کیا میں نظر غلط استعمال کروں گا؟ نہیں کروں گا۔ اور اگر نظر غلط استعمال ہو گئی، تو کیا دل محفوظ رہے گا؟ نہیں رہے گا۔ گویا آنکھیں دل کو متاثر کر رہی ہیں اور دل آنکھوں کو متاثر کر رہا ہے۔ یہ آپس میں تعامل (interaction) ہوتا ہے۔ لیکن یہ دوسری بات میں ان شاء اللہ بعد میں کروں گا۔ اس کے ذریعے سے اہلِ تمکین کا راستہ معلوم ہو سکتا ہے، کیونکہ تلوین میں تو سب ہوتے ہیں، اس لئے اہلِ تمکین بننا پڑتا ہے۔ یہ ایک قسم کی عظیم نعمت ہے۔ اور شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے جو ماڈل پیش کیا ہے، یہ متاخرین کے لئے بہت بڑی نعمت ہے۔ میں رفاہ یونیورسٹی کی نصاب کمیٹی میں تھا، تو وائس چانسلر ڈاکٹر انیس صاحب بیٹھے ہوئے تھے، ان کے چیف ایگزیکٹو اسد اللہ خان صاحب تھے۔ ہم discuss کر رہے تھے کہ کون سی چیز کس طریقے سے کی جائے۔ میری زبان سے اس ماڈل کے بارے میں بات نکل گئی۔ اسد اللہ خان صاحب اچھل گئے۔ کہتے ہیں کہ یہ آپ نے کہاں سے لیا ہے؟ میں نے کہا کہ شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ سے۔ کہتے ہیں کہ شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ کو تو میں نے بھی پڑھا ہے، اس میں تو یہ نہیں ہے۔ میں نے کہا کہ آپ نے ان کی ہسٹری پڑھی ہے اور یہ ان کی کتابوں میں ہے، میں نے کتاب پڑھی ہیں۔ اس کتاب کا نام ’’الطافُ القدس‘‘ ہے، اس میں یہ موجود ہے، آپ اس کو خود پڑھ سکتے ہیں۔ الحمد للہ وہ بہت ذہین آدمی ہیں، بعد میں انہوں نے پڑھا اور پھر انہوں نے ما شاء اللہ لیکچر بھی دیا اور کہا کہ اس میں تو ہمارے سارے مسائل کا حل ہے، اس پہ آپ کچھ مضمون تیار کر لیں اور ہمیں ایڈریس کریں۔ چنانچہ متاخرین کے لئے یہ خصوصی انعام ہے۔
اب میں ذرا ایک ایک کر کے اس میں سے گزرتا ہوں۔
عقل کے کام: گزشتہ باتوں کو یاد رکھنا، آئندہ امور کے متعلق سوچنا۔ یعنی حافظہ بھی اس کے ساتھ ہے اور آئندہ امور کے متعلق سوچنا بھی ہے۔ کسی چیز کو سمجھنا، کسی چیز کی معرفت اور یقین حاصل کرنا، صحیح فیصلے کی استعداد۔ یہ عقل کا کام ہے۔ یعنی اگر کوئی عقل مند ہو گا، تو صحیح فیصلہ کرے گا، صحیح معلومات لے گا، ان کو صحیح تجزیہ (analyze) کرے گا، ان سے صحیح نتیجہ نکالے گا، پھر ان کے مطابق صحیح فیصلے کرے گا۔ چاہے وہ دنیا کا معاملہ ہے، چاہے آخرت کا معاملہ ہے، اس سے فرق نہیں پڑتا۔ دنیا کے لئے بھی یہی طریقہ کار ہے اور آخرت کے لئے بھی یہی طریقہ کار ہے کہ ہم اپنی عقل کو کیسے استعمال کرتے ہیں۔
قلب کے کام: یہاں پر ذرا تھوڑی تفصیل سے بات چلے گی۔ غصہ، ندامت، خوف، جرأت، فیاضی، بخل، محبت، عداوت، یہ سارے دل کے کام ہیں۔ دل میں اگر بعض کے لئے کچھ چاہتیں ہوں اور بعض کے لئے نفرتیں ہوں، یہ بھی دل کا کام ہے۔ یہ تو میرے خیال میں ایسی بات ہے کہ جس کو ایک بچہ بھی سمجھ سکتا ہے۔ اگر کسی سے پوچھیں کہ اگر آپ کو کسی کے ساتھ محبت ہے، تو کہاں محسوس ہوتی ہے؟ تو وہ کہے گا: دل میں۔ کیوں کہ محبت دل میں ہوتی ہے۔ سر میں تو نہیں ہوتی۔ اور اگر کسی کے لئے نفرت ہو، تو وہ بھی دل میں محسوس ہوتی ہے۔ وہ باقاعدہ repel کرتا ہے، اگر آپ اس کے گلے لگنا چاہیں، تو نہیں لگ سکتے، باقاعدہ repulsion ہوتی ہے۔ گویا نفرت بھی دل میں ہے اور محبت بھی دل میں ہے۔ اور ان سب امور کو شریعت کے مطابق کرنا، یہ اصلاح ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں نصیب فرما دے۔
نفس کے کام: خواہشات کو پورا کرنا، لذات کی اتباع، جسم کی ساخت کو قائم رکھنا۔ مثلاً: مجھے بھوک لگتی ہے، تو یہ نفس کا کام ہے، پیاس لگتی ہے، تو یہ نفس کا کام ہے، مجھے کوئی چیز پسند ہے، تو یہ نفس کا کام ہے، میں کوئی چیز کھانا چاہتا ہوں، تو یہ نفس کا کام ہے، کوئی کپڑے مجھے پسند ہیں، تو یہ نفس کا کام ہے۔ کوئی گاڑی مجھے پسند ہے، تو یہ بھی نفس کا کام ہے۔ یہ سارے نفس کے کرشمے ہیں۔ لیکن ان میں جائز اور نا جائز کی تمییز شریعت بتاتی ہے۔ آپ کی کون سی خواہش جائز ہے، کون سی نا جائز ہے، یہ شریعت بتاتی ہے۔ مثلاً: میں کہتا ہوں کہ ساری دولت میرے بینک میں جمع ہو جائے۔ شریعت کہتی ہے کہ یہ جائز نہیں ہے۔ لہٰذا میں اگر اس کو حاصل کرنے کے لئے کسی پہ ظلم کرنا چاہوں، تو وہ جائز نہیں ہو گا۔ چنانچہ شریعت ہماری رہنمائی کرتی ہے کہ کون سی چیز جائز ہے، کون سی جائز نہیں ہے۔ گویا نفس کی خواہشات کو شریعت محدود کرتی ہے۔ اگر وہ میری ضرورت ہے، تو شریعت اجازت دیتی ہے۔ جیسے آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اِنَّ لِنَفْسِکَ عَلَیْکَ حَقًّا‘‘ (ابوداؤد، حدیث نمبر: 1369)
ترجمہ: ’’بے شک تمہارے نفس کا بھی تم پر حق ہے‘‘۔
اور اگر میری ضرورت نہیں ہے، میری خواہش ہے اور غیر محدود ہے، تو پھر اس کو چیک کرنا پڑے گا۔ ان چیزوں کا دفع کرنا جنہیں دور کرنا بدن کا طبعی تقاضا ہے، یہ غضب کہلاتا ہے۔ یہ بھی ہماری ایک ضرورت ہے۔ بھوک، پیاس، بول و براز کی ضرورت، کسل و الم، نیند اور غلبۂ شہوت۔ یہ تمام نفس کے کام ہیں۔ یہ جو ایک تصویری خاکہ ہے، یہ حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ کا ماڈل ہے۔ انہوں نے اس کو اس طرح پیش کیا ہے۔ قلب ہے، عقل ہے، نفس ہے۔ bilateral دونوں ایک دوسرے کو متاثر (attract) کرتے ہیں۔ ان تمام چیزوں کو ہم اس طرح سمجھیں گے کہ عقل قلب کو متاثر کرتی ہے، قلب عقل کو متاثر کرتا ہے، قلب نفس کو متاثر کرتا ہے، نفس قلب کو متاثر کرتا ہے، عقل نفس کو متاثر کرتی ہے، نفس عقل کو متاثر کرتا ہے۔ لہٰذا اس کے لئے کوئی ایسا طریقہ اختیار کرنا ہو گا، کوئی ایسا step لینا ہو گا کہ خیر کی طرف یہ نظام چل پڑے۔ چنانچہ جیسے میں نے عرض کیا کہ قلب کے اندر ایمان بھی ہے، کفر بھی ہے، محبت بھی ہے، نفرت بھی ہے، یہ ساری چیزیں دل میں ہیں۔ لہٰذا پہلے دل کے اندر ایمان کو لانا پڑے گا۔ جس کو ہم ایمان بالغیب کہتے ہیں۔ جیسے اللہ پاک نے سورت البقرہ کے بالکل پہلے رکوع میں تعارف کرایا ہے: ﴿الٓمّٓ 0 ذٰلِكَ الْكِتٰبُ لَا رَیْبَ فِیْهِ هُدًى لِّلْمُتَّقِیْنَ 0 الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ وَیُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَمِمَّا رَزَقْنٰهُمْ یُنْفِقُوْنَ 0 وَالَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِمَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكَ وَمَاۤ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَۚ وَبِالْاٰخِرَةِ هُمْ یُوْقِنُوْنَ 0 اُولٰٓىِٕكَ عَلٰى هُدًى مِّنْ رَّبِّهِمْۗ وَاُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ﴾ (البقرۃ: 1-5)
ترجمہ: ’’الم۔ یہ کتاب ایسی ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں، یہ ہدایت ہے ان ڈر رکھنے والوں کے لئے، جو بے دیکھی چیزوں پر ایمان لاتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں اور جو کچھ ہم نے انہیں دیا، اس میں سے (اللہ کی خوشنودی کے کاموں میں) خرچ کرتے ہیں۔ اور جو اس (وحی) پر بھی ایمان لاتے ہیں، جو آپ پر اتاری گئی اور اس پر بھی جو آپ سے پہلے اتاری گئی اور آخرت پر وہ مکمل یقین رکھتے ہیں۔ یہ ہیں وہ لوگ جو اپنے پروردگار کی طرف سے صحیح راستے پر ہیں اور یہی وہ لوگ ہیں، جو فلاح پانے والے ہیں‘‘۔
سب سے پہلے ایمان بالغیب سے بات شروع ہوئی کہ اگر کسی کو ایمان بالغیب حاصل نہیں، تو قرآن اس کو ہدایت نہیں دیتا۔ لہٰذا اگر میرے دل میں ایمان ہے، تو میرا Yes اور No تبدیل ہو جائے گا۔ میری پسند اور نا پسند تبدیل ہو جائے گی، یہ ساری چیزیں بالکل بدل جائیں گی۔ لہٰذا ایمان کی روشنی سے پہلے عقل کے ذریعے سے دل کو قائل کر لو کہ وہ ایمان قبول کرے۔ پھر جب دل ایمان قبول کر لے، تو عقل کو اس کی روشنی سے منور کرو، تاکہ اب وہ ایمانی عقل بن جائے، نفسانی عقل نہ رہے۔ ایمانی عقل یہ ہے کہ شریعت نے جو چیز روکی ہے، ہمارا ایمان بالغیب کہے کہ یہی ہمارے لئے صحیح ہے، اب اس کی طرف میں نہ جاؤں۔ لہٰذا میں اپنی عقل کو اس کی طرف نہ مصروف کروں، بلکہ اس چیز کی طرف مصروف کروں، جس کی شریعت اجازت دیتی ہے۔ مثلاً: نقل کے ذریعے سے میں پاس ہونا چاہتا ہوں، تو شریعت اس کی اجازت نہیں دیتی۔ اب عقل ادھر بھی چلتی ہے۔ جیسے کہتے ہیں کہ نقل بھی عقل کے ساتھ ہوتی ہے۔ کیونکہ پتا نہیں، کتنے لوگ بوٹیاں بناتے ہیں، کیا کیا طریقے سیکھتے ہیں اور بڑی عقل مندی کے ساتھ نقل کرتے ہیں، تو عقل ادھر بھی استعمال ہو رہی ہے، لیکن اس کی شریعت اجازت نہیں دے رہی۔ شریعت بتا رہی ہے کہ تم پڑھو اور پڑھنے میں جو آپ عقل استعمال کر سکتے ہو، وہ استعمال کرو۔ کیونکہ کوئی بیوقوفی کے ساتھ پڑھتا ہے، کوئی عقل مندی کے ساتھ پڑھتا ہے۔ عقل مندی کے ساتھ پڑھنے سے نتیجہ زیادہ بہتر ہو گا۔ بیوقوفی کے ساتھ پڑھنے سے وہ نتیجہ نہیں حاصل ہو گا۔ مثلاً: جب میں اسلامیہ کالج میں میں تھا، تو وہاں ہمارے ایک کلاس فیلو تھے جو بہت زیادہ پڑھتے تھے، لیکن ان کی Third division آتی تھی۔ ایک دن ہم ان کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے، تو ان سے ہم نے کہا کہ آپ کے ساتھ ایسا کیوں ہے؟ پڑھتے تو آپ ہم سے زیادہ ہیں، نمبر آپ کے کم آتے ہیں، کیا وجہ ہے؟ اس بات چیت سے ہمیں پتا چلا کہ وہ مجاہدہ بہت کرتے ہیں، پڑھتے بہت ہیں، لیکن ان کو اتنی نیند آتی ہے کہ ان کو الفاظ سمجھ نہیں آتے، بس صرف پڑھ ہی رہے ہوتے ہیں۔ حالانکہ صرف پڑھنا تو مقصود نہیں ہے، وقت پہ آرام کرنا، باقی تمام چیزوں کا انتظام کرنا بھی ضروری ہے۔ اگر پابندی کے ساتھ پڑھا جائے، تو تھوڑا پڑھنا زیادہ مفید ہو جاتا ہے۔ یہ بات ذرا لمبی ہو جائے گی۔ اس کے متعلق میرے پاس بہت سے قصے ہیں۔ لیکن میں اصل بات پوری کرتا ہوں کہ ایمان بالغیب کی روشنی میں شریعت کے مطابق جو چیز جائز ہے، اس کے لئے عقل استعمال کرنا اور جو چیز نا جائز ہے، اس کے لئے عقل استعمال نہ کرنا، یہ طریقہ وہاں شروع ہو جائے گا۔ یہاں تک تو بات واضح ہو گئی، یعنی عقل اور قلب نے آپس میں دوستی کر لی، لہٰذا کچھ نہ کچھ کام بن جائے گا۔ لیکن یہ دوستی زیادہ کار آمد نہیں ہوتی، ابھی آگے بھی کچھ کرنا ہے۔ در اصل نفس باغی ہے، یہ نہیں مانتا، بے شک آپ کا دل مطمئن ہے، آپ کی عقل یہ کہتی ہے، لیکن نفس نہیں مانتا۔ جیسے شوگر کے مریض کی مثال لے لیں، شوگر کی بیماری زیادہ تر بڑی عمر میں ہوتی ہے، چھوٹی عمر میں کم ہی ہوتی ہے۔ چنانچہ اس عمر میں ان کو عقل پوری ہوتی ہے، وہ دوسروں کو عقل سکھاتے ہیں، لیکن ان کو ڈاکٹر نے کہا ہوتا ہے کہ اگر آپ نے میٹھا نہیں بند کیا، تو ممکن ہے کہ آپ کے گردوں کو نقصان پہنچے، ممکن ہے کہ آپ کے دل کو نقصان پہنچے، ممکن ہے کہ آپ کے دماغ پہ اس کا اثر پڑ جائے، یا اس طرح کا کوئی مسئلہ ہو جائے۔ یہ ساری باتیں وہ جانتے ہیں، لیکن جس وقت میٹھا ان کے سامنے آ جاتا ہے، تو کھا لیتے ہیں۔ ہمارے ایک دوست ہیں، جو ڈاکٹر ہیں، ان کو بھی شوگر کی بیماری تھی۔ ہمارے گھر تشریف لائے تھے، ان کی بیٹیاں بھی ساتھ تھیں۔ گھر والوں نے ان سے پوچھا کہ ان کو شوگر ہے؟ انہوں نے کہا: ہاں! شوگر ہے۔ پوچھا: چینی والی چائے پیتے ہیں؟ کہا: پیتے ہیں۔ گھر والوں نے کہا: شوگر ہے، تو پھر نہیں پینی چاہئے۔ کہنے لگیں: ہم تو ہمیشہ ان کو منع کرتی ہیں، لیکن وہ کہتے ہیں کہ چینی کون کھائے گا۔ حالانکہ ان کو نہیں کھانی چاہئے، لیکن وہ کھاتے ہیں۔ اس سے پتا چلا کہ نفس اگر نہ مانے، تو آپ کی عقل کی بات اور آپ کے قلب کی بات دھری کی دھری رہ جائے گی۔ لہٰذا نفس کی اصلاح بھی کرنی چاہئے۔ نفس کی اصلاح کیسے ہوتی ہے؟ تو ہر چیز کی اپنی اصلاح ہے۔ قلب کی اصلاح حدیث شریف کے مطابق ذکرُ اللہ سے ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’ہر چیز کے لئے ایک سقالہ (مانجھنے کا آلہ) ہے اور دلوں کے لئے سقالہ ذکرُ اللہ ہے‘‘۔ لہٰذا اگر آپ ذکر کرتے ہیں، تو ذکر سے آپ کا دل اچھا ہو گا۔ لیکن ذکر بھی عقل مندی کے ساتھ کریں گے، اپنی مرضی سے نہیں کریں گے۔ کسی شیخ سے پوچھیں گے، وہ آپ کو بتائے گا اور اس طریقے سے ذکر کریں گے، تو پھر آپ کی اصلاح ہو گی۔ ورنہ مقصد حاصل نہیں ہو گا۔ بہرحال! ذکرُ اللہ سے دل صاف ہو جاتا ہے۔ اور عقل فکر کے ذریعے سے ٹھیک ہوتی ہے۔ کیونکہ ذکر تو پہلے سے ہی دل کے لئے ہے ہی، اور فکر مزید اس کے علاوہ (In addition) ہے۔ جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّیْلِ وَالنَّهَارِ لَاٰیٰتٍ لِّاُولِی الْاَلْبَابِ 0 الَّذِیْنَ یَذْكُرُوْنَ اللّٰهَ قِیٰمًا وَّقُعُوْدًا وَّعَلٰى جُنُوْبِهِمْ وَیَتَفَكَّرُوْنَ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِۚ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هٰذَا بَاطِلًاۚ سُبْحٰنَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ﴾ (آل عمران: 190-191)
ترجمہ: ’’بیشک آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں اور رات دن کے باری باری آنے جانے میں ان عقل والوں کے لئے بڑی نشانیاں ہیں، جو اٹھتے بیٹھتے اور لیٹے ہوئے (یعنی ہر حال میں) اللہ کو یاد کرتے ہیں، اور آسمانوں اور زمین کی تخلیق پر غور کرتے ہیں، (اور انہیں دیکھ کر بول اٹھتے ہیں کہ) اے ہمارے پروردگار! آپ نے یہ سب کچھ بے مقصد پیدا نہیں کیا۔ آپ (ایسے فضول کام سے) پاک ہیں، پس ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا لیجئے‘‘۔
چنانچہ عقل فکر کے ذریعے سے درست ہوتی ہے۔ اور نفس مجاہدے سے درست ہوتا ہے۔ نفس کی نہ مانو۔ اللہ پاک نے اس نفس کا بڑا عجیب ڈھانچہ (structure) بنایا ہے۔ اس کی یہ خاصیت ہے کہ اگر آپ اس کی بات مانیں گے، تو یہ مزید مطالبہ کرے گا۔ ایک سٹیج ایسا آ سکتا ہے کہ یہ بگاڑ (perversion) کی حد تک چلا جائے۔ پھر یہ پاگل پن کے نمونے پیش کرے گا۔ لیکن اگر آپ اس کو دبائیں، تو دب بھی جاتا ہے۔ مثلاً: اگر پہلے یہ ٪100 زور سے بولتا ہے کہ مجھے یہ چیز دو اور آپ کہتے ہیں کہ میں نہیں دیتا اور آپ اس پر قائم رہے اور نہیں دی، تو اگلی دفعہ وہ 100 یونٹ کے ساتھ آواز نہیں کر سکے گا۔ بلکہ اس سے تھوڑا سا کم 99 یونٹ سے کہے گا کہ مجھے یہ چیز دو۔ اگر پھر آپ نہیں دیں گے، تو اور کم ہو جائے گا۔ پھر آپ نہیں دیتے، تو پھر مزید کم طاقت کے ساتھ کہے گا۔ یوں مسلسل کم ہوتا جائے گا۔ حتیٰ کہ ایک سٹیج آ جائے گی کہ بالکل ہی مریل ہو جائے گا۔ بالآخر ماننا شروع کر لیتا ہے۔ یہ ہے نفسِ مطمئنہ۔ لیکن اس کا علاج نہ ماننے میں ہے۔ جیسے روزہ میں بھی مجاہدہ ہے اور روزہ تقویٰ کا ذریعہ ہے۔ جیسے نفس کے لئے اللہ پاک نے فرمایا ہے: ﴿وَنَفْسٍ وَّمَا سَوّٰىهَا 0 فَاَلْهَمَهَا فُجُوْرَهَا وَتَقْوٰىهَا﴾ (الشمس: 7-8)
ترجمہ: ’’ اور انسانی جان کی، اور اس کی جس نے اسے سنوارا۔ پھر اس کے دل میں وہ بات بھی ڈال دی، جو اس کے لئے بدکاری کی ہے، اور وہ بھی جو اس کے لئے پرہیزگاری کی ہے‘‘۔
گویا نفس کے اندر فجور کے تقاضے بھی ہیں اور تقویٰ بھی ہے۔ چنانچہ فجور کے تقاضے کو دبانے کا نام تقویٰ ہے۔ اور روزے کے لئے فرمایا: ﴿یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَیْكُمُ الصِّیَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ﴾ (البقرہ: 183)
ترجمہ: ’’اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کر دیئے گئے ہیں، جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے، تاکہ تمہارے اندر تقویٰ پیدا ہو‘‘۔
گویا جو نفس پہ پیر رکھے گا، اس کو تقویٰ حاصل ہو گا۔ اور یہ مجاہدہ ہی ہے۔ لہٰذا ہمیں نفس کی اصلاح کے لئے مجاہدہ کرنا پڑے گا۔ اور مجاہدہ بھی ہوشیاری کے ساتھ کرنا پڑے گا، اپنے طور پہ نہیں کرنا۔ بلکہ اس کو باقاعدہ technique کے ساتھ کرنا ہے۔ میں آپ کو ایک مثال دیتا ہوں۔ ہمارے پاس نوجوان نوجوان لوگ آ جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ شاہ صاحب! کیا کریں، آنکھ اٹھ ہی جاتی ہے۔ ان کے لئے میں نے ایک مجاہدہ بنایا ہے کہ اس طرح کرو کہ تنہائی میں بیٹھ کر پانچ منٹ نیچے دیکھنا ہے، چاہے کچھ بھی ہو، آپ نے اس دوران نیچے دیکھنا ہے۔ پھر اگلے دن چھ منٹ، اس سے اگلے دن سات منٹ، اگلے دن آٹھ منٹ، اگلے دن نو منٹ، اس کو پچیس منٹ تک پہنچانا ہے جو کہ بیس دن میں پہنچ جائے گا۔ پھر اس کے بعد باہر آ کر لوگوں کے درمیان بیٹھ کر اوپر نہیں دیکھنا، نیچے دیکھنا ہے۔ ان کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے بھی نیچے دیکھنا ہے۔ پہلے دن پانچ منٹ، اگلے دن چھ منٹ، پھر اگلے دن سات منٹ، اگلے دن آٹھ منٹ، اور اس کو بھی پچیس منٹ تک پہنچانا ہے۔ یہ بھی بیس دن ہو گئے۔ یوں الحمد للہ ایک چلے میں آپ کو اپنی آنکھ پر پچیس منٹ قابو رکھنے کی صلاحیت حاصل ہو گئی۔ پچیس منٹ بڑی چیز ہے، کیونکہ اگر کسی وقت بھی خطرہ میں ہوں، تو پچیس منٹ میں ادھر ادھر ہو سکتے ہیں۔ گویا نظر کی حفاظت ہو گئی۔ اب اس میں صرف دو چیزیں ہیں: ایک ہے نفس کی نہ ماننا، دوسرا ہے تدریج سے نہ ماننا۔ یہ کام فوراً نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ اگر میں آپ کو فوراً پچیس منٹ کا کہتا، تو نہ ہوتا۔ جیسے جمناسٹک والے جب جمناسٹک سیکھ لیتے ہیں، تو کیسے عجیب عجیب کام کرتے ہیں، لیکن کیا انہوں نے ایک دن میں حاصل کئے ہوتے ہیں؟ ایک دن میں حاصل نہیں کئے ہوتے، بلکہ اس کو بہت ہی آہستہ آہستہ (gradually) وہ اس حالت تک پہنچاتے ہیں۔ گویا نفس کو بتدریج مجاہدہ کے ذریعے سے آپ نے سدھانا (tame) کرنا ہے۔ اسی کو سدھارنا کہتے ہیں۔ اگر آپ نے نفس کو اس طریقے سے سُدھا (tame کر) لیا، تو ایک وقت آ جائے گا کہ یہ بالکل آپ کی بات مانے گا۔ اس کے لئے حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے جو ارشادات فرمائے وہ بھی میں کچھ عرض کرتا ہوں۔
لطائف کے باہمی تعامل کے بارے میں تو بات ہو گئی ہے، یہ ذات میں مستقل ہیں، لیکن باقیوں سے متاثر ہیں، اگر دل درست ہے، تو جسم درست ہے، اگر نفس پاک ہے، تو مکمل کامیابی حاصل ہو جائے گی اور جو عقل مند ہے، وہی دین دار ہے۔ یہ بات حدیث شریف کی روشنی میں لی ہے۔
اب ذرا نظامِ تربیت کو دیکھ لیں، اس کا تجزیہ (analysis) کر لیں۔ کار آمد ترتیب کیا ہو سکتی ہے؟ قلب و عقل نفس کے تابع ہوں، تو تباہی ہے۔ عقل اور نفس اگر قلب کے تابع ہو جائیں، تو بظاہر لوگ کہتے ہیں کہ یہ تو بڑا اچھا کام ہے، قلب تو بادشاہ ہے۔ حالانکہ ایسا نہیں ہے، قلب میں جذبات ہوتے ہیں اور جس کے اوپر جذبات حکمران ہوتے ہیں، وہ کیسے ہوتا ہے؟ جذباتی سوچ اچھی نہیں ہوتی۔ لہٰذا قلب کو حاکم نہیں بنا سکتے۔ اسی طرح اگر نفس اور قلب عقل کے تابع ہوں، تو بظاہر یہ چیز بہت زبردست لگتی ہے کہ مسئلہ حل ہو گیا۔ لیکن کون سی عقل، ایمانی عقل یا نفسانی عقل؟ نفسانی عقل ہو گی، تو بھی مسئلہ حل نہیں ہو گا۔ کیونکہ ہم جو بڑے بڑے لوگوں کو دیکھتے ہیں، جو پوزیشن (رتبے) کے لحاظ سے بہت بڑے ہوتے ہیں، لیکن بعض دفعہ اخلاقی بیماریوں کے لحاظ سے بہت گری ہوئی حرکتیں کرتے ہیں۔ حالانکہ ان میں عقل کی کمی نہیں ہوتی، لیکن ان کی عقل عقلِ نفسانی ہوتی ہے۔ گویا مسئلہ بدستور موجود ہے۔ اس کو حل کرنے کے لئے ہمیں وہی طریقہ اختیار کرنا پڑے گا کہ ہمیں پہلے ایمان بالغیب کے ذریعے سے عقل کو قائل (convince) کرنا پڑے گا، پھر دل پر محنت کر کے اس کو ایمان دار بنانا ہو گا، جب ایمان دار بن جائیں، تو عقل کو اس کا تابع کرنا پڑے گا، پھر دل کے ذریعے سے نفس کو قابو کیا جائے گا۔
لطیفۂ عقل کو متاثر کرنے والے عوامل: ذکر، مراقبہ، معلومات، اخبارات، تجربات، ایمان بالغیب اور ان کی تفصیلات اور لطیفۂ سر کی کفیت (جو ان شاء اللہ تھوڑی دیر بعد بتاؤں گا۔) پھر لطیفۂ عقل کے اثرات یاداشت پر پڑتے ہیں، سوچ پر پڑتے ہیں، لطیفۂ قلب و نفس کی حالت پر اور فکر پر پڑتے ہیں۔
قلب کو متاثر کرنے والے عوامل: القاءِ رحمانی، القاءِ شیطانی، حواسِ خمسہ، نفسانی خواہشات، عقلی دلائل، استنباطات اور لطیفۂ روح؛ یہ سب چیزیں قلب کو متاثر کرتی ہیں۔ قلب کے اثرات یہ ہیں کہ اگر دل پہ محنت کریں اور یہ صاف ہو، تو حواسِ خمسہ صحیح استعمال ہوں گے، جذبات و کیفیات میں توازن (balance) آئے گا، عقل اور نفس کی حالت بہتر ہو جائے گی۔
نفس کو متاثر کرنے والے عوامل: مجاہدات و ریاضات یا نفس کی مخالفت، لذات و خواہشات کا اتباع، لطیفۂ قلب و عقل کی حالت کا نفس پر اثر۔ نفس کے اثرات یہ ہیں: لذات و خواہشات و ضروریاتِ بدن کے لئے طلب، لطیفۂ قلب و عقل کے حالات پر اثرات۔
اب آگے میں نتیجہ اخذ (conclude) کر رہا ہوں۔
عقل کی تہذیب: یعنی عقل کو کیسے مہذب بنایا جاتا ہے؟ اس کے لئے ذکر و فکر کا مجموعی اثر اس پہ ڈالنا ہوتا ہے۔ ذکر تو دل کے لئے بھی ہے، اگر ساتھ فکر کو بھی ملا دیں، تو یہ عقل کے لئے ذریعہ بن جائے۔ کیونکہ فکر کے بارے میں اللہ پاک نے کئی جگہوں پہ فرمایا ہے۔ ایک جگہ ہے: ﴿لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُوْنَ﴾ (یوسف: 2) کہیں پر فرمایا: ﴿اَفَلَا تَتَفَکَّرُوْنَ﴾ (الانعام: 50) کہیں پر ہے: ﴿اَفَلَا تُبْصِرُوْنَ﴾ (الذّٰاریٰت: 21) یہ ساری آیات ہمیں فکر کی دعوت دے رہی ہیں۔
عقل کی تہذیب کے باعث اشکالات کا دور ہونا، شک کا یقین میں بدل جانا، چنانچہ یہ جو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ﴿وَبِالْاٰخِرَةِ هُمْ یُوْقِنُوْنَ﴾ (البقرہ: 4) یہ بھی عقل کا فعل ہے۔ یعنی اگر آخرت پہ یقین ہو گا، تو عقل صحیح ہو گی اور اگر عقل صحیح ہو گی، تو آخرت پہ یقین کرے گی۔ گویا یہ بھی باہمی (bilateral) ہے۔ اور اگر آخرت پہ یقین نہیں ہو گا، تو اس کی ساری چیزیں دنیا کے لئے ہو جائیں گی، وہ selfish ہو جائے گا۔
شک کا یقین میں بدل جانا، آخرت پر یقین آخرت کے لئے کام میں معاون، جذباتیت کی بجائے عقلیت سے کام لینا، دل کا عقل کی رہنمائی میں اپنا جذبہ شامل کر کے نفس کو کام پر آمادہ کرنا۔
عقل کی تہذیب کے اثرات یہ ہیں: معرفت کا حاصل ہونا، یقین کا حصول، شک کا دفع ہونا، سِر کے ساتھ رابطہ ہو جانا، اس کے رنگ میں رنگ جانا، خود بلا دلیل حق کا قائل ہونا اور دوسروں تک حق پہنچنے میں دلائل کو بنیاد بنانا۔
یہاں سِر اور روح کے الفاظ بار بار آ رہے ہیں، جو آپ کو ذرا تشنہ لگ رہے ہیں۔ ان کے بارے میں کچھ عرض کر دوں۔ اصل میں عقل, نفس اور قلب، جب یہ تین چیزیں متوازن (balance) ہو جاتی ہیں تب جا کر کامیابی حاصل ہو جاتی ہے۔ در اصل حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے بھی فرمایا تھا کہ ہماری روح عاشق تھی، جیسے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿اَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ قَالُوْا بَلٰىۚۛ﴾ (الاعراف: 172)
ترجمہ: ’’(اور پوچھا کہ) کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ سب نے جواب دیا تھا کہ: کیوں نہیں؟‘‘۔
لیکن جب یہ نفس میں آ گئی، تو یہ غلام بن گئی، یعنی نفس نے اس کو دبوچ لیا۔ اس کو نفس سے چھڑانا ہے، تاکہ آزاد ہو جائے اور آزادی کے ساتھ کام کر سکے۔ اور اس کے لئے ذکر کرنا پڑے گا، تاکہ اس کو اللہ یاد آ جائے۔ یعنی اس کو اپنی پرانی حالت یاد آ جائے کہ میں تو اللہ تعالیٰ کی عاشق تھی اور ذکر کے ذریعے سے اس میں یہ طلب پیدا ہو جائے کہ میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ ملوں۔ اور جب اس کی یہ طلب بڑھ جائے گی، تو پھر یہ پھڑپھڑانا شروع کرے گی کہ میں نفس سے آزاد ہو جاؤں۔ لیکن نفس اس کو چھوڑے گا نہیں۔ اس لئے فرماتے ہیں کہ پھر نفس کے ہاتھ پیر باندھنے پڑیں گے، تاکہ یہ یہاں سے چھوٹ جائے۔ ہاتھ پیر باندھنے کا مطلب یہ ہے کہ اپنی آنکھوں پہ کنٹرول، اپنے کانوں پہ کنٹرول، اپنی زبان پہ کنٹرول، اپنے دماغ پہ کنٹرول اور ہاتھ پاؤں پہ کنٹرول ہو۔ ان سب پہ جب ہم کنٹرول کریں گے، تو گویا ہم نے نفس کے ہاتھ پیر باندھ لئے۔ لہٰذا جب ہم مجاہدہ کریں گے، تو روح وہاں سے آزاد ہو جائے گی۔ اور جب قید خانہ سے کوئی قیدی آزاد ہوتا ہے، تو پھر اپنے گھر جاتا ہے۔ اسی طرح روح بھی اپنے گھر جاتی ہے اور ملاءِ اعلیٰ پہنچتی ہے۔ جب ملاءِ اعلیٰ پہنچتی ہے، تو قلب اس کا Eye piece (آئی پیس) بن جاتا ہے اور قلب کے ذریعے سے ملاءِ اعلیٰ کے حالات اس کے اوپر کھلنا شروع ہو جاتے ہیں، جس سے معرفت کے راستے کھل جاتے ہیں۔ الہامات شروع ہو جاتے ہیں اور ایسی ایسی باتیں معلوم ہو جاتی ہیں، جو کتابوں میں نہیں لکھی ہوتیں۔ حضرت مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ نے اسی چیز کو بیان فرمایا ہے:
بینی اندر خود علومِ انبیاء
بے کتاب و بے معید و اوستا
یعنی اپنے اندر علومِ انبیاء کو دیکھو گے، نہ کسی مدرسہ کے باعث، نہ کسی کتاب کے باعث، نہ کسی استاد کے باعث، بلکہ براہِ راست اللہ تعالیٰ آپ کو نصیب فرمائیں گے۔ چنانچہ جب اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق قائم ہو جاتا ہے، تو یہ چیزیں حاصل ہوتی ہیں۔ اور اسی کیفیت کو لطیفۂ روح کا بیدار ہونا کہتے ہیں۔ اور اس کے بعد پھر لطیفۂ سِر بھی بیدار ہو جاتا ہے۔ لطیفۂ سِر کیا چیز ہے؟ وہ عقل کی promotion ہے، یعنی پہلے عقل سوچتی تھی دنیا کے ذریعے سے، اب عقل سوچ رہی ہے ملاءِ اعلیٰ کے ذریعے سے۔ اسی کو سِر کہتے ہیں۔ اللہ والوں کے اوپر عالی مضامین کا جو ورود ہوتا ہے، یہ سِر کے ذریعے سے ہوتا ہے۔ جیسے مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے اوپر مکتوبات شریفہ کا یا دوسرے اکابر پر عالی مضامین کا ورود ہوا ہے، یہ ما شاء اللہ سِر کے ذریعے سے ہوا ہے۔ تو یہ دو لطیفے ہیں۔
قلب کی تہذیب: قلب جذبات، احساسات، ایمان و کفر کی جگہ ہے۔ ایمان کی صورت میں ایمانی احساسات، کفر کی صورت میں کافرانہ احساسات۔ اب اس میں ہم نے کیا کرنا ہے؟ پہلی بات یہ ہے کہ ہم ایمان کو حاصل کریں گے۔ دوسری بات یہ ہے کہ عاجلہ کی محبت کو آجلہ سے بدلنے کی تدبیر کریں گے۔ عاجلہ کا معنیٰ ہے؛ فوری چیز۔ کیونکہ انسان کی فطرت میں یہ ہے کہ وہ عاجلہ کی طرف جاتا ہے: ﴿كَلَّا بَلْ تُحِبُّوْنَ الْعَاجِلَةَ 0 وَتَذَرُوْنَ الْاٰخِرَةَ﴾ (القیامۃ: 20-21)
ترجمہ: ’’خبر دار (اے کافرو!) اصل بات یہ ہے کہ تم فوری طور پر حاصل ہونے والی چیز (یعنی دنیا) سے محبت کرتے ہو۔ اور آخرت کو نظر انداز کئے ہوئے ہو‘‘۔
چنانچہ اللہ جل شانہ اگر آپ کی عقل کو رسائی دے دیں، تو یہ وہاں کے حالات کو دیکھے گی کہ وہاں کون سی چیز چاہئے اور کون سی چیز نہیں چاہئے اور وہاں کون سی چیز سے بچنا چاہئے۔ اور اس کے لئے جس بندوبست کی ضرورت ہے، جب وہ شروع ہو جاتا ہے، تو یہ عاجلہ کو آجلہ سے بدلنے کی ترتیب ہے۔ یعنی پہلے میں صرف دنیا کے لئے سوچ رہا تھا، پھر میں دنیا اور دین دونوں کے لئے سوچ رہا ہوں گا۔ تیسری بات یہ ہے کہ دنیا کی بے ثباتی کو تذکیر کے ذریعے سے دل میں پہنچانا۔ یہ جو تبلیغی جماعت کے حضرات بیانات کرتے ہیں، یہ تذکیر ہی ہے۔ بار بار جو کہتے ہیں، اسی سے دلوں میں باتیں بیٹھ جاتی ہیں۔
قلب کی تہذیب کے آثار: حبِ الہی، ایمان، تقویٰ، صدق، ادب، حیا، وجد، شرمندگی، شوق، ندامت اور پشیمانی، خود بخود اپنے اوپر پیش و تاب کھانا، نفسِ شہوانی پر غلبہ حاصل کرنا۔
تہذیبِ نفس: قوتِ ملکیہ کا قوتِ ناسوتیہ پر تصرف۔ (انسان کے اندر جو روحانیت ہے، یہ قوتِ ملکیہ ہے۔ اور ہمارے اندر جو حیوانیت ہے، یہ قوتِ ناسوتیہ ہے۔) تاکہ قوتِ ملکیہ کے احکام نافذ ہوں اور قوتِ بھیمیہ کے آثار کم ہو جائیں۔ یعنی شریعت جَبِلِّت پر غالب ہو جائے۔
تہذیبِ نفس کے چار ذرائع: اب میں مزید تفصیل میں نہیں جانا چاہتا، کیونکہ میرے خیال میں آپ حضرات کے لئے اتنا کافی ہے۔ ویسے یہ مضمون بڑا لمبا ہے۔ کیونکہ شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ کی تحقیقات کا نچوڑ ہے۔
اس کو کسی اور وقت پہ رکھ لیتے ہیں۔ اگر یہ بات سمجھ میں آ گئی ہے، تو اس سے متعلق اگر سوال وغیرہ ہو، تو بے شک کر لیں۔
سوال:
جب سے میں نے یہ ٹاپک دیکھا، تو میں سوچ میں پڑ گیا۔ اس لئے میں نے سوچا کہ آپ سے سوال کر لوں۔ ٹاپک ہے: ’’نظامِ تصوف سے گزری ہوئی شخصیت معاشرے کے لئے عملی نمونہ ہے۔‘‘ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ ہی بہترین عملی نمونہ ہیں۔ اس لئے میرے خیال میں تصوف والا خانقاہی نظام ایک متوازی نظام ہے۔ اسلام میں توحید، نبوت اور شریعت؛ یہ تین چیزیں ہیں۔ جب کہ تصوف اور اہلِ تصوف صرف توحید کے گرد گھومتے ہیں جو کہ Stated point ہے۔ علامہ اقبال کا ایک شعر ہے:
صوفیٔ طریقت میں فقط مستیِ احوال
مُلّا کو شریعت میں فقط مستیِ گفتار
صوفیاء حضرات وحی، الہام اور مشاہدہ پر یقین رکھتے ہیں، جب کہ قرآن کی رو سے نبوت آپ ﷺ پہ ختم ہو گئی ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ اب کسی الہام یا مشاہدۂ غیب کا کوئی کام نہیں ہے۔ اور ارشادِ نبوی ہے کہ نبوت سے مبُشّرات (یعنی اچھے خواب) باقی رہ گئے ہیں۔ جب کہ اہلِ تصوف کے یقین میں یہ سب چیزیں ابھی بھی حاصل ہو سکتی ہیں۔ جیسے: فرشتے اب بھی اترتے ہیں اور عالمِ غیب کا مشاہدہ اب بھی بہت ہوتا ہے اور اکابرین اب بھی ہدایت وہیں سے پاتے ہیں، جہاں سے جبرائیلِ امین پاتے ہیں۔ تو میں تھوڑی سی امام غزالی اور شاہ ولی اللہ اور شاہ اسماعیل شہید، شیخ احمد رحمۃ اللہ علیہم کی کتابیں اور داتا گنج بخش کی کشفُ المحجوب اور خواجہ بایزید بسطامی کی کچھ چیزیں پڑھی ہیں، تو میں بہت ہی حیرت میں پڑ گیا۔ جیسے خواجہ بایزید بسطامی لکھتے ہیں: ’’اللہ تعالیٰ مجھے فلکِ اسفل میں لے گئے۔ ساری زمینیں اور پاتال تک دکھائے۔ پھر آسمان اور ان میں بہشت کے باغوں سے لے کر عرشِ بریں تک جو کچھ ہے، سب دکھایا۔ اس کے بعد اپنے سامنے کھڑا کیا اور فرمایا: ’’مانگو، جو کچھ تم نے دیکھا ہے، میں تمہیں دوں گا‘‘۔ میں confuse تھا کہ کس طرح سے صوفیت میں، تصوف میں پورا focus کیا جائے۔ جب کہ آپ کی ساری چیزیں قرآن اور حدیث کے مطابق ہیں کہ معاشرہ، شخصیت اور انسانیت، کہ کس طرح زندگی گزاری جا سکتی ہے۔ اور صرف تصوف اور خانقاہ میں گوشہ نشین ہو کر اور ’’اَللہ، اَللہ‘‘ کر کے اس پر سارے دروازے کھل جائیں! میں اس میں (الجھا ہوا) confuse ہوں۔
جواب:
جزاک اللہ۔ اصل میں یہ observations ہیں، ہر ایک کی اپنی اپنی observations ہوتی ہیں۔ اور میرا خیال ہے کہ ہر ایک کو اپنا (نقطۂ نظر) Point of view پیش کرنے کا حق بھی ہے۔ البتہ ایک بات میں آپ سے عرض کروں گا کہ تجزیے (analysis) کے دو طریقے ہیں۔ ہمارے جتنے بھی مشاہیر ہیں، جن سے ہم نے شریعت کا علم بھی سیکھا ہے، وہ اسی تصوف سے گزرے ہیں۔ کسی ایک کا نام کوئی بتا دے کہ وہ تصوف سے نہ گزرے ہوں اور اس مقام پہ پہنچے ہوں۔ چنانچہ جتنے بھی ہمارے مشاہیر ہیں، جن کو ہم بڑا سمجھتے ہیں کہ یہ بہت بڑے علماء ہیں۔ گویا علم کی بھی صحیح بنیاد تصوف ہے۔ البتہ میں ایک بات عرض کرتا ہوں کہ واقعتاً تصوف کے بارے میں لوگوں نے بہت کچھ غلط پیش کیا ہے، اس میں کوئی شک نہیں ہے۔ لیکن جو تصوف ہم پیش کرتے ہیں، وہ شریعت کی بنیاد پر ہے۔ یعنی شریعت اصل ہے۔ بلکہ یوں سمجھ لیجئے کہ شریعت پر لانے کے لئے جو طریقہ (procedure) ہے، وہ طریقت ہے۔ مثلاً: ایک شخص شریعت پر عمل تو کرنا چاہتا ہے، لیکن اس کا نفس باغی ہے، وہ نہیں عمل کرنا چاہتا۔ اور اگر وہ اپنے نفس کو قید کر لے اور وہ شریعت پر عمل کرنا شروع کر لے، تو یقیناً آپ بھی اس کو اچھا سمجھیں گے، میں بھی اس کو اچھا سمجھوں گا، سب اس کو اچھا سمجھیں گے۔ اسی کو ہم طریقت کہتے ہیں۔ ہم کسی اور چیز کو طریقت نہیں کہتے۔ ممکن ہے کہ کچھ لوگوں نے دوسری چیزوں کو طریقت کہا ہو، اس کو چستان بنا دیا ہو۔ یعنی کچھ ایسی چیزیں پیش کیں، جن کا تصوف سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
آپ نے ابھی جو چند سوالات اٹھائے ہیں، ان میں آپ نے مبشرات کی بات ہے کی ہے۔ مبشرات مختلف قسم کے ہوتے ہیں۔ مثلاً: خواب کے ذریعے سے بھی انسان کو پتا چل سکتا ہے، جیسے خواب میں انسان جنت میں بھی جا سکتا ہے۔ خواب میں اللہ تعالیٰ کا دیدار بھی ہو سکتا ہے۔ امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ عالم ہیں، صوفی کم مشہور ہیں، عالم زیادہ مشہور ہیں۔ اور امام بھی ان لوگوں کے ہیں، جو ان چیزوں کو نہیں مانتے۔ امام احمد بن حنبل کا حنبلی مسلک ہے اور سعودی عرب سارا حنبلی ہے۔ حالانکہ امام احمد بن حنبل فرماتے ہیں کہ مجھے سو دفعہ اللہ تعالیٰ کا خواب میں دیدار ہوا۔ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ اللہ تعالیٰ سے میں نے پوچھا کہ یا اللہ! تجھ تک پہنچنے کا آسان سے آسان راستہ کیا ہے؟ اللہ پاک نے فرمایا: قرآن پاک کی تلاوت۔ میں نے پوچھا: سمجھ کر یا بغیر سمجھے؟ اللہ پاک نے فرمایا: چاہے سمجھ کر ہو، چاہے بے سمجھے ہو۔ امام احمد بن حنبل کی ایک اور بات میں سناتا ہوں۔ امام احمد بن حنبل بشر حافی رحمۃ اللہ علیہ کی مجلس میں جاتے تھے جو کہ صوفی تھے۔ ان کے بیٹے نے پوچھا کہ حضرت! بشر حافی رحمۃ اللہ علیہ تو عالم بھی نہیں ہیں، آپ تو بہت بڑے عالم ہیں، امامِ وقت ہیں، آپ ان کی مجلس میں کیا کرنے جاتے ہیں؟ حضرت نے فرمایا کہ ہر ایک اپنے فائدے کے لئے کسی کے پاس جاتا ہے، میں ان کی مجلس میں اس لئے جاتا ہوں کہ مجھے اپنے علم پر عمل کی توفیق ہو جاتی ہے۔ کسی اور عالم نے ان سے یہی سوال کیا کہ آپ ان کے پاس کیا لینے جاتے ہیں؟ آپ تو خود امامِ وقت ہیں۔ فرمایا: میں عالم بالقرآن ہوں گا، وہ عارف باللہ ہیں۔ گویا ان تمام چیزوں کا آپس میں تعلق ہے۔ جیسے امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ بہت بڑے عالم تھے، لیکن ان کو پتا چلا کہ کچھ چیزوں کی کمی ہے، تو غائب ہو گئے۔ اور ایسے غائب ہوئے کہ چودہ سال غائب رہے۔ اور جب اس چیز کو حاصل کر کے واپس آئے، تو عجیب حالت ہو گئی۔ پہلے ان کے گھر میں بڑا پُر تعیُّش ماحول تھا، کیونکہ اس وقت علماء کی بڑی قدر کی جاتی تھی۔ علماء کے گھروں میں صوفے، فانوس اور پتا نہیں، کیا کیا چیزیں ہوتی تھیں۔ لیکن جب آئے، تو فقیر امام غزالی بن گئے۔ حتیٰ کہ بادشاہوں کے ہاں بھی وہ فقیر کے طور پہ مشہور تھے۔ گویا یہ صرف ایک عملی ذوق ہے، صرف باتیں کرنا نہیں ہے۔ جیسے مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:
قال را بگذار مرد حال شو
پیش مردِ کاملے پامال شو
ترجمہ: قال کو ایک طرف رکھ دو، مردِ حال بن جاؤ۔ اس کے لئے کسی مردِ کامل کے سامنے اپنے آپ کو پامال کر دو۔
جہاں تک علامہ اقبال کی بات ہے، تو میں صاف بات عرض کرتا ہوں کہ الحمد للہ علامہ اقبال کی شاعری ہمیں بہت پسند ہے اور ہمارے شیخ مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ کلامِ اقبال کے بہت سپیشلسٹ تھے۔ وقتاً فوقتاً کلامِ اقبال کو پڑھتے بھی تھے، لیکن علامہ اقبال کی زندگی کے کئی ادوار ہیں۔ جس دور میں وہ ان چیزوں کے منکر تھے، اس وقت کی شاعری کو اس کے لئے استعمال نہیں کریں گے۔ لیکن بعد میں وہ ان چیزوں کے قائل ہو گئے تھے۔ جس کا ثبوت یہ ہے کہ وہ اپنے بارے میں کہتے ہیں کہ میں مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ کا مریدِ ہندی ہوں۔ اور وہ مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ کو پیرِ رومی کہتے ہیں۔ چنانچہ انہوں نے مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ سے روشنی لی، مولانا انور شاہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ سے علم لیا۔ اور پھر اس کے بعد ان کے جو اشعار ہیں، وہ یقیناً بہت قیمتی (valuable) ہیں۔ میں نے اپنے ساتھیوں کو اس پر کام پہ لگایا ہوا ہے کہ کوشش کر کے علامہ اقبال کی وہ شاعری معلوم کریں، جو ان کی آخری زندگی کی ہے۔ تاکہ ہمیں زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل ہو سکے۔ جزاک اللہ۔
سوال:
علامہ اقبال کہتے ہیں:
اچھّا ہے دل کے ساتھ رہے پاسبانِ عقل
لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑ دے
جواب:
ما شاء اللہ! اصل میں یہ آپ نے علامہ اقبال کی ایک کیفیت بتائی ہے اور کیفیت آنی جانی ہوتی ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ کیفیت Subject to condition ہوتی ہے۔ جس condition میں انہوں نے یہ بات کہی ہے، اسی کے لئے valid ہے۔ جب وہ condition ختم ہو جائے، تو اس کے لئے وہ valid نہیں رہے گی۔
شعر کا مطلب یہ ہے کہ جذبات کو عقل کے ذریعے سے کنٹرول رکھو۔ یعنی عقل کا کام ہے کہ وہ جذبات کو کنٹرول کرے۔ یہ بات میں نے بھی عرض کی ہے کہ ایسا ہونا چاہئے۔ اور یہ جو کہا کہ کبھی کبھی اس کو تنہا بھی چھوڑ دو۔ اس کا مطلب ہے کہ ایمان کی حالت میں اس کو تنہا چھوڑو۔ کیونکہ اگر عقل ایمان کو نہیں مانتی، تو دل کی بات ماننی چاہئے۔
اسی عقل پر ایک چھوٹا سا کلام ہے، وہ آپ کو میں سناتا ہوں۔
عقل والوں کی رسائی ذہن میں رکھتے ہوۓ، عشق والوں کی رسائی پہ کوئی بات کرے
حسن والوں کی چاہتوں کو سامنے رکھ کر، خرد کی اپنی سست روی پہ کوئی بات کرے
حسن والے تو اتنا چاہیں اتنا عقل تو ہو، ساتھ یہ ہو تو وہ پہچانے تو سب میں جائیں
باقی پہچان کے بعد عشق سے ممکن جو ہے، اس کی فطری وارفتگی پہ کوئی بات کرے
اللہ جل شانہ نے فرمایا کہ میں نے کائنات کو اپنی پہچان کے لئے پیدا فرمایا ہے۔ ہر صلاحیت والا چاہتا ہے کہ اس کو پہچان لیا جائے۔ اور اللہ جل شانہ کی تو بات ہی اور ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کی معرفت کے لئے سارا کچھ پیدا کیا گیا ہے۔ اور پہچاننے کے لئے تو عقل کی ضرورت ہے، لیکن جب پہچان لیا جائے، تو پھر عقل کی حد ختم ہو جاتی ہے۔ پھر آگے عشق کی پرواز ہے کہ وہ کتنا آگے جا سکتا ہے۔
عقل جب عقل ہو تو عقل کو سیدھا رکھے، عشق جب عشق ہو تو ہو اصلی معشوق کے ساتھ
عقل جب نفس سے آلودہ ہو تو دل کی پھر، ہے جو ممکن اس میں کجی پہ کوئی بات کرے
بے خطر کود پڑا آتشِ نمرود میں عشق، عقل ہے محوِ تماشاۓ لب بام ابھی
کہتا اقبال ہے درست پر یہ عشق ملے کیسے؟ اس کے ملنے کی آگہی پہ کوئی بات کرے
عقل بن جائے اگر عشقِ حقیقی کا غلام، وہ خواہشاتِ نفسانی کا کرے ٹینٹوا بند
اس کی تائید ہو معشوقِ حقیقی سے پھر، دل کی الہامِ رحمانی پہ کوئی بات کرے
ایسا عاشق جب پہنچے اپنے معشوق کے ہاں، اور وہ معشوق ہو باوفا کا بنانے والا
ساتھ وہ معشوق ہو قادر کہ کرے جو بھی کرے، شبیر اس کی مہمانی پہ کوئی بات کرے
اب اس کو میں conclude کرتا ہوں۔ بلکہ آخری شعر نے اس کو conclude کر ہی دیا ہے۔ جیسے قرآن پاک کی ایک آیت ہے: ﴿اِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا تَتَنَزَّلُ عَلَیْهِمُ الْمَلٰٓىِٕكَةُ اَلَّا تَخَافُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا وَاَبْشِرُوْا بِالْجَنَّةِ الَّتِیْ كُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ 0 نَحْنُ اَوْلِیٰٓؤُكُمْ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَفِی الْاٰخِرَةِۚ وَلَكُمْ فِیْهَا مَا تَشْتَهِیْۤ اَنْفُسُكُمْ وَلَكُمْ فِیْهَا مَا تَدَّعُوْنَ نُزُلًا مِّنْ غَفُوْرٍ رَّحِیْمٍ﴾ (حم السجدہ: 30-32)
ترجمہ: ’’جن لوگوں نے کہا ہے کہ ہمارا رب اللہ ہے، اور پھر وہ اس پر ثابت قدم رہے، تو ان پر بیشک فرشتے (یہ کہتے ہوئے) اتریں گے کہ: نہ کوئی خوف دل میں لاؤ، نہ کسی بات کا غم کرو، اور اس جنت سے خوش ہو جاؤ، جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا۔ ہم دنیا والی زندگی میں بھی تمہارے ساتھی تھے، اور آخرت میں بھی رہیں گے۔ اور اس جنت میں ہر وہ چیز تمہارے ہی لئے ہے جس کو تمہارا دل چاہے، اور اس میں ہر وہ چیز تمہارے ہی لئے ہے، جو تم منگوانا چاہو‘‘۔
چنانچہ قرآن پاک میں اللہ پاک نے پہلے سے بشارت دی ہے کہ جو اس کے پاس بن کر آئیں گے، تو ان کو کہا جائے گا: ﴿وَلَكُمْ فِیْهَا مَا تَشْتَهِیْۤ اَنْفُسُكُمْ﴾ کہ تمہارے لئے ہر وہ چیز جنت میں موجود ہے، جو تمہارا جی چاہے گا اور ہر وہ چیز تمہیں ملے گی، جو تم منہ سے مانگو گے۔ کیونکہ یہ غفور و رحیم کی مہمانی ہے۔
بس اسی کے ساتھ محبت کرنی ہے، اسی کے لئے کام کرنا ہے، اسی کے لئے سوچنا ہے، اسی کے لئے زندہ رہنا ہے، اسی کے لئے مرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں نصیب فرما دے۔
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ