توضیح المعارف، قسط نمبر: 8
فلسفۂ سائنس اور معرفتِ الٰہی – تیسرا حصہ
اس کتاب میں حقائق و معارف کو سمجھانے کا جو طریقہ اپنایا گیا ہے، وہ کمپیوٹر پروگرامنگ سے مشابہ ہے۔ یعنی پہلے چند common sense (بدیہی باتوں) کو ذہن نشین کرایا جاتا ہے۔ پھر ان کی مدد سے گہرے حقائق تک پہنچایا جاتا ہے۔
ان حقائق کا جاننا کس شخص کے لئے ضروری ہے؟
ان حقائق کا جاننا ہر ایک کے لئے ضروری نہیں ہے، بلکہ ان کا جاننا یا تو مبتلا کے لئے ضروری ہے یا مقتدا کے لئے۔ مبتلا وہ شخص ہے، جس کا ذہن آج کل کے میڈیا سے متاثر ہو چکا ہو اور وہ دین کی بنیادی باتوں مثلاً: وجودِ باری تعالیٰ کے متعلق شکوک و شبہات کا شکار ہو چکا ہو۔ اور مقتدا وہ شخص ہے، جس نے لوگوں کی دینی رہنمائی کرنی ہو۔
خدا موجود ہے۔ سائنسی دلائل
یعنی اس پورے عالم کا کوئی خالق ہے۔ اس کے لئے سب سے پہلے اس بات کی تحقیق کی جائے کہ کیا فاعل کے بغیر کوئی فعل ہو سکتا ہے؟
نیوٹن کا پہلا قانون کہتا ہے کہ اگر کوئی چیز ساکن ہے، تو وہ اس وقت تک ساکن رہے گی، جب تک اس کو حرکت دینے والی طاقت سے حرکت نہ دی جائے۔ اور اگر کوئی چیز حرکت میں ہے، تو وہ اس وقت تک حرکت میں رہے گی، جب تک اس کو روکنے والی قوت کے ساتھ روک نہ دیا جائے۔
نیوٹن کا دوسرا قانون بتاتا ہے کہ یہ قوت F جو کمیت M پر عمل کر رہی ہے، قوت M کی رفتار میں فی سیکنڈ اضافہ یا کمی اس قوت F ہی کی سمت میں اس کے متناسب ہوتی ہے۔ ان دونوں قوانین سے پتا چلا کہ کوئی حرکت خود بخود نہیں ہوتی۔ اس کے لئے کسی فاعل کی ضرورت ہوتی ہے۔ نیز انٹراپی کے قانون (Entropy Law) کے مطابق چیزوں میں وقت کے ساتھ بے قاعدگی (Disorder) آتی ہے۔ اس کو روکنے کے لئے کوئی نظام ہونا چاہئے۔ جب بے قاعدگی کو روکنے کے لئے نظام ہونا چاہئے، تو بے قاعدہ چیزوں کو با قاعدہ بنانے کے لئے تو بدرجہ اولیٰ نظام کی ضرورت ہو گی۔ ان باتوں کا جواب منکرینِ خدا یہ دیتے ہیں کہ خدا کو کس نے بنایا؟ ہم ان کے جواب میں کہتے ہیں کہ ہم اتنا ہی کہہ سکتے ہیں، جتنا ہم جانتے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ سب چیزوں کو بنانے والا خدا ہے۔ ہم خدا کہتے ہی اس کو ہیں، جو کسی کا کسی چیز میں محتاج نہ ہو، ورنہ وہ خدا نہیں ہو گا۔ ہم جس کو خدا کہتے ہیں اس کے بارے میں ہم یہی جانتے ہیں کہ وہ کسی کا کسی بھی چیز میں محتاج نہیں، اس لئے اس سوال کا جواب ہماری حدود سے باہر ہے۔ ہر چیز کے لئے کسی خالق کا ہونا؛ یہ ہماری رینج میں ہے، اس لئے اس کو ہم مانتے ہیں۔
خدا ایک ہے
کیونکہ خدا کسی کا محتاج نہیں ہو سکتا اور دو نظام بالکل ایک دوسرے سے آزاد نظام؛ مل کر ایک نظام نہیں چلا سکتے۔ دوسرے لفظوں میں ہم یہ کہنا چاہتے ہیں کہ اگر دو خدا ہوتے، تو کائنات میں فساد برپا ہو جاتا۔ اگر کوئی شخص کہے کہ کائنات میں کئی نظاموں میں ان کے ارکان کی آپس میں ایسی باہمی ہم آہنگی ہوتی ہے کہ سارا نظام ٹھیک چل رہا ہوتا ہے، تو اس طرح اس کائنات کو چلانے والے ایک سے زائد خداوں میں بھی ہو سکتا ہے۔ لیکن یہ لوگ اس بات کو بھول جاتے ہیں کہ کائنات کے اندر مختلف ارکان میں باہمی ہم آہنگی کی وجہ ان کی محتاجی ہے کہ ہر ایک کے مفادات دوسروں پر منحصر ہیں۔ اس طرح سب کو ایک خدا نے باہم متحد رکھا ہوا ہے۔ لیکن چونکہ خدا کسی کا محتاج نہیں ہوتا، اس لئے دو ایسے خدا جو کسی کے محتاج نہ ہوں، ان کی موجودگی بیک وقت نا ممکن ہے۔ کیونکہ ان کے باہم متحد ہونے کی کوئی وجہ نہیں ہو گی، کیونکہ خدا کے ہاں احتیاج نہیں، بلکہ بے نیازی ہے۔
کائنات کی تخلیق کی نوعیت ،جعلِ مرکب اور جعلِ بسیط کی بحث:
جعل کسی چیز کے بنانے کو کہتے ہیں۔ اس کی نوعیت کیا ہے؟ اس کا جواب بعض لوگ یہ دیتے ہیں کہ ماہیت کو قیوم کے ساتھ جوڑنے کا عمل ’’جعل‘‘ ہے۔ دوسرے لفظوں میں حقیقت اور حقیقت کے قیوم کا باہمی ربط پیدا کرنا ’’جعل‘‘ کہلاتا ہے۔ اس کے بر عکس اگر ان کا ربط توڑ دیا جائے، تو وہ چیز معدوم ہو جائے گی۔ مثلًا: کرسی کا ذہن میں نقشہ موجود ہے، لیکن کرسی جو اس نقشے کی بنیاد پر بنی تھی، جب وہ توڑ دی گئی، تو اس کا قیوم کے ساتھ ربط ٹوٹ گیا۔ ماہیت یا ڈیزائین تو موجود ہے، لیکن اس کا ظِل ختم ہو گیا۔ کچھ لوگ جن کا خیال ہے کہ معدومات کا ثبوت ممکن نہیں۔ وہ یہ کہیں گے کہ جو چیز نیستی سے آ موجود ہوئی اور جو اب خارج میں ہے، وہی حقیقت اور ماہیت بھی ہے، تو ایسی صورت میں اس کے معدوم ہونے کا مطلب اس حقیقت کا ختم ہونا ہو گا۔
جیسا کہ پہلے کہا گیا ہے کہ ماہیت کے کئی حصوں میں سے کسی ایک حصے کا جب اس کے قیوم کے ساتھ رابطہ جوڑا جاتا ہے، تو اس کا ظل وجود میں آتا ہے اور اگر ان کا آپس میں رشتہ توڑا جاتا ہے، تو وہ ظل معدوم ہو جاتا ہے۔ ایسا نہیں ہوتا کہ ماہیت ہی ظل کی صورت میں آ موجود ہو جاتی ہو۔ اسی طرح کسی چیز کے معدوم ہونے کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ قیوم کے ساتھ ماہیت کا جو رشتہ پیدا ہو گیا تھا، اس کو توڑ کر ثبوت کے درجے میں اس ماہیت کو واپس کر دیا جاتا ہو۔ جیسے مندرجہ بالا مثال میں کرسی کا لکڑی سے رشتہ توڑ کر درجۂ ثبوت میں کرسی کی ماہیت کو واپس کیا جائے، ایسا نہیں ہوتا۔
جیسا کہ بتایا گیا کہ ظل کا تعلق فرد اور ماہیت کے کسی خاص حصے کے ساتھ ہوتا ہے اور ماہیت کا تعلق نوع کے ساتھ ہوتا ہے۔ چونکہ ماہیت کلی ہوتی ہے ،اس کے کئی حصے ہو سکتے ہیں، جو ظلال بن جاتے ہیں۔ پس جعل (بنانے کا عمل) کو اگر ظل کے لحاظ سے دیکھا جائے کہ یہ اس ظل کو عدم سے وجود میں لانے کا نام ہے، تو یہ ’’جعلِ بسیط‘‘ (یعنی ایک ہی شے سے بنانا) کہلائے گا اور اگر یہ سمجھیں کہ پہلے ماہیت کے حصے (ظلال) بنے اور پھر ظل قیوم کے ساتھ ملا، تو یہ دو عمل ہوئے، اس لئے یہ ’’جعلِ مرکب‘‘ کہلائے گا۔ پس جعل کے عمل کو بسیط یا مرکب کہنا نقطۂ نظر کے حساب سے ہے گویا کہ یہ نزاعِ لفظی ہے۔ اس کے علاوہ کچھ نہیں۔
عالَم یا کائنات کی حقیقت کے بارے میں حضرت شیخ محی الدین ابن عربی اور حضرت مجدد الف ثانی رحمة اللہ علیہما کے اقوال کی تشریح:
اس بحث سے یہ نتیجہ بھی آسانی کے ساتھ نکالا جاسکتا ہے کہ حضرت شیخ محی الدین ابن عربی رحمة اللہ علیہ اور ان کے حضرات جو یہ کہتے ہیں کہ اعیانِ ثابتہ نے وجود کی بُو بھی نہیں سونگھی، تو ان کے اس قول میں اعیان سے یہاں مراد ظل نہیں، بلکہ ماہیت یا ڈیزائن ہے اور ماہیت کا خارج میں وجود نہیں ہوتا، اس لئے ان کا قول صحیح ہے اور بعض حضرات کہتے ہیں کہ اس امکانی عالَم (جو کہ ہمارے سامنے ہے) کی ذات تو معدوم ہے، لیکن اس کا اثر موجود ہے اور کچھ حضرات کہتے ہیں کہ یہ اسماء کے ظلال ہیں اور بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ مقید ہونے کے اعتبار سے جس کو عالم یا کائنات کہتے ہیں، اگر اس کو مطلق ہونے کے لحاظ سے دیکھا جائے تو وہی قیوم کہلاتا ہے اور وہی جب قیود سے آزاد ہو تو قیوم کہلاتا ہے۔ ان بحثوں میں یہ نظر آتا ہے کہ ہر گروہ عالَم کی الگ تعریف کر رہا ہے۔ ان کی اپنی اپنی تعریف کے مطابق ہر ایک کی بات صحیح ہو سکتی ہے۔
تفصیل سے اگر دیکھا جائے کہ عالمِ امکان سے اگر امکانی حقائقِ ماہیات مراد ہوں، تو بلا شک ان حقائق کی اصل ذات یقیناً معدوم ہے۔ صرف ان کا اثر دنیا میں موجود ہے۔ اور اگر عالمِ امکانی سے مراد امکانی حقائق کے بجائے ان ہی حقائق اور ماہیتوں کے وہ حصے ہیں، جو قیوم سے جڑ کر بحیثیت ہویت منتزع (extract) ہورہے ہیں، تو بلاشبہ پھر ان ہی اسمائے کونیہ یعنی ان حقائق کے ظلال ہی کا نام عالمِ امکان ہے۔ اگر ایسا ہے، تو قیوم ہی بلاشبہ عالمِ امکانی قرار پائے بشرطیکہ ان کے ساتھ ان ماہیتوں کے ظلال کا تعلق پیدا ہو گیا ہو۔
قیوم واحد ہے
تمام امکانی حقائق یعنی اللہ کے علاوہ جو کچھ ہے، ان سب کا قیوم ایک واحد شخصی امر ہے۔ اسی امر سے سب پیدا ہوئے اور جتنی دیر تک سب موجود رہیں گے، ان کو موجود اور برقرار رکھنے والی قوت بھی وہی ہے۔ اس کی دلیل
اگر اس دعوے کو نہیں مانا جائے گا اور متعدد قیوموں کا نظریہ پیش کیا جائے گا، تو ان تمام قیوموں میں قیومیت کی صفت اور خود موجود ہونے کی صفت مشترک ہو گی۔ ان میں سے ہر ایک قیوم ماہیتوں کا مبدإِ تعین ہو گا اور ان کے تمام آثار کے ظہور کا باعث ہو گا۔ الغرض قیومیت کی ساری صفات ان قیوموں میں مشترک ہوں گی۔ پس متعدد قیوموں میں ان مشترک چیزوں کے متعلق کیا حکم ہو سکتا ہے؟ اگر یہ کہ ان کا شخصی وجود سب میں مشترک ہے، تو یہ بداہتاً ممکن نہیں ہے، جیسا کہ کسی انسان کی قیومیت دو بدنوں کے ساتھ ممکن نہیں۔ اور اگر شخصی وجود کے بجائے اس کا احتمال ہو کہ ان خصوصیات کا کلی مفہوم ان میں مشترک ہے، تو کلی مفہومات محض ذہنی اور اختراعی امور ہوتے ہیں۔ خارج میں وہ معدوم ہوتے ہیں۔ پس ایسی چیز جو معدوم ہو، وہ ایسی چیزوں میں جو بناءِ وجودِ ہستیاں ہوں، کیسے مشترک ہو سکتی ہے؟ اس لئے لازماً ایسا موجود جس میں قیومیت کی ساری صفات پائی جائیں، وہ ساری کائنات میں ایک ہی ہونا چاہئے۔ اور مذکورہ بالا قیومی خصوصیات اپنے کلی مفہومات کے ظلال یعنی خارجی افراد قرار دئیے جائیں اور یہی قیومی شخص جس طرح سب چیزوں کا قیوم ہے، اسی طرح وہ ان قیومی صفات کا بھی قیوم ہو۔ البتہ یہ ماننا پڑے گا کہ ان قیومی خصوصیات کا تعلق دوسرے ظلال سے پہلے قائم ہوا ہے۔
قیوم ماہیت اور ظلال دونوں کو وجود بخشتا ہے
کائنات میں جو کچھ ہے، ان سب چیزوں کا قیوم ایک واحدِ شخصی ہی ہو سکتا ہے۔ کائنات میں موجود سب چیزیں ظلال ہیں اور وہ واحدِ شخصی ان سب چیزوں کا قیوم ہے۔ اسی طرح ان کی حقائق اور ماہیتوں کے ساتھ بھی قیوم کا تعلق ہوتا ہے۔ جیسا کہ کرسی بناتے وقت نَجّار (carpenter) کے ذہن میں کرسی کا جو نقشہ تھا، اس کا مبدإِ تعین لکڑی تھی اور جب وہ کرسی بن گئی، تو اس کا قیوم بھی وہی لکڑی ہے یعنی لکڑی ان دونوں یعنی اس کے نقشے اور اس بنی ہوئی کرسی کا وجود ہے۔ پس قیوم ظِل اور حقیقت دونوں کا وجود ہے اور اس کو کائنات کی تمام ہویتوں سے بھی تعلق ہے، جیسا کہ لکڑی کرسی کی شکل و صورت کے تعین کا منشاء قرار پائی، تو وہی اس کرسی کی ہویت بھی ہے۔ ظاہر ہے کہ اس خاص ہویت کو اس قیوم یعنی لکڑی کے ساتھ وہی نسبت ہے، جو کسی مقید کو مطلق کے ساتھ ہوتی ہے۔ پس معلوم ہوا کہ کائنات کی حقیقتوں کی ہویتوں سے قیوم کو نسبت وہی ہے، جو مقید کو مطلق کے ساتھ ہوتی ہے۔
یہاں مطلق سے مراد کسی ذہنی قید سے آزاد ذات ہے اور مقید سے مراد یہ ہے کہ وہ مطلق ان قیود کے ساتھ پایا جائے۔ جیسے: لکڑی کی وہ حالت کہ جب اس میں کرسی کی شکل و صورت مدنظر نہ ہو، مطلق ہے اور جب اس لکڑی پر طاری کرسی کی حالت پر توجہ مرکوز ہو، تو وہ مقید ہے۔ پس اس کائنات میں جو کچھ ہو رہا ہے، وہ ایک واحد ذات کے ساتھ موجود ہے اور ان سارے ظلال کا قیام و بقا اور قرار و ثبات اسی کے ساتھ وابستہ ہے۔ اس صورت میں سب کی ذات ایک اور ماہیتیں مختلف ہیں۔ جیسے کرسی اور تخت کی ماہیتیں مختلف ہیں، لیکن ان دونوں کی ذات ایک ہے یعنی لکڑی، جو ان دونوں کا قیوم ہے۔ ان سے بزرگوں نے ان اصطلاحات کا اجراء فرمایا ہے۔ مختصراً یہ عرض کیا جا سکتا ہے کہ تمام موجود چیزوں میں چونکہ وجود مشترک ہے، اس لئے ان کا مبدإِ تعین یعنی قیوم بھی مشترک ہے۔
قیوم کو بعض حضرات نے ظاہر الوجود (External being) کہا، بعض نے ’’اَلْوُجُوْدُ الْمُنْبَسِطُ عَلٰی ہَیْکَلِ الْمُوْجُوْدَاتِ‘‘، بعض نے نفسِ رحمانی اور نفسِ کلیہ کہا۔ کبھی اس کو اسمائے الٰہیہ کا خاتم، کبھی تعبیر الرحمٰن اور کبھی المرید کہا گیا۔ بعض لوگوں نے جو یہ لکھا ہے کہ صوفیاء کے نزدیک واجب کے وجود کی مثال کلی طبعی جیسی ہے، یہ صوفیاء پر بہتان ہے اور ان کی بات نہ سمجھنے کی وجہ سے ہے۔ یہ اس وجہ سے ہوا کہ انہوں نے قیوم اور مُقَوِّم میں فرق نہیں سمجھا۔ ان بزرگوں سے تو یہ منقول ہے کہ واجب تعالیٰ تمام ماہیتوں کا قیوم ہے اور اس کے سوا جتنے امکانی حقائق ہیں، وہ حق ہی کے وجود کی مختلف شکلیں اور شیون ہیں۔ ان دونوں کے فرق پر غور کیا جائے، تو معلوم ہو گا کہ دونوں میں کتنا عظیم فرق ہے۔
بعض متکلمین نے حضرت شیخ ابو الحسن اشعری رحمہ اللہ کی طرف ایک لغو بات منسوب کی ہے اور وہ یہ کہ وہ وجود، جس کی وجہ سے چیزیں موجود ہوتی ہیں، جسے ’’وجود ما بہ الموجودیت‘‘ کہتے ہیں، شیخ ابو الحسن رحمہ اللہ اس کے تعدد کے قائل ہیں۔ اس طرح کہ وجود میں تعدد حقیقتوں کے تابع ہے۔ جس طرح انسان کی حقیقت اور بیل کی حقیقت مختلف ہے، جس کے یہ معنی ہوئے کہ یہ بات کہ ’’وجود تمام موجودات میں مشترک ہے‘‘ اس میں وجود سے مراد صرف لفظِ وجود ہے ورنہ سب چیزوں کا وجود مختلف ہے۔ جیسا کہ انسان کی حقیقت بیل کی حقیقت سے مختلف ہے۔ اس میں غلطی یہ ہے کہ وہ وجود کے معنی نہیں سمجھے۔ اس کو ایسا سمجھا جائے کہ مثلاً: گھوڑا اور آدمی دونوں موجود ہیں، تو ان دونوں چیزوں میں موجود ہونا مشترک ہے۔ ہاں آدمی اور عنقاء میں یہ اشتراک نہیں ہو سکتا۔ آدمی کی دو حالتوں عدم اور وجود میں اشتراک نہیں۔ کیا اس وقت یہ اشتراک صرف لفظِ وجود تک ہے یا حقیقت میں ہے؟۔ آدمی اور گھوڑے میں "ہونے " کا اشتراک ان کے ایک قیوم کی نشان دہی کرتا ہے ۔