اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلوٰۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم
ہم اللہ جل شانہٗ کا بہت شکر ادا کرتے ہیں کہ اللہ پاک نے ہمیں اصلاح کی نیت سے اصلاحی جوڑ میں شرکت کرنے کی توفیق دی۔
یاد رکھنا چاہیے کہ جب اللہ پاک کی نعمت کا شکر ادا کیا جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس نعمت کو اور بڑھا دیتا ہے۔ اگر ہم اس پر شکر کریں گے تو اللہ تعالیٰ ہمیں اس کے اور مواقع نصیب فرمائیں گے۔
جیسا کہ ابھی آپ لوگوں نے سنا کہ صحبت کا اثر انسان میں رچ بس جاتا ہے۔ صحابہ کرام آپ ﷺ کی صحبت میں رہتے تھے تو آپ ﷺ کا رنگ ان پہ چڑھ گیا تھا۔
ذرا غور کریں سورج ایک ہی ہے، لیکن جب اس کی روشنی درختوں پہ پڑتی ہے، درختوں کے پتوں میں کلوروفل ہوتا ہے اور پانی جڑوں سے اوپر جا چکا ہوتا ہے، ادھر سے سورج کی روشنی اس کے ساتھ ملتی ہے۔ ان تین چیزوں کے ملاپ سے پھل اور پھول بنتے ہیں۔ یہی سورج کی روشنی کسی ٹھنڈی جگہ پہ پڑے تو وہ گرم ہو جاتی ہے۔ یہی سورج کی روشنی مختلف قسم کی چیزوں کے لئے استعمال ہوتی ہے۔ یہ سولر سیلز کے ذریعے بجلی بھی پیدا کرتی ہے پھر بجلی سے مختلف کام لئے جاتے ہیں۔ اب سورج کی روشنی وہی ایک ہے لیکن اس سے کئی کام لئے جاتے ہیں۔ ایک ہی روشنی سے کئی کام لینا اس لئے ممکن ہو پاتا ہے کہ اللہ پاک نے چیزوں کے اندر مختلف صلاحیتیں رکھیں ہیں، جب سورج کی روشنی ان چیزوں پر پڑتی ہے تو ان کی صلاحیتیں اجاگر ہو جاتی ہیں۔
یہی مثال صحبت کی ہے۔ صحبت کے ذریعے انسان کے اندر پہلے سے موجود مختلف صلاحیتیں اجاگر ہو جاتی ہیں۔ آپ ﷺ کی صحبت میں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی تھے، عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی تھے، عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی تھے اور علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی تھے۔ ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو صدق ملا، یہ آپ ﷺ کی صحبت کی برکت تھی۔ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو فراست اور دور اندیشی ملی، یہ بھی آپ ﷺ کی صحبت کی برکت تھی۔ عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جود و سخا ملی، وفا ملی، قربانی ملی، حیا ملی، یہ بھی آپ ﷺ کی صحبت کی برکت تھی۔ علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے علم میں برکت ہوئی، شجاعت کے کارنامے ان سے صادر ہوئے، یہ بھی آپ ﷺ کی برکت تھی۔ تمام صحابہ کرام کے اندر جتنی صلاحیتیں تھیں ان کو آپ ﷺ کی صحبت سے جلا ملی۔
صحبتِ صالحین و مشائخ ایسی چیز ہے جس سے انسان کی صلاحیتیں نکھر جاتی ہیں، جس چیز کے لئے اسے اللہ نے پیدا کیا ہوتا ہے اس سے وہ کام لے لیا جاتا ہے اور اگر ایسا نہ ہو یعنی کسی آدمی میں صلاحیتیں تو ہوں مگر صحبت صالحین میں نہ آئے تو اس کی صلاحیتیں پھر نہیں نکھرتیں اس لئے نفس امارہ کی وجہ سے غلط استعمال ہوسکتی ہیں۔ مثلاً آپ ﷺ نے دو عمرین میں سے ایک کو مانگا تھا کہ اے اللہ! ان دو میں سے ایک عمر کے ذریعے سے اسلام کو قوت عطا فرما۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسلام قبول کیا اور اسلام کے روشن ستارہ بن گئے اور ابو جہل مسلمان نہیں ہوا تو وہ کفر کا ایک بہت گہرا گڑھا بن گیا۔ معلوم ہوا کہ اگر ابو جہل اسلام قبول کر کے نبی پاک ﷺ کی صحبت میں آ جاتا تو اس کی صلاحیتیں بھی اجاگر ہو جاتیں، جس کا اسے خود بھی فائدہ ہوتا اور باقی سب کو بھی فائدہ ہوتا۔
اس سے معلوم ہوا کہ یہ جو صحبت والا راستہ ہے اس سے بات آگے بڑھتی ہے۔ اس کے بعد یہ سمجھیں کہ صحبت حاصل کرنے کے بعد اپنے آپ سے حجابات کو ہٹائیں۔ حجابات کی مثال ایسی ہے جیسے کہیں پر سولر سیل لگا ہو اور اس پر سورج کی روشنی پڑ رہی ہو تو سورج کی روشنی میں صلاحیت ہے کہ اس سے بجلی پیدا ہو سکتی ہے، اس سیل کے اندر وہ صلاحیت ہے کہ وہ سورج کی روشنی کو بجلی میں تبدیل کر کے سٹور کر سکتا ہے، لیکن اگر اس کے اوپر مٹی پڑ جائے یا بادل آ جائیں تو پھر اس سے وہ کام نہیں ہو سکے گا جس کے لئے یہ بنایا گیا ہے، اس کی صلاحیت سے فائدہ نہیں اٹھایا جا سکے گا۔ ایسی چیزوں کو حجابات کہتے ہیں۔ صحبت کے فوائد کو صحیح معنوں میں حاصل کرنے کے لئے ان حجابات کو دور کیا جاتا ہے اس کے لئے بڑی محنت ہوتی ہے۔ دیکھو سولر سیل کے اوپر پانی کے ذریعے اسے صاف کرنے کا پورا واشنگ سسٹم نصب کیا جاتا ہے تاکہ اس کے اوپر مٹی وغیرہ نہ جمے، یہ دراصل اس کے حجابات کو دور کیا جاتا ہے۔ اسی طرح انسانوں میں مختلف افراد کے اپنے اپنے حجابات ہوتے ہیں۔ کسی کا افسری کا حجاب ہوتا ہے، کسی کا خاندان کا حجاب ہوتا ہے، کوئی اپنے آپ کو عقل میں بہت یکتا سمجھتا ہے یہ اس کا حجاب ہوتا ہے۔ مشائخ کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ ان حجابات کو دور کریں اور یہ کام بھی صحبت اور تعلق سے ہو سکتا ہے۔ یہ ساری چیزیں فطرتی ہیں اور اس ذریعے سے لوگوں کی اصلاح ہوتی رہتی ہے۔
اصلاح کا ضروری ہونا قرآن پاک اور حدیث شریف سے ثابت ہے لہٰذا ہر مرد و عورت پر اپنی اصلاح کرنا لازم ہے۔ پھر اصلاح کے تین طریقے ہیں ان تینوں میں سے جو کسی کے نصیب میں آ جائے اس کے لئے وہی طریقہ ٹھیک ہوتا ہے۔ پہلا طریقہ اخیار کا ہے۔ اخیار کا طریقہ یہ ہے کہ انسان خود اس بات کو سمجھ لیتا ہے کہ مجھے اصلاح کی ضرورت ہے، مجھے اپنے نفس کی اصلاح کرنی ہے، اپنے دل کو پاک صاف کرنا ہے اس کے لئے وہ باقاعدہ اپنی قوتِ ارادی سے علم حاصل کرتا ہے، اپنی قوت ارادی سے اس پر عمل کرتا ہے، شریعت پر عمل کرنے کی کوشش کرتا ہے اور نفس کی مخالفت کو توڑتا ہے کبھی اس میں کامیاب ہو جاتا ہے اور کبھی کامیاب نہیں بھی ہو پاتا کیونکہ اس کے پاس اس کا تجربہ نہیں ہوتا، اس وجہ سے بعض چیزوں کو غلط بھی سمجھ سکتا ہے بعض چیزوں میں الجھ بھی سکتا ہے۔ اخیار کے طریقے میں بہت کم لوگ کامیاب ہوتے ہیں۔ اس میں کوشش بہت سارے لوگ کرتے ہیں، اس میں مشغول بہت سارے لوگ ہوتے ہیں، لیکن کامیاب لوگوں کی تعداد کم ہوتی ہے۔ اس کی وجہ بالکل ظاہر ہے کہ انہیں اس راستے کے نشیب و فراز کا تجربہ نہیں ہوتا، وہ ہر بات نئے تجربے کے طور پہ کرتے ہیں، اس لئے کم ہی کامیاب ہوتے ہیں۔ ایک بہت بڑی دلیل ہے جو ان کو سمجھ نہیں آتی۔ وہ دلیل یہ ہے کہ فالٹی میٹر (faulty meter) کسی کو صحیح ریڈنگ (reading) نہیں دیتا۔ جس شخص کی اصلاح نہیں ہوئی اس کی مثال فالٹی میٹر کی سی ہے وہ اپنے بارے میں کیسے صحیح ریڈنگ کرے گا۔ ظاہر ہے اس کی ریڈنگ فالٹی ہوگی۔ اس کی کوشش بھی فالٹی ہو گی۔ لہٰذا اس کا رزلٹ بائے چانس (bychance) تو ٹھیک آ سکتا ہے لیکن اس میں بہت زیادہ امکان اس چیز کا ہوتا ہے کہ اس میں کوئی فالٹ ہو گا۔ اس وجہ سے اس میں کامیابی کم لوگوں کو ہوتی ہے لیکن اس میں شامل زیادہ لوگ ہوتے ہیں۔ کیونکہ کسی کی پابندی ہر ایک برداشت نہیں کر سکتا۔ بعض لوگ اس کو ذہنی غلامی سمجھتے ہیں، بعض لوگ اس کو اندھی تقلید سمجھتے ہیں اور نہ جانے کیا کیا عنوانات دیئے ہوئے ہیں۔
ہمارے ایک عرب ساتھی ہیں، ایک مرتبہ ان کے ساتھ تصوف کے بارے میں گفتگو ہوئی۔ ما شاء اللہ اس نے تصوف کی اتنی زیادہ کتابیں پڑھی تھیں کہ میں حیران ہو گیا، میں نے سوچا یا اللہ! یہ کیا ماجرا ہے، ایسی پرانی پرانی متقدمین کی کتابیں ان کے مطالعہ سے گزر چکی تھیں جن کا نام بھی عام لوگوں کو معلوم نہیں ہوگا۔ وہ چونکہ عرب تھے، عربی میں اس بارے میں کتابیں تو بہت ہیں، انہوں نے وہ سب پڑھی ہوئی تھیں۔ انہوں نے مجھے بہت ساری چیزوں کے بارے میں بتایا تو میں ان کے وسیع مطالعہ سے بڑا متاثر ہوا۔ لیکن اتنے وسیع مطالعہ اور اتنی عمیق معلومات کے باوجود وہ ایک مقام پہ آ کر پھنس گئے۔ مجھے کہنے لگے: ”شیخ میں اپنے اور اللہ کے درمیان کسی اور کو برداشت نہیں کر سکتا۔“
میں نے فوراً کہا: ”شیخ! کم از کم ایک کو تو برداشت کرنا ہوگا۔ وہ حقیقت ہے“۔
اس نے کہا: ”کون؟“
میں نے کہا: رسول اللہ ﷺ۔
اس نے فوراً کہا: نَعَم۔
یعنی یہ بات تو وہ سمجھ گیا کہ نبی ﷺ کے بغیر تو کوئی چارہ نہیں ہے کیونکہ اللہ تک پہنچنے کا واحد راستہ ہی یہی ہے ورنہ آپ کو کیا پتا کہ اللہ مجھ سے کیا چاہتا ہے اور آپ کو کیا پتا کہ آپ کا اللہ تک پہنچنے کا کون سا طریقہ ٹھیک ہے اور کون سا غلط ہے۔ یہ تو آپ ﷺ ہی سے معلوم ہوگا۔
پھر میں نے کہا: رسول اللہ ﷺ تک پہنچنے کے لئے آپ ﷺ کے صحابہ کرام کو ماننا پڑے گا، ان کا اقرار کرنا پڑے گا۔
یہ سن کر اس نے جواب دیا: نَعَمْ۔
کیونکہ یہ تو حدیث شریف میں موجود ہے: ”مَا اَنَا عَلَیْہِ وَ اَصْحَابِیْ“ (سنن ترمذی: 2641)۔
پھر میں نے کہا: صحابہ تک پہنچنے کے لئے آپ کو تین گروہوں کو ماننا پڑے گا۔ محدثین، فقہاء اور صوفیا۔ محدثین اخبار کے لئے۔ فقہا استنباطِ مسائل کے لئے اور صوفیاء شریعت پر عمل کروانے کے لئے۔
محدثین آپ کو بتائیں گے کہ آپ ﷺ نے کیا فرمایا، کیا کیا اور آپ ﷺ نے کس چیز کو کرنے دیا اور کس چیز سے روک دیا۔ ان تینوں اقسام کو قولی حدیث، فعلی حدیث اور تقریری حدیث کہتے ہیں۔ ان کو اخبارات کہتے ہیں، احادیث بھی کہتے ہیں۔ محدثین کی ضرورت اس لئے ہے کہ آپ کو کم از کم علم ہو جائے کہ آپ ﷺ نے کہا کیا ہے، کیا کیا ہے، کس چیز کو کرنے دیا ہے کس چیز سے روک دیا ہے۔
انہوں نے جواب دیا: نَعَمْ۔
میں نے کہا: فقہاء کی ضرورت اس لئے کہ وہ ان ہی اخبار اور احادیث سے مسائل معلوم کرکے عام لوگوں کو بتاتے ہیں۔ کیونکہ احادیث و اخبار اور آثار میں چیزیں متفرق ہوتی ہیں اور مختلف جگہوں پر پھیلی ہوتی ہیں۔ قرآن میں بھی کوئی مضمون ایک ہی جگہ نہیں ہے بلکہ مختلف جگہوں پہ ہوتا ہے اسی طرح مختلف احکام سے متعلق احادیث شریفہ مختلف مواقع، مختلف کتابوں اور مختلف جگہوں پہ ہوتی ہیں۔ فقہاء کا کام یہ ہوتا ہے کہ ان احادیث شریفہ سے گزر کے ان کو سمجھ کر قرآن کی روشنی میں مسائل اخذ کر لیں۔ انہوں نے یہ خدمت انجام دی ہوتی ہے اور ما شاء اللہ سب لوگ اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔
صوفیاء کی ضرورت اس لئے ہے کہ اول الذکر دونوں گروہوں کے حضرات آپ کو علم دیتے ہیں اور صوفیاء کرام آپ کو عمل پہ لاتے ہیں۔ علم پر عمل کرنے میں دو رکاوٹیں ہمیشہ رہتی ہیں۔ ان رکاٹوں کے وجود اور ثبوت سے آپ انکار نہیں کر سکتے کیونکہ ان کے بارے میں قرآن بھی بتاتا ہے حدیث بھی بتاتی ہے۔ ایک رکاوٹ شیطان ہے دوسری رکاوٹ نفس ہے۔ صوفیا یہ بتاتے ہیں کہ آپ عملی طور پر شیطان سے کیسے بچ سکتے ہیں، نفس کے شر کو کیسے دور کر سکتے ہیں، یہ کس طریقے سے ہو سکتا ہے۔ صوفیاء کرام یہ سارے مراحل طے کروا کے عمل پہ لاتے ہیں۔
انہوں نے یہ سن کر کہا: نَعَمْ۔
پھر میں نے کہا: فقہا اور محدثین کی بات تو آپ تک علما پہنچا دیں گے جبکہ صوفیا کی بات آپ تک آپ کا شیخ پہنچائے گا۔ لہٰذا آپ کا شیخ آپ کے لئے تربیت کا ذریعہ ہوگا اور یہ دونوں حضرات تعلیم کے ذریعے ہوں گے۔
یہ آخری بات سن کر خاموش ہوگئے۔ باقی ساری باتیں مان لیں لیکن یہاں پر رک گئے۔ خیر ”وَ مَا عَلَیْنَا اِلَّا الْبَلَاغْ“ کے مصداق کے تحت ہمارا کام تو بس پہنچانا ہے اس کے بعد فیصلہ ہر ایک کا اپنا اپنا ہوتا ہے ذمہ داری اپنی اپنی ہوتی ہے۔ چند دن بعد ہمارے پاس خانقاہ تشریف لے آئے، بیعت ہوئے اور ذکر لے لیا، ماشاء اللہ اس راستے میں چل پڑے۔
دیکھو اس کو الجھن اس چیز میں تھی کہ اللہ اور میرے درمیان کوئی نہیں آنا چاہیے۔ حالانکہ ملانے والا کوئی تو ہونا چاہیے ملانے والے کے بغیر چارۂ کار نہیں ہے۔ ایسا کوئی ڈھونڈنا پڑتا ہے اس کے پاس جانا پڑتا ہے۔ ہم یہاں پر جوڑ کی جو activity کر رہے ہیں، اسی طرح مختلف مشائخ کے پاس لوگ جاتے ہیں اور اصلاح کرواتے ہیں تب ان کی شریعت پر عمل میں آنے والی رکاوٹیں دور ہوتی ہیں۔ شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ بھی اپنے گھر میں شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کی حیثیت کے ساتھ نہیں پیدا ہوئے تھے، بلکہ بعد میں بنے تھے۔ خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ بھی بعد میں بنے تھے، یہ کسی کے پاس گئے تھے۔ حضرت علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ بھی کسی کے پاس گئے تھے۔ اسی طرح ہمارے بڑے بڑے حضرات کسی نہ کسی کے پاس گئے تھے، اس طرح گھر میں تو نہیں بنے تھے۔ اس کا طریقہ ہی یہی ہے.
ہمارے دادا احمد عطا رحمۃ اللہ علیہ کا واقعہ ہے، ان کے دور میں باقاعدہ یہ رواج تھا کہ لوگ علم حاصل کرنے کے بعد مشائخ کے پاس قافلوں کی صورت میں جاتے تھے۔ تلاش کرتے تھے کہ کوئی شیخ کامل مل جائے جن کے ہاتھ پہ ہم بیعت کر لیں اور اپنی اصلاح کر لیں۔ یہ بھی ایک قافلہ کے ساتھ روانہ ہو گئے۔ راستے میں ایک جگہ قافلہ نے پڑاؤ کیا۔ وہاں دیکھا کہ ایک آدمی جس کا رنگ کالا ہے اور بظاہر کوئی بڑی ہستی معلوم نہیں ہوتا، وہ گائیں چرا رہا ہے۔ وہ ایک درخت کے نیچے سستانے کے لئے لیٹ گئے، یہ بھی ان کے قریب ہی بیٹھ گئے۔ آپس میں مشورہ کر رہے ہیں کہ اب اس کے بعد کہاں جانا ہے اس گاؤ بان نے ان کی باتیں سنیں اور پوچھا کہ آپ لوگ کس مقصد کے لئے جا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا ہم کسی سے بیعت ہونا چاہتے ہیں۔ انہوں نے فرمایا: اس وقت اس زمین کے اوپر اور آسمان کے نیچے مجھ سے زیادہ بڑا ولی کوئی نہیں ہے۔
عموماً تو اللہ والے ایسے دعوے نہیں کیا کرتے لیکن بعض لوگوں کی تشکیل ہوتی ہے انہیں پھر اظہار کرنا پڑتا ہے۔ جیسے شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی بعض مواقع پہ اظہار کیا ہے۔
خیر قافلہ والوں نے کہا کہ اگر آپ واقعی ایسی ہستی ہیں تو پھر ہم آپ ہی سے بیعت کرتے ہیں۔ سب نے ان کے ہاتھ پہ بیعت کر لی۔ میرے دادا عالم بھی تھے اور سید بھی تھے، ان کو ذرا تردد ہوا لیکن لوگوں کی دیکھا دیکھی بیعت ہو گئے۔ جو جو لوگ بیعت ہوئے وہ سب حضرت کی خانقاہ میں چلے گئے اور وہیں قیام پذیر ہو گئے۔ جو اخلاص کے ساتھ بیعت ہوئے تھے ان کو جلدی جلدی فائدہ ہونے لگا اور میرے دادا کے دل میں چونکہ ذرا تردد تھا تو یہ پیچھے رہ گئے۔ کچھ عرصہ بعد جب انہوں نے دوسروں کی ترقی دیکھی تو محسوس کیا کہ میں نے غلطی کی ہے۔ اس ولی اللہ سے تعلق درست کرنا چاہا لیکن کام نہیں ہوا۔ پھر اب پیرانی صاحبہ سے درخواست کی کہ میری سفارش کر لیں میری غلطی تھی لیکن اب مجھے سمجھ آ گئی ہے، آپ حضرت سے میری سفارش کریں کہ مجھے قبول فرمائیں۔ انہوں نے بھی سفارش کی لیکن پھر بھی کام نہیں ہوا۔ یہ بہت پریشان ہو گئے۔ ایک رات انہوں نے ایسا کیا کہ اپنے آپ کو چٹائی میں لپیٹ کر اس راستے پہ لیٹ گئے جس راستے سے حضرت تہجد کی نماز پڑھنے کے لئے جاتے تھے۔ حسب معمول وہ تہجد کی نماز پڑھنے کے لئے نکلے، چلتے چلتے ٹھوکر لگی، دیکھا تو کوئی چٹائی ہے جس میں کوئی لپٹا ہوا ہے۔ پوچھا: کون؟ انہوں نے اندر سے آواز دی: احمد جو علمیت اور سیادت کے غرے میں ابھی تک آپ کے فیض سے محروم ہے۔ حضرت کو یہ سن کر اور دیکھ کر ان پہ ترس آ گیا اور پیار آ گیا۔ ان کو چٹائی سے نکال کر گلے لگایا، مسجد لے گئے پھر ان کی تربیت کا سلسلہ شروع ہو گیا چونکہ ان میں صلاحیت بھی تھی عالم بھی تھے، ما شاء اللہ بہت تیزی کے ساتھ ترقی کی۔ پھر حضرت نے ان کو اپنا خلیفہ بنا کر واپس بھیجا۔
اب اس واقعہ میں غور کریں اور دیکھ لیں کہ ان کے لئے رکاوٹ کون سی چیز بنی۔ وہ سمجھتے تھے کہ بھلا یہ آدمی ولی کیسے ہو سکتا ہے رنگ کا بھی کالا اور کام بھی گائیں چرانے کا ہے۔ لیکن یہ تو اللہ کی دین (عطا) اور اس کی تقسیم ہے جس کو چاہے جو مرتبہ عطا کرے۔
بہر حال یہ سلسلہ پرانا چلا آ رہا ہے اسی سے لوگ بنتے رہے ہیں۔ ایک طریقہ میں نے اخیار کا بتایا۔ اس طریقہ میں انسان اپنے ارادے کے ساتھ علم حاصل کرتا ہے پھر اس پر عمل کرتا ہے اور اپنی اصلاح بھی کرنا چاہتا ہے۔ لیکن اس میں بہت کم لوگ کامیاب ہوتے ہیں اگرچہ اس پہ آتے زیادہ لوگ ہیں۔ زیادہ تر لوگ یہی چاہتے ہیں کہ ہمیں کسی کا دست نگر نہ ہونا پڑے۔
دوسرا طریقہ ابرار کا ہے۔ ابرار وہ لوگ ہوتے ہیں جو اپنی اصلاح کے لئے کسی کو چن لیتے ہیں ان کے تجربے کی بنیاد پر اور ان کے سلسلے کی بنیاد پر۔ چونکہ ان کو تجربہ بھی حاصل ہوتا ہے اور سلسلے کی برکت بھی ہوتی ہے لہٰذا یہ طریقہ بے شک تھوڑے لوگ اختیار کرتے ہوں لیکن اس میں کامیاب زیادہ لوگ ہوتے ہیں۔ اس طریقہ میں کامیابی کا تناسب (Success rate) اخیار کے مقابلے میں نسبتاً زیادہ ہے۔
اخیار کو ہر کام میں اپنی قوتِ ارادی استعمال کرنی پڑتی ہے۔ وہ نماز پڑھتے ہیں پھر بھی قوت ارادی، روزے رکھتے ہیں پھر بھی قوت ارادی، کوئی اور کام کرتے ہیں پھر بھی قوت ارادہ۔ وہ ہر چیز میں قوت ارادی استعمال کرتے ہیں۔ جبکہ ابرار کو صرف ایک چیز میں اپنی قوت ارادی استعمال کرنا پڑتی ہے کہ وہ اپنے شیخ کی بات مانیں۔ اس کے علاوہ انہیں کسی اور چیز کے اندر قوت ارادی کی ضرورت نہیں پڑتی کیونکہ انہوں نے بس شیخ کی بات ماننا ہوتی ہے، جو وہ کہے گا اس پر وہ عمل کریں گے۔ بالفاظ دیگر ایک چیز میں ابرار کو بھی قوت ارادی استعمال کرنا پڑتی ہے، لیکن تیسرا طبقہ ایسا ہے جنہیں اپنی قوات ارادی بالکل استعمال نہیں کرنی پڑتی۔
تیسرا طریقہ شطاریہ کا ہے۔ شطاریہ انہیں کہتے ہیں جو اپنے شیخ کے عاشق ہوتے ہیں۔ ان کو کسی قوت ارادی کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ وہ چونکہ شیخ کے عاشق ہوتے ہیں اور عاشق تو چاہتا ہی یہی ہے کہ مجھے کچھ بتایا جائے تاکہ میں کروں۔ وہ انتظار میں ہوتے ہیں کہ شیخ کوئی حکم دے اور ہم اسے مانیں۔ اس لحاظ سے ان کی اصلاح کی رفتار سب سے زیادہ ہوتی ہے۔ اگرچہ اس قسم کے لوگ ہوتے تھوڑے ہیں لیکن جو ہوتے ہیں وہ بہت ہی کام کے ہوتے ہیں اور بہت ہی آگے ہوتے ہیں ان کی ترقی کا کوئی حد و حساب نہیں ہوتا۔ تو یہ تین طریقے ہیں۔ جس میں جو چل جائے اور فٹ ہو جائے اس کے لئے ٹھیک ہے اللہ تعالیٰ فضل فرما دے تو کام بن جاتا ہے۔
الحمد للہ ہم یہاں اپنی اصلاح کا مقصد لے کر جمع ہوئے ہیں، اس کے علاوہ اس میں کوئی اور مقصد نہیں ہے۔ میں نے کل بھی صاف صاف بتایا تھا کہ ہمارا مقصد یہاں آنے سے سیر سپاٹا نہیں ہے اگرچہ کچھ لوگوں کو صبح میں نے دیکھا کہ وہ سیر سپاٹے کے لئے نکلے ہوئے تھے۔ ان کی بات نہیں کر رہا جن کو واقعی ڈاکٹر نے بتایا ہے۔ ان کی بات کر رہا ہوں جو اپنے علاقے میں کبھی واک کے لئے نہیں نکلے لیکن یہاں نکلے ہوئے تھے۔ اگر وہاں کوئی واک نہیں کرتا تھا اور یہاں واک کے لئے نکلا تو اس کا مطلب ہے کہ اس کی نیت سیر سپاٹے کی تھی۔ ان چیزوں سے نقصان ہوتا ہے اس پر توبہ کرنی چاہیے کیونکہ یہاں پر ہمارا کام صرف اور صرف اپنی اصلاح کے لئے آنا تھا اس کے علاوہ اور کوئی نیت ہے ہی نہیں۔ ورنہ مَری میں سیر کی جگہیں بہت ہیں، ہم تو سیر کے لئے نہیں آئے اگر سیر کے لئے آئے ہوتے تو پھر ان جگہوں پہ جاتے جہاں لوگ سیر کے لئے جاتے ہیں۔ ہمارا کام صرف اور صرف اپنی اصلاح کی نیت تھی۔ اور اس کے لئے ایک مسجد میں اپنے آپ کو، جیسے اعتکاف میں لوگ اپنے آپ کو مقید کر لیتے ہیں، اس طرح مقید کرنا تھا۔ اب اس میں جس کا جس قدر خلوص اور جس قدر تابعداری ہوتی ہے اس کو اتنا فائدہ ہوتا ہے۔ جس کی ان دونوں چیزوں میں جتنی کمی ہوتی ہے اسے اتنا مسئلہ ہوتا ہے اتنی impurity ہوتی ہے۔
پھر ان میں کچھ مقبولین ہوتے ہیں۔ ان مقبولین سے اگر کوئی غلطی ہو جاتی ہے تو ان کی غلطی کا اثر دور کرنے کے لئے ان پہ غیر اختیاری مجاہدات آتے ہیں۔ ان غیر اختیاری مجاہدات سے وہ سیدھے تو ہو جاتے ہیں لیکن ان کی جان لگ جاتی ہے، وہ مجاہدات اچھا خاصا نچوڑ کر رکھ دیتے ہیں۔ آسان طریقہ یہ کہ مانتے جاؤ اپنا ذہن اس میں نہ لڑاؤ بلکہ وہی کرو جو بتایا جائے، یہ آسان ترین طریقہ ہے۔ ورنہ ایسا ہوتا ہے کہ اگر اپنی مرضی کی کوئی چیز رکھی ہے تو اللہ کی طرف سے اس چیز سے پاک صاف کرنے کا نظام کام کرتا ہے۔ جتنی impurity ہوتی ہے اس سے پاک صاف کرنے کے لئے بہت کچھ کرنا پڑتا ہے۔
لہٰذا آئندہ جب بھی اس قسم کا جوڑ ہو تو جوڑ کو جوڑ سمجھنا چاہیے جوڑ کو سیر سپاٹا نہیں سمجھنا چاہیے اس میں اپنی اصلاح کی نیت ہونی چاہیے کوئی اور نیت نہیں ہونی چاہیے۔ دیکھو چوبیس گھنٹے ہیں ان چوبیس گھنٹوں میں آپ اگر واقعی اس کے ساتھ مخلص ہیں اور اپنی قوت ارادی کو استعمال کرتے ہوئے اپنی توجہ اپنی اصلاح اور خلوص نیت پر مرکوز رکھتے ہیں تو سبحان اللہ آپ کی باقی چیزیں درست ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔ لیکن اگر اس میں کوئی کمی کوتاہی رہ جائے تو پھر ایسے لوگ دو طرح کے ہوتے ہیں کچھ مقبول لوگ ہوتے ہیں اور کچھ ایسے نہیں ہوتے۔ جو ایسے نہیں ہوتے ان کی تو پروا نہیں ہوتی، وہ تو جو جدھر جاتے ہیں جائیں، کوئی مسئلہ نہیں۔ لیکن جو مقبول ہوتے ہیں ان کو پھر مجاہدات سے گزارا جاتا ہے، وہ مجاہدات چونکہ غیر اختیاری مجاہدات ہوتے ہیں اس لئے انسان کو ان سے کوئی چارہ کار نہیں ہوتا، ان سے گزرنا اور برداشت کرنا ہی پڑتا ہے۔
میں آپ کو ایک واقعہ سناتا ہوں۔ ہمارے حضرت مولانا عزیر گل صاحب رحمۃ اللہ علیہ جو بہت بڑے بزرگ گزرے ہیں، ان کے بھائی تھے مولانا عبدالحق نافع صاحب رحمۃ اللہ علیہ۔ یہ دیوبند میں استاذ تھے۔ مولانا حسین احمد مدنی رحمۃ اللہ علیہ کے بہت قریبی حضرات میں سے تھے ان کے خادم تھے لیکن ان سے بیعت نہیں ہوئے تھے۔ اخیر میں یہ مولانا عبدالحق نافع صاحب بہت بیمار ہو گئے تھے۔ مولانا یوسف بنوری رحمۃ اللہ علیہ ان کے ساتھی تھے۔ بنوری ٹاؤن کی بنیاد تینوں حضرات مولانا عبدالحق نافع صاحب، مولانا یوسف بنوری رحمۃ اللہ علیہ اور مولانا لطف اللہ پشاوری صاحب (رحمۃ اللہ علیہم اجمعین) نے مل کر رکھی تھی۔ یہ پرانے ساتھی تھے، اس تعلق کی نسبت سے حضرت مولانا یوسف بنوری صاحب اکثر ان کی عیادت کے لئے آیا کرتے تھے۔ میں نے عبد الحق نافع صاحب کے بیٹوں سے سنا ہے کہ حضرت مولانا یوسف بنوری صاحب اکثر فرماتے تھے کہ ہم نے تو میاں صاحب کو بہت بتایا تھا کہ آسان طریقہ یہ وظائف والا اور ماننے والا ہے لیکن حضرت کی سمجھ میں نہیں آیا، کاش یہ ہماری بات مان لیتے۔
اب دیکھو وہ مقرب تو تھے لیکن اختیاری مجاہدات نہیں کئے تو پھر یہ غیر اختیاری مجاہدات کی تکالیف برداشت کرنی پڑیں۔
اس لئے میں عرض کرتا ہوں کہ ماننے میں خیر ہے۔ اگرچہ بظاہر چھوٹی سی بات لگ رہی ہے لیکن در حقیقت اس کے اثرات بڑے گہرے ہوتے ہیں۔ مثلاً ایک شخص وہاں پر کرکٹ کھیل رہا ہے یا کوئی اور کھیل کھیل رہا ہے، یہاں سے کوئی گیا اور اسے دیکھنے کھڑا ہو گیا۔ آخر کتنی دیر تک اس نے اس کا لطف اٹھایا ہوگا۔ تھوڑا سا ہی وقت ہوگا لیکن ایک حکم عدولی ہو گئی جس کی وجہ سے کافی پیچھے ہو سکتا ہے۔ ایسی چیزوں سے پھر نقصانات ہوتے ہیں۔ اس لئے ماننے میں خیر ہے بس مانتا جائے جو کہہ دیں اس پہ عمل کرتا جائے۔ آپ چوبیس گھنٹے کے لئے یہاں ہیں تو یہ آپ کا اختیاری مجاہدہ ہے کہ یہیں رہیں اور اپنے معمولات کریں۔ اگر یہ اختیاری مجاہدہ آپ نے کر لیا تو غیر اختیاری مجاہدات سے بچ جائیں گے۔ اگر اختیاری مجاہدات میں رہ گئے تو غیر اختیاری مجاہدات کا سلسلہ پھر بڑا طویل ہوتا ہے۔
یہ بات ایسے ہی برسبیل تذکرہ آ گئی بہر حال آئندہ کے لئے اس سے محتاط رہنا چاہیے۔ یہ بڑے اچھے مواقع ہوتے ہیں ان مواقع کو ضائع نہیں کرنا چاہیے۔