اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
یہ ہمارا سیرت سے متعلق سوالات اور جوابات کا سلسلہ ہے۔ سوال و جواب کے سلسلے پر الحمد للہ اللّٰہ پاک کی طرف سے ایک بشارت بھی آئی۔ مفتی زرولی خان صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ ہمارے دوست تھے، ہمارے گاؤں کے تھے، ان کے ساتھ ہمارا بڑا اچھا تعلق تھا، آنا جانا بھی تھا۔ ہم ان کے جنازے میں نہیں پہنچ سکے، کیونکہ وہ کراچی میں تھے اور ہم یہاں راولپنڈی میں تھے۔ وفات کے چار پانچ دن بعد مجھے خواب میں نظر آئے، مسکرا رہے تھے، اور فرمایا کہ آپ جو سوالوں کے جوابات دیتے ہیں، یہ اللّٰہ تعالیٰ کو بہت پسند ہے۔ الحمد للہ۔ جو شخص فوت ہو جائے اور عالم بھی ہو، تو اس کی بات بشارت ہوتی ہے۔ اب مجھے نہیں معلوم کہ یہ بشارت سیرت کے متعلق سوالوں کے بارے میں ہے یا پیر کے دن جو ہمارے ہاں سالکین کے سوالوں کے جواب ہوتے ہیں، اس کے بارے میں ہے۔ لیکن بہر حال بشارت تو ہے۔
سوال:
حضرت ام المؤمنین صفیہ بنت حیی رضی اللّٰہ عنہا نے کہا کہ ایک بار رسول اللّٰہ ﷺ اعتکاف میں تھے۔ میں رات کو آپ ﷺ کی زیارت کے لئے گئی اور آپ ﷺ سے باتیں کر کے واپس آنے لگی۔ آپ ﷺ میرے ساتھ مجھ کو گھر پہنچانے کے لئے ہو لئے۔ حضرت صفیہ رضی اللّٰہ عنہا کا مکان اسامہ بن زید رضی اللّٰہ عنہ کے احاطہ میں تھا۔ اتنے میں انصار کے دو آدمی نمودار ہوئے۔ انہوں نے جب رسول اللّٰہ ﷺ کو دیکھا، تو تیزی کے ساتھ آگے بڑھے۔ آپ ﷺ نے ان سے فرمایا: ٹھہرو، میرے ساتھ صفیہ (رضی اللّٰہ عنہا) ہے۔ وہ عرض کرنے لگے: یا رسول اللّٰہ! (ﷺ) یہ آپ کیا فرماتے ہیں! ارشاد فرمایا کہ شیطان انسان کے جسم میں خون کی طرح دوڑتا ہے، میں اس بات سے ڈرا کہ کہیں تمہارے دلوں میں خیالِ فاسد، یا فرمایا: شیطان کوئی بات نہ ڈال دے۔ یہ حدیث صحیحین میں ہے۔ آپ ﷺ کے اس فرمان کے مطابق ہم دوسرے مسلمانوں کو اپنے متعلق بد گمان ہونے سے کیسے بچا سکتے ہیں؟
جواب:
یہ ایک اہم اصول ہے کہ اپنی طرف سے کوشش کرنی چاہئے کہ کسی تہمت والی جگہ میں نہ جائیں، جس کے ذریعے سے ہم پر کوئی تہمت لگ سکتی ہو، اس سے ہم بچیں۔ یہ بہت اہم ہے۔ کیونکہ اس کے ذریعے سے یہ ہو گا کہ مثلا: کوئی شخص جو دین کا کام کرنے والا ہے، تو شیطان اس تاک میں ہوتا ہے کہ اس کے خلاف کوئی ایسی بات بنا لے اور مشہور کر دے، جس کے ذریعے وہ لوگوں کو اس سے متنفر کر دے۔ ہماری پشتو میں کہتے ہیں: ’’منګې مات شو که مات نه شو ډز ئې لاړو‘‘۔ یعنی گھڑا ٹوٹا یا نہیں ٹوٹا، لیکن اس کی آواز تو آگئی۔ لہذا اگر کوئی ایسی بات مشہور ہو جائے، تو پھر اس کو صاف کرنا بڑا مشکل ہو جاتا ہے، پھر پتا نہیں، کتنی باتیں بنتی ہیں اور کتنے مسائل بن جاتے ہیں۔ لہٰذا کھری بات کرنی چاہئے اور بہت محتاط رہنا چاہئے کہ کوئی ایسا کام نہ ہو، جس پہ کسی کو بات کرنے کا موقع ملے۔ کیونکہ اس سے بہت نقصان ہو جاتا ہے۔ بعض دفعہ ایک معمولی سی بات ہوتی ہے، لیکن اس کے ذریعے سے لوگ شک میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور کسی بزرگ کے فیض سے محروم ہو جاتے ہیں۔ اس لئے کہتے ہیں: ’’اِتَّقُوْا مَوَاضِعَ التُّہْمَۃِ‘‘ یعنی تہمت والی جگہوں سے اپنے آپ کو بچاؤ۔ یہ بہت ضروری ہے۔ لہٰذا اگر ہم اس بات کا خیال رکھیں، تو بہت زیادہ حفاظت ہو جاتی ہے۔ آپ ﷺ چونکہ نبی تھے اور آپ ﷺ ان تمام باتوں کو اللّٰہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے جانتے تھے، اس لئے آپ ﷺ نے ان دو صحابہ کو بچانے کے لئے کہ کہیں ان کو نقصان نہ ہو، اس لئے معاملے کو واضح کر دیا۔ کیونکہ آپ ﷺ کو تو کوئی نقصان نہیں ہونا تھا، آپ ﷺ کے بارے میں تو یہود پتا نہیں، کیا کیا باتیں کرتے، منافقین بہت باتیں کرتے تھے۔ بہر حال ان کو نقصان ہو جاتا۔ بعض دفعہ شیطان کوئی بات ڈال دیتا ہے، یہ اس کے لئے ایک مثال ہے۔ ایک صحابی تھے (اللّٰہ تعالیٰ ہمیں برے انجام سے بچائے) بعد میں وہ مرتد ہو گئے تھے، کاتبِ وحی تھے، کاتبِ وحی ہونا کوئی معمولی بات نہیں تھی۔ آپ ﷺ پہ وحی آ رہی تھی، اور یہ آیات نازل ہو رہی تھیں: ﴿وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ مِنْ سُلٰلَةٍ مِّنْ طِیْنٍۚ 0 ثُمَّ جَعَلْنٰهُ نُطْفَةً فِیْ قَرَارٍ مَّكِیْنٍ۪ 0 ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَةَ عَلَقَةً فَخَلَقْنَا الْعَلَقَةَ مُضْغَةً فَخَلَقْنَا الْمُضْغَةَ عِظٰمًا فَكَسَوْنَا الْعِظٰمَ لَحْمًا ۗ ثُمَّ اَنْشَاْنٰهُ خَلْقًا اٰخَرَ ؕ فَتَبٰرَكَ اللّٰهُ اَحْسَنُ الْخٰلِقِیْنَ﴾ (المؤمنون: 12-14) جیسے بعض دفعہ ہوتا ہے کہ ایک شخص کے قلب پہ کوئی بات آ رہی ہو، تو دوسرے کے قلب پہ بھی منعکس ہو جاتی ہے۔ اسی طرح آپ ﷺ پہ یہ وحی آ رہی تھی، تو وہ ان کے قلب پر بھی منعکس ہو گئی۔ (یہ کتنا بڑا مقام تھا) ابھی آپ ﷺ یہ آیات پڑھ ہی رہے تھے کہ انہوں نے کہا: ﴿فَتَبٰرَكَ اللّٰهُ اَحْسَنُ الْخٰلِقِیْنَ﴾ آپ ﷺ نے فرمایا: ہاں یہی ہے، یہ لکھ دو۔ ان کے دل میں شیطان نے وسوسہ ڈالا کہ یہ تو میرے دل میں بات آئی ہے، یہ وحی کیسے ہو گئی۔ یہ تو میں نے کہا، تو آپ ﷺ نے فرمایا: ہاں! یہی وحی ہے۔ اس وجہ سے وہ مرتد ہو گئے۔ مگر فتحِ مکہ کے موقع پر دوبارہ اسلام قبول کر لیا تھا اور آپ ﷺ نے ان کی معافی قبول فرما لی تھی۔ اس سے معلوم ہوا کہ شیطان کوئی بھی بات دل میں ڈال سکتا ہے، اس کے لئے کوئی مشکل نہیں ہے، وہ اس کا سپیشلسٹ ہے۔ لہٰذا ہمیشہ شیطان سے پناہ مانگنی چاہئے: ’’اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ‘‘۔ اس کا بہترین علاج ’’لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللّٰهِ الْعَلِيِّ الْعَظِيْمِ‘‘ ہے۔ ہمارے شیخ حضرت مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ نے مجھے فرمایا تھا کہ ہندؤوں کی جگہ پہ یا میوزک کی جگہوں پر یا جہاں پر فسق و فجور عام ہو، ایسی جگہوں پر سے گزرو، تو ’’یَا ھَادِیُ یِا نُوْرُ لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللّٰهِ الْعَلِيِّ الْعَظِيْمِ‘‘ پڑھا کرو۔ ورنہ وہاں کے شیاطین تمہیں پڑ جائیں گے۔ اور یہ ہمارا تجربہ تھا۔ ہم سکول سے جا رہے ہوتے تھے، تو وہیں راستے میں دو سینما ہال ہوا کرتے تھے۔ جب ہم یہ پڑھ لیتے، تو بچ جاتے۔ اور اگر نہیں پڑھتے، تو خیال آتا کہ ذرا پوسٹر کو تو دیکھ لیں۔ وسوسہ یہی ہوتا ہے کہ ذرا پوسٹر کو تو دیکھیں۔ اور جب پوسٹر کو دیکھ لیا، تو پھر آہستہ آہستہ اندر ہی جانا ہوتا ہے۔ یہ سارا نظام شیطان کا ہے۔ اس وجہ سے جہاں پر بھی اس قسم کے حالات ہوں، وہاں یہ پڑھنا چاہئے۔ بلکہ صوفی اقبال صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ نے بعد میں یہ بات بتائی کہ اس وقت چونکہ گمراہی بہت زیادہ پھیل رہی ہے، اس گمراہی سے بچنے کے لئے بھی یہ دعا ’’یَا ھَادِیُ یِا نُوْرُ لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللّٰهِ الْعَلِيِّ الْعَظِيْمِ‘‘ بہت زیادہ پڑھنی چاہئے۔
اللّٰہ جل شانہ ہم سب کی حفاظت فرما دے۔ کیونکہ فتنوں کا دور ہے، اس فتنوں کے دور سے ہم بھی بچ جائیں، ہمارے بچے بھی بچ جائیں۔ کتنے بڑے فتنے (موبائل) ہماری جیبوں میں پڑے ہیں، پتا نہیں کہ اس کے ذریعے سے کون گمراہ ہو جائے، کس طرح گمراہ ہو جائے۔ اللّٰہ تعالیٰ ہماری حفاظت فرمائے۔
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ