تعلیمات مجددیہ درس 16

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اس سے پہلے درس میں مکتوب نمبر 210 کے بارے میں بات چل رہی تھی، جس میں یہ فرمایا گیا تھا کہ سلوک سے اصل مقصود غیبی صورتوں اور انوار کا مشاہدہ نہیں ہے۔
جب تک مقصود متعین نہ کیا جائے، اس وقت تک راستے کا پتا چلانا بڑا مشکل ہوتا ہے۔ ممکن ہے راستے مختلف ہوں، لیکن مقصود تبدیل نہیں ہوتا، مقصود وہی رہتا ہے۔ مثلاً میں نے لاہور جانا ہو تو چاہے میں موٹروے سے جاؤں، چاہے جی ٹی روڈ سے جاؤں، چاہے ہوائی جہاز پر جاؤں۔ چونکہ میرا مقصود لاہور ہے تو میں لاہور پہنچ جاؤں گا۔ لیکن اگر میرا مقصود ہی متعین نہ ہو تو کوئی بات مستقل نہیں ہو سکتی۔ یہ غیبی صورتیں اور انوار درمیان کی باتیں ہیں، یہ باتیں آتی بھی رہتی ہیں، اور ختم بھی ہوتی رہتی ہیں۔ لہٰذا ان کے پیچھے نہیں پڑنا چاہئے، اصل مقصود کی طرف توجہ کرنی چاہئے۔
آج کے درس کا آغاز ہم جس موضوع سے کر رہے ہیں وہ ہے:
”کلمات شَطْحِیّات کہنے کا جواز اور عدمِ جواز“
بعض بزرگوں سے کسی حال کے پیشِ نظر کچھ ناگفتنی باتیں منہ سے نکل جاتی ہیں، جو ان کے حال کا اثر ہوتا ہے اور جب اس حال سے ان کو افاقہ ہو جاتا ہے، پھر وہ ان باتوں سے رجوع کرتے ہیں اور ان پر اصرار نہیں کرتے۔ اس کے بارے میں دفتر دوم کے مکتوب نمبر 95 میں یوں ارشاد فرماتے ہیں:
متن:
کلمات شطحیات کہنے کا جواز اور عدم جواز
مشائخ قَدَّسَ اللہُ تَعَالیٰ اَسْرَارَہُم میں سے جس نے بھی شطحیات (خلاف شرع باتیں) پکے طور پر کلام کیا ہے اور ظاہر شریعت کے مخالف باتیں کہی ہیں یہ سب کفر طریقت کے مقام میں ہوا ہے جو کہ سُکر اور بے تمیزی کا مقام ہے۔
تشریح:
ذرا خیال رکھیں ”بے تمیزی“ کی بات ہے، ”بد تمیزی‘‘ کی بات نہیں ہے۔ ایسا نہ ہو کہ آپ کوئی غلط مطلب سمجھ لیں۔ ”بد تمیزی“ اور ہوتی ہے، ”بے تمیزی“ اور ہوتی ہے۔ بے تمیزی کا معنی ہے: کسی چیز کا امتیاز نہ کر سکنا، کسی چیز کے بارے میں پتا نہ چلنا۔ جیسے انسان نشہ میں ہو تو نشہ کی حالت میں کسی چیز کا امتیاز نہیں کرسکتا کہ میں کیا کر رہا ہوں۔ اسی طرح عالمِ خواب میں میں بھی پتا نہیں چل سکتا۔
متن:
جو بزرگ حقیقی اسلام کی دولت سے مشرف ہوئے ہیں وہ اس قسم کی باتوں سے بالکل پاک و مبرا ہیں اور ظاہر و باطن میں انبیائے کرام علیہم الصلوات والتسلیمات کی اقتدا کرتے ہیں اور ان ہی کے تابع رہتے ہیں لہذا جو شخص شطحیات کے طور پر کلام کرتا ہے اور سب کے ساتھ مقام صلح میں ہے اور سب کو صراط مستقیم پر خیال کرتا ہے اور حق (تعالیٰ) و خلق (مخلوق) کے درمیان تمیز نہیں کرتا اور ان میں دوئی کے وجود کا قائل نہیں ہوتا تو ایسا شخص اگر مقام جمع تک پہنچ چکا ہے اور کفر طریقت سے متحقق ہو کر ماسویٰ کا نسیان حاصل کر چکا ہے تو اس کا کلام مقبول ہے۔
تشریح:
یہ بہت گہری ہے۔ اللہ کرے کہ میں صحیح بات صحیح طور پہ سمجھا سکوں۔ حضرت مجد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جس نے اپنے نفس کو فنا کر دیا یعنی اپنے نفس سے نکل گیا تو اس حالت کو مقامِ جمع کہتے ہیں۔ یعنی اس کی نظر بس اللہ تعالیٰ پر ہے، اس کی نظر کسی اور چیز کے اوپر ہے ہی نہیں۔ یہ مقامِ جمع ہے۔ جو مقامِ جمع پہ پہنچ گیا، اس کا نفس درمیان سے نکل گیا۔ اب اس کی ہر بات اللہ پاک کو قبول ہے۔ کیونکہ اب وہ از خود کچھ نہیں کہہ رہا، بلکہ اپنے اس حال کی بنیاد پہ کہہ رہا ہے۔ اس لئے اس کی ہر بات قبول ہے۔ اگرچہ دوسرے لوگوں کے لئے دونوں لحاظ سے قبول نہیں ہے، دوسرے لوگ اس کو مان سکتے ہیں، نہ ہی جان سکتے ہیں۔ لہٰذا دوسرے لوگوں کے لئے اس کی بات قابلِ قبول نہیں ہے، لیکن اللہ پاک کی بارگاہ میں قبول ہو گی، کیونکہ یہ شخص لوگوں سے کٹ گیا ہے اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ مل گیا ہے۔ یہ دوئی سے نکل گیا ہے، اب اس میں دوئی والی بات نہیں ہے۔ جس طرف یہ ملا ہوا ہے (یعنی خدا کی طرف) اس کو مان رہا ہے اور جس طرف سے کٹ گیا ہے (یعنی لوگوں کی طرف سے) وہ اس کی بات کو نہیں مانیں گے۔ الغرض ایسی صورت میں ایسے لوگوں کا کلام اللہ کے ہاں مقبول ہے لیکن لوگ اس کی تقلید نہیں کر سکتے۔
اس کی ایک مثال عرض کرتا ہوں۔ حضرت موسیٰ علیه السلام کا واقعہ ہے کہ ایک مرتبہ وہ ایک گڈریے کے پاس سے گزرے۔ وہ کہہ رہا تھا: ”اے اللہ! تو کدھر ہے کہ میں تیرے ہاتھ دباؤں۔ تیرے پیر دباؤں۔ تیری جوئیں نکالوں۔“ حضرت موسی علیه السلام اس وقت مقام صحو میں تھے اور وہ گڈریا مقامِ سُکر میں تھا۔ حضرت موسیٰ علیه السلام نے کہا: کوئی اللہ تعالیٰ کے ساتھ ایسی بات کرتا ہے؟ اور اسے ایک تھپڑ مارا۔ وہ روتا ہوا جنگل کی طرف چلا گیا۔ اللہ پاک کی طرف سے وحی آئی کہ اے موسیٰ میں نے تو تجھے لوگوں کو مجھ سے جوڑنے کے لئے بھیجا تھا، توڑنے کے لئے نہیں بھیجا تھا، یہ شخص تو میرے ساتھ باتیں کر رہا تھا، آپ نے اسے روک دیا۔
یہ واقعہ مقامِ جمع کی ایک مثال ہے۔ اس گڈریے کا ایسی باتیں کہنا اللہ پاک کے ہاں قبول تھا، کیونکہ وہ یہ باتیں از خود نہیں کہہ رہا تھا، بلکہ اپنی محبت کی وجہ سے کہہ رہا تھا۔ لہٰذا اس کا یہ فعل اللہ پاک کے ہاں مقبول تھا لیکن حضرت موسیٰ علیه السلام کے لئے قبول نہیں تھا، اور دوسرے لوگوں کے لئے بھی قبول نہیں تھا۔
اس قسم کی باتوں کو شَطْحِیّات کہتے ہیں۔ جن لوگوں کا یہ حال ہو ان کی ایسی بات قبول بھی ہے اور وہ اس سلسلہ میں معذور بھی ہیں۔ لیکن ایسے لوگ قابل اقتدا نہیں ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ عالمِ صحو میں نہیں ہیں۔ وہ عالمِ تمیز میں نہیں ہیں بلکہ عالمِ سُکر میں ہیں۔ جو شخص نشہ میں ہو آپ اس کے پیچھے نماز نہیں پڑھ سکتے۔ اِن کی مثال بھی ایسی ہی ہے کہ وہ عالمِ سُکر میں ہیں۔ اس وجہ سے لوگوں کے نزدیک قبول نہیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک قبول ہیں۔ جاننے والوں کے نزدیک معذور ہیں۔ قابل اقتدا نہیں ہیں۔
متن:
اور اس کی وہ باتیں جو سکر کی وجہ سے پیدا ہوئی ہیں تو ان کا ظاہری مطلب نہیں لیا جائے گا (بلکہ ان کی تاویل کی جائے گی) اور اگر وہ شخص اس حال کے حصول کے بغیر اور کمال کے درجہ اولیٰ میں پہنچے بغیر اس قسم کی (سُکریہ) باتیں کرتا ہے اور سب کو حق اور صراط مستقیم پر جانتا ہے اور حق و باطل میں تمیز نہیں کرتا تو ایسا شخص زندیق اور ملحد ہے۔
تشریح:
یعنی اگر وہ نفس کو فنا نہیں کر چکا، تو وہ ایسی باتیں نفس کی وجہ سے کہہ رہا ہو گا یا شہرت حاصل کرنے کی وجہ سے کہہ رہا ہو گا یا پھر اپنے آپ کو بزرگ مشہور کرنے کے لئے کہہ رہا ہو گا۔ اور یہ باتیں شریعت کے مطابق نہیں ہیں۔ اگر وہ ان کو حق سمجھتا ہے تو پھر یہ شخص زندیق اور ملحد ہے۔
متن:
جس کا مقصود شریعت کو باطل کرنا ہے اور جس کا مطلوب انبیاء علیہم الصلوات والتسلیمات جو کہ رحمۃ للعالمین ہیں ان کی دعوت کو ختم کرتا ہے پس اس قسم کے خلاف (شریعت) کلمات حق والے سے بھی صادر ہوتے ہیں اور باطل والے سے بھی لیکن سچے کے لئے آبِ حیات ہیں اور جھوٹے کے لئے زہر قاتل جس طرح کہ دریائے نیل کا پانی بنی اسرائیل کے حق میں آب خوشگوار تھا اور قبطی کے حق میں خونِ نا گوار۔
اس مقام پر اکثر سالکوں کے قدم پھسل جاتے ہیں اور بہت سے مسلمان اکابر اربابِ سکر کی باتوں کی تقلید کر کے راہ راست سے منحرف ہو کر ضلالت اور خسارت کے کوچوں میں جا پڑے ہیں اور اپنے دین کو برباد کر بیٹھے ہیں وہ یہ نہیں جانتے کہ اس قسم کی باتوں کا قبول کرنا چند شرائط پر مشروط ہے جو اربابِ سُکر میں تو پائی جاتی ہیں اور ان میں مفقود ہیں ان شرائط میں سے بڑی شرط نسیان ماسوائے حق سبحانہ ہے۔
تشریح:
اللہ کے علاوہ باقی تمام چیزوں کو بھول جائیں۔ صرف اللہ یاد ہو۔
متن:
جو کہ اس قبولیت کی دہلیز ہے۔ اور سچے اور جھوٹے کے درمیان امتیاز شریعت پر استقامت ہونے اور نہ ہونے کی علامت ہے۔ جو سچا ہے وہ سکر و مستی اور بے تمیزی کے باوجود شریعت کے خلاف بال برابر بھی کوئی عمل نہیں کرے گا۔ منصور اَنَا الْحَقُّ کہنے باوجود قید خانے میں بھاری زنجیروں کے ساتھ جکڑا ہوا ہونے کی حالت میں ہر شب پانچ سو رکعت نماز نفل ادا کرتا تھا اور وہ کھانا جو اس کو ظالموں کے ہاتھ سے ملتا تھا اگرچہ وہ حلال کے ذریعے سے ہوتا تھا نہیں کھاتا تھا۔ اور جو شخص باطل پرست ہے تو اس پر احکام شریعت کا بجا لانا کوہ قاف کی طرح بھاری ہے۔ آئیہ کریمہ كَبُـرَ عَلَى الْمُشْرِكِيْنَ مَا تَدْعُوْهُـمْ اِلَيْهِ۔ (شوری: 13) (جس کی طرف تم ان کو بلاتے ہو وہ مشرکوں پر بہت بھاری ہے)۔ ان کی حالت کی نشان دہی کرتی ہے۔
رَبَّنَآ اٰتِنَا مِنْ لَّـدُنْكَ رَحْـمَةً وَّهَيِّئْ لَنَا مِنْ اَمْرِنَا رَشَدًا (کہف: 10) (اے ہمارے پروردگار! ہم کو اپنی جناب سے رحمت عطا فرما اور ہمارے کام میں بہتری نصیب فرما) وَالسَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى (اور سلام ہو ان پر جو ہدایت کی پیروی کریں)
تشریح:
ما شاء اللہ حضرت نے بہت خوبصورت طریقے سے ایک بہت مشکل گھاٹی کی نشان دہی کی اور بتا دیا کہ اس میں حق کیا ہے اور باطل کیا ہے، صحیح کیا ہے اور غلط کیا ہے۔ بزرگوں پہ بدگمانی بھی نہیں کرنا چاہئے لیکن ایسی باتیں جو بزرگوں کے اس حال کے مطابق ہیں جس حال سے ہم نہیں گزرے، ان میں ہم ان کی تقلید نہیں کر سکتے۔ البتہ ہم ان کو بزرگ مانیں گے لیکن ان معاملات میں ان کی تقلید نہیں کر سکیں گے۔
بہت سارے لوگ مجذوبوں کے پیچھے بھاگتے ہیں۔ حالانکہ مجذوبوں سے کچھ نہیں ملتا، مجذوب تو گائیڈڈ میزائل کی طرح ہیں جس طرف کو چھوڑ دئیے گئے اس کے پیچھے لگے ہوئے ہیں۔ فائدہ مرشدوں سے ملتا ہے جو اہل حق بھی ہوتے ہیں اور مقبول بھی ہوتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے پاس بیٹھنے سے فائدہ ہوتا ہے۔ مجذوبوں کے پاس بیٹھنے سے تو انسان اپنی عقل کی توہین کرتا ہے۔ مجذوبوں سے تو ان کے حال کی وجہ سے عقل مسلوب ہو گئی ہے۔ لیکن تم قصداً عقل کو چھوڑتے ہو۔ اس بات کو اس مثال سے سمجھیں کہ نشہ کرنا اس لئے حرام ہے کہ اس سے عقل سلب ہو جاتی ہے۔ قصداً نشہ کر کے اپنی عقل کو سلب کرنا حرام ہے۔ ہاں یہ الگ بات ہے کہ اللہ کی محبت میں جن کی عقل وقتی طور پر ختم ہو جائے، وہ عند اللہ مقبول ہیں لیکن ان کے الفاظ ہمارے لئے مقبول نہیں ہیں۔ ہم ان کے الفاظ کی تقلید نہیں کریں گے۔ یہی حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کی بات کا لُبِّ لُباب ہے۔
عشقِ مجازی کی حرمت و ممانعت:
آگے ایک اور اہم موضوع ”عشقِ مجازی کی حرمت اور ممانعت“ کے بارے میں حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ چند باتیں فرماتے ہیں۔
اللہ جل شانہ نے طرح طرح کی مخلوقات پیدا فرمائی ہیں، ان میں سے خوبصورت مخلوقات آزمائش کا سبب بن جاتی ہیں۔ اس کی کیا حدود ہیں اور طریقت میں اس کے بارے میں صحیح رائے کیا ہے۔ اس کے بارے میں دفتر سوم کے مکتوب نمبر 66 میں حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
متن:
لیکن یہ بھی جان لینا چاہئے کہ اَلْمَجَازُ قَنْطَرَۃُ الْحَقِیْقَۃِ (مجاز حقیقت کا پل ہے) اس صورت میں ہے جب کہ مجاز کی گرفتاری درمیان میں نہ آئے (بلکہ ایک نظر کے بعد) نظرہ ثانیہ (دوبارہ دیکھنے) کی نوبت نہ پہنچے۔
تشریح:
ایک عجیب بات دل میں آئی ہے۔ بہت قیمتی بات ہے۔ اللہ کا شکر ہے اللہ پاک نے اسی وقت دل میں ڈالی ہے۔ ہم ہر وقت فجور و تقویٰ کے درمیان ایک امتحان سے گزر رہے ہیں۔ ہم ہر وقت یا تو فجور کی طرف ہوں گے یا پھر تقویٰ کی طرف ہوں گے۔ اگر ہم نے اپنے نفس کی بات مان لی تو فجور کی طرف ہیں اور اگر اللہ کی بات مان لی تو تقویٰ کی طرف ہیں۔ ہمارے ایک طرف نفس کی خواہش ہے اور دوسری طرف اللہ پاک کا حکم ہے۔ پس اگر ہم نے اللہ کی بات سن لی اور اللہ کی بات مان لی تو تقویٰ ہے۔ اور اگر اللہ تعالیٰ کی بات کی نافرمانی کی اور نفس کی بات مان لی تو تباہی و فجور ہے۔ یہ معاملہ ہر وقت ہمارے ساتھ ہو رہا ہے۔ نفس کو زیادہ تر جو چیزیں مرغوب ہیں اللہ تعالیٰ نے انہیں شریعت میں منع کیا ہے۔ شراب کی مثال لے لیں۔ نفس چاہتا ہے کہ میں شراب پیوں لیکن اللہ پاک نے اس سے منع کیا ہے۔ اب جس شخص کے سامنے شراب پیش کی گئی اور اس نے انکار کر دیا تو وہ تقویٰ حاصل کر چکا اور متقی بن گیا۔ اسی طرح اگر کوئی خوبصورت چیز آپ کے سامنے آ جائے لیکن اس وقت اللہ کا حکم آپ کی طرف متوجہ ہے کہ اس کی جانب نہیں دیکھنا ہے۔ تو یہ در اصل آپ کا امتحان ہو رہا ہے کہ آیا آپ اللہ کا حکم مانتے ہیں یا اس چیز کو دیکھ رہے ہیں۔ پہلی نظر میں آپ کا اختیار نہیں ہے۔ آپ کو کیا پتا تھا کہ میرے سامنے کیا آنے والا ہے۔ اس لئے پہلی نظر معاف ہے۔ ہاں اگر پتا ہو، خطرہ ہو کہ عین ممکن ہے اس طرف یہ چیز ہو، پھر نہیں دیکھنا چاہئے۔ اگر عام حالت ہے، آپ کو پتا ہی نہیں ہے اور آپ کی اچانک نظر پڑ گئی تو یہ اس لئے معاف ہے کہ آپ کو اس کا پتا نہیں تھا، یہ غیر اختیاری ہے۔ لیکن جیسے ہی پہلی نظر پڑی فوراً اللہ کا حکم آپ کی طرف متوجہ ہو گیا کہ اب نہیں دیکھنا اور آپ نے اللہ پاک کے حکم پر عمل کرنے کی نیت سے اپنے چہرے کو ہٹا لیا تو یہ آپ نے تقویٰ میں اپنا سکور (score) بڑھا لیا۔ اور اگر آپ نے اللہ کے حکم پہ عمل نہیں کیا بلکہ دیکھتے رہے تو فجور میں پڑ گئے۔ اگر یہ صورت حال سامنے نہ آتی تو نہ مثبت تھا نہ ہی منفی تھا لیکن جب سامنے آ گئی تو مثبت کا چانس بھی ہے اور منفی کا چانس بھی ہے۔ اگر قصداً دیکھا تو منفی ہے، اور اگر نہیں دیکھا تو مثبت ہے۔ اگر کسی وجہ سے کسی پہ نظر پڑ گئی تو جس وقت تک آپ کو اس کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے اور آپ نے فوراً نظر ہٹا دی، تو آپ کو اسی لمحے تقویٰ حاصل ہو گیا۔ جب تک آپ کے ساتھ ایسا کوئی اور واقعہ نہیں ہوتا تب تک آپ کو بس اتنا ہی تقویٰ حاصل ہے، جتنا آپ نے پہلی بار حاصل کیا۔ اگر کوئی دوسری بار سامنے آ جائے، اور آپ نظر بچا لیں تو یہ دوسرا واقعہ آپ کے لئے مزید تقویٰ حاصل کرنے کا موقع بن جائے گا۔ لیکن اگر دل میں وہ چیز گُھس گئی، کئی بار ایک نظر سے بھی گھس جاتی ہے تو پھر تقویٰ حاصل نہیں ہو گا۔ اس لئے کہتے ہیں ؎
ع جس کو ہو جان و دل عزیز اس کی گلی میں جائے کیوں
یہ احتیاط اسی لئے ہوتی ہے کہ بعض دفعہ ایک نظر سے بھی کوئی چیز دل میں گُھس جاتی ہے اور نکالے نہیں نکلتی۔ اس صورت میں اللہ تعالیٰ آپ کو مسلسل اجر کمانے کا موقع دیتے ہیں۔ کیونکہ یہ عارضۃ دل میں غیر اختیاری طور پہ پڑا ہوا ہے اور آپ اپنے آپ کو اس سے اختیاری طور پر منقطع کر رہے ہیں۔ جب تک آپ اپنے آپ کو اس سے اختیاری طور پر منقطع کر رہے ہیں، آپ کے تقویٰ کے درجات مسلسل بڑھ رہے ہیں۔ یہ ایسا عجیب کمالی درجہ ہے کہ آدمی ولایت کے درجوں پہ چڑھ رہا ہوتا ہے لیکن اپنے آپ کو مردود سمجھ رہا ہوتا ہے۔ اس کو برائی کی طرف جو کشش ہو رہی ہوتی ہے اس کی وجہ سے وہ اپنے آپ کو مردود سمجھ رہا ہوتا ہے۔ لیکن اللہ پاک کے ہاں اس کی بڑی اچھی حالت ہوتی ہے کیونکہ وہ کشش اختیاری طور پر نہیں بلکہ غیر اختیاری طور پہ ہوتی ہے۔
یہ وہ چیز ہے جس کے لئے فرمایا ہے کہ عشقِ مجازی حقیقت کا پل ہے۔ مجاز حقیقت کا پل اس طرح ہے کہ مجاز کی محبت دل میں ہوتے ہوئے بھی آپ اس پہ مسلسل آگے بڑھ سکتے ہیں، جب تک اللہ نے چاہا مجاز دل میں رہے گا اور جب دل سے نکل گیا تب آپ کامیاب ہو گئے، شر سے بچ گئے۔ اور وہ چیز بھی پوری ہو گئی۔ جتنا آپ نے حاصل کرنا تھا حاصل کر لیا۔ یہ ارادۃً نہیں کرنا ہوتا، اسے نہ کرنے کے اسباب بھی اختیار کرنے ہوتے ہیں۔
اس وجہ سے میں اپنے ساتھیوں کو کہا کرتا ہوں کہ کوئی بھی نامحرم کو ٹیوشن نہ پڑھائے۔ میں باقاعدہ اپنے ساتھیوں کو یہ ہدایت دیتا ہوں، کہ چاہے آپ بہت بڑے بزرگ ہی کیوں نہ ہوں پھر بھی آپ کو نامحرم کو ٹیوشن پڑھانے کی اجازت نہیں ہے۔ یہ ناممکن ہے۔ بلکہ میں تو بنات کے مدارس میں بھی مرد اساتذہ کے پڑھانے کے حق میں نہیں ہوں۔ اس میں بہت مسائل ہوتے ہیں۔ مجھے اکثر ان مسائل کی خبریں ملتی رہتی ہیں۔ اس وجہ سے بہت محتاط ہونے کی ضرورت ہے۔ کم از کم جوان اساتذہ کو تو وہاں جانا ہی نہیں چاہئے، کیونکہ وہ فتنہ کی جگہ ہے اور اپنے آپ پر کسی کا قابو نہیں ہے۔ کسی وقت بھی مسئلہ ہو سکتا ہے۔ کون اتنا متقی ہو گا جو سمجھے گا کہ اس میں میری ترقی ہو رہی ہے، وہ تو اس دلدل میں پھنس جائے گا اور نہ جانے کہاں سے کہاں پہنچ جائے گا۔ اس لئے میں کہتا ہوں کہ اپنے آپ کو دلدل میں نہ پھنساؤ، جتنا بچ سکتے ہو بچتے رہو۔
ہمارا ایک حافظ قرآن ساتھی ہے۔ مجھ سے بیعت ہونے سے پہلے اس سے ایک غلطی ہو گئی تھی۔ وہ ایک لڑکی کو ٹیوشن پڑھاتا تھا۔ اس کے دل میں بات آ گئی اور وہ پھنس گیا۔ خدا کی شان کہ اس لڑکی کی شادی ہو گئی۔ کسی کی شادی کے بعد اس کے لئے سوچنا بھی ممکن نہیں ہے۔ شادی سے پہلے تو آپ شادی کے لئے سوچ سکتے ہیں کہ میں شادی کا پیغام دے دوں۔ لیکن شادی کے بعد تو یہ راستہ بھی بند ہے۔ جب تک وہ طلاق نہ دے اس وقت تک آپ کے لئے ایسا کرنا نا ممکن ہے۔ اور طلاق دینے کے لئے سوچنا بھی جرم ہے۔ کیونکہ اس طرح آپ کسی کا گھر ویران کرنا چاہتے ہیں۔ اگر آپ اصحابِ توجہ میں سے ہیں، پھر تو اس چیز کی بہت زیادہ پابندی ہو گی۔ خیر! یہ ساتھی میرے پاس آیا۔ مجھ سے بیعت ہوا۔ مجھے اپنی کہانی سنائی کہ مجھ سے اس طرح ہوا ہے، میں کیا کروں؟ خدا کی شان کہ میں اس موضوع پر حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمة اللہ علیه کی کچھ تحاریر پڑھ چکا تھا۔ میں نے ان تحاریر کی روشنی میں اس ساتھی سے گذارش کی کہ آپ روزانہ ہزار مرتبہ ”لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ“ کا ذکر اس تصور کے ساتھ کیا کریں کہ ”لَآ اِلٰہَ“ کے ساتھ آپ کے دل سے اس کی محبت نکل رہی ہے اور ”اِلَّا اللہُ“ کے ساتھ اللہ کی محبت آ رہی ہے۔ اللہ کا شکر ہے کہ چار مہینے میں اس کا دل پاک صاف ہو گیا۔ یہ مجازی محبت ایسی چیز ہے کہ اس کے نکلنے میں چار مہینے لگ گئے۔ اسے معمولی نہیں سمجھنا چاہئے۔ الحمد للہ وہ ساتھی اس جال سے نکل آیا۔
لہٰذا اس بیماری سے اپنے آپ کو بہت بچانا چاہئے۔ اگر کوئی اس میں پھنس جائے تو اس کے بارے میں حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمة الله عليه فرماتے ہیں کہ اپنے آپ کو بچاتے رہیں اور اس سے detach (منقطع) کرتے رہیں۔ بچنے کے تمام اسباب حتی الامکان اختیار کرتے رہیں۔ اگر اس کشمکش میں جان بھی چلی جائے تو یہ اعلیٰ درجہ کی شہادت ہے۔ یہ حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا۔ یہ کوئی گپ شپ کی باتیں نہیں ہیں۔
بعض لوگوں نے جو یہ کہا ہے کہ ”جن کو کسی کے ساتھ عشق ہو چکا ہو، ان کے لئے اللہ والا بننا بہت آسان ہے“۔ وہ اس context (معنی) میں کہا ہے کہ اگر وہ شخص محنت کر کے اپنے آپ کو اس عشقِ مجازی سے نکال دے تو بس وہ قبول ہو جائے گا۔ باقی سب چیزوں کی محبت اس ایک محبت میں آ جائے گی۔ آپ اس ایک محبت کو اللہ کے لئے ذبح کر دیں گے تو باقی سب محبتیں بھی ذبح ہو جائیں گی۔
حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کی مثال یوں دی ہے کہ جیسے آپ کسی کمرے کو صاف کر رہے ہوں۔ تو اس کا ایک طریقہ یہ ہے کہ ایک ایک تنکے کو اٹھا کر باہر پھینکا جائے۔ یہ بڑا لمبا طریقہ ہے۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ جھاڑو لے کر سب کچرے کو جمع کر کے دیا سلائی لگا دو اور بس، کام ختم، سب صاف ہو گیا۔ یہ اسی قسم کی بات ہے۔ عشقِ مجازی باقی تمام محبتوں کو جھاڑو لگا دیتا ہے۔ ایسے عاشق کو نہ عزت پیاری ہوتی ہے، نہ دولت پیاری ہوتی ہے، نہ کھانا پینا پیارا ہوتا ہے، نہ دنیا کی کوئی اور چیز پیاری ہوتی ہے، صرف وہ ایک ہی پیارا ہوتا ہے، جس پہ وہ مر مٹا ہوتا ہے۔ ساری محبت اس ایک ٹوکری میں آ گئی۔ اب اس ٹوکری کو اللہ پاک کے حوالے کر دو، بس کام بن گیا۔ پھر اللہ ہی کی محبت آ جائے گی۔ حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
متن:
لیکن یہ بھی جان لینا چاہئے کہ ”اَلْمَجَازُ قَنْطَرَۃُ الْحَقِیْقَۃِ“ (مجاز حقیقت کا پل ہے۔) اس صورت میں ہے جب کہ مجاز کی گرفتاری درمیان میں نہ آئے۔ یعنی ایک نظر کے بعد نظرۂ ثانیہ (دوبارہ دیکھنے) تک نوبت نہ پہنچے۔پس وہ نظر اولیٰ (پہلی نظر) ہی ہے جو حقیقت کا پل ہے اور جس کی نسبت مخبر صادق علیہ و علی آلہ الصلوۃ و السلام نے فرمایا ہے: اَلنَّظْرَۃُ الْاُوْلی لَکَ (پہلی بار دیکھنا تیرے لئے ہے) گویا لفظ لک سے اس دولت کے حاصل ہونے کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔ اور اگر عِیَاذًا بِاللّٰہُ سُبْحَانَہٗ (اللہ سبحانہ کی پناہ) مجاز کی گرفتاری درمیان میں آ گئی بلکہ نظرہ ثانیہ تک نوبت بہنچ گئی تو وہی حقیقت تک پہنچنے کا مانع ہے وہ قنطرہ (پل) تو کیا بلکہ وہ تو ایک بت ہے جو اپنی پرستش کی طرف بلاتا ہے اور ایک دیو ہے جو حقیقت سے برگشتہ کرتا ہے اسی لئے مخبر صادق علیہ وعلی آلہ الصلوۃ والسلام نے نظرہ ثانیہ کو مضر جانتے ہوئے اَلنَّظْرَۃُ الثَّانِیَتُہ عَلَیْکَ
تشریح:
دوسری نظر آپ کے اوپر وبال ہو جاتی ہے، وہ تو آپ کو مار دے گی۔
متن:
(دوسری نظر تیرے لئے (مضر) ہے) فرمایا ہے۔ اور اس سے زیادہ کون سی چیز مضر ہو گی جو حق سے باز رکھے اور باطل میں گرفتار کرے۔
اور جاننا چاہئے کہ پہلی نظر بھی اس وقت فائدہ مند ہے جبکہ اپنے اختیار سے نہ ہو اور اگر اپنے اختیار سے ہو گی تو وہ بھی نظرہ ثانیہ کا حکم رکھتی ہے۔
تشریح:
مثلًا مجھے پتا ہے کہ دیوار کے پیچھے کوئی عورت کھڑی ہے۔ بے شک میں بے خیالی میں باہر جاؤں گا لیکن مجھے پتا تو ہے، لہٰذا یہ بے خیالی نہیں بلکہ planning (منصوبہ بندی) ہے۔
متن:
اس مطلب کے اثبات کے لئے آئیہ کریمہ قُلْ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ یَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِهِمْ (نور: 30) (آپ مؤمنوں سے کہہ دیں کہ اپنی نظروں کو نیچے رکھا کریں) کافی ہے۔
تشریح:
یہ اسباب کے دائرہ میں ہے کہ بچنے کا راستہ ڈھونڈو۔
متن:
صوفیائے خام نے اس عبارت کے معنی نہ سمجھے اور غلط معنی کرنے کی وجہ سے وہ حسین شکلوں کے ساتھ گرفتاری (تعلق) پیدا کر لیتے ہیں اور ان کے ناز و انداز پر فریفتہ ہو جاتے ہیں اس طرح پر کہ اس (عشق و محبت) کو حقیقت تک پہنچنے کا وسیلہ اور مطلوب کے حاصل ہونے کا زینہ بنائیں۔ ہرگز ایسا نہیں ہے بلکہ یہ امر سراسر مطلوب کا سدِ راہ اور مقصود کے حاصل ہونے کے لئے حجاب ہے اور یہ ایک باطل ہے جو ان کی نظر میں مزین و آراستہ ہو گیا ہے اور وہ دھوکے میں آ کر اس کو حقیقت سمجھ بیٹھے ہیں۔ ان میں سے بعض صوفی ان صورتوں کے حسن و جمال کو حق جل شانہ کا حسن و جمال سمجھ کر ان کی گرفتاری کو عین حق تعالیٰ کی گرفتاری جانتے ہیں اور ان کے مشاہدے کو حق تعالیٰ کا مشاہدہ خیال کرتے ہیں اور ان میں بعض کہتے ہیں
امروز چوں جمال تو بے پردہ ظاہرست
در حیرتم کہ وعدہ فردا براے چیست
ترجمہ:
جب آج ہی جمال ترا بے حجاب ہے
حیرت ہے کل کا وعدہ کیا تو نے کس لئے؟
تَعَالَی اللّٰہُ عَمَّا یَقُوْلَوْنَ عُلُوًّا کَبِیْرًا (اللہ تعالیٰ اس بات سے جو وہ کہتے ہیں بہت ہی بلند و برتر ہے)
معلوم نہیں کہ ان کوتاہ نظروں نے حق سبحانہ کو کیا گمان کیا ہے اور اس کے حسن و جمال کو نہ جانے کیا تصور کیا ہے۔ شاید انھوں نے نہیں سنا کہ حور بہشت جو حق سبحانہ کی ایک مخلوق ہے اگر اس کا ایک بال بھی دنیا میں گر جائے تو اس بال کی چمک اور روشنی کے باعث دنیا میں کبھی رات نہ آئے اور نہ کبھی اندھیرا چھائے۔ اور حق جل و علا کی ایک ہی تجلی تو پڑی تھی جس سے کوہ طور کے جل جانے اور اس کے ریزہ ریزہ ہو جانے اور حضرت موسیٰ کلیم اللہ علیٰ نبینا وعلیہ الصلوۃ والسلام کے اس قرب و منزلت کے باوجود بے ہوش ہو کر گر پڑنے کا قصہ نص قرآنی سے ثابت ہے۔ لیکن یہ بے عقل لوگ ہر وقت حق تعالیٰ کو بے پردہ دیکھتے ہیں اور آخرت کی رویت کے وعدہ پر تعجب کرتے ہیں۔ لَقَدِ اسْتَكْبَرُوْا فِیْۤ اَنْفُسِهِمْ وَعَتَوْ عُتُوًّا كَبِیْرًا
(الفرقان: 21) (انھوں نے اپنے نفسوں میں تکبر کیا اور نہایت درجہ سرکش ہو گئے)۔
تشریح:
نفس مکار ہے۔ یہ مکر اس طرح کرتا ہے کہ جب اس کی خواہش ہوتی ہے کہ میں کوئی چیز دیکھوں یا حاصل کروں، تو اس کے لئے یہ بہانے اور عذر تراشتا ہے۔ بہانے کچھ بھی ہو سکتے ہیں، اگر کوئی عالم ہے تو علمی بہانہ ڈھونڈے گا۔ کوئی شاعر ہے تو شاعرانہ بہانہ ڈھونڈے گا۔ کوئی فلسفی ہے تو فلسفیانہ بہانہ ڈھونڈے گا۔ کوئی سائنس دان ہے تو سائنسی بہانہ ڈھونڈے گا۔ جس کی جو فیلڈ ہے اس کا نفس اسی حساب سے کچھ نہ کچھ بہانہ ڈھونڈے گا۔ حالانکہ یہ سارے کے سارے پھندے ہیں۔ اصل بات تو اللہ پاک کی ہے۔ اس وجہ سے ہم لوگوں کو ان پھندوں سے اپنے آپ کو بچانا ہو گا۔ اپنے آپ کو ان چیزوں میں پھنسنے سے محفوظ رکھنا ہو گا اور اس کا طریقہ یہ ہے کہ ہم اپنے آپ کو ایسی چیزوں، ایسے لٹریچر سے اور ایسے لوگوں سے بچائیں جو ہمارے اندر اس قسم کا زہر پہنچا سکتے ہیں۔ ہمیں اپنے آپ کو ان سے بچانا ہو گا، انسان میں یہ چیز بالکل آہستہ آہستہ آتی ہے۔
شاعروں میں تو یہ وبا اس حد تک ہوتی ہے کہ وہ باقاعدہ جرأت کے ساتھ اس قسم کی باتیں کرتے ہیں۔ وہ ایسے بے حجابانہ انداز میں گفتگو کرتے ہیں کہ آدمی حیران ہو جاتا ہے۔ انہیں شرم بھی نہیں آتی۔ واقعی نفس انسان کو بے شرم بنا دیتا ہے۔ آج سے پچاس سال پہلے ہم تصور بھی نہیں کر سکتے تھے کہ باپ، بیٹا، یا ماں، بیٹی، دونوں مل کر عاشقی معشوقی پر مبنی کوئی ڈرامہ اکٹھے بیٹھ کر دیکھ سکتے تھے لیکن آج کل ہر گھر میں یہ چلن عام ہو چکا ہے۔ یہ چیز اس طرح عام ہو گئی ہے کہ پردے ہٹ گئے ہیں۔ ایسی ناگفتہ بہ باتیں سننے میں آتی ہیں کہ آدمی زبان پر نہیں لا سکتا۔ جو چیزیں میں جانتا ہوں اور جو واقعات مجھے بڑے بڑے مفتیوں نے سنائے ہیں، ایسے ہوش ربا واقعات ہیں کہ جن کے سننے اور سنانے کی برداشت نہیں ہے۔ ہمیں اپنے آپ کو اس سے بچانا ہے۔
متن:
علماء اہل سنت و الجماعت شکر اللہ تعالیٰ سعیَہم نے بڑی کوششیں کی ہیں اور نقلی دلائل کے ساتھ مخالفوں کے سامنے آخرت کی رویت کو ثابت کیا ہے جب کہ اہل سنت کے علاوہ باقی تمام مخالف گروہ خواہ وہ اہل ملت ہوں یا غیر اہل ملت آخرت میں رویت حق جل و علا کے قائل نہیں ہیں بلکہ اس کو محال عقلی سمجھتے ہیں۔ اور خود اہل سنت نے بھی اس کو بلا کیف کہا ہے اور عالم آخرت کے ساتھ مخصوص رکھا ہے اور ان بو الہوس لوگوں نے اس دولت قاہرہ کے حاصل ہونے کو اس عالم فانی میں تصور کر لیا ہے اور اپنے خواب و خیال پر خوش ہو رہے ہیں۔ رَبَّنَا اٰتِنَا مِن لَّدُنكَ رَحْمَةً وَهَيِّئْ لَنَا مِنْ أَمْرِنَا رَشَدًا (کہف: 10) (اے ہمارے رب ہم کو اپنی جناب سے رحمت عطا فرما اور ہمارے کام میں بہتری فرما)۔ وَالسَّلَامُ عَلَىٰ مَنِ اتَّبَعَ الْھُدىٰ وَالْتَزَمَ مُتَابَعَۃَ الْمُصْطَفیٰ عَلَیْہِ وَعَلیٰ اٰلِہِ الصَّلَوَاتُ وَالتَسْلِیْمَاتُ اَتَمُّھَا وَاَکْمَلُھَا۔
تشریح:
بہرحال یہ عشق مجازی کا موضوع آج کل کے شاعروں نے بہت زیادہ کھلا رکھا ہوا ہے۔ مثلاً یہی جملہ کہ ”عشقِ مجازی حقیقت کا ایک پل ہے“۔ ایک تفصیل تو اس کی حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے بتائی ہے۔ لیکن شاعر اس کو دوسرے معنی میں لیں گے۔ وہ کہیں گے کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اپنے آپ کو ان چیزوں میں مشغول کر کے اللہ تعالیٰ تک پہنچنا چاہئے۔ حالانکہ ایسی بات نہیں ہے۔
لوگ صحیح باتوں سے بھی غلط مطلب نکالتے ہیں۔ اگر ہم لوگ صحیح لوگوں کے ساتھ اور صحیح مشائخ کے ساتھ رابطہ نہیں رکھیں گے تو آپ کو ایسے مشائخ بھی مل جائیں گے جو خود بھی گمراہ ہوں گے اور آپ کو بھی اپنے مقاصد کے لئے گمراہ کریں گے۔ اس وقت وہ شیطان کے بھائیوں کی طرح استعمال ہوں گے۔ نہ وہ خود راستہ پہ ہیں اور نہ ہی دوسروں کو راستہ پہ لانا چاہتے ہیں۔ ان کو اپنی ذاتی اغراض کے ساتھ کام ہے لہٰذا وہ آپ کو صحیح راستہ پہ نہیں لائیں گے۔ اگر اللہ نے کسی کو صحیح لوگوں تک پہنچا دیا اور صحیح لوگوں کے ساتھ ملا دیا تو یہ اس کا بہت بڑا فضل اور کرم ہے۔ اللہ نہ کرے اگر کوئی کسی غلط ہاتھ میں چلا گیا، تو پھر کچھ بھی نہیں کہا جا سکتا، پھر تو ہر خیر اس کے لئے شر بن سکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہماری حفاظت فرمائے۔
حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے صوفیائے کرام کے بارے میں بھی بات کی ہے۔ لوگ صوفیائے کرام کی صحیح باتوں کا غلط استعمال کرتے ہیں۔ اس سے صحیح صوفیوں پر بھی اعتراض ہو سکتا ہے، اس لئے اگلا موضوع یہ ہے کہ صوفیائے کرام کے کلام پر اعتراض نہیں کرنا چاہئے۔
صوفیائے کرام کے کلام کو سمجھنے کے لئے دو چیزوں کی اشد ضرورت ہے۔ ایک فن کا علم اور دوسرا قال اور حال میں فرق کا علم۔ اس کے بغیر صوفیا کے کلام میں غور کرنا خطرہ سے خالی نہیں ہے۔ اس لئے فرمایا گیا ہے کہ صوفیا کا کلام دونوں طرف سے کاٹ کرتا ہے۔ اگر اس سے ایک وقت میں بہت فائدہ پہنچ سکتا ہے تو دوسرے وقت میں انسان بے احتیاطی سے اپنا نقصان بھی کر سکتا ہے۔ اس کے بارے میں دفتر دوم کے مکتوب نمبر 77 میں ارشاد فرماتے ہیں:
متن:
کلامِ صوفیائے کرام پر اعتراض نہ کریں
آپ کو اس قسم کی باتیں ہرگز نہیں کرنی چاہئیں اور حق جل سلطانہ کی غیرت سے ڈرتے رہنا چاہئے۔ بظاہر (ایسا معلوم ہوتا ہے کہ) اس وقت کے مدعیان نے آپ کو اس فتنہ و فساد پر آمادہ کیا ہے۔ آپ کو بزرگوں کا لحاظ کرنا چاہئے۔ اگر آپ ان مدعیوں کی نئی سے نئی اور من گھڑت باتوں پر اعتراض کرتے تو گنجائش تھی لیکن وہ امر جو قوم (صوفیہ) کے نزدیک مقرر اور اس راہ (طریقت) میں ضروری ہے اس کے متعلق گفتگو کرنا مناسب نہیں ہے۔ آپ نے فقیر کے رسالوں اور مکتوبات میں دیکھا ہو گا کہ توحید شہودی کی نسبت کس قدر لکھا ہے اور ضروریات راہ (طریقت) سے قرار دیا ہے۔
تشریح:
اہل حق صوفیائے کرام کے کلام پہ کبھی اعتراض نہیں کرنا چاہئے کیونکہ اس سے انسان کو بہت نقصان ہوتا ہے۔ جو چیز آپ کو سمجھ نہیں آ رہی، اس کو چھوڑ دیں۔ اور جو چیز حق کے مطابق ہے اس کا مقابلہ بالکل نہیں کرنا چاہئے۔ کیونکہ وہ اللہ کے لئے بات کر رہے ہیں۔ اگر آپ اس کا مقابلہ کریں گے تو یہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ مقابلہ ہو جائے گا۔ البتہ یہ بات غلط صوفیا کے بارے میں نہیں ہے۔ جن صوفیا کی غلطی ثابت ہو جائے۔ جو کہ ہم ثابت نہیں کر سکتے، بلکہ خود دوسرے اللہ والوں نے ثابت کی ہو۔ ان کے بارے میں بات کی جا سکتی ہے۔
صوفیوں کی بعض غلطیوں کی نشان دہی:
حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ تصوف کے امام تھے اس لئے صوفیوں کی غلطی پر بہت کڑھتے تھے اور ان کی اصلاح کی ہر وقت فکر کرتے تھے۔ دفتر اول کے مکتوب نمبر 220 میں اپنی اس فکر کو یوں بیان فرماتے ہیں:
صوفیوں کی بعض غلطیوں کی نشان دہی:
متن:
اے عزیز! یہ راستہ غیب الغیب (پردہ در پردہ) ہے جس میں سالکوں کے قدم بہت لغزش کھاتے ہیں، لہذا آپ اعتقادات و اعمال میں شریعت کے رشتہ کو مد نظر رکھتے ہوئے زندگی بسر کریں۔ حضور و غیبت (سامنے اور پس پردہ) میں (فقیر کی) یہی نصیحت ہے ایسا نہ ہو کہ غفلت واقع ہو جائے۔ لہذا اس راہ کی بعض غلطیاں تحریر کی جاتی ہیں اور اس کا منشا غلطیوں کی نشان دہی کرنا ہے (امید ہے کہ) حصول عبرت کی نظر سے ملاحظہ فرمائیں گے۔
تشریح:
یعنی خود بچنے کی نیت سے پڑھیں گے۔ دوسروں کے اوپر اعتراض کرنے کی نیت سے نہیں۔
متن:
اور مذکورہ جزئیات کے علاوہ ان کے اندازے کے مطابق کام کریں گے۔ جاننا چاہئے کہ صوفیہ کی بعض غلطیاں یہ ہیں کہ کبھی کبھی سالک مقام عروج میں اپنے آپ کو دوسروں سے بالاتر پاتا ہے جن کی افضلیت علماء کے اجماع سے ثابت ہوچکی ہے حالانکہ یقیناً اس سالک کا مقام ان بزرگوں کے مقامات سے نیچے ہے۔ بلکہ یہ اشتباہ کبھی کبھی انبیاء علیہم الصلوات و التسلیمات کی نسبت بھی ہو جاتا ہے جو قطعی طور پر بہترین مخلوق ہیں۔ عَیَاذاً بِاللّٰہِ سُبْحَانَہ مِنْ ذَلِکَ۔
تشریح:
یہ ایک بہت گہرا نکتہ ہے۔ پہلے اس کو سمجھنا چاہئے کہ مقام عروج کیا ہے اور مقام نزول کیا ہے؟ مقامِ عروج میں انسان کی نظر مخلوق سے کٹ کے صرف اللہ پر ہوتی ہے اور مقام نزول میں انسان کی نظر اللہ تعالیٰ کے حکم سے مخلوق کی طرف ہوتی ہے۔ جن کی نظر مخلوق کی طرف ہے، ان کے بارے میں عین ممکن ہے کہ وہ انسان جس کی نظر اللہ کی طرف ہے یہ سوچے کہ میں ان سے اچھا ہوں کہ میری نظر تو اللہ کی طرف ہے۔
ایک مثال سے یہ بات زیادہ وضاحت سے سمجھ آ سکتی ہے۔ ایک مجلس میں دو عاشق اپنے محبوب کے ساتھ بیٹھے ہوئے ہیں۔ ایک عاشق کچا ہے۔ خطرہ ہے کہ اگر اس کو بازار بھیج دیا جائے تو بازار کی چیزوں میں اس کا دل لگ جائے گا اور اپنے مقصد سے ہٹ جائے گا۔ اِس کو معشوق کہتا ہے کہ ادھر ہی بیٹھے رہو، مجھے دیکھتے رہو۔ جبکہ دوسرا شخص پکا عاشق ہے۔ وہ بازار میں رہ کر بھی بازار کا نہیں ہوتا بلکہ اپنے محبوب کا ہی ہوتا ہے اور اسی کے لئے کام کرتا ہے۔ چیزیں خریدتا ہے، سامان بناتا ہے۔ سارا لین دین کرتا ہے، سب کچھ لاتا ہے۔ لیکن اس کی قلبی نظر ذرہ بھر بھی اپنے محبوب سے نہیں ہٹتی۔ وہ سارے کام اس کے مطابق کرتا ہے۔ اب بتائیں کہ اس محبوب کے نزدیک افضل کون سا محِبّ ہے؟ ظاہر ہے دوسرا عاشق افضل ہے۔ لیکن پہلا عاشق کہے گا کہ اِس کو بازار بھیج دیا اور مجھے اپنے پاس بٹھایا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ میں افضل ہوں۔ حالانکہ ایسا نہیں ہے بلکہ اس کا الٹ ہے۔
لہٰذا جو حضرات اس قسم کی باتیں کر چکے ہیں، انہیں اس حال پر محمول کرنا چاہئے کہ اس وقت وہ مقامِ عروج میں تھے۔ اس وجہ سے ان سے یہ باتیں ہو گئیں۔ ورنہ جب وہ اپنی اس حالت سے واپس آ چکے ہوں گے، تب ان کو خود ہی پتا چل گیا ہو گا کہ بات ایسی نہیں تھی۔
طِبّ کا قانون ہے کہ جب تک بیماری سے صحت حاصل نہ ہو تب تک کوئی غذا فائدہ نہیں دیتی۔ آپ لٹریچر میں پڑھیں گے کہ فلاں چیز کے اندر یہ وٹامن ہیں اور یہ فوائد ہیں۔ آپ نے پڑھ لیا اور ان چیزوں کو جمع کر کے کھانا شروع کیا۔ لیکن آپ کا معدہ انہیں برداشت کرنے کے قابل نہیں تھا۔ نتیجتاً ہسپتال پہنچ گئے۔ البتہ صحت مند لوگوں کے لئے یہ بڑی زبردست چیز ہے لیکن بیمار آدمی کے لئے نقصان دہ ہے۔ مثلاً کسی کو ٹائیفائیڈ ہے، تو اس کے لئے روٹی سخت نقصان دہ ہے۔ حالانکہ روٹی میں جتنی طاقت ہے شاید ہی کسی اور چیز میں ہو۔ اگر طاقت کے لحاظ سے دیکھا جائے تو آدمی چلتا ہی اس پر ہے۔ باقی سب چیزیں بھی مفید ہیں مگر اصلی ضرورت روٹی ہی ہے۔ لیکن آپ غور کریں کہ ٹائیفائیڈ کے مریض کے لئے روٹی منع ہے۔ وہ روٹی نہیں کھا سکتا۔ روٹی کھائے گا تو بیماری بڑھ جائے گی۔ لہٰذا اسے ڈاکٹر کہتا ہے کہ روٹی نہیں کھانی۔ کیونکہ اس کا معدہ اس قابل نہیں ہے۔ جب معدہ اس قابل ہو جائے گا تو پھر یہی روٹی اس کے لئے مفید ہو گی۔ روحانیت کا بھی یہی معاملہ ہے کہ جب تک ہم لوگ بیمار ہوں گے اس وقت تک وہ چیزیں جو دوسروں کے لئے مفید ہیں، ممکن ہے کہ ہمیں نقصان پہنچائیں۔ اس کے بارے میں دفتر اول مکتوب نمبر 105 میں ارشاد فرماتے ہیں:
بیماری سے صحت کے بغیر کوئی غذا فائدہ نہیں دیتی:
متن:
حکیم عبد القادر کی طرف صادر فرمایا، اس بیان میں کہ بیمار جبتک تندرست نہ ہو جائے اُسے کوئی غذا فائدہ نہیں دیتی اور اس کے مناسب بیان میں۔
چونکہ اطِباء کے نزدیک یہ بات مسلم ہے کہ مریض جب تک بیماری سے صحتیاب نہ ہو جائے کوئی غذا اُسے فائدہ نہیں دیتی اگرچہ مرغِ متنجن ہی کیوں نہ ہو، بلکہ (بیماری کی حالت میں) غذا مرض کو بڑھادیتی ہے مصرعہ
ہرچہ گیرد علتی علت شود (ہر غذا بیمار کے حق میں ہے مضر)
لہذا پہلے مرض کو دُور کرنے کی فکر کرتے ہیں اس کے بعد آہستہ آہستہ مناسب غذاؤں سے اصلی قوت و طاقت کی طرف لاتے ہیں۔ پس آدمی جب تک قلبی امراض میں مبتلا ہے ﴿فِی قُلُوْبِھِمْ مَرَضٌ﴾ (البقرة: 10) (ان کے دلوں میں مرض ہے) کوئی عبادت و اطاعت اس کو فائدہ نہیں دیتی بلکہ مضر ثابت ہوتی ہے۔
رُبَّ تَالٍ لِلْقُرْآنِ وَالْقُرْآنُ یَلْعَنُہٗ (بعض لوگ قرآن کریم اس طرح پڑھتے ہیں کہ قرآن کریم اُن پر لعنت کرتا ہے) نیز وَرُبَّ صَائِمٍ لَیْسَ لَہٗ مِنْ صِیَامِہٖ اِلَّا الْجُوْعُ وَالظَّمَأُ (یعنی بہت سے روزے دار ایسے ہوتے ہیں کہ ان کو بھوک اور پیاس کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہوتا حدیث مشہور ہے (کیونکہ وہ جھوٹ اور غیبت وغیرہ سے پرہیز نہیں کرتے) حدیث صحیح مشہور ہے۔ قلبی امراض کے اطبا (یعنی مشائخ کرام) بھی پہلے مرض دوُر کرنے کا حکم فرماتے ہیں، اور اس مرض سے مراد ماسوائے حق کی گرفتاری بلکہ اپنی خواہشاتِ نفس میں پھنسا رہنا ہے۔
تشریح:
”رُبَّ تَالٍ لِّلْقُرْآنِ وَالْقُرْآنُ یَلْعَنُہٗ“ (احیاء علوم الدین: 274/1) ”رُبَّ صَائِمٍ لَیْسَ لَہٗ مِنْ صِیَامِہٖ اِلَّا الْجُوْعُ وَالظَّمَأُ“ (ابن ماجہ: 190) یہ حدیث ہے۔ باقی اس کی تشریح ہے۔
متن:
کیونکہ ہر شخص جو کچھ چاہتا ہے اپنے (نفس کے لئے) چاہتا ہے، اگر بیٹے کو دوست رکھتا ہے تو بھی اپنے فائدے کے لئے، اور اسی طرح مال ودولت اور ریاست وسرداری چاہتا ہے تو بھی اپنے لئے، پس در حقیقت اس کا معبود اس کی اپنی نفسانی خواہش ہے جب تک نفس کی اس قید سے خلاصی نہ ہو جائے نجات کی امید بہت مشکل ہے، پس عقلمند علماء اور صاحبِ بصیرت حکماء پر لازم ہے کہ اس مرض کے ازالہ کی فکر کریں۔
در خانہ اگر کس است یک حرف بس است
(گھر میں کوئی ہو تو بس اک بات کافی ہی اُسے)
تشریح:
بعض دفعہ مشائخ کسی کو نوافل سے روک دیتے ہیں۔ بعض دفعہ مشائخ کسی کو مفید کتاب پڑھنے سے روک دیتے ہیں۔ بعض دفعہ مشائخ کسی وظیفہ سے روک دیتے ہیں۔ مبتدی حیران ہو جاتا ہے کہ مرشد نے مجھے ایک اچھی چیز سے کیوں روکا۔ شیطان بھی کوشش کرتا ہے کہ ایسے میں مرید کو مرشد سے توڑ دے۔ وہ اس بارے میں سمجھتا ہے کہ یہ مجھے کیوں روک رہا ہے، یہ تو کوئی بری چیز نہیں ہے۔ بلا شبہ وہ چیز بری نہیں ہوتی لیکن آپ کے لئے ٹھیک نہیں ہوتی، اس لئے مرشد نے اس سے روکا ہوتا ہے۔ ایک دفعہ میں نے رات کے وقت ایک بہت اچھی کتاب پڑھی جو ایک بہت بڑے بزرگ کی تصنیف ہے۔ مجھے پوری رات نیند نہیں آئی۔ صبح میں نماز کے لئے حضرت مولانا اشرف سلیمانی رحمۃ اللہ علیہ کے پاس چلا گیا اور حضرت کے ساتھ نماز پڑھی۔ پھر حضرت سے کہا کہ حضرت مجھے پوری رات نیند نہیں آئی۔ حضرت بہت جہاندیدہ بزرگ تھے۔ فوراً مجھ سے پوچھا کس کی کتاب پڑھی ہے؟ میں نے کتاب کا نام بتا دیا۔ فرمایا: آپ کے اوپر ساری کتابیں بند، آئندہ کتابیں نہیں پڑھنیں۔ پھر فرمایا: آپ صرف حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمة اللہ علیه کے مواعظ و ملفوظات دیکھو گے، سمجھ گئے؟ میں نے کہا: جی ٹھیک ہے۔ پھر فرمایا: میں اس لئے نہیں منع کر رہا کہ کتاب غلط ہے۔ کتاب صحیح ہے۔ بعض دفعہ ڈاکٹر مریض کو ملائی سے بھی روک دیتا ہے۔ حالانکہ ملائی بڑی اچھی چیز ہے لیکن ڈاکٹر اس لئے روکتا ہے کہ ملائی کے استعمال سے مریض کی بیماری بڑھنے کا خطرہ ہوتا ہے۔ آپ سمجھیں کہ میں بیمار ہوں اس لئے میرے لئے یہ مناسب نہیں ہے۔ اس کے بعد کافی عرصہ تک میرے لئے کتابیں پڑھنا ممنوع رہیں۔
اگر آج میں کسی کو کسی چیز سے روک دوں تو دل میں کہیں گے کہ ایسا کیوں کر رہے ہیں۔ جو لوگ یہاں خانقاہ میں وقت لگانے کے لئے آتے ہیں، ان کے لئے یہ قانون ہے کہ وہ یہاں کتابیں نہیں پڑھیں گے۔ یہ کتابیں علمی تحقیقات کے لئے ہیں، سالکین کے لئے نہیں ہیں۔ اگر سالکین یہاں آ کر کتابیں دیکھنا شروع کر لیں گے تو ان کی تربیت نہیں ہو سکے گی بلکہ ذہنی لڑائی شروع ہو جائے گی۔ اس وجہ سے ان کو روکتے ہیں کہ آپ نے ان کتب کا مطالعہ نہیں کرنا۔ البتہ اگر کسی کام میں ان کو شامل کر دیں اور پھر انہیں کتاب خوانی کا کام دیا جائے تو وہ ایک علیحدہ معاملہ ہے۔
اس کی وجہ یہی ہے کہ بیمار آدمی کے لئے سب سے پہلے ضروری ہے کہ اس کی بیماری کا علاج کیا جائے۔ بعد میں اس کے لئے کوئی غذا اور دوسری چیزیں ہوتی ہیں۔ یہ بات اس حد تک اہم ہے کہ حضرت مولانا مصطفےٰ صاحب رحمة اللہ علیه جو رائے ونڈ کے مقیمین میں سے تھے۔ ہدایات دیتے تھے اور کار گزاری سنتے تھے۔ انہوں نے ایک مرتبہ فرمایا کہ دیکھو بھائیو! ہم بھی آپ کو ذکر دیتے ہیں، مشائخ بھی آپ کو ذکر دیتے ہیں۔ یاد رکھنا کہ دونوں ذکر کر لیا کرو۔ اگر کبھی ایسا وقت آ جائے کہ صرف ایک کر سکو تو ہمارے والا ذکر مؤخر کر لو مشائخ والا ذکر ضرور کر لیا کرو۔ اس کو کبھی نہ چھوڑو۔ کیونکہ مشائخ کا دیا ہوا ذکر علاج ہے اور ہمارا دیا ہوا ذکر غذا ہے۔ اگر غذا اور دوا میں مقابلہ آ جائے تو دوا کو ترجیح ہوتی ہے۔
ہم لوگوں کو یہ سمجھنا چاہئے کہ اگر مشائخ نے ہمیں کسی چیز سے روکا ہے تو اس میں ہمارا ہی فائدہ ہے۔ اس بات کو مشائخ نے مختلف عنوانات سے بیان کیا ہے۔ اس عنوان سے بھی بیان کیا ہے کہ اگر آپ کو شیخ کہہ دے کہ جائے نماز کے اوپر شراب انڈیل دو تو انڈیل دو۔ ضرور اس میں کوئی بات ہو گی۔ اب یہ بات بظاہر بہت بری لگتی ہے لیکن یہ صرف نظر کی کمزوری کی بات ہے۔ جس کی نظر کمزور ہوتی ہے اس کو چیزیں عدسے کے ذریعے بڑی کر کے دکھائی جاتی ہیں۔ عمومی طور پہ وہ چیزیں اتنی بڑی نہیں ہوتیں لیکن صرف اسے دکھانے کے لئے ان کا منظر بڑا کر دیا جاتا ہے۔ اس بات کا مقصد بھی یہی ہے کہ اگر شیخ کی بات تمہیں اتنی بری نظر آ رہی ہے پھر بھی اسے مانو۔ کیونکہ اسے راستے کا پتا ہے۔
مثلاً دو راستے ہیں۔ ایک راستہ میں ابتدا میں بہت خوبصورت کیاریاں اور خوبصورت سڑکیں ہیں لیکن آگے جا کر وہ راستہ بہت خراب ہے۔ دوسرا راستہ ابتدا میں اتنا زیادہ اچھا نہیں ہے لیکن آگے جا کر وہ محفوظ ہے۔ اگر کوئی جاننے والا آپ کو بتا دے اور آپ کہیں کہ اتنا اچھا راستہ مجھ سے چھڑوا رہے ہو، کہیں تم میرے مخالف تو نہیں ہو۔ تو یہ درست رویہ نہیں ہو گا۔ جاننے والے کی بات ماننی چاہئے۔ یہی بنیادی بات ہے۔ الله جل شانهٗ ہم سب کو صحیح بات سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔
اولیائے کرام سے محبت رکھنے اور ان کے بغض سے بچنے کی ترغیب۔ اس کے لئے حضرت دفتر اول مکتوب نمبر 106 میں ارشاد فرماتے ہیں:
اس گروہ سے محبت رکھنے اور ان کے بغض سے بچنے کی ترغیب:
متن:
اس گروہ (اولیائے کرام) کی محبت جو اُن کی معرفت پر مترتب ہوتی ہے حق سبحانہ و تعالیٰ کی بڑی نعمتوں میں سے ہے، دیکھئے کس صاحبِ نصیب کو اس نعمت سے مشرف فرماتے ہیں۔ شیخ الاسلام ہرویؒ فرماتے ہیں "کہ الہیٰ تو نے اپنے دوستوں کے ساتھ یہ کیا معاملہ کیا ہے
تشریح:
یہ عجیب مقولہ ہے کہ الہیٰ تو نے اپنے دوستوں کے ساتھ یہ کیا معاملہ کیا ہے۔
متن:
کہ جس نے ان کو پہچانا تجھ کو پالیا اور جب تک تجھ کو نہ پایا ان کو نہیں پہچانا اس گروہ کے ساتھ بغض و عناد رکھنا زہرِ قاتل ہے اور ان پر طعن کرنا (نیک کاموں سے) ہمیشہ کی محرومی کا باعث ہے، نَجَّانَا اللّٰہُ سُبْحَانَہُ وَاِیَّاکُمْ عَنْ ھذَا الْاِبْتِلَاءِ (اللہ سبحانہ وتعالیٰ ہم کو اور آپ کو اس آزمائش سے بچائے) شیخ الاسلام نے فرمایا "الہیٰ جس کو تو اپنے دربار سے مردود کرنا چاہتا ہے اس کو ہمارا مخالف بنا دیتا ہے"۔ بیت
بے عنایاتِ حق وخاصانِ حق
گر مَلک باشد سیہ ہستش ورق
لطفِ حق اور لطفِ خاصاں کے بغیر
ہو فرشتہ بھی، عمل اس کا تباہ
تشریح:
حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے یہ ایک بہت اہم بات فرمائی ہے، اس کو جاننے کی ضرورت ہے۔ حضرت نے جو مقولہ ذکر کیا ہے کہ الٰہی تو نے اپنے دوستوں کے ساتھ یہ کیا معاملہ کیا ہے کہ جس نے ان کو پہچانا اسے تجھ کو پا لیا اور جب تک تجھ کو نہ پایا ان کو نہیں پہچانا۔ اس کی تشریح کے لئے ہم ایک آیت مبارکہ سے مدد لیں گے۔ خاصانِ حق کو پہچاننے کے لئے انسان کے دل میں بنیادی طور پر ایک اخلاص ہونا چاہئے اور للہیت ہونی چاہئے کہ میں وہاں تک پہنچ جاؤں اور پھر اس کے لئے کوشش ہونی چاہئے۔ اللہ پاک فرماتے ہیں:
﴿وَالَّذِيْنَ جَاهَدُوْا فِيْنَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا﴾ (العنکبوت: 69)
اس میں یہی بات ہے کہ جب آپ للہیت کے ساتھ کوشش کرتے ہیں کہ میں خاصان حق تک پہنچا جاؤں تو اللہ تعالیٰ آپ پر وہ راستے کھول دیتا ہے اور آپ ان تک پہنچ جاتے ہیں۔ یہ ابتدائی مرحلہ ہے کہ جس نے تجھ کو نہیں پہچانا، اس کے پاس للہیت نہیں ہے۔ یعنی جو اس مقصد کے لئے کوشش نہیں کرتا وہ ایسے لوگوں تک نہیں پہنچ سکتا ہے۔ ایسے لوگوں تک پہنچنے کے لئے یہ چیز چاہئے ہوتی ہے۔ اور جو لوگ یہاں تک نہیں پہنچے، وہ تجھے کیسے پائیں گے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ پاک تک پہنچنے کا طریقہ کار وہی بتائیں گے۔ جب تک آپ لوگ ان تک نہیں پہنچیں گے تب تک آپ کو یہ راستہ نہیں ملے گا؟ ابتدا میں نیت صحیح ہونی چاہئے اور ہمت ہونی چاہئے اور اس کے لئے کوشش ہونی چاہئے تاکہ ان لوگوں تک پہنچا جا سکے۔ پھر اس کے بعد ان لوگوں کی بات ماننی چاہئے اور اس کے مطابق پوری جدوجہد کرنی چاہئے۔ ان کی نگرانی میں سلوک طے کرنا چاہئے تاکہ انسان اللہ پاک کو پا لے۔
یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ پہلے وقتوں میں باقاعدہ یہی طریقہ کار ہوتا تھا۔ آپ حضرات گذشتہ بزرگوں کے واقعات پڑھ لیں تو آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ بزرگوں کا طریقہ یہ تھا کہ وہ علم حاصل کر لیتے۔ اس کے بعد معرفت حاصل کرنے کے لئے باقاعدہ شیخ کامل کی تلاش میں نکلتے۔ اور شیخ کامل ان کو قریب نہیں ملتا تھا۔ کوئی دو سو میل پہ ہے، کوئی چار سو میل، کوئی نو سو میل اور کوئی ہزار میل پہ ہے۔ آپ پیر بابا رحمۃ اللہ علیہ کی سوانح پڑھ کے دیکھیں۔ یہ افغانستان کے بزرگ ہیں اور وہاں سے اجمیر شریف، انڈیا گئے ہیں۔ وہاں ان کی تربیت ہوئی ہے۔ پھر مردان کے علاقے میں کام کرنے کا حکم ہوا تو یہاں بونیر کے پاس آ گئے اور پھر ساری عمر یہیں گزاری۔ افغانستان نہیں گئے۔ یہ طریقہ کار ہوا کرتا تھا۔ لوگ اس مقصد کے لئے اتنی دور دور تک جاتے تھے۔ یہ ہمارے بابا زکریا ملتانی رحمة اللہ علیه ملتان کے ہیں اور اپنی اصلاح کے لئے بغداد شریف تک کا سفر کیا۔
ہمارے حضرات اس مقصد کے لئے بڑے بڑے مجاہدے کرتے تھے۔ بڑی محنتیں کرتے تھے اور پھر ایسے حضرات کو پاتے تھے۔ اس کے بعد ان سے فیض حاصل کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو سمجھ عطا فرمائے۔
وَ اٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ