اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
”مقاماتِ قطبیہ و مقالاتِ قدسیہ“ کے آج کے درس میں کتاب ہٰذا کی نئی فصل شروع ہو رہی ہے۔
حضرت حلیم گل بابا رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
متن:
فصل
حضرت شیخنا شیخ رحمکار صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی نماز کے بیان میں
اسرارِ ایمان کے بعد نماز کے اسرار واقع ہیں۔ اور اس کی اہمیت کے بارے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ﴿حَافِظُوْا عَلَی الصَّلَوَاتِ وَالصَّلٰوۃِ الْوُسْطٰی﴾ (البقرہ: 238) ”نماز کی حفاظت کرو بالخصوص درمیانی نماز کی“ اور صاحبِ شریعت یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فتویٰ بھی اس پر دلیل ہے کہ "اَلصَّلٰوۃُ عِمَادُ الدِّیْنِ" (شعب الإیمان للبیھقي، کتاب الصلوة، رقم الحدیث: 2550) ”نماز دین کا ستون ہے“ لیکن اے بھائی! نماز کی صحت کے لیے اہم شرط طہارت، پاکی یعنی وضو ہے کہ بغیر طہارت کی نماز کا کوئی حاصل نہیں۔ اور اسی بارے میں سرور کونین صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ "مِفْتَاحُ الصَّلٰوۃِ الطُّہُوْرُ" (سنن الترمذی، أبواب الطھارۃ، باب: ما جاء أن مفتاح الصلوۃ الطھور، رقم الحدیث: 03) یعنی طہارت نماز کی کنجی اور کلید ہے۔ اور طہارت کے مبارک سلسلے میں پہلا مرحلہ اعضاء اور انداموں کا نجاست سے پاک کرنا ہے۔ خواہ پانی سے پاک کیا جائے یا کہ مٹی سے۔ (یعنی تیمم کی صورت میں) پس اے بھائی! یہ تو اعضاء کا نجاست سے پاک کرنا ہے۔ مگر درجۂ دوم میں اندرون اور باطن کو برے اخلاق اور خصلتوں سے مثلاً حرص، غرور، بغض اور جو اس طرح کی بری عادتیں ہوں سے پاک و صاف کرنا ہے۔ پس اے برادرِ عزیز! جب تم اپنے باطن کو ان بُرے خصائل سے پاک کرو گے تو تمہارا وضو کامل ہو جائے گا۔ اور تب تمہاری نماز کو اللہ تبارک وتعالیٰ قبول فرمائے گا۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: "لَا تُقْبَلُ الصَّلٰوۃُ إِلَّا بِطَھُورٍ" (سنن الترمذی، أبواب الطھارۃ، رقم الحدیث: 1) یعنی کامل وضو کے بغیر نماز قبول نہیں کی جاتی۔ اور شیخ شبلی علیہ الرحمۃ فرما چکے ہیں کہ "وَ الْوُضُوْءُ انْفِصَالٌ وَّ الصَّلٰوۃُ إِیْصَالٌ وَّ مَنْ لَّمْ یَنْفَصِلْ لَمْ یَتَّصِلْ" ”وضو ما سوا سے جدا ہونا ہے اور نماز اللہ تعالیٰ سے ملنا اور اتصال ہے۔ پس جو کوئی (دنیا سے) جدا نہ ہو، (اللہ تبارک وتعالیٰ) سے اتصال کی سعادت حاصل نہیں کر سکتا“ پس اس بات میں پوشیدہ نکتہ یہ ہے کہ اگر ما سویٰ اللہ سے تجھے جدائی حاصل نہ ہو، تو "لِيْ مَعَ اللہِ وَقْتٌ" کی لذتِ اتصال نماز میں ہرگز حاصل نہیں ہو سکتی۔ اور مجھے مکمل یقین ہے اور امید واثق رکھتا ہوں کہ ہمارے شیخ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو یہی مذکورہ طہارت اور مندرجہ بالا نماز کی کیفیت اچھی طرح سے حاصل تھی۔ کیونکہ فرمایا گیا ہے کہ "اَلصَّلٰوۃُ مِعْرَاجُ الْمُؤْمِنِ" (مرقاۃ المفاتیح، کتاب الإیمان، رقم الصفحۃ: 55/1، دار المعرفۃ، بیروت) ”نماز مؤمن کی معراج ہے“ کی کیفیت ان میں ظاہر اور نمایاں تھی۔
تشریح:
نماز کا موضوع بڑا اہم موضوع ہے۔ انسان جس وقت ایمان لا کر مسلمان ہو جاتا ہے تو اس پر سب سے پہلے جس فرض کی ادائیگی لازم ہوتی ہے، وہ نماز ہے۔ اس لئے جو لوگ ایمان لاتے ہیں ان کو سب سے پہلے نماز سکھائی جاتی ہے۔ رمضان شریف کے روزے تو سال میں ایک دفعہ آتے ہیں۔ زکوٰۃ بھی سال میں ایک دفعہ فرض ہوتی ہے۔ حج عمر بھر میں ایک دفعہ فرض ہوتا ہے۔ لیکن نماز ہر دن میں پانچ دفعہ پڑھی جاتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جس چیز کی ضرورت زیادہ اور مستقل ہوتی ہے، اس کا انتظام بھی اُسی لحاظ سے کیا جاتا ہے۔ چوں کہ نماز کے اندر جو روحانیت ہے، وہ ہمارے لئے مستقل طور پر ضروری ہے، اس لئے نماز کو دن میں پانچ دفعہ فرض قرار دیا گیا ہے، تاکہ ہمیں وہ نعمت حاصل ہوتی رہے۔
یہاں دو چیزیں ہیں: ایک نماز کا ظاہر ہے اور ایک نماز کا باطن ہے، جیسا کہ ہر چیز میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ اصلاحِ قلب کا تعلق نماز کے ساتھ ایسا ہے، جیسا ہماری آنکھ، کان اور زبان کا تعلق دل کے ساتھ ہے۔ صفائیِ قلبی کا نماز کے ساتھ یہی تعلق ہے۔ مثلاً: اگر دل صحیح ہو، تو آنکھیں، کان اور زبان بھی صحیح استعمال ہوں گے۔ ان کا آپس میں interaction (تعلقِ عمل) ہے۔ اگر دل صحیح نہ ہو، تو کان، زبان اور آنکھیں بھی غلط استعمال ہو رہی ہوتی ہیں۔ لیکن ان چیزوں کو ٹھیک کرنے کا نظام دو رُخی ہے۔ ایک تو یہ ہے کہ ان چیزوں کا استعمال ارادۃً صحیح ہو، بے شک تکلیف ہو، کیوں کہ ابتدا میں تکلیف ہوا کرتی ہے۔ اس کے لئے مجاہدہ ہے۔ جب یہ چیزیں درست ہونے لگتی ہیں، تو دل درست ہونا شروع ہو جاتا ہے۔
پھر اس کے ساتھ مزید صحبتِ صالحین ہے۔ اس کے ذریعے سے بھی دل بنتا ہے۔ جب دل بنا ہو، تو پھر اعضاء بھی صحیح استعمال ہوں گے۔
یہ ساری باتیں میں نے کیوں کہی ہیں؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ درمیان میں ایک نقطہ لوگوں کے ذہن میں آ سکتا تھا کہ اللہ پاک فرماتے ہیں: ﴿اِنَّ الصَّلٰوۃَ تَنْھٰی عَنِ الْفَحْشَآءِ وَالْمُنْکَرِ، وَلَذِکْرُ اللہِ اَکْبَرُ﴾ (العنکبوت: 45)
ترجمہ: ’’بے شک نماز بے حیائی اور برے کاموں سے روکتی ہے اور اللہ کا ذکر سب سے بڑی چیز ہے‘‘۔
پس ہم کہتے ہیں کہ اگر نماز بے حیائی کی باتوں اور منکرات سے روکتی ہے، تو یہاں پر جو شرط بیان کی گئی ہے کہ دل کو تمام چیزوں سے خالی ہونا چاہئے، اس شرط میں output ہے اور نماز اس میں input ہے یعنی ہم نماز شروع کریں گے، تو وہ چیز حاصل ہو گی، لیکن یہاں اس کا الٹ بتایا جا رہا ہے کہ یہ چیزیں حاصل ہوں گی، تو نماز ٹھیک ہو گی۔ یہ اشکال لوگوں کے ذہن میں آ سکتا تھا، اس لئے میں نے دل، آنکھ، کان اور زبان کی مثال دے کر یہ بات سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ وہاں پر بھی صورتِ حال اسی طرح ہے اور یہاں پر بھی صورتِ حال اسی طرح ہے۔ نماز ان اعضاء میں تبدیلی لاتی ہے اور یہ اعضاء نماز کو تبدیل کرتے ہیں۔ ان کا آپس میں اس طرح سلسلہ چلتا رہتا ہے۔ اس کو ہم visual circle (بصری دائرہ) کہتے ہیں۔ یہ دائرہ دونوں طرح چلتا ہے۔ اگر یہ خرابی کی طرف چلے، تو پھر خرابی ہو گی اور اگر ٹھیک ہونے کی طرف چلے، تو پھر تیزی کے ساتھ درستگی ہو گی۔ اس لئے کہیں سے اس کا سرا پکڑنا پڑے گا۔ ہم کہاں سے اس عمل کو شروع کریں؟ تو اس کا طریقہ یہ ہے کہ پہلے بتکلف نماز کو درست کرنا پڑے گا، جس کے ذریعے سے یہ چیزیں بھی ٹھیک ہوں گی۔ جب یہ چیزیں ٹھیک ہوں گی، تو آپ کی نماز بھی درست ہونا شروع ہو جائے گی اور مزید اچھی ہوتی چلی جائے گی، گویا خیر کی طرف سلسلہ چل پڑے گا۔ مثال کے طور پر، چھوٹا سرکل، پھر چھوٹا سرکل، پھر چھوٹا سرکل؛ اس طرح آپ لیتے جائیں، تو ایک سرنگ سی بنتی جائے گی، جس کا آخری پوائنٹ ایک نقطہ ہو گا۔ بالکل اسی طریقے سے اگر آپ نقطہ سے بڑا کرتے جائیں اور بڑا کرتے جائیں، تو ایک سے دوسرا بڑا سرکل بنتا جائے گا۔ پس یہ دونوں نظام ہماری نماز کے اندر موجود ہیں۔ میں حضرت کاکا صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں آپ کو ایک گواہی بتاتا ہوں۔ حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کے ایک بڑے خلیفہ ہیں، جن سے باقاعدہ ایک دوسرا سلسلہ چلا ہے یعنی سلسلہ مجددیہ بنوریہ۔ حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے سلسلہ کے جو اولین شارحین ہیں، ان میں سے ایک حضرت آدم بنوری رحمۃ اللہ علیہ ہیں۔ ہمارے ملک میں سلسلہ مجددیہ زیادہ تر انہی کے ذریعے سے پہنچا ہے۔ واقعہ یوں ہے کہ آدم بنوری رحمۃ اللہ علیہ کاکا صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے پاس تشریف لائے، عارفانہ مجلس قائم ہے اور آپس میں بات چیت ہو رہی ہے۔ اتنے میں نماز کا وقت ہو جاتا ہے۔ حضرت کاکا صاحب رحمۃ اللہ علیہ علماء کی بہت قدر کرتے تھے۔ کاکا صاحب رحمہ اللہ حضرت آدم بنوری رحمۃ اللہ علیہ سے فرماتے ہیں کہ آئیے! آپ نماز پڑھائیے۔ حضرت آدم بنوری رحمۃ اللہ علیہ نے عرض کیا کہ حضرت! دوسری جو بھی بات منوانا چاہیں، مان لوں گا، لیکن یہ بات نہیں مان سکتا۔ اسی لئے تو میں آیا ہوں کہ آپ کے پیچھے نماز پڑھوں۔ لہذا یہ نعمت آپ مجھ سے نہ چھینیں۔ ویسے بھی شرعی طریقہ ہے کہ صاحبِ بیت نماز پڑھاتا ہے۔ بہر حال! کاکا صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے نماز پڑھائی۔ اس کے بعد آدم بنوری رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں (اور وہ کوئی معمولی گواہی نہیں ہے) آدم بنوری رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: میں نے مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے پیچھے جو نماز پڑھی ہے اور جو کاکا صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے پیچھے نماز پڑھی ہے، اس نماز کے علاوہ کوئی دوسری نماز ایسی نظر نہیں آتی۔ حضرت کاکا صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا معاملہ کچھ یوں تھا کہ وہ ہر چیز میں باطن کا بہت خیال رکھتے تھے۔ نگہداشت کا معاملہ ان میں بہت زیادہ تھا اور مجاہدہ کا عنصر بھی ان کے ہاں کافی تھا۔ نتیجتاً وہ ہر وقت اپنے نفس کی نگہداشت کرتے رہتے تھے اور جو بھی چیز ان کو ٹھیک معلوم نہ ہوتی، اس کے لئے مطلوبہ مجاہدہ کر کے اس چیز کو صاف کر لیتے تھے۔ جیسے بعض عورتیں اپنے گھروں کو بہت صاف رکھتی ہیں، ان کو اس وقت تک اطمینان نہیں ہوتا، جب تک گھر صاف نہ ہو۔ اگر کوئی آدمی گھر کا سامان آگے پیچھے کر دے، تو فوراً ان کو بے چینی ہوتی ہے۔ یہ ان کا ذوق ہوتا ہے۔ اسی طرح بعض حضرات کا قلبی ذوق ایسا ہوتا ہے کہ وہ اپنے قلب کے اوپر کسی چیز کا بوجھ نہیں رکھتے۔ جیسے کوئی چیز ان کے دل پر بوجھ بنتی ہے، تو فوراً وہ اس کو صاف کر دیتے ہیں۔ کاکا صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی تھا کہ وہ اپنے دل کو ہر وقت صاف رکھتے تھے۔ مجاہدہ کے ذریعے سے اپنے نفس کو کنٹرول کرتے رہتے تھے۔ نتیجتاً ان کی نماز ایک الگ نوعیت کی نماز تھی۔
اب میں آپ کو بتاتا ہوں کہ نماز کیسے کامل بنتی ہے؟ نماز کے اندر مقصودِ اعلی عبدیتِ کاملہ ہے اور عبدیتِ کاملہ کامل توجہ کے ذریعے سے حاصل ہو سکتی ہے کہ اپنے محبوب کی طرف کامل توجہ ہو۔ اور کامل توجہ اس طرح حاصل ہو سکتی ہے کہ جو چیزیں توجہ کو خراب کر سکتی ہیں، وہ کم سے کم ہوں یا بالکل نہ ہوں۔ اب اگر کسی شخص میں توجہ کو disturb (خراب) کرنے والی چیزیں زیادہ ہوں اور وہ ان چیزوں کے سامنے کمزور بھی ہو، ان چیزوں کے مقابلے میں وہ ڈٹ بھی نہ سکتا ہو یعنی مجاہدہ نہ کر سکتا ہو، کیوں کہ ڈٹنا مجاہدہ ہے اور وہ مجاہدہ نہ کر سکتا ہو، تو نتیجتاً اس کا ذہن ان چیزوں کی طرف چلا جائے گا۔ اگر توجہ کو خراب کرنے کی چیز دکان ہے، تو دکان کی طرف ذہن چلا جائے گا۔ اگر وہ کاروبار ہے، تو کاروبار کی طرف ذہن چلا جائے گا۔ اگر کوئی شخص سٹوڈنٹ ہے، تو سٹوڈنٹ کا ذہن پڑھائی کی طرف چلا جائے گا۔ اگر کوئی شخص کسی دوسرے شعبے کا ہو گا، تو اس کا ذہن اسی شعبے کی چیز کی طرف چلا جائے گا۔ پس اس کو کامل توجہ حاصل نہیں ہو گی۔ نتیجتاً اس کو عبدیتِ کاملہ حاصل نہیں ہو گی۔ جب عبدیتِ کاملہ حاصل نہیں ہو گی، تو اس کو صلوٰۃِ کاملہ بھی حاصل نہیں ہو گی۔
اب دیکھیں! ایک ہمارا وضو ہے، جس کو عام وضو کہتے ہیں۔ اس وضو کے بغیر تو کچھ بھی نہیں ہو سکتا۔ اکثر میں عرض کرتا رہتا ہوں کہ لوگ شریعت اور طریقت کے بارے میں ڈانواں ڈول رہتے ہیں، جس کی وجہ سے پریشان رہتے ہیں۔ کچھ لوگ شریعت کی بات اس طرح کرتے ہیں کہ طریقت کو بھول جاتے ہیں اور کچھ لوگ طریقت کی بات اس طرح کرتے ہیں کہ شریعت کو بھول جاتے ہیں، حالانکہ یہ دونوں لازم و ملزوم ہیں۔ شریعت بنیاد ہے، جس کے بغیر کام نہیں ہو سکتا۔ لہٰذا شرعی وضو بنیاد ہے۔ اگر یہ نہیں ہو گا، تو بے شک آپ کا دل کتنا ہی پاک کیوں نہ ہو، کچھ بھی حاصل نہیں ہو گا۔ یہ بات بالکل ایسی ہی ہے، جیسے بے پردہ عورتوں سے جب پردہ دار عورتیں کہتی ہیں کہ آپ پردہ کیوں نہیں کرتیں؟ تو وہ کہتی ہیں کہ بس دل صاف ہونا چاہئے، دل پاک ہونا چاہئے۔ بھائی! دل کیسے پاک ہو گا؟ دل کی پاکی کی علامت تو آپ میں پائی نہیں جاتی!! یہ بات ان کو سمجھانا بڑا مشکل ہوتا ہے، حالانکہ یہ بالکل واضح بات ہے۔ بھائی! جس کا دل پاک ہو گا، وہ پردہ کے اس حکم پر ضرور عمل کرے گا۔ اس حکم پر عمل نہ کرنا ہی انسان کے دل کی ناپاکی دلیل ہے۔ output کے لحاظ سے بھی ایک دلیل موجود ہے کہ امھات المؤمنین، جن کو قرآن پاک کی نصِ صریح میں یہ حکم دیا گیا ہے کہ تم پردہ کرو، کیا ان کے دل پاک نہیں تھے؟ اس لئے یہ بات کہ ’’بس دل پاک ہونا چاہئے، پردے کی کوئی ضرورت نہیں‘‘ یہ شریعت سے بغاوت کے زمرے میں آتی ہے۔ یہ بہت خطرناک بات ہے۔ اسی طرح اگر کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ بس دل پاک ہونا چاہئے اور اس وجہ سے وہ اس وضو کو چھوڑ کر کسی باطنی وضو کی بات کرتا ہے، تو وہ انہی باطنیین میں سے ہو گا، جو گمراہ ہو گئے تھے۔ اور اسی طرح جو لوگ ظاہر کی طرف آ جاتے ہیں اور باطن کو بالکل چھوڑ دیتے ہیں، تو وہ ظاہری لوگ ہیں۔ وہ بیچارے خشک زاہد ہیں اور اصل چیز کی طرف نہیں پہنچ سکے۔ پس شرعی وضو تو بنیاد ہے، کیوں کہ اگر آپ اعضاء کو پاک نہیں کرو گے تو یہ صراحتًا اللہ تعالیٰ کے حکم کی نافرمانی ہو گی۔ لیکن باطن یہ ہے کہ اس وضو کو کر کے پھر شریعت کے مطابق اللہ کی نافرمانی سے بچ کر طریقت کے ذریعے سے اس وضو کو مزید طاقتور بنا لیں۔ طریقت کے اندر طاقت ہے۔ حدیث میں جو احسان کا لفظ آیا ہے، اس کا مطلب ہے: کسی چیز کو بہت اچھی طرح کرنا۔ طریقت کے ذریعے سے ہم لوگ چیزوں کو اچھا بنا لیتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ بس صرف طریقت ہے اور شریعت کچھ نہیں۔ شریعت بنیاد ہے، جس کے اوپر مزید روحانیت کا structure (ڈھانچہ) طریقت کے ذریعے استوار ہوتا ہے۔ اس لئے حضرت نے پہلے شریعت والا وضو بتا دیا کہ شریعت کا وضو کیا ہے؟ چنانچہ فرمایا:
متن:
پہلا مرحلہ اعضاء اور انداموں کا نجاست سے پاک کرنا ہے۔ خواہ پانی سے پاک کیا جائے یا کہ مٹی سے۔
تشریح:
یہ شریعت والا وضو ہے، جس کے مطابق ہم وضو کرتے ہیں۔ پھر اس کے بعد فرمایا:
متن:
مگر درجۂ دوم میں اندرون اور باطن کو برے اخلاق اور خصلتوں سے مثلاً حرص، غرور، بغض اور جو اس طرح کی بری عادتیں ہوں سے پاک و صاف کرنا ہے۔ پس اے برادرِ عزیز! جب تم اپنے باطن کو ان بُرے خصائل سے پاک کرو گے تو تمہارا وضو کامل ہو جائے گا۔
تشریح:
یعنی اس طرح ظاہراً اور باطناً تمھارا وضو کامل ہو جائے گا۔ یہاں اسی بات کی طرف اشارہ ہے۔ بہر حال! ہم لوگوں کو ان دونوں باتوں کا خیال رکھنا پڑے گا۔ ہم لوگ نماز کے لئے اپنے قلوب کو پاک کریں اور اعضاء وضو کو بھی پاک کریں۔ ایک دفعہ ایسا ہوا کہ صوفی اقبال صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے پاس کچھ آدمی بیٹھے ہوئے تھے۔ حضرت نے فرمایا: بھائی! نماز کے لئے ذہن بناؤ، نماز پڑھنی ہے۔ شاید یہ بات کسی نے کسی سے بھی نہیں سنی ہو گی کہ نماز کے لئے ذہن بناؤ۔ لوگ اکثر باتیں کرتے جاتے ہیں اور نماز میں کھڑے ہو جاتے ہیں، حالانکہ نماز بہت بڑی چیز ہے۔ جب کوئی شخص کسی بڑے افسر یا کسی بڑے عہدہ والے شخص سے ملتا ہے، تو کیا اسی طرح ملتا ہے؟ نہیں، بلکہ پہلے خوب اچھی طرح اپنے آپ کو صاف ستھرا کر کے، جتنا وہ کر سکتا ہے، کرتا ہے۔ پھر اس کے ساتھ ملتا ہے، حالانکہ عام طریقے سے بھی آپ مل سکتے ہیں۔ لیکن صاف ستھرا ہو کر ملنے کا اپنا اثر پڑتا ہے۔ بالکل اسی طریقے سے نماز کے لئے ذہن بنانے کا مطلب یہی ہے کہ آپ اپنے آپ کو یہ سمجھائیں کہ میں کس کے ساتھ ملنے جا رہا ہوں۔ میں کیا کرنے لگا ہوں۔ اس بات کو پہلے انسان اپنے ذہن میں لائے اور پھر اس کے مطابق جتنا ہو سکتا ہے، اپنے آپ کو درست کر کے نماز پڑھنا شروع کر دے۔ جس نماز میں آپ نے ارادۃً اس طرح کر لیا، چاہے آپ نے تھوڑا ہی کیوں نہ کیا ہو، آپ نے اس نماز میں ایک Nucleation Point بنا لیا یعنی آپ نے starting points بنا دیئے۔ آپ نے پہلے پوائنٹ پر ایک سرکل draw کر لیا۔ اس کے بعد مزید آپ نماز کے اندر جتنی یکسوئی لا سکتے ہو، لے آؤ، تاکہ آپ کی نماز کامل ہو۔ اور یہ اس وقت ہو گا جب ہم رذائل سے پاک ہوں گے۔ جتنا جتنا ہم رذائل سے پاک ہوتے جائیں گے، اتنی اتنی ہماری نماز کامل ہوتی جائے گی۔ اس لئے رذائل سے پاک ہونا ہمارے لئے ضروری ہے۔ جتنا ہم اپنے آپ کو رذائل سے پاک کر سکتے ہیں، کر لیں۔ اس کے بعد پھر نماز کے ذریعے ہم مزید بہتر ہو جائیں گے۔ گویا کہ آپ کا سرکل چھوٹے سے چھوٹا ہونے کی طرف آتا جائے گا۔ جتنا سرکل بڑا ہو گا، اتنا انتشار زیادہ ہو گا اور جتنا سرکل چھوٹا ہو گا، اتنا انتشار کم ہو گا۔ پس جب آپ زیادہ انتشار سے کم انتشار کی طرف آتے آتے نقطۂ وحدت پر پہنچ جائیں گے، تو ان شاء اللہ آپ کو درجۂ احسان حاصل ہو جائے گا۔ اس لئے فرمایا: "لَا تُقْبَلُ الصَّلٰوۃُ إِلَّا بِالْوُضُوْءِ الْکَامِلِ" ”اَلْوُضُوْءُ انْفِصَالٌ“ وضو ان تمام چیزوں سے جو نقصان پہنچانے والی ہیں، اپنے آپ کو ہٹانے کا نام ہے ”وَّالصَّلٰوۃُ إِیْصَالٌ“ اور نماز اللہ تعالیٰ سے ملانے کا نام ہے۔ ’’وَّمَنْ لَّمْ یَنْفَصِلْ، لَمْ یَتَّصِلْ‘‘ جس شخص نے اپنے آپ کو ان تمام چیزوں سے جدا نہیں کیا، وہ اللہ پاک کے ساتھ نہیں مل سکتا۔
متن:
پس اس بات میں پوشیدہ نکتہ یہ ہے کہ اگر ما سویٰ اللہ سے تجھے جدائی حاصل نہ ہو، تو "لِيْ مَعَ اللہِ وَقْتٌ" کی لذتِ اتصال نماز میں ہرگز حاصل نہیں ہو سکتی۔
تشریح:
”لِيْ مَعَ اللہِ وَقْتٌ“ یہ حدیث شریف ہے۔ حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث شریف پر کافی کلام فرمایا ہے۔ حضرت کے مکتوب شریف ”جذب و سلوک کی حقیقت“ میں اس حدیث کی تشریح کو تفصیل سے بیان کیا گیا ہے اور وہ ہماری کتاب میں شامل ہے۔
متن:
اور مجھے مکمل یقین ہے اور امید واثق رکھتا ہوں کہ ہمارے شیخ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو یہی مذکورہ طہارت اور مندرجہ بالا نماز کی کیفیت اچھی طرح سے حاصل تھی۔ کیونکہ فرمایا گیا ہے کہ "اَلصَّلٰوۃُ مِعْرَاجُ الْمُؤْمِنِ" (مرقاۃ المفاتیح، کتاب الإیمان، رقم الصفحۃ: 55/1، دار المعرفۃ، بیروت) ”نماز مؤمن کی معراج ہے“ کی کیفیت ان میں ظاہر اور نمایاں تھی۔
نماز کے لیے ﴿أَقِمِ الصَّلٰوۃَ لِدُلُوْکِ الشَّمْسِ﴾ (الاسراء: 78) چاہیے اور قیام کے لیے سمت اور طرف چاہیے اور وہ سمت قبلہ ہے۔ اور اے برادر عزیز! اجسام اور قالب کا قبلہ تو وہ ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ﴿قَدْ نَرٰی تَقَلُّبَ وَجْھِکَ فِي السَّمَآءِ فَلَنُوَلِّیَنِّکَ قِبْلَۃً تَرْضٰھَا فَوَلِّ وَجْھَکَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ﴾ (البقرہ: 144) ”بے شک ہم دیکھتے ہیں بار بار اٹھنا تیرے منہ کا آسمان کی طرف، سو البتہ پھیر دیں گے ہم تجھ کو جس قبلہ کی طرف تو راضی ہے۔ اب پھیر اپنا منہ مسجد الحرام کی طرف“ لیکن روح کا قبلہ یہ قبلہ نہیں بلکہ روح کا قبلہ وہ ہے ﴿لَا اُقْسِمُ بِھٰذَ الْبَلَدِ﴾ (البلد: 1) ”قسم کھاتا ہوں میں اس شہر کی“ تم جانتے ہو اور اہل ظواہر جانتے ہیں کہ یہ شہر مکہ مکرمہ ہے اور جناب سید الکونین صلی اللہ علیہ وسلم کے جسمِ اطہر کی پیدائش کا مقام ہے، لیکن فی الحقیقت مکہ مکرمہ کا یہ شہر وہ مقام ہے کہ جہاں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی روحِ اقدس کی ولادت ہوئی ہے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ "أَنَا مِنْ نُّوْرِ اللہِ وَ وُلِدْتُّ فِيْ ھٰذَا الْبَلَدِ وَ ھُوَ عَرْشُ الرَّحْمٰنِ وَ فِيْ عَرْشِ الرَّحْمٰنِ لَا لَیْلٌ وَّ لَا نَہَارٌ وَّ لَا أَرْضٌ وَّ لَا سَمَاءٌ" (لم أجد هذا الحدیث) ”میں اللہ تعالیٰ کے نور سے ہوں اور اس شہر میں میری ولادت ہوئی ہے اور یہ رحمٰن کا عرش ہے اور رحمٰن کے عرش میں نہ رات ہوتی ہے اور نہ دن اور نہ زمین ہوتی ہے اور نہ آسمان“ اے بھائی! ایک جہان یعنی بہت سے لوگ بغیر قبلہ کے نماز پڑھتے ہیں تاکہ قرب حاصل کریں اور اس قبلہ کے بغیر اپنی پیشانیاں رگڑتے رہے ہیں اور رگڑتے جا رہے ہیں۔ مگر اس کا کچھ فائدہ نہیں اور انبیاء علیہم السلام اور اولیا کرام رحمۃ اللہ علیہم نے بھی اس قبلہ کی جانب نماز ادا فرمائی ہے، تب اُن کو نبوت اور ولایت کا ثمرہ حاصل ہوا ہے۔ خداوندِ عالی کی قسم! اگر یہ حضرات اس قبلہ کے بغیر ہوتے تو کبھی بھی نبوت اور ولایت کا ثمرہ نہ چکھتے۔ اور اے بھائی! اگر تم کو ایک ہزار سال عُمر نصیب ہو اور اہل ظواہر کو بھی اتنی ہی عمر نصیب ہو جائے اور تم ساری عمر نماز پڑھو اور وہ بھی نماز پڑھتے رہیں۔ قبلۂ مذکور کے بغیر کبھی بھی قرب الٰہی حاصل نہیں کر سکتے۔ چنانچہ شفیع المذنبین رحمۃ اللہ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: "یَأْتِيْ عَلَی النَّاسِ زَمَانٌ یَّجْتَمِعُوْنَ فِي الْمَسَاجِدِ لَيْسَ فِيهِمْ مُؤْمِنٌ" (المستدرك للحاكم، کتاب الفتن و الملاحم، رقم الحدیث: 8365) ” لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ لوگ مسجدوں میں اکھٹے ہوں گے لیکن ان میں کوئی مؤمن نہیں ہو گا“ کیا آپ جانتے ہیں کہ یہ کن لوگوں کی جانب اشارہ ہے؟ اے برادرِ عزیز! نماز وہ ہے جس کے بارے میں سیدنا ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام نے حضرتِ جلیل سے خود اپنے بارے میں اور اپنی اولاد کے بارے میں دُعا فرمائی تھی کہ ﴿رَبِّ اجْعَلْنِيْ مُقِیْمَ الصَّلٰوۃِ وَمِنْ ذُرِّیَّتِيْ﴾ (ابراہیم: 40) ”اے میرے رب کر مجھ کو کہ قائم رکھوں نماز اور میری اولاد میں سے بھی“ اور اولیاء اللہ کے سردار حضرت علی حیدر کرار کرم اللہ وجھہٗ نے بھی فرمایا ہے: "وَاللہِ لَمْ أَعْبُدْ مَا لَمْ أَرَہٗ" (میزان الحکمۃ للریشہری بتغییر قلیل وھو من علماء الشیعۃ الشنیعۃ، رقم الصفحۃ: 1905/3) کہ قسم خدا کی! میں نے کبھی اس کی عبادت نہیں کی جس کو میں نے دیکھا نہیں۔ یعنی اے بھائی! اللہ تعالیٰ کی نماز تو وہ ہے جس میں بندہ اللہ تعالیٰ سے راز کی باتیں کہے۔ اور بندہ کا قیام اِس مذکورہ قبلہ کی جانب مندرجہ بالا طہارتِ کاملہ کے ساتھ ہو، جیسا کہ اولیاء میں سے خاص ولی اللہ کو۔ جیسا کہ اس زمانے میں ہمارے شیخ صاحب رحمۃ اللہ علیہ ہیں۔
تشریح:
یہ بہت بڑا علم ہے۔ اللہ تعالیٰ نصیب فرمائے۔ یہ مسئلہ آج کل بہت زیادہ گہرا ہے، کیونکہ لوگ ظاہر کی طرف جا رہے ہیں۔ لیکن اس وقت کا ظاہر دوسرا تھا اور آج کل کا ظاہر دوسرا ہے۔ اکثر میں ایک بات عرض کرتا رہتا ہوں، اللہ مجھے معاف کر دے۔ وہ یہ کہ میں کہتا ہوں کہ لوگ mechanical (مکینیکل) ہوتے جا رہے ہیں، ہر ایک نے کسی ایک ظاہری چیز کو پکڑا ہوا ہے اور اس کے مطابق عمل کر رہا ہے اور یہ سمجھ رہا ہے کہ مجھے اس سے وہ چیز حاصل ہو گئی۔ مثلاً: حجرِ اسود ہے۔ حجرِ اسود کو بوسہ دینا بہت محبوب عمل ہے، اس کا ثواب ہے اور یہ بڑی اونچی فضیلت ہے، لیکن کسی آدمی کو اپنی ذات کے لئے دھکا دینا یا کسی کو تکلیف دینا؛ یہ حرام ہے۔ اب اگر آپ لوگوں کو دھکے دے کر اور حرام کا ارتکاب کر کے ایک مستحب چیز کو حاصل کر لیں گے، تو اس سے کیا حاصل ہو گا؟ آپ مجھے بتائیں کہ اس وقت حج پر کتنے لوگ آئے ہوئے ہیں؟ بہت سے لوگوں کو تو اس بارے میں پتا ہی نہیں کہ میں کیا کہہ رہا ہوں اور بہت سے لوگوں کو پتا ہوتا ہے لیکن استحضار نہیں ہوتا، عین وقت پر بھول جاتے ہیں۔ شاید حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے اس بات پر بہت کلام فرمایا ہے کہ اگلی صف کا چوںکہ بہت زیادہ اجر ہے، اس کے لئے بعض بڑے اچھے اچھے لوگ، جن کے بارے میں حکم ہے کہ وہ امام کے قریب رہیں، وہ لوگوں کو دھکا دے کر خود اگلی صف میں کھڑے ہو جاتے ہیں۔ وہ لوگ ایسا صرف ظاہر بینی کی وجہ سے کرتے ہیں۔ حضرت فرماتے ہیں کہ اگر ان کو پتا ہوتا کہ اصل چیز کیا ہے، تو یہ حضرات خود آگے ہونے کے بجائے لوگوں کو آگے کرتے۔ اس لئے فرمایا گیا کہ جو شخص خود پیچھے ہو گیا، تو پھر اس کو پیچھے کیا جائے۔ حضرت نے فرمایا کہ یہ بات اس شخص کے بارے میں ہے کہ جو سستی کی وجہ سے پیچھے ہو گیا ہو، نہ کہ اکرام کی وجہ سے۔ اکرام کی وجہ سے پیچھے ہونا، پیچھے ہونا نہیں ہے۔ جو شخص اکرام کی وجہ سے پیچھے ہو گیا، اس کے بارے میں تو کہتے ہیں کہ جو شخص کسی اچھے فعل کا ذریعہ بنتا ہے، تو اسے اس کا اجر ملتا ہے۔ اس لئے جس شخص نے کسی بڑے کو آگے کیا، تو وہ اس بڑے کی نماز کا ذریعہ بن گیا، لہذا اس بڑے کی نماز کا سارا اجر اس کو بھی مل گیا۔ اس طریقے سے کیا پتا کہ اس کو کتنا اجر مل جائے۔ لیکن وہی ظاہر بینی، وہی mechanical system (مکینیکل سسٹم) کہ لوگ اس کے ذریعے سے تقرب حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں، حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ ہر عمل کے پیچھے روحانیت ہے۔ اس وجہ سے اکثر میں عرض کرتا رہتا ہوں، اللہ مجھے معاف کرے۔ منہ چھوٹا ہے اور بات بڑی ہے، لیکن کیا کروں، بزرگوں کی بات کو سامنے رکھ کر عرض کرتا ہوں کہ لوگ قرآن کو تصوف سے خالی سمجھتے ہیں، جب کہ قرآن کے ایک ایک لفظ میں تصوف ہے، کیونکہ ہر لفظ کا ظاہر بھی ہے اور باطن بھی ہے۔ ظاہر کو چھوڑ کر باطن کو حاصل کرنا؛ یہ باطنیین ہیں اور یہ غلط ہے، لیکن ظاہر کو ساتھ رکھتے ہوئے اس کے باطن کو حاصل کرنا؛ یہ روحانیت ہے۔ اگر ظاہر کی چیزوں کو حاصل کر کے آدمی باطن سے فارغ ہو جائے، تو پھر مسائل اٹھتے ہیں۔ یہاں پر جو بحث ہوئی ہے، وہ اسی مقصد کے لئے ہے کہ ایک قبلہ یہ ہے کہ آپ نے اس طرف رخ کرنا ہے اور دوسرا یہ ہے کہ آپ نے دل اللہ جل شانہ کی طرف کرنا ہے۔ اگر کسی کو اس بات کی سمجھ نہیں ہے، تو بس نہیں ہے۔ لیکن جس شخص کو سمجھ ہے، تو اس کی نماز ہی اس وقت نماز بنے گی جب اس کا دل اللہ کی طرف ہو۔ اللہ تعالیٰ قادر ہیں۔ اللہ جل شانہ نے فرمایا ہے: ﴿فَاَیْنَمَا تُوَلُّوْا فَثَمَّ وَجْهُ اللّٰهِ﴾ (البقرۃ: 115)
ترجمہ: ’’لہذا جس طرف بھی تم رُخ کروگے، وہیں اللہ کا رُخ ہے‘‘۔
اس آیت کا مفہوم دو طریقوں سے بیان کیا گیا ہے۔ ایک مفہوم یہ بیان کیا گیا ہے کہ اگر آپ کو قبلہ کی سمت معلوم نہیں ہے اور آپ نے تحری کر کے کسی خاص سمت کی طرف رخ کر کے نماز پڑھ لی ہے، تو اللہ پاک ادھر بھی ہیں، لہذا آپ کی نماز ہو گئی ہے۔
اور دوسرا مفہوم جو کہ اصل بات ہے، وہ یہ ہے کہ دل اللہ کی طرف کرنا ہے اور اس کے لئے تو کوئی خاص سمت نہیں ہے۔ جیسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں عرش رحمٰن پر پیدا ہوا ہوں، جہاں نہ دن ہے اور نہ رات، اور نہ وہاں سمتیں ہیں۔ زمین پر جو دن رات بنتے ہیں، وہ تو سورج کے زمین کے گرد پھرنے کی وجہ سے بنتے ہیں لیکن عرش پر تو زمین نہیں ہے، اس لئے وہاں کے دن رات دنیا کے دن، رات کی طرح نہیں ہوں گے۔ وہاں کا الگ نظام ہو گا۔ بہر حال! یہاں پر یہ فرمایا کہ اگر آپ اس چیز کو حاصل کریں گے، تو پھر آپ کو اصل چیز حاصل ہو گی۔ اب اگر کوئی شخص ایسی نماز پڑھ لے، جس میں صرف ظاہر کا لحاظ کیا گیا ہو، تو نماز تو ہو جائے گی یعنی پھر اس سے نماز کا مطالبہ تو نہیں ہو گا، البتہ نماز کی تکمیل کا مطالبہ ہو گا، کیونکہ اللہ تعالیٰ کے ہاں بے انصافی نہیں ہے۔ لہذا جس نے جتنا کیا ہو گا، وہ اس کو مل جائے گا اور جو نہیں کیا ہو گا، وہ اس کو نہیں ملے گا۔ اس لئے حضرت فرما رہے ہیں کہ ان چیزوں کی طرف بھی خیال رکھنا چاہئے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا بھی اس بارے میں ایک فرمان ہے، اس لئے میں کہتا ہوں کہ یہ ساری چیزیں حدیث شریف میں اور قرآن پاک میں موجود ہیں، لیکن لوگ غور نہیں کرتے۔ اب یہ آثارِ صحابہ میں سے ہے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا کہ میں نے کوئی نماز اللہ کو دیکھے بغیر نہیں پڑھی۔ جس وقت میرا دل چاہتا ہے کہ میں اللہ سے بات کروں، تو میں نماز پڑھتا ہوں اور جس وقت دل چاہتا ہے کہ اللہ مجھ سے بات کریں، تو میں قرآن پڑھتا ہوں۔ یہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی روایت ہے۔
متن:
زمانۂ سابقہ میں محمد حسین صاحب تھے۔ شاید یہ بات اہلِ ظواہر کے دل میں آ جائے کہ صلوٰۃ و نماز کے کیا معنیٰ ہیں؟ یہ لفظ یعنی صلٰوۃ "صِلَۃٌ" سے مشتق ہے اور "صِلَۃٌ" وہ ہوتا ہے کہ بندہ کی مناجات اور باتیں اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہوں۔ "اَلْمُصَلِّيْ یُصَلِّيْ رَبَّہٗ" یعنی نمازی اللہ تعالیٰ کے ساتھ باتیں کرتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو معراج کی رات اللہ تعالیٰ نے معراج کرائی اور آپ وہاں تک پہنچے جہاں عقل کی رسائی نا ممکن ہے۔ اچانک غیب کے پردوں سے جس میں شک و شائبہ کی راہ تک نہیں، آواز آئی کہ۔ "قِفْ یَا حَبِیْبِيْ" ”اے میرے حبیب! ذرا توقف کرو اور ٹھہرے رہو“ بیت:
آمد ندائے بے چوں
نے از درون و بیرون
نے چپ و راست و نے پس
تا کہ ندا برآمد بس
”بے چوں کے ندا آئی جو کہ نہ اندر سے تھی نہ باہر سے، نہ دائیں ہاتھ سے اور نہ بائیں ہاتھ سے اور نہ پیچھے سے، بس ایک ندا آئی اور بس“
محبوبِ کبریا صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ کیوں ٹھہروں؟ دوسری ندا آئی کہ "إِنَّ اللہَ یُصَلِّيْ" ”اللہ تعالیٰ صلوٰۃ ادا کر رہا ہے“ "فَقَالَ عَلَیْہِ السَّلَامُ مَا صَلٰوتُکَ؟" ”تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ آپ کی صلوٰۃ کیا ہے؟“ جواباً ندا آئی کہ "یَا حَبِیْبِيْ إِنَّ صَلٰوتِي الثَّنَاءُ لِذَاتِيْ ثُمَّ أَشْغُلُ بِثَنَاءِکَ" کہ میری صلوۃ (نماز یہ) ہے کہ میں اپنی ثنا کروں، پھر تمھاری ثنا میں مشغول ہو جاؤں۔ جب سید عالم نے یہ ماجرا سنا، اور ان پر ثنا واجب اور لازم ہو گئی تو عرض کیا کہ "لَا اُحْصِيْ ثَنَاءً عَلَیْکَ أَنْتَ کَمَا أَثْنَیْتَ عَلٰی نَفْسِکَ" (لم أجد ہذہ القصۃ) ”آپ کی ثناء نہیں کی جا سکتی، آپ کی شان ایسی ہے جیسا کہ آپ اپنی ذات کی ثنا خود فرماتے ہیں“۔
تشریح:
اصل میں بات یہ ہے کہ اللہ جل شانہ کی شان ہماری سمجھ سے باہر ہے اور ہم لوگ اللہ جل شانہ کے بارے میں اپنی طرف سے کوئی بات نہیں بنا سکتے، اس لئے جس شخص کو اللہ جل شانہ کی جتنی معرفت حاصل ہوتی ہے، وہ اس کے مطابق بات کرتا ہے۔ لیکن عام انسان کو اپنی معرفت سے باتیں نہیں کرنی چاہئیں، ورنہ وہ پکڑ میں آ جاتا ہے، کیوں کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ باندھنا بہت خطرناک معاملہ ہے، تو اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھنا تو اس سے بھی بڑھ کر خطرناک ہو گا۔ اس لئے اس مسئلہ میں انسان کو نہیں پڑنا چاہئے۔
بہر حال! بات یہ ہے کہ اللہ جل شانہ مختار ہیں، جو کرنا چاہیں، کریں اور جیسا کرنا چاہیں، ویسا کریں۔ ہم اللہ تعالیٰ کے حکم کے تابع ہیں۔ عبدیتِ کاملہ کے لحاظ سے اللہ تعالیٰ ہم لوگوں سے جو کام کروانا چاہیں، ہم وہ کام کریں۔ ہمیں اپنی طرف سے غور و خوض کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
متن:
شیخ محمد حسین صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے شان رسالت کے بارے میں ایک نکتہ بیان فرمایا ہے کہ جب سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بلند ہمتی سے سر کو قدم بنایا (سر کے بل چلنا محاورہ ہے) تو اس ادب و خلوص کی وجہ سے اس نے کما حقہٗ سیر سے لطف اندوزی فرمائی، اور حسنِ محبوب زیادہ ہوتا گیا۔ اور ذات صفات میں جلوہ گر ہوا۔ اے بھائی! میں (فرطِ شوق سے) کیا کہوں۔ زمینوں میں آپ کا اسمِ گرامی محمد صلی اللہ علیہ وسلم بولا جاتا ہے، اور آسمانوں میں احمد صلی اللہ علیہ وسلم اور اطراف سے (محاورہ ہے، یعنی جہاں اطراف نہ ہوں) یعنی شش جہات سے پرے میم کو محذوف کیا جاتا ہے۔ (احمد سے میم حذف کیا جائے تو احد رہ جاتا ہے۔(وَاللہُ أَعْلَمُ)
بیت:
؎ آن یار ہماں ست اگر جامه دگر کرد
او جامہ دگر کرد دگر بار بر آمد
ایں نیست تناسخ سخن وحدت محض است
کز شش جہت ایں قلزمِ زخار بر آمد
”اگر میرے محبوب نے دوسرا لباس پہنا تو وہی محبوب ہے، صرف لباس تبدیل کیا اور دوسری دفعہ نمودار ہوا۔ یہ تناسخ (یا آواگون کا چکر) نہیں بلکہ وحدت اور توحید کی بات ہے
تشریح:
اصل بات یہ ہے کہ ہم لوگوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام اللہ کے واسطے سے اور اللہ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے سے جاننا چاہئے۔ یہ ساری بات کا لُبِّ لباب ہے۔ اللہ پاک نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جو شان بیان فرمائی ہے، بس وہی اصل تعریف ہے، ہم اپنی طرف سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری تعریف نہیں کر سکتے۔ حضرت مولانا اشرف صاحب رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے تھے: ”ولی را ولی مے شناسد، نبی را نبی مے شناسد“ اور پھر فرمایا: خاتم النبیین را خدا مے شناسد“ ولی کو ولی جانتا ہے، نبی کو نبی جانتا ہے، کیوں کہ یہ برابر کے ہیں، لیکن خاتم النبین کے برابر دنیا میں کون ہے؟ وہ تو صرف ایک ہے، اس لئے خاتم النبیین کو صرف اللہ ہی جانتا ہے۔
ہم انبیاء علیہم السلام کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے واسطے سے جانتے ہیں، کیوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جن انبیاء کرام کے بارے میں بتایا ہے، ان کو تو ہم جانتے ہیں، باقی انبیاء کرام کو ہم نہیں جانتے۔ اور اللہ تعالیٰ کو بھی ہم ویسے ہی جانتے ہیں، جیسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا ہے۔ اپنی طرف سے ہم کچھ نہیں سمجھ سکتے۔ اگر اپنی طرف سے کچھ سمجھیں گے، تو ذمہ دار ہو جائیں گے۔ اس لئے جو راستہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے راستے سے ہٹ کر گزرتا ہے، وہ مردود ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہمارے لئے اللہ تعالیٰ تک پہنچنے کا ذریعہ ہیں۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پہچان بھی اللہ جل شانہ کی فرمودہ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پہچان وہی ہے، جو اللہ پاک نے قرآن پاک میں بیان فرمائی ہے، جو وحی کے ذریعے اتری ہے۔ پس ہم اپنی طرف سے پہچان نہیں کر سکتے۔ ہماری معرفت کے ساتھ اگر نصِ صریح نہیں ہو گی، تو وہ ظنی ہو گی۔ اب بڑی بڑی باتیں موجود ہیں لیکن درمیان میں blanks (خلا) ہیں۔ جن کو پورا کرنا ہمارے بس کی بات نہیں ہے۔ ہمارے لئے اس خلا کو پُر کرنا بڑا ہی مشکل ہے۔ جب اللہ تعالیٰ اس کو پُر کر دے، تو پھر وہ پُر ہو جاتا ہے اور یہ ساری چیزیں ہماری سمجھ میں آ جاتی ہیں۔ جیسے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قول ہے کہ میں نے کوئی نماز نہیں پڑھی، مگر اللہ کو دیکھ کر۔ اب ہمارے اور اس بات کے درمیان بہت بڑا blank (خلا) ہے، اس لئے ہم اس بات کو کیسے سمجھ سکتے ہیں؟ ہم اس بات کو نہیں سمجھ سکتے۔ البتہ ہم کوشش کریں گے اور کرتے رہیں گے یہاں تک کہ اگر اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس بات تک پہنچا دیا، تو پھر ہمارے اوپر یہ بات کھل جائے گی۔ اسی طریقے سے قرآن و حدیث اور ہمارے درمیان میں بھی خلا موجود ہے، جس کو پُر کرنے کے لئے پہلے کام کرنا ہوتا ہے اور پھر اس کے بعد وہ چیزیں سمجھ میں آتی ہیں۔ اولیاء اللہ اور اکابرین نے چوں کہ اس خلا کو پُر کرنے کے لئے کام کر لیا ہوتا ہے، اس لئے وہ جب اشارے دیتے ہیں، تو ان اشاروں سے ہم لوگ بھی کچھ نہ کچھ سمجھنے لگتے ہیں۔ لیکن ہم پھر بھی رہنمائی کے محتاج ہوتے ہیں، اس وجہ سے ہم لوگ زیادہ بات نہیں کر سکتے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنا تعلقِ خاص نصیب فرما دے۔
چوں کہ ہم لوگ اس وقت حرم میں ہیں، اس لئے حرم میں ہونے کی وجہ سے بہت زیادہ بات تو نہیں ہو سکتی، لیکن کم از کم ہم اپنے معمولات کو جاری تو رکھ سکتے ہیں، اس لئے ہمارے یہ معمولات، جن میں حضرت مولانا عبد الحلیم صاحب رحمۃ اللہ علیہ اور مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب کی تعلیم بھی ہے، وہ ان شاء اللہ جاری رہے گی، لیکن یہ معمولات اوقات کے لحاظ سے ہوں گے۔ جتنا وقت ملے گا، اس کے حساب سے ہم یہ معمولات کر لیں گے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو عمل کرنے کی توفیق عطا فرما دے۔
وَ مَا عَلَیْنَا اِلَّا الْبَلاَغُ