توضیح المعارف قسط 07

توضیح المعارف، قسط نمبر: 7
فلسفۂ سائنس اور معرفتِ الٰہی – دوسرا حصہ
کائنات کی تخلیق، خالق و مخلوق کا تعلق اور ان سے متعلقہ حقائق کے بارے میں بڑے بڑے صوفیائے کرام کو اپنے کشف اور الہام کے ذریعے کچھ ادراکات ہوئے، جن کو انھوں نے ظاہر بھی فرمایا، وہ ان کی تحریروں، مکتوبات (خطوط) وغیرہ میں آج بھی ہمارے سامنے موجود ہیں۔ آج ہم عقل اور نقل کے ذریعے ایک حد تک ان کو سمجھ اور پرکھ (verify) بھی کر سکتے ہیں۔ ان حضرات نے اپنے اُن معارف کو ہم تک پہنچانے کے لئے، بعض مفاہیم (concepts) سمجھانے کے لئے کچھ اصطلاحات (terminologies) وضع کی ہیں۔ وقت کے ساتھ زبان اور سوچنے کے انداز میں تبدیلی کی وجہ سے اب ان کا سمجھنا مشکل ہو گیا ہے۔ ذیل میں ان بزرگوں کی اصطلاحات کو آج کل کی زبان میں پیش کیا گیا ہے۔ یہ علمِ کلام کی ایک قسم ہے۔ علم الکلام کی آسان تعریف یوں کی جاسکتی ہے کہ دین کو سمجھنے میں عقل کے ذریعے سے جو بگاڑ آتا ہے، اس کو عقل کی بنیاد پر درست کرنے کا علم ہے۔
چونکہ یہ عقل کے بگاڑ کو عقل کے ذریعے درست کرنے کا علم ہے، اس لئے اس میں اصطلاحات وہی استعمال ہوتی ہیں، جو فلسفی یا سائنسدان استعمال کرتے ہیں، تاکہ ان کو ان اصطلاحات کے ذریعے اصل بات سمجھائی جا سکے۔
1. ثبوتِ معدومات (Latent state of the non-existences):
ثبوت کے معنی جو عام طور پر مستعمل ہیں، انگریزی میں اس کو proof کہا جاتا ہے۔ یعنی وہ امر جس کے ذریعے ہم کوئی بات ثابت کرتے ہیں کہ یہ صحیح ہے یا نہیں؟ یہاں ثبوت سے مراد وہ نہیں ہے ۔ یہاں ثبوت سے مراد وہ علم ہے، جس سے کسی چیز کی حقیقت (Reality) کا پتا چلتا ہے یعنی اس چیز کا مبداء (origin) کیا ہے؟ اور معدوم (Non-existent) سے مراد ہر وہ چیز ہے جو موجود نہیں۔ یہ ایک اصطلاح ہے، جو الٰہیات میں استعمال ہوتی ہے۔ پس کسی چیز کے وجود میں آنے سے پہلے اس چیز کی جو حقیقت ہوتی ہے، اس کو ’’ثبوتِ معدومات‘‘ کہتے ہیں۔
عام طور پر ہمارے نزدیک چیزوں میں خصوصیات اس وقت آتی ہیں، جب وہ پیدا ہو چکی ہوتی ہیں۔ اس لئے انسان کا اس بات پر حیران ہونا فطری ہے کہ جو چیز موجود نہیں ہے اس کی حقیقت کیا ہو سکتی ہے؟۔ دراصل وجود میں آنے سے پہلے بھی چیزوں کی ایک حقیقت ہوتی ہے۔ مثلًا: کوئی شخص کرسی بنانا چاہتا ہے، تو ابھی وہ کرسی بنی تو نہیں، لیکن اس کا پورا نقشہ ذہن میں موجود ہوتا ہے۔ وہ (نقشہ) حقیقت اور عرفِ عام میں ڈیزائن کہلاتا ہے۔ وہ کرسی جب وجود میں آئے گی، تو اس میں یہ یہ صفات ہوں گی۔ یہی اس کرسی کا ثبوت ہے اس کے بننے سے پہلے۔
گویا معدوم (non existence) ہونے کی حالت میں ہی چیزوں کے موجود ہونے کے بعد ان میں پائی جانی والی صفات کی پیشین گوئی (prediction) کو ’’ثبوتِ معدومات‘‘ کہتے ہیں۔ آج کل کی زبان میں اس کو design بھی کہہ سکتے ہیں۔
ثبوتِ معدومات گو بظاہر ایک مشکل اصطلاح لگتی ہے، لیکن اصل میں ہم سب جانتے ہیں کہ کوئی بھی چیز بنانے سے پہلے یا کسی کام کے کرنے سے پہلے ہمارے ذہن میں اس کا ایک خاکہ بنتا ہے، پھر اس خاکے کے مطابق اس چیز کو تیار کیا جاتا ہے۔ ”خاکہ“ کے لفظ میں زیادہ وضاحت نہیں پائی جاتی، لیکن سائنس کی ترقی کے اس دور میں ڈیزائن کی اہمیت کسی سے چھپی ہوئی نہیں۔ اس (ڈیزائن کے لفظ) سے اس کی وضاحت ہو جاتی ہے۔ industries (فیکٹریوں) میں جو پراڈکٹس بنتی ہیں، ان کے پہلے سے طے شدہ ڈیزائن ہی سے ان کا manufacturing process (بنانے کا عمل) کنٹرول ہوتا ہے اور finished product (تیار شدہ مصنوعات) کی کوالٹی بھی اسی ڈیزائن یا desired product (مطلوبہ پراڈکٹس) سے compare (موازنہ) کر کے معلوم کی جاتی ہے۔ یہی ڈیزائن ہیں جو پراڈکٹ بننے سے پہلے non existent (معدوم) ہے، manufacturing (عملِ صنعت) کے بعد existent (موجود) ہو جاتا ہے اور اس کا ڈیزائن ہی اس کے معدوم ہونے کی حالت میں اس کا ثبوت تھا۔
2. مبدإ تعیُّن و تشخُّص (Origin of particularization):
تعین کا مترادف انگریزی لفظ indication ہے اور تشخص کے لیے لفظ شناخت یا (Identification) ہے۔ وہ امر جس سے کسی چیز کی نشاندہی اور اس کا دوسروں سے فرق واضح ہو جائے، اس چیز کا مبدإِ تعین و تشخص کہلاتا ہے، کسی بھی چیز کی شناخت اسی سے ہی ہو سکتی ہے۔
یعنی ایک چیز کا دوسری چیزوں سے فرق دو طرح ہو سکتا ہے: ایک تو اس چیز کی مخصوص صفات کی وجہ سے (فرق) ہو۔ مثلاً: آدمی تو سارے آدمی ہیں، لیکن جب ہم کہتے ہیں ’’کالا آدمی‘‘ تو وہ آدمی گوروں سے اس کالے رنگ کی وجہ سے ممتاز ہو جاتا ہے۔ اس لئے اس کا مبدإِ تعین و تشخص اس کا کالا ہونا ہے۔ یہ مبدإِ تعین و تشخص کی پہلی قسم ہے۔ دوسری قسم یہ ہےکہ وہ چیز کس وجہ سے عدم سے وجود میں آئی ہے، اس کا تعین ہو جائے۔ یعنی چیز جو ابھی معدوم تھی، لیکن اس کا ثبوت موجود تھا، جب وہ وجود میں آگئی، تو پہلی حالت یعنی عدم سے وجود میں جس وجہ سے آئی ہے؟ اس کو اس کا مبدإِ تعین یعنی اس کا source of identity (شناخت کا ذریعہ) کہیں گے۔ کیونکہ پہلے وہ چیز اگرچہ ثبوت کے درجے میں موجود تھی، لیکن خارج یعنی ظاہری دنیا میں اس کا وجود نہیں تھا، لہٰذا ہم اس کو ایسی شئ نہیں کہہ سکتے تھے کہ جس کی طرف اشارہ کیا جا سکے۔ پھر جب وہ چیز وجود میں آ گئی، تو اب ہم اس کو شئ کہہ سکتے ہیں۔ جب تک کسی چیز کا صرف ذہنی تصور ہوتا ہے، اس تصور کو آپ جتنی مرضی باریکی سے دیکھیں اور اس کی تفصیلات تجویز کر لیں، لیکن وہ چیز خارجی وجود نہیں پا سکتی یعنی ظاہری دنیا میں اس کی پہچان نہیں ہو گی۔ وہ شیخ چلی کی خیالی داستان ہی بنے گی۔ جب اس کے بنانے کا عمل ہوگا، تب وہ خارج میں وجود پا سکے گی۔ اس کے لئے ایک خارجی وجود مثلاً: raw material (خام مال) کی ضرورت ہوتی ہے۔ مثلاً: کسی کے ذہن میں تلوار کا نقشہ موجود ہے، تو ظاہری دنیا میں اس کا وجود اس وقت تک ممکن نہیں، جب تک کہ کسی دھات مثلاً: لوہے سے اس کو بنایا نہ جائے۔ پس اس ظاہری دنیا میں آنے کے لئے تلوار کے لئے لوہے کی، کرسی کے لئے لکڑی کی اور انسان کے لئے گوشت پوست کی ضرورت ہو گی۔ اس کو مبدإِ تعین کی دوسری قسم کہتے ہیں۔اور الہیات کے میدان میں اس اصطلاح مبدا تعین سے مراد یہی دوسری قسم ہے ۔
مبدا تعین کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ واقعی کوئی متعین چیز ہو، جو خارج میں حقیقتاً پائی جاتی ہو؛ کیونکہ جو چیز خود حقیقتاً موجود نہ ہو، وہ کسی دوسری چیز کو حقیقتاً موجود نہیں کر سکتی، چاہے اس کی تخصیص کی کتنی ہی صورتیں استعمال کی جائیں۔ مثلاً: مندرجہ بالا مثال میں تلوار کے بارے میں جتنا سوچا جائے، کہ وہ تلوار فلاں مادے کی ہے، اس کی لمبائی اتنی، چوڑائی اتنی اور اس کی یہ یہ صفت ہے لیکن وہ تلوار تصور سے حقیقت میں اس وقت ہی آئے گی، جب حقیقتاً لوہا موجود ہو اور وہ عمل process جو تلوار بنانے کا ہے، وہ حقیقتاً اس پر ہو، پھر جا کر وہ حقیقتاً ظہور میں آ سکتی ہے۔
اگر اس طرح (یعنی مبدإِ تعین کا خارج میں پائے جانے کے بغیر چیز کا وجود خارج میں) ممکن ہو، تو پھر ماننا پڑے گا کہ ہر چیز ازل سے موجود ہے، کیونکہ ہر چیز کا ثبوت یعنی اس کا علم ازل سےتو ہے ہی۔ اور اگر ثبوت کو نہ مانا جائے، تو پھر اَلْعَیَاذُ بِاللہِ لازم آئے گا کہ خدا کو ان چیزوں کا پہلے علم نہیں تھا۔ لیکن چونکہ ایسا ممکن نہیں، اس لئے ماننا پڑے گا کہ عدم میں بدرجۂ ثبوت جو چیز ہوتی ہے، وہ مبدإِ تعین کے بغیر وجود میں نہیں آ سکتی۔ اسی لئے اس معنی میں مبدا تعین کو وجود کہتے ہیں۔ یعنی جب کسی ذہنی چیز کو اس کے ظاہری وجود کا جامہ پہنایا جائے گا، تو وہ ذہنی چیز اس سے خارجی وجود پالے گی۔اس بات کا سمجھنا وحدۃ الوجود کو سمجھنے کے لئے بہت ضروری ہے۔
حقیقت، ظل، قیوم، حصہ کی اصطلاحات (Quiddity, Shadow of quiddity, The Stabilizer of quiddity and its Part):
یہ اصطلاحات حضرت مجدد صاحب رحمہ اللہ اور دوسرے عارفین کے کلام کو سمجھنے کے لئے اہم ہیں۔ ان کو سمجھنے کے لئے مثال درج ذیل ہے۔
مثلاً: ایک بڑھئی (carpenter) نے ایک کرسی بنانی چاہی۔ پہلے اس کے ذہن میں اس کرسی کا ایک تصور، ایک ذہنی خاکہ یا ڈیزائن تھا۔ اس کے بعد وہ لکڑی کو لے کر اس پر کام کرتا ہے۔ لکڑی مختلف حالتوں سے گزر کر آخر ایسی حالت میں آجاتی ہے کہ اس کو ہر دیکھنے والا کرسی سمجھتا ہے۔
حقیقت (Quiddity):
کرسی کی مادی تخلیق سے پہلے اس کے ذہنی تصور کو جس کو پیچھے ثبوت کہا گیا تھا، حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی اصطلاح میں اس کو حقیقت کہتے ہیں، کیونکہ یہ خارجی کرسی اسی تخیل کی بنیاد پر وجود میں آئی ہے۔ اس لئے وہ ذہنی تصور اس کی اصل یا حقیقت ہے۔ اور اگر یہ نہ ہوتا، تو کرسی وجود میں نہیں آ سکتی تھی۔
قیوم (The Stabiliser of quiddity):
لکڑی جو اس ذہنی کرسی کو وجود دیتی ہے اور اس کو برقرار رکھتی ہے، اس کو اس کرسی کا قیوم کہتے ہیں۔ اور اس کی اس حیثیت کی وجہ سے کہ وہ کرسی کو ایک شناخت دے رہی ہے، اس کو کرسی کا مبدإِ تعین بھی کہتے ہیں۔
حصہ (Part) :
لکڑی سے بہت ساری چیزیں بن سکتی ہیں۔ لکڑی پر اس عمل کے بعد اس پر کرسی کی ایک خاص شکل طاری ہو گئی ہے، اس کو ’’حصہ‘‘ کہتے ہیں۔ گویا ذہن میں لکڑی کا ایک کلی تصور ہے۔ اس کے مطابق مختلف قسم کی کرسیاں تیار ہوسکتی ہیں۔ خارج میں جو مخصوص کرسی وجود میں آئی ہے، وہ اس کُل کا ایک حصہ ہے۔ اسی حصے کو ہم ظل (shadow of quiddity) بھی کہہ سکتے ہیں۔ گویا قیوم لکڑی خارجی کرسی کو قائم رکھے ہوئے ہے۔ اس اصطلاح (ظل) کو حضرت مجدد صاحب استعمال فرماتے ہیں۔
لکڑی اور کرسی کی مثال سامنے رکھیں۔ لکڑی پر کام ہوتا رہا، بالآخر وہ کرسی بن گئی۔ اب اس سے کرسی کی صفات ظاہر ہونے لگیں۔ کرسی بیٹھنے کے قابل ہو گئی۔
اب سوال یہ ہے کہ کرسی میں یہ صفات کہاں سے آئیں؟ ان کا مبدإ (origin) کیا ہے؟
جواب ظاہر ہے کہ لکڑی سے۔ یعنی قیوم ان صفات کا مبدإ ہے جو کرسی میں آ گئی ہیں۔
دوسری طرف لکڑی صرف اسی وقت کرسی کی صفات ظاہر کرنے لگی، جب اس کی کرسی جیسی حالت بن گئی۔ یعنی اس کو دیکھنے سے کرسی کا خیال آنے لگا۔ اس لحاظ سے کرسی کی ذہنی صورت یا ماہیت اہم ہے، کیونکہ وہ کرسی کی صفات کو ظاہر کرنے کی شرط ہے۔
ان دو باتوں پر غور کرنا چاہئے اور فرق سمجھنا چاہئے کہ کرسی کی صفات و آثار میں لکڑی (قیوم) اور کرسی کی ذہنی صورت (ماہیت) کا کیا کردار ہے؟
اس بات کو سمجھنے کے لئے آپ مبدإِ تعین کو مادہ سمجھ لیں جو کہ مندرجہ بالا مثال میں لکڑی ہے اور ماہیت و حقیقت کو اس کی صورت کہیے یعنی مندرجہ بالا مثال میں کرسی کا ذہن میں نقشہ کرسی کی صورت ہے، کیونکہ لکڑی سے تو بہت کچھ بن سکتا تھا، اس لئے اس کو مادہ کہہ سکتے ہیں۔ لیکن اس کی ماہیت و حقیقت نے اس کو ایک خاص شکل کرسی کی دے دی، تو یہ اس کی صورت قرار پائی۔ اب جو آثار ظہور میں آرہے ہیں یعنی کرسی کی جو شکل بن رہی ہے، وہ اس ماہیت کے مطابق بن رہی ہے۔ یعنی کرسی کی جو شکل ذہن میں ہے، اس کے مطابق خارج میں کرسی کی شکل بن رہی ہے۔ مگر کرسی کے بننے کی بنیاد لکڑی پر ہے، کیونکہ ذہن سے باہر کی دنیا میں لکڑی کی وجہ سے کرسی وجود میں آرہی ہے، اس لئے ماہیت یا ذہن میں موجود اس کے نقشے کو ان آثار کا منشاء (purpose) سمجھا جائے یعنی ماہیت کو ظاہر میں کرسی بننے کا منشاء سمجھا جائے اور مبدإِ تعین کو ان آثار کے واقع ہونے کا مبدأ (source) سمجھا جائے۔
مندرجہ بالا مثال میں دیکھیں! کرسی کا نقشہ جو ذہن میں ہے، اس سے کرسی یوں ہی وجود میں نہیں آئی، بلکہ جب اس لکڑی پر اچھا خاصا کام ہوا، تو پھر کرسی وجود میں آئی۔ پس کسی چیز کی ماہیت اس چیز کے وجود میں آنے کا منشاء ضرور ہے، لیکن مبدإِ تعین کے بغیر خارج میں اس چیز کا وجود ممکن نہیں ہے اور مبدإِ تعین اس صورت میں لکڑی ہے۔ لکڑی کی بدولت کرسی نے اس ذہنی نقشے یعنی کرسی کی ماہیت کے مطابق کرسی کی شکل اختیار کی ہے۔ اگر کوئی شخص یہ کہے کہ وہی ذہن میں موجود نقشہ باہر آ کر کرسی کی شکل میں آ موجود ہوا، تو اس پر کوئی بھی شخص یقین نہیں کرے گا۔
اس تمام بحث سے نتیجہ یہ برآمد ہوتا ہے کہ چار چیزیں اس میں قابل غور ہیں:
1. حقیقت کی اپنی ذات۔ جیسے: کرسی کی ماہیت یا آج کل کی زبان میں کرسی کا نقشہ یا ڈیزائن۔
2. حقیقت اور ماہیت کا وہ حصہ جو نجار carpenter کو مبدإِ تعین سے بنتا ہوا محسوس ہونے لگا۔
3. وہ مادہ جس سے چیز تیار ہوئی۔ جیسے موجودہ مثال میں لکڑی۔
4. مبدإِ تعین کی وہ حیثیت، جس کی وجہ سے وہ حقیقتِ کرسی کے ایک خاص حصے اور فرد کے انتزاع کا منشاء بن گیا۔
اب ہم ان چاروں چیزوں کو چار اصطلاحات کے تعارف کے لئے استعمال کرتے ہیں:
1. ماہیت کو اسمائے کونیہ اور اعیانِ ثابتہ کہا گیا یعنی اللہ نے جن چیزوں کو پیدا کرنا چاہا، ان کی الگ الگ تفصیل، ان کے الگ الگ کونی نام اور ثبوت کے درجے میں ان کی الگ الگ حقیقت کو اسمائے کونیہ اور اعیانِ ثابتہ کہا گیا اور خارج میں ان کے وجود کو ظلال کہا گیا۔ اعیان عین کی جمع ہے یعنی بالکل اسی ظل کی ماہیت جو ثبوت کے درجے میں پہلے سے موجود تھی۔ اس طرح پہلے سے موجود ان کی تخصیص و امتیاز کو اسمائے کونیہ بھی کہا گیا ہے۔
2. حقیقت اور ماہیت کا جو حصہ خارج میں موجود ہوا، وہ ظل کہلایا، جس کی جمع ظلال ہے۔
3. مبدإِ تعین کو قیوم کہا گیا۔ موجودہ مثال میں قیوم لکڑی ہے۔
4. لکڑی کا وہ حصہ جو نجار کے عمل کے بعد اس خاص حصے کے انتزاع کا منشاء بن گیا، اس کو ’’ہویت‘‘ کہا گیا یعنی جس چیز سے ثبوت کے درجے میں اس ظل کی تخصیص اور اس درجے میں دوسری چیزوں سے اس کا امتیاز ہو۔